حرامی بوڑھے
کچھ واقعات ایسی ہوتی ہیں جس میں آدمی كھود بہ خود كھچتا چلا جاتا
ہے. چاہے وہ چاہے یا نہ چاہے. آدمی کتنا بھی سمجھدار ہو لیکن کبھی کبھی اس کی
سمجھداری اسے لے ڈوبتي ہے. ایسی ہی ایک واقعہ میرے ساتھ ہوئی تھی. جسے آج تک میرے
علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے. آج میں یہی بات آپ سے شیئر کرتی ہوں. میں رتكا، میرے
شوہر کا نام ہے روہن، عمر 32 سال، ممبئی کے ولے پارلے میں رہتی ہوں. میرے شوہر ایک
الیکٹرانکس کمپنی میں کام کرتے ہیں. میں بھی ایک چھوٹی سی سپھٹوےر کمپنی میں کام
کرتی ہوں. یہ بات کافی سال پہلے کی ہے، تب ہم شہر سے دور ملاڈ کے پاس ایک فلیٹ میں
رہتے تھے. ہماری شادی اسی فلیٹ میں ہوئی تھی. مييا بیوی اکیلے ہی اس فلیٹ میں رہتے
تھے. اس فلیٹ میں ہم سے اوپر ایک خاندان رہتا تھا. اس خاندان میں ایک جوان كپل تھے
نام تھا خواب اور ديپاكر. ان کوئی بچہ نہیں تھا. ساتھ میں ان کے سسر جی بھی رہتے
تھے. ان کی عمر کوئی 60 سال کے آس پاس تھی ان کا نام کیلاش شرما تھا میں خواب سے
بہت جلد کافی گھل مل گئی. اکثر وہ ہمارے گھر آتی یا میں اس کے گھر چلی جاتی تھی.
میں اکثر گھر میں سکرٹ اور ٹی شرٹ میں رہتی تھی. میں سکرٹ کے نیچ چھوٹی سی ایک
ككشي پہنتی تھی. مگر ٹی شرٹ کے نیچے کچھ نہیں پہنتی تھی. اس سے میرے بڑے بڑے بوبس
ہلکی حرکت سے بھی اچھل اچھل جاتے تھے. میرے نپلس ٹی شرٹ کے باہر ہی ساپھ ساپھ نظر
آتے تھے. خواب کے سسر کا نام میں جانتی تھی. انہیں بس شرما انکل کہتی تھی. میں نے
محسوس کیا شرما انکل مجھ میں کچھ زیادہ ہی اٹےرےسٹ لیتے تھے. جب بھی میں ان کے
سامنے ہوتی ان کی نظریں میرے بدن پر پھرتی رہتی تھی. مجھے ان پر بہت غصہ آتا تھا.
میں ان کی بہو کی عمر کی تھی مگر پھر بھی وہ مجھ پر گندی نیت رکھتے تھے. لیکن ان
کا هسمكھ اور لاپرواہ سوابھاو آہستہ آہستہ مجھ پر اثر کرنے لگا. دھیرے دھیرے میں
ان کی نظروں سے واقف ہوتی گئی. اب ان کا میرے بدن کو گھورنا اچھا لگنے لگا. میں ان
کی نظروں کو اپنی چوچیو پر یا اپنے سکرٹ کے نیچے سے جھاكتي ننگے ٹانگوں پر پا کر
مسکرا دیتی تھی خواب تھوڑی سست قسم کی تھی اس لئے کہیں سے کچھ بھی مگوانا ہو تو
اکثر اپنے سسر جی کو ہی بھیجتی تھی. میرے گھر بھی اکثر اس کے سسر جی ہی آتے تھے.
وہ ہمیشہ میرے سنگ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش میں رہتے تھے. ان کی نذرے
ہمیشہ میری ٹی شرٹ کے گلے سے جھانکتے بوبس پر رہتی تھی. میں پهناوے کے معاملے میں
تھوڑا بےفكر ہی رہتی تھی. اب جب خدا نے اتنا سیکسی جسم دیا ہے تو تھوڑا بہت
اےكسپوذ کرنے میں کیا ہرز ہے. وہ مجھے اکثر چھنے کی بھی کوشش کرتے تھے لیکن میں
انہیں زیادہ لفٹ نہیں دیتی تھی. اب اصل واقعہ پر آیا جائے. اچانک خبر آئی کہ ممی
کی طبیعت خراب ہے. میں اپنے مایکے اندؤر چلی آئی. ان دنو موبائل نہیں تھا اور
ٹیلیفون بھی بہت کم لوگوں کے پاس ہوتے تھے. کچھ دن رہ کر میں واپس ممبئی آ گی. میں
نے روہن کو پہلے سے کوئی اطلاع نہیں دی تھی کیونکہ ہمارے گھر میں ٹیلیفون نہی تھا.
میں شام کو اپنے فلیٹ میں پہنچی تو پایا کی دروازے پر تالا لگا ہوا ہے. وہیں دروازے
کے باہر اسی طرح رکھ کر روہن کا انتظار کرنے لگی. روہن شام 8 بجے تک گھر آ جاتا
تھا. لیکن جب 9 ہو گئے تو مجھے فکر ستانے لگی. فلیٹ میں زیادہ کسی سے جان پہچان
نہیں تھی. میں نے خواب سے پوچھنے کا خیال کیا. میں نے اوپر جا کر خواب کے گھر کی
كالبےل بجائی. اندر سے ٹی وی چلنے کی آواز آ رہی تھی. کچھ دیر بعد دروازہ کھلا.
