میں
اور میری بھانجی
تحریر: پی کے ساقی
میرا نام
خالد جمیل ہے، اس وقت میری عمر 45 سال ہے، میں جس واقعے کو بیان کرنے لگا ہوں یعنی
بھانجی سے سیکس، یہ آج سے کوئی چھ ماہ پہلے پیش آیا ہے، ہمارے معاشرے میں ایسے
واقعات بہت کم ہوتے ہیں اور اس لیے ان کی اہمیت اور حساسیت بہت زیادہ ہے، اس طرح
کےواقعات کے پیچھےبہت سارے سارے چھوٹے واقعات اور حالات ہوتے ہیں، میں سمجھتا ہوں
جب تک میں آپ کو پورے حالات و واقعات سے آگاہ نہیں کروں گا تو کہانی کہانی نہیں
لگے گی، کہانی میں شروع کرتا ہو ں ،، ہم دو بہن بھائی ہیں میری بڑی بہن مجھ سے 14
سال بڑی ہے، جب میں تیسری جماعت میں تھا تو میری بہن کی شادی ہوگئی، میرا بہنوئی
ہمارا رشتہ دار تھا ، اس کا نام افضل اور قریبی شہر میں ریلوے میں کلرک تھا، شادی
کے بعد وہ میری بہن کو وہ اپنے ساتھ شہر لے گیا اور وہی رہنے لگے، میں اس وقت
چھوٹا تھا اور کبھی کبھی والدین کبھی شہر جاتے تو بہن سے ملنے جاتا تھا، میری بہن
کی شادی کے پہلے سال بیٹی پیدا ہوئی اور شاید دو سال بعد ایک بیٹا پیدا ہوا، بیٹی
کا نام سندس تھا، وقت چلتا رہا، 1990 میں نے میٹرک کا امتحان دیا تو رزلٹ کے
انتظار فارغ تھا، اتفاق سے انھی دنوں میرا بہنوئی افضل گاؤں آیا تو مجھے ساتھ لے
گیا، ان کا ڈی ٹائپ کا ریلوے کی کالونی میں ایک کوارٹر تھا، میں پہلے بھی کئی دفعہ
وہاں جا چکا تھا لیکن ایک دو دن سے زیادہ نہیں رکا اور اس وقت میری حیثیت مہمان کی
ہوتی تھی، اب مجھے کالونی میں رہتے کافی دن ہوگئے تھے، شہر اور میرے بہن بہنوئی کا
ماحول گاؤں سے کافی مختلف تھا، میری بہن پردہ نہیں کرتی تھی، جبکہ گاؤں میں سب
پردہ کرتی تھی افضل اور میری بہن کا آپس، میں بہت پیار اور بات چیت کا انداز بہت
کھلا ڈلا تھا، جو میرے گاؤں کے گھروں سے بلکل مختلف تھا ، ہمارے گاؤں میں میاں
بیوی آپس میں بہت احتیاط سے گفتگو کرتے تھے، میرے لیے یہ سب کچھ نیا تھا اور مجھے
اچھا نہیں لگتا تھا، خاص کر جب میری بہن کا جب جی چاہتا گھر سے نکل کر کہیں بھی جا
سکتی تھی اور افضل کی کوئی سختی نہیں تھی، اس وقت سندس کی عمر 8 سال تھی، لیکن وہ
تھی بہت تیز اور سمجھ دار تھی، مجھے کالونی رہتے ہوئے 20 دن کے قریب ہوگئے تو
کالونی میں ایک گھر میں شادی تھی، شام میں مجھے باتوں میں پتا چلا کہ باجی رات کو
شادی والے گھر رہے گی اور بچے بھی سات ہونگے، رات کو میں اور میرا بہنوئی بھی شادی
والے گھر گئے اور رات کو بارہ بجے واپس کوارٹر پر آگئے، کواٹر کے ایک کمرے میں
ائیر کولر تھا، افضل نے مجھے اس کے سامنے بیڈ پر سونے کے لیے کہا، پہلے وہاں وہ
باجی کے ساتھ سوتے تھے، خیر میں وہاں سو گیا، افضل بھی میرے ساتھ بیڈ پر لیٹ گیا
اور لائیٹ آف کر دی، رات کو کسی وقت مجھےمحسوس ہوا کہ کوئی میری گانڈ پر ہاتھ پھیر
رہا ہے، جلد ہی مجھے پتا چل گیا کہ یہ حرکت افضل کررہاہے، مجھے برا تو لگا لیکن
میں کچھ بول نہ سکا، میں یہ بتا دوں کہ میں بہت خوبصورت تھا، اور گاؤں میں بہت
سارے ٹھرکی لونڈے باز مجھ پر نظر رکھتے تھے، جس کی وجہ سے میں سیکس اور اس طرح کی
تمام حرکات سے اچھی طرح واقف تھا، میں دو لڑکوں کی گانڈ بھی مار چکا تھا، خیر جب
افضل کے ہاتھ پھیرنے سے میں پوری طرح جاگ گیاتو میں نے اپنا چہرہ اس کی طرح کردیا،
کچھ دیر تو اس نے آرام کیا لیکن اس نے میرے لن کو پکڑ لیا، میں آنکھ کھول کراس کی طرف
دیکھا تو اس کا منہ دوسری طرف تھا اور وہ ہاتھ پیچھے کرکے میرے لن کو پکڑا ہوا
تھا، ہلکےاندھیرے میں اس بڑی سی سفید گانڈ صاف نظر آرہی تھی ہے، اس نے شلوار اتاری
ہوئی تھی، میں خاموشی سے لیٹا رہا، تھوڑی دیر میں میرا لن فل کھڑا ہو گیا، ، افضل
نے اپنی گانڈ کو پیچھے کیا اور میرے لن کو اپنی گانڈ پر رگڑنا شروع کردیا، مجھے
بھی اب مزا آنے لگ گیا تھا لیکن میں اب بھی شو ایسے کر رہا تھا کہ جیسے کہ میں سو
رہا ہوں، افضل نے اپنی گاںڈ کے سوراخ پر اور میرے لن پر تھوک لگائی، افضل کی گانڈ
کا سوراخ بہت کھلا تھا، اس نے جیسے ہی لن سوراخ پر رکھ تھوڑا پیچھے ہوا تو میرا
پورا، لن اس کی گانڈ میں چلا گیا، اس نے ہلنے کے بجائے گانڈ کو کھولنا اور بھینچنا
شروع کر دیا، میں مزے کی بلندیوں پر تھا ۔کچھ دیر بعد اس نے ہلنا شروع کردیا، مجھے
بہت مزا آرہا تھا، 8,9;منٹ بعد میں اپنے بہنوئی کی گانڈ میں فارغ ہوگیا، کچھ دیر
تک تو وہ آرام سے پڑا رہا، پھر اٹھا اور باتھ روم میں چلا گیا، واپسی پر اس نے
مجھے کہا کہ لن کو دھو لو لیکن میں شرم سے ویسے ہی ویسے ہی پڑا رہا، جیسے میں سو
رہا ہو، کچھ دیر بعد اس نے پھر میرے لن کو پکڑکر دبانا شروع کردیا لیکن میرے لن
میں سختی نہیں آئی تھی، کچھ دیر بعد اس نے میرے لن کو چوسنا شروع کردیا، مجھے بہت
مزا آنے لگا، اور لن دوبارہ فل کھڑا ہو گیا، کچھ دیر چوسنے کے بعد پھر لن کو اپنی
گانڈ پر فٹ کیا اور اندر لے لیا، اور آگے پیچھے ہونے لگا مجھے مزا تو آرہا تھا
لیکن پہلے دفعہ جیسا نہیں تھا، ادھے گھنٹے کے بعد میں فارغ ہوا، اس وقت تک وہ کافی
تھک گیا تھا، دوبارہ اپنی گانڈ دھو کر وہ سو گیا، اور مجھے بھی نیند آگئی، صبح جب
میری جب آنکھ کھلی تو باجی ناشتہ بنا رہی تھی اور افضل اس کے پاس بیٹھا تھا، انکے
کواٹر میں کوئی باقاعدہ کچن نہیں تھا، برآمدےکے ایک کونے میں بجلی کا ہیٹر اور آگ
جلانے کی انگیٹھی تھی، باجی اور افضل بلکل میرے کمرے کےدروازےپر بیٹھے تھے ۔ان کی
باتیں صاف سنائی دے رہی تھی ۔افضل نے باجی سے رات والی شادی کی باتیں کر رہا تھا،
باتوں میں ہی اس نے باجی سے پوچھا کہ سلیمان کو ٹائم دیا تھا، تو باجی نے کہا ہاں
لیکن گیراج میں مزا نہیں آیا، سندس بھی ساتھ تھی ، اس لیے زیادہ کھل کے نہیں کیا،
بس پانی نکالا ہے،گیراج کا دروازہ بھی کھلا تھا، میں سلیمان کو جانتا تھا، وہ افضل
کے آفس میں ہی کلرک تھا، اور غیر شادی شدہ تھا اور گھر بھی ایک دو دفعہ آیا تھا،
رات کو بھی شادی میں ملا تھا، اس کی رہایش کالونی میں نہیں تھی، یہ باتیں سن کر
میری حالت بہت اجیب ہو رہی تھی، اتنے میں باجی نے پوچھا کہ خالد کو تو تنگ نہیں
کیا تو افضل نے کہا کہ تیرا بھائی لگتا تو نازک ہے لیکن لن بہت ٹائیٹ ہے، میر ی تو
بس ہوگئی ہے ۔میں تو حیران ہوگیا کہ یہ میاں بیوی ہیں کہ کوئی دوست، باجی نے افضل
سے پوچھا کہ کروایا ہی ہے یا کیا ہی ہے تو افضل نے کہا کہ کرنےوالا کام نہیں ہو
سکا، باجی اور اس کی یہ باتیں سن کر میری عجیب حالت تھی، غصہ اور بے بسی کی عجیب
حالت تھی، میرا دل کرتا تھا کی باجی اور افضل کو گولی ماردوں، مجھے باجی اور افضل
دونوں سے گھن آرہی تھی اور ساتھ شرم بھی، میں باجی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں پا
رہا تھا، ، ناشتہ تیار کر کے باجی پھر باہر چلی گئی تھی، افضل نے مجھے کہا کہ نہا
کر ناشتہ کر لو، میں اٹھا اور نہا کر جب میں آیا تو دیکھا کہ میرا بہنوعی کمرے میں
ٹی وی دیکھ رہا ہے، دوسرے کمرے میں میرے دو جوڑے کپڑے پڑے تھے، میں نے وہ اٹھائے
اور گاؤں آگیا، اس کہانی کے بیان کرنے کا مقصد ہے کہ سندس بھانجھی جس سے میں نے
بہت بعد میں سیکس کیا تھا، آپ اندازہ لگا لی وہ کس ماحول میں جوان ہوئی تھی، گو کہ
وہ تھی تو میری سگی بھانجی لیکن میں اپنی باجی اور افضل جس کردار سے واقف تھا، اس
کی وجہ سے میرے دل سے بہن والی عزت ختم ہو گئی تھی، میں کچھ بتائے بغیر گاؤں آگیا،
میرے اس طرح آنے سے کوئی زیادہ مسئلہ نہ ہوا، کچھ دن بعد میرا بہنوئی گاؤں آیا تو
ہمارے گھر آیا، اس نے پھر مجھے لے جانے کی بات کی لیکن میں نے داخلہ کا بہانہ بنا
کر انکار کردیا، وقت اپنی رفتار سے آگے کی طرف سرکتا رہا، میرا میٹرک کا رزلٹ آگیا
تھا، کچھ دنوں بعد میں عسکری ادارے میں بھرتی ہو کر کراچی چلا گیا، شروع میں ٹرینگ
