Pages

اتوار، 3 اپریل، 2022

پردے میں رہنے دو

 

پردے میں رہنے دو



میرے گھر میں نیا چوکیدار آیا تھا۔ لمبا سا سانولے رنگ کا پنجابی لڑکا تھا نام اس کا ساجد تھا اور مجھے وہ بہت سیکسی لگا۔ میں نے سوچ لیا کہ اس پنجابی لڑکے تنخواہ کے ساتھ کچھ بونس بھی دوں گی۔ لیکن پہلے یہ ضروری تھا کہ میں چیک کرلوں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرے گھر میں کسی کو بتادے یا کسی نوکر کو بتادے جو بعد میں میرا بھانڈا پھوڑ دے۔ میرا بیڈ روم پہلے فلور پر ہے اور ہمارے گھر کا واحد بیڈ روم ہے جس کی کھڑکی گھر کے مین گیٹ کی طرف کھلتی ہے باقی سب بیڈ روم دوسری طرف ہیں اور ان کی کھڑکیاں لان میں کھلتی ہیں۔ مین گیٹ کے ایک طرف ایک چھوٹا سا کواٹر ہے جہاں ساجد آرام کرتا تھا۔

میرے ابو اکثر رات کو دیر سے گھر آتے ہیں اسلئیے جب تک ابو نہیں آتے وہ ساجد چوکسی سے گیٹ پر بیٹھا رہتا تھا تاکہ ابو کو زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑے۔اس رات ابو جلدی ہی گھر آگئے تھے مگر لگتا تھا کہ ساجد کو اس کا پتہ نہیں تھا اور وہ ابھی تک گیٹ سے اندر اپنی کوٹھری کے باہر بیٹھا تھا۔ اس نے سیکوریٹی گارڈ والی نیلی یونیفارم پہن رکھی تھی اور کوئی اخبار پڑھ رہا تھا۔ میں نے چپکے سے اسے دیکھا اور اپنے کپڑے اتار دئیے۔ اب میں بالکل ننگی تھی لیکن وہ مجھے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ میں اسے آہستہ آہستہ گرم کرنا چاہتی تھی۔ ننگی ہونے کے بعد میں نے اپنے کمرے میں روشنی کم کردی اب میں کھڑکی کے پاس آکر ٹہلنا شروع ہوگئی۔ میں کھڑکی سے کافی دور ٹہل رہی تھی اور میرا اندازہ یہ تھا کہ ساجد کو یوں لگے جیسے مجھے نہیں معلوم کہ میں اسے نظر آرہی ہوں۔ میں نے چھپ کر دیکھا تو ساجد بے قراری سے کھڑکی کی طرف دیکھ رہا تھا۔اگلے دن میں نے آفس جاتے ہوئے ساجد کو دیکھا اس کی نظریں میرے مموں پر جمی تھیں۔

اس رات میں نے کھڑکی میں اسے ایک ہلکی سی جھلک اور دکھائی۔ ایک دن میں نے اسے اپنے کمرے میں آنے کو کہا اور اسے اپنے واش روم کا نل صحیح کرنے کو کہا۔ واش روم میں میری بریزر اور پینٹی پڑی تھی۔ اسطرح میں اسے تھوڑا تھوڑا دکھاتی رہی۔ایک دن میرے گھر والوں نے تین دن کے لئیے ایک شادی میں لاہور جانا تھا میں آفس کا بہانا کرکے رک گئی۔ صبح صبح میں نے ایک بالکل باریک کپڑے کی قمیض اپنی بریزر پر پہنی اور اس کے پاس جاکر اسے بازار سے کچھ سامان لانے کو کہا۔ اس کی نظریں میری چوچیوں پر جمی ہوئی تھیں۔ میں نے اس سامان سیدھا میرے بیڈروم لے کر آنے کا کہا اور اندر چلی گئی۔ بیڈروم پہنچ کر میں نے اپنی قمیض اور شلوار اتار دی اب مں صرف بریزر پہنی تھی۔ میری چوت گیلی ہونے لگی تھی اور میں نے اپنی انگلیاں چوت پر مسلنے لگی۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی میں نے کہا آجاؤ۔وہ اندر داخل ہوا اور مجھے بیڈ پر ننگا لیٹے دیکھ کر وہ رک گیا۔ میں بیڈ پر ننگی لیٹی تھی اور ٹانگیں اوپر اٹھا رکھی تھیں اور میری انگلیاں میری چوت پر تھی اور میری چوت اس کے سامنے تھی۔اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ میں مسکرائی اور اسے کہا کہ وہ سامان میز پر رکھ کر بیڈ پر آجائے۔ سوری میڈم میں بیڈ پر نہیں آسکتا۔ کیوں؟ میں نے پوچھا۔ آپ میری مالکن ہیں لیکن میں آپ کے ساتھ زنا نہیں کرنا چاہتا۔ یہ سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

