پولیس والا
نعیم بہت تیزی سے گاڑی بھگا رہا تھا ، سو کے قریب سپیڈ والی سوئی
چلی گئی تھی ، نعیم اکیلا ہی تھا وہ گاڑی کو چیک کر رہا تھا کہ اب انجن کیسا کام
کر رہا ھے پہلے گاڑی پچاس تک بڑی مشکل سے پہنچتی تھی لیکن اب گاڑی ایسے تھی جیسے
زیرو میٹر ، میٹر کی سوئی ایک سو بیس تک جا رہی تھی -نعیم پنجاب پولیس میں ایک
ڈرائیور تھا ، آج صبح وہ ڈیوٹی پہ واپس آیا تھا تو اسے پتا چلا تھا کہ کل گاڑی کا
کام کروایا گیا ھے اس لئے وہ چیکنگ کے لئے نکلا تھا باقی ملازم ابھی ناشتہ کر رہے
تھے اس لئے وہ اکیلا ہی تھا – نعیم چیکنگ کے بعد نارمل سپیڈ سے واپس پولیس سٹیشن آ
رہا تھا کہ نہر کے پاس اسے کچھ لوگوں نے رکنے کا اشارہ کیا ، نعیم نے گاڑی روکی تو
لوگوں نے اسے بتایا کہ ایک لڑکی خودکشی کرنے لگی تھی اور ہم نے اسے پکڑ رکھا ھے
لیکن ہمیں وہ گالیاں دے رہی ھے ، نعیم نے لڑکی کا پوچھا تو وہ ایک طرف کھڑی تھی
اور دو تین مرد اس کے اردگرد کھڑے تھے ، نعیم نے لڑکی کو اپنی طرف آنے کا اشارہ
کیا تو وہ گاڑی کے دروازے کے پاس آ گئی – نعیم نے پوچھا کیوں خودکشی کرنے لگی تھیں
؟ وہ آگے سے خاموش رہی نعیم نے لوگوں سے پوچھا کہ اسے روکا کس نے تھا ؟ تو ایک
آدمی آگے آیا ،بقول اس کے “کہ لڑکی نے جوتا اتارا اور اپنا دوپٹا اتار کر پل کی
دیوار پر رکھا اور دیوار پر چڑھنے لگی تو میں نے اسے پکڑ لیا “-نعیم نے پوچھا تم
اس وقت اس کے پاس کیسے پہنچے ؟میں وہاں سے گزر رہا تھا میری نگاہ اس پر تب پڑی جب
یہ پل پر کھڑی ہوئی ، میرے سامنے اس نے دوپٹا اتارا اور جب جوتا اتار کر اوپر
دیوار پر چڑھنے لگی میں اس وقت قریب پہنچ گیا تھا اور اسے پکڑ لیا، اس آدمی نے
تفصیل بتائی –نعیم نے لڑکی سے دوبارہ پوچھا کہ کس وجہ سے مرنے لگی تھیں لیکن وہ
خاموش رہی -نعیم نے لڑکی کا جائزہ لیا اس کے اندازہ کے مطابق لڑکی کی عمر لگ بھگ
بائیس سال تھی اور وہ ایک قبول صورت لڑکی تھی ، سانولہ رنگ ، پتلے پتلے ہونٹ ، اور
بھاری چھاتی مطلب کہ نسوانی حسن سے مالا مال تھی اور قد بھی عام عورتوں سے تھوڑا
نکلتا ہوا تھا اسے کسی حد تک خوبصورت سمجھا جا سکتا تھا جب نعیم نے دیکھا کہ وہ
خاموش ھے اور اس کے سوالوں کا جواب نہیں دے رہی تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ کوئی
اس کو جانتا ھے ؟ تو سب نے نفی میں جواب دیا نعیم نے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا
تو وہ پیچھے بیٹھ گئی ، نعیم نے لوگوں سے پوچھا ساتھ میں کون جائے گا بطور گواہ
؟کسی نے بھی ساتھ جانے کی حامی نہ بھری ،لوگ پولیس سے ایسے ڈرتے ہیں جیسے بواسیر
والا بندہ سالن میں تیز مرچوں سے ،نعیم نے جب دیکھا کہ ساتھ کوئی بھی نہیں جائے گا
تو اس نے لڑکی کو آگے افسر والی سیٹ پہ بلا لیا مبادہ پیچھے سے کہیں کود ہی نہ
جائے –لڑکی نعیم کے ساتھ بیٹھ گئی اور نعیم نے گاڑی آگے بڑھا دی ، نعیم نے اس کی
طرف دیکھا وہ خاموشی سے ہونٹ کاٹ رہی تھی ، نعیم کی نگاہ اس کی چھاتی پر پڑی جس پر
دوپٹا ہٹا ہوا تھا ، لڑکی کی تگڑی چھاتی دیکھ کر نعیم کی پینٹ میں تھوڑی ہلچل ہوئی
اور اس کے سات انچ لمبے موٹے لن میں اکڑاہت پیدا ہونا شروع ہو گئی ، نعیم نے اپنا
ہاتھ گئیر سے اٹھا کر اپنے لن پہ رکھا اور اسے مسلنے لگا ، لڑکی نے کن آنکھیوں سے
نعیم کے ہاتھ کی طرف دیکھا جس سے اس نے اپنا لن پکڑا ہوا تھا اور اسے مسل رہا
تھانعیم نے جب دیکھا کہ لڑکی نے اسے لن مسلتے دیکھ لیا ھے تو اس نے اپنا ہاتھ وہاں
سے اٹھا کر سٹئیرنگ پر رکھ لیا –اس نے لڑکی سے اس کا نام پوچھاسونیا لڑکی نے آہستہ
سے جواب دیانعیم نے اس سے پوچھا کیوں مرنا چاہتی ہو ؟سونیا نے کوئی جواب نہیں دیا
سونیا خاموش تھی لیکن نعیم کے ذہن پر سیکس سوار ہو چکا تھا اور اس کے ذہن پر
شیطانیت چھا چکی تھیاس نے سونیا کی طرف دیکھا اس کی جاندار چھاتی اب بھی علیحدہ ہی
نظر آ رہی تھی دوپٹا ہٹا ہوا تھا ، نعیم نے دوبارہ سے پوچھا سونیا کیوں خودکشی
کرنے لگی تھیں ؟امی سے لڑائی ہوئی تھی اسلئے مرنا چاہتی تھی سونیا نے اھستگی سے
جواب دیا،ابھی تمہاری عمر ہی کیا ھے ، تم نے ابھی دیکھا ہی کیا ھے اس دنیا میں
؟(نعیم کا ہاتھ سٹیئرنگ سے گئیر پر ) یہ دنیا بہت خوبصورت ھے تمہیں شاید ابھی اس
کا احساس نہیں ھے – یہ کہتے ہوئے اس کا ہاتھ سونیا کے ران پر رینگ گیاسونیا کی نرم
ران پر نعیم کا ہاتھ آھستگی سے حرکت کرنے لگا ، سونیا ایسے تھی جیسے اسے سانپ
سونگھ گیا ہو ، اس کی طرف سے کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں تھی کوئی روک نہیں تھی
لیکن چہرے پہ اقرار کا بھی کوئی شائبہ تک نہیں تھا ایسے لگتا تھا جیسے اسے سمجھ
نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس قسم کا ردعمل ظاہر کرے گھر سے وہ خودکشی کرنے نکلی تھی
اور پھر پولیس کی گاڑی میں پولیس والا اپنی حد سے بڑھ رہا تھا لیکن دماغ پہ بےحسی
چھائی ہوئی تھی لیکن اس کی بے حسی اسوقت ختم ہو گئی جب نعیم کا ہاتھ اھستگی سے اس
کی رانوں کے درمیان اس کے سوراخ کی طرف بڑھا اور اس کے سوراخ کے دیواروں کو نعیم
کی انگلیوں نے چھوا تو اس کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور کرنٹ کی ایک لہر اس کے پورے
جسم میں دوڑ گئی اور سونیا نے بے اختیار نعیم کا ہاتھ پرے دھکیل دیا سونیا ہوش کی
دنیا میں واپس آ چکی تھی - نعیم نے اس کی طرف سے مزاحمت محسوس کرتے ہوئے اپنا
ہاتھ اس کی رانوں کی طرف دوبارہ نہ بڑھایا –نعیم پہلے اسے باتوں سے رام کرنا چاہتا
تھا اسے پتا تھا کہ یہ ابھی جذباتی ھے اور خودکشی کرنے آئی تھی ایسے میں کوئی
مسلئہ ہی کھڑا نہ کر دے اور اسے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں –نعیم نے صدیوں
پرانا عورتوں کے لئے بنا ہتھیار استمال کرنے کا فیصلہ کیا جس سے عورت عام طور پر
چت ہو جاتی ھے جی ہاں آپ صحیح سمجھے اس ہتھیار کا نام ھے تعریف –سونیا تم بہت حسین
ہو ، تمہارا حسن ہی ایسا ھے کہ زاہد بھی گناہ پر آمادہ ہو جائے ، سوری sorry میں بہک گیا
تھا نعیم نے سونیا پر تعریف کا جال پھینکتے ہوئے کہا –سونیا بالکل خاموش رہی اس نے
کوئی جواب نہیں دیا –نعیم نے لاگ بک سے پنسل اور ورک لیا اور اس پر اپنا نمبر لکھ
کر سونیا کی طرف بڑھایا ، یہ کہتے ہوئے کہ کسی قسم کا کوئی مسلئہ ہو تو تم اس نمبر
پر رابطہ کر لینا میں آپ کی ہر طرح کی مدد کروں گا سونیا تم بہت پیاری ہو ، وہ
زندگی جسے تم ختم کرنے جا رہی تھیں اسے میرے نام کر دو سونیا نے کوئی جواب نہیں
دیا وہ خاموش بیٹھی رہی ، سونیا نے نعیم کے موبائل نمبر والا کاغذ ہاتھ میں پکڑا
ہوا تھا ، نعیم نے سوچا سونیا سے پولیس سٹیشن میں کوئی اس کاغذ کے بارے میں ہی نہ
پوچھ لے اور اس کا نمبر دیکھ کر اس کے ساتھی اس کا مذاق ہی نہ اڑائیں – نعیم نے اس
کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا – سونیا نے اس پر بھی کوئی ری ایکشن نہیں دیا اس دفعہ
بھی خاموش تھی –نعیم نے اسے اپنا نمبر زبانی بتایااور دو تین دفعہ دوہرایا ، اس
دوران پولیس اسٹیشن آ گیا اور نعیم سونیا کو لے کر انچارج کے کمرے میں چلا گیا –
انچارج ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا اور شوگر کا مریض تھا اسلئے وہ عورتوں کو شہوت بھری
نظروں سے دیکھنے کے قابل نہیں رہا تھا اس نے سونیا کو سرسری نظروں سے دیکھا اور
نعیم سے پوچھا کہ یہ کون ھے ؟یہ خودکشی کرنے لگی تھی اور بس چند لمحے دیر ہو جاتی
تو اس وقت یہ آپ کے سامنے کھڑی نہ ہوتی باجوہ صاحب نعیم نے انچارج کو بتایا – یہ
نہر والے پل پر سے کودنے لگی تھی کہ ایک آدمی نے پیچھے سے پکڑ لیا اور میرے حوالے
کر دیا میں اسے آپ کے پاس لے آیا ھوں باقی کی قانونی کاروائی آپ کی بوریت کا سبب
بن سکتی ھے اسلئے حذف کر رہا ھوں لیکن ایک دلچسپ بات آپ کو بتاتا چلوں کہ خودکشی
واحد جرم ھے جس کی تکمیل پر مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ کہ سزا زندہ افراد
کے لئے ھے –لڑکی کا معاملہ تھا اسلئے اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی
اور اسے اس کے والدین کے حوالے کر دیا گیا – ایک دو دن تک سونیا نعیم کے حواس پر
چھائی رہی اور پھر ایک نائکہ کے پاس نئی آئی لڑکی کے ساتھ رات گزارنے کے بعد سونیا
