ہم ۔دوست
تحریر: ماہر جی
پہلی قسط
دوستو
یہ تو طے ہے کہ یہاں کسی کو بھی کبھی حسبِ آرزو نہیں ملا کرتا ۔۔۔ بہت ہی لکی ہو
گا وہ شخص جس کو اس کی پسند کی چیز ملی ہو ۔۔۔ اور مل بھی جاۓ
تو ۔۔ انسان کبھی بھی ۔۔ اس پر قانح نہیں ہوا۔۔۔ بلکہ ہل من مزید کے چکرمیں رہتا ہے۔۔۔
ویسے زیادہ تر تو بندے کو اس کی پسند کی چیز کم ہی ملی ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ سلیم کوثر
صاحب نے شاید اسی لیۓ
کہا ہے کہ میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئ اور ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آپ کو تھوڑا
بور کیا اس کے لیۓ
سوری۔۔ پر اس بات کا اس سٹوری سے تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے ۔۔۔ کیا ہے یہ آپ کو
سٹوری پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا اگر نہ چلا تو ایک دفعہ پھر سوری۔۔۔ یہ کالج کے
دنوں کی بات ہے میں حسب معمول گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گاؤں گیا ۔۔۔۔ اور اس دفعہ
کُھچ زیادہ ہی لیٹ ہو گیا ۔۔۔ وجہ ایک دو کیس تھے (کیس ہمارا کوڈ ورڈ تھا ۔۔۔ اس
کا مطلب ہے ۔۔۔۔ لڑکی ) جو حل نہیں ہو رہے تھے ۔۔۔ پھر ہماری ثابت قدمی سے آخر کار
دونوں کیس حل ہوۓ
اور تب ۔۔ لوٹ کے بدھو گھر کو آۓ
۔۔۔۔ میں صبح صبح گاؤں سے چلا تو رات گۓ
ہی واپس گھر پہنچا ۔۔۔ سخت تھکا ہوا تھا ۔۔۔ کھانا شانا کھا کر بستر پر لیٹا ہی
تھا کہ آنکھ لگ گئ اور پھر صبح ہی اُٹھا ۔۔۔۔ سویرے جو آنکھ میری کُھلی تو میں
بھاگ کر چھت پر گیا کہ ۔۔۔ زرا دیدار یار کر لوں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ پاس والے چھت کی
پوزیشن وہ نہ تھی جو ۔۔۔۔۔ میرے خیال میں ہونا چاہیۓ
تھی ۔۔ کپڑے دھو کر تار کی بجاۓ
دیواروں پر پڑے ہوۓ
تھے اور ان میں وہ ترتیب بھی نہ تھی جو میری سرکار کی ہوتی تھی ۔۔۔ اور دیدار یار
والی چھت پر باقی چیزوں کا ڈیزائین بھی کافی چینج تھا ۔۔۔ کچھ گڑ بڑ تھی۔۔۔ سو
حقیقت حال سے آگاہی کے لیۓ
میں نے اپنے دوست محلے دار اور کسی حد تک کلاس فیلو رفیق کے پاس جانے کا فیصلہ کر
لیا کسی حد تک کلاس فیلو سے مُراد یہ ہے کہ ہم تھے تو ایک ہی کلاس میں پر ۔۔۔۔۔
ہمارے سیکشن الگ الگ تھے ۔۔۔۔ ہاں تو میں سویرے سویرے( مطلب 10 بجے دن) جا فیکے کے
گھر دھمکا ۔۔ گھنٹی کے جواب میں وہ ہی آیا ۔۔۔ مجے دیکھ کر کھل اٹھا اور فوراً
جھپی لگا کر بولا ۔۔۔۔۔۔ اتنے زیادہ دن کیوں لگا دیۓ
تم نے ؟؟ تو میں نے اس کو بولا ۔۔بس یار ایک دو کیس حل نہیں ہو رہے تھے ۔۔۔ اس لیۓ
ٹائم لگ گیا تو وہ بولا ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ اچھا تو یہ بات ہے۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔ تو کیس
حل ہو گۓ؟؟
تو میں نے کہا ۔۔۔ ہاں یار کیس حل ہوۓ
تھے ۔۔۔ تو آیا ہوں ناں ۔۔۔۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور بولا ۔۔ہور سنا ؟ گاؤں
میں سب امن شانتی تھی۔۔؟ تو میں نے کہا ۔۔ گاؤں کی بنڈ مار یار مجھے محلے کی خیر
خبر دے ۔۔ کہ میرے بعد کیا کیا واقعات وقوع پزیر ہوۓ
۔۔۔ میری بات سُن کر اس کے چہرے پر ایک شیطانی مُسکُراہٹ نمودار ہوئ اور وہ بولا محلے
کی ماں کی کُس ۔۔ بہن چودا سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ قریشی صاحب لوگ ہیں کہ
نہیں ؟؟ پھر بولا مجھے پتہ ہے تم سب سے پہلے چھت پر اس ماں کی تلاش میں گۓ
ہو گے اور جب وہ بے بے وہاں نہیں ملی ۔۔۔ تو مجھ سے پوچھنے چلے آۓ
ہو۔۔۔ اس کی اتنی لمبی تقریر سُن کر میں زرا بھی بے مزہ نہ ہوا بلکہ اُلٹا دانت
نکال کر بولا ۔۔۔ چل یار یونہی سمجھ لو ۔۔۔ پر بتاؤ کہ قریشی لوگ گۓ
کہاں ہیں ؟؟ اب کی بار وہ کچھ سیریس ہو کر بولا یار تم کو تو پتہ ہی ہے کہ قریشی
صاحب ایک سرکاری ملازم تھے اور انہوں نے سرکاری کوارٹر کے لیۓ
اپلائ کیا ہوا تھا ۔۔۔ تو اُن کو سرکاری کوارٹر مل گیا ہے ۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ
کہاں ملا ہے ؟ تو دوست راوی اس کے بارے میں بلکل خاموش ہے ۔ وہ تو اپنا پتہ کسی کو
بھی نہیں بتا کر گۓ
ہیں ۔۔۔ کیونکہ کسی کو انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں لال کوارٹر ز جی-7 اسلام آباد میں
مکان ملا ہے اور کسی کو کہہ کر گۓ
ہیں کہ ان کو مکان جی نائین ٹو کراچی کمپنی (اسلام آباد) میں ملا ہے ۔۔۔ سالا سچی
بات کسی کوبھی نہیں بتا کر گیا ۔۔۔ پھروہ میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔ تو بیٹا اس
بات کا لُب لباب یہ ہے کہ تو مُٹھ مار ۔۔ کہ قریشی صاحب کی بیٹی تو اب جانے کس کے
نیچے پڑی ہو گی ۔۔۔ اس کی بات سن کر مجھے بڑا غصہ آیا اور بولا ۔۔ فکر نہ کر بیٹا
شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔۔۔ پھر میری نظر سامنے ملکوں کے گھر پر پڑی اور
وہاں رنگ برنگی لڑیا ں دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا اور پوچھنے لگا یار یہ ملک صاحب کے
ہاں لائیٹں کیوں لگی ہوئیں ہیں ؟؟؟ تو وہ بولا یار مودے کی شادی ہے اسی سلسلہ میں
یہ لائیٹنگ وغیرہ لگی ہوئ ہیں ۔۔۔۔ تو میں نے اچھا ہے یار مودا بھی پھدی کا منہ