میں نے کہا لیکن میں خود تمہیں کہہ رہی ہوں۔ وہ سامان رکھ کر واپس جانے لگا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کا مضبوط بازو تھام لیا۔ تم مجھے ایسے چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ وہ کہنے لگا میڈم مجھے جانے دیں پلیز۔ میں نے کہا اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو میں سب کو بتادوں گی کہ تنہائی کا موقع پا کر تم نے میری عزت لوٹنے کی کوشش کی۔آپ ایسا نہیں کرسکتیں کیونکہ اس سے آپ کی بھی بدنامی ہوگی۔ وہ بولامیں بدنامی سے نہیں ڈرتی ایک لڑکی جو کسی چوکیدار کو اپنا جسم پیش کر سکتی ہے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ کیا کچھ کرسکتی ہے۔میڈم پلیز مجھے جانے دیں میں شادی شدہ ہوں اور اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہوں۔ میرا ایک بچہ بھی ہے۔سوچ لو اگر تم یہاں سے چلے گئے تو میرے ایک فون پر پولیس تمہیں ڈھونڈ نکالے گی تمہارے گاؤں میں تمہارے گھر پر چھاپے پڑیں گے اور تمہاری بیوی کو پتہ چل جائے گا کہ تم نے شہر میں اپنے مالک کی بیٹی کی عزت لوٹنے کی کوشش کی۔ تمہیں جیل ہوجائے گی اور تمہارا بچہ ساری زندگی تم سے نفرت کرے گا۔

میڈم مجھے معلوم ہے آپ شروع دن سے ہی میرے ساتھ یہ کام کرنا چاہتی تھیں لیکن میں نے ہمیشہ آپکی عزت کی ہے آپ مجھ پر مہربانی کریں میں غریب آدمی ہوں۔مہربانی ہی تو کر رہی ہوں میں نے کہا۔ ایک خوبصورت جوان لڑکی بالکل ننگی تمہارے سامنے کھڑی ہے اور پھر اگر تم یہ کرلوگے تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور اگر نہیں کروگے تو مجھ جیسی ڈائن تمہاری زندگی کتنی بھیانک بنادے گی تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ تمہاری نوکری چھوٹ جائے گی تمہیں کراچی شہر چھوڑنا پڑے گا تم اپنے گھر بھی نہیں جاسکوگے۔ میں تمہاری زندگی جہنم بنادوں گی۔کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ بولا ٹھیک ہے۔ لیکن آپ میرے ساتھ زبردستی کررہی ہیں جو کچھ آپ کرنا چاہتی ہیں کرلیں اس نے کہا اور سر جھکا لیا۔

میں اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ تک لائی اور اسے بیڈ پر دھکا دے دیا۔ نیلے رنگ کی پینٹ شرٹ میں اس کا ٹائٹ بدن میرے جسم کو سیراب کرنے کو تیار تھا۔ میں نے اس کے اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹوں پر کسنگ شروع کردی۔ اس نے اپنے ہونٹ مضبوطی سے بند کئیے ہوئے تھے میں نے اس کی مونچھوں پر زبان پھیری۔ اپنا منہ کھولو میں نے کہا اور اس نے منہ کھول دیا میں نے اس کے منہ میں اپنی زبان ڈال کر اس کی زبان سہلائی۔ اس نے اپنے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ رکھے تھے۔ کچھ دیر کسنگ کے بعد میں نے اس کی شرٹ کے بٹن کھولے۔ اس کے سینے پر گھنے کالے بال تھے۔ میں نے اس کے نپلز پر اپنے دانتوں سے کانٹا۔ وہ بالکل ساکت لیٹا ہوا تھا۔ میں نے جب زور سے کاٹا تو اس کے منہ سے 'سی' کی آواز نکلی۔ مگر اس نے ہاتھ نہ ہلائے۔ شرٹ اتارنے کے بعد میں نے اسکی بیلٹ کھولی اور اسکی پینٹ کا بٹن کھولا۔ اندر اس کا سانولا سا لنڈ ادھ مرا پڑا تھا۔ میں نے اپنے ہونٹوں سے اسکے لنڈ کو کس کیا اور اس کی گیندوں کو چوسنے لگی۔ اور ہاتھوں سے اسکے لنڈ کو سہلانے لگی۔