نعیم کے ذہن سے نکل گئی –اس واقعہ کے تقریبا دس سے پندرہ دن بعد رات دو بجے کے
قریب نعیم کے موبائل پر ایک انجان نمبر سے کال آئی ، آواز لڑکی کی تھی –آپ کون ؟
لڑکی نے نعیم سے پوچھا سونیا کی اپنی امی سے کسی بات پر تکرار ہوئی تھی اس کی امی
نے سونیا کو گاؤں کی جاہل عورتوں کی طرح گالیاں دینا شروع کر دی ایک گالی نے سونیا
کو جذباتی کر دیا کیونکہ اس کے دل میں چور تھا وہ اپنے کزن سے چدوا چکی تھی جب اس
کی ماں نے اسے گشتی کہا تو نہ جانے کیوں سونیا کے دل پہ یہ گالی تازیانے کی طرح
لگی اور وہ جذباتی ہو کر مرنے کے لئے گھر سے نکل آئی ماں نے سمجھا پاس پڑوس کے کسی
گھر میں گئی ھے – سونیا نے نہر میں ڈوب کر مرنے کا سوچا اور نہر پہ چلی گئی اس کی
زندگی ابھی باقی تھی عین اسوقت جب وہ چھلانگ لگانے کے لئے پل کی دیوار پر چڑھی تو
اسے کسی نے پکڑ لیا اور وہ چاہنے کے باوجود بھی مر نہ سکی – لوگوں نے اسے پولیس کے
حوالے کر دیا – گاڑی میں پولیس والے نے پہلے اپنے لن کو ہاتھ میں لے کر مسلا تھا
سونیا نے کن آنکھیوں سے اس کی ساری کاروائی دیکھی تھی اس کا موٹا لمبا لن پینٹ میں
پھڑپھڑا رہا تھا اور اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا سونیا اس وقت گبھرائی ہوئی
تھی وہ پولیس کی حراست میں تھی اور جو لڑکی ایک دفعہ تھانے کا چکر لگا لے تو اسے
معاشرہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا وہ بہت پریشان تھی کیونکہ اب بدنامی اس کے ماتھے
کا ٹیکہ بننے والی تھی وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ اسے اپنی رانوں پر پولیس والے کے
ہاتھ کا لمس محسوس ہوا ، پریشانی نے اس کے ہوش اڑائے ہوئے تھے اس سمجھ ہی نہیں آئی
کہ وہ کیا کرےاس دوران پولیس والے کا ہاتھ اس کی چوت کے دانے سے ٹکرایا تو اس کے
جسم نے ایک جھرجھری لی اور اس نے اس کا ہاتھ بے اختیار جھٹک دیا لیکن چوت کے دانے
پر پولیس والے کے ہاتھ نے اس کے اندر کی عورت کو جگا دیا تھا وہ ساری پریشانی بھول
چکی تھی اور دوبارہ سے پولیس والے کی طرف سے جسمانی چھیڑ چھاڑ کی منتظر تھی لیکن
اس نے دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہ کی اور باقاعدہ اس سے معذرت کی ، جب اس نے سونیا
کے حسن کی تعریف کی تو سونیا کی چوت میں کچھ کچھ ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن بات
تعریف سے آگے نہیں بڑھی ، جب پولیس والے نے اسے نمبر والی پرچی دی تو سونیا خاموش
رہی اور واپس لینے پر دل میں حیران بھی ہوئی تھی لیکن جب پولیس والے نے اپنا نمبر
زبانی دہرایا تو اس کے ذہن میں یہ نمبر فکس ہو گیا تھا – اس وقت اس نے یہ نہیں
سوچا تھا کہ اس کا کسی قسم کا پولیس والے سے تعلق بنے گا تھانے سے جب اس کے ابو
اسے گھر لائے تو گھر والوں نے بہت لعنت ملامت کی اور سونیا نے گھر والوں سے ایسے
دوبارہ نہ کرنے کا وعدہ کر لیا –اسی رات سونیا سوئی تو خواب میں اس پولیس والے کو
دیکھا – سونیا اور وہ سیکس کر رہے تھے اس کا موٹا تازہ لن جب اس کی چوت میں ایک
جھٹکے سے داخل ہوا تو ایک چیخ سونیا کے منہ سے نکلی اور اس کی آنکھ کھل گئی سونیا
کی چوت گیلی ہو چکی تھی اس کی ماں نے پوچھا کیا ہوا سونیا ؟خواب میں ڈر گئی تھی
سونیا نے اپنی امی سے کہا – کمرے کی لائٹ آن on تھی اور سونیا اپنے بستر میں تھی،
کوئی مشکوک بات نہ تھی اسلئے اس کی ماں نے کہا بیٹی کچھ پڑھ کر سویا کرو ، یہ کہہ
کر اس کی ماں نے دوسری طرف کروٹ لے لی –لیکن سونیا کی نیند اڑ چکی تھی ، یہ نہیں
تھا کہ سونیا نے پہلے کبھی سیکس نہیں کیا تھا، سونیا پہلے اپنے کزن کے ساتھ سیکس
کر چکی تھی ،ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک دن سونیا کا کزن ان کے گھر آیا گھر میں کوئی
نہیں تھا سوائے سونیا کے – سونیا کے کزن نے اس دن سونیا سے زومعنی مذاق کئے تھے
لیکن عملی طور پر کوئی حرکت نہیں کی تھی ، سونیا جوان تھی تنہائی میں جب اس کا کزن
آیا تو اس کا ذہن پراگندہ ہو گیا تھا اور وہ سیکس پر بھی آمادہ تھی لیکن کزن کی
بدقسمتی کہ وہ نہ سمجھ سکا اور اس کے جانے کے بعد تھوڑی ہں دیر بعد اس کا دوسرا
کزن آ دھمکا تھا اس نے تنہائی اور موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سونیا کے ممے پیچھے
سے آ کر پکڑ لئے جب وہ کچن میں اس کے لئے چائے بنا رہی تھی سونیا نے معمولی سی
مزاحمت کی اور پھر اس کی بانہوں میں سما گئی ، وہ سونیا کو کمرے میں لے گیا وہاں
اس نے سونیا کے مموں کو اتنا چوسا تھا کہ اگلے دن تک بھی لالگی نہیں گئی تھی پھر
جب اس نے سونیا کی شلوار اتار کر اس کی چوت پہ اپنا لن رکھا تھا تو سونیا کے جسم
میں مزے کی لہریں گردش کرنا شروع ہو گئی تھیں اور مزے کی یہ لہریں اس وقت تھم گئیں
جب سونیا کے کزن نے اس کی چوت کے سوراخ کو ایک جھٹکے سے کھول دیا اور اس کے کنوارے
پن کی جھلی کو بیدردی سے پھاڑ دیا جس سے سونیا کو ایسے لگا تھا جیسے اس کی پھدی
میں کسی نے کوئی تیر چھوڑ دیا تھا بے اختیار اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی اور
پھدی سے خون تیز جھٹکوں سے سونیا کی بیدردی سے چدائی کی تھی جس میں مزا بالکل بھی نہیں
اور صرف درد ہی درد تھا ، اس چدائی کے بعد سونیا نے سیکس سے توبہ کر لی تھی اور
دوبارہ اپنے اس کزن کو موقع نہیں دیا تھا – پولیس والے نے دو سالوں کے بعد دوبارہ
سے اسے کے جسم کی آگ پر تیل پھینک دیا تھا اور وہ دوبارہ سے سیکس کے لئے آمادہ ہو
گئی تھی ، اس کے پاس پولیس والے کا نمبر تھا لیکن بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی
لیکن پھر ایک رات اس نے پولیس والے کا نمبر ڈائل کر ہی دیا ، پولیس والے سے سونیا
نے پوچھا آپ کون؟نعیم لڑکی کی آواز وہ بھی رات میں سن کر حیران رہ گیا ، اس نے کہا
میں نعیم ھوں –آپ ؟سونیا نے کہا میں بتاتی ھوں پہلے آپ بتاؤ آپ جاب کیا کرتے ہیں
؟میں پولیس میں ہوتا ھوں –میں سونیا جس کو آپ نہر والے پل سے پولیس سٹیشن لے کر
گئے تھے –اچھا وہی خودکشی والی ؟جی میں وہی ھوں ؟ سونیا نے کہا –نعیم آپ کیسی ہیں
، آپ تو جا کر بھول ہی گئیں ؟اگر بھولی ہوتی تو کال کیسے کرتی آپ کو ؟ آپ سنائیں
پولیس والے کیسے ہیں آپ ؟میں ٹھیک ھوں آپ سناؤ ؟میں بھی ٹھیک ھوں ، ویسے آپ بہت
شرارتی ہیں پولیس والے ، سونیا نے کہا – اسطرح نعیم اور سونیا میں دوستی ہو گئی ،
یہ دوستی بے تکلفی میں بدل گئی اور پھر نعیم نے سونیا سے پوچھا ،جان و نعیم آپ کا
نمبر کیا ھے ؟سونیا ہنستے ہوئے جوتے کا ؟نعیم نے بھی ایک قہقہ لگایا اور کہا نہیں
جی آپ کی نرم و گداذ چھاتی کا –سونیا : آپ نے کب اس کا گداذ دیکھا؟ دیکھنے والے
قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور دور سے ہی پہچان لیتے ہیں آپ تو بالکل میرے ساتھ
بیٹھیں تھیں گاڑی میں اور دوپٹہ بھی ہٹا ہوا تھا ، سچ پوچھو تو اس دن آپ کی چھاتی
دیکھ کر ہی میرے بدن میں گرمی چڑھ آئی تھی نعیم نے کہا –سونیا نے کہا جی مجھے پتا
ھے آپ بہت بدتمیز ہو ، ویسے آپ کی نوکری بہت مزے کی ھے –جی ہاں بہت مزے کی ھے –
بیس ہزار تنخواہ ھے گھر کا ماہانہ خرچ بچوں کی فیس، بجلی گیس کا بل بھی ان بیس
ہزار میں ، بیوی بچے بیمار ہو جائیں تو ان بیس ہزار میں سے ہی علاج کروانا پڑتا ھے
، والدین میں سے کوئی بیمار ہو تو بھی ان بیس ہزار میں علاج کروانا پڑتا ھےحکومت
نے کوئی سہولت نہیں دی ایک تنخواہ کے علاوہ اور تنخواہ بھی اتنی زیادہ کہ دس دن
نہیں چلتی ، مزے کی بات یہ ھے کہ بنک والے بھی پولیس کو لون loan نہیں دیتے بہت سارے پولیس والوں کے
گھر والے اس لئے مر جاتے ہیں کہ ان کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں ہوتے اور حکومت
کی طرف سے ایسی کوئی سہولت بھی نہیں ھے کہ اپنا یا گھر والوں کا علاج کروا سکیں ،
نعیم کی تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ درمیان میں سونیا بول پڑیپولیس والے تم تو
سرئیس ہی ہو گئے میں نے تو ایسے ہی بات کی تھی میں بھی آپ کو ایسے ہی بتا رہا ھوں
تاکہ تمہیں پتا چل سکے کہ ہم کتنے مزے میں ہیںنعیم نے سونیا سے کہا اور بات کو آگے
بڑھاتے ہوئے : بس سونیا مجبوری میں نوکری کر رہے ہیں ورنہ کوئی حال نہیں پولیس
والوں کا ، ہم سے تو ریڑھی والے اچھے ہیں جو اپنی مرضی تو کر سکتے ہیں ہم عید والے
