گھر
گھر کی کہانی
پہلی
قسط
تحریر:
پی کے ساقی
آصف کے پیروں تلے سے جیسے زمین نکل گئی تھی ۔۔۔ اسکی
ٹانگیں کانپ رہی تھیں ۔۔۔ ماتھے پر پسینہ آ رہا تھا ۔۔۔ ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو چکے تھے
۔۔۔ ایک پل کے لئے جیسے اسکا دماغ کام کرنا چھوڑ گیا ہو ۔۔۔ وہ بے یقینی کے عالم
میں دروازے سے چھپ کر اندر جھانک رہا تھا جہاں اسکے سامنے اسکی خالہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صف سولہ سال کا نوجوان اور ہینڈسم لڑکا تھا ۔۔۔ وہ
اپنی فیملی میں بہت ہے شریف اور سلجھا ہوا لڑکا مشہور تھا ۔۔۔ پڑھائی میں بھی اپنی
عمر کے سارے کزن سے تیز تھا ۔۔۔ اسکی ان عادتوں کو دیکھ کر سارے رشتہ دار ہی اس سے
بہت متاثر تھے۔۔۔ خاندان میں سب کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی کی شادی آصف سے ہی ہو
۔۔۔ مگر آصف کی امی کو کوئی جلدی نہیں تھی ۔۔۔ وہ چاہتی تھیں کہ پہلے آصف کی بڑی
بہن کی شادی ہو اس کے بعد ہی اس کا رشتہ کہیں ہوگا اور ابھی شادی کو تو کافی دیر
تھی ۔۔۔۔۔آصف کی امی کا نام طاہرہ بیگم تھا ۔۔۔ وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ بہت ہنسی
خوشی رہ رہی تھیں ۔۔۔ ان کی بڑی بیٹی ماریا ‘ جس کی عمر بیس سال تھی ‘ بی۔اے کرنے
کے بعد گھر میں ہی رہتی تھی اور گھر کے کام کرتی تھی ۔۔۔ جبکہ آصف ایف۔اے کرنے کے
بعد ابھی اپنی چھٹیاں انجوائے کر رہا تھا ۔۔۔ آصف کے والد حمید خان جنہیں سب لوگ
خان صاحب بلاتے تھے دبئی میں کام کیا کرتے تھے ۔۔۔ آصف کے ابو کا لکڑی کا کاروبار
تھا اور آصف کے خالو وسیم انہی کی کمپنی میں نوکری کرتے تھے ۔۔۔ جبکہ آصف کی خالہ
شہناز انہی کی گلی میںان کے گھر کے سامنے والے گھر میں اپنی دو بارہ سالہ جڑواں
بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں جنہیں فیملی میں سب لوگ پیار سے ماہی اور افی بلاتے
ہیں۔۔۔۔۔ماہی اور افی بہت ہی شرارتی اور سب کی لاڈلی تھیں ۔۔۔ وہ روزانہ سکول سے
سیدھا آصف کے گھر جاتیں اور ماریہ باجی سے ٹیوشن لیتی تھیں ۔۔۔ کبھی کبھی ماریہ
خود ہی خالہ کے گھر جاکر انہیں ٹیوشن دے کر آتی تھی ۔۔۔ خالہ شہناز کی خواہش تھی
کہ آصف کی امی آصف کا رشتہ ان کی دو جڑواں بیٹیوں میں سے کسی ایک بیٹی کے ساتھ
کردیں ۔۔۔ کیونکہ ایک تو آصف بہت شریف اور سلجھا ہوا لڑکا تھا جبکہ دوسری طرف آصف
کے ابو بھی کافی امیر تھے ۔۔۔ مگر آصف کی امی ہر وقت اپنی بڑی بیٹی ماریا کے رشتے
کے بارے میں پریشان رہتی تھیں ۔۔۔۔۔ماریا بے حد خوبصورت اور ذرا شوخ مزاج کی لڑکی
تھی ۔۔۔ وہ ہر ایک کے ساتھ گھل مل کر رہتی اور ہروقت خوش رہتی تھی ۔۔۔ بس اس کے دل
میں ایک ہی غم تھا وہ یہ تھا کہ ان بیس سالوں میں اسے آج تک کسی مرد کا ساتھ نصیب
نہیں ہوا تھا ۔۔۔ جس دن سے وہ جوان ہوئی تھی اس دن سے وہ اپنی شادی کی خواب دیکھ
رہی تھی ۔۔۔ مگر ابھی تک اسے کوئی امید کی کرن نظر نہیں آئی تھی ۔۔۔ سارا دن گھر