مینے دیکھا سامنے شرما جی کھڑے ہیں. "ہیلو ... وہ خواب ہے کیا؟" میں نے
پوچھا. "خواب تو ديپاكر کے ساتھ ہفتے بھر کے لئے گوا گئی ہے گھومنے. ویسے تم
کب آئی؟" "جی ابھی کچھ دیر پہلے. گھر پر تالا لگا ہے روہن ...؟"
"روہن تو گجرات گیا ہے اپھيشيل کام سے کل تک آئے گا." انہوں نے مجھے
مسکرا کر دےكھا- "تمہے بتایا نہی" "نہی انکل ان سے میری کوئی بات
ہی نہیں ہوئی. ویسے میری پلاننگ کچھ دنو بعد آنے کی تھی." "تم اندر تو
آو" انہوں نے کہا میں نے کشمکش سی اپنی جگہ پر کھڑی رہی. "خواب نہیں ہے
تو کیا ہوا میں تو ہوں. تم اندر تو آو." کہہ کر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر
اندر کھینچا. میں کمرے میں آ گئی. انہوں نے آگے بڑھ کر دروازے کو بند کر کے کنڈی
لگا دی. میں نے جھجھکتے ہوئے ڈريگ روم میں قدم رکھا. جیسے ہی سینٹر ٹیبل پر نظر پڑی
میں تھم گئی. سینٹر ٹیبل پر بیئر کی بٹلس رکھی ہوئی تھی. آس پاس سنكس بکھرے پڑے
تھے. ایک سنگل سوفی پر كامدار انکل بیٹھے ہوئے تھے. ان کے ایک ہاتھ میں بیئر کا
گلاس تھا. جس سے وہ ہلکی ہلکی چسكيا لے رہے تھے. میں اس ماحول کو دیکھ کر چونک
گئی. شرما انکل نے میری جھجھک کو سمجھا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"ارے گھبرانے کی کیا بات ہے. آج اڈيا- پاکستان میچ چل رہا ہے نا. سو ہم دونو
کو میچ کو ایںجاے کر رہے تھے." میں نے سامنے دیکھا ٹی وی پر انڈیا پاکستان کا
میچ چل رہا تھا. میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میرا کیا کرنا مناسب ہوگا. یہاں
ان کے درمیان بیٹھنا یا کسی هوٹےل میں جا کر ٹھہرنا. گھر کے دروازے پر اٹرلك تھا
اس لئے توڈا بھی نہیں جا سکتا تھا. میں وہیں سوفی پر بیٹھ گئی. مینے سوچا میرے
علاوہ دونوں آدمی بزرگ ہیں ان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے. لیکن رات بھر رکنے کی بات
جہاں آتی ہے تو ایک بار سوچنا ہی پڑتا ہے. میں انہی خیالات میں گمسم بیٹھی تھی
لیکن انہوں نے گویا میرے من میں چل رہے اتھل پتھل کو بھاپ لیا تھا. "کیا سوچ
رہی ہو؟ کہیں اور رکنے سے اچھا ہے رات کو تم یہیں رک جاؤ. تم خواب اور ديپاكر کے
بیڈ روم میں رک جانا میں اپنے کمرے میں سو جانگا. بھائی میں تمہیں کاٹ نہیں لوں
گا. اب تو بوڑھا ہو گیا ہوں. هاهاها .. " ان کے اس طرح بولنے سے ماحول تھوڑا
ہلکا ہوا. میں نے بھی سوچا کہ میں بے وجہ ایک بزرگ آدمی پر شک کر رہی ہوں. میں ان
کے ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھنے لگی. پاکستان بیٹنگ کر رہی تھی. کھیل کافی کانٹے کا
تھا اس لئے مہم جوئی مکمل تھا. مینے دیکھا دونو درمیان درمیان میں كنكھيو سے سکرٹ
سے باہر جھاكتي میری گوری ٹانگوں کو اور ٹی شرٹ سے ابھرے ہوئے میرے بوبس پر نظر
ڈال رہے تھے. پہلے پہلے مجھے کچھ شرم آئی لیکن پھر مینے اس طرف غور کرنا چھوڑ دیا.
میں سامنے ٹی وی پر چل رہے کھیل کا مزا لے رہی تھی. جیسے ہی کوئی آؤٹ ہوتا ہم سب
خوشی سے اچھل پڑتے اور ہر شاٹ پر گلیاں دینے لگتے. یہ سب انڈیا پاکستان میچ کا ایک
كامن سین رہتا ہے. ہر بال کے ساتھ لگتا ہے سارے ہندوستانی کھیل رہے ہوں. کچھ دیر
بعد شرما اںکل نے پوچھا، "رتكا تم کچھ لوگي؟ بیئر یا جن ...؟" میں نے نا
میں سر ہلایا لیکن بار بار رکویسٹ کرنے پر میں نے کہا، "بیئر چل جائے گی
.." انہوں نے ایک کی بوتل اوپن کر کے میرے لئے بھی ایک گلاس بھرا پھر ہم
"چیرس" بول کر اپنے اپنے گلاس سے شکتی کرنے لگے. شرما اںکل نے دیوار پر
لگی گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا "اب کچھ کھانے پینے کا انتظام کیا
جائے" -نهونے میرے چہرے پر نگاہ گڑھاتے ہوئے کہا "تم نے شام کو کچھ
کھایا یا نہیں؟" میں ان کے اس سوال پر هڑبڑا گيي- "ہاں میں نے کھا لیا
تھا." "تم جب جھوٹ بولتا ہو تو بہت اچھی لگتی ہو. پاس کے هوٹےل سے تین
کھانے کا آرڈر دے دے اور بول کہ جلدی بھیج دے گا" كدر اںکل نے فون کر کے.
کھانا منگوا لیا. ایک گلاس کے بعد دوسرا گلاس بھرتے گئے اور میں انہیں شکتی کر کر
کے ختم کرتی گئی. آہستہ آہستہ بیئر کا نشہ نظر آنے لگا. میں بھی ان کے ساتھ ہی چیخ
چیخ رہی تھی، تالیاں بجا رہی تھی. کچھ دیر بعد کھانا آ گیا. ہم نے اٹھ کر کھانا
کھایا پھر واپس آ کر سوپھے پر بیٹھ گئے. شرما انکل اور كامدار انکل اب بڑے والے
سوفی پر بیٹھے. وہ سوفی ٹی وی کے ٹھیک سامنے رکھا ہوا تھا. میں دوسرے سوفی پر
بیٹھنے لگی تو شرما اںکل نے مجھے روک دیا: ' "ارے وہاں کیوں بیٹھ رہی ہو.
یہیں پر آجا یہاں سے اچھا نظر آئے گا. دونوں سوفی کے دونو کناروں پر سرک کر میرے
لئے درمیان میں جگہ بنا دئے. میں دونو کے درمیان آ کر بیٹھ گئی. پھر ہم میچ دیکھنے
لگے. وو دونو واپس بیئر لینے لگے. میں نے صرف ان کا ساتھ دے رہی تھی. باتوں باتوں
میں آج میں نے زیادہ لے لیا تھا اس لئے اب میں کنٹرول کر رہی تھی جس سے کہیں بہک
نہ جاؤ. آپ سب تو جانتے ہی ہوں گے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ ہو تو کیسا
ماحول رہتا ہے. شارجہ کے میدان میں میچ ہو رہا تھا. انڈین کیپٹن تھا اذهرددين.
"آج اڈينس جیتنا ہی نہیں چاہتے ہیں." شرما جی نے کہا "یہ ایسے کھیل
رہے ہیں جیسے پہلے سے سٹے بازی کر رکھی ہو." كدر اںکل نے کہا. "آپ لوگ
اس طرح کیوں بول رہے ہیں؟ دیکھنا انڈیا جیتے گی." مینے کہا "ہو ہی نہیں
سکتا. شرط لگا لو انڈیا ہار کر رہے گی" شرما اںکل نے کہا. تبھی ایک اور چھکا
لگا. "دیکھا ... دیکھا ...." شرما اںکل نے میری پیٹھ پر ایک ہلکے سے
صلواتیں جمایا "میری بات مانو یہ سب ملے ہوئے ہیں." کھیل آگے بڑھنے لگا.