دن بھی ڈیوٹی پہ ہوتے ہیں گھر والوں کے ساتھ عید بھی نہیں منا سکتے ،پولیس والے اب
بس بھی کرو سونیا نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ،نعیم ذرا پھر سے کہناکیا ؟ سونیا
نے پوچھا –پولیس والےآپ کے منہ سے بہت اچھا لگتا ھے ایک دم سٹائلس نعیم نے کہا
،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ، سونیا نے ایک ہی
سانس میں چار پانچ دفعہ بول دیا –نعیم ایسے نہیں ، تو پھر کیسے سونیا نے کہا ؟
نعیم چھوڑو ان باتوں کو – میں نے تم سے تمہارا نمبر پوچھا تھا ؟ چھتیس کا برا
پہنتی ھوں سونیا نے کہا،وڈے وڈے ممے پتا نہیں کب ہاتھ میں آئیں گے ؟ نعیم نے اسکی
چدائی کے عزائم ظاہر کرتے ہوئے کہاسونیا اور نعیم بے تکلفی سے آگے نکل چکے تھے اور
ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کرنا چاہتے تھے اسلئے وہ دونوں بہت بولڈ ہو چکے تھے – سیکس
جذبات کا اظہار فون پر اور سیکس کی خواہش پوری کرنے کے ایکدوسرے سے ملنے کے لئے
انہیں بے چین کیے ہوئے تھی نعیم نے اس کے ممے پکڑنے کی خواہش کا اظہار سونیا سے
اسلئے کیا تھا تاکہ واضح ہو سکے کہ سونیا کی چوت سے لطف اٹھانے کے لئے اسے کتنا
انتظار کرنا پڑے گا – میرے ممے تمہارے ہاتھ میں کیوں پولیس والے ؟ سونیا نے
مسکراتے ہوئے کہا –سونیا ہاتھوں میں نہیں تو پھر منہ میں سہی ، اب تو کوئی اعتراض
نہیں ؟ نعیم نے بے تکا سا جواب دیا –سونیا نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا پولیس والے بہت
جلد میں تم سے ملنے آؤں گی ،ایسے ہی باتوں سے نعیم اور سونیا کا وقت گزرتا رہا اور
پھر ایک دن سونیا نے نعیم سے کہا ،میں کل بازار آ رہی ھوں اپنی سہیلی کے ساتھ ، اس
نے بھی اپنے یار سے ملنا ھے ، ہم کل صبح دس بجے گھر سے نکلیں گی اور رکشہ سے صدر
چوک اتریں گی ، تم سوا دس بجے صدر چوک میرا انتظار کرنا – نعیم نے اسے دس بجے صدر
چوک ملنے کا وعدہ کیا نعیم کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے سونیا نے بالاخر ملنے کا
ٹائم دے دیا تھا ، نعیم نے اپنے دوست کو فون کیا کہ یار مجھے کل اپنے فلیٹ کی چابی
دیتے جانا – فراز نعیم کا دوست تھا جو ایک کچی آبادی میں کرائے کے کمرے میں رہتا
تھا اور بس کنڈکٹر تھا وہ صبح چھ بجے نکلتا تھا اور شام آٹھ بجے واپس آتا تھا ،
نعیم کی اس سے دوستی ایک ایکسیڈنٹ کے دوران ہوئی تھی جب فراز کی بس سے ایک موٹر
سائیکل سوار ٹکرا کر زخمی ہوا تھا اور بات پولیس تک پہنچ گئی تھی – وہاں نعیم کو
پتا چلا کہ فراز اکیلا رہتا ھے نعیم خود ایک رنگین مزاج اور عیاش انسان تھا اسلئے
اس نے بس والوں کی فیور کی اور اسطرح فراز سے دوستی کر لی ، بعد میں کافی دفعہ
نعیم نے اس کے فلیٹ میں رنگ رلیاں منائی تھیں اور سونیا کی چدائی بھی فراز کے فلیٹ
میں کرنے والا تھا رات سونیا اور نعیم کی باتیں صبح کی ملاقات سے متعلق رہیں ،
سونیا تھوڑا بہت ڈر رہی تھی جبکہ نعیم اس کا ڈر ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا ،یہ
لن پھدی کا کھیل ایسا ھے جس میں بہت زیادہ رسک ہوتا ھے لیکن کوئی پروا نہیں کرتا ،
یہ لڑکی کی قسمت ہے کہ اس کے ساتھ دھوکہ نہ ہو ورنہ تو لڑکی ملنے ایک سے جاتی ھے
اور آگے چار لڑکے ہاتھ میں لن لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور پھر کئی دن چوت کی ٹکور
کرتی رہتی ھے ، کبھی ایسا ہوتا ھے کہ چدائی کے دوران اوپر سے کوئی آ گیا اور لڑکی
بدنام – آج تک کسی کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ایک لڑکی دن کو کاکروچ سے ڈر
جاتی ھے لیکن رات میں اکیلی دو میل پیدل لڑکے سے ملنے چلی جاتی ھے ، یہ پھدی عورت
کا ڈر کیسے ختم کر دیتی ھے ؟اگلے دن دس بجے سے پہلے ہی نعیم صدر چوک پہنچ گیا ،
تھوڑی دیر بعد سونیا اپنی سہیلی کے ساتھ رکشہ سے اتری تو نعیم اس کی طرف چل دیا ،
سونیا نے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور بہت تازہ دم لگ رہی تھی ، نعیم
نے سونیا کو ساتھ لیا اور بائیک پر پیچھے بٹھا کر چل پڑا – سونیا پولیس والے کیا
حال چال ہیں ؟نعیم نے کہا میں بالکل ٹھیک ٹھاک ھوں تم سناؤ ؟پولیس والے میں بھی ٹپ
ٹاپ ھوں ، تم کب پہنچے صدر چوک ؟ سونیا نے پوچھا –نعیم دس بجے سے چند منٹ پہلے
–واہ ! کیا بات ھے پولیس وقت سے پہلے پہنچ گئی یہ تو معجزہ ہو گیا ورنہ تو پولیس
تو ہمیشہ لیٹ پہنچتی ھے سونیا نے ہنستے ہوئے کہا-پولیس وقت پہ پہنچ جائے تو مصیبت
اگر لیٹ پہنچے تو بھی مصیبت نعیم نے کہا –سونیا وہ کیسے ؟ اگر کسی ڈاکو کو مار دیں
بیشک وہ اشتہاری ہو تو عدالت نے یہ نہیں دیکھنا کہ اس پر پہلے سے پچاس پرچے تھے اس
نے پولیس سے یہی کہنا ھے کہ ڈاکو نے فائرنگ کی تو کوئی پولیس والا نہیں مرا اور
پولیس کی فائرنگ سے ڈاکو مر گیا یہ جعلی مقابلہ ھے – پھر انکوائریاں بھگتو اور
عدالت میں خجل علیحدہ سے اور بہت کم افسر ساتھ دیتے ہیں –اگر پولیس والا مر گیا تو
اس کے بیوی بچے رل جاتے ہیں محکمہ دوبارہ اس کے گھر والوں کو پوچھتا تک نہیں ، اس
سے بہتر ھے کہ بندہ لیٹ پہنچے ، ڈاکو کبھی نہ کبھی ہاتھ لگ ہی جانے ہیں لیکن یہ
زندگی نہیں – نعیم کی تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ سونیا نے اپنی چھاتیاں نعیم کے
جسم سے لگاتے ہوئے کہا پولیس والے ایک تو تم سٹارٹ ہو جاؤ تو رکنے کا نام نہیں
لیتے اب یہ فضول گفتگو ختم کرو کوئی اور بات کرو –سونیا کے نرم و گداذ چھاتیاں
جیسے ہی نعیم کے جسم سے ٹکرائیں تو اس کے جسم میں لذت آمیز لہریں حرکت کرنے لگیں
اور وہ لیکچر بھول گیا نعیم نے اپنا جسم پیچھے کر کے اس کی چھاتیاں دبائیں تو
سونیا اس سے مزید چپک گئی ، ایسے ہی ایکدوسرے کو اپنے جسموں کا احساس دلاتے ہوئے
وہ فراز کے کمرے میں پہنچ گئے –کمرے میں ایک سنگل بیڈ ، ایک پرانا سا صوفہ سیٹ اور
کچھ گھریلو استمال کی چیزیں تھیں –سونیا صوفہ پر بیٹھ گئی اور نعیم نے اندر سے
کمرے کی چٹخنی لگا دی ، چٹخنی لگاتے ہوئے نعیم کے ہاتھ اندرونی جوش سے ہلکے ہلکے
کانپ رہے تھے ، چٹخنی لگانے کے بعد نعیم بھی صوفہ پر سونیا کے ساتھ بیٹھ گیا – آنے
والے لمحات کا سوچ کر سونیا کا جسم بھی ہولے ہولے کانپ رہا تھا – نعیم سونیا کے
قریب ہوتے ہوئے سونیا سے رومانٹک لہجے میں کیسی ہو میری جان ؟سونیا جذبات کی شدت
سے لرزتی آواز میں “میں ٹھیک ھوں نعیم نے اپنا ایک ہاتھ اس کی ران پر رکھتے ہوئے
سونیا سے کہا ” آج تم سے میری ملاقات والا سپنا پورا ہو رہا ھے (اس دوران اس کی
ران پر آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں) مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم میرے
ساتھ ہو ، آج کا دن میری زندگی کا حسین ترین دن ھے کہ دنیا کی خوبصورت لڑکی مجھ سے
ملنے آئی ھے ،“آئی لو یو سونیا “ نعیم نے یہ کہتے ہوئے سونیا کو سر کے پیچھے گردن
پر ہاتھ ڈالتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا
دئیے ، نعیم نے سونیا کے ہونٹوں کو آہستہ آہستہ چومنا شروع کر دیا اس کا اوپر والا
ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا ، نعیم نے اپنی زبان سونیا کے منہ میں کرنے
کی کوشش کی تو سونیا نے اپنے دانت جوڑ لئے اور منہ بند کر لیا ، سونیا کو شاید لپس
کسنگ پسند نہیں تھی نعیم نے سونیا کے رویہ سے اندازہ لگا لیا اسلئے اس نے سونیا کے
ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کر لئے اور اسے اپنے بازؤں میں اٹھا کر بیڈ پر لے آیا
– بیڈ پر سونیا کو لٹا کر خود اس کے اوپر لیٹ گیا ، سونیا کی چھاتیاں نعیم کے سینے
میں دب گئیں اور نعیم سونیا کے چہرے کو چومنے لگا ، نعیم نے اس کی گالوں پر زبان
کی نوک پھیرنی شروع کر دی جس سے سونیا کے جسم میں سرور پیدا ہونا شروع ہو گیا اور
اس نے اپنا ہاتھ نعیم کے بالوں میں پھیرنا شروع کر دیا ، نعیم نے جب سونیا کی گردن
پر اپنے ہونٹ لگائے اور اس کی گرم سانسیں سونیا نے اپنی گردن پر محسوس کیں تو
سونیا کو ایسے لگا جیسے مزا اس کی رگ رگ میں سرایت کر گیا ھے نشے کی طرح اور جب
نعیم نے اس کے کان کی لو کو ہونٹوں میں لیا اور دانتوں سے ھلکے سے دبایا تو اب کی
بار سونیا یہ برداشت نہ کر سکی اور بالوں کو کھینچ کر اسے اپنی گردن اور کان سے