کے کام کاج کرنے اور شام کو ماہی اور افی کو پڑھانے کے بعد رات کو جب بہت تھک ہار
کر سوتی تو اسے اپنے ساتھ کسی کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی تھی ۔۔۔ مگر وہ اپنے آپ
کواس بات پر تسلی دے لیتی کہ آخر اس کی امی اس کی خالہ بھی تو اکیلی ہی رہتی ہیں
۔۔۔ مگر اس تنہائی میں اس کے موبائل نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا ۔۔۔ آصف سولہ سال
کی عمر میں بھی اپنی امیکے ساتھ ہی سوتا تھا جبکہ ماریہ کے پاس اس کا اپنا الگ
كمره تھا ۔۔۔ وہ روز رات کو کوئی پورن ویڈیو دیکھتی اور اپنی پھدی کو سہلا لیتی
۔۔۔ وہ ابھی تک کنواری تھی اس لئے وہ اپنی پھدی کے اوپر سے ہی خود کو سکون پہنچاتی
تھی ۔۔۔۔۔حمید خان اور وسیم کو دبئی گئے ہوئے پندرہ سے بیس سال ہونے کو تھے اور وہ
ان پندرہ سے بیس سالوں میں ہرسال مشکل سے ایک دو بار ہی آ پاتے تھے ۔۔۔ باقی کا
سارا سال آصف کی امی اور خالہ اکیلے ہی رہتی تھیں ۔۔۔۔۔اس دن آصف ٹی وی دیکھنے میں
مصروف تھا جب اس کی امی ٹی وی لاؤنج میں آئیں اور اس کو ایک شاپردے کر خالا کے پاس
بھیجا ۔۔۔ دبئی سے کچھ دن پہلے کچھ سامان آیا تھا جو آصف کے ابو اور اس کے خالو نے
بھیجا تھا ۔۔۔ آصف کی امی نے اپنا سامان رکھ کر باقی سامان آصف کے ہاتھ اپنی بہن
کے گھر بھجوا دیا ۔۔۔ آصف نے اپنے گھرسے نکلکر سامنے خالہ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے
کے لیے جیسے یہ دروازے پر ہاتھ رکھا تو دروازہ خود بخود ہی کھل گیا ۔۔۔ انکا محلہ
کافی محفوظ علاقے میں تھا اس لئے دن کے وقت کوئی اتنا ٹینشن نہیں لیتا تھا ۔۔۔ آصف
نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور گنگناتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا ۔۔۔ ماہی اور
افی اس وقت سکول گئی ہوئی تھیں اس لیے گھر میں کافی سناٹا تھا ۔۔۔ آصف اپنی خالہ
کو ڈھونڈتا ہوا کچن میں گیا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔ وہاں سے نکل کر اس نے نے
خالہ کو اونچی آواز دی مگر کوئی جواب نا آیا ۔۔۔ آصف کو لگا کہ کہیں اس کی خالہ کو
نیند ہی نا آ گئی ہو وہ سیدھا خالہ کے کمرے کی طرف چل پڑا ۔۔۔ مگر جیسے ہی وہ خالہ
کے کمرے کے دروازے پر پہنچا تو اس کے قدموں میں جیسے بیڑیاں پڑ گئیں ۔۔۔۔۔اس کے
لئے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا اور نا ہے اسکی سمجھ میں کچھ آ رہا تھا ۔۔۔ اس کی
پیاری خالہ اسکے سامنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:آصف کوئی بچہ نا تھا کہ اسے کسی بات کا علم نا ہو ۔۔۔
اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بہت سی پورن موویز دیکھ رکھی تھیں ۔۔۔ وہ جانتا
تھا اسکی خالہ کیا کر رہی ہیں مگر اسکے لئے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھا ۔۔۔ انسان
اچھی طرح جانتا ہے کہ اپنے جسم کے سکون کا کام ہر گھر میں ہر کوئی کرتا ہے مگر