دیکھ لے گا شریف آدمی آخر کب تک مُٹھ پر گزارا کرتا ۔۔۔۔۔ اسی اثناء میں ہمارے پاس
سے ایک پپو سا لڑکا اور ایک نیم پکی عمر کی خاتون گزری ۔۔۔ لڑکے نے شارٹ اور تنگ
سی نیکر پہنی ہوئ تھی ۔۔ اور اس نیکر میں اس کی موٹی اور گوری تھائیز بڑا دلکش
نظارہ پیش کر رہی تھیں ۔۔۔ اورخاص کر اس نیکر میں اس کی موٹی گانڈ پھنسی ہوئ بڑی
سیکسی لگ رہی تھی۔۔ بلکل لڑکیوں جیسی گانڈ تھی اُس کی۔۔۔۔۔۔ جبکہ خاتون نے ہلکے
پیلے رنگ کی سلیولیس ٹائیٹ فٹینگ قمیض پہنی ہوئ تھی اور نیچے کافی تنگ پاجامہ پہنا
ہوا تھا ۔۔ ۔۔۔ قمیض اتنی ٹائیٹ تھی کہ اس میں سے اس کا ایک ایک انگ صاف دکھائ دے
رہا تھا ۔۔۔۔۔ ہمارے پاس سے گزر کر جونہی ان کی پیٹھ ہماری طرف ہوئ تو میں نے ایک
ٹھنڈی سانس بھری اور فیکے سے بولا ۔۔۔ ۔۔۔۔ واہ یار کیا بنڈیں ہیں۔۔۔۔ عورت کی تو
جو ہے سو ہے پر یار سچ پوچھو تو عورت سے زیادہ لڑکے کی بنڈ بڑی ہی فٹ ہے ۔۔۔۔۔ اور
لڑکا دیکھ یار کتنا۔۔ چکنا ۔۔۔ کتنا پپو ہے ۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ تھوڑا ریش ہوا
اور بولا۔۔۔" بین یکا " (بہن چودا) ایک تو تیرا زہن بڑا ہی گندہ ہے۔۔۔۔۔
کسی کو تو بخش دیا کر گانڈو۔۔۔ ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے قدرے غصے سے کہا ۔۔۔۔۔
کیوں کیا یہ تیری ماں لگتی ہے جو اتنا تپا ہوا ہے ۔۔۔ تو وہ ایک دم سیریس ہو کر
بولا ۔۔۔ ماں تو نہیں ہاں یہ میری آنٹی ہیں اور جو لڑکا ان کے ساتھ جا رہا تھا یہ
ان کا بیٹا یاسر اورمیرا کزن ہے۔۔ پھر وہ گالی دے کر بولا اور یہ لوگ قریشی صاحب
والے ہی گھر میں آۓ
ہیں ۔۔۔۔ اب میں نے اس کو دیکھا اور بولا سوری یار ۔۔ مجھے نیہں پتہ تھا کہ یہ
تمھارے رشتے دار ہیں ۔۔۔۔ تو وہ برا سا منہ بنا کر بولا ۔۔۔ یار ہر ٹائم ایک ہی
موڈ میں نہ رہا کر بندہ " کوندہ" بھی دیکھ لیا کر ۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں
تھوڑی دیر اور اس کے پاس بیٹھا لیکن اس کا خراب موڈ دیکھ کر گھر آ گیا۔۔۔۔ کچھ دیر
گھر بیٹھا اور پھر دوستوں سے ملنے چلا گیا اس کے ساتھ ساتھ میں نے رفیق کے کے رشتے
دار اور اپنے نۓ
ہمسائیوں کے بارے میں معلُومات لینا شروع کر دیں تو پتہ چلا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس
فیملی کے کُل 3 ممبر تھے ایک خاتون جس کا اصل نام شاید ہی کسی کو پتہ تھا پر سب کو
یاسر کی امی کہتے تھے دوسرا یاسر جو اُس ٹائم آٹھویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا اس کی ایک
چھوٹی بہن بھی تھی جو غالباً تیسری یا چوتھی کلاس میں پڑھتی تھی یعنی کہ بہت چھوٹی
تھی یاسر کا ابا سعودی عرب میں ہوتا تھا گھر کی دیکھ بھال کرنے کے لیۓ
کہنے کو تو یاسر کا تایا۔۔ ۔۔ یا اس کی دادی ان کے ساتھ رہتی تھی لیکن حقیقت میں
وہ ان کے ساتھ کم ہی ہوتے تھے جبکہ دیکھ بھال کے لیۓ
فیکے کی فیملی تھی کہ یاسر کی امی فیکے کی سب سے چھوٹی خالہ تھی میرے خیال میں اس
کی عمر 34/35 سال ہو گی ۔۔۔ وہ بڑی فرینڈلی اور پُر کشش خاتون تھی اس کی آنکھوں
میں ہر ٹائم ایک مستی سی چھائ رہتی تھی ۔۔۔ وہ کافی سمارٹ پر گانڈ غصب کی تھی ۔۔
ممے البتہ نارمل تھی نہ موٹے نا پتلے مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ اس کے ممے گول اور
سخت پتھر تھے چونکہ وہ بہت فرینڈلی اور خوش مزاج تھی ۔۔۔ سو تھوڑے ہر عرصے میں وہ
محلے کی عورتوں میں کافی پاپولر ہو گئ تھی ۔۔۔ محلے کی تقریباً ساری ہی لیڈیز اپنے
گھریلو کام کاج سے فارغ ہو کر اس کے گھر میں آ کر منڈلی سجاتی تھیں ۔۔۔۔۔ یہ
معلُومات حاصل کرنے کے بعد میں سیدھا رفیق عُرف فیکے کے گھر گیا اور بیل دی ۔۔۔۔
جواب میں اس کی بڑی سسٹر رباب عُرف روبی نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر بولی
۔۔۔۔۔ لاٹ صاحب کی آمد کب ہوئ ۔۔؟ تو میں نے کہا ۔۔ جی میں رات کو ہی آ گیا تھا
۔۔۔ پھر روبی سے پوچھا کی رفیق گھر پر ہے تو وہ بولی ہاں اپنے کمرے میں پڑھ رہا ہے
یہ کہہ کر وہ سامنے سے ہٹ گئ اور مجھے اندر جانے کا راستہ دیا ۔۔۔ ۔۔ اس لیۓ
کہ ہمارا ایک دوسرے کے گھروں میں بلا روک ٹوک آنا جانا تھا سو میں اُس کے پاس سے
گزر کر سیدھا رفیق کے کمرے میں چلا گیا اور یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ وہ واقعہ
ہی پڑھ رہا تھا اسے پڑھتے دیکھ کر میں نے کہا بڑی گل اے یار تو بھی پڑھ رہا ہے تو
وہ بولا ۔۔۔ یار چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں سوچا تھوڑا سا پڑھ ہی لوں پھر مجھ سے
بولا تُو سنا اپنی منحوس شکل کیوں لاۓ
ہو۔۔ تو میں نے کہا یار صبح والی بات پر دوبارہ معزرت کرنے آیا ہوں ۔۔۔ تو وہ بولا
یار دوستوں میں کیسی ناراضگی۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔ پر یار بات کرتے وقت تھوڑا سوچ بھی
لیا کر ۔۔۔ یہ چھٹیاں ختم ہونے سے کچھ دن پہلے کی بات ہے ۔۔۔ میں صبح سے ہی کافی
تنگ تھا اور ۔۔۔ قریشی صاحب کی بیٹی مائرہ کی یاد بڑی شدت سے آ رہی تھی ۔۔۔۔ کیا
سیکسی خاتون تھی یار ۔۔۔۔ دوپہر کا وقت تھا ۔۔ سورج حسب معمول سوا نیزے پر تھا ۔۔۔
سخت گرمی پڑ رہی تھی اور مجھے اس گرمی سے بھی زیادہ گرمی آئ ہوئ تھی ۔۔۔ حلانکہ