دور کرنے کی کوشش کی لیکن نعیم بھی پرانا پاپی تھا اور جان گیا تھا کہ سونیا سے اب
مزا برداشت نہیں ہو رہا اور بہت زیادہ لطف محسوس کر رہی ھے تو اس نے سونیا کا ہاتھ
بالوں سے نکالا اور اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اس کی انگلیوں میں پھنسا کر اس
کے دونوں ہاتھوں کو جکڑ لیا اور پھر سے اس کی گردن اور کانوں چومنے لگا اور ان پر
زبان پھیرنے لگا ، اب کی بار سونیا کی سانسیں تیز اور بھاری ہو گئیں اور ایسے لگ
رہا تھا جیسے اس کا سانس پھول گیا ہو ، سونیا کے منہ سے مزے سے بھرپور ھلکی ھلکی
کراہیں نکلنا شروع ہو گئیں اور نعیم اور جوش سے سونیا کی گردن کو چومنے لگا ، نعیم
کا چھ سات انچ کا لمبا اور موٹا لن مکمل تناؤ کی حالت میں آ چکا تھا اور سونیا کی
رانوں پر چب رہا تھا ، سونیا نعیم کا تگڑا لن اپنی پھدی کے اردگرد محسوس کر رہی
تھی جس کی چبن سے اس کی چوت مزید گیلی ہو رہی تھی نعیم سونیا کی گردن سے نیچے چوما
چاٹی کرتے ہوئے آیا تو سونیا کے جسم پر ابھی بھی قمیض تھی اس نے سونیا کی قمیض
اتارنے کا سوچا لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا ، اس نے سونیا کے گریبان میں ہاتھ ڈال
کر اس کی برا میں سے اس کی لیفٹ چھاتی باہر نکال لی ، اور اس کی براؤن نپل پر زبان
کو ٹچ کرنے لگا جس پر سونیا مزے سے تڑپ اٹھی ، نعیم نے اس کی نپل ہونٹوں میں لے کر
چوسنے لگا جس سونیا کے منہ سے آہ ، آہ ، او ، اں جیسی جنسی آوازیں خودبخود نکلنا
شروع ہو گئیں اور سونیا نعیم کا سر اپنی چھاتی کی طرف دبانے لگی ، سونیا اس وقت
مزے کی دنیا کی سیر کر رہی تھی ، نعیم کا لن تو کافی دیر سے کھڑا ہو چکا تھا اب اس
سے مزید برداشت نہیں ہو پا رہا تھا اسلئے اس نے سونیا کی چدائی کرنے کا فیصلہ کر
لیا ، نعیم نے اس کی چھاتی چوسنے کے بعد اس کی شلوار کھینچی اور اسکی شلوار گھٹنوں
تک نیچے آگئی نعیم نے سونیا کی شلوار کھینچی تو وہ گھٹنوں تک اتر گئی ، نعیم نے اس
کی قمیض اس کی رانوں سے اٹھائی تو نیچے سونیا کی پھولی ہوئی چوت پر نعیم کی نظر
پڑی جس کے لب آپس میں ملے ہوئے تھے تو نعیم کا لن ایک جھٹکا کھا کر مزید تناؤ میں
آ گیا اور سونیا کی چوت کو سلامی دینے کی لئے تیار تھا ، نعیم نے تازہ شیوڈ چوت
دیکھی تو اس کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے اپنے لب سونیا کی چوت کے لبوں سے ملا
دئیے اور اسکی چکنی چوت میں زبان ڈال دی ، سونیا ایک دم تڑپ اٹھی اور لطف و سرور
کی بلندیوں پر پہنچ گئی ، نعیم نے اس کی گیلی چوت کا ذائقہ محسوس کیا اور اس کی
چوت کے اندر زبان کرنا شروع کر دی ، نعیم کبھی تو اس کی چوت پر زبان پھیرتا اور
کبھی زبان اندر کرتا جس سے سونیا کے منہ سے مزے سے بھرپور جنسی آوازیں نکلنا شروع
ہو گئی – نعیم چھپر چھپر اس کی چوت چاٹ رہا تھا اور سونیا مزے سے بھرپور آوازیں
نکال رہی تھیں ، چند منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ سونیا کی آواز میں تیزی اور جسم میں
اکڑاہت آ گئی ، نعیم کو اندازہ ہو گیا کہ سونیا اب فارغ ہونے والی ھے تو اس نے
سونیا کی چوت کے دانے کو دانتوں میں لے کر آہستہ سے کاٹا اور ایک دم زبان سونیا کی
چوت میں ڈال دی سونیا کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی اور پھدی سے پانی – نعیم نے اپنا
چہرہ پیچھے کر لیا – سونیا آنکھیں بند کئے لیٹی مزے میں تھی ، نعیم اپنے کھڑے لن
کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور وہاں پڑے ہوئے ایک کپڑے سے اپنا منہ صاف کیا اور سونیا کے
پاس بیڈ پر بیٹھ گیا – سونیا بہت خوش لگ رہی تھی یہ اس کی زندگی کا پہلا خوشگوار
سیکسی تجربہ تھا – تھوڑی دیر بعد نعیم نے اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھا اور اس کی نپل
پر انگلی گھمانے لگا ساتھ ہی اس کی چھاتی کو مٹھی میں لے کر دبانے لگا سونیا مدہوش
ہونے لگی نعیم نے سونیا کی قمیض اتار دی ، سونیا کا برا اس کی چوچیوں سے نیچے تھا
اور اس کی چوچیاں تنی ہوئی تھیں اور براؤن رنگ تھا ان کا – نعیم نے سونیا سے مزید
تھوڑی جنسی چھیڑ چھاڑ کی اور جب دیکھا کہ سونیا کی چوت گیلی ہو چکی ھے اور وہ خود
بھی چدنے کے لئے تیار ھے تو نعیم نے خود کو بھی کپڑوں سے آزاد کیا اور سونیا کی
ٹانگوں کے درمیان آ کر اس پر لیٹ گیا – سونیا کی چوت کو سلامی دینے کے لئے نعیم کا
جاندار لن تیار تھا نعیم نے سونیا کی ٹانگوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں اوپر کیا اور
اپنا لن سونیا کی پھدی کے لبوں کے درمیان اس کے سوراخ پر ایڈجسٹ کیا – سونیا آنے
والے لمحات سے ڈری ہوئی تھی اس کے ذہن میں پہلا تجربہ تھا جو انتہائی تکلیف دہ تھا
– نعیم نے لن اس کی پھدی پر ایڈجسٹ کرنے کے بعد سونیا سے کہا ، سونیا اندر جانے پر
تمہیں درد ہو گا لیکن تم اگر تھوڑی دیر یہ برداشت کر گئیں تو پھر مزا ہی مزا ہو
گا- سونیا نے اثبات میں سر ہلایا تو نعیم نے ایک ہلکا سا جھٹکا دیا تو سونیا کے
منہ سے ایک درد بھری کراہ نکلی – نعیم کے لن کی ٹوپی سونیا کی گیلی چوت میں داخل
ہو چکی تھی نعیم نے چند لمحے رک کر تھوڑا سا جھٹکا مارا تو اس کا آدھا لن سونیا کی
چوت میں چلا گیا اور سونیا درد سے بلبلا اٹھی – سونیا نے نعیم سے کہا پلیز اسے
باہر نکالو بہت درد ہو رہی ھے – نعیم جانتا تھا کہ ایک دفعہ باہر نکال لیا تو اس
نے دوبارہ سے نہیں کرنے دینا – نعیم نے سونیا سے کہا جان ! بس یہی چند لمحات تکلیف
دہ ہیں بس تھوڑا برداشت کر لو اپنے اس پولیس والے کی خاطر درد کے بعد مزا آئے گا ،
نعیم نے نیچے سے حرکت روک دی اور اس کے مموں کو آہستہ آہستہ دبانے لگا اور ساتھ
ساتھ اس کے گالوں ، آنکھوں اور ہونٹوں پر کس کرنے لگا ، اس دوران بیچ میں وہ سونیا
سے آئی لو یو ، آئی لو یو بھی سونیا کے کانوں میں کہہ رہا تھا ، نعیم کے رکنے سے
سونیا کے درد میں بھی کمی آ گئی تھی اس کے چومنے سے اور کانوں میں آئی لو یو کی
تکرار سے اسے پھر سے مزا آنا شروع ہو گیا تھا حالانکہ نعیم کا شاندار طاقت سے بھرپور
لن ابھی بھی آدھے سے زیادہ اس کی چوت میں تھا اور اس کی حرکت سے سونیا کی گانڈ پھٹ
رہی تھی مطلب اسے درد ہو رہا تھا- نعیم نے خاص طور پر نیچے اپنے لن پر نظر ڈالی کہ
اس پر خون ھے یا نہیں ؟ وہاں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا نعیم کو پتا چل گیا کہ
سونیا کی پہلے سے ہی چدائی ہو چکی ھے اور اسے سونیا کی چوت کی تنگی سے یہ بھی
اندازہ ہو گیا کہ سونیا بہت زیادہ چدی ہوئی نہیں ھے – نعیم نے آہستہ آہستہ اپنا لن
باہر کرنا شروع کر دیا اور پھر جب ٹوپہ اس کی پھدی کے لبوں تک آیا تو نعیم نے اپنا
تھوک اپنے لن پر گرایا اور پھر آہستہ آہستہ واپس چوت میں کرنا شروع کر دیا اس دفعہ
لن بہت ہی اھستگی سے سونیا کی چوت میں جا رہا تھا اور سونیا کو بہت کم درد ہو رہا
تھا، آہستہ آہستہ لن سونیا کی پھدی کی گہرائیوں میں اتر رہا تھا اور بالآخر سارے
کا سارا لن سونیا کی چوت میں چلا گیا، اس بار اتنا بڑا لن لینے کے باوجود بھی
سونیا کے منہ سے کسی قسم کی آواز نہیں نکلی جو تھوڑا بہت درد تھا وہ برداشت کر گئی
تھی – اسلئے تو کہتے ہیں کہ اگر عورت برداشت کرنے پہ آئے تو بہت کچھ برداشت کر
لیتی ھے ورنہ تو چھوٹی چھوٹی بات پہ اس کی گانڈ پھٹ جاتی ھے – نعیم نے اب دھیرے دھیرے
اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا ، سلو سپیڈ سے لن چوت میں اندر باہر والا سفر طے
کر رہا تھا اور بتدریج اس کی سپیڈ میں اضافہ ہو رہا تھا ، سپیڈ بڑھنے سے سونیا کی
چوت میں تکلیف ہونا شروع ہو گئی تھی ، اس کا بند منہ اب کھل گیا تھا اس کے منہ سے
ھلکی ھلکی درد بھری کراہیں نکلنا شروع ہو گئی اور یہ کراہیں سپیڈ بڑھنے کے ساتھ
ساتھ بلند ہو رہی تھیں – ابھی تک درد ہی درد تھا مزا کا دور دور تک نام و نشان
نہیں تھا – نعیم بھی سات آٹھ دن بعد کسی لڑکی کو چود رہا تھا اور لڑکی بھی ایسی جس
کی چوت بہت زیادہ ٹائیٹ تھی ،اسلئے نعیم اپنی اصلی ٹائمنگ سے پہلے ہی ڈسچادج ہونے
کے قریب پہنچنے لگا تھا ، اس نے اپنی سپیڈ بڑھا دی – اب لن ایک دفعہ پورے کا پورا
باہر آتا اور رگڑ مارتا ہوا چوت کی گہرائی میں غائب ہو جاتا ، آہ ، اں ، اف. . .