کی دوران کم چھٹی اور ویسے بھی کراچی سے پنجاب 5،6 ماہ بعد ہی بندہ چھٹی آتا ہے،
میرے بھرتی ہونے کے بعد میرا اپنی باجی سے تقریباً رابطہ ختم ہی ہو گیا تھا، اس
زمانے میں موبائل فون نہیں تھے، پی سی او ز سے پی ٹی سی ایل فون ہوتے تھے جو کہ
کافی مہنگے ہوتے تھے، 2004 ء میں جب شادی ہونے لگی تو تو بہت لمبے عرصے بعد میری
اپنی باجی اور بھانجی سے ملاقات ہو رہی تھی ، پچھلے 14 سال میں ہماری بڑی مشکل سے
3،4 ملاقاتیں ہوئی تھی لیکن بس دعا سلام اور حال احوال تک ہی محدود رہی تھی، میری
شادی سے ایک ہفتہ باجی، سندس اور دوسرے بچے آگئے تھے، سندس بہت خوبصورت اور جوان
ہو گئی تھی، شہری ماحول کی وجہ سے بہت الگ تھلگ نظر آتی تھی، گو کہ میرے دل میں اس
کے ساتھ سیکس کا خیال نہیں تھا لیکن ایک بات میرے دل کی گہرائی میں بیٹھ چکی تھی کہ
سندس بھی اپنی ماں اور باپ کی طرح چدکڑ ہوگی، مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج
نہیں کہ میرا ٹھرکی دل سندس کی قربت سے خوش ہوتا تھا اور میرا دل کرتا تھا کہ اس
سے باتیں کروں، اس لیے میرا سندس کے ساتھ رویہ بہت ہی پیارا تھا، جس کو وہ ماموں
کا پیار سمجھتی تھی، جبکہ مجھے ہر وقت اس پر شک رہتا تھا، شادی کے دوران میری اور
بھانجی کی اچھی اچھی خاصی دوستی اور فرینکنس ہوگئی تھی، میں سندس کے ساتھ وقت کو
انجوائے کر رہا تھا ، جو کچھ تھا صرف میرے دل میں تھا، بظاہر میرا رویہ اس کے ساتھ
بھانجی والہ تھا، میری بیوی اور سندس کی عمر میں زیادہ فرق نہں تھا، شادی کے بعد
سندس اور میری بیوی کی بھی اچھی خاصی دوستی ہوگئی، باجی اور سندس شادی کے 4،5 دن
بعد شہر چلے گئے، اب انھوں نے شہر میں اپنا مکان بنا لیا تھا، میری بھی چھٹی ختم
ہوگئی اور میں کراچی آگیا، اس وقت کراچی اور باجی کے شہر میں موبائل فون کی سہولت
عام ہو چکی تھی لیکن میرے گاؤں میں یہ سہولت ابھی میسر نہیں تھی، موبائل فون پر اب
میرا رابطہ اپنی باجی اور سندس سے تھا، میرے گاؤں کے گھر پی ٹی سی ایل کا نمبر بھی
نہیں تھا، میرا گھر سے رابطہ ایک محلے کے نمبر سے تھا، میری وائف سے بات مشکل تھی،
ایک دن باجی کا میرے موبائل پر فون آیا اور اس نے بتایا کہ میں اپنی بھابھی کو
اپنے پاس کچھ دنوں کے لیے اپنے پاس لے آئی ہوں، مجھے تو بہت شاک لگا، کیونکہ میں
اپنی باجی اور بہنوئی کے کردار سے واقف تھا اس لیے میں پریشان تھا کہ اگر میری
بیوی ان کے ساتھ کچھ دن رہی تو ان کے رنگ میں رنگ سکتی تھی، میں اپنی بیوی کی
طبیعت کو جانتا تھا، وہ بہت جلد متاثر ہونے والی اور جدیدت کی دلدادہ تھی، شادی کے
بعد ہماری سیکس لائف میں اپنی بیوی کا اعتماد دیکھ کر مجھے اس پہلے شک ہوتا تھا کہ
یہ شادی سے پہلے چدوا چکی ہے، باتوں باتوں میں اس نے مجھے اپنے ایک دو معاشقوں کا
بھی بتایا تھا لیکن اس میں احتیاط یہ رکھی کہ قصور دوسرے فریق پر رکھا تھا اور خود
کو بلکل بے قصور، اور معصوم لیکن میں اتنا معصوم نہیں تھا، مجھے شک تھا کہ میری
بیوی کو کوئی ہینڈل کرے تو یہ آرام سے پھنس جائے گی لیکن نارمل وہ ایک عام سی عزت
دار لڑکی تھی، میر شک غلط بھی ہو سکتا تھا، جب باجی نے میری بیوی سے بات کروائی تو
تمام تر احتیاط کے باوجود میں اپنی تلخی چھپا نہ سکا، میں نے اسے کہ دیا کہ میری
اجازت کے بغیر کو یہاں نہیں آنا چاہئے تھا، میں نے اسے یہ بھی کہ دیا کہ مجھے باجی
کے گھر آئے 14 سال، ہو گئے، ہیں اور اس کی ایک وجہ ہے، اس وقت موبائل پر پیکیج
نہیں ہوتے تھے، میری اپنی بیوی سے 8،10 منٹ بات ہوئی، اب تو ہونا تھا سو ہو گیا،
میں نے بیوی کو یہ بھی تلقین بھی کی تھی کہ اب ہماری گفتگو کا ان کو پتا نہیں لگنا
چاہیے، مجھے پریشانی تو تھی، میں بیوی سے روز بات کرتا تھا، کچھ دن رہنے کے بعد وہ
واپس چلی گئی لیکن اس کی دوستی سندس کے ساتھ اور پکی ہو چکی تھی، کچھ عرصہ بعد میں
اپنی بیوی کو اپنے ساتھ کراچی لے گیا کراچی آنے کے بعد میری بیوی کا سندس اور
بھانجی سے موبایل پر زیادہ ہوگیا، اس دوران گاؤں میں بھی موبائل سروس آگئی تھی،
وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا، میرے بھی دو بچے ہو گئے اور سندس نے بھی MSc کیمسٹری اور بی ایڈ کر لیا تھا اور
ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھانا شروع کر دیا، ہمارا رابطہ فون پر تو تھا لیکن ملاقات
کم ہوتی تھی، ہم جب بھی گاؤں جاتے تھے تو وہ شہر میں رہتے تھی، کسی غمی خوشی میں
ملاقات ہوتی تھی لیکن اب تو ان لوگوں نے گاؤں میں آنا جانا ہی بہت کم کر دیا تھا،
افضل کے ماں باپ فوت ہوچکے تھے، ایک بھائی اس کا اسلام، آباد فیملی کے ساتھ رہتا
تھا، دوسرا بہت غریب تھا اور اس کا گھر ایسا نہیں تھا کہ وہ وہاں فیملی کے ساتھ رہ
سکتے، افضل نے گاؤں میں اپنا گھر نہی بنایا تھا، وہ جب بھی گاؤں آتے تو باجی اور
سندس ہمارے گھر رہتے تھے لیکن افضل کبھی بھی ہمارے گھر رات کو نہیں ٹھہرا تھا، ان
وجوہات کی وجہ سے وہ گاؤں میں ہی مجبوری کی وجہ سے آتے تھے، کچھ عرصہ پہلے میرے
سالے کی شادی تھی، جس پر مجھے بھی فیملی سمیت آنا پڑا، باجی اور سندس بھی آئی تھی،
میری سندس سے کافی عرصہ بعد ملاقات تھی، سندس کی اب عمر بھی کافی ہو گئی تھی، جسم
کافی بھر سا گیا تھا، ممے بھی کافی بڑے تھے، اور گانڈ تو کمال کی تھی، ،سندس کو
دیکھ کر مجھ پر شہوت اور ٹھرک کا دورہ پڑ جاتا تھا لیکن میں ظاہر کچھ نہیں کر سکتا
تھا، شادی کے دوران میں نے باجی اور سندس کو کافی کمپنی دی، میری بیوی بھی ان کے
ساتھ بہت خوش تھی، شادی کے ایک ہفتہ بعد بعد ہماری کراچی واپسی تھی، مجھے وائف اور
باجی نے کہا کہ سندس بھی کراچی آنا چاہتی ہے، میں دل میں تو بہت خو ش ہوا، لیکن
میں نے اس کی واپسی کا مسئلہ اٹھا کر دکھاوے کا انکار کیا، آگے دو ماہ بعد عید تھی
تو وائف نے کہا کہ عید پر سب نے آنا تھا تو اس وقت ساتھ آجائے گی، میں نے بھی ہاں
کر دی، میرے دل میں سیکس کا تو خیال بھی نہیں لیکن سندس کی قربت سے مجھے بہت مزا
آتا تھا، کبھی کبھی تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میں سندس سے محبت کرتا ہوں، میں
سندس کے تمام جسمانی اعضا کو شہوت سے تاڑتا تھا، لیکن کبھی میں منہ سے کچی اور
ہلکی بات نہیں کی تھی، خیر سے ہم کراچی پہنچ گئے، جاتے ہی ہم نے ویک اینڈ پر
گھومنے پھرنے کا پروگرام سیٹ کیے کیونکہ میری ڈیوٹی بھی ہوتی تھی، البتہ میری وائف
اور وہ دن کو مارکیٹ اور ہفتہ بازاروں میں جاتی رہتی تھی، سندس کو 20 دن کے قریب
ہو گئے تھے کہ ایک دن میں گھر آیا تو میری بیوی اور سندس گھر نہیں تھی، بچوں سے
پتا چلا کہ ہسپتال گئی ہیں، ،کچھ دیر بعد دروازہ پر دستک ہوئی، میں نے دروازہ
کھولا تو سندس اور وائف تھیں، سندس کے ہاتھ میں کچھ دوائیوں کی شیشیاں تھی، میں نے
پوچھا کہ خیریت ہے تو وائف نے کہا کہ ہاں خیریت ہے، بس سندس کی طبیعت کچھ خراب
تھی، میں نے بھی زیادہ نہ کریدا کیونکہ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ سندس کو کوئی
زنانہ مرض ہے، رات جب میں اور وائف اپنے روم میں تنہا ہوئے تو، میں نے وائف سے
پوچھا کہ سندس کو کیا ہے تو اس نے کہا کہ مائنسس کا مسئلہ ہے، میں اس ٹاپک پر بات
تو کرنا چاہتا تھا لیکن وائف کے سامنے برا بھی لگتا تھا کہ سگی بھانجی کے بارے
اتنی تحقیق، خیر میں چپ ہو گیا، تھوڑے وقفے بعد وائف نے مجھے کہا کہ آپ سے ایک بہت
اہم اور ضروری بات کرنی ہے لیکن پہلے مجھ سےوعدہ اور قسم کھاؤ کہ غصہ نہیں کرو
گے،میں نے وعدہ کر لیا، مزید تمہید اور نصیحتوں کے بعد میری وائف نے مجھے بتا یا
کہ سندس کو اڑھائی ماہ کا حمل ہے، ایک دفعہ تو میرے پاؤں سے زمین نکل گئی، لیکن
ساتھ ہی مجھے ایک عجیب مزے کی فیلنگ بھی محسوس ہوئی، وائف نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر
نے کہا ہے اگر اسقاط کرانا ہے تو جلد کرا لو اور 15000 روپے لگیں گے، اگر کوئی
پرابلم ہو گئی تو ایڈمشن بھی ہوسکتی ہے اس کے علیحدہ خرچہ ہوگا، وائف نے کہا کہ ہم
آپ کو نہ بتاتے لیکن پیسے اور ایڈمشن والی بات کی وجہ سے مجبوراً بتایا ہے، میں نے
پوچھا کہ سندس کو پتہ ہے کہ تم مجھے سب بتا دو گی تو اس نے کہا کہ میں تو اب بھی
بتانے سے ڈرتی تھی، یہ تو اس نے کہا ہے کہ ماموں کو بتائے بغیر کوئی چارہ نہیں اور
اس نے مجھے کہا کہ ماموں سے پیسے اور تعاون مانگوں اور اسے یہ بھی یقین تھا کہ
ماموں کچھ نہیں کہے گا، میں نے وائف سے پوچھا کہ کس سے یہ کرتی ہے ہے، تو وائف
کہتی ہے کہ سندس نے اسے کہا ہے کہ وہ تین لوگوں سے ریگولر سیکس کر رہی ہے، اور
اتفاق سے دو ماہ پہلے ایک ویک میں تینوں سے علیحدہ سیکس کا موقع ملا تھا، اب پتا
نہیں کس کا ٹھہر گیا ہے، نارمل تو دو تین ماہ بعد کوئی موقع ملتا ہے، میں نے پوچھا
کہ تین کون ہیں تو اس، نے بتایا کہ سندس جس سکول میں پڑھاتی ہے اس سکول کا مالک
اور اس کا بھائی اور اس کی ساتھی ٹیچر کا بھائی ہے، وائف نے بتایا کہ سندس کو شک
تو پچھلے مہینے پڑ گیا تھا کیونکہ اس کو مینسس نہیں آئے تھے، بس دو دن خون کے داغ
لگے تھے، سندس نے حمل روکنے والی گولیاں بھی کھائی تھی اس لیے مائنسس کے نہ آنے پر
زیادہ پریشان نہ ہوئی، لیکن اس کے باوجود وہ ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس گئی تھی، جس نے
دوائی دی لیکن حمل کا ٹیسٹ نہ کیا کیونکہ ڈاکٹر کو پتہ تھا کہ یہ ابھی کنواری ہے،
پھر اگلے مینسس بھی ویسے ہی آئے لیکن اس وقت شادی میں گاؤں آچکے تھے، سندس امی سے
یہ سب چھپانا چاہتی تھی، اس لیے اس نے میر ی بیوی کو سب بتایا، میری بیوی نے اس کو
بہت آسان سمجھا اور، اسے ساتھ کراچی لے آئی کہ پہلی بات تو یہ کہ حمل ہوگا نہیں
اور اگر ہوا بھی تو کراچی میں 3،4 ہزار میں کام ہوجائے گا، لیکن جب یہاں ان کو حمل
کنفرم ہوا تو جو کام ان آسان لگ رہا تھا وہ ان کے بس سے باہر ہوگیا، میں نے یہ سب
سن کر وائف کے سامنے مصنوعی غصہ تو دکھایا، بہن، بہنوئی کو گالیاں دی کہ ان کی
تربیت ٹھیک نہیں، وائف مجھے ٹھنڈا کرتی رہی اور میں سندس کے بارے باتیں کرکے
انجوائے کرتا رہا، ساری رات ہم سندس کی باتیں کرتے رہے اور میں دو دفعہ وایف کو
چودا بھی لیکن تصور میں سندس کو رکھ کر، رات کو ہم نے فائنل کیا کہ کل ہی اس مسئلے
کو حل کیا جائے، اور پھر میں سندس کو گھر چھوڑ آؤنگا، کیونکہ میں نے مصنوعی غیرت
دکھاتے ہوئے وائف کو کہا کہ میں مزید اس کی شکل یہاں نہیں دیکھنا چاہتا، اور
مجبوری میں تعاون کر رہا ہوں اگلے دن میں صبح آفس گیا اور 2دن کی چھٹی لی، واپسی
پر اے ٹی ایم سے پیسے نکلوائے اور گھر آگیا، وائف اور سندس ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی
تھیں، مجھے دیکھ کر سندس کا رویہ اور چہرہ نارمل ہی رہا جبکہ میرا خیال تھا کہ وہ
شاید شرم سے میرے سامنے ہی نہ آئے، لیکن اس کا رویہ اور اعتماد دیکھ کر میں نروس
ہوگیا، میں نے جیب سے 20ہزار روپے نکالے اور سندس کے سامنے وائف کو دیے، وائف
تھوڑی پریشان تو ہوئی لیکن کیا کہ سکتی تھی، میں نے یہ پوچھا کہ کب جانا ہے تو
وائف نے کہا کہ شام چار بجے، تھوڑی دیر بعد وایف کسی کام سے اٹھ گئی تو میں 5 ہزار
روپے نکالے اور اپنی بھانجی سندس کے ہاتھ پر رکھے، جو اس نے لے لئے، اور میں نے
اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ پریشان نہیں ہونا، غلطی انسان ہو جاتی ہے ،میں آپ کے
ساتھ ہوں،اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مجھے ماموں یقین تھا کہ آپ میرا
ساتھ دو گے کیونکہ آپ میرے اکلوتے ماموں سے زیادہ دوست ہو، وہ ذرا بھی گھبراہٹ کا
شکار نہیں تھی، چار بجے وہ کلینک کے چلی گئی اور مجھے کہ گئی کہ آپ کی ضرورت ہوئی
تو کال کر لیں گی، مغرب کے وقت دونوں آگئی، سندس کا تھوڑا چہرہ اترا ہوا اور
تکھاوٹ کا شکار لگتا تھا، باقی کوئی مسئلہ نہیں تھا اسے، رات جب میں اور وائف جب
اکیلے ہوئے تو میری وائف اور میرا ٹاپک آج بھی سندس ہی تھی، کل سے باتیں کرتے کرتے
اب وائف کی باتوں میں تکلف اور مجھ سے جو ڈر تھا وہ ختم ہو گیا تھا، اب وائف نے
میری باجی اور سندس کے کئی کارنامے بتائے، اس نے یہ بھی بتایا افضل نے اسے ورغلانے
کی کوشش کی تھی جب پہلی دفعہ ان کے گھر گئی تھی، باجی میرے سامنے افضل سے ذومعنی
گفتگو کرکے مجھے افضل سے فری کرنا چاہتی تھی، لیکن میں نے لفٹ نہ کروائی، خیر ساری
رات ہمارا یہی ٹاپک رہا، دوسرے دن بھی میری چھٹی تھی، صبح سندس بلکل نارمل تھی، اس
نے ناشتہ تیار کیا، اورمجھے دینے آئی، میں اس وقت ٹی وی لاؤنج میں بچوں کے ساتھ
بیٹھا تھا، وائف کچن میں تھی، میں آہستہ سے سندس سے پوچھا کہ طبیعت اب کیسی ہے تو
اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں نے بے اختیار پوچھا کہ درد تو نہیں تو اس نے الٹا سوال
کردیا کہ کہاں درد؟ میں نے کہا پیٹ میں تو اس نے کہا کہ ماموں جان پیٹ کو کیا ہوا
جو درد ہوگا، اور مسکرانے لگی، میں چپ ہو گیا کہ اب کیا جواب دوں، بچوں کے آگے
ناشتہ رکھنے کے بعد جانے لگی تو آہستہ سے کہا کہ تھوڑا درد بھی اور سوجن بھی،
چھوٹے پیشاب سے جلن محسوس ہوئی ہے، اور کمرے سے نکل گئی، میں حیران وپریشان بیٹھا
رہا، ناشتہ کے بعد میں وہی لیٹ گیا، اور ٹی وی دیکھنے لگا، وائف بھی کبھی میرے پاس
اور کبھی سندس کے روم میں سندس کے پاس، دوپہر کے وقت سندس نے مجھے ٹیکسٹ کیا، سوری
ماموں جان، میں نے کوئی رپلائی نہ کیا، کوئی 5 منٹ بعد دوبارہ اس کامسج آیا کہ
ناراض ہو ماموں جان، میں نے جواب دیا کہ نہیں اور ساتھ ہی دوسرا میسیج کیا کہ یہ
تو غلطی مینیج ہو گئی ہے، آئندہ یہ نہ ہو، اس نے جواب دیا کہ جی ماموں جان کوشش
کروں گی کہ کنڈم اور اچھی قسم کی ٹیبلیٹ استعمال کروں، اس جواب کے بعد تو مجھے بہت
غصہ آیا لیکن میں نے محسوس کیا کہ میں اس، کی تعلیم، حسن، اعتماد،اور اپنے دل کے
چور کی وجہ سے اس سے ایمپریس ہوں، اور جتنا میں اس سے تعاون کر چکا ہوں اس کے بعد
میں غیرت مند ماموں کے منصب پر فائز نہیں ہو سکتا، میرا رعب اور دبدبہ بطور ماموں
جو ہونا چاہیے تھا وہ ختم، ہو چکا ہے، لہذا یہ غصے اور غیرت والے ڈرامے کو چھوڑتے
ہوئے مجھے فری ہو کر انجوائے کرنا چاہیے، سیکس کرنے کے بارے اب بھی میں نہیں سوچا
تھا، اگلے دن میں جب آفس میں تھا تو سندس کا میسیج آیا کہ ماموں جان گھر کس ٹائم
پہنچوں گے، تو میں نے کہا چار بجے، اس نے اوکے کہا، میں نے کہا کہ کوئی کام ہے تو
اس نے کہا کہ کام ہے بھی اور نہیں بھی، میں نے کہا کھل کر بتاؤ، اس نے کہا کہ آپ
سے اکیلے میں بات کرنی ہے، لیکن مامی کی وجہ سے موقع نہیں ملتا، مامی ابھی مارکیٹ
اکیلی جائے گی، اور میں آج ساتھ جا نہیں سکتی، میں نے سوچا کہ آپ اگر اب گھر آجاؤ
تو ہم بات کر لیں گے، میں نے کہا اوکے میں آرہا ہوں، میں 40 منٹ میں گھر پہنچ گیا،
میری وائف گھر پر ہی تھی، مجھے دیکھ کر کہا کہ شکر ہے آپ آگئے ہوں، میں مارکیٹ سے
ہو آؤں، وائف کے جانے کے بعد جیسے ہم اکیلے ہوئے تو سندس میرے پاس آئی اور مجھے
کہا کہ سوری ماموں، میں نے غلط کام کیا ہے اور آپ نے نہ صرف میری عزت رکھی ہے بلکہ
مجھے پہلے جیسی عزت دی ہے، میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور سینے سے لگا لیا، وہ
رونے لگ گئی، میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ سب کچھ بھول جاؤ اور چائے بنا کر لاؤ،
ہم نے چائے پی اور نارمل باتیں کرتے رہے ، وائف بھی واپس آگئی
سندس کو اب اباریشن کرائے 15 دن سے اوپر ہو گئے
تھے، سندس اور میرے درمیان ایک عجیب سا رشتہ بن گیا تھا، ہم بظاہر بھانجی ماموں کا
رشتہ بھی نبھا رہے تھے اور ساتھ ایک عجیب سی بے تکلفی بھی تھی، ایک دن میں جاب پر