اپنے گھر کا سوچ کر کبھی انسان کے لئے تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اسکے گھر کے لوگ
بھی ایسے کام کرتے ہیں ۔۔۔ آصف کے لئے بھی یہ کچھ ایسا ہے تھا ۔۔۔۔۔وہ دروازے پہ
کھڑا منہ کھولے حیرت سے اندر دیکھ رہا تھا جہاں اس کے سامنے بیڈ پر اس کی خالہ
ننگی لیٹی ہوئی تھیں ۔۔۔ خالہ شہناز نے ہینڈزفری لگا رکھے تھے اور ہاتھ میں موبائل
پکڑے کچھ دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ شاید اس وجہ سے انہوں نے آصف کی آواز نہ سنی تھی ۔۔۔
خالہ نے اپنی ٹانگیں کھول کر اوپر اٹھائی ہوئی تھیں اور ان کے ایک ہاتھ میں موبائل
جبکہ دوسرے ہاتھ کی تین انگلیاں ان کی پھدی کے اندر تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔۔۔
خالہ نے اپنی نظریں موبائل کی سکرین پر جما رکھی تھیں جبکہ ان کا ہاتھ بہت تیزی سے
حرکت کر رہا تھا ۔۔۔ پچ … پچ … کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔ خالہ کے
چہرے پر سکون اور مزے کے ملے جلے تاثرات آصف کو واضح طور پر نظر آ رہے تھے ۔۔۔
اسکے پورے جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور اسے اپنی ٹراوُزر ذرا تنگ ہوتی ہوئی محسوس
ہوئی ۔۔۔ اس نے جیسے ہی اپنی ٹراوزر ٹھیک کرنے کے لئے نیچے ہاتھ لگایا تو اسے حیرت
کا ایک جھٹکا لگا ۔۔۔۔۔آصف کا لن اپنی خالہ کو ننگا دیکھ کر ٹائٹ ہو چکا تھا ۔۔۔
پہلی بار اس نے کسی عورت کو حقیقت میں ننگا دیکھا تھا ۔۔۔ اس نے پھر سے اپنا دھیان
خالہ کی طرف کر دیا ۔۔۔ تبھی ایک دم خالہ کی چیخ کیآواز آصف کے کانوں میں پڑی ۔۔۔
جسے سن کر ایک پل کیلئے آصف بھی ڈر گیا ۔۔۔ شہناز خالہ نے آصف کو دروازے میں کھڑا
ہوا دیکھ لیا تھا ۔۔۔ اور انہوں نے چیخ مار کر اپنے جسم کو چادر سے چھپا لیا تھا
۔۔۔ ڈر کے مارے آصف کی دھڑکن بھی ایک سیکنڈ کے لئے جیسے رک سی گئی ۔۔۔ مگر اس سے
پہلے کہ وہوہاں سے ہٹ پاتا یا واپس باہر کی طرف بھاگتا اندر سے خالہ کی گرج دار
آواز آئی ۔۔۔۔۔۔ ” آصف ۔۔۔۔ آصف ۔۔۔ اندر آوُ ۔۔۔ “۔۔آصف خالہ کی آواز میں شدید
غصے کو محسوس کر سکتا تھا ۔۔۔ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا اس لیے وہ چپ چاپ
خالہ کے کمرے میں داخل ہوا اور سر جھکا کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔۔ غصے کے
مارے شہناز خالا کا پورا چہرہ لال ہو چکا تھا ۔۔۔ اور ان کی آنکھوں سے جیسے آگ برس
رہی ہو ۔۔۔ انہوں نے بیڈ کی سفید چادر سے اپنے آپ کو ڈھانپ رکھا تھا اور ایک ہاتھ
سے اس چادر کو اپنے سینے پر رکھے اپنی چھاتی کو چھپایا ہوا تھا ۔۔۔ آصف کو خالہ کے
ننگے کندھے نظر آ رہے تھے ۔۔۔ خالہ نے اپنے بالوں کا جوڑا بنا رکھا تھا جس سے ان
کی سفید اور لمبی گردن کے ساتھ ساتھ گورے اور ننگے کندھے بھی آصف کو نظر آ رہے تھے
۔۔۔ مگر اس وقت آصف کو صرف اپنے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار نظر آرہی تھی ۔۔۔ خالہ نے