آہ . . . . آہ : .. جیسی درد بھری آوازیں سونیا کے منہ سے نکل رہی تھیں – نعیم کا
لن بڑی روانی سے سونیا کی چوت کی سیر کر رہا تھا ، نعیم ایسے ہی سپیڈ سے آگے پیچھے
کر رہا تھا اور اس کی منی اس کے ٹٹوں سے لن کی ٹوپی کی طرف سفر کرنا شروع ہو گئی ،
اور چند سیکنڈ بعد لن کی ٹوپی سے نکل کر سونیا کی پھدی میں جا گری ، جس سے سونیا
کی تکلیف میں کمی آ گئی منی سے لتھڑا ہوئے لن نے تھوڑی دیر ہں حرکت کی اور پھر
سونیا کی چوت کی گہرائیوں کی سیر کرنے اور اسے اپنے پانی سے سیراب کرنے کے بعد
باہر نکل آیا – سونیا نے فورپلے فل انجوائے کیا تھا لیکن چدائی میں اسے بالکل مزا
نہیں آیا تھا یہ عمل تکلیف دہ تھا لیکن پہلی چدائی سے کم – آہستہ آہستہ یہ تکلیف
بھی ختم ہو جانی ھے لیکن چدائی والا سلسلہ ختم نہیں ہونا
جرمانہ
ایک بار میرا شوہر اتنا ناراض ہوگیا اس نے مُجھے گھر بھیج دیا.۔۔
.اور طلاق کی بات کرنے لگا..بہت پریشان رہنے لگی.. کیونکہ اس نے مجھے کسی کے ساتھ
رنگے ہاتھوں پکڑلیا تھا...میری ایک دُور کی خالہ ہیں جو لاہور رہتی ہیں دکھنے میں
سیکسی بم بھرا بھرا جسم اور سفید چمڑی اور ہیں بھی آزاد خیال وہ مجھے ایک فنکشن
میں ملیں میری ساری کہانی سُن کر وہ سوچ میں پڑ گئیں ..اور کہنے لگیں ان مردوں کو
پتہ نہیں کیا بیماری ہے خود ہر عورت پر سواری کرنا چاہتے ہیں اور اپنی گھوڑی پر
ایک بھی دوسرا گھوڑا چڑھا دیکھ لیں ان کی گانڈ میں مرچیں لگ جاتی ہیں... خود ان کی
بہن چاہے کئی سے چُدی ہو اور پکڑی بھی گئی ہو.. پھر بھی بہنوئی سے یہی کہیں گے
بھائی اسے معاف کردو بھول چُوک ہو ہی جاتی ہے..... اچھا میں کُچھ حل نکالتی ہوں
تیرے مسئلے کا خالہ شبنم نے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہا پھر خالہ شبنم نے مجھ سے
پوچھا کیا تیرا شوہر عامر مجھے جانتا ہے میں نے کہا نہیں خالہ کیونکہ اُسکی آپ سے
کبھی مُلاقات نہیں ہوئی.. خالہ نے کہا تُم عامر کا موبائل نمبر مجھے دے دو.. میں
نے نمبر لکھوا دیا.. خالہ کہنے لگی بس تین دن کی بات ہے دیکھنا کیسے لائن پر لاتی
ہوں اس حرامی کو.....ہم گجرات میں رہتے ہیں اور عامر ساتھ ہی واقعہ ایک گاوں میں
رہتا ہے..اس کی عُمر بتیس سال ہے اور اچھا خوبرو جوان ہے...میں ابھی تیس سال کی
ہوں... تیسرے دن صبح دس بجے خالہ کا فون آیا کہ تُم فورا ہمارے گھر چلی آو جب میں
خالہ کے گھر پُہنچی وہ بڑی بے چینی سے میرا انتظار کررہی تھی.. وہ مجھے لے کر اپنے
گھر والوں کو شاپنگ کا بول کر نکل پڑی کُچھ دیر کی مُسافت کے بعد وہ اپنی ایک
سہیلی کے گھر لے گئیں جس کا شوہر بیرون مُلک ہوتا ہے اور بچے سُکول گئے ہوئے تھے..
وہاں جاکر خالہ نے اطمینان سے مجھے بتایا کہ میں نے ایک اجنبی عورت بن کر عامر کو
فون کالز پر پھانس لیا ہے اور آج وہ مجھ سے ملنے یہاں آرہا ہے... اور تُم یہاں بیڈ
کے نیچے چھ جانا اور جب کام عُروج پر پہنچ جائے تو نیچے سے نکل آنا اور خوب بے
عزتی کرنا اگے میں سنبھال لوں گی مجھے خالہ شبنم کا پلان بُہت پسند آیا ..... خالہ
کی سہیلی عالیہ چائے والی ٹرے لے کر آئی میز پر رکھ کر واپس گئی اور خالہ کے ہاتھ
میں دو ٹیبلٹس پکڑا دیں جن کو خالہ نے مسل کر چائے کی چینک میں مکس کردیا.. میں نے
سوالیہ انداز میں چہرہ بنایا تو خالہ شبنم نے بتایا یہ گولیاں پینے سے مرد کا لوڑا
لوہے کی طرح اکڑ جاتا ہے اور دماغ پر حیوانی سیکس طاری ہوتا ہے اور کم از کم دو
گھنٹے لگاتار چدائی کرنی پڑتی ہے تب جا کر سکون ملتا ہے....عامر کو یہ پلانے کا
مقصد یہ ہے کہ اس کے اندر ایسا جنون پیدا کردیا جائے تاکہ وہ چدائی کے بغیر یہاں
سے نہ چلا جائے... اور ابھی وہ پہنچنے ہی والا ہے.. خالہ کا عامر سے فون پر رابطہ
تھا جس کی وجہ سے وہ وہاں تک پُہنچ گیا اور خالہ اسے دروازے تک جا کر اندر لے
آئیں.. میں بیڈ کے نیچے چھپنے کی بجائے ساتھ والے کمرے میں چلی گئی اور وہ خالہ
شبنم اور عالیہ کے ساتھ اُسی کمرے میں بیٹھ کر چائے پینے لگا... کچھ دیر بعد عالیہ
میرے والے کمرے میں آئی اور کمرے کی لائٹ بند کردی.. کیونکہ دونوں کمروں کے درمیان
ایک شیشوں والی کھڑکی تھی ہماری طرف پردہ تنا ہوا تھا بڑی احتیاط سے عالیہ نے پردے
کو ہلکا سا کھسکایا اور مجھے اشارہ کیا.... میں نے اندر جھانکا تو دیکھا خالہ اور
عامر کھڑے کھڑے لپٹے ہوئے تھے اور عامر شبنم خالہ کہ ہونٹ چوس رہا تھا اور اس کے
ہاتھ خالہ کے بڑے بڑے پستانوں کو مسل رہے تھے تب خالہ نے عامر کی بے چینی کو
دیکھتے ہوئے اپنی قمیض اُتار دی... عامر کسی پاگل کُتے کی طرح جھپٹا اور دیوانگی
سے خالہ کے سینے پر زبان پھیرنے لگا مموں کے نپلز کو چاٹنے لگا چوسنے لگا کھینچنے
لگا.....شبنم بھی مزے سے نڈھال ہورہی تھی.. تب میرے کان میں عالیہ کی آواز آئی میں
شبنم کو کنڈوم دے آوں ...جب عالیہ اُس کمرے میں پُہنچی تو خالہ شبنم عامر کے کپڑے
اُتار چکی تھی اور اس کا لوڑا سختی سے سیدھا تنا ہوا تھا اور شبنم آنٹی اپنی شلوار
اُتار رہی تھیں.... جب عالیہ نے کنڈوم شبنم کو پکڑایا تو بے ساختہ وہ عامر کے لوڑے
کو گھور بھی رہی تھی جو کمرے میں دو خوبرو حسیناوں کو دیکھ کر اور بھی تن گیا تھا.
نہ جانے عالیہ کو کیا ہوا اس نے عامر کے لن کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور نجانے کیا کہا
کیونکہ میں اُن کی دھیمی گفتگو نہیں سُن پا رہی تھی پھر شبنم آنٹی نے بھی کُچھ کہا
اور عالیہ صوفہ پر بیٹھ گئی اور عامر اسکے چہرے کے پاس کھڑا ہو گیا اور دیکھتے ہی
دیکھتے عالیہ عامر کا لوڑا چوسنے لگی وہ اپنے چوڑے سفید چہرے پر موجود بڑے بڑے
ہونٹوں کو لوڑے کی جلد پر پُوری پکڑ دے کر اسے پورا حلق میں لینے کی کوشش کرتی اور
پھر واپس ہونٹوں کو لن کی ٹوپی تک لے آتی..میری اپنی پھدی یہ سب دیکھ کر مچل سی
گئی کیونکہ بالآخر میں خود مُختلف لوڑے چکھنے کی شوقین تھی نہ چاہتے ہوئے بھی میرے
مُنہ میں بھی پانی بھر آیا اور میرا ایک ہاتھ میری پھدی پر چلا گیا ..اور میں اسے
مسلنے لگی..ایک ساعت رُک کر عالیہ نے اپنی قمیض اور بریزیر اُتار دیا اسکی گوری
چمڑی ننگی ہو کر کمرے کو اور بھی روشن کرنے لگی...عامر عالیہ کے سامنے زمین پر
بیٹھ گیا اوراسکے مموں کو چسنے اور چومنے لگا..تب عالیہ کے چہرے پر پسینہ آگیا اور
اسکے گال لال رنگ کے ہوگئے اسی حالت میں اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا اور میرے ساتھ
نظریں ملائیں...میں نے بے شرمی والی نظروں سے اسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں جی بھر
کے چٹواو اس کتے سے...کیونکہ تم دونوں کتیاں ہو اور تم دونوں کو میرے شوہر کا لوڑآ
مبارک ہو....پھر عالیہ نے انکھیں بند کرلیں کیونکہ عامر اسکی شلوار نیچے کھینچ کر
اب اسکی پھدی کو چوم رہا تھا ....آنٹی شبنم عامر کے پیچھے کھڑیں اپنے پھدے جو سہلا
رہی تھیں ....تب عالیہ اُٹھی اور ساتھ ہی پڑے بیڈ پر جاکر گھوڑی بن گئیں... آنٹی
شبنم نے بھی عامر سے لپٹ کر خوب چما چاٹا کیا اور وہ بھی عالیہ کے بلکل ساتھ گوڑی
بن گئی دونوں کے دیسی چوتڑ اب عامر کے لئے دعوت کا منظر تھے عامر تنے ہوئے لوڑے کے
ساتھ بیڈ پر گیا اور... اُن تینوں میں کچھ بات ہونے لگی شائد یہ تہہ کیا جارہا تھا
کہ عامر کس کے چوتڑوں میں پہلے لوڑا ڈالے گا...پھر عامر نے کافی سارا تھوک آنٹی
شبنم کی بیک پر ڈالا.. لن کے ساتھ اسے پھیلایا اور آنٹی کے دونوں چوتڑوں کو پکڑ کر
ایک دم لوڑا پورا اندر کردیا.. آنٹی نے جان بوجھ کر زور سے چیخ ماری.. آہ آں آں ..