تبھی ایک وکٹ گرا تو ہم تینو اچھل پڑے. میں خوشی سے شرما انکل کی جاںگھ پر ایک زور
کی تھپكي دے کر بولی "دیکھا انکل؟ آج ان کو کوئی نہیں بچا سکتا. ان سے یہ
اسکور بن ہی نہیں سکتا." میں اس کے بعد واپس کھیل دیکھنے میں بزی ہو گئی. میں
بھول گئی تھی کہ میرا ہاتھ اب بھی شرما انکل کی رانوں پر ہی پڑا ہوا ہے. شرما انکل
کی نگاہیں بار بار میری ہتھیلی پر پڑ رہی تھی. انہوں نے سوچا شاید میں جان بوجھ کر
ایسا کر رہی ہوں. انہوں نے بھی بات کرتے کرتے اپنا ایک ہاتھ میرا سکرٹ جہاں ختم ہو
رہا تھا وہاں پر میری ننگی ٹانگ پر رکھ دیا. مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں
نے جلدی سے اپنا ہاتھ ان کی رانوں پر سے ہٹا دیا. ان کا ہاتھ میری ٹانگوں پر رکھا
ہوا تھا. كدار انکل نے میرے کندھے پر اپنے بازو رکھ دی. مجھے بھی کچھ کچھ مزا آنے
لگا. اب لاسٹ تین اوور باقی تھے. کھیل کافی ٹکر کا ہو گیا تھا. ایک طرف جاوید
میانداد کھیل رہا تھا. لیکن اسے بھی جیسے انڈین بولرس نے باندھ کر رکھ دیا. کھیل
کے ہر بال کے ساتھ ہم اچھل پڑتے. یا تو سکھ مناتے یا بے بسی میں سانس چھوڑتے. اچھل
کود میں کئی بار ان کی كوهنيا میرے بوبس سے ٹکرائی. پہلے تو میں نے سوچا شاید غلطی
سے ان کی کہنی میرے بوبس کو چھو گئی ہوگی لیکن جب یہ غلطی بار بار ہونے لگی تو ان
کے غلط ارادے کی بھنک لگی. آخری اوور آ گیا اظہر نے بال ذی شرما کو پكڑاي.
"اس کو لاسٹ اوور کافی سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا سامنے جاوید میانداد کھیل رہا
ہے." "ارے انکل دیکھنا یہ جاوید میانداد کی حالت کیسے خراب کرتا
ہے." مینے کہا "نہی جیت سکتی انڈیا کی ٹیم نہیں جیت سکتی لکھ کے لیلو مجھ
آج پاکستان کے جیتنے پر میں شرط لگا سکتا ہوں." شرما اںکل نے کہا. "اور
میں بھی شرط لگا سکتا ہوں کی انڈیا ہی جیتے گی" مینے کہا. آخری دو بال بچنے
تھے کھیل مکمل طور پر انڈیا کے پھےور میں چلا گیا تھا. "جاوید میانداد کچھ
بھی کر سکتا ہے. کچھ بھی. اسے آؤٹ نہیں کر سکے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے." شرما
انکل نے پھر جوش میں کہا. "اب تو جاوید میانداد تو کیا اس کے فرشتے بھی آ
جائیں نا تو بھی ان کو ہارنے سے نہیں بچا سکتے." "چلو شرط ہو
جائے." شرما اںکل نے کہا. "ہاں ہاں ہو جائے .." كدر اںکل نے بھی ان
کا ساتھ دیا. میں نے پیچھے ہٹنے کو اپنی ہار مانی اور ویسے بھی انڈیا کی جیت تو
پکی تھی. لاسٹ بال بچا تھا اور جیتنے کے لئے پانچ رنز چاہئے تھے. اگر ایک چوکا بھی
لگتا تو دونوں ٹیم ٹائی پر ہوتے. جیت تو صرف ایک سکس ہی دلا سکتی تھی جو کہ اتنے
ٹےنس مومےٹ میں ناممکن تھا. "بولو اب بھگوگے تو نہیں. آخری بال اور پانچ رنز.
چار رن بھی ہو گئے تو دونوں برابر ہی رہیں گے. جیتنے کے لئے تو صرف چھکا
چاہئے." میں نے فخر سے گردن اکڑا کر شرما جی کی طرف دیکھا. شرما اںکل نے اپنے
کندھے اچكاي کہا کچھ نہیں. ان کو بھی لگ گیا تھا کہ آج انڈیا ہی جیتے گی. پھيلڈرس
سارے باڈري پر لگا دئے گئے تھے. میں نے ان سے پوچھا "سوچ لو .... اب شرط
لگاوگے کیا. 99٪ تو انڈیا جیت ہی چکی ہے." "شرط تو ہم کریں گے ہی.
دیکھنا جاوید میانداد بیٹنگ کر رہا ہے. وہ پوری جان لگا دے گا." شرما اںکل نے
اپنی ہاتھ سے پھسلتي ہوئی هےكڑي کو واپس بٹورتے ہوئے کہا. "ٹھیک ہے ہو جائے
شرط." کہ کر میں نے اپنے ایک ہاتھ شرما انکل کے ہاتھ میں دیا اور ایک ہاتھ
كدر انکل کے ہاتھ میں دیا. "اگر انڈیا جیتی تو ..................؟"
شرما اںکل نے بات میرے لئے ادھوری چھوڑ دی. "تو آپ دونوں مختلف مجھے ٹریٹ دیں
گے. ساتھ میں ہم لوگوں کی پھیملی بھی رہے گی. مكڈونلڈس میں شامل. منظور؟" میں
نے ان سے کہا. دونو نے تپاک سے حامی بھر دی. "اور اگر پاکستان جیت گئی تو ...
...؟" - كدر انکل نے بھی شرط میں شامل ہوتے ہوئے کہا. "تو رتكا وہی کرے
گی جو ہم دونو کہیں گے. منظور ہے؟" شرما انکل نے کہا "کیا کرنا پڑے
گا؟" میں نے ہنستے ہوئے پوچھا. میں سوچ بھی نہیں پا رہی تھی کہ میں کس طرح ان
دونوں بوڈھو کے چنگل میں پھستي جا رہی ہوں."کچھ بھی جو ہمیں پسند ہو
گا." كدر نے کہا. "ارے كدر چھوڑ شرط-ورت یہ لگا نہیں سکتی." شرما
اںکل نے کہا. "ٹھیک ہے ہو جائے شرط." کہ کر میں نے اپنا ایک ہاتھ شرما
انکل کے ہاتھ میں دیا اور ایک ہاتھ كدر انکل کے ہاتھ میں دیا. دونوں نے اپنے ہاتھ
میں میرے ہاتھوں کو پکڑ لیا. دونوں میرے بدن سے سٹ گئے. میں دونو کے درمیان سڈوچ
بنی ہوئی تھی. ایسے ماحول میں چیتن شرما نے دوڑنا شروع کیا. کمرے میں ماحول گرم ہو
گیا تھا. کچھ تو میچ کے مہم جوئی سے اور کچھ ہمارے بدن کے ایک دوسرے سے سٹنے سے.