شدید غصے بھری آواز میں پوچھا ۔۔۔۔۔۔خالہ : ” یہ کیا گھٹیا حرکت ہے ۔۔۔ شرم نہیں
آتی کسیکے روم میں ایسے نہیں جھانکتے ۔۔۔ اور بے شرموں کی طرح نا جانے کب سے کھڑے
ہوۓ تھے ۔۔۔ بتاؤ ۔۔۔ ہے کوئی جواب تمھارے پاس ۔۔۔ میں ابھی تمہاری
امی کو فون کرتی ہوں اور بتاتی ہوں تم نے جو گھٹیا حرکت کی ہے ۔۔۔ “۔۔امی کے نام
کی دھمکی سن کر ایک دم سے آصف کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔۔۔ اسے لگا جیسے اس کے سر پر
لٹکتی ہوئی تلوار ایک دم اس کے سر پر آگری ہو ۔۔۔ اس کی ہمت نے ایک دم جواب دے دیا
اور وہ ایک دم بلک بلک کر رونے لگا اور ہاتھ جوڑ کر بولا ۔۔۔۔۔آصف : ” خالہ پلیز
۔۔۔ امی کو کچھ نا بتائیے گا ۔۔۔ وہ مجھے جان سے مار دین گی ۔۔۔ میں تو بس آپ کو
یہشاپر دینے آیا تھا آپ کے گھر کا دروازہ کھولا تو میں خودی اندر آگیا مجھے کیا
پتا آپ یہاں یہ سب کچھ کر رہی ہوں گی ۔۔۔ پلیز خالہ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔ میں
جانتا ہوں میں نے بہت ہی گھٹیا حرکت کی ہے لیکن جب میں نے آپ کو دیکھا تو پتا نہیں
مجھے کیا ہوا کہ میں وہاں سے ہل ہی نہیں پایا ۔۔۔ میں اپنے ہوش میں ہی نہیں تھا
میں بس آپ کو دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔ سوری خالہ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔ آپ اتنی پیاری
لگیں مجھے میں خود کو دیکھنے سے روک ہی نہیں پایا ۔۔۔ معاف کر دیں خالہ دوبارہ
ایسا نہیں ہوگا ۔۔۔ “۔۔آصف کا رو رو کر برا حال تھا ۔۔۔ جبکہ شہناز خالہ کے چہرے
پر آصف بات سن کر ایک مسکراہٹ آئی ۔۔۔ نہ جانے کتنے عرصے بعد کسی کہ منہ سے اپنے
لیے تعریف سننا اچھا لگا تھا ۔۔۔ اور اوپر سے آصف بلاکا معصوم لگ رہا تھا ۔۔۔
شہناز نے فوراً ہی مسکراہٹ چھپائی اور بڑے سپاٹ لہجے میں آصف سے کہا ۔۔۔۔خالہ : ”
چلو آج تو میں تمہیں معاف کر رہی ہوں لیکن خبردار اگر ایسی حرکت دوبارہ کبھی کی تو
۔۔۔ اور پریشان نہ ہو میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گی اور تم نے بھی یہ بات
دوبارہ کبھی کسی کے سامنے نہیں دوہرانی ۔۔۔ اب تم جاؤ اور یہ شاپر وہاں صوفے پہ
رکھتے جاوُ ۔۔۔ “۔آصف ایک دم سے کھل اٹھا ۔۔۔ اور فوراً بولا ۔۔۔۔آصف : ” خالہ آپ
بہت اچھی ہیں ۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں آگے سے احتیاط سے کام لوں گا ۔۔۔ آپ بس کسی کو
کچھ نہ بتائے گا ۔۔۔ میں آپ کے سارے کام کر دوں گاجو بھی آپ کہیں گی بس آپ امی کو شکایت
نہ لگائے گا ۔۔۔ “۔خالہ : ” اچھا اچھا اب زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔
بولا نا کسی کو نہیں بتاؤں گی تم اب یہاں سے جاوُ ۔۔۔ باقی اس بارے میں بعد میں
بات کریں گے ۔۔۔ “۔۔آصف جلدی سے بیڈ سے اٹھا اور شاپر کو صوفے پررکھتے ہی باہر کی
طرف چل پڑا ۔۔۔ جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچا اسے پیچھے سے خالہ نے آواز دی ۔۔۔