اوی مار ڈالا ظالم... کُتے کمینے.. پھر عامر نے پانچ چھ دھکے زور زور سے مارے...
جن کی وجہ سے آنٹی کے چوتڑوں کے بجنے کی آواز میرے کمرے تک آئی... عامر نے لوڑا
نکالا اور عالیہ کی پھدی میں پیچھے سے ڈال دیا اور اس کی بھی چیخ نکلی
اوئ......... اوہ یہ سب دیکھ کر میری اپنی پھدی گیلی ہو گئی اور میں نے شلوار میں
ہاتھ ڈال کر اس کو مسلنا شروع کردیا..عامر مسلسل عالیہ کو چود رہا تھا... تب ہی
میری برداشت ختم ہونے لگی اور میں نے سارے کپڑے اُتار دیئے کسی انجام کی پروا کیئے
بغیر میں اُس کمرے میں چلی گئی.....مُجھے دیکھ کر عامر کو شدید جھٹکا لگا اس نے
عالیہ کو جھٹکے لگانے روک دیئے میں نے کہا کیا بات ہے جانو بڑے مزے کررہے ہو.. وہ
ہکلایا وہ اصل میں یوں ہوا تم یہاں کیسے.... جیسے ویسے.. لیکن وہ اس بات سے بھی
حیران تھا کہ میں اس سے لڑنے کس حالت میں کھڑی ہوں ننگی..... میں نے عامر کو انکھ
مار ک, کہا کوئی بات نہیں جان عیش کرو..... میرے ہوتے کوئی ٹینشن نہیں لینی اور
خود بھی اُن دونوں کے ساتھ گھوڑی بن گئی... کچھ ہی دیر میں مجھے اپنی پھدی میں گرم
گرم لوڑا اُترتا ہوا محسوس ہوا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی .... کچھ دیر بعد میں
نے عالیہ کی پھدی میں اپنا انگھوٹھا ڈال دیا سامنے لٹا کر اور آنٹی شبنم عامر کے
پیچھے کھڑی ہوکر اسکی کمر کو پکڑ کر دھکے دینے لگی اور وہ زور زور سے مجھے ٹھوکنے
لگا.... آنٹی کہہ رہی تھیں عامر تم بہت حسین ہو جوان ہو کوئی بھی تمہیں دیکھے تم
پر فدا ہو جائے میں تُم سے بہت بار چدواں گی تمہارے گھر آکر بھی چدواں گی لیکن...
تم کو اپنی بیوی سے ناراض نہیں ہونا چاہیے.. مانتی ہوں اس سے غلطی ہوئی لیکن دیکھ
لو اس غلطی کے بدلے اس نے آج تم کو جرمانے میں دو عورتیں عنائیت کردیں... عامر
کہنے لگا آنٹی مجھے اس کا جرمانہ بہت پسند آیا میں نے اسے معاف کردیا بلکہ میں
چاہوں گا یہ کُتی کی بچی ایسے ہی مجھے بھی نئے نئے مزے دلواتی رہے اور خود بھی جس
مرضی حرامزادے سے چدوائے لیکن کنڈوم کے ساتھ یہ سب سُن کر میرے پورے جسم میں مزے
کی لہر دوڑ گئی اور میں تیز جھٹکوں کے ساتھ فارغ ہوگئی...پھر عامر نے آنٹی شبنم کو
زور زور سے چودا اور اس کے بڑے چوتڑوں کی تعریف بھی کرتا رہا... اور پھر ادھے
گھنٹے بعد دونوں خارج ہوگئے لیکن ابھی عامر کی نیت عالیہ پر گرم تھی... کچھ دیر
رکنے کے بعد عامر نے عالیہ باجی کی ٹانگیں چھت کی طرف کر دیں اور اُن کو شدید
جھٹکوں سے چودنے لگا... عامر دوسرے شاٹ میں جلد فارغ نہیں ہورہا تھا اس دوران
عالیہ دو مرتبہ فارغ ہوئی اور تھک گئی پھر عامر نے خالہ شبنم کو ایک بار پھر چودا
اور چود چود کر نڈھال ہوگیا اس دوران میں نے اسے پانی کی بوتل پکڑائی جسے پی کر وہ
پھر جٹ گیا اور آخر کار وہ بھی دوسری بار خارج ہونے لگا ہم تینوں نے ساتھ ساتھ
مُنہ کرکے اپنی اپنی زبان باہر نکال لی اور عامر نے گرم گرم منی کا لاوا ہم تینوں
کی کتیوں جیسی زبانوں پر چھڑک دیا.....اور ہم پھر بھی باری باری اس کے لوڑے کو
چاٹتی رہیں... وقت کم تھا بچے سکول سے آنے والے تھے اس لئے ہم سب اپنے اپنے گھر
چلے گئے....تین دن بعد عامر آیا اور مُجھے میرے سُسرال لے گیا...اور آج ہم ہنسی
خوشی زندگی گزار رہے ہیں فرق یہ ہے کہ اب میں اپنے شوہر سے چھپ کر یار نہیں بناتی
اور ہم دونوں جب بھی انجوائے کرنا ہو مل کر کرتے ہیں کیونکہ اتفاق میں بہتری ہے...
اس لئے میرا تمام بہنوں بھائیوں کو مشورہ ہے کہ اگر آپکو ایسی پریشانی کا سامناہے
تو اس سٹوری سے سبق حاصل کریں .....اور خوش رہیں ...
بیوی شوہر اور وہ
امریکی ریاست لاس ویگاس
کے مضافات میں ایک چھوٹا سا لیکن نہایت خوشحال ٹاؤن جانسن ولیج تھا یہاں کے لوگ
نہایت وجیہہ اور لمبے قد کاٹھ کے مالک تھے زیادہ تر آبادیوں کا ذریعہ معاش کھیتی
باڑی تھا لیکن چند ایک خاندان فرنیچر کے کاروبار سے وابستہ تھے انہیں میں ایک متناسب
قد کا لیکن سنہرے بالوں والا لیری بھی رہتا تھا اور فرنیچر کی ایک چھوٹی سی فرم
میں ملازم تھی
اس کی بیوی جس کا نام ڈی تھا وہ قریبی شہر بوگارڈو ٹاؤن
میں ایک امپورٹ ایکسپورٹ کے مرکز میں برانچ مینجر کی پرسنل سیکرٹری کے طور پر کام
کرتی تھی ڈی کا فگر بہت کمال کا تھا سرخی مائل گورے گورے گال،باریک اور پتلے پتلے
ہونٹ جو کہ ڈی کے حسن کے مترجم لگتے تھے34 سائز کے ممے اور بھرے بھرے جسم کے ساتھ
وہ بہت گریس فل لگتی تھی ہر وقت اپنے باس کے ملحقہ کیبن میں موجود رہتی تھی اور
تمام ملاقاتوں اور فون کالز کو اٹینڈ کرتی تھی اور باس کا سارا پیپر ورک بھی
سنبھالتی تھی اس کا باس جس کا نام وکٹر تھا ایک نہایت کالا حبشی تھا جو کہ ڈی کی
سہیلی بوبی کا بوائے فرینڈ بھی تھا اور ڈی کو بوبی نے ہی یہاں جاب دلوائی تھی ڈی
اور لیری ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے لیکن ایک چیز جس کی وجہ سے ڈی ہمیشہ پریشان
رہتی تھی کہ لیری کا لنڈ جو کہ بہت بڑا نہیں تھا لیکن ڈی کی آگ نہیں بجھا پاتا تھا
جب بھی لیری کا موڈ ہوتا وہ تھوڑا کسنگ کرنے کے بعد ڈی کی پھدی میں ڈال کر 3 منٹ
جھٹکے مارتا اور اپنا پانی نکال کر سائیڈ پر ہو کر سو جاتا اور ڈی اپنی ہی آگ میں
جلتی ہوئی اٹھ کر واش روم میں چلی جاتی اور اپنی پھدی کو شاور کے ساتھ دھوتے وقت
فنگرز کے ساتھ مسلنا شروع کر دیتی اور تھوڑی دیر میں فارغ ہو کر کچھ شانت ہو جاتی
لیکن سیکس کی پیاس نا بجھتی ہر دفعہ یہی ہوتا تھا اور ڈی بے چین رہنے لگی ہر وقت
پریشانی اس کے چہرے سے جھلکنے لگی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے کیسے
اس آگ کو سرد کرے۔۔
وہ سنیچر کی شام تھی لیری بہت موڈ میں تھا دونوں نے مل
کر اپنے گھر کے لان میں باربی کیو لگانے شروع کر دیے اتنے میں بوبی اچانک گھر میں
داخل ہوتی ہے اور ہوا میں پھیلی ہوئی باربی کیو کی مہک کو اپنے اندر اتارتے ہوئے
زور سے نعرہ مارتی ہے کہ مجھے بتایا بھی نہیں اور اکیلے اکیلے پارٹی کی جا رہی
ہے۔۔ ڈی اور لیری بوبی کو ویلکم کرتے ہوئے گلے لگاتے ہیں بوبی کو گلے لگاتے ہی
لیری کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں کیونکہ بوبی اپنے 36 سائز کے ممے لیری کے سینے
پر مسلتی ہے لیری بہت حیران ہوتا ہے اور ڈی کی طرف دیکھتا ہے لیکن ڈی کو باربی کیو
کی طرف متوجہ پا کر دوبارہ بوبی کو دیکھتا ہے تو بوبی جو کہ اس کی کیفیت سے لطف
اندوز ہو رہی ہوتی ہے ایک دم کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے اور ساتھ پڑی ایک کرسی پر
بیٹھ جاتی ہےاور ڈی کا حال احوال پوچھنے لگتی ہے ادھر لیری کا برا حال ہوتا ہے اور
وہ دل میں کہتا ہے کہ کتے کی بچی میرے اندر آگ لگا گئی ہے آج لیری پہلی دفعہ بوبی
کو نہایت غور سے اور ایک الگ نظر سے دیکھنا شروع کرتا ہے بوبی کے ممے اس کی جسامت
کے لحاظ سے کافی بڑے محسوس ہو رہے تھے کیونکہ بوبی خود تو دھان پان سی لگتی ہے
لیکن اس کے ممےقیامت تھے قیامت لیری کا دل کیا کہ ابھی ان مموں کو اپنے منہ میں
لیکر ان کا سارا دودھ پی جائے لیکن ڈی کا خیال دل میں رکھتے ہوئے وہ فوراً گھر کے
اندر چلا گیا اور سیدھا واش روم میں جا کر اپنا لن باہر نکالا اور جلدی جلدی ہاتھ
سے مسلنے لگا اور کچھ ہی دیر میں منی کی دھاریں نکلنے لگیں اور لیری پر سکون ہوتا