تھا تو سندس کا میسج آیا، حال احوال کے بعد میں نے پوچھا خیریت تھی کہ مسیج کیا تو
اس نے کہا کہ مامی مارکیٹ گئی ہے، سوچا ماموں جان کا حال لے لوں، میں نے کہا دو
گھنٹے پہلے تو آپ کے پاس سے تو آیا ہوں تو اس نے جواب دیا کہ میرے پاس سے نہیں
اپنے گھر اور بیوی کے پاس سے گئے ہو، مجھے یہ بات تھوڑی عجیب تو لگی لیکن میں بولا
کچھ نہیں، سندس ہر مسیج کے ساتھ ماموں جان لازمی لکھتی تھی، میں نے اسے کہاکہ یہ
ہر میسج کے ساتھ ماموں جان لکھنا لازمی ہے تو اس نے کہا تو ماموں جان تو ہو، میں
نے کہا وہ تو ہوں تم لکھو یا نہیں لیکن ایک لفظ کے مسج کے ساتھ لکھنا مشکل نہیں تو
اس نے کہا کہ ہاں مشکل تو ہے اور پھر کہا کہ میں آپ کو جان کہ دیا کروں ،میں نے
کہا جان تو لور کو کہتے ہیں تو اس نے کہا کہ میں بھی تو آپ سے لو کرتی ہوں، اور
جان تو پہلے بھی کہتی ہوں بس ماموں ہٹا دوں گی، میں نے جان بوجھ کر بولا کہ سوجن
ختم ہوئی ہے، تو اس نے کہا کہ کب کی، اب تو بلکل سیٹ ہے، ہماری تھوڑی دیر ذومعنی
چیٹ ہوئی پھر اس نے کہا کہ مامی آگئی ہے بائی اب میں اور سندس گھر میں بھی اس کوشش
میں رہنے لگے کہ اکیلے میں کچھ بات کر سکیں، اکثر ہم چوری ایک دوسرے سے حال احوال
پو چھتے تھے، گو کہ ابھی تک ہم نےعملی طور پر کوئی ایسا کام، نہیں کیا تھا قابل
اعتراض ہوتا لیکن ہماری ذھنی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی، ایک دن وائف نے مجھے باتوں
باتوں میں بتایا کہ سندس نے مجھ سے سہاگ رات کی باتیں پوچھی ہیں اور اتنی بے شرم
ہے کہ تیر لن کا سایز اور ٹائمنگ بھی پوچھی، میں یہ بات سن کر اندر سے بہت ہاٹ ہو
گیا، ایک دن میں ٹی وی روم ٹی وی دیکھ رہا تھا، بیوی اور بچے سوئے ہوئے تھے، میں
نے ٹراؤزر اور شرٹ پہنی ہوئی تھی، سندس اٹھ کرمیرے پاس آئی، اور کچھ باتیں کی، میں
نے کہا چائے تو پلاؤ، وہ چائے بنانے گئی تو مجھے ایک ایڈیا آیا، میں نے لن کو
مسلنے لگا گیا، کچھ دیر میں لن کھڑا ہو گیا، مجھے پتا تھا کہ اب سندس چائے لے کر
آئے گی، میں نے ہاتھ ٹراؤزر میں ڈال کر لن کو دبانے لگا، جب سندس کمرے دروازے پر
آئی جو کہ پورا کھلا ہوا تھا تو میں نے تیزی ہاتھ باہر نکالا جیسے میری چوری پکڑی
گئی ہو، میرا لن سامنے ہی ٹراؤزر، میں کھڑا تھا، سندس نے پیالی میرے سامنے رکھی
اور پیچھے ہو کر بیٹھ گئی اس نے کچھ بھی نہ بولا، کچھ منٹ گزرے تو میں نے ہی کہا،
سوری، تو اس نے کہا کہ کس بات کی سوری، میں نے کہا کہ میں اصل میں خارش کر رہا
تھا، تو اس نے کہا کہ میں نے کچھ کہا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو برا لگا ہو گا تو اس
نے کہا نہیں ماموں، جب آپ نے میرے اتنے بڑے گناہ اور گندی بات نہ صرف برداشت کیا
ہے بلکہ میری مدد بھی کی اور مجھے پہلے سے بھی زیادہ پیار دیا ہے تو مجھے آپ اب
بہت پیارے لگتے ہو، اگر تم ماموں نہ ہوتے تو میں نے آپ سے شادی کر لینی تھی، میں
نے کہا کہ اب کرلو، اس نے کہا کیسے؟ میں نے کہا کہ بس آپ اور مجھ کو پتا ہو، کہ ہم
میاں بیوی ہیں ہیں تو اس نے کہا کہ مجھ میں یہ ہمت نہیں اور آپ بھی اپنے دل سے
ایسی کوئ بات ہے تو نکال دو، ہم دوست تو ہیں لیکن ماموں بھانجی بھی ہیں، اس کی بات
سن کر مجھے کچھ مایوسی بھی اور شرمندگی بھی ہوئی، مجھے خود محسوس ہوا کہ میں بہت
تیز چل پڑا تھا، اگلے کچھ دن میں نے جان بوجھ کر سندس کو نظر انداز کرنا شروع کر
دیا، میرا خیال تھا کہ شاید وہ مجھ سے سوری کرے، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، اس نے بھی
مجھے نظرانداز کرنا شروع کر دیا، ہم ایک ہی گھر میں تھے، تھوڑی بہت جو گفتگو ہوتی
تھی، میں کوشش کرتا تھا کہ اس کو محسوس ہو، کہ میں اس سے ناراض ہوں لیکن اس کی طرف
سے بلکل نارمل ردعمل تھا، ایک دن سندس کے والد کا فون آیا کہ سندس کو واپس پہنچا
دو کیونکہ اس نے لیکچرار کی اسامی پر درخواست دی ہو ئی تھی اور 3 دن بعد اس کا
ٹیسٹ او ر انٹر یو تھا، میں نے آفس سے ایک ہفتے کی چھٹی لی اور اسی دن شام کو میں
سندس ریلوے سٹیشن کراچی پہنچے، ہم شام کو سٹیشن پہنچے تو پتا چلا کہ پنجاب جانے
والی بیشتر ٹرینیں نکل چکی ہیں اور دو ٹرینیں جو باقی ہیں ان میں سیٹ اور برتھ
نہیں ہے، ہم نے سندس کے والد افضل کو بتایا تو اس نے بھی کوشش کی، وہ ریلوے سے
ریٹائرڈ تھا، اس کے کچھ جاننے والے تھے لیکن سیٹ بک نہ ہوسکی، افضل نے کہا کہ بس
کے ذریعے آجاؤ۔ ہم نے وہی کراچی کینٹ سے سیٹ کروا کر بس میں سوار ہو گئے، ہماری
سیٹیں درمیان سے پیچھے تھی، بس 10 بجے کینٹ سے نکلی اور، 11 بجے سہراب گوٹھ سے
نکلی ، سندس شیشے والی سائیڈ پر تھی اور میں اندر کی سیٹ پر تھا، بس میں صرف ایک
لائیٹ جل رہی تھی، بس میں پچھلی سیٹوں پر کافی اندھیرا تھا، کچھ دیر بعد سندس نے
اپنا سر میرے کندھے پر رکھ دیا، میں نے دیکھا تو وہ سو رہی تھی، مجھے بہت اچھا
لگا، تھوڑی دیر بعد سندس کا سر میرے کندھے سے سینے پر آگیا اور سندس کے ممے مجھے
میرے بازو محسوس ہورہے تھے، مجھے بہت مزا آرہا تھا، کچھ دیربعد سندس کا سر میری
جھولی میں آگیا، و ہ بینڈ ہو کر سیٹ پر پڑی تھی، اس کے گال کی نرمی میں نے اپنے لن
پر محسوس کی تو مجھے ہو شیاری آنے لگی، اور میرا لن کھڑا، ہونے لگا، سندس کا گال
میرے لن پر تھا، میرے خیال میں سندس سو، رہی تھی اور میں مزے لے رہا تھا، کوئی 20،
25 منٹ بعد سندس ہلی اور اس نے میرے لن پر، گال کو دو تین دفعہ رگڑا اور اٹھ کر
بیٹھ گئی، میں تھوڑا پریشان تو، ہوا لیکن سندس نے نارمل بی ہیو کیا اور پوچھا کہاں
پہنچے، میں نے اندازے سے جگہ بتائی، پھر اس کو پانی دیا، ، وہ پھر شیشے والی سائیڈ
پر ٹیک لگا کر سوگئی، کوئی آدھے گھنٹے بعد پھر سندس اٹھی اور ڈرائریکٹ میری جھولی
میں لیٹ گئی، اس دفعہ اس نے اپنے گال کے نیچے ایک ہاتھ بھی رکھا تھا، کچھ دیر بعد
اس نے نے اپنے ہاتھ کو حرکت دینا شروع کردی، پہلے میں میں نے لن کی ہوشیاری کو
کنٹرول کیا ہوا تھا لیکن اب اس کے ہاتھ کے لمس سے لن میں جان آنی شروع ہوگئی، تھی،
پہلے تو میں سمجھا تھا کہ اس نے نیند میں ہاتھ کو حرکت دی ہے لیکن اس وقت میری
حیرت کی انتہا نہ رہی جب سندس نے باقاعدہ میرا لن پکڑ کر اس پر ہلکی سی بائیٹ کی
اور لن کو دبانا شروع، کردیا، مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا، ایک عجیب کیفیت اور نشہ
تھا، میں نے بہت سی لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ سیکس کیا تھا اور ہر مزا لیا تھا
لیکن بھانجی کا اتنا، اوپن ہونا اور لن دبانا بہت مزا دے رہا تھا 2،3 منٹ لن دبانے
کے بعد سندس نے پھر میرےلن پرکاٹا اور اپنا سر اٹھا لیا، میں سندس کی طرف دیکھا تو
اس کا چہرہ لال اور آنکھوں میں مستی اور سرخی تھی ،اس نے میری طرف مسکرا کر دیکھا
اور پھر شیشے والی سائیڈ پر ٹیک لگا لی، اسی طر ح رات گزرتی رہی، اور بس رواں دواں
رہی، بس کے اندر سے 3،4 آدمیوں نے ڈرائیور کو صبح کی نماز کے لیے بس روکنے کا کہا،
ڈرائیور نے کہا کہ کسی مناسب جگہ روکنے کا بولا، لیکن ڈرائیور کو مناسب جگہ نہیں
مل رہی تھی اور آدمی مسلسل روکنے کا کہ رہے تھے کہ نماز کا ٹائم نکل رہا ہے، آخر
ڈرائیور نے سڑک کے ساتھ ایک ویران سی جگہ پر بنی مسجد کے پاس بس روک دی، وہاں پر
ایک پانی کا نلکا تھا، کوئی ٹوایلٹ نہیں تھا، لوگ بس سے اتر کر ادھر چھوٹے پیشاب
کے بیٹھ گئے، سندس نے مجھےکہا کہ اس نے بھی پیشاب کرنا ہے، وہاں پر سڑک کنارے
جنگلی کیکر کے درخت تھے، میں نے اسے کہا کہ کیکروں چلی جاؤ، تو اس نے کہا کہ اسے
اکیلے ڈر لگتا ہے آپ تھوڑ ا آگے تک آؤ، ہم دونوں تقریباً 100 میٹر آگے آئے اور میں
نے ایک جگہ کہا کہ ان جھاڑیوں کے پیچھے چلی جاؤ، اس وقت ہلکی ہلکی روشنی تھی اور
سب کچھ صاف نظر آرہا تھا، سندس جب جھاڑی کے پاس پہنچی تو، مجھے کہا ماموں یہاں آکر