آصف جیسے ہی پیچھے مڑا اسے ایک بار پھر شدید جھٹکا لگا ۔۔۔ کیونکہ خالہ نے جس ہاتھ
سے چادر کو پکڑ کر اپنی چھاتی کو چھپا رکھا تھا وہ ہاتھ انہوں نے نیچے کر کہ اپنی
گود میں رکھا ہوا تھا ۔۔۔ اور چادر بھی گر کر انکی گود میں پڑی تھی جس سے خالہ کا
جسم آگے سے مکمل طور پر ننگا تھا ۔۔۔ آصف کو لگا جیسے اس کی قسمت ایک دم اس پر
مہربان ہو گئی ہو ۔۔۔ خالہ کے ممے بڑے سائز کے سفید اور گول تھے اور انکے ہلکے
براؤن رنگ کے نیپلز غضب ڈھا رہے تھے ۔۔۔ آصف کی جیسے ساری دنیا ایک دم تھم سیگئی
۔۔۔ خالہ جان بوجھ کر اسے دعوت نظارہ دے دہی تھیں ۔۔۔ اس کا دل چاہا کہ وقت یہیں
تھم جائے اور وہ خالہ کے ممے دیکھتا ہی رہے ۔۔۔ شہناز کو اپنےبھانجے کا اس طرح
ترسی ہوئی نظر سے دیکھنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ اسے اپنا آپ خوبصورت لگنے لگا ۔۔۔
اور آصف کی ٹراوُزر میں بنا تنبو نما ابھار اسے اپنی تعریف لگا ۔۔۔ اس ابھار سے
شہناز کو اچھی طرح آئیڈیا ہو چکا تھا کہ آصف بھی اپنے باپ پر گیا ہے ۔۔۔ اسے اچھی
طرح یاد تھا کہ اس کی بڑی بہن کتنی تعریفیں کرتی تھی اپنے شوہر خان صاحب کے لن کے
سائز کے بارے میں ۔۔۔ اور اسے حیرت تھی کہ سولہ سال کی عمر میں ہی آصفکا لن اسکے
شوہر وسیم کے برابر تھا ۔۔۔۔۔شہناز چاہتی تھی کہ اسکا بھانجا اسی ستائشی نظروں سے
اسے دیکھتا رہے اور سرہاتا رہے ۔۔۔ مگر وہ اتنا جلدی رشتوں کی حد کو پھلانگنا نہیں
چاہتی تھی ۔۔۔ آصف خیالوں کی دنیا میں کھویا شاید اپنی خالہ کے ممے چوسنے کا خواب
دیکھ رہا تھا تبھیوہ خالہ کی آواز سے چونکا ۔۔۔۔خالہ : ” بس کر دو اب بھانجے صاحب
۔۔۔ اور جاتے ہوے دروازہ بند کرتے جانا ۔۔۔ ” خالہ کے چہرے پر ایک شرارت بھری
مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔آصف ایک دم شرمندہ سا ہوا اور واپس دروازے کی طرف مڑا ۔۔۔ اس نے
دروازہ بند کرتے ہوے مڑ کر اپنی خالہ کو دیکھا تو وہ بھی اس دیکھ رہی تھیں اور ان
دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں ۔۔۔ آصف جاتے ہوے ایک آخری دیدار کی خاطر دروازہ آہستہ
آہستہ بند کر رہا تھا ۔۔۔ جبکہ اسکی خالہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے بیڈ پر لیٹ
چکی تھی اور انکا ایک ہاتھ پھر سے انکی ٹانگوں کے درمیان حرکت کر رہا تھا ۔۔۔ آصف
نے ایک نظر بھر کر خالہ کو دیکھا اور انکے مموں کی دل ہی دل میں تعریف کرتے ہوے
درواز بند کر دیا ۔۔۔۔۔وہاں سے نکل کر جب وہ بیرونی دروازے تک پہنچا تو اسے احساس
ہوا کہ اسکے ٹراوُزر میں اسکا کھڑا ہوا لن تنبو بنا چکا ہے ۔۔۔ وہ ڈرتے ڈرتے خالہ
کے گھر سے نکلا تو اسکی خوش قسمتی تھی کہ گلی میں دور دور تک کوئی نہیں تھا ۔۔۔
آصف جلدی سے بھاگ کر اپنے گھر میں داخل ہوگیا ۔۔۔ اسکی امی کچن میں کام کر رہی
تھیں ۔۔۔ آصف ان سے نظریں بچا کر سیدھا امی کے کمرے میں باتھ روم میں گھس گیا ۔۔۔