چیتن شرما دوڑتا ہوا آیا اور اس پتہ نہیں کیوں ایک پھلٹوس گیند جاوید میانداد کو
پھینکی. ہماری سانسیں تھم گئی تھی. جاوید میانداد نے آخری بال کے پیچھے آتے ہوئے
اپنے بیٹ کو لفٹ کیا اور بال تیزی سے نیچے آتی ہوئی بیٹ سے ٹکرائی. سب ایسا لگ رہا
تھا جیسے سلو موشن میں چل رہا ہو. بال بیٹ سے لگ کر آسمان میں اچھلي اور لاکھوں
کروڑوں ناظرین صرف سانس روکے دیکھتے ہی رہ گئے. بال بغیر ڈراپ کے باڈري کے باہر جا
کر گری. اپاير نے چھکے کا اشارہ کیا اور پاکستان جیت گئی. مجھے تو سمجھ میں ہی
نہیں آیا کہ یہ سب کیا چل رہا ہے. میں نے صرف منہ پھاڈے ٹی وی کی طرف دیکھ رہی
تھی. یقین تو میرے ساتھ بیٹھے دونوں بزرگوں کو بھی نہیں ہو رہا تھا کہ ایسے پوزشن
سے انڈیا ہار بھی سکتی ہے. کچھ دیر تک اسی طرح رہنے کے بعد دونوں چللا اٹھے،
"هررراه .... ہم جیت گئے." میں نے مایوسی کے ساتھ دونوں کی طرف دیکھا.
"ہم جیت گئے." میں ان کی طرف دیکھ کر ایک اداس سی مسکراہٹ دی "اب
تم ہماری شرط پوری کرو." شرما جی نے کہا. "ٹھیک ہے بولو کیا کرنا
ہے." میں نے ان سے کہا. "سوچ لو پھر سے بعد میں اپنے وعدے سے مکر مت
جانا." شرما اںکل نے کہا. "نہی میں نہیں مكروگي اپنے وعدے سے. بولو مجھے
کیا کرنا پڑے گا." شرما جی نے مسکراتے ہوئے كدر انکل کی طرف دیکھا. دونو کی
آنکھیں ملی اور سوادو کا کچھ تبادلہ ہوا. "تو بول كدر ....... اسے کیا کرنے
کو کہا جائے." شرما اںکل نے كدر انکل سے کہا. "نہی تو نے شرط عائد ہے
شرما تو ہی اس کے ثواب کا اعلان کر."شرما اںکل نے میری طرف مڑ کر اس کی آواز
میں رهسيميتا لاتے ہوئے کہا "تم ہم دونو کو ایک ایک کس دوگی. فرانسیسی کس تب
تک جب تک ہم تمہارے ہونٹوں سے اپنے ہوںٹھ الگ نہی کریں." مجھے اپنے چاروں طرف
پورا کمرہ گھومتا ہوا سا لگا. مجھے سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں. میں
ان دونوں آدمیوں کے چنگل میں پھنس گئی تھی. میں نے کچھ دیر تک اپنی نظریں زمین پر
گڑائے ركھي پھر دھیرے سے کہا، "صرف کس" دونوں نے ایک ساتھ کہا،
"ٹھیک ہے." میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی. "ٹھہرو اس طرح نہیں. زندگی میں
پہلی بار اتنا حسین موقع ملا ہے تو اس کا مکمل ایںجاے کریں گے." شرما اںکل نے
کہا "كادار پہلے یہ مجھے کس دے گی" كدر انکل نے سر ہلایا. شرما انکل
ڈرائنگ ٹیبل کے پاس سے ایک کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گئے. بغیر ہتھے والی کرسی پر
بیٹھ کر مجھ سے کہا، "آؤ تم میری گود میں بیٹھ کر مجھے کس کرو." میں شرم
سے پانی پانی ہو رہی تھی. ایسی بری حالت میں اپنے آپ کو پہلی بار محسوس کر رہی
تھی. ویسے تو میرے شوہر کے علاوہ بھی میرے ایک اور آدمی سے تعلقات تھے اور میں
شادی سے پہلے ہی اپنے بيفرےڈ سے سیکس کا مزا لے چکی تھی، لیکن اتنے بزرگ آدمیوں کے
ساتھ اس طرح کا موقع پہلی بار ہی آیا تھا. میں آکر ان کی گود میں بیٹھنے لگی تو
انہوں نے مجھے روکتے ہوئے کہا، "ایسے نہی. اپنے دونو پیروں کو پھیلا کر میری
ٹانگوں کے دونو طرف اپنے پاؤں رکھ کر میری گود میں بیٹھو. میں نے ویسا ہی کیا. سکرٹ
پہنا ہونے کی وجہ سے ٹانگیں چوڑی کرنے میں کسی قسم کی بھی پریشانی نہیں ہوئی. جیسے
ہی میں ان کی گود میں بیٹھی انہوں نے میرے کمر کی گرد اپنی باہیں ڈال کر مجھے
کھینچ کر اپنے بدن سے سٹا لیا. میری تنی ہوئی چوچیاں ان سینے سے دب گئی. میری ككشي
میں چھپ یون اس جنس سے جا ملحق. میں نے محسوس کیا کی ان کا جنس تن چکا تھا. یہ
جانتے ہی میری نظریں جھک گی. مینے اپنے کاںپتے ہوئے ہونٹ آگے بڑھا کر ان کے ہونٹوں
کے سامنے لائی. کچھ لمحوں تک ہم ایک دوسرے کے چہروں کو دیکھتے رہے پھر میں نے اس
کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے. انہوں نے اپنے ہاتھوں سے میرے چہرے کو سمهال رکھا
تھا. مینے بھی اپنے ہاتھوں سے اس کے سر کو پیچھے سے پکڑ کر اپنے ہونٹوں پر دبا
دیا. کچھ دیر تک ہم ایک دوسرے کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ پھراتے رہے. شرما انکل میرے
ہوںٹھوں کو ہلکے ہلکے اپنے دنتو سے چباتے رہے. پھر مینے اپنی جیبھ نکالی اور ان کے
منہ میں ڈال دیا. میری جیب وہاں ان کی زبان سے ملی. ان کے منہ سے پھریش منٹ کا
سمےل آ رہا تھا. ہم دونو کی زبان ایک دوسرے کے ساتھ لپٹنے کھیلنے لےگے. ان کے ہاتھ
میرے پورے پیٹھ پر پھر رہے تھے. ایک ہاتھ سے انہوں نے میرے سر کو اپنے منہ پر داب
رہا تھا اور دوسرا ہاتھ میری پیٹھ پر پھراتے ہوئے نیچے کی طرف گیا. اچانک شرما
انکل کے ہاتھ کو مینے اپنی سکرٹ کے اندر اندر محسوس کیا. ان کے ہاتھ میری ككشي کے
اوپر پھر رہے تھے. میں نے اچانک اپنے دونو بغلوں کے پاس سے دو ہاتھوں کو ہم دونو
کے بدن کے درمیان پہنچا کر میرے بوبس کو تھامتے ہوئے محسوس کیا. یہ كدر انکل کے
ہاتھ تھے. ان کے ہاتھ میرے بوبس کو سہلانے لگے.میری یون گیلی ہونے لگی. مجھے لگ