کھڑے ہو، میں وہاں پہنچا جہاں وہ کھڑی تھی، وہ تھوڑی آگے ہوئی اور میرے سامنے
شلوار نیچے کی اور پیشاب کے لیے بیٹھ گئی، اس کی پیٹھ میری طرف تھی، اس کی گانڈ کا
نظارہ جیسے ہوا تومیرے ہوش ہی اڑ گئے، میں نےبے اختیار منہ دوسری طرف کیا لیکن پھر
میں نے سوچا اس کا چہرہ تو دوسری طرف ہے میں پھر دیکھا، بہت خوبصورت گاںڈ تھی،
سفید اور نرم، اس کے پیشاب کے زمین پر گرنے کی آواز مجھے مدہوش کر رہی تھی، اتنی
دیر میں سندس نے پیشاب کر لیا تو اٹھی، میں اس تاڑ میں تھا کہ شاید پھدی کی جھلک
بھی نظر آجائے لیکن اس نے جلدی سےشلوار اوپر کرلی اور میرے پاس آگئی، اور مجھے زور
سے جپھی لگا لی، ہم بس کی سواریوں سے سائیڈ پر تھے، میںنے بھی اس کو جپھی لگا لی،
، کچھ سیکنڈ کے بعد اس نے نیچے سے میرا لن پکڑ لیا سندس نے جیسے ہی میرا لن پکڑا
مجھے مجھے حیرت کے ساتھ مزے کا جھٹکا لگا، میں نے سندس کو زور سے اپنے سینے سے
لگاتے ہوئے اس کے نرم اور خوبصورت گانڈ کو اپنی مٹھیوں میں بھر لیا، اور اس کو مزے
سے دبانے لگا، ساتھ ہی میں نے سندس کے خوبصورت چہرے پر بوسوں کی پوچھاڑ کردی، مجھے
کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کر رہا ہوں، میری ایک عجیب سی کیفیت تھی، ایک
عجیب اور مدہوشی کا عالم تھا، ہم کو اسی حالت میں 2،3 منٹ گزرے ہونگے کہ بس کے
ہارن کی آواز ہمارے کانوں پڑی، ہارن سنتے ہم ہوش کی دنیا میں واپس آ گئے، جلدی
جلدی ہم بس کے پاس پہنچے کافی ساری سواریاں سوار ہوچکی تھی اور کچھ سوار ہورہی
تھی، ہم بھی اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے، ہماری سیٹ کے برابر میں بھی دو عمر رسیدہ
خواتین بیٹھی تھی، بس چلی تو لوگ پھر اپنی اپنی سیٹوں پر اونگھنے لگے، سندس نے ایک
چادر اپنی اور میری جھولی میں پھیلا دو اور نیچے سے میرا لن کو پکڑ دبانے لگی،
سندس کا شرم اب بلکل اتر چکا تھا، تھوڑی دیر شلوار کے اوپر سے دبانے کے بعد اس نے
ہاتھ شلوار کے اندر ڈال دیا اور لن کو دبانے لگی، مجھے بہت مزا آرہا تھا، میں نے
بھی ہاتھ اس کی پھدی پر لگانے لگا تو اس نے میرے ہاتھ ہٹا دیا، لیکن میں محسوس کر
لیا تھا کہ اس کی پھدی فل گیلی ہے، 20 منٹ کے بعد میرا لن پھٹنے والا ہوگیا، میں
نے سندس کے ہاتھ کو ہٹانے کی کوشش کی، کیونکہ مجھے شلوار کے اندر فارغ ہونے کا ڈر
تھا، میں نہیں چاہتا تھا کہ میری شلوار خراب ہو، لیکن سندس نے میری کوشش ناکام
بنادی اور اس نے لن دبانا جاری رکھا، آخر کب تک، میرے لن کا بند ٹوٹ گیا اور میں
فارغ ہوگیا، سندس نے فارغ ہونے کے بعد میری منی کو اپنے ہاتھ پر لگا میرے لن پر مل
دی، اور اسی طرح منی سے لٹھڑا ہاتھ میں نے دیکھا کہ اپنی شلوار میں ڈال کر اپنی
پھدی پر لگا رہی ہے، میں فارغ ہونے کے باوجود بہت گرم تھا، منی کے گیلے پن سے کچھ
بے آرامی تو، محسوس ہورہی تھی لیکن جو مزا لے چکا تھا اس کے مقابلے یہ کچھ نہیں
تھا، باہر کافی روشنی ہو گئ تھی اور بس اپنی رفتار سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں
تھی، میں اور سندس ایک دوسرے کے جسم کے مزے لےرہے تھے، اب دن کی وجہ سے کھل کر کچھ
نہیں ہوسکتا تھا، ڈیڑھ بجےبس صادق آباد پہنچ گئی، صادق آباد بس کی تقریباً سب
سواریاں اتر گئی اور بس کنڈیکٹر نے ہمیں کہا کہ ہم آگے 5 بجے جائیں گے، اگر آپ لوگ
3 گھنٹے رک سکتے ہو تو، ٹھیک ہے ورنہ اپنا کرایہ واپس لے لو، جب میں نے آگے کا پتا
کیا کہ میری مطلوبہ شہر کی بس کس ٹائم ملے گی تو وہاں سے کوئی بس دستیاب نہیں تھی
سب نے کہا کہ ملتان چلے جاؤ وہاں سے مل جائے گی، ملتان جانے کی صورت میں ہمیں جو
تین گھنٹے یہاں رکنے والے بچ رہے تھے وہ لگ جانے تھے اور ہمارے گھر پہنچنے کا وہی
ٹائم ہو جاتا، اس دوران میری سندس کے ابو سے بھی بات ہوئی تو اس نے وہی تین
گھنٹےرکنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ آرام سے کھانا کھا لو اور، کسی ہوٹل میں کمرہ
لے کر فریش ہو جاؤ، کمرہ اور ہوٹل کا سنتے ہی میرا تو دماغ روشن ہو گیا، سندس نے
بھی جب اپنے ابو سے بات کی تو اس نے سندس کو بھی آرام کا مشورہ دیا، میں اور دو
سواریاں اور بھی تھی جو بس والوں پر ناراض ہو رہے تھے کہ آپ لوگوں نے دھوکہ دیا
ہے، لیکن وہ سنی ان سنی کر رہے تھےکہ اب چار سواریوں کے ساتھ کیسے جائیں، میں نے
بکنگ کلرک سے کہا کہ یار اب میں زنانہ کے ساتھ کہاں خوار ہوتا رہوں گا، اگر کوئی
ہوٹل نزدیک ہو تو مجھے بتا دو ہم زرا فریش ہو جائیں، اس نےایک کال کی اور مجھے اور
سندس کو ایک رکشے والے کے ساتھ ہوٹل بھیج دیا، اور تاکید کی 5 بجے اڈے پر پہنچ
جانا، میں سندس رکشےپر ہوٹل پنچے، ہوٹل کےریسیپشن پر موجود کلرک کو بس کے بکنگ
کلرک کا ریفرس دیا تو وہ بہت اخلاق سے پیش آیا، ہم نے ایک اے سی روم کی چابی لی
اور روم میں آگئے، روم میں آئے تو میرا تو دل تھا کہ ابھی سندس کو ننگا کر کے شروع
کردوں لیکن سندس نے کہا کہ پہلے کھانا کھایا جائے،
میں
نےریسیپشن پر کھانے کا آڈر دیا، سندس نہا کر فریش ہو گئی اور میں نے بھی غسل کیا،
اتنی دیر میں کھانا آیا اور ہم کھانا کھانے لگے، کھانے کے بعد میں نے ریسیپشن پر
بتایا کہ ہم سو رہے ہیں اور ہم ساڑھے چار بجے جگا دینا، اس، وقت اڑھائی بج رہےتھے۔
جیسے ہی ویٹر کمرے سے برتن اٹھا کر گیا تو میں نے کمرے کو کنڈی لگا دی اور لائٹ آف
کردی، پھر بھی کمرے میں کافی روشنی تھی، میں جب پورن فلمیں دیکھتا تو، مجھے پھدی
چاٹنے کی خواہش ہوتی تھی لیکن جب بھی سچ میں میرے سامنے پھدی آتی تھی تو میں نہیں
چاٹ سکتا تھا، میں نے بہت اورہر عمر کی پھدیاں ماری تھی لیکن آج تک پھدی نہیں چاٹی
تھی، میں جب بھی سیکس، کرتا تھا، بس دو سے تین منٹ کسنگ پھر دو منٹ لن چسوانا اور
پھر لن پھدی میں اور 3،4 منٹ میں فارغ، آج میرے سامنے ایک آئیڈیل پھدی تھی، میرا
دل کر رہا تھا کہ آج سیکس کے بارے اپنی تمام خواہشوں کو عملی جامہ پہناوں، سندس نے
جب مجھے سوچوں میں غرق دیکھا تو بولی ماموں جان سونا ہے یا جاگنا، تو میں نے اسے
کہا کہ میری جان کیا چاہتی ہے تو اس نے شرارتا کہا کہ میں تو سو رہی ہوں اور ساتھ
ہی وہ لیٹ گئی، میں اٹھا اور اس کے پاوں کے پاس بیٹھ گیا اور اس کے پاوں پر کس کی
تو، ہڑابڑا کر اٹھ بیٹھی اور مجھے کہا کہ ماموں جان کیا ہو گیا، کیوں مجھے گنہگار
اور اپنی نظرو ں سے گراتے ہو، میں نے اسے کہا کہ تم اس وقت بھول جاؤکہ میں آپ کون
ہیں اور ہمارا کیا رشتہ ہے، مجھے مزہ لینے دو، خیر کچھ باتوں کے بعد وہ مان گئی،
میں نے پھر اس کے پاؤں پر کس، کی اور اس، کے پاوں کے انگھوٹھے چوسسنے لگا، پھر
دوسرے پاوں کو چوما اور چاٹا۔ سندس آنکھیں بندکرکے لیٹی ہوئی تھی ۔ میں نے اس کی
پنڈلیوں کو چاٹنا شروع کر دیا، اس کی ٹانگین بالوں سے پاک اور بہت سافٹ تھی، میں
اس پر زبان پھیر رہا تھا، پھر میں نے سندس کے پیٹ سے کپڑا اٹھا یا، اور اس کے پیٹ
پر زبان پھیرنا شروع، کر دی، مجھے بہت مزا آرہا تھا، میں ہوش کھوتا جا رہا تھا،
میں نے قمیض کو اور اوپرکیا تو مجھے سندس کے ممے نظر آگئے، سندس نے برا نہیں پہنی
تھی، میں تو سندس کے مموں پر ٹوٹ پڑا، میں مموں چوس رہا تھا، چاٹ رہا تھا اور ساتھ
ساتھ اپنا لن سندس کے ساتھ رگڑ رہاتھا، سندس کی بھی اب سسکیاں نکل رہی تھی ، سندس
نے اب قمیض اتار دی تھی، میں نے مموں پر اپنا حملہ جاری رکھا، بہت ہی مزا آرہاتھا،
میرا لن پھدی کے لیے ٹرپ رہا تھا، میں آج صبر کر رہا تھا۔ میں نے اب اپنے کپڑے
اتار دیے تھے اور سندس کی شلوار اتار دی تھی، سندس کی پھدی پر بہت چھوٹے چھوٹے بال
تھے لگتا تھا کہ 5۔6 دن ہو گئے ہیں شیو کیے ہوئے، پھدی کے لپس ہلکے سیاہی مائل
تھے، پھدی کے درمیاں کا دانہ کافی بڑا تھا اور باہر کو کافی کو نکلا ہوا تھا، میں