چلا گیا فریش ہو کر وہ باہر آتا ہے تو بوبی کو نا پا کر ڈی سے بوبی کے متعلق
پوچھتا ہے تو پتہ چلتا ہے وہ اپنے گھر چلی گئی ہے لیری کہتا ہے کہ اس کو کھانے پر
ہی روک لیتی تو ڈی نے بتایا کہ آج اس کے مام ڈیڈ کسی کو ملنے فلاڈلفیا گئے ہوئے
ہیں تو گھر کو زیادہ دیر خالی نہیں چھوڑ سکتی تھی اس لیے وہ چلی گئی لیری کے دماغ
میں اچانک ایک خیال آتا ہے کہ آج بوبی گھر میں اکیلی ہے اور آج ہی اس کا یوں میرے
ساتھ اپنے ممے رگڑنا کہیں کوئی اشارہ تو نہیں تھا میرے لیے
آخر کار وہ دل میں ایک فیصلہ کر لیتا ہے کچھ ہی دیر بعد
وہ کھانے کی میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں کھانا کھا کر لیری ڈی کو بولتا
ہے ڈی مجھے ایک ضروری کام سے بوگارڈو ٹاؤن جانا ہے میں دو سے تین گھنٹے میں واپس
آؤں گا تم اتنی دیر تھوڑا ریسٹ کر لو پھر کہیں باہر گھومنے چلیں گے اور گھر سے نکل
کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چل پڑتا ہے اور 30 منٹ میں وہ بوگارڈو ٹاؤن میں
بوبی کے دروازے پر اطلاعی گھنٹی بجا رہا ہوتا ہے بوبی دروازہ کھولتی ہے اور لیری
کو موجود پا کر معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے اندر آنے کو کہتی ہے اندر جا کر وہ
ڈرائینگ روم میں بیٹھتے ہیں اور بوبی ڈرنکس بنا کر لے آتی ہے اور چسکیاں لیتے ہوئے
لیری کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھتی ہے کہ خیر تو ہے لیری اس طرح اچانک سے آئے ہو کیا
مجھ سے کوئی کام تھا
لیری اس سے آج کی حرکت کے بارے میں پوچھتا ہے کہ آج تم
نے یہ کیا حرکت کی ہے تو بوبی کہتی ہے لیری میرا بوائے فرینڈ کچھ دن کیلیے اریزونا
گیا ہوا ہے اور مجھے آج لن کی طلب بہت شدت سے محسوس ہو رہی تھی تو سوچا تم سے ہی
مدد مانگی جائے اب ڈی کے سامنے تو تمہیں ڈائیریکٹ نہیں بول سکتی تھی کہ میری پھدی
کی خارش مٹا دو بس اسی لیے اشارتاً اپنی ضرورت بیان کر گئی
لیری جو کہ اس سے اتنی بے باکی کی توقع نہیں رکھتا تھا
ایک دم سے ہکا بکا رہ گیا اور اتنے میں بوبی اٹھ کر اس کے ساتھ صوفہ پر آ کر بیٹھ
گئی اور اچانک اپنے ہونٹ لیری کے ہونٹوں سے ملا کر کسنگ کرنا شروع کر دی لیری جو
کہ دل میں منصوبہ ہی یہ لیکر آیا تھا بہت خوش ہوتا ہے اور اس نے بھی بوبی کا ساتھ
گرمجوشی سے دینا شروع کردیا کچھ دو منٹ کسنگ کرنے کے بعد دونوں اٹھ کر اندر بیڈروم
میں چلے گئے اور لیری جاتے ہی دیوانوں کی طرح بوبی پر ٹوٹ پڑا اور اس کو بیڈ پر
گرا کر اس کی شرٹ اتار دی بوبی نے ہلکے آسمانی رنگ کی برا پہنی ہوئی تھی جس میں سے
اس کے 36 کے ممے باہر آنے کو بیتاب ہو رہے تھےبرا اس کے سینے پر بہت خوبصورت لگ
رہا تھا اور اوپر سے اس کے بڑے بڑے مموں میں گہری لائن جو کہ کلیویج بنا رہی تھی
اس کی تو کیا ہی بات تھی لیری نے بوبی کے ہونٹوں اور گالوں کو چاٹتے ہوئے برا کے
اوپر سے ہی اس کے ممے دبانا شروع کر دیے اور بوبی آہیں بھرنے لگی لیری گالوں کو
چاٹتے ہوئے نیچے گردن پر اپنی زبان پھیرنے لگا جس سے بوبی کی مستی بڑھی جا رہی تھی
بوبی نے خود ہی اٹھ کر اپنی برا اتار دی اور ننگ ممے لیری کے سامنے اچھل کر آئے تو
لیری دم بخود رہ گیا بوبی کے مموں پر براؤن رنگ کا دائرہ کچھ زیادہ ہی بڑا تھا اور
اس کے نپل بھی بڑے بڑے تھے لیکن مجموعی طور پر کسی بھی مرد کو اپنی طرف کھینچنے کے
لیے بہترین ممے تھے لیری نے مموں کے نپل چوسنا شروع کر دیے ان کو چوسنے کا بہت مزہ
آ رہا تھا جیسے ہی لیری نے ممے چوسنا شروع کیے بوبی نے اپنا ہاتھ لن پر رکھ دیا
اور اچانک ہی بوبی تھوڑا مایوس ہوئی کیونکہ لیری کا لن صرف پانچ انچ کا تھا اور
موٹائی میں بھی کچھ خاص نہیں تھا جبکہ بوبی ایک موٹے کالے لن کی ضربوں کی عادی تھی
جو کہ اس کے بوائے فرینڈ وکٹر کا تھا اب چونکہ وکٹر شہر میں نہیں تھا تو بوبی کو
اسی سے گزارہ کرنا تھا بوبی نے آہستہ آہستہ لن کی ٹوپی کو مٹھی میں لیکر دبانا
شروع کر دیا لیری کو لگا کہ وہ کہیں چھوٹ نا جائے اس نے اٹھ کر اپنے کپڑے اتارے
اور بوبی کی پینٹ بھی اتاری اور اس کی پھدی کو دیکھنے لگا جس پر ہلکے ہلکے بال تھے
لیری نے ایک دم بوبی کی ٹانگیں اٹھائیں اور لن اندر کی طرف دھکیلا جو کہ آسانی سے
اندر سما گیا اور زور زور سے جھٹکے مارنے لگا بوبی نے بھی اپنا ذہن اس طرح سیٹ
کرنا شروع کر دیا کہ اب جو بھی ہے یہی ہے تو کیوں نا خود کو گرم رکھتے ہوئے مزہ
لیا جائے لیری نے بوبی کی ٹانگیں اپنے کندھوں اٹھائی تھیں اور لگاتار گھسے مار رہا
تھا بوبی کو ابھی ہلکا ہلکا مزہ آنا شروع ہوا ہی تھا کہ اچانک لیری کا جسم اکڑا
اور اس نے جھٹکے کھاتے ہوئے منی چھوڑ دی اور ایک سائیڈ پر گر کے ہانپنے لگا۔۔۔۔
بوبی انتہائی غصے میں تھی لیکن منہ سے کچھ نا بولی چپ
چاپ لیری کیطرف دیکھتی رہی لیری کو بھی اپنی اس کمزوری کا احساس تھا لیکن وہ کیا
کر سکتا تھا اس نے معذرت خواہانہ انداز میں اپنی کمزوری کے بارے میں بوبی کو بتایا
تو بوبی نے کہا کہ اس کا ایک حل تو میں تمہیں بتا سکتی ہوں لیکن اس آگ کا کچھ کرو
جو میرے اندر لگی ہوئی ہے بجائے اس کو ٹھنڈا کرنے کے تم نے اسے اور بھڑکا دیا ہے
لیری جو کہ پہلے ہی دو دفعہ منی چھوڑ چکا تھا ابھی اس میں اور کی ہمت نہیں تھی
بولا کہ ابھی میں کیا کہہ سکتا ہوں تو بوبی چلائی یو باسٹرڈ میں کچھ نہیں جانتی
مجھے سکون چاہیے میرا پانی نکالو جیسے بھی ہو بے شک اس ٹائم کسی اور کو بلا کر لاؤ
لیکن جلدی کرو تو لیری نے ایک ادارے میں کال کر کے کرایے کے پارٹنر کو بلا لیا اور
بیٹھ کر بوبی کی چدائی دیکھنے لگا وہ یہ دیکھ کر حیران تھا کہ لڑکا چھوٹنے کا نام
ہی نہیں لے رہا 15 منٹ ہو گئے لگاتار چدائی جاری تھی اور بوبی کی آوازیں پورے
بیڈروم میں گونج رہی تھیں آہ۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔آہ اوہ اوہ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔
اوہ یس ۔۔۔۔کم آن ۔۔۔۔فک می ہارڈ ۔۔۔۔مور ہارڈ ۔۔۔۔بوبی
کی سسکیاں تیز ہوتی چلی جا رہی تھیں پھر اچانک بوبی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے کس کر
لڑکے کو پکڑ لیا اور اس کی پھدی نے لاوا اگلنا شروع کر دیا یہ دیکھ کر لڑکے نے بھی
جی جان سے چند جھٹکے اور مارے اور اس کے لن نے بھی ہار مان لی اور منی چھوڑنے لگا
ساری منی نکال کر لڑکا ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا لیری نے اس کو 200 ڈالر دیے اور
وہ لڑکا اپنے کپڑے پہن کر چلا گیا بوبی کی پھدی میں سے دونوں کا پانی مکس ہو کر
بیڈ پر نکل رہا تھا لیکن بوبی
پر سکون نظر آ رہی تھی پھر بوبی اٹھ کر واش روم میں جا
کر خود کو صاف کر آئی اور دونوں بیٹھ کر ڈرنک کرنے لگے۔۔
بوبی نے لیری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ تم جب اپنا پانی
نکال کر سائیڈ پر ہو گئے تو میرا دل کر رہا تھا کہ میں کچھ اٹھا کر مار دوں اور
ایسا ہر عورت کو لگتا ہے جب اس کا پارٹنر اس کو درمیان میں ادھورا چھوڑ دیتا ہے
پتہ نہیں ڈی تمہارے ساتھ کیسے گزارہ کر رہی ہے لیکن لیری کچھ اور ہی سوچ رہا تھا
کہ وہ تو شروع سے ہی ایسے کر رہا ہے تو اس کا مطلب ڈی بھی کسی اور سے چدواتی ہو گی
نہیں نہیں ڈی ایسا نہیں کر سکتی مجھے اس پر پورا بھروسہ ہے
اور اس وقت اس کو ڈی پر بہت پیار آیا کہ آج تک وہ ادھوری