گیا کہ آج ان بوڈھو سے اپنا دامن بچا کر نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے. شرما جی
اپنے ہاتھوں سے میری ككشي کو ایک طرف سرکا کر میرے ایک نتب کو سہلانے لگے. شرما جی
نے میرے دونو نتب سہلانے اور مسلنے کے بعد اب اگليا میری ككشي کے اندر اندر ڈالنے
کی کوشش کرنے لگے. میں ان کے چنگل سے نکلنے کی جی توڑ کوشش کر رہی تھی. مجھے لگ
رہا تھا گویا ان کا یہ کس ساری زندگی ختم نہیں ہوگا لیکن انہوں آخر میں مجھے آزاد
کر ہی دیا. میں ان کی گود میں بیٹھے بیٹھے ہی لمبی لمبی سانسیں لینے لگی. اپنے
ہارٹ بیٹس کو کنٹرول کرنے لگی جو کہ کسی راجدھانی ایکسپریس کی طرح دوڑا جا رہا
تھا. كدر انکل نے میری باہوں کے نیچے سے ہاتھ لے جا کر میرے بدن کو ٹھیک میرے بوبس
کے نیچے سے پکڑا. جس سے میرے بڑے بڑے بوبس شرما انکل کی طرف اچے ہو گئے. شرما اںکل
نے یہ دیکھ کر میرے بوبس کی چوٹیوں پر ایک ایک کس دیا. كدر اںکل نے مجھے ان کی گود
سے اٹھایا. "شرما اٹھ اب میری باری ہے." میں ان کے سامنے سر جھکائے ہوئے
کھڑی تھی. شرما انکل چیئر سے اٹھ گئے. ان کی جگہ كدر انکل کرسی پر بیٹھ گئے. میں
واپس اپنے پیروں کو پھیلا کر ان کی گود میں جا بیٹھی. مینے اپنے ہونٹ اب كدر انکل
کے ہونٹوں پر لگا دئے. ان کے منہ سے شرما انکل کی طرح منٹ کی سمےل نہیں بلکہ بیئر
کی بدبو آ آ رہی تھی. مینے اپنی سانس کو روک کر ان کے منہ میں اپنی زبان ڈال دی.
كدر انکل کے سینے سے اب میرے اچے اچے سربراہی دبے ہوئے چھٹپٹا رہے تھے. شرما انکل
میرے پیچھے زمین پر بیٹھ گئے اور میری پیںٹی کے دونو ٹانگوں کے درمیان کے جوڑ کو
کھینچ کر توڑ دیا. میری پیںٹی کے دونو پلے مختلف ہو کر میرے کمر سے جھول رہے تھے.
انہوں نے میرے نوستر کولہوں کے اوپر سے پیںٹی کے جھولتے ٹکڑے کو اوپر اٹھا کر میرے
نتںبوں پر اپنے ہونٹ لگا دیئے. ان کے ہونٹ اب میرے نتںبوں پر پھر رہے تھے. كدار
انکل کے ہاتھ میرے ٹاپ کو اوپر اٹھا کر میری ننگے پیٹھ پر ہاتھ پھرانے لگے. ان کے
ہاتھ میرے برا کے ہک پر آکر ٹھہرے اور میرے برا کے ہک کو کھول کر میرے بوبس کو
آزاد کر دیا. پھر سامنے کی طرف ہاتھ لا کر میرے برا کو سینے سے اوپر کر کے میرے
ننگے بوبس کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسلنے لگے. میرے بوبس کو بری طرح مسلتے ہوئے
میرے کھڑے ہو چکے نپلس کو اپنی انگلیوں کے درمیان لے کر زور زور سے دبانے اور
کھینچنے لگے. میرے منہ سے کراہ کی آواز نکل کر ان کے ہونٹوں کے درمیان قید ہو جا
رہی تھی. ادھر شرما انکل کی زبان اب میری یون کے دونو طرف پھر رہی تھی. كدر اںکل
نے بیٹھے بیٹھے اپنے دونو پیروں کو پھیلا دیا تھا جس کی وجہ سے میرے پاؤں بھی پھیل
گئے تھے اور میری یون اب شرما انکل کی حرکتوں کا بیپردا تھی. میں ان کی حرکتوں سے
گرم ہو گئی تھی. اب میرا اںگ اںگ چھٹپٹا رہا تھا ان لںڈ کے لئے. کچھ دیر تک اسی
طرح مجھے کس کرتے رہنے کے بعد ہم تینو اٹھے. دونوں نے سب سے پہلے مجھے پوری طرح
ننگے کیا. میں نے ان کا کسی طرح بھی مخالفت کیے بغیر ان کے کام میں مدد کی جب میں
پوری طرح ننگے ہو گئی تو مینے پہلے شرما انکل کے اور اس کے بعد كدر انکل کے سارے
کپڑے اتار دئے. میں نے پہلی بار دونوں کی جنس کو دیکھا. دونوں کی جنس اس عمر میں
بھی کسی 30 سال کے نوجوان سے بڑے اور موٹے تازہ تھے. شرما انکل کا جنس تو مکمل طور
پر طعنہ ہوا جھٹکے کھا رہا تھا. ان جنس سے ایک ایک بوںد لاسا نکل رہا تھا. كدر
انکل کا جنس ابھی تک مکمل طور پر کھڑا نہیں ہوا تھا. میں نے دونوں کے جنس اپنے
ہاتھوں سے تھام لئے اور باری باری دونوں کے جنس کے ٹپ کو اپنے ہوںٹھوں سے چوما. ان
جنس کو سہلاتے ہئے مینے نیچے لٹکتے ہوئے ان کی گیندوں کو بھی اپنی مٹھی میں بھر کر
سہلایا. پھر ہم تینو بیڈ روم کی طرف بڑھے گویا ہمارے درمیان پہلے ہی طے ہو کی اب
کیا ہونے والا ہے. بیڈروم میں جا کر میں نے پلنگ پر لیٹ گئی. اپنے ہاتھوں کو اٹھا
کر مینے انہے بلایا. دونوں کود کر بستر پر چڑھ گئے. "ایک ایک کرکے." میں
نے دونوں سے کہا. "ٹھیک ہے" کہتے ہوئے شرما انکل میری ٹانگوں کے درمیان
آ گئے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے میری دونوں ٹانگوں کو پھیلایا. پھر آگے بڑھ کر
جھکتے ہوئے میری یون پر اپنے ہونٹ رکھ دیے. ان کی زبان پہلے میری یون کے اوپر پھري
پھر انہوں نے اپنے ہاتھوں سے میری یون کی پھاںکوں کو الگ کیا اور میری رس ٹپكاتي
ہوئی یون میں اپنی جیبھ ڈال کر اسے چاٹنے لگے. میں اتیجنا میں ان ادھپكے بالوں کو
سختی سے اپنی مٹھی میں بھر کر ان کے منہ کو اپنی شرمگاہ پر دبا رہی تھی. ساتھ ساتھ
اپنی کمر کو اوپر اٹھا کر ان کی زبان کو جتنا اندر تک ہو سکے اتنا اندر گھسا لینا
چاہتی تھی. اس قسم کا جنسی میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا. روہن کے لئے جنسی
بھی ایک طرح سے ایسا کام تھا جسے پوری سنجیدگی سے اپنی عزت میں رہ کر کرنا چاہئے.