نے سندس کی ٹانگیں کھولی اور اپنا منہ سندس کی پھدی پر رکھ دیا، مجھے عجیب سی
ناگوار سی بو محسوس ہوئی لیکن میں نے پرواہ نہ کی اور پھدی پر اپنا منہ رکھ دیا
اور اپنی زبان پھدی میں ڈال دی، پھدی کے پانی کا پہلا تائثر کچھ اچھا نہیں تھا
لیکن میں کام جاری رکھا، اگلے چند سیکنڈ میں میرے ذھن سے ہر چیز احساس ختم ہو گیا
اور حوس اور سیکس ہی رہ گیا، میں ایک عجیب سے ٹرانس میں آگیا اور دیوانہ وار پھدی
چاٹنے لگا، سندس بھی مزے کی بلندیوں پر تھی، کوئی دومنٹ بعدہی اس کی ٹانگیں اکڑ
گئی اور اس نے میرےسر کو زور سے اپنی پھدی پر دبا دیا، کچھ لمحوں بعد سندس پرسکون
ہو گئی۔ میں اٹھا اور سندس کے ساتھ لیٹ گیا، اور اس کے چہرے پر کس کیا، وہ اچانک
اٹھی اورمیرے لن کو اپنے منہ میں لیا اور لن چوسنے لگی ، میں مزے کی بلندیوں پر
تھا، میرا لن بہت زیادہ اکڑا ہویا تھا، اور سندس بہت مزے سے چوس رہی تھی، اچانک
سندس اٹھی اور اپنی ٹانگیں میرے دائیں بائیں رکھتے ہوئے میرے لن پر بیٹھ گئی اور
آگے پیچے ہونے لگی، چند جھٹکوں کےبعد ہی اس کی پھدی نے میری پھدی کو بھینچنا شروع
کر دیا اور وہ میرے اوپر لیٹ گئی، ابھی تک میرا لن جڑ تک اس کی پھدی میں تھا، کچھ
لمحوں بعد اس نے مجھے جپھی ڈالے مجھے کروٹ کے بل رول دینےلگی، میں اس کا مطلب سمجھ
گیا، وہ مجھے لن نکلے بغیر اوپر لانا چاہ رہی ہے، رول کے بعد میں اوپر آگیا اور
میں جھٹکے مارنے شروع کر دیے، مجھے بہت مزا آرہا تھا، سندس بلکل خاموش پڑی تھی،
میں کبھی جھٹکوں کی سپیڈ تیز اور کبھی آہستہ کر لیتا تھا، کوئی 8،10 منٹ کی لگا
تار چودائی کے بعد میں سندس کی پھدی میں فارغ ہو گیا، میں کچھ لمحے بے سدھ اس کے
سینے پر پڑا رہا، آخر میرا لن سکڑ کر پھدی سے باہر آگیا، میں اوپر سے سائیڈ پر، ہو
گیا، سندس اٹھی اور ننگی ہی باتھ روم میں چلی گئی سندس باتھ روم سے ہو کر واپس
آگئی اور مجھے کہا ماموں آپ بھی لن کو دھو لو ، میں بھی باتھ چلا گیا ، ، میں لن
دھو کر واپس آیا تو سندس ابھی تک ننگی ہی لیٹی ہوئی تھی ، میں ساتھ لیٹ گیا اور
شلوار پہنے کا ارادہ کیا تو سندس نے مجھے روک دیا، کہا کہ ابھی بھی ہمارے پاس ڈیڑھ
گھنٹہ ہے ، انجوائے کرتءکرتے ہیں، میرا لن ابھی تک سکڑا ،ہوا تھا، سندس نے اس کو
ہاتھ ممیں پکڑتے ہوئے کہا کہ اب یہ کتنی دیر لے گا ، میں نے اسے کہا کہ 20 منٹ ،
میں جب بیوی کے ساتھ کرتا تھا تو بھی میرا لن 20 سے 25 منٹ میں دوبارہ چودائی کے
لیے تیار ہوجاتا تھا، سندس اب بھی میرے لن مسل رہی تھی اور ساتھ ہی میرے ممے کے
نپل پر زبان پھیر رہی تھی ، میں نے ایسے ٹائم گزارنے کے لیے سندس سے پوچھ لیا کہ
پہلی دفعہ کب لن اپنی پھدی میں لیا تھا تو سندس پہلے تو مجھے ٹالنے کی کوشش کی
لیکن میں نے کہا یا پہلی دفعہ کا بتاو یا جس سے حمل ہوا ہے اس ،کا پہلی دفعہ کا
بتاؤ تو سندس نے کہا کہ سب سے پہلے سیکس کا بتاتی ہوں ، سندس نے بتایا کہ یہ اس
وقت کی بات ہے جب میں نے میٹرک کے بعد ایف ایس سی میں داخلہ لیا ۔ ہمارے محلے میں
ایک اکیڈمی تھی جو ایف ایسی کی کلاس کی کلاسیں چلاتے تھے ، اور داخلہ گورنمنٹ ڈگری
کالج سے جاتا تھا ، سٹوڈنٹس کا نام بھی کالج میں داخل ہوتا تھا ، دوسرے لفظوں میں
اکیڈمی کے سٹوڈنٹس کالج کے ریگولر سٹوڈنٹ تھےلیکن پڑھتے اکیڈمی تھے، ہم کلاس میں
16 گرلز تھی، لڑکوں کا پورشن الگ تھا ، ہمارے ٹیچر سب نئے لڑکے تھے ، ان میں کچھ
بی ایس سی کرچکے تھے اور کچھ کر رہے تھے ، اکیڈمی کا ماحول بظاہر بہت سخت اور
ڈسپلن تھا ، کلاس میں سب ٹیچر کا رویہ بہت سخت تھا ، اکیڈمی کا مالک خود نہیں
پڑھاتا تھا، لیکن اس کی نظر ہر کلاس پر ہوتی تھی ، اکیڈمی میں روٹین یہ تھی کہ ہر
ویک اینڈ پر کسی نہ کسی سیبجیکٹ کا پیپر ہوتا تھا ، ان سیبجیکٹ میں میتھ، کیمسڑی ،
فزکس ، انگلش اور اردو تھے، اس ٹیسٹ میں جو طالبہ سب سے زیادہ نمبر لیتی تھی اس کا
نام سکول کے نوٹس بورڈ پر سٹوڈنٹس آف ویک کے ٹائٹل کے ساتھ لکھا جاتا تھا، اکیڈمی
کے مالک راؤ ،صاحب خود کلاس میں آکر پیپر کے نمبر بتاتے اور سب سے زیادہ نمبر والے
سٹوڈنٹس کو شاباش اور ویک طالبات کو پڑھائی کی ترکیب دیتے تھے ، میرے میٹرک میں
بہت اچھے نمبر تھے ، اکیڈمی میں بھی میرے شروع میں سب سیبجیکٹ میں اچھے نمبر آئے
اور مسلسل 10 ہفتے میں لگا تار سٹوڈنٹس آف ویک رہی ، تمام ٹیچر کلاس میں میری
تعریف کرتے تھے ، میرے بعد عائشہ اور جویریہ کے نمبر ہوتے تھے ، 30 نمبر کا پیپر
ہوتا تھا، میرے 29،28 ہوتے تھے اور ان کے 25 ،24 ہوتے تھے ، پھر یک دم میرے نمبر
26،27 اور ان کے 29،30 ، اایک دو پیپر پر تو سر نے مجھے کچھ نہ کہا لیکن اگلے ہفتے
سر نے مجھے کلاس میں کھڑا کرکے کے پوچھا کہ بیٹا سندس کیا پرابلم ہے ، تمھاری توجہ
پڑھائی سے کیو ہٹ گئی ہے، میں بہت پریشان ہو گئی، مجھے پتا تھا کہ میں محنت بھی
پہلے سے زیادہ کر رہی ہوں، پیپر بھی اچھے ہورہے ہیں ، ہمیں پیپر واپس مل جاتے تھے
،اس ہفتے ہمارا انگلش کا پیپر تھا اور میرے نمبر 25 تھے جبکہ عائشہ کے 30 اور
جویریہ کے 28 تھے، میں نے ان سےسےپیپر مانگے اور میں نے ان کے اور اپنے پیپر کو
چیک کیا تو میں نے محسوس کیا کہ ان کو مارکنگ میں ریلیکس دی گئی تھی جبکہ میرے 3
نمبر سپیلنگ کی غلطی پر کاٹے گئے تھے، مجھے لیٹر کے چار نمبر اور ان کو پانچ پانچ،
جبکہ لیٹر ہمارے لفظ بہ لفظ ایک جیسے تھے، مجھے 90 % یقین ،ہو گیا کہ انگلش کے
ٹیچر سر حسن نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے، میں نے 3 نوں پیپر لے کر حسن کے پاس ،گئی
اور ان لیٹر اور ان کے سپیلنگ کی غلطیاں دکھائی ، لیکن سر حسن نے الٹا مجھے ڈانٹنا
شروع کر دیا کہ آپ ان کے پیپر کس لیے لے کر آئی ہو اور ان کو منع کردیا کہ آئندہ
کوئی دوسرے کا ریفرنس نہیں دے گا ، صرف اپنے حوالے سے بات کرے گا، آخری پیریڈ میں
مجھے سر راؤ صاحب نے اپنے آفس بلا لیا وہاں سر حسن بھی بیٹھے تھے ، سر راؤ نے مجھے
کہا کہ سندس بیٹا کیا مسئلہ ہے؟ سر حسن کہ رہے کہ آپ ان پر الزام لگا رہی ہو کہ سر
عائشہ اور جویریہ کی مارکنگ نرم کرتے ہیں اور آپ کی سخت ، میں نے کہا کہ سر میں نے
تو ایسا نہیں کہا تو سر، حسن نے کہا تو پھر ان کے پیپر اور اپنے پیپر کے نمبر مجھے
کس لیے دکھائے ، میں شرمندہ ہو گئی ، سر حسن نے کہا کہ سر یہ بہت اچھی اور ذھین
سٹوڈنٹ ہے لیکن اس کا ذھن کہیں اور ہے ، اور پر سر نے کافی زور دیا، سر راؤ نے سر
حسن کو کہا کہ نہیں سندس اچھی بچی ہے،میرے خیال میں لو شو کا کوئی چکر نہیں ، اور
مجھے محنت کی تلقین اور ٹیچر ز کی غیر جانبداری پر لیکچر دے کر واپس بھیج دیا، اب
سر جب بھی کلاس میں آتا تو مجھ سے سوال کرتا ، بہت سارے سوال ایسے ہوتے تھے جو مجھ
کو نہیں آتے تھے اور وہی سوال عائشہ کو آتا ہوتا تھا ، میرا ٹینشن سے برا حال تھا
، غیر محسوس انداز میں ہماری کلاس دو حصوں میں تقسیم ہوگئی، کچھ لڑکیاں ان کے ساتھ
تھی اور کچھ میرے ساتھ، میں اب ان سے بہت زیادہ جیلس ہو گئی تھی ہماری کلاس میں دو
لڑکیوں نے کمپیوٹر بھی رکھا ہوا تھا ، ان کا پیریڈ علیحدہ ہوتا تھا اور ان کو سر
ارشدپڑھاتے تھے ، سر ارشد اکیڈمی کا کلرک بھی تھا، وہ دونوں لڑکیاں میرے گروپ کی
تھی، ایک دن ان میں سے ایک لڑکی نے مجھے کہا کہ یہ ویکلی پیپر فوٹی کاپی سر ارشد
کرواتے ہیں اور مجھے شک ہے کہ سر ارشد پیپر عائشہ کو لیک کر دیتا ہے، اس نے بتایا
کہ سر ارشد نے ایک کاغذ عائشہ کو دیا ہے، اور میرے خیال میں وہ پیپر تھا، سر ارشد
تو عائشہ کو کچھ پڑھاتا بھی نہیں تھا، بریک میں میں اور اس لڑکی نے عائشہ کے بیگ
کی تلاشی لی تو اوپر کی جیب میں اگلے دن والا اردو کا پیپر پڑا تھا، کلاس میں ہم 3
سٹوڈنٹس تھی، ہم نے صلاح مشورہ یہ کیا کہ ہمیں فلحال چپ ہو جانا چاہیے، اگلے دن