کچھ دیر بعد اس کا لنڈ تھوڑا بڑا ہوا۔ ساڑھے سات انچ کا اور بہت موٹا لنڈ تھا اس کا۔ میں نے اس کا لنڈ منہ میں لیا اور چوسنے لگی۔ پہلے میں نے تھوڑا سا اندر لیا اور اس کے ٹوپے کو اپنی زبان سے سہلایا پھر اس کا لنڈ اور اندر لیا۔ اس کے لنڈ کے ذائقے نے میری چوت میں سے اور جوس نکلوادئیے۔ میں نے اس کے لند کو لالی پاپ کی طرح اندر باہر چوسنا شروع کردیا۔ مگر وہ ایسے ہی چت لیٹا رہا۔پھر میں نے اس کی پینٹ پوری اتاردی اب وہ پورا ننگا تھا اور اس کا لمبا موٹا لنڈ راکٹ کی طرح تنا ہوا تھا۔ مگر وہ ایسے ہی لیٹا رہا۔ میں اس کے برابر میں لیٹ گئی اور اسے کہا کہ وہ میری چوت میں انگلی کرے اس نے انگلی سے میری چوت سہلانا شروع کردی۔ مین نے اپنی چوچی اس کے منہ پر رکھ دی مگر اس نے اپنا منہ بند کئیے رکھا۔ اسے اپنے منہ سے چوسو اور چاٹو میں نے اسے حکم دیا۔

اس نے میرے ممے چاٹنا شروع کردئیے۔ کاٹو زور سے کاٹو میں نے اسے کہا تو اس نے اپنے دانتوں سے میری ممے کاٹے۔ اور انگلیوں سے میری چوت چودتا رہا۔ اس کے بعد میں نے اسے بیڈ پر چت لٹایا اور اپنے چوت اس کے منہ پر رکھ دی۔ مگر اس نے منع کردیا کہ آپ کی چوت نہیں چاٹوں گا۔ میں نے زبردستی اپنی چوت اس کے منہ پر رگڑی اور ہاتھوں سے اس کا منہ دبایا اور اس کے ہونٹ اپنی چوت پر لگائے۔ تنگ آکر میں نے اس کے لنڈ کو چوس کر تھوڑا گیلا کیا۔ اب وہ بیڈ پر چت لیٹا تھا۔ میں اس کے لنڈ پر آئی اور اس کی طرف منہ کرکے آرام سے اس کا لنڈ تھوڑا سا اپنی چوت میں ڈالا۔ پھر آہستہ آہستہ پورا اپنی چوت میں لے لیا۔ پھر میں مزے سے اس کے لنڈ کی سواری کرنے لگی۔

میں مزے سے اس کے لنڈ کی سواری کررھی تھی ۔ اسکے لنڈ سے میری چوت فل ہوگئی تھی اور ہلکا سا درد بھی کر رہی تھی۔ میں اسکے لنڈ پر اوپر نیچے ہورہی تھی اور میرے ممے خوب اچھل رہے تھے، مگر اس نے اپنے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ رکھے تھے اور میری جسم کو ٹچ بھی نہ کر رہا تھا اور اس کی آنکھیں بھی بند تھیں۔ میں کافی دیر تک اس کے لنڈ سے اپنے چوت چودتی رہی مگر اس کی منی نہ نکلی۔

پھر میں بیڈ پر لیٹ گئی اور اسے کہا کہ وہ مجھے چودے۔ وہ کھڑا ہوا اور میں نے اسے بتایا کہ کسطرح چودنا ہے۔ پھر اسنے میری ٹانگیں پکڑیں اور اپنا لنڈ میری چوت میں ایک جھٹکے سے ڈال دیا۔ وہ بہت جاندار مرد تھا۔ پوری طاقت سے وہ میری چوت پر اپنا غصے اور مجبوری نکالتا رہا۔ جتنا زور سے وہ لنڈ اندر ڈالتا مجھے اتنا ہی سرور آتا۔بہت دیر تک چودنے کے بعد بھی وہ ٹھنڈا نہ ہوا اور نہ ہی میں ٹھینڈی ہوئی۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ رک جاؤ اور اس نے اپنا لنڈ میری چوت سے نکال لیا۔ اب میں الٹی ہوئ اور اسے کہا کہ وہ میری گانڈ مارے۔ اس نے پہلے انکار کیا تو میں نے اسے بتایا کہ اب میری چوت پر چدائی کے نشان بھی ہیں اور ڈی این اے ٹیسٹ بھی اب اگر میں چاہوں تو اسے پندرہ سال قید بھی کرواسکتی ہوں۔