میں ایک دفعہ مُٹھ بھی مار چکا تھا پر ۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں ہوشیاری کم ہونے کی بجاۓ
پہلے سے کچھ زیادہ ہی بڑھ گئ تھی ۔۔۔۔ پھر میں اسی عالم میں اپنے رُوم سے نکلا اور
اپنے چھت پر چلا گیا ۔۔۔ ہر طرف لُو چل رہی تھی ۔۔۔ اور سُنسَانی کا راج تھا
۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اِدھر اُدھر جھانک کر دیکھا تو سارے محلے کی چھتیں خالی تھیں ۔۔۔
سخت دھوپ کی وجہ سے سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں دبکے ہوۓ
تھے ۔۔۔ اتنی گرمی اور ہیٹ تھی کہ میں نے بھی واپس جانے کا ارادہ کر لیا ۔۔۔۔۔ اور
کچھ دیر کے بعد میں واپس جانے لگا ۔۔۔ جاتے جاتے یاد آیا کہ ہم نے آج ہی پانی کی
موٹر ٹھیک کروائ تھی کہ وہ پانی نہیں چڑھا رہی تھی اور جب میں اوپر آیا تونیچے وہ
موٹر چل رہی تھی ۔۔۔ سوچا زرا دیکھ ہی لُوں کہ موٹر پانی ٹھیک سے چڑھا رہی ہے کہ
نہیں ۔۔۔ یہ سوچ کر میں پانی والی ٹینکی پر چڑھ گیا اور ڈھکن کھول کر ٹینکی کے
اندر جھانکا تو دیکھا کہ پانی ٹھیک سے آ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مطمئین ہو کر
اُٹھا ۔۔ اور ۔۔ جیسے ہی واپس جانے لگا تو اچانک میری نظر قریشی صاحب (اب یاسر )
والی چھت پر پڑی ۔۔۔۔۔۔ جہاں ایک کونے میں دو جسم آپس میں گُتھم گھتا ہو رہے تھے
یہ دیکھ کر میں ایک دم ٹھٹھک سا گیا اور پھر دھیان لگا کر دیکھنے لگا کہ ۔۔۔ یہ
کون لوگ ہیں۔۔۔ غور سے دیکھنے پر بھی میں ان کو تھوڑا سا پہچان تو گیا لیکن ۔۔
چونکہ دونوں آپس میں بری طرح جُڑے ہوۓ
تھے اس لیۓ
کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون کون ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ اُن کو دیکھا تو مجھے یاد آ
گیا کہ یہ ٹھیک وہی جگہ تھی جہاں میں قرشی صاحب کی بیٹی مائرہ کے ساتھ سیکس کیا
کرتا تھا ۔۔۔ بس فرق یہ تھا کہ ہم لوگ دیوار کے اینڈ پر ممٹی کے چھپر کے نیچے سیکس
کیا کرتے تھے کہ وہاں سے کسی کو بھی دکھائ دیۓ
جانے کا کوئ احتمال نہ تھا جبکہ یہ لوگ اس چیز کا خیال نہیں رکھ رہے تھے ۔۔۔ اب
میں بڑی احتیاط سے نیچے اُترا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس طرف گیا جہاں یہ واردات
ہو رہی تھی ۔۔۔۔ چونکے یہ کوٹھا میرا بڑی اچھی طرح سے دیکھا بھالا تھا اس لیۓ
میں پنجوں کے بل چلتے چلتے عین اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے خود کو محفُوظ رکھ کر میں
یہ نظارہ اچھی طرح سے دیکھ سکتا تھا ۔۔۔اور پھر میں اس جگہ پہنچ کر نیچے بیٹھ
گیا۔۔۔۔ جیسے ہی میں نیچے بیٹھا میں نے کسی کی مست کراہ سُنی اور مجھے یقین ہو گیا
کہ میں بلکُل ٹھیک جگہ پر پہنچ گیا ہوں۔۔ پھر میں نے آہستہ آہستہ اپنے سر کو اوپر
اُٹھانا شروع کر دیا ۔۔۔ اور پھر دیوار کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو اندر کا
ماحول میرے اندازے سے بھی زیادہ گرم تھا ۔۔ پر جس چیز نے مجھے تھوڑا سا حیران کیا
۔۔۔ وہ یہ تھی کہ وہ دونوں جسم اور کوئ نہیں رفیق اور یاسر کے تھے ۔۔ مجھے یاد آیا
کہ جب میں نے یاسر کی گانڈ کے بارے ریمارکس پاس کیے تھے تو رفیق نے بڑا بُرا منایا
تھا لیکن اب میں دیکھ رہا تھا کہ یاسر اسی گانڈ کو چاٹ رہا تھا صورتِ حال کچھ یوں
تھی کہ ۔۔ یاسر رکوع کے بل جھکا ہوا تھا اور اس کے دونوں ہاتھ اس کے گھٹنون پر تھے
اور اس کی ٹانگیں کافی کھلی ہوئیں تھیں۔۔۔ جبکہ رفیق اس کے عین پیچھے اکڑوں بیٹھا
اس کی گانڈ چاٹ رہا تھا اور گانڈ چاٹنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ہاتھ سے اپنے لن کو
بھی آگے پیچھے کر رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اور یاسر ۔۔۔۔۔ یاسر اپنے گانڈ پر رفیق کی
زبان فیل کر کے مزے کے مارے ہلکہ ہلکہ کراہ رہا تھا ۔۔۔۔ دونوں بڑے ہی مگن ہو کر
لگے ہوۓ
تھے۔۔۔۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر رفیق یاسر کے بارے میں دیۓ
گۓ
ریمارکس کا بُرا۔۔۔ نا مناتا تو یہ سیکس سین دیکھ کر انجواۓ
کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔ پر نہیں ۔۔۔۔ میرا خیال ہے میں آپ سے جھوٹ بول رہا ہوں کیونکہ میں
ایسا ہر گز نہ کر پاتا کہ میرے سامنے رکوع کے بل جھکے یاسر کی گانڈ تھی جو اتنی
مست اور دلکش تھی کہ میرے لن نے بھی اس کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ پہنے تو
میں نے لن کی فریاد پر کوئ دھیان نہ دیا اور اس کو ٹالتا رہا اور پھر جب اس کے
مطالبے نے کچھ زور پکڑنا شروع کیا تو ہیں نے ہمیشہ کی طرح اس کے مطالبے پر سر
تسلیمِ خم کر دیا ۔۔ چونکہ ان کا گھر میرا اچھی طرح سے دیکھا بھالا تھا اس لیۓ
مجھے معلُوم تھا کہ کیسے میں نے ان کی نظروں میں آۓ
بغیر ان تک پہنچنا ہے ۔۔۔۔ سو میں وہاں سے اپنے گھر کی چھت کے کونے پر گیا وہ اس
لیۓ
کہ جس جگہ پر وہ اپنا کام کر رہے تھے ۔۔۔۔ اب وہ جگہ ان کی ممٹی کے پیچھے ہونے کی
وجہ سے چھپ سی گئ تھی ۔۔ میں نے اپنے جوتے اپنی چھت پر اُتارے اور پھر چاردیواری
پر اپنے دونں ہاتھ ٹکا دیۓ
اور پھر بڑے آرام سے ان کی چھت پر کُود گیا ۔۔ اور پھر دبے پاؤں ان کی طرف جانے