میں نے بہت سوچ بچار کے بعد سر ارشد سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ، اگلے دن ایک خالی
پیریڈ میں میں کام والی خالہ کے ذریعے سر ارشد کو باہر بلایا اور ڈائریکٹ اس، کو
کہا کہ سر آپ آئندہ پیپر مجھے بھی لیک کریں گے یا عائشہ کو بھی نہیں ، پہلے تو سر
ارشد نے مجھے دبانے کی کوشش کی لیکن میں نے اسے کہا کہ 3 لڑکیاں گواہ ہیں اور وہ
ہر جگہ گواہی کے لیے تیار ہیں
سر راشد نے جب یہ دیکھا میں بہت سیریس ہوں تو
انھوں نے مجھے کہا کہ تم چھٹی کے بعد رک سکتی ہو ؟۔ میں نے کہا کہ یہ تو ممکن نہیں
کیونکہ کہ بھاٸی مجھے لینے آیا
ہوا ہوگا اگر میں باقی لڑکیوں سے لیٹ ہوٸی
تو وہ گیٹ پر آجاۓ گا۔ سر راشد نے
مجھے کہا کہ برآمدے میں زیادہ دیر کھڑا ہونا ٹھیک نہیں اگر تم اصل بات جاننا چاہتی
ہوتو تم کو مجھے اکیلے میں وقت دینا ہوگا۔ میں نے سر کو کہا کہ میں کل پیدل آٶں
اور بھاٸی کو بتا کر آٶں
گی کہ پیدل واپس آجاٶ گی۔ خیر اگلے دن
میں چھٹی کے وقت گیٹ کے ساتھ بنےانتظار کے کمرے میں آ کر کھڑی ہوگٸی
۔ میں نے ظاہر ایسے کیا جیسے میں بھاٸی
کے انتظار میں رکی ہوٸی ہوں۔ چھٹی
کےتھوڑی دیر بعد سر ارشد اپنے آفس سے باہر آٸے
اور چوکیدار سے پوچھا کہ سب بچیاں چلی گٸی
ہیں تو چوکیدار نے کہا کہ نہیں سر ایک بچی بیٹھی ہے انتظار کے کمرے میں۔ سر راشد
میرے پاس آگٸے اور مجھے کہا کہ سندس تم کتنی دیر
رک سکتی ہو ؟ میں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ 15 منٹ۔ سر راشد چوکیدار کے پاس گٸے
اور اسےکہا کہ تمام رومز کے پنکھے لاٸٹس
چیک کرکے دروازے بند کردو ۔ چوکیدار اندر چلا گیا تو سر راشد نے مجھے کہا کہ میں
عاٸشہ
اور جویریہ کو پیپر لیک کرتا ہو اور اس کا مجھے سر راٶ
نے بولا ہے ۔ میں بہت حیران ہوٸی ۔ میں نے کہا کہ
ایسا کیوں ہے تو سر راشد نے کہا کہ اب جو بات آپ کو بتانے لگا ہوں اس کا کسی کو
بتانا نہیں۔ میں نے نہ بتانے کا وعدہ کیا تو سر نے کہا کہ عاٸشہ
اور راٶ
صاحب کی وہ والی دوستی ہے ۔ میں مزید حیران ہوٸی
کیونکہ میں نے تو نہ کبھی ایسا سوچا تھا نہ محسوس کیا تھا۔ مجھے لگا کہ سر راشد
جھوٹ بول رہا ہے میں نے کہا سر ایسا نہیں ہوسکتا ۔ سر نے کہا کہ میں تم کو کو دکھا
دوں گا۔ اگلے دن اردو کا پیپر کے جب نمبر بتاۓ
گٸے
تو میرے 24 نمبر تھے جبکہ عاٸشہ کے انتیس اور
جویریہ کے اٹھایس ۔ مجھ سے اور بھی دو لڑکیوں کے نمبر زیادہ تھے ۔ مجھے بہت تکلیف
ہوٸی
جبکہ مجھے کافی حد تک سوالوں کا بھی پتہ تھا اور تیاری بھی ٹھیک تھی۔ بہت زیادہ
دلبرداشتہ تھی۔ مجھے یقین سا ہونے لگا کہ سر راشد نے سچ کہا ہے ۔ عاٸشہ
اور جویریہ کا اعتماد اور خوشی مجھے زہر لگ رہی تھی ۔ میں نے دل میں تہیہ کر لیا
کہ سر راشد سے کہ کر عاٸشہ کو پیپر لیک
نہیں ہونے دوں گی اور خود پیپر حاصل کروں گی ۔اگلا پیپر پھر انگلش کا تھا اگلے دن
میں سر راشد مجھےبریک ٹاٸم میں مل گٸے
میں نے کہا کہ سر آپ سے بات کرنی ہے تو سر نے کہا کہ بولو ۔ میں نے کہا کہ تھوڑی
لمبی بات ہے تو سر نے کہا یہاں تو پراٸیویٹ
اور لمبی بات ٹھیک نہیں ۔ مسٸلہ بن سکتا ہے
۔میں نے پوچھا پھر کیسے ہو سکتی ہے تو سر نے کہا کہ آپ میرے گھر آ جاٶ
شام کے وقت ۔ میں نے کہا کہ سر میں اکیلے کیسے آ سکتی ہوں ؟ تو سر نے کہا کہ بھاٸی
کے ساتھ آ جاٶ میں وہاں بات کرنے کا موقع نکال
لوں گا۔ میں نے کہا کہ سر میں کوشش کروں گی۔ میں چھٹی کے بعد گھر پہنچی اور میں نے
امی سے کہا کہ سر راشد کی سسٹر میری کلاس فیلو ہے اور 2دن سے بیمار ہے میں بھاٸی
کے ساتھ ان کے گھر جانا چاہتی ہوں ۔ امی نے مجھے اجازت دے دی ۔ مجھے بھی صحیح
اندازہ نہیں تھا کہ میں جھوٹ بول کر سر راشد کے پاس کیوں جا رہی ہوں؟۔ خیر میں بھاٸی
کے سر کے گھر پہنچ گٸ جو تھوڑا دور
تھا۔ بیل کے جواب میں دروازہ سر نے خود کھولااور مجھے اندر آنے کو کہا اور بھاٸی
کو بولا کہ میں بیٹھک کا دروازہ کھولتا ہوں ۔ بھاٸی
کو باہر کھڑا کرکے سر نے دروازہ بند کر دیا ۔میں سر کے انتظار میں کھڑی تھی۔ سر
مجھے اندر گھر میں مکمل خاموشی تھی ۔سر نے مجھے ایک روم میں میں بٹھادیا جس میں
صوفہ اور کرسیاں پڑی تھی ۔ مجھے بہت عجیب سا لگ رہا تھا۔ سر نے مجھے بٹھا کر بولا
کہ میں آپ کے بھاٸی کو بٹھا کر آتا
ہوں۔ مجھے یہ تو اندازہ ہو گیا تھا کہ سر کے علاوہ گھر میں کوٸی
نہیں۔ میں ڈر بھی رہی تھی لیکن کوٸی
سوچ بھی کام نہیں کر رہی تھی۔ایک احساس تھا کہ کچھ غلط ہورہا ہے۔ دو تین منٹ بعدسرواپس
آگیۓاور
مجھے کہا کہ سب گھر والے ایک شادی میں گاٶں
میں گٸے
ہوۓ
ہیں اور میں اکیلا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کے بھاٸی
کو اس بات کا پتا نہ چلے۔ سر نے مجھے کہا کہ تم چاۓ
بناٶ
اور میں کچھ وقت آپ کے بھاٸی کے پاس بیٹھتا
ہوں ۔سر نے مجھے کچن میں چھوڑا۔ دودھ چینی اور پتی کا بتایا اور پانی لے کر بیٹھک
میں چلا گیا۔ پانچ منٹ میں چاۓ تیار ہو گٸی
تو سر چاۓ اور بسکٹ لے کر بیٹھک میں چلا گیا۔
قریبا دس منٹ بعد سر اندر آۓ ۔ اس دوران میں
سوچوں میں پریشان بیٹھی رہی ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔
میں وہاں سے جانابھی چاہتی تھی لیکن کچھ عجیب سے ڈر کی وجہ سے کنفیوزڈ بیٹھی تھی۔
سر کے آنے سے میں خیالوں کی دنیا سے باہر آٸی
۔سر نے کہا کہ ہاں سندس اب بولو کیا مسٸلہ
ہے ۔ میں نے تھوڑی جھجک کے بعدکہا سر کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ پیپر مجھے بھی دے
دیا کریں ۔سر نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا ۔میں ملازم ہوں اور راٶ
صاحب کی مرضی کے بغیر یہ کام میں نہیں کرسکتا۔ میں سر کا انکار سن کر بہت شرمندہ
سی ہوگٸی
۔ سر نے کہا کہ کچھ اور میں نے کہا سر بس یہی کہنا تھا۔ تو سر نے مجھے سمجھایا کہ
سندس تم اپنی محنت جاری رکھو۔یہ اکیڈمی کے پیپروں کی کوٸی
اہمیت نہیں ۔سالا نہ امتحان کو نظر میں رکھو۔ میرا ڈر اور جھجک کافی حد تک کم ہو گٸی
تھی۔میں اور سر اب کافی حدتک فری بات کر رہےتھے۔ میں نے سر کو کہا کہ بھاٸی
بورہا ہوگا تو سر نے کہا کہ میں نے اس کو گھر بھیج دیا ہے اوروہ اب نو بجے آۓ
گا آپ کو لینے۔ جیسے مجھے پتا چلا کہ میں اور اکیلے ہیں تومیرے محسوسات ایک دم
تبدیل ہوگٸے ۔ مجھے سر راشد جو پہلے ایک ٹیچر
لگ رہے تھےوہ مجھے ایک مرد لگنے لگ گٸے
اور مجھے احساس ہوگیا کہ میں جوان لڑکی ہوں۔ سر نے میر ے چہرے کے بدلتے رنگ نوٹ
کرلیے اور مجھے کہا کہ سندس گھبراٶ
نہیں ۔ میں آپ کو ہاتھ بھی نہیں لگاٶں
گا۔ مجھے پتا ہے جو تم سوچ رہی ہو ۔ میں مزید ڈیپریس ہو گٸی
۔ سر نے پھر پرانی بات پر آتے ہوۓ
کہا کہ تم پیپر چاہتی ہو تو میں نے کہا کہ جی سر تو سر نے کہا کہ آپ کا مسٸلہ
پیپر ہے یا عاٸشہ سے زیادہ نمبر
۔ میں نے سر کو کہا کہ میں ہر حال میں عاٸشہ
اور جویریہ سے زیادہ نمبر لینا چاہتی ہوں تو سر نے کہا کہ آپ کے نمبر ان سے کم ہی
ہونگے چاہے آپ کتاب سے دیکھ کر بھی لکھو تو۔ اگرتم یہ چاہتی ہو کہ آپ کے نمبر ان
سے زیادہ ہوں تو آپ کو بھی وہی کرنا ہوگا جو وہ کرتی ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیا
کرتی ہیں تو سر نے بلا جھجھک کہا کہ وہ راٶ
صاحب ۔حسن صاحب اور میرے نیچے لیٹتی ہیں۔ میں تو اتنی واضع بات سن ہکی بکی رہ گٸی
۔ میں نے سر کو کہا کہ سر مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی۔ میں آپ کی بہت ریسپیکٹ
کرتی ہوں لیکن اب مجھے لگ رہا ہے کہ میں غلط تھی۔ سر اپنی جگہ سے کھڑے ہو گۓ
اور مجھے کہا کہ آپ کی مرضی ہے ۔ میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ آپ اس چکر میں
نہ پڑو۔ تم اپنے بھاٸی کا ویٹ کرو۔ میں
بیٹھک کھول کر بیٹھتا ہوں ۔ سر جانے لگے تو مجھے محسوس ہوا کہ سر ناراض ہوگٸے
ہیں ۔ میں نے ان کو کہا کہ سوری سر۔ سر نے کوٸی