اس نے اپنا لنڈ میری گانڈ کے سوراخ پر رکھا۔ میں نے پہلے بھی گانڈ مرائی تھی لیکن اتنا بڑا لنڈ اوراتنے طاقتور مرد کے لنڈ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس نے رکے بغیر اپنا لنڈ پورا میری گانڈ میں گھسیڑ گیا۔ درد سے میری چیخ نکل گئی۔ میں نے اسے رکنے کا کہا مگر وہ نہیں رکا۔ اور اس نے زور زور سے جھٹکے مارنا شروع کردئیے۔ میں چیختی رہی وہ بولا۔رنڈی تجھے لنڈ چاہئیے نا یہ لے کتیا گانڈ میں۔ اور ایک اور زور کا جھٹکا مارا۔ مجھے لگا کہ میری گانڈ پھٹ جائے گی۔ میں نے ہٹنا چاہا مگر اسنے اپنے پیروں میں میرے پیر دبائے ہوئے تھے اور میرے ہاتھ اس کی گرفت میں تھے۔

درد سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے مگر پھر آہستہ آہستہ مجھے مزہ آنے لگا۔ وہ بہت زور زور سے میری گانڈ چود رہا تھا ایک دم پورا لنڈ باہر نکالتا اور پھر پوری قوت سے اندر ڈالتا۔ پانچ منٹ تک اس طرح چدنے کے بعد مجھے اتنا مزہ آرہا تھا کہ دل چاہ رہا تھا یہ چدائی ختم ہی نہ ہو۔ مگر پھر اس نے زور زور سے مجھے دو چار گالیاں بکیں اور مجھے اس کی گرم گرم منی اپنی گانڈ میں نکلتی محسوس ہوئی۔ فارغ ہوتے ہی اس نے مجھے بیڈ پر پھینکا اور میرے منہ پر ایک تھپڑ مارا۔رنڈی اب میں نے تیری خواہش پوری کردی۔ مگر یہ نہ سمجھ کہ تو نے میرا فائدہ اٹھایا ہے میں تجھ جیسی امیر رنڈیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں کوئی تم سے جتنا دور ہوتا ہے وہ اتنا ہی تم اس کا لنڈ اپنی چوت میں لینے کو بیقرار ہوتی ہو۔ اسی لئیے میں یہ ڈرامہ کررہا تھا۔

لیکن آج سے میں یہیں نوکری کروں گا۔ دن میں نوکری کروں گا اور رات میں تو میرے لنڈ کی نوکری کرے گی۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا اور وہ سامان جو میں نے اس سے منگوایا تھا اسکی تھیلی میں سے ایک چھوٹا سے ٹیپ ریکارڈ نکالا۔تیری ساری گفتگو اس ٹیپ میں ریکارڈ ہوچکی ہے اور اب تو وہی کرے گی جو میں چاہوں گا۔ ورنہ تیری شرافت کا سارا بھانڈا پھوڑ دوں گا۔ کتیا! اب مین بھی تجھے چودوں گا اور اپنے دوستوں سے بھی چدواؤنگا۔ تیری چوت کی آگ ہمیشہ کے لئیے ٹھنڈی کردوں گا۔

ساجد نے مجھے اچھا چوتیا بنایا۔ اب اس کے پاس میری آواز کی ریکارڈنگ موجود تھی جس میں میں اس سے خود کو چودنے کے لئیے کہہ رہی ہوں اور اسے دھمکا رہی ہوں کہ اگر اس نے مجھے نہیں چودا تو میں کیا کروں گی۔ مجھے ساجد کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کا زیادہ دکھ نہیں ہوا۔ کیونکہ اس بلیک میلنگ کی آڑ میں ساجد نے بار بار مجھے چودا۔