لگا ۔۔۔۔ اور کچھ ہی دیر بعد میں ان کے سر پر تھا ۔۔۔۔۔ اب میں نے دیکھا تو وہاں
کا منظر تبدیل ہو چکا تھا ۔۔۔ اب کی بار رفیق سیدھا کھڑا تھا اور یاسر اکڑوں بیٹھا
تھا اور اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس کے منہ میں رفیق کا لن تھا ادھر رفیق کی
آنکھیں بھی مزے کے مارے بند تھیں اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں یاسر کے سر کے
بال پکڑے ہوۓ
تھے اور وہ یاسر کا چُوپا انجواۓ
کر رہا تھا۔۔۔۔۔ میں کچھ دیر تک کھڑا یہ منظر دیکھتا رہا پھر مجھ سے رہا نا گیا
اور میں بول پڑا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ واہ۔۔!!!!! کیا چوپا لگاتے ہو یاسر تم ۔۔۔۔۔ میری بات
سن کر دونوں ایک دم اُچھلے اور ایسے اُچھلے کہ جیسے ان کوچار سو چالیس وولٹ کا
کرنٹ لگا ہو۔۔۔ مجھے دیکھ کر دونوں کا رنگ فق ہو گیا تھا ۔۔ اور رفیق تو ایسے ہو
گیا کہ جیسے کاٹو تو لہو نہیں ۔۔ ۔۔ دونوں کچھ دیر تک سخت صدمے میں رہے ۔۔۔۔ پھر
رفیق نے میری طرف دیکھا اور پھیکی سے مُسکراہٹ سے بولا ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ اچھا ۔اچھا۔۔۔
تم کب آۓ
یار ۔۔۔؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔ تو میں نے تُرنت جواب دیا جب تم یاسر کی گانڈ چاٹ رہے تھے
۔۔۔۔ میں تب آیا ۔۔۔ وہ پھر خواہ مخواہ ہنسا اور بولا ۔۔۔ اچھا ؟ یار تم کو تو پتہ
ہی ہے ہم ۔۔۔۔ یو نو ۔۔۔ ؟ پھر تھوڑا جُھنجھلا کر بولا ۔۔۔ لن تے چڑھ ۔۔۔ بہن یکا
۔۔ تم نے بھی اسی ٹائم آنا تھا ۔۔۔۔ ہمیں کچھ کر تو لینے دیتے !!!!! ۔۔ تو میں نے
کہا ۔۔۔ کرو نا میں نے کب منع کیا ہے تو وہ ۔۔۔ اپنے لن کی طرف اشارہ کیا جو اس
وقت بلکل مُرجھا گیا تھا اور بولا ۔۔۔ کروں لن بہن چودا ۔۔۔ تیرے چھاپے نے تو اس
کا ستیا ناس کر دیا ہے ۔۔۔ اس طرح کی باتیں کرنے سے اب اس کا اعتماد کافی حد تک
بحال ہو گیا تھا اور پھر وہ مجھ سے بولا یار سائیڈ پر ہو کر میری ایک بات سُن لو
۔۔۔۔۔ میں اس کے ساتھ چل پڑا اور جاتے جاتے مُڑ کر دیکھا تو یاسر ابھی تک نظریں
نیچی کیۓ
اکڑوں بیٹھا کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ رفیق نے میرا ہاتھ پکڑا اور
تھوڑی دور لے جا کر بولا ۔۔۔ یار تم نے تو لڑکے کو ڈرا ہی دیا ہے۔۔۔ پھر طرف دیکھ
کر بولا ۔۔۔۔ میرا خیال ہے تم اس کی لینے کے چکر میں ہو۔۔ اور جب میں نے تھوڑی
ہیچر میچر کی تو وہ بولا ۔۔۔۔ بکواس نہ کر ۔۔۔بیٹا میں تم کو بچپن سے جانتا ہوں (
بچپن سے جاننے کا تو اس نے محاورہ بولا تھا تاہم حقیقت ہی تھی کہ وہ ہمارے محے میں
گزشتہ 2،3 سال سے رہ رہے تھے اور یو نو ۔۔!! ہمارے جیسے محلوں میں صرف ایک دو
ہفتوں میں ہی گہرے دوستانے ہو جاتے ہیں یہ تو پھر 2،3 سال کی بات تھی ) اگر تم نے
کاروائ نہ ڈالنا ہوتی تو تم کھبی بھی ادھر کا رُخ نہیں کرتے ۔۔ پھر وہ ایک دم
سیریس ہو گیا اور بولا ۔۔۔ یار سچی بات یہ ہے کہ میں اور میرا کزن کوئ پروفیشنل
نہیں ہیں ۔۔۔ جسٹ آپس میں شغل میلہ لگا لیتے ہیں ۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کربولا تم
بات سمجھ رہے ہو نا میری۔۔ ؟؟ پھر کہنے لگا ۔۔۔ اب بتاؤ تم کیا کہتے ہو؟ تو میں نے
کہا کہنا کیا ہے یار جو میں نے کہنا ہے تم اچھی طرح جانتے ہو ۔۔ تو وہ بولا تُو
پکا حرامی ہے ۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔۔ اوکے ۔۔۔ تھوڑا ویٹ کر میں دیکھتا ہوں ۔۔۔
اور مجھے ساتھ لے کر یاسر کے پاس آ گیا ۔۔ یاسر اب کچھ کچھ سنبھل چکا تھا ۔۔ اور
اپنی نیکر اوپر کے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہمارے مزاکرات کا جائزہ لے رہا
تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی ہم اس کے پاس پہنچے رفیق یاسر کی طرف انگلی کا اشارہ
کر کے بولا ۔۔ ایک منٹ یار۔۔۔ ۔۔ !!! پھر وہ یاسر کو لے کر ٹھیک اسی جگہ بات چیت
کرنے لگا جہاں کچھ دیر قبل ہم دونوں کھڑے تھے ۔۔۔ کچھ دیر تک وہ دونوں آپس میں
باتیں کرتے رہے پھر دونوں واپس آگۓ
۔۔ آتے ساتھ ہی یاسر تو بنا کوئ بات کۓ
نیچے اُتر گیا اور رفیق میرے پاس آ کر بولا ۔۔ چل یار ۔!! تو میں نے اس سے پوچھا
سالے میرے کام کا کیا ہوا تو وہ کہنے لگا کام کے سلسلے میں ہی نیچے جا رہے ہیں تو
میں نے کہا نیچے کیوں ۔۔۔ یہاں کیوں نہیں ؟؟؟؟؟ تو وہ تھوڑا تلخ ہو کر بولا ۔۔۔۔
کیا خیال ہے ہم جُڑے ہوں اور تمھاری طرح کوئ اور آ گیا تو۔۔۔ ۔۔۔ ؟؟ ۔۔ بہتر یہی
ہے کہ نیچھے چلا جاۓ
تو میں نے پوچھا کہ وہ یاسر کی امی ۔۔۔۔؟ تو وہ بولا یار گھر میں اور کوئ نہیں ہے
اور پھر میرے ساتھ نیچے اترنے لگا ۔۔ ایک دو سیڑھیاں اُترنے کے بعد وہ دفعتاً رُکا
اور بولا ۔۔۔ دیکھو بچہ بڑا ڈرا ہوا ہے ۔۔۔ ہمیں سب سے پہلے اس کا احتماد بحال
کرنا ہو گا ۔۔۔ تو میں نے رفیق سے کہا کہ یار رفیق تم مجھے اس لڑکے کے ساتھ بس دس
پندرہ منٹ تنہائ کے دے دو ۔۔۔۔ باقی کام میں خود کر لوں گا ۔۔ رفیق ۔۔ سیڑھیاں
اُترتے اُترتے ایک دم رُک گیا اور حیرانی سے مجھے دیکھ کر بولا ۔۔۔۔۔ آر یو
شوور۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے کہا ۔۔ یار جو میں کہہ رہا ہوں وہ کرو رزلٹ تم خود دیکھ
