نمرہ اور باسط ایک یونیورسٹی میں ہم جماعت تھے۔ پوری
جماعت میں ان کے درمیان بہت بحث و تکرار کسی بھی بات پر ہوجاتی اور آپس میں مقابلہ
بھی بہت ہوتا۔ دونوں پڑھنے لکھنے میں تیز تھے۔ باسط بہت شریف اور سادہ سا لڑکا تھا
اس میں نشہ کرنے اور دوسرے عیب ہرگز نا تھے۔ کلاس میں کبھی نمرہ زیادہ نمبر لے
جاتی کبھی باسط یعنی مقابلہ دونوں میں اوپر نیچے ہوتا رہتا تھا۔ نمرہ کچھ زیادہ
جذباتی تھی اور اس میں اکڑ کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ اپنی عزت یا اوقات پر زرے برابر
بھی بات برداشت نا کرتی اور پوری کلاس میں اکڑ کر کلاس کی لڑکیوں کو اپنے پیچھے
لگائی رکھتی۔ امیر فیملی کی لڑکی تھی اس کو کوئی ڈر خوف بھی نہیں تھام کسی سے بھی
الجھ جاتی تھی۔ اساتذہ کی بہت عزت کرتی مگر بے عزتی پر ان سے بھی تکرار شروع
کردیتی۔ سب اس سے تھوڑا ڈرتے اور اس کی قابلیت کی عزت بھی کرتے اساتذہ کو بھی وہ
اسی بات پر اچھی لگتی تھی کے وہ قابل تھی اور پڑھائی میں اس کی کبھی کوئی شکایت نا
تھی۔ باسط کے بھی کلاس فیلوز سب اس سے بہت پیار کرتے اور اس کے پکے دوست تھے اس کا
ساتھ دیتے اور اس کے ساتھ رہنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ نمرہ جان بوجھ کر گزرتے
گزرتے باسط کو آگ لگانے والی باتیں کرتی کے دیکھیں گے اس بار کون پہلی پوزیشن لیتا
ہے کون زیادہ نمبر یا گریڈ لے گا۔ اور باسط اس کی بس سن لیتا اور اسے دیکھیں گے کا
جواب دے دیتا۔ وہ شاید لڑکی ہونے کے ناتے بھی اس کی عزت کرتا اور اس سے زیادہ بحث
میں نا پڑتا تھا۔ اساتذہ کے سامنے بھی کئی بار ان کی بحث اور لڑائی ہوجاتی اور وہ
دونوں ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اب ان کے فائنل امتحان قریب
تھے تیاریاں خوب زور شور پر تھی۔ پڑھائی کو سبھی پورا پورا وقت دے رہے تھے۔ باسط
اپنی جگہ اور نمرہ اپنی جگہ پہلے سے بھی زیادہ محنت کر رہے تھے۔ اساتذہ اور باقی
کے اسٹوڈنٹس بھی ان دونوں میں مقابلے کے منتظر تھے۔ دونوں کا مقابلہ بھی کسی
الیکشن سے کم نا تھا۔ کلاس میں ایسے نعرے لگائے جاتے جیسے بس وہی دونوں پوزیشن
حاصل کرنے کے لیئے رہ گئے ہیں اور کوئی ان کے مقابلے میں ہے ہی نہیں۔ خیر امتحان
قریب آئے اور سب کے محنت کی سب کے سب اب صرف باسط اور نمرہ کے نتیجے کا انتظار کر
رہے تھے۔ جب نتیجہ نکلا تو باسط نمرہ سے چند نمبر زیادہ لے کر پہلے نمبر پر رہا
اور نمرہ دوسرے نمبر پر۔ باسط کے سب دوستوں نے بہت جشن کیا پوری یونیورسٹی میں اسے
کندھوں پر اٹھائے گھومتے رہے۔ یہ بات نمرہ کو راس نا آئی اور وہ اندر ہی اندر جلتی
گئی اسے اپنی شکست کو دیکھنا قبول ہی نہیں ہورہا تھا۔ وہ دانتوں کو پیس پیس کر
باسط کے ساتھ جشن کرنے والوں پر غصہ کر رہی تھی۔ اب بات اس کی انا پر آگئی تھی۔ تو
پاس کھڑی دوست نے مشورہ دیا کے دشمن کو غصے سے نہیں پیار کی مار مارتے ہیں۔ اور
زبان کڑوی نہیں شہد جیسی میٹھی رکھو اور مٹھی زبان کی تلوار سے اپنے دشمن کو کاٹ
ڈالو۔ نمرہ کی سمجھ میں یہ بات آئی اس نے ایک پلان کیا۔ باسط کی کامیابی کے دن ہی
اس نے کلاس میں جاکر باسط سے بہت پیار سے بات کی۔ جب وہ اس کے پاس گئی تو اس ساری
جماعت دیکھ رہی تھی۔
نمرہ: بہت بہت مبارک ہو باسط۔
باسط: شکریہ!