جواب نہ دیا اور روم سے نکلنے لگے تو میں نے اچانک سر کا ہاتھ پکڑلیا۔سر نے میری
طرف دیکھا تو میں نے مسکراتے ہوۓ سر کی آنکھوں میں
دیکھا۔ سر نے اگلے لمحے ہی مجھے جھٹ سے گلے لگا لیا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سر راشد نے مجھے
گلے لگانے کے ساتھ ہی اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور کس کرنے لگے لیکن میں
نے چہرہ پھیر لیا ۔انھوں نے بھی زبردستی نہ کی اور مجھے چھوڑ دیا۔ میں سیکس سے
اچھی طرح واقف تھی اور ایک کزن کو پسند بھی کرتی تھی اور ہم دونوں کو اس بات کا
پتا بھی تھالیکن عملی سیکس میں نے نہیں کیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ موقع نہ ملنا تھی۔ میں
جتنی بولڈ اور گرم تھی اگر مجھ سےکوٸی
لڑکا کوشش کرتا تو میں نے دیر نہیں لگانی تھی۔ خیر سر راشد نے مجھے چھوڑا تو میں
مزید پریشان ہوگٸی ۔ سر میرے ساتھ
ہی بیٹھ گٸے اور سوری کرنے لگ گٸے۔
اور پھر کہا کہ سندس میں تم سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ تھوڑی کوشش سے اس نے مجھے
دوستی پر آمادہ کر لیا۔میں نے شرط رکھی تھی کہ میں گندہ کام نہیں کروں گی جس کا سر
نے کہا کہ میں خود ایسا نہیں چاہتا۔بس کسنگ اور پیار کروں گا جس پر میں راضی ہوگٸی
۔ بھاٸی
کے آنے میں 20 منٹ باقی تھے۔ سر راشد نے مجھے اپنی طرف کھینچ کر مجھے کس کرنے لگ
گیا ۔ اس نے میرے ہونٹ اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگ گیا ۔ کبھی وہ اپنی زبان میری
زبان سے ٹکراتا اور کبھی لپس پر پھیرتا۔ میرے اندر کی گرم لڑکی یک دم جاگ اور میں
بھی سر کی زبان چوسنے لگ گٸی ۔ سر نے جیسے
میرا ریسپانس دیکھا اپنے ہاتھ میرے ممے پر رکھ دیے ۔ مجھے بہت ہی مزا آرہا تھا۔ سر
نے کچھ ہی دیر میں اپنا ہاتھ میری قمیض کے اندر ڈال دیا۔ اور میرے ممے پکڑ لیے۔ ان
کا ہاتھ لگتے ہی میری سسکاری نکل گٸی۔
پھر سر نے میری قمیض اوپر کر دی اور میرے دودھ ننگے ہو گٸے
۔ سر اپنے ہونٹ میرے ممے کے نپل پر رکھ کرچوسنا شروع کردیا۔ میں مزے کے آسمان پر
تھی۔ میری پھدی سے پانی کی جھڑی شروع ہوچکی تھی۔ سر نے مجھے کھڑا کیا اور میری
شلوار کو نیچے کر دیا۔ میں سر کو روکنا چاہتی تھی لیکن سر نے اتنی جلدی سے شلوار
نیچے کی اور اپنا منہ میری پھدی پر رکھ کر کس کرنے لگ گیا۔ مجھے بہت مزا آیا۔ پھر
سر نے اپنی ایک انگلی میری پھدی میں ڈال دی ۔میں اپنا ہوش کھوتی جا رہی تھی ۔
دوتین منٹ انگلی کے بعد سر کھڑے ہو گٸے
اور اپنا لن بغیر شلوار اتارے باہر نکالا اور میری پھدی پر رگڑنے لگے۔ میرا دل کر
رہا تھا کہ کاش یہ لن اندر چلا جاۓ
لیکن سر کوشش کر رہے تھے لیکن لن پھسل جاتا تھا۔ تین چار ٹراٸی
کے بعد سر نے اپنا لن میرے چڈوں میں آگے پیچھے کرنا شروع کردیا۔اور پانچ منٹ میں
فارغ ہو گٸے میں نے پہلی دفعہ لن اور منی
دیکھی تھی۔ سر راشد فارغ ہونے کے ساتھ ہی مجھ سے کوٸی
بات کیے روم سے باہر چلے گٸےاور میں وہی صوفے
پر بیٹھ گٸی ۔مجھے سب کچھ نیا نیا محسوس ہورہا
تھا۔ گو کہ میں فارغ نہیں ہوٸی تھی لیکن میں
مزے کی ایک نٸی دنیا سے واقف ہو چکی تھی۔ میرا اب
پہلے سے زیادہ دل کر رہا تھا کہ سر دوبارہ میرے ساتھ کریں لیکن پتا نہیں کیوں سر
میرے پاس نہ آۓ اور بیٹھک میں
بیٹھے رہے ۔کچھ دیر میں میرا بھاٸی
بھی آ گیا اور میں بھاٸی کے ساتھ گھر آ گٸی۔
اگلے دن جب اکیڈمی گٸی تو میرا کانفڈنس
لیول بہت ہاٸی تھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں
نے کوٸی
بہت بڑی فتح حاصل کر لی ہے۔ سر راشد سے ایک دفعہ سامنا ہوا تو وہ مجھے تھوڑا دبا
دبا سا محسوس ہوا جس سر کو دیکھ کر پہلے ڈر کا احساس ہوتا تھا آج اس کو دیکھ کر
تکبر کا احساس ہوا۔ میری سر راشد سے اگلی کوٸی
بات نہیں ہوٸی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ سر کو کم
سے کم پیپر تو مجھے دے دے ۔ لیکن مجھے موقع نہ مل سکا اور چھٹی ہو گٸی۔
شام کو امی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی فرینڈ آج سکول آٸی
تھی تو میں نے کہا نہیں امی وہ ابھی تین چار دن اکیڈمی نہیں آۓ
گی ۔ امی نے اس کی طبیعت کا پوچھا تو میں نے کہا کہ ہے تو ٹھیک لیکن مجھے کہ رہی
تھی کہ تم روز آٶ تو میں جلدی ٹھیک
ہو جاٶں
گی۔یہ بات میں نے مذاق میں کی تھی لیکن امی نے کہا کہ چلی جانا۔ مجھے یہ پتا تھا
کہ سر راشد کے تو گھر والے آج بھی نہیں ہونگے تو موقع سے فاٸدہ
اٹھانا چاہیے ۔ خیر شام 7 بجے میں تیار ہوگٸی
اور بھاٸی کے ساتھ میں سر کے گھر نکل پڑی۔
مجھے ڈر بھی تھا کہ کہیں سر گھر پر نہ ہوۓتو
پھر۔ خیر جیسے ہم پہنچے تو گیٹ پر تالہ نہیں تھا۔ بھاٸی
نے بیل دی تو سر گیٹ پر آۓ ۔ سر ہم کو دیکھ
کر بہت خوش ہوۓ۔ سر نے مجھے اندر
آنے کا بولااور بھاٸی کو کہا کہ آپ
ٹھہروں میں بیٹھک کھولتا ہوں۔ لیکن بھاٸی
نے کہا نہیں سر میں نو بجے آ جاٶں گا۔ اور بھاٸی
چلا گیا۔ میں سر اکٹھے روم آۓ ۔ جیسے ہم روم
میں آۓ
سر نے مجھے پکڑ لیا اور میرے لپس پر اپنے لپس رکھ دے۔ سر دیوانہ وار میرے لپس چوس
رہے تھے اور ساتھ ساتھ میری گانڈ بھی دبا رہے تھے اور میرے جسم پر ہاتھ پھیر رہے
تھے۔ میں ہوش کھوتی جا رہی تھی۔ میری پھدی نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔سر نے
ساتھ ساتھ میرے ممے بھی دبانے شروع کردیے۔ سب کچھ سر ہی کر رہے تھے۔ میں نے عملی
سیکس کبھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی کوٸی
مووی دیکھی تھی۔ امی ابو کو سیکس کرتے دیکھا نہیں تھا لیکن آوازیں سنی تھی ۔باقی
میرا سیکس کے بارے سارا علم صرف سنی ہوٸی
باتوں کا تھا۔ سر نے اب اپنے لپس میرے ممے پر رکھ دیے اور ہاتھ میری شلوار میں ڈال
کر پھدی پر پھیرنے لگ گیا۔ میں ہوش کھو چکی تھی ۔سر نے میری شلوار نیچے کر دی اور
بیٹھ کر میری پھدی پر کس کرنے لگے اور پھدی کے لپس کے علاوہ ارگرد زبان پھیر رہے
تھے۔ مجھے جھٹکے لگ رہے تھے۔ میرے مزے کی انتہا تھی۔سر نے ساتھ ہی اپنی شلوار بھی
اتار دی ۔ اور میری شلوار بھی پاٶں
سے نکال دی ۔ ہم کو پیار کرتے آٹھ دس منٹ ہو گۓ
تھے ۔ سر مجھے وہی پڑی چار پاٸی پر سیدھا لٹایا
اور میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر لن پھدی کے لپس پر پھیرنے لگے ۔مجھے بہت مزا
محسوس ہورہا تھا۔ پھر سر اپنے لن کو پھدی کے سوراخ پر رکھ کر دبانا شروع کر دیا۔
مجھے شروع میں تھوڑا درد محسوس ہوا لیکن پھر سب کچھ نارمل ہو گیا اور سر نے اپنا
سارا لن میری پھدی میں اتار دیا۔ میں اپنی پھدی میں لن محسوس کر کے مزے کی ایک نٸی
دنیا میں داخل ہو چکی تھی ۔ سر نے تین چار منٹ اسی سٹاٸل
میری پھدی ماری اور پھر میری پھدی میں فارغ ہوگٸے۔
اس کے بعد تو یہ سلسلہ چل نکلا۔ کچھ دن بعد ہی سر راشد نے مجھے سر حسن اور سر راٶ
کے نیچے لٹا دیا۔ پھر نہ مجھے نمبروں کا مسٸلہ
ہوتا تھا اور نہ کلاس میں بے عزتی ۔ اس کے بعد میں نے ڈگری کالج کے کلرک سے بھی
چدوایا۔ سندس کی ان باتوں کے دوران میرا لن پھر کھڑا ہو چکا تھا اور ہم نے پھر ایک
دفعہ سیکس کیا اور پھر بس اڈے پہنچ کر گھر روانہ ہو گۓ
۔ اس کے بعد مجھے سندس کے ساتھ کبھی سیکس کا موقع نہ ملا۔ اب تو اس کی شادی بھی ہو
چکی ہے اور خود ٹیچر ہے
Aik achi Koshish hy
جواب دیںحذف کریںkis kis larki aunty baji bhabhi nurse collage girl school girl darzan housewife ledy teacher ledy doctor apni phodi mia real mia lun lana chati hia to muj ko call or sms kar sakati hia only leady any girl only girls 03488084325
جواب دیںحذف کریںنیس سٹوری
جواب دیںحذف کریںHi I m Zahid from Faisalabad koi aunt ya house wife secret relationship rkhna chahti hai to contact me my WhatsApp number is 03322231770
جواب دیںحذف کریں