اکثر رات کو وہ گیٹ چھوڑ کر میرے کمرے میں آجاتا اور مجھے چود کر واپس چلا جاتا۔ مگر پرابلم تب شروع ہوئی جب اس نے مجھے ایک دن اپنے ایک دوست کے پاس جانے پر مجبور کیا۔ میں نے اس کی بہت منتیں کیں مگر وہ نہ مانا اور ایک دن میں آفس سے اس کے ساتھ اس کے دوست کے گھر پہنچی۔ مکان دیکھ کر ہی میں سمجھ گئی تھی کہ یہ ساجد کے دوست کا گھر نہیں ہے کیونکہ وہ ایک بنگلہ تھا۔ ساجد نے کسی سیٹھ سے پیسے لے کر مجھے وہاں سپلائی کیا تھا۔ اندر پہنچی تو ایک موٹا خبیث بڈھا میرا انتظار کر رہا تھا۔ بڈھے نے ساجد کو باہر جانے کا کہا تو میں نے کہا کہ اگر ساجد باہر گیا تو میں کچھ نہیں کروں گی اور جو کچھ کروں گی وہ ساجد کی موجودگی میں ہوگا۔

بڈھا بہت خوار تھا فورا مان گیا۔ بڈھے نے مجھے کپڑے اتارنے کو کہا۔ میں نے اپنی شلوار اور کرتا اتارا بریزر کھولی اور بالکل ننگی کھڑی ہوگئی۔ بڈھے نے اپنے کپڑے اتارے تو اس کا دو انچ کا لنڈ بالکل ساکت پڑا تھا۔ میں نے بڈھے کو بیڈ پر لٹایا اور اس کا دو انچ کا لنڈ اپنی چوچیوں کے بیچ میں دبالیا۔ بڈھے کی مرادانگی بالکل زیرو تھی اور میری چوچیوں میں لنڈ آتے ہی اس نے میرے مموں پر ہی منی نکال دی۔ پھر میں نے واش روم میں جاکر اپنا جسم دھویا۔ باہر آئی تو ساجد نے ایک نئی کہانی سنائی کہ اب بڈھا چاہتا ہے کہ ساجد مجھے اس کے سامنے چودے۔ میں تو ننگی ہی تھی ساجد نے بھی اپنی جینز کی پینٹ اور ٹی شرٹ اتاری اور اپنا لنڈ میرے منہ میں دے دیا۔ ہم لوگ بیڈ پر تھے۔ ساجد لیٹا ہوا تھا اور میں اس کی ٹانگوں میں بیٹھ کر اس کا لنڈ چوس رہی تھی کہ بڈھا پیچھے سے آیا اور میری گانڈ کا سوارخ چاٹنے لگا۔

تھوڑی دیر لنڈ چوسنے کے بعد میں لیٹ گئی۔ بڈھے نے فرمائش کری کہ میں اس کے اوپر ایسے لیٹوں کے میری چوت بڈھے کے منہ پر آجائے میں لیٹ گئی تو بڈھے نے ساجد سے کہا کہ اب وہ میری چوت میں اپنا لنڈ ڈالے۔ ساجد نے میری ٹانگیں اٹھائیں اور اپنا لنڈ بڈھے کے منہ پر ٹچ کرتے ہوئے میری چوت میں ڈال دیا۔ بڈھا اپنی زبان سے میری چوت اور ساجد کا لنڈ چاٹ رہا تھا۔ ساجد نے جلدی جلدی مجھے چودنا شروع کردیا اور جب اس کی منی نکلنے والی تھی تو اس نے اپنا لنڈ میری چوت سے نکالا اور میری پھدی پر اپنی منی کا فوارہ چھوڑ دیا۔ میری پھدی سے ہوتی ہوئی ساجد کی منی بڈھے کی زبان پر گری جسے اس نے فورا چاٹ لیا اور میری پھدی بھی چاٹ کر صاف کردی۔

اس کے چدائی کے بعد ساجد سے جان چھڑانا ضروری ہوگیا تھا اور میں نے ساجد سے جان چھڑانے کا طریقہ بھی سوچ لیا تھا۔ میں نے اپنے ایک پرانے ٹھوکو کو فون کر کے اس سے پوچھا کہ کس طرح ساجد سے پیچھا چھڑایا جاسکتا ہے۔ ساجد میرا چوکیدار ہے جسے بلیک میل کرنے کے چکر میں میں خود بلیک میل ہوگئی تھی اور اب وہ میرے جسم کی کمائی کھانا چاہتا تھا۔ میرے دوست نے کہا کہ مجھے ایک سیاسی جماعت کے غنڈوں سے رابطہ کرنا چاہئیے۔میں نے اس سیاسی جماعت کے کارکنوں کا پتہ لگایا اور ان میں سے ایک لڑکے کاشف کو ریستوران میں لنچ پر بلالیا۔