نمرہ: ہاتھ نہیں ملاو گے؟
باسط: کیوں نہیں ہاتھ ملانے میں کوئی مسئلہ نہیں یہ لو۔
نمرہ: خیر تمہاری محنت تھی شاید میری محنت میں کمی تھی
جو تم سے پیچھے رہی۔
باسط: مممممم
نمرہ: تم حقدار تھے اس مقام کے اور عقلمند تو ہو ہی خیر
میں تمہیں انعام کے طور پر کچھ دینا چاہوں گی۔
باسط: وہ کیا؟
نمرہ: میں تمہاری کامیابی پر ایک پارٹی دینا چاہتی ہوں۔
باسط: اس کی ضرورت نہیں تم نے مبارکباد دی وہ کافی ہے
میرے لیئے۔
نمرہ: ارے کیا ہوگیا ہے اس کا مطلب ہے تم ابھی بھی دل
میں کدورت رکھتے ہو۔
باسط: نہیں ایسی بات نہیں ہم کرلیں گے خود پارٹی کیوں
بوائیز؟
نمرہ: میں پوری کلاس کو دعوت دیتی ہوں۔ اور ایسا ہے تو
میرا خیال ہے کے تم اپنی خوشی میں شامل نہیں کرنا چاہو گے مجھے۔
باسط: نہیں ایسی بھی بات نہیں اتنے برے نہیں ہم۔
ساری کلاس بولنے لگی کے باسط مان جا خوشی سے دعوت دے رہی
ہے نمرہ مان جا سب مل کر انجوائے کریں گے۔ باسط مان جاتا ہے اور نمرہ باسط کی
کامیابی کی خوشی میں ایک شاندار پارٹی کا اپنے فارم ہاوس پر اعلان کرتی ہے۔ سب بہت
پرجوش ہوتے ہیں اور اس پارٹی کا سبھی کو بہت انتظار ہونے لگتا ہے۔ پارٹی کا دن آتا
ہے باسط اپنے دوستوں کے ہمراہ پہنچتا ہے پارٹی کے دن کلاس کے کافی لوگ نہیں آپاتے
مگر پھر بھی جو نمرہ اور باسط کے زیادہ قریب تھے وہ تو ضرور آتے ہیں۔ پارٹی چلتی
ہے کھانا پینا چل رہا ہوتا ہے اور پارٹی میں بہت سے لڑکے لڑکیاں نشے کر رہے ہوتے
ہیں۔ ایک دوسرے کے اوپر گر رہے ہوتے ہیں اور خوب ہنسی مذاق چل رہا ہوتا ہے۔ نمرہ
باسط کو دیکھ دیکھ کر آج اور بھی زیادہ جلتی ہے کے وہ اس قدر خوبصورت لگ رہا ہوتا
ہے کے کلاس کی سب لڑکیاں اور نمرہ کی یونیورسٹی سے ہٹ کر بھی سہیلیاں باسط کی
تعریف کرتی ہیں۔ نمرہ شراب کے گلاس پر گلاس کھینچتی چلی جاتی ہے۔ اور باسط کی طرف
غصے سے دیکھتی جاتی ہے جب بھی وہ کبھی اسے پلٹ کر دیکھتا ہے تو نمرہ آگے سے مسکرا
دیتی۔ ڈانس چل رہا ہوتا ہے اور سب اپنی اپنی گپ شپ میں مگن ہوتے ہیں کے نمرہ ہاتھ
میں شراب کا گلاس لیئے باسط کے پاس جاتی ہے اسے اس کی جگہ سے بہت پیار سے اٹھاتی
ہے۔ باسط بالکل اپنی اصل حالت میں ہوتا ہے اس نے کچھ بھی ایسا نہیں کیا ہوتا کے
ڈگمگائے یا اپنے ہوش میں نا رہے۔ نمرہ باسط کو اسٹیج پر لیجاتی ہے اور ہاتھ میں
شراب کا گلاس لیئے سب کو اپنی طرف مخاطب کرتی ہے۔
نمرہ: ہیلو! آپ سب کے آنے کا شکریہ آج کی شام یہ پارٹی
جو آپ انجوائے کر رہے ہیں باسط کی کامیابی کی خوشی میں ہے۔
سب لوگ شور مچاتے ہیں اور اونچی آواز سے نمرہ کو سراہتے
ہیں۔ ساتھ ہی نمرہ مڑ کر باسط کی طرف دیکھتی ہے تو ہاتھ میں پکڑا شراب سے بھرا