آصف کیوں کہ اسی کمرے میں سوتا تھا اس لئے اسکے لئے آسانی ہو گئی کہ امی کا کمرہ
گھر کہ شروع میں ہی تھا ۔۔۔ جلدی سے باتھ روم میں جاتے ہی آصف نے اپنے کپڑے اتار
دئیے ۔۔۔ اور اپنے لن کو سہلانے لگا ۔۔۔ اسکی آنکھوں کے سامنے خالہ کی پھدی میں جاتی
انگلیاں اور انکے بڑے ممے گھوم رہے تھے اور اسکے ہاتھ کی رفتارمزید تیز ہو گئی ۔۔۔
اسکا دماغ کام کرنے سے قاصر تھا بس ہوس سوار تھی ۔۔۔ اپنے لن کی مٹھ مارتے ہوے اسے
سامنے کھونٹی پر امی کا برا نظرآیا ۔۔۔ ہوس اس قدر سوار تھی کہ آصف نے وہ برا
کھینچا اور چومنے اور سونگھنے لگا ۔۔۔ اسے امی کی ایک مانوس خوشبو آنے لگی ۔۔۔ اور
اسکے ہاتھ کی رفتار مزید تیز ہوگئی ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں امی کی خوشبواور خالہ کے
ننگے جسم کر خیال نے آصف کو فارغ ہونے پر مجبور کر دیا اور جھٹکے کھاتے ہوے وہ
زندگی میں پہلی بار اتنی شدت سے فارغ ہوا تھا ۔۔۔۔۔آصف باہر ٹی۔وی لاؤنج میں آیا
جہاں ماریا ماہی اور افی کو ٹیوشن پڑھا رہی تھی ۔۔۔ وہاں اسکی نظر صوفے پر بیٹھی
اسکی امی پر پڑی ۔۔۔ طاہرہ بیگمکے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں ۔۔۔ آصف اٹھ کر
انکے ساتھ صوفے پر جا بیٹھا اور بڑے فکر مندی کے انداز میں انکی پریشانی کی وجہ
پوچھی ۔۔۔ طاہرہ بیگم نے ایک نظر اپنے بیٹے پر ڈالی اور جلدی سے نظر چرا کر ” کچھ
نہیں ” کہتے ہوے کچن میں چلی گئیں ۔۔۔ آصف اپنی مستی میں مست خیالوں میں کھو گیا
اور طاہرہ بیگم کچن میں کھڑی اپنے جذبات کی تشریح کرنے کی ناکام کوشش میں مصروفتھی
۔۔۔ اس وقت اسکے دل میں غصے اور شرمندگی کے جذبات گردش کر رہے تھے ۔۔۔ غصہ اس بات
کا کہ ابھی ابھی اس نے اپنے بیٹے کو اپنی ماں کے بریزر کے ساتھ مٹھ مارتے دیکھا
تھا ۔۔۔ اور شرمندگی اس بات کی تھی کہ طاہرہ نے جب اپنے بیٹے کو اپنے بریزر کے
ساتھ مٹھ مارتے دیکھا تو اسے روکنے کے بجائے وہ اسے دیکھتی ہی رہی ۔۔۔ وہایک پل کے
لئے اسکے بیٹے سے ایک مرد بن گیا جو اسکے نام کی مٹھ مار رہا تھا ۔۔۔ طاہرہ کو یہ
اچھالگا تھا اور اسی بات کی شرمندگی اسے کھائے جا رہی تھی ۔۔۔
سارا دن ایک عجیب کشمکش میں گزارنے کے بعد بھی طاہرہ یہ
سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخراسے اپنے بیٹے کو اپنی ماں کے برا کو چومتے اور سونگھتے
ہوے مٹھ مارتے دیکھ کر اچھا کیوں لگا تھا ۔۔۔ وہ کبھی خود کو کوسنے لگتی تو کبھی
وہ منظر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگتا ۔۔۔ ایک طرف بیٹے کی اس حرکت پر مصنوئی
غصہ اور دوسری طرف اپنے بیٹے کی محبت کی شدت ۔۔۔ وہ پریشان تھی کہ آخر کس جذبے کو
چھپائے ۔۔۔۔۔اسی بےچینی کے عالَم میں سارا دن گزارنے کے بعد رات کو جب طاہرہ بیڈ
پر آ کر لیٹی تو وہاں پہلے سے لیٹے اپنے بیٹے آصف کو زیرو بلب کی مدھم روشنی میں
دیکھنے لگی ۔۔۔ وہ نیند میں بہت پر سکون اور معصوم لگ رہا تھا ۔۔۔ طاہرہ نے ایک پل