جب کی جنسی چیز ہی ایسی ہے کی اس میں جتنی حدود کی خلاف ورزی ہوتی ہے اتنا ہی مزا
آتا ہے. "ااااهه .... م * ممممممممم م ......... اكلييي ....... اووپھوفफ्फूफ्फ.........नहियीईईईई.......म्*म्म्मममममाआआ.........
كيا كاارررر رهيي هووووو
..... چچھوڈڈو ......... مجھييے "اس طرح کی آوازیں میرے منہ سے نکل رہی تھی.
كدر انکل کچھ دیر تک ہم دونو کے کھیل دیکھتے رہے. ان کا جنس پوری طرح تن چکا تھا.
مکمل طور پر تنا ہوا ان کا جنس کافی موٹا اور لمبا تھا. وہ اپنے جنس کو ہاتھوں میں
لے کر سہلا رہے تھے. مجھے ان پر رحم آ گیا اور میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کے جنس کو
اپنے ہاتھوں میں تھام لیا. اب میں اپنے ہاتھوں سے ان کے جنس کو سہلا رہی تھی. میری
آنکھیں اتیجنا سے بند ہو گئی تھی. كدر انکل میرے بوبس کو سہلا رہے تھے. پھر انہوں
نے جھک کر میرے نپل کو اپنے منہ میں بھر لیا اور ہاتھوں سے اس بوب کو مسلتے ہوئے
میرے نپل کو چوسنے لگے. گویا میرے ستن سے دودھ پی رہے ہوں.اچانک میرے بدن میں ایسا
لگا جیسے کسی نے بجلی کا تار چھو لیا دیا ہو. میں زور سے تڑپي اور میری یون سے رس
بہہ نکلا. میں كھللاس ہو کر بستر پر گر پڑی. اب كدر اںکل نے آگے بڑھ کر میرے سر کو
بالوں سے پکڑا اور میرے ہونٹوں پر اپنے جنس کو رگڑنے لگے. "لے منہ کھول اسے
منہ میں لے کر چوس" مینے اپنا منہ کھول دیا اور ان کا موٹا جنس میرے مںہ میں
گھس گیا. میں نے ان کے جنس کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ رکھا تھا جس سے ایک بار میں مکمل
جنس میرے منہ میں نہ ٹھوس دیں. پہلے وہ دھیرے دھیرے اپنے کمر سے دھکے مار رہے تھے
لیکن کچھ ہی دیر میں ان کے دھکوں کی رفتار بڑھتی گئی. وہ اب زور زور سے میرے منہ
میں دھکے لگانے لگے. میرے ہاتھ کو اپنے جنس سے انہوں نے ہٹا دیا جس سے ان کا جنس
جڑ تک میرے منہ میں گھس سکے. ان کا جنس میرے منہ کو پار کرکے میرے گلے کے اندر تک
گھس رہا تھا. لیکن آگے کہیں پھنس جانے کی وجہ سے جنس کا کچھ حصہ باہر ہی رہ رہا
تھا. میں چاہ رہی تھی کی وہ منہ میں ہی كھللاس ہو جائے جس میری یون کو کرنے کے
قابل دم نہیں بچے. لیکن ان کا ارادہ تو کچھ اور ہی تھا. "شرما تو رک کیوں گیا
پھاڑ دے سالی کی چوت." كدر اںکل نے کہا. شرما انکل کچھ دیر سستا چکے تھے سو
اب واپس میری ٹانگوں کے درمیان آ کر انہوں نے اپنے جنس کو میری یون کے چھید پر
سٹايا اور ایک دھکے میں پورے جنس کو جڑ تک اندر ڈال دیا. اپنے جنس کو مکمل اندر
کرکے وہ میرے اوپر لیٹ گئے. ان بالز میری یون کے نیچے گاڑ کے سوراخ کے اوپر ملحق
ہوئے تھے. میں نے ان کے جنس کو اپنی یون میں کافی اندر تک محسوس کیا. كدر انکل
میرے منہ میں اپنا جنس ٹھوس کر دھکے مارنا کچھ وقت کے لئے بھول کر شرما انکل کی
جنس کو میری اندام نہانی کے اندر گھستا ہوا دیکھ رہے تھے. پھر دونو ایک ساتھ دھکے
لگانے لگے. دونوں دو طرف سے زور زور سے دھکے لگا رہے تھے. میرا بدن دونو کے دھکوں
سے درمیان میں آگے پیچھے ہو رہا تھا. کچھ دیر اسی طرح کرنے کے بعد كدر انکل کا جنس
پھولنے لگا. مجھے لگا کی اب ان کا رس نکلنے والا ہی ہے. میں ان کے جنس کو اپنے منہ
سے اگل دینا چاہتی تھی لیکن انہوں نے خود ہی اپنا جنس میرے منہ سے نکال لیا. وو
میرے منہ میں نہیں شاید میری چوت میں اپنا رس ڈالنا چاہتے تھے. دو منٹ اپنے اتیجنا
کو قابو میں کر کے وو شرما انکل کے قریب آئے. "شرما ایسے نہی دونو ایک ساتھ
کریں گے." كدر اںکل نے کہا. "دونوں کیسے کریں گے ایک ساتھ." شرما
اںکل نے میری یون میں ٹھوكتے ہوئے کہا. "میں اس کی گاڑ میں رکھتا ہو اور تو
اس کی چوت پھاڑ" کہہ کر كدر انکل میرے بگل میں لیٹ گئے. شرما انکل نے اپنا
جنس میری یون سے نکال لیا. میں بستر سے اٹھی. مینے دیکھا کی كدر انکل کا موٹا لںڈ
چھت کی طرف تانے ہوئے کھڑا ہے. "آجا میرے اوپر آجا." كدر اںکل نے مجھے
بازو سے پکڑ کر اپنے اوپر کھینچا. میں اٹھ کر ان کے کمر کے دونوں طرف کے پاؤں رکھ
کر بیٹھ گئی. انہوں نے میری دونوں کولہوں کو الگ کر میرے آس ہول کے اوپر اپنا جنس
ٹكايا. "انکل میں نے کبھی اس میں نہیں لیا. بہت درد ہو گا." مینے ان سے
ہلکے سے منع کیا. مجھے معلوم تھا کی میرے منع کرنے پر بھی دونوں میں سے کوئی بھی
پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوگا. مجھے کمر سے پکڑ کر انہوں نے نیچے کھیںچا. لیکن اس