لو گے تو وہ کہنے لگا ٹھیک ہے شہزادے ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ہم نیچے سیڑھیاں اترنے لگے
۔۔۔ اور چلتے چلتے ڈرائینگ روم میں پہنچ گۓ
۔۔۔ یاسر وہاں پہلے سے ہی موجود تھا اور گو کہ اب کچھ سنبھل چکا تھا پر ۔۔۔
پریشانی کے آثار اب بھی اس کے چہرے پر دیکھے جا سکتے تھے۔۔۔ رُوم میں جا کر میں
اور رفیق ڈبل سیٹر صوفے پر بیٹھ گۓ
جبکہ یاسر پہلے ہی تھری سیٹر پر سنجیدہ سا منہ بناۓ
بیٹھا تھا۔۔ ہمارے بیٹھنے کے کچھ دیر بعد رُوم میں سناٹا سا چھا گیا پھر رفیق نے
مجھے آنکھ مارکر کہا سُنا یار آج کل تیری معشوقہ کیسی جا رہی ہے تو میں بھی بات
سمجھ کر بولا بڑی مست ہے یار ۔۔۔ ایک لن سے تو اس کو گزرا ہی نہیں ہوتا ۔۔۔ حسبِ
توقع یاسر نے سر اٹھا کر بڑی دلچسپی سے مجھے دیکھا پر بولا کچھ نہیں ۔۔۔ کچھ دیر
تک ہم دونوں اسی فرضی محبوبہ کے بارے میں گفت گو کرتے رہے ۔۔۔ پھر میں نے رفیق سے
کہا کہ یار پانی مل سکتا ہے ؟ تو رفیق کے جواب دینے سے پہلے ہی یاسر بول اٹھا ۔۔۔
میں ابھی پانی لاتا ہوں ۔۔ یہ سن کر رفیق بولا یار پانی نہیں میں کولڈ ڈرنک لاتا
ہوں پھر مجھ سے پوچھنے لگا شاہ تم کون سی بوتل پیئو گے۔۔؟ تو میں نے کہا یار میں
کولا شولا نہیں پیتا ۔۔۔۔ کوئ جوس ہو تو لے آنا جبکہ یاسر نے اپنے لیۓ
کوک لانے کو کہا ۔۔۔۔ جیسے ہی رفیق کمرے سے نکلا میں نے یاسر سے پوچھا ۔۔۔ سُنا
یار تمھاری کوئ معشوق ہے؟ تو وہ نفی میں سر ہلا کر بولا معشوق تو نہیں ہاں منگیتر
ہے ۔۔۔ تو میں نے قدرے حیران ہو کر پوچھا ۔۔۔ ابھی سے منگیتر ؟ تو وہ بولا بس یار
۔۔۔ ماں باپ کی مرضی سے ہوئ ہے تو میں نے پوچھا کیسی ہے تمھاری منگیتر تو وہ بولا
اچھی ہے تو میں نے معنی خیز انداز میں آنکھ مرتے ہوے پوچھا نری اچھی ہی ہے یا کچھ
کیا بھی ہے ؟ تو وہ بولا نہیں جی وہ کرنے نہیں دیتی ۔۔۔ ہاں کسنگ بڑی کی ہے ۔۔ تو
ؐمیں نے کہا کسنگ سے کام چل جاتا ہے تو کہنے لگا نہیں ۔۔۔ پر کیا کروں وہ اس سے
آگے جانے ہی نہیں دیتی ۔۔۔ اب وہ بلکل نارمل ہو گیا تھا او ر بڑے مزے سے میرے ساتھ
خاص کر سیکس ریلیٹڈ باتیں کر رہا تھا۔۔۔ جب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ اب بچے کا ڈر
اور جھاکا ختم ہو گیا ہے تو میں نے اپنے مطلب والی بات کی طرف آنا شروع کر دیا ۔۔۔
اب میں نے اس کو غور دیکھنا شروع کر دیا واقعی یاسر بڑا خوبصورت اور پیارا تھا اس
کے گال بلکل کشمیری سیب کی طرح ہلکے لال تھے اور ہونٹ پتلے پتلے اور گلابی مائل
تھے آنکھیں کالی اور بڑی تھیں جسم بھرا بھرا اور نرم لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ مجھے یوں
اپنا پوسٹ مارٹم کرتے دیکھ کر وہ تھوڑا سا نروِس ہو گیا اور پھر شرما کر ادھر ادھر
دیکھنے لگا ۔۔ پر جب میں اسے دیکھتا ہی رہا تو وہ میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔ یہ آپ
مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ تو میں نے اپنے لہجے میں جہاں بھر کی حیرت بھرتے ہوۓ
کہا ۔۔۔۔۔ یار تم لپ سٹک لگاتے ہو ؟ تو وہ ہنس پڑا اور بولا آپ ہی نہیں اور بھی
کافی لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ میں اپنے ہونٹوں پر سُرخی لگاتا ہوں ۔۔۔ تو میں نے
اپنی آنکھوں کومزید حیرت سے پھیلاتے ہوۓ
کہا نہیں دوست ۔۔۔ تم جھوٹ بول رہے ہو تم ۔۔۔ یقینناً لپ سٹک یوز کرتے ہو ۔۔۔ میں
نہیں مانتا ہونٹوں کا اتنا پیارا رنگ تو صرف سُرخی سے ہی آ سکتا ہے ۔۔ یہ کہا اور
اس کو چیک کرنے کے بہانے اس کے پاس چلا گیا اور نزدیک سے اس کے ہونٹوں کا معائینہ
کرنے لگا ۔۔۔ اب اس نے میری طرف دیکھا اور بولا مجھے پتہ ہے آپ یہ سب کیوں کر رہے
ہیں ؟؟ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ بتا سکتے ہو کہ میں کیا کرنے والا ہوں ۔۔۔ تو وہ
صوفے پر کھسک کر تھوڑا آگے آ گیا اور بولا ۔۔۔۔ آپ بہانے سے مجھے کِس کرنا چاہتے
ہیں ۔۔ اب نروِس ہونے کی میری باری تھی سو میں نے کہا ۔۔۔۔وہ میں۔۔۔اصل میں ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ اتنی دیر میں اس نے اپنا منہ مزید اگے کر دیا اور ہونٹ میرے پاس لا کر بولا
۔۔۔۔۔ کِس کرو نا مجھے ۔۔۔۔۔۔۔ اب مزید سوچنے کی کوئ ضرورت نہ تھی سو میں نے بھی
اپنا منہ آگے کیا اور اس کے کے نرم ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور انہیں اپنے
منہ میں لے کر چوسنے لگا ۔۔۔ ہوں ۔۔۔ اُس کے ہونٹ بڑے سوفٹ اور زائقہ مست تھا
۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے خود ہی اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی اور ۔۔۔۔۔۔ اسے سارے منہ
میں گھومانے لگا ۔۔۔۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ کِسنگ میں کافی ایکسپرٹ ہے پھر اس نے
میری زبان کو اپنے ہونٹوں میں دبا لیا اور میری زبان کا رس پینے لگا ۔۔۔۔۔ اِدھر
وہ میری زبان کو چوس رہا تھا اُدھر میرا لن پینٹ میں سخت اکڑا ہوا تھا اور باہر
نکلنے کو بے چین ہو رہا تھا ۔۔۔۔چنانہ میں نے کِسنگ کرتے کرتے اس کا ہاتھ اپنے
ہاتھ میں پکڑا اور اسے اپنے لن پر رکھ دیا ۔۔۔۔ اس نے بڑے آرام سے لن کو اپنی گرفت