گلاس اچھال کر ساری شراب باسط کے منہ پر پھینک دیتی ہے۔ سب کے سب حیران رہ جاتے
ہیں اور ایک دن سناٹا چھا جاتا ہے۔ نمرہ باسط کے منہ پر تھوکتی ہے اور نشے میں
اسٹیج پر ڈگماتے ہوئے سب کو کہتی ہے۔
نمرہ: یہ پارٹی اس کی ہے؟ یہ یہ ہی یہ ہی سمجھ سسسسس
سمجھ رہے ہو نا آپ سب؟ نہیںییییییی یہ پارٹی یہ پارٹی میری ہے اس کو چیلنج دینے کے
لیئے اگلی بار اگ اگگگ اگلی بار یہ مجھ سے جیت کر دکھائے اگلی بار میر میری
کامیابی کی پارٹی ہوگی۔ اس کی کیا اوقات ہے؟
باسط چپ چاپ غصے سے نمرہ کی اس حرکت پر اس کے چہرے کی
طرف دیکھ رہا ہوتا ہے وہ خاموشی سے کھڑا رہتا ہے۔ نمرہ وہیں کھڑے سگریٹ لگاتی ہے۔
اور سگریٹ کا ایک کش کھینچ کر دھواں باسط کے چہرے پر اڑا کر بولتی ہے چلو بس ختم
پارٹی اور تو تو جو ہے نا تو سب سے پہلے نکل۔ اور تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا چل
دیکھ کیا رہا ہے چل اب کھا پی لیا نا دفعہ ہو یہاں سے چل۔
نمرہ باسط کو بہت زیادہ بے عزت اور رسوا کرتی ہے۔ باسط
اسی وقت چل پڑتا ہے اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور وہ تیزی سے فارم ہاوس کے
باہر کا رخ کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساری پارٹی کا ماحول خراب ہوجاتا ہے اور سب
حالانکہ نمرہ کی اپنی سہیلیاں اسے چھوڑ کر چل پڑتی ہیں۔ وہ چلاتی ہے چیختی ہے کے
تم لوگ تو رکو۔ مگر کوئی نہیں رکتا اس وقت وہ اپنی بھی بے عزتی سمجھ کر وہاں سے چل
پڑتے ہیں اور نمرہ کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ نمرہ کے نوکر اٹھا کر اسے اندر کمرے
میں لیجا کر سلا دیتے ہیں۔ نمرہ کو کچھ ھوش نہیں ہوتا کے وہ کہاں پڑی ہے اور اس سے
کیا حرکت سرزد ہوئی ہے۔ کالج سے پندرہ دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اگلی صبح نمرہ اٹھتی
ہے اور اٹھ کر تھوڑا بہت پریشان ہوتی اس کے زہن میں اتنا ضرور ہوتا ہے کے رات کو
اس سے کچھ غلط حرکت ہوئی ضرور ہے اور اسی کے بارے مکمل جانکاری کے لیئے وہ اپنے
نوکروں کو بلاتی ہے اور وہ بھی سر جھکائے نمرہ کو اس کی رات کی گئی حرکت کے بارے
میں صاف صاف بتا دیتے ہیں۔ نمرہ بہت پریشان ہوجاتی ہے کے وہ کیوں اپنے غصے پر قابو
نہیں کر پائی اور اس نے یہ کیا حرکت کردی۔ اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی ہے کے وہ
غصے کی اس قدر گھٹیا ہے کے وہ قابو نا کر پائی کسی کی کامیابی اسے ہضم تک نا ہو
پائی اور کونسی زندگی موت کا مقابلہ تھا اس شریف لڑکے باسط سے بلآخر پڑھائی ہی کا
تو مقابلہ تھا۔ اس کا زہن کام کرنا بند کر دیتا ہے اسے باسط کا چہرہ یاد آتا ہے
اور وہ اس کا معصوم چہرہ یاد کرکے زار زار رونے لگتی ہے۔ وہ اپنی ایک دو قریبی