کا جنس تھوڑا بھی اندر نہی گھس پایا. "شرما تیل لے کر آ. سالی اس ہول میں اب
بھی کنواری ہے. کافی ٹائیٹ چھللا ہے." شرما انکل بستر سے اتر کر کچن میں جا
کر ایک تیل کی کٹوری لے آئے. كدر اںکل نے ڈھیر سارا تیل اپنے جنس پر لگایا اور ایک
انگلی سے کچھ تیل میرے مقعد کے اندر بھی لگایا. ایک انگلی جانے سے ہی مجھے درد
ہونے لگا تھا. میں "ااهه" کر اٹھی. واپس انہوں نے میرے دونو چوترو کو
الگ کرکے میرے مقعد دروازے پر اپنا جنس سیٹ کرکے مجھے نیچے کی طرف کھینچا. اس میں
شرما انکل بھی مدد کر رہے تھے. میرے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر مجھے نیچے کی طرف
دھکیل رہے تھے. مجھے لگا مانو میری گدا پھٹ جائے گا. لیکن اس بار بھی ان کا جنس
اندر نہیں جا پایا. اب انہوں نے مجھے اٹھا کر چوپايا بنایا اور پیچھے سے میرے چھید
پر اپنا جنس ٹیکہ کر ایک زور کا دھکا مارا. درد سے میری چیخ نکل گئی. لیکن اس بار
ان جنس کے آگے کا سوپاڑا اندر گھس گیا. مجھے بہت تیز درد ہوا اور میری چیخ نکل
گئی- "ايييييي مااااا مررررررررررررررررر گےييييييييييييييييي"
"مااا ............ اوووپھپھپھپھپھپھپھپھف ...... مااا" میں کراہ اٹھی.
آہستہ آہستہ ان کے جنس میں حرکت آ گئی اور وہ میری گدا کے اندر آگے پیچھے ہونے
لگی. آہستہ آہستہ درد بھی کم ہو گیا. کچھ دیر بعد میں نے اپنے ہاتھ سے چھو کر
دیکھا تو پایا ان کا جنس مکمل میرے ہول میں سما چکا تھا. اب اسی طرح میرے مقعد میں
دھکے مارتے ہوئے انہوں نے میری کمر کو اپنی باہوں میں لیا اور پیچھے کی طرف لڑھک
گئے. آپ کی مقعد میں ان کا جنس لئے-لئے ہی میں ان کے اوپر لیٹ گئی. اب شرما انکل
نے میری ٹانگوں کو اٹھا کر میرے سینے پر موڑ دیا. اس سے میری چوت ان کے سامنے ہو
گی. انہوں نے اب میری چوت کی پھاںکوں کو الگ کرکے میرے اندر اپنا جنس داخل کر دیا.
اب دونوں آگے اور پیچھے سے میرے دونو ہول میں دھکے مارنے لگے. میں ان کے درمیان میں
سڈوچ بنی ہوئی تھی. دونوں اس طرح زیادہ دیر نہیں کر پائے. کچھ ہی دیر میں كدر انکل
نے اپنا رس میری گدا کے اندر ڈال دیا اور نیچے سے نکل کر الگ ہو گئے. اب شرما انکل
ہی صرف دھکے لگا رہے تھے. کافی دیر تک دھکے دینے کے بعد ان کے جنس نے میری یون میں
پچکاری کی طرح رس چھوڑ دیا. ہم تینو اب بستر پر لیٹے لیٹے هاپھ رہے تھے. كدر انکل
اٹھ کر جم سے ٹھنڈے پانی کی کی بوتل نکال کر لے آئے. ہم تینو اپنی اپنی پیاس بجھا
کر تھوڑے ٹھنڈا ہوئے. مگر میں اتنی جلدی ٹھنڈا ہونے والی تھی نہی. میں دونو کے جنس
سہلا کر واپس انہیں اتیجیت کر رہی تھی. دونوں پرسکون پڑے ہوئے تھے.واپس انہیں
اتیجیت کر رہی تھی. دونوں پرسکون پڑے ہوئے تھے. مجھے غصہ تو تب آیا جب میں نے كدر
انکل کے خرراٹو کی آواز سنی. "کیا انکل اتنی جلدی سو گئے کیا." مینے
انہے ہلایا مگر ان کی آنکھ نہیں کھلی. "چل چھوڑ انہے. میں ہوں نا. تو تو میرے
جنس سے کھیل." کہہ کر وہ میرے بوبس کو مسلنے لگے. میں کروٹ بدل کر مکمل طور
پر ان کے بدن کے اوپر لیٹ گئی. میرا سر ان بالوں بھرے سینے پر رکھا ہوا تھا چوچيا
ان کے سینے کی اوپر چپٹی ہو رہی تھی. اور اندام نہانی کے اوپر ان کا جنس تھا. اسی
طرح کچھ دیر ہم لیٹے رہے. پھر میں نے اپنی دونوں کہنی کو موڑ کر ان کے سینے پر
رکھی اور اس کے سہارے اپنے چہرے کو اٹھایا. کچھ دیر تک ہماری نظریں ایک دوسرے میں
کھوئی رہی پھر مینے پوچھا. "اب تو آپ کی مراد پوری ہو گئی؟" مینے پوچھا
"ہاں ... چونکہ آپ اس بلڈنگ میں رہنے آئی ہو میں تو بس تمہیں ہی دیکھتا رہتا
تھا. رات کو تمہاری یاد کر کے کروٹیں بدلتا رہتا تھا. لیکن تم میری بہو کے عمر کی
تھی اس لیے مجھے ہمت نہیں ہو پاتا تھا کہ میں تمہیں کچھ کہوں. ...... مجھے کیا
معلوم تھا کہ گیدڑ کی قسمت میں کبھی انگور کا گچھا ٹوٹ کر بھی گر سکتا ہے. "
"ایک بات بتاو؟ خواب بھی تو اتنی خوبصورت اور سیکسی ہے. اسے چودا ہے
کبھی؟" مینے انہے ان کی پترودھو کے بارے میں پوچھا. "نہی، کبھی موقع ہی
نہیں ملا. ایک بار کوشش کی تھی. لیکن اس نے اتنی کھری کھوٹی سنائی کی میری پوری
گرمی ٹھنڈی ہو گئی. اس نے دیپو سے شکایت کرنے کی دھمکی دی تھی. اس لئے میں نے چپ
رہنا ہی مناسب سمجھا." "بیچاری ... اسے کیا معلوم کہ وہ کیا مس کر رہی
ہے." میں نے ان کے ہلکے ہلکے سے ابھرے نپلس پر اپنی زبان پھراتے ہوئے کہا.