لنچ کے دوران میں نے اسے بتایا کہ میرے چوکیدار کے ہاتھ میری کچھ ثبوت لگ گئے ہیں جن کی وجہ سے وہ مجھے بلیک میل کر رہا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ میرے راستے کا کانٹا نکل جائے۔ اس نے کہا کہ وہ میرا کام کردے گا مگر شرط یہ ہوگی کہ مجھے اس کے لنڈ کی پیاس بجھانا ہوگی۔ میں تیار ہوگئی اور اس نے مجھے ایک ایڈریس دیا کہ یہاں پہنچ جانا یہیں ساجد کو بھی بلوالیں گے اور تمہارے سامنے اس کو مار مار کے معافی منگوائیں گے اور تمہاری آواز کا ٹیپ بھی نکلوائیں گے۔

اگلے دن میں اس ایڈریس پر پہنچی وہ ایک خالی مکان تھا اور ایک ویران علاقے میں تھا۔ کاشف وہاں چند لڑکوں کے ساتھ میرا انتطار کررہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک کار آکر رکی اور اس میں سے کچھ لڑکے ساجد کو بالوں سے کھینچتے ہوئے باہر لائے۔ پھر انہوں نے ساجد پر خوب لاتیں اور گھونسے برسائے اور اس سے وہ کیسٹ بھی لے لی۔ اس کے بعد کاشف بولا۔ سبین تمہارا کام ہوگیا اب میرا کام کرو۔ یہ کہہ کر اس نے سب لڑکوں کے سامنے اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور اپنا سات انچ لمبا لوڑا باہر نکالا۔ میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اس کا لنڈ چوسنے لگی۔ اس نے کہا نہیں ڈارلنگ پہلے کپڑے اتارو اور پھر میں نے اتنے سارے لڑکوں کی موجودگی میں کپڑے اتار دئیے۔ اور ساجد کا لنڈ چوسنے لگی۔ یہ سین دیکھ کر سب لڑکوں کے لنڈ ان کی پینٹوں میں پھنسنے لگے اور آہستہ وہ سب اپنے لنڈ باہر نکالنے لگے۔ اور مٹھ مارنے لگے۔

تھوڑی دیر بعد کاشف نے مجھے ایک میز پر بٹھایا اور میری ٹانگیں کھول کر اپنا لنڈ میری پھدی میں ڈال دیا اور دھنا دھن میری چوت چودنے لگا۔ کاشف کا لنڈ کسی راکٹ کی طرح کام کررہا تھا وہ پورا لنڈ باہر نکالتا اور پھر ایک جھٹکے سے میری پھدی میں ڈالتا۔ ان جھٹکوں سے میرے ممے اچھل رہے تھے اور میں اپنے ہاتھوں سے انہیں دبا رہی تھی۔آس پاس کھڑے لڑکوں میں سے ایک نے ساجد کے منہ پر گھونسا مارا اور ساجد کے منہ سے خون نکلنے لگا اس لڑکے نے اپنا لنڈ ساجد کے منہ میں ڈال دیا اور ساجد اس کا لنڈ چوسنے لگا۔ اتنے میں ایک اور لڑکے نے ساجد کی پینٹ اتاری اور اس کی گانڈ میں اپنا لنڈ گھسیڑ دیا ساجد پہلے ہی زخموں سے چور تھا بیچارا کچھ نہیں کرسکا۔

ایک طرف کاشف مجھے چود رہا تھا دوسری طرف دو لڑکے ساجد کی گانڈ مار رہے تھے۔ اور باقی لڑکے مٹھ مار رہے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے کی منی نکلنے والی تھی اس نے جلدی سے قریب آکر اپنی منی میرے منہ پر ڈال دی جبکہ کاشف بدستور میری پھدی زور زور سے چود رہا تھا۔ باقی لڑکے بھی باری باری آکر اپنی منی میرے منہ مموں اور پیٹ پر ڈالتے رہے۔ اور آخر کار کاشف نے بھی میری چوت میں اپنی منی چھوڑ دی۔ ساتھ ہی میں بھی ٹھنڈی ہوگئی۔ سب لڑکوں اور کاشف نے مل کر ساجد کے اوپر پیشاب کیا اور پھر ہم سب کپڑے پہن کر اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر ساجد کو وہیں چھوڑ کر چلے گئے۔اس دن کے بعد میں نے ساجد کو پھر کبھی نہیں دیکھا۔ ہاں کاشف اور اس سیایسی جماعت کے لڑکوں کے ساتھ میں اکثر چدواتی رہی اور ان سے اپنے دوسرے کام بھی نکلواتی رہی۔

ختم


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

thanks