سہیلیوں کو کال ملاتی ہے تو ان سے بھی اسے پتا چلتا ہے کے رات اس نے کیا حرکت کی۔
خیر یونیورسٹی دوبارہ شروع ہوتی ہے تو نمرہ باسط سے نظریں نہیں ملا رہی ہوتی اور
باسط تو اس کی طرف دیکھتا تک نہیں۔ باقی بھی کلاس کے سب اسٹوڈنٹس نمرہ کے اس برے
رویئے سے اس کے ساتھ بات چیت کم کر دیتے ہیں۔ یونیورسٹی کے چند دن بعد نمرہ رات کو
ایک پارٹی سے گھر جارہی ہوتی ہے تو اس کے سامنے ایک لڑکا سڑک پر گر کر ایکٹنگ کرتا
ہے اور نمرہ اس پر ترس کھا کر باہر آتی ہے اور اسے قریب ہوکر دیکھتی اور پوچھتی ہے
تو اسے فوری پیچھے سے کوئی اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے اغواء کر لیتا ہے۔ وہ
چلانے کی کوشش کرتی ہے ہاتھ پیر مارتی ہے مگر کچھ نہیں ہوتا۔ پانچ سے چھ لڑکے ہوتے
ہیں جو اسے ایک خالی گھر میں لےجاتے ہیں۔ مگر سب میں سے صرف ایک ہی نمرہ کے ساتھ
بند کمرے میں ہوتا ہے۔
نمرہ: کون ہو تم کس لیئے لائے ہو مجھے؟ تم جانتے نہیں
میں کون ہوں۔
وہ لڑکا منہ پر نقاب پہنے کچھ بولتا ہی نہیں۔ اور اسے
ایک کمرے میں لیجا کر پھینک دیتا ہے۔
ہاتھ باندھے وہ اسے پہلے بٹھا دیتا ہے اور پھر اس کو اسی
کمرے کے باتھ روم میں لیجا کر اس کے ساتھ ظالمانہ انداز میں پیش اتا ہے۔ نمرہ بہت
چیختی اور چلاتی ہے کوشش کرتی ہے کے اس کی جان چھوٹ جائے وہ ان درندوں کے شکنجے سے
چھوٹ جائے مگر وہ اسے بالکل نہیں چھوڑتا۔
نمرہ کا رو رو کر برا حال ہوا ہوتا ہے اور سامنے والا
لڑکا بس اسے زیادہ کسی قسم کی تکلیف دیئے اپنا لن نکال کر اسے چوسنے کو کہتا ہے۔
وہ نخرے کرتی ہے تو اسے رکھ کر ایک تھپڑ مارتا ہے اور اس کا منہ لال کر دیتا ہے۔ نمرہ
کے آنسو نکل آتے ہیں۔ اور وہ آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے ہی لولا منہ میں لیکر چوسنا
شروع کردیتی ہے۔
لڑکا بہت سختی سے پیش آتا ہے وہ لولا اس کے حلق میں
پھنسا پھنسا کر اسے درد دیتا ہے اور جب لولا چند سیکنڈ پھنسا کر نکالتا ہے تو نمرہ
منہ کھول کھول کر سانس لیتی ہے۔
لڑکا مکمل جوش میں آیا ہوتا ہے اسے بہت مزا آتا ہے اور
وہ نمرہ کے منہ کو ہی پھدی بنا کر چودنے کے انداز میں لن بیچ میں پھنسائے دیتا ہے۔
اس کے حلق تک لولا کرکے سر کے پیچھے سے پکڑ کر اسے ہلنے بھی نہیں دیتا اور جب سانس
بند ہونے کی نوبت تک آتا ہے تو وہ پھر اپنا لولا ایک دم باہر نکالتا ہے اور لولا
رالوں سے بے شمار بھرا ہوتا ہے۔
نمرہ کے منہ سے لولا نکال کر وہ اس کے منہ کے آگے گانڈ
کرتا ہے کے اس کی گانڈ کو چاٹے۔ مگر نمرہ انکار کرتی ہے اور بار بار منہ پیچھے
کرتی ہے۔ وہ لڑکا رکھ کر پھر ایک تھپڑ مارتا ہے اور نمرہ پھر سے آنسووں سے رونا