پھر ہم دونو ایک دوسرے کو چومنے چاٹنے لگے. کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے بستر سے
اٹھایا اور اپنے ساتھ لے کر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس گئے. مجھے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے
کھڑا کرکے میرے بدن سے پیچھے کی طرف سے لپٹ گئے. ہم دونو ایک دوسرے میں ہمارے
گوتھے ہوئے عکس دیکھ رہے تھے. مجھے بہت شرم آ رہی تھی. ان کے ہاتھ میرے بوبس کو
مسل رہے تھے، میرے نپلس کو کھینچ رہے تھے، میری یون میں انگلیاں ڈال کر اندر باہر
کر رہے تھے. میں نے محسوس کیا کہ ان کا جنس اب واپس کھڑا ہونے لگا ہے. پھر وہ مجھے
لے کر بستر کے کنارے پر آ کر مجھے جھکا دیا. ان جھکنے سے میں بستر پر سوئے ہوئے
كدر انکل پر جھک گئی تھی. میرے پاؤں زمین پر تھے. پیچھے سے شرما اںکل نے اپنے جنس
کو میرے اندام نہانی کے دروازے پر مقرر کیا. ایک دھکا دیتے ہی ان کا جنس یون میں
گھس گیا. اب تو اندام نہانی میں گھسنے میں اسے کوئی تکلیف نہیں ہوئی. وہ پیچھے سے
دھکے لگانے لگے. ساتھ ساتھ وہ اپنے دونو ہاتھوں سے میرے بوبس کو بھی مسل رہے تھے.
میرا سر كدر انکل کے جنس کے کچھ اوپر ہل رہا تھا. میں نے ایک ہاتھ سے ان کے ڈھیلے
پڑے جنس کو کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کی مگر میرے بہت چوسنے اور سہلانے کے بعد بھی
ان کے جنس میں کوئی جان نہیں آئی. شرما اںکل نے اسی طرح سے کافی دیر تک دھکے مارے.
میرا واپس رس بہہ نکلا. میں نڈھال ہو کر بستر پر گر پڑی. شرما اںکل نے اپنے ہاتھوں
سے پکڑ کر میری کمر کو اپنی طرف کھینچا اور واپس دھکے مارنے لگے. کچھ ہی دیر میں
ان کا بھی رس نکل گیا. ہم واپس بستر پر آ کر سو گئے. صبح سب سے پہلے كدر انکل کی
نیند کھلی. میں نے اپنے جسم پر ان کی کچھ حرکت محسوس کی تو میں نے اپنی آنکھوں کو
تھوڑا سا کھول کر دیکھا کی وہ میری ٹانگوں کو الگ کر کے میری یون کو دیکھ رہے تھے.
میں بغیر حیلے دلے پڑی رہی. کچھ دیر بعد وہ میرے نپلس کو چوسنے لگے. ان چوسے جانے
پر نرم پڑے نپلس دوبارہ کھڑے ہونے لگے. کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر میرے سینے کے دونوں
طرف اپنی ٹاںگے رکھ کر میرے دونو بوبس کے درمیان اپنے جنس کو رکھا پھر میرے دونو
بوبس کو پکڑ کر اپنے جنس کو ان کے درمیان داب لیا پھر اپنے کمر کو آگے پیچھے کرنے
لگے. گویا وہ میری دونو چوچیو کے درمیان فرق نہیں ہوکر میری یون ہو. ان کی حرکتوں
سے مجھے بھی مزا آنے لگا. میں نے بھی پھر سے گرم ہونے لگی. لیکن میں نے اسی طرح سے
پڑے رہنا مناسب سمجھا.کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر میرے دونو ٹانگوں کے درمیان آ گیے. اب
تک ان کے اس موٹے جنس کو مینے اپنی یون میں نہیں لیا تھا. میں ان کے جنس کا اپنی
شرمگاہ میں انتظار کرنے لگی. وہ شاید جان گئے تھے کہ میں جاگ چکی ہوں اس لئے وہ
میری اندام نہانی اور گدا کے اوپر اپنے جنس کو کچھ دیر تک پھراتے رہے. میں ہار مان
کر اپنی کمر میں اضافے لگی. لیکن انہوں نے اپنے جنس کو میری یون سے ہٹا لیا. میں
نے تڑپ کر ان جنس کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر اپنی شرمگاہ میں ڈال لیا. ان جنس کو
لینے ایک بار میں ہلکی سی درديلي چبھن محسوس ہوئی لیکن اس کے بعد ان کے دھکوں سے
تو بس لطف آ گیا. میں بھی ان کا مکمل طور پر تعاون دینے لگی. وو میرے اوپر لیٹ
گئے. ان کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر پھرنے لگے. ان کے منہ سے باسی منہ کی بدبو آ رہی
تھی. لیکن اس وقت اس بدبو کی کسے پرواہ تھی. مجھے تو صرف ان دھکے یاد رہے. کافی
دیر اسی طرح کرنے کے بعد انہوں نے اپنا رس چھوڑ دیا. تب تک شرما انکل بھی اٹھ گئے
تھے. وہ بھی ہم دونو کے ساتھ ہو لئے. شام تک اسی طرح کھیل چلتے رہے. ہم تینو ایک دوسرے
کو شکست دینے کی پوری کوشش میں لگے ہوئے تھے. اس دن ان بوڈھو نے مجھے وہ مزہ دیا
جس کی میں نے کبھی تصور بھی نہیں کی تھی. كدر انکل کے ساتھ پھر تو کبھی سهواس کا
دوبارہ موقع نہیں ملا لیکن جب تک میں اس اپارٹمے ٹ میں رہی اس وقت تک میں شرما
انکل سے چدواتی رہی. آخر دونوں ایک ہی نمبر کے حرامی بوڑھے تھے.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
thanks