کے لئے سوچا کہ اپنی ماں کی نیند اور ہوش اڑانے کے بعد خود مزے سے سو رہا ہے ۔۔۔
اسکو دیکھتے ہوئے نا جانے کیوں طاہرہ کو اس پر پیار آنے لگا اور وہ دل ہی دل میں
سوچنے لگی ۔۔۔۔۔طاہرہ : ” ۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر ایسا کیا دیکھا اس نے مجھ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔
چالیس سال کی عورت میں ایسی کیا دلچسبی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے باپ نے تو کبھی
نظر بھر کر نہیں دیکھا مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح چاہا
جانا اتنا حسین احساس ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا میں اتنی اچھی لگتی ہوں اسکو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ میرا برا چومتے ہوے مجھے یاد کر کہ اپنے لن کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے
خوبصورت لن کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا موٹا اور پیارا لن ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو کبھی احساس ہے
نہیں ہوا کہ میرا بیٹا اتنا بڑا ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نا جانے کیا سوچ رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا تصور کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے چومنے کا تصور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے
چھونے کا تصور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری برا کے ساتھ کھیل رہا تھا ضرور میرے مموں کو چوسنے
کا تصور کر رہا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیطان کہیں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “۔۔طاہرہ کی بے چینی اب
ایک انوکھی خوشی میں بدل چکی تھی ۔۔۔ وہ اپنے بیٹے کو اپنے ممے چوستے ہوےتصور کرنے
لگی ۔۔۔ طاہرہ آصف پر جھکی اور اسکا گال چوم لیا ۔۔۔ آصف گہری نیند میں تھا ۔۔۔
طاہرہ نے جیسے ہے اپنے جوان بیٹے کو چوما تو ایک عجیب اور میٹھی سنسناہٹ اسے اپنی
ریڑھ کی ہڈی میں محسوس ہوئی ۔۔۔ وہ پیچھے ہٹتے ہوے ایک بار رکی اور پھر سے بہت
آرام سے اور پیار سے اپنے بیٹے کو چوم لیا ۔۔۔ طاہرہ کو بہت پیار آ رہا تھا ۔۔۔
اور ایک مرد کا ساتھ اسے اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ اپنے بیٹےکو چومتے ہوے طاہرہ کے دل
کی دھڑکن بہت تیز ہو چکی تھی ۔۔۔ طاہرہ کچھ سوچے بغیر اپنے ہاتھ کو اپنی شلوار کے
اوپر سے اپنی پھدی پر رگڑنے لگی ۔۔۔ ایک میٹھا احساس اسے چاروں طرف سے جکڑ رہا تھا
۔۔۔ اسکی پھدی پہلے سے ہی کافی گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔طاہرہ آنکھیں بند کر کے بیڈ
پر لیٹ چکی تھی ۔۔۔ وہ اپنی آنکھیں بند کے اپنے بیٹے کو مٹھ مارتے ہوے دیکھ سکتی
تھی ۔۔۔ طاہرہ کا ہاتھ اسکے مموںکو دبانے لگا اور دوسرا ہاتھ اسکے قمیض کے دامن