شروع کردیتی ہے اور اس کے روتے روتے لڑکا اپنی گانڈ کھول کر اس کے آگے کرتا ہے تو
پھر وہ زبان نکال کر اس کی گانڈ کا سوراخ چاٹنے لگتی ہے۔ لڑکا اسی طرح گانڈ کے
سوراخ کو چٹوانے کا خوب مزا لیتا ہے۔ نمرہ بھی مجبوری میں اپنے گھٹنوں پر بیٹھے اس
کی گانڈ میں منہ دیئے رکھتی ہے۔
لڑکا اپنی گانڈ کافی دیر اور ظالمانہ انداز میں چٹوانے
کے بعد اسے الٹا کرتا ہے اور اس کی پھدی میں لن دے مارتا ہے اسے درد پہنچانے کے
لیئے اس کے گالوں میں انگلیاں پھنسا کر کھینچتا ہے اس کی شکل کو بگاڑتا ہے ساتھ ہی
ساتھ لن بھی اس کی پھدی میں ظالمانہ طریقے سے دیئے ہی رکھتا ہے۔
اس قدر ظلم پر اتر آتا ہے کے زور دار جھٹکوں سے نمرہ
رونے والی ہوجاتی ہے اور چلاتی ہے بس کرو مجھے معاف کردو کون ہو تم لوگ بس کرو۔
مگر وہ ظالم اس کی پھدی ہوں لے رہا ہوتا ہے جیسے اس نے دوبارہ کسی پھدی کا منہ نہیں
دیکھنا۔ لڑکے کو تو اتنی زبردست پھدی مارنے کا مزا آرہا ہوتا ہے مگر نمرہ کی جان
جاتی ہے اسے مزا تو آتا ہے مگر جو ظالمانہ جھٹکے اس کی جان کھینچ رہے ہوتے ہیں۔
اور بد تمیزی کا یہ عالم ہوتا ہے کے وہ نمرہ کا سر کمبوڈ میں دے دیتا ہے۔
سر کمبوڈ میں دیئے ہوئے وہ اس کی صرف ایک ہی انداز میں
گھوڑی بنا کر پھدی لے رہا ہوتا ہے۔ نمرہ کے ساتھ نہایت بری ہوتی ہے۔ نمرہ منت کرتی
ہے کے اسے چھوڑ دیا جائے۔ مگر مجال ہے کے لولا اس کی پھدی سے باہر آجائے۔ لن دھنا
دھن اس کی پھدی کے گہرے سمندر میں ڈبکیاں لے رہا ہوتا ہے اور نمرہ درد سے رو رہی
ہوتی ہے۔
آدھا گھنٹہ چودنے کے بعد وہ لڑکا اس کی موبائل سے ویڈیو
اور تصاویر بنا لیتا ہے۔ اور جب اس کے منہ پر منی گرانے کی باری آتی ہے تو وہ سچ
میں بہت رو رہی ہوتی ہے جس طرح اسے بری طرح چودا گیا تھا۔
پھر لڑکا اپنا لن ہلا ہلا کر اس کے چہرے کو منی سے بھر
دیتا ہے اور نمرہ چپ چاپ ساری کی ساری منی اپنے چہرے پر گرانے دیتی ہے۔ نمرہ اس
لڑکے کی انگلی پر ایک ٹیٹو بنا دیکھتی ہے جو اس نے باسط کی اسی انگلی پر دیکھا
تھا۔ نمرہ کو سمجھ آجاتی ہے کے باسط نے اس سے بدلہ لیا ہے اور وہ اس کے خلاف کچھ
بھی کرنے کا نہیں سوچتی اور خاموش رہ کر اس بات سے انجان رہتی ہے
ختم شُد
bold urdu novel pk saaqi download
bold urdu novel pk saaqi ebook
bold urdu novel pk saaqi facebook
bold urdu novel pk saaqi novel
bold urdu novel pk saaqi online pdf
bold urdu novel pk saaqi pdf download
Hi I am Zahid here koi aunty hot lady sex chat krna chahti hai to my WhatsApp is 03554751135
جواب دیںحذف کریںAny girl and aunty in Lahore and kasur area want to secret relationship contact me 03051233824
جواب دیںحذف کریں