میں لیا اور اسے دبانے لگا ۔۔۔۔۔
ابھی ہماری کِسنگ جاری تھی کہ رفیق ہاتھ میں ٹرے
پکڑے رُوم میں داخل ہوا اور ہمارے منہ آپس میں جُڑے دیکھ کر بولا ۔۔۔ بلے بلے
۔۔۔لگتا ہے کام سٹارٹ ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ پر ہم نے اس کی بات نہ سُنی اور لِپ کِسنگ
جاری رکھی پھر اس نے پاس پڑی تپائ پر ٹرے رکھی اور ہمارے پاس آکر بولا۔۔۔ او بھائ
لوگو ۔۔۔ اپنے پروگرام میں تھوڑا سا وقفہ کر لو اور کولڈ ڈرنک پی لو ۔۔۔ ورنہ گرم
ہو جاۓ
گی ۔۔۔ اس کی بات سُن کر اپنے اپنے منہ جُدا کیے اور پھر میں نے رفیق کو مخاطب کر
کے کہا ۔۔۔ یار اتنا مزہ آ رہا تھا تم تھوڑی دیر بعد نہیں آ سکتے تھے؟ تو وہ کہنے
لگا ۔۔۔۔ یار تھوڑی دیر بعد بھی تم نے یہی کہنا تھا ۔۔۔ پہلے پانی پی لو پھر جو
مرضی ہے کرتے ہرنا اور اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے مینگو جوس کا ٹن اور کوک یاسر کو
پکڑا دی ۔۔۔ اور خود بھی بوتل پینے لگا ۔۔۔۔۔۔ کولڈ ڈرنک پینے کے بعد ہم نے اپنا
اپنا سامان تپائ پر رکھا اور دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ منہ جوڑ لیا ۔۔۔ جبکہ رفیق
سامنے بیٹھ کر ہمیں دیکھنے لگا ۔۔۔۔ ابھی ہم نے تھوڑی ہی دیر کِسنگ کی تھی کہ میں
نے یاسر کے ہاتھ میں اپنا لن پکڑا دیا ۔۔۔۔۔ تو وہ بولا نہیں یار ایسے لن پکڑنے کا
مزہ نہیں تم اپنے لن کو باہر نکالو ۔۔۔۔ اور پھر اس نے خود ہی میری پینٹ کی زپ
کھولی اور لن کو باہر نکال لیا ۔۔۔۔ جیسے ہی اس نے پینٹ کی زپ کھولی ۔۔۔۔ لن
جھومتا ہوا پینٹ سے باہر آگیا ۔۔۔۔ اس کا سائیز لمبائ اور موٹائ دیکھ کر یاسر کی
آنکھوں میں ستائش کے جزبات ابھر آۓ
۔۔ اور اس نے بے اختیار لن پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیۓ
اور بولا ۔۔۔ واہ ۔۔۔۔ شاہ جی ۔۔ ۔۔۔ بڑا پلا ہوا لن ہے آپ کا ۔۔۔ اس کو کیا
کھلاتے ہو ۔۔۔ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ کچھ بھی نہیں یار عام سا لن ہے میرا تو وہ
رفیق کی طرف منہ کر کے بولا ۔۔۔ سُنو تو یہ شاہ کیا کہہ رہا ہے یہ اپنے کنگ سائز
لن کو عام سا لن کہہ رہا ہے اتنی دیر میں رفیق بھی ہمارے پاس آ گیا تھا اس نے لن
کو دیکھا تو بڑے پُراسرار لہجے میں بولا ۔۔۔۔ شاہ ۔۔۔ تم نے کھبی بتایا ہی نہیں کہ
تمہارا اتنا بڑا لن ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ اس نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا
۔۔۔۔۔ رفیق نے جب میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا تو مجھے کوئ خاص حیرت نہیں ہوئ ۔۔۔
کیونکہ وہ پہلے ہی مجھے بتا چکا تھا کہ وہ اور یاسر ایک دوسرے کے ساتھ ادلہ بدلی
کرتے تھے مطلب دونوں ایک دوسرے کی گانڈ مارتے بھی تھے اور ایک دسرے سے مرواتے بھی
تھے ۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ میری رفیق کے ساتھ 2،3 سال سے دوستی تھی پر میں ابھی تک
اس کے اس کردار سے واقف نہ تھا اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ کوئ عام گانڈو یا منڈے
باز نہ تھا بس اپنے کزن کے ساتھ کبھی کبھی مُوج مستی کر لیتا تھا ۔۔ ہاں تو جب
رفیق نے حیرت کے مارے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا تو میں نے اسے کہا ۔۔۔۔ کیسا لگا
۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ بولا ۔۔۔بڑا شاندار ہے تمھارا لن تو میں نے کہا ۔۔۔۔ اگر اتنا ہی
اچھا لگا ہے تو اس پر ایک کِس تو کرو نا۔۔۔۔ لن پہلے ہی اس کے ہاتھ میں پکڑا تھا
سو اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر ۔۔۔۔۔ وہ میرے لن پر جھک گیا اور ۔۔ ٹوپے
کو منہ میں لے لیا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ٹوپے پر زبان پھیرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں
نے محسوس کیا کہ رفیق ٖصرف میرا ٹوپا ہی چوس رہا ہے اور بس اُسی پر زبان پھیر ے جا
رہا ہے تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ یار سارا لن منہ میں ڈال نا۔۔۔۔ یہ سُن کر اس نے
ایک دفعہ پھر میری طرف دیکھا اور ٹوپا منہ سے نکال کر بولا ۔۔۔۔ سوری یار مجھے لن
کا صرف ٹوپا اچھا لگتا ہے اور بس اسی کو چامتا چاٹتا ہوں سارا لن منہ میں ڈالنے کے
لیۓ
یاسر ہے نا ۔۔۔ پھر اس نے یاسر کو اشارہ کیا اور خود وہاں سے ہٹ گیا اور ۔۔۔۔ اب
یاسر نے مجھے صوفے پر بٹھا کر سیدھا کیا اور خود نیچے قالین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ
گیا اور میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور کچھ دیر تک اسے آگے پیچھے کرتا رہا
پھر وہ لن پر جھکا اور اپنی زبان سے ٹوپے پر مساج کرنے لگا ۔۔۔ اُف ف ف۔۔ پھر اس
نے اپنی زبان کو ٹوپے کے چاروں طرف گول گول گھمایا اور پھر آہستہ آہستہ لن کو اپنے
ہونٹوں میں لینا شروع کر دیا ۔۔۔ اور پھر وہ لن کو آہستہ آہستہ اپنے گیلے منہ میں
ڈالتا گیا ۔۔۔ اور پھر وہ کافی سارا لن اپنے منہ میں لے گیا ۔۔۔ پھر اس نے منہ کے
اندر ہی اندر لن پر زبان پھیرنی شروع کر دی ہے ۔۔۔۔ آہ۔۔۔ہ۔ہ۔ہ ۔۔۔ اس کے چوپے نے
تو میری جان ہی نکال دی تھی ۔۔۔۔ کِسنگ کی طرح یاسر لن چوسنے میں بھی کافی ماہر لگ