کوہٹا کر اسکی شلوار کے اندر اسکی پینٹی میں گھس چکا تھا ۔۔۔ طاہرہ نے اپنی
انگلیوں کو اپنی پھدی پر رگڑتے ہوے دو انگلیاں اندر گھسا دیں ۔۔۔ ایک ‘ پچ ‘ کی
آواز کے ساتھ دو انگلیاں اسکی گیلی پھدی میں گھس چکی تھیں ۔۔۔ ایک مزے کی شدید لہر
اسے بہا لے جا رہی تھی ۔۔۔ طاہرہ بغیر کسی خوف اور شرمندگی کے اپنے بیٹے کے لن کا
تصور کرتے ہوے اپنی پھدی میں انگلیاں اندر باہر کر رہی تھی ۔۔۔ اپنے ممے دباتے ہوے
طاہرہ کی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹے کا جھٹکے کھاتا ہوا جوان لن لہرانے لگا ۔۔۔
طاہرہ کی آنکھیں بند اور منہ کھل چکا تھا ۔۔۔ اسے اپنا سارا خون ٹانگوں کی طرف
جاتا محسوس ہوا ۔۔۔ اسکی انگلیوں کی رفتار اور کمرے میں گونجتی پچ پچ کی آواز شدت
اختیار کر چکی تھی ۔۔۔ آخری بار یہ احساس اسے کب ہوا شاید اسے یاد بھی نہیں تھا
اور نا ہی وہ یاد کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ایک منٹ سے بھی کم وقت میں وہ فارغ ہونے لگی
تھی ۔۔۔ طاہرہ نے جھٹکے کھاتے ہوے آنکھیں کھول کر اپنے بیٹے کو سوتے ہوے دیکھا ۔۔۔
اور اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوے وہ فارغ ہونے لگی ۔۔۔ طاہرہ کا پوراجسم جھٹکے کھاتا
ہوا اچھل رہا تھا ۔۔۔ اسکی ساری پینٹی گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔ اوروہ فارغ گئی
۔۔۔۔۔طاہرہ نے اپنی گیلی انگلیوں کو دیکھا تو اسکے ذہنمیں شرارت سوجھی ۔۔۔ اس نے
جھک کر ان گیلی انگلیوں کو اپنے بیٹے کے ہونٹوں پر پھیرا ۔۔۔ آصف نیند میں ہی اپنے
ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا کروٹ بدل کر سوگیا ۔۔۔ طاہرہ کی ایک دم ہنسی نکل گئی کہ
ابھی ابھی اسکے بیٹے نے اپنی ماں کی پھدی کو ٹیسٹ کیا ۔۔۔ وہ ابھی تک مکمل ہوش میں
نا تھی ۔۔۔ وہ اپنے بیڈ سے اٹھی اور باتھ روم میں چلیگئی ۔۔۔ وہاں طاہرہ نے خود کو
صاف کیا اور کچھ سوچتے ہوے اس نے اپنی گیلی پینٹی کھونٹی پر ہی لٹکا دی اور باہر آ
کر سو گئی ۔۔۔۔۔صبح آصف کو ناشتے کے لئے اٹھا کر خود کچن میں چلی گئی ۔۔۔ طاہرہ کو
کچن میں کام کرتے ہوے رات کا منظر یاد آیا تو اسے شرمندگی کا ایک ایسا جھٹکا لگا
کہ اسے خود سے ہی گھن آنے لگی ۔۔۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے شوہر
کے علاوہ کسی اور مرد کا سوچے گی ۔۔۔ اور وہ مرد کوئی اور نہیں اسکا سگا بیٹا تھا
۔۔۔ رات کو شاید وہ مکمل ہوش میں نا تھی مگر اب ہوش آیا تو پچھتاوا اسکی سانس
روکنے لگا ۔۔۔ ایک دم اسے اپنی پینٹی کا خیال آیا ۔۔۔ وہ بھاگی بھاگی اپنے کمرے کی
طرف گئی تو آصف نہا کر باہر نکل آیا تھا ۔۔۔طاہرہ نے اسے کچن میں بھیج کر باتھ روم
کی طرف رخ کیا ۔۔۔ باتھ روم میں جاتے ہی اسے ایک بار پھر اسے شرمندگی نے گھیر لیا
۔۔۔ کیونکہ اسکی پینٹی ایک کھونٹی سے دوسری کھونٹی پر شفٹ ہو چکی تھی ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
thanks