رہا تھا ۔۔۔۔۔ کافی دیر تک وہ میرا لن چوستا رہا پھر وہ میرے بالز پر آیا اور اب
اس نے میرے بالز پر اپنی زبان پھیرنی شروع کر دی اور چاٹ چاٹ کر میرے سارے ٹٹے
گیلے کر دیے ۔۔۔۔ اس کے بعد ایک بار پھر وہ اپنی زبان کو لن تک لے آیا ۔۔۔اور ٹوپے
کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔ اب مجھے بھی کچھ جوش چڑھ گیا تھا چنانچہ میں اس کی کمر پر
ہاتھ پھیرنے لگا یہ دیکھ کر وہ تھوڑا سا اوپر کو اٹھا ٹیڑھا ہو گیا اور اپنی کمر
میری طرف کر دی اور اب میرا ہاتھ اس کی گانڈ تک پہنچ رہا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اب میں نے
اپنا ہاتھ اس کی الاسٹک والی نیکر میں ڈالا اور اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنے لگا
۔۔۔اس کی گانڈ نرم اور چوتڑ کافی موٹے تھے۔۔ ۔۔۔۔ اب میں اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیر
رہا تھا اور وہ میرا لن چوس رہا تھا ۔۔۔ پھر میں نے اپنی انگلی اس کی گانڈ کے
سوراخ پر رکھی اور اس پر انگلی کے پور سے ہلکہ ہلکہ مساج کرنے لگا میرے اس مساج سے
شاید اسے بڑا مزہ آیا فوراً لن منہ سے نکال کر بولا ۔۔۔۔ انگلی اندر ڈال کر چیک
کرو نا۔۔ اور پھر اس نے خود ہی اپنی موری پر تھوک لگایا اور مین نے اپنی درمانی
انگلی اس کی گانڈ کے سوراخ میں ڈال دی ۔۔۔۔۔ اور ہولے ہولے اندر باہر کرنے لگا اور
پھر بعد میں درمیانی انگلی اس کی موری کے آس پاس گھمانے لگا ۔۔۔۔ جب میری انگلی کو
اس کی موری پر گھومتے ہوۓ
کافی دیر ہو گئ تو اس نے اپنے منہ سے میرا لن نکالا اور بولا ۔۔۔ اتنا بہت ہے یا
اور لن چوسوں ؟ تو میں نے کہا یہت ہے یار ۔۔۔۔۔۔ اب آؤ کہ لن تمھارے اندر ڈالوں
۔۔۔۔ تو وہ بولا۔۔ اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور صوفے سے اُٹھ گیا اور فوراً اپنی نیکر اُتار
دی میں نے بھی جلدی سے اپنی پینٹ اُتاری اور اُسے صوفے پر گھوڑی بننے کو کہا ۔۔۔
میری بات سُن کر وہ بجاۓ
صوفے پر گھوڑی بننے کے اس نے اپنے دونوں ہاتھ صوفے کے ایک بازو پر رکھے اور خود
گھٹنوں کے بل ہو گیا اور اپنی گانڈ اوپر کر دی اب میں اس کے پیچھے گیا اور اور اس
کی ننگی گانڈ کا نظارہ کرنے لگا ۔۔۔۔ اب یاسر کی گول گول اور موٹی گانڈ میرے سامنے
تھی اور اس پر بہت سارا نرم نرم گوشت چڑھا ہوا تھا ۔۔۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں
سے اس کی گانڈ کے دونوں پٹ کھول کر دیکھا ۔۔۔۔ اُف ففففف اس کی گانڈ پر ایک بھی
بال نہ تھا ۔۔۔۔ اس نے گردن موڑ کر میری طرف دیکھا اور بولا میری بُنڈ کیسی ہے ؟؟
تو میں نے جواب دیا بلکل عورتوں کر طرح نرم اور موٹی بنڈ ہے تمھاری ۔۔۔۔ تو وہ
کہنے لگا عورتوں کی طرح نہیں میری بُنڈ عورتوں سے بہت زیادہ اچھی ہے ان کی گانڈ پر
بال ہوتے ہیں اور میری گانڈ پرایک بھی بال نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ سُن کر میں نے اپنے
ٹوپے پر تُھوک لگایا اور کچھ تُھوک اس کی گانڈ پر لگا دیا ۔۔۔ رفیق میری یہ کاروائ
بڑے غور سے دیکھ رہا تھا پوچھنے لگا ۔۔۔۔ کیا کر رہے ہو تو میں نے کہا لن ڈالنے
لگا ہوں تو وہ فوراً بولا ۔۔۔ اوۓ
کیوں بچے کو مارنا ہے یار ۔۔۔ تو میں نے کہا وہ کیسے ؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔ تو کہنے لگا ظالم
انسان اپنے لن کا سائز دیکھ اور بچے کی موری دیکھ ۔۔ کیوں بے چارے کی گانڈ پھاڑنی
ہے پھر بولا ایک منٹ رُکو اور پھر بھاگ کر گیا اور اندر کمرے سے سرسوں کے تیل کی
شیشی لے آیا اور آ کر پہلے تو اس نے یاسر کی گانڈ پر اچھی طرح تیل لگایا پھر وہ
میری طرف آیا اور میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور ۔۔۔۔۔ پھر ٹوپے کو منہ میں لیا
اور چوسنے لگا ۔۔۔ یہ دیکھ کر یاسر نے اس سے کہا بہن چودا اتنا ہی شوق ہے تو بعد
میں اس سے گانڈ مُروا لینا ابھی تو مجھے مزہ لینے دو ۔۔ یاسر کی بات سُن کر رفیق
نے لن منہ سے باہر نکالا اور بولا۔۔۔ ٹھیک ہے یار پہلے تُو مزہ لے لے ۔۔۔ اور پھر
کافی سارا تیل میرے لن پر گِرا دیا اور پھر دونوں ہاتھوں سے اچھے طرح مل دیا اتنے
میں یاسر بولا فیکے ۔۔۔ ان کے ٹوپے کو خاص کر تیل میں اچھی طرح سے تَر کر دینا
۔۔۔اور رفیق نے ایک دفعہ بھر کافی سارا تیل میرے ٹوپے پر لگایا اور لن پکڑ کر یاسر
کی موری پر رکھ دیا اور پھر سامنے جا کر بیٹھ گیا۔۔۔ اب میرا لن یاسر کی موری پر
تھا جو تھوڑی تنگ پر تیل کی وجہ سے خُوب چکنی ہو چکی تھی میں نے دونوں انگلیوں سے
اس کے کی گانڈ کے سوراخ کو تھوڑا سا اور کھولا اور ہلکہ سا دھکا لگایا ۔۔۔۔ یاسر
کی چکنی گانڈ میں میرے موٹے لن کے ٹوبے کی نوک اندر چلی گئ۔۔۔ اور یاسر نے ایک آہ
بھری تو میں نے پوچھا درد تو نہیں ہوا تو وہ بولا ۔۔۔ نہیں ابھی تو صرف ٹوپے کی
نوک ہی اندر گئ ہے ۔۔۔ میں نے تو مزے سے آہ بھری تھی آپ ۔۔۔ میری گانڈ میں لن
ڈالنا جاری رکھیں یہ سُن کر میں نے اس کی گانڈ میں نے ایک اور دھکہ مارا ۔۔۔۔ میرا
تیل میں لِتھرا ٹوپا تھوڑا اور اس کے اندر چلا گیا اور پھر اس کے منہ سے نکلا سسس
سی ۔۔۔۔۔۔ اب میں نے اس سے کوئ کلام نہیں کیا اور ایک اور گھسا مارا اور اب۔۔۔
ٹوپا پھسلتا ہوا یاسر کی گانڈ میں چلا گیا تھا ۔۔۔ یاسر ایک دم اوپر اُٹھا اور میں
نے پوچھا کیا ہوا تو وہ بولا کچھ نہیں تم اپنا کام جاری رکھو ۔۔۔ اور اب میں نے
ایک اور دھکا مارا اور میرا لن پھسلتا ہوا جڑ تک یاسر کی گانڈ میں اُترتا چلا
گیا۔۔۔۔۔ جیسے ہی لن یاسر کی گانڈ کے اندر گیا اس نے ایک زبردست چیخ ماری ۔۔۔
آآآآآ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔ اُ ف فف ف ۔۔۔ رفیق جو پاس بیٹھا یہ سارا سین
دیکھ رہا تھا ایک دم اُٹھ کر میرے پاس آ گیا اور میرے گال چوم کر بولا واہ ۔۔ شاہ
جی واہ ۔۔۔۔ تم نے کمال کر دیا اتنا موٹا لن کتنے ٹیکٹ سے یاسر کی گانڈ میں اُتار
دیا ہے ۔۔۔ ورنہ میرا تو خیال تھا کہ آج بچے کی گانڈ پھٹ جاۓ
گی ۔۔۔۔۔۔ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ فکر نہ کر یار جب میں تمھاری ماروں گا نا تو
تمھارے اندر بھی ایسے ہی ڈالوں گا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ رفیق کچھ جواب دیتا یاسر نے
منہ میری طرف کر کے کہا ۔۔۔ اُستاد جی اندر ڈالا ہے تو اب ہلو بھی نہ ۔۔۔۔ اس بہن
چود سے بعد میں بات کر لینا ۔۔۔ یاسر کی بات سُن کر رفیق دوبارہ سا منے جا کر بیٹھ
گیا اور اب میں یاسر کی طرف متوجو ہوا ۔۔۔۔ میرا تیل سے بھیگا ہوا لن یاسر کی گانڈ
میں تھا ۔۔۔۔۔۔ اس کی گانڈ اندر سے بڑی ہی گرم تھی ۔۔۔اور گانڈ کے ٹشو اس سے بھی
زیادہ نرم تھے ۔۔۔ اب میں نے آہستہ آہستہ بلکل آرام سے لن کو اس کی گانڈ سے باہر
کھینچا ۔۔۔۔۔ پھر جب ٹوپے تک لن باہر آگیا تو میں نے دوبارہ آرام آرام سے اندر ڈال
دیا اور پھر ہلکے ہلکے جھٹکے مارنا شروع کر دیۓ
۔۔۔ اب اس کی گانڈ کے ٹشو لن کے ساتھ کافی ایڈجسٹ ہو گۓ
تھے سو اب میں نے اپنے گھسوں کی سپیڈ بڑھا دی اور پھر زور زور سے لن یاسر کی گانڈ
میں اِن آؤٹ کرنے لگا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے یاسر کی مست آوازیں بھی سُنائ
دینے لگیں ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔ اُف ۔۔۔۔ یسس۔یسس۔ اور میں یاسر کی گانڈ میں گھسے
مارتا گیا مارتا گیا ۔۔۔ کافی دیر بعد مجھے ایسے لگا جیسے میرا سارا خون میری
ٹانگوں سے لن کی طرف بھاگے جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ میرا بلڈ پریشر ہائ ہو گیا۔۔۔۔ اور
میرے سانس بھی بے ترتیب سے ہو رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ یہ محسوس کر کے میں نے اپنے گھسوں
کی سپیڈ پہلے سے بھی دوگنی کر دی اور میں نے تقریباً چلا کر یاسر سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
یاسر میں چُھوٹ رہا ہوں۔۔ میرا لن منی چھوڑ رہا ۔۔۔۔ یہ سُن کر یاسر نے مستی میں آ
کر خود ہی اپنی گانڈ میرے لن پر مارنی شروع کر دی اور ۔۔۔۔۔ اور ۔۔ چھوٹ جا میری
گانڈ میں ۔۔ اور گھسوں کر سپیڈ اور تیز کر ۔۔۔ اور تیز ۔۔۔ تیزززز۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر
کچھ ہی دیر بعد میرے ۔۔۔۔۔۔۔۔لن سے منی کا طوفان نکل کر یاسر کی تیل سے چُپڑی گانڈ
میں داخل ہونے لگا ۔۔۔۔۔
جیسے ہی میری منی کی پہلی بُوند یاسر کی گانڈ میں
ٹپکی ۔۔۔۔وہ مست ہو گیا اور اپنی گانڈ میرے لن کے گرد ٹائیٹ کرتا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرتا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرتا گیااااااااااا۔۔۔۔۔
یاسر اس وقت تک اپنی گانڈ کو میرے لن کے گرد تنگ کرتا رہا جب تک کہ میرا لن سُکڑ
کر چھوہارا سا نہ بن گیا ۔۔۔ جب میرا لن اس کی گانڈ میں بلکل مُرجھا گیا تو میں نے
اس کی گانڈ سے لن کو باہر نکال لیا ۔۔۔ تو وہ بولا یار تمھارے لن نے آج بڑا مزہ
دیا ہے ۔ اور میں دیکھا کہ اس کی گانڈ میرے دھکوں کی وجہ سے لال سُرخ ہو گئ تھی
اور میری منی کے چند قطرے اس کی گآنڈ کے سُوراخ سے باہر نکل رہے تھے ۔۔۔ پھر اس نے
میری طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔ یار تیرا لن بڑا کمال ہے اس نے مجھے اتنا مزہ دیا ہے
کہ یہ دیکھو میں بغیر مُٹھ کے ہی فارغ ہو گیا ہوں اور میں نے دیکھا تو صوفے کے
ساتھ نیچےقالین پر اس کی منی گری ہوئ تھی ۔۔۔۔ پھر فوراًہی رفیق ہاتھ میں ایک صاف
سا کپڑا لیۓ
میرے سامنے آگیا اور میرے لن کو صاف کرتے ہوۓ
بولا ۔۔۔ واہ شاہ کیا شاندار چودائ کی ہے ۔۔ دیکھ تو تیرے دھکوں نے منڈے کی گانڈ
کیسی ٹماٹر کی طرح لال کر دی ہے ۔۔۔ پھر میرا لن صاف کر کے وہ یاسر کی طرف متوجہ
ہوا ۔۔۔ جس کی گانڈ کے سوراخ سے ابھی تک میری منی رِس رِس کر باہر نکل رہی تھی اس
نے جلدی سے کپڑے کا صاف حصہ اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا ۔۔۔ اور اسے صاف کرنے
لگا ۔۔۔ جب وہ اس کی گانڈ پر کپڑا رکھ رہا تھا تو اس وقت اس کی پیٹھ میری طرف تھی
سو مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ رفیق
نے ایک دم اپنا منہ میری طرف کیا اور سیریس ہو کر بولا ۔۔۔ چودو گے مجھے۔۔ ؟؟؟
لیکن میرا ایسا کوئ مُوڈ نہ تھا سو میں نے انکار کر دیا اور جلدی سے کپڑے پہن لیۓاور
اُن سے ان کے نیکسٹ پروگرام کے بارے میں پوچھا
تو وہ کہنے لگے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
thanks