رہی لیکن کبھی شکایت نہیں کی لیکن اس کی بے چینی کو کئی دفعہ لیری نوٹ کر چکا تھا
یہ سوچتے سوچتے لیری نے بوبی سے مدد لینے کا فیصلہ کیا اور بولا کہ بوبی تم کہہ
رہی تھی کہ تمہارے پاس میری اس کمزوری کا کوئی حل ہے تو بوبی نے بولا ہاں میرا
بوائے فرینڈ لگاتار مجھے 1 گھنٹہ تک چودتا ہے لیری حیران ہوا ایک گھنٹہ یہ کیسے
ممکن ہے میں نہیں مانتا تو بوبی نے کہا سانچ کو آنچ کیا ابھی 3 دن بعد وکٹر واپس آ
جائے گا تو تم دیکھ لینا خود ہی اور اس کمزوری کا حل بھی اس کے پاس ایک دوائی ہے
جو وہ استعمال کرتا ہے میں اس سے پوچھ کر تمہیں بتا دوں گی اور آمادگی ظاہر کر کے
لیری وہاں سے گھر کی طرف چل دیا۔
کچھ دن اسی طرح گزر گئے پھر ایک دن بوبی نے لیری کو گھر
کال کر کے کہا کہ آج تم آ جاؤ شام پانچ بجے سے پہلے کیونکہ پانچ بجے وکٹر نے آنا
ہے پھر تم دیکھنا چدائی کس کو بولتے ہیں تم تو مجھے ٹھیک سے چود بھی نا پائے
چنانچہ شام پانچ بجے سے پہلے لیری ٹیکسی میں بوبی کی طرف چل پڑا لیکن وہ اس بات سے
انجان تھا کہ یہ ساری باتیں گھر کے دوسرے فون پر ڈی نے بھی سن لیں تھیں ڈی کو یقین
نا آیا کہ لیری بھی ایسا کر سکتا ہے چنانچہ ڈی بھی اس کے پیچھے چل پڑی لیری بوبی
کے گھر میں داخل ہو گیا تھا کہ ڈی وہاں پہنچی اور چھپتی ہوئی اندر داخل ہو کر
بیڈروم کے ساتھ گارڈن میں جہاں کھڑکی تھی وہاں چھپ گئی۔ بوبی نے لیری کو بیڈروم سے
ملحقہ ایک کمرے میں رکنے کو بولا اس کمرے کا دروازہ بیڈروم میں بھی تھا جس کو بوبی
نے کھلا چھوڑ دیا تھا۔
تھیک پانچ بجے وکٹر بوبی کے گھر پہنچا اور بوبی اس کو
لیکر بیڈروم میں چلی آئی آتے ہی وکٹر نے بوبی کو اپنی باہوں میں بھر لیا اور کسنگ
کرنے لگا کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد وکٹر نے بوبی کے سارے کپڑے اتار دیے اور بوبی
کو بیڈ پر لٹا کر اس کے ممے چوسنے لگا وہ بڑے شوق سے اس کے ممے چوس رہا تھا اور
بوبی آہیں بھر رہی تھی ممے چوستے چوستے وکٹر کی زبان نیچے کی طرف چل پڑی اور بوبی
کے پیٹ اور اس کے اطراف چاٹتا ہوں بوبی کی رانوں تک پہنچ گیا اور بوبی کی ٹانگیں
کھول دیں اب بوبی کی گوری چٹی پھدی اس کے سامنے تھے بوبی نے آج اپنی پھدی کو کلین
شیو کیا ہوا تھا اس کی پھدی اپنے پانی سے چمک رہی تھی وکٹر نے اپنی زبان بوبی کی بالوں
سے پاک پھدی پر رکھ دی اور اسے بڑے پیار سے چاٹنے لگا بوبی اپنی ٹانگیں پوری کھول
چکی تھی اور فل مستی میں آ گئی تھی وکٹر نے پھدی کے باہر والے لب کھولے اور اندر
تک زبان گھسا دی وکٹر لگاتار اس کی پھدی کو 10 منٹ تک چاٹتا کاٹتا رہا جب وکٹر اس
کے دانے کو ہونٹوں میں پکڑ کر کاٹتا تو بوبی کی آہوں اور سسکیوں سے کمرہ گونجنے
لگتا بوبی نے اپنے ہاتھ وکٹر کے سر پر رکھ کر اس کو اپنی پھدی کی طرف دبانا شروع
کر دیا اور وکٹر اور زور سے پھدی میں زبان اندر باہر کرنے لگا وکٹر سمجھ گیا کہ وہ
اب چھوٹنے والی ہے لیکن وکٹر نے اپنا منہ نا ہٹایا اچانک کمرہ بوبی کی سسکیوں سے
بھر گیا اوہ یس ۔۔۔۔۔آئی ایم کمنگ کہتے ہوئے بوبی نے ڈھیر سارا پانی وکٹر کے منہ
میں ہی چھوڑ دیا جس کو وکٹر بڑے شوق سے پی گیا۔۔
ادھر دونوں اطراف میں موجود لیری اور ڈی اپنی اپنی جگہ
سلگ رہے تھے لیری اپنی زپ کھول کر اپنا لن باہر نکال چکا تھا جبکہ دوسری طرف ڈی
بھی حیران تھی کہ یہ پیار کا کونسا انداز ہے جس سے بوبی بھی پوری طرح مطمئن نظر آ
رہی تھی کیونکہ لیری تو صرف چند منٹ کسنگ کرنے کے بعد اندر ڈال دیتا تھا اور کچھ
ہی دیر میں فارغ ہو جاتا تھا
ادھر بوبی نے اب وکٹر کو لٹا کر خود کمان سنبھال لی تھی
اس نے جیسے ہی وکٹر کی پینٹ اتاری وکٹر کا لن کسی کوبرا سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا
باہر نکل آیا 8 انچ لمبا اور اڑھائی انچ موٹا لن دیکھ کر ڈی کی حالت خراب تھی اور
اس کا ہاتھ خودبخود اپنی پھدی پر پہنچ گیا اور وہ اپنی پھدی مسلنے لگی بوبی نے
وکٹر کے لن کی شافٹ پر اپنی زبان پھیری اور وکٹر کی آنکھیں مزے سے بند ہونے لگیں
جبکہ ادھر لیری مٹھ مارنے لگا اس کو بھی لائیو چدائی دیکھنے میں بہت مزہ آ رہا تھا
بوبی کبھی لن کی ٹوپی پر زبان رول کر کے گھماتی تو کبھی آدھا لن اپنے منہ میں لے
جاتی اس سے زیادہ اس کے بس کی بات نہیں تھی کہ اس موٹے لمبے لن کو اور منہ کے اندر
لے جا سکتی مسلسل 10 منٹ لن چوسنے کے بعد بوبی اٹھی اور اپنی پھدی وکٹر کے منہ پر
رکھ کر اکڑوں بیٹھ گئی اور وکٹر ایک بار پھر اس کی پھدی چاٹنے لگا کچھ لمحے پھدی
چٹوانے کے بعد بوبی فل گرم ہو گئی اور اٹھ کر بیڈ پر لیٹ گئی اور وکٹر کو اپنے
اوپر آنے کا اشارہ کیا وکٹر نے اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر اس کی ایک ٹانگ
اپنے نیچے دبا لی اور دوسری ٹانگ ایک سائیڈ پر کھول دی اور اپنے لن کو اس کی پھدی
کے لبوں پر پھیرنے لگا ایسا کرنے سے بوبی مزے کے ایک اور ہی جہان میں پہنچ گئی اور
تڑپتی ہوئی نگاہوں سے وکٹر کو دیکھنے لگی جیسے التجا کر رہی ہو کہ اب اور مت ترساؤ
اندر ڈال بھی دو چنانچہ وکٹر نے اپنا لن پھدی کے منہ پر رکھا اور تھوڑا سا زور
لگایا تو لن رکتا رکتا اندر جانے لگا بوبی کو اپنا سانس رکتا سا محسوس ہوا حالانکہ
اسی لن سے وہ پہلے بھی کئی دفعہ چدوا چکی تھی لیکن اس لن کی موٹائی ہمیشہ اسے سانس
روکنے پر مجبور کر دیتی تھی اور وہ بے اختیار بولی۔۔۔ اٹس ہارڈ پلیز ڈو اٹ کئیر
فلی۔۔۔ چند لمحوں میں ہی وکٹر اپنا سارا لن اندر ڈال چکا تھا اور آہستہ آہستہ آگے
پیچھے کرنے لگا وہ اب ہر جھٹکے کے ساتھ زیادہ لن باہر نکال لیتا اور پھر زیادہ زور
سے پورا بوبی کی پھدی میں ڈال دیتا پھر اس نے بوبی کی ٹانگوں کو اور اوپر اٹھایا
اور پورا وزن اسکی ٹانگوں پر پیٹ کی طرف ڈال دیا اور جھٹکے مارنے لگا اب بوبی کی
پھدی بھی لن کے مطابق سیٹ ہو چکی تھی تو وکٹر نے اپنی سپیڈ تیز کر دی اور زور زور
سے جھٹکے مارنے لگا اب بوبی کو بھی خوب مزہ آ رہا تھا وہ بھی اپنی گانڈ اٹھا اٹھا
کر وکٹر کے جھٹکوں کا جواب دینے لگی کچھ منٹ اسی پوزیشن میں چودنے کے بعد وکٹر نے
خود نیچے لیٹ کر بوبی کو اپنے لن پر بٹھا لیا اور نیچے سے چودنے لگا بوبی بھی آگے
ہو کر اس کے گلے لگ چکی تھی اس پوزیشن میں بوبی کا دانہ وکٹر کے جسم سے رگڑ کھانے
لگا اور بوبی اس مزے کو برداشت نا کر پائی اور اس کا جسم پھر سے اکڑنا شروع ہو گیا
اور ایک دم اس کی پھدی سے منی کی دھار نکلی اور وکٹر کے ٹٹوں کو بھگو گئی اب وکٹر نے
اپنا لن باہر نکالا اور پاس پڑے ٹشو پیپر سے صاف کیا اور بوبی کو ڈوگی سٹائل میں
ہونے کو بولا بوبی فٹا فٹ ڈوگی سٹائل میں آ گئی اور اپنے گھٹنے تھوڑے آگے کر کے
اپنی گانڈ کو باہر نکال دیا واؤ کیا نظارہ تھا وکٹر نے بوبی کے چوتڑوں پر کس کیا
اور دونوں ہاتھ سے چوتڑوں کو کھول کر اپنا لن اس کی پھدی پر پھیرنے لگا ایسا کرنے
سے بوبی پھر گرم ہونا شروع ہو گئی اور ہلکی ہلکی سسکیاں بھرنے لگی تھوڑی دیر اسی
طرح کرنے کے بعد وکٹر نے اپنا لن اندر ڈال دیا اور پہلے کی طرح تیز رفتار جھٹکے
مارنے لگا جب لن بوبی کی پھدی سے باہر آتا تو وہ پھدی کے پانی سے لتھڑا ہوتا ہر
جھٹکے پر وکٹر کو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے اس کا لن ایک تنگ موری والی بوتل میں گھس
گیا ہے ایسے ہی جب وہ اپنے لن کو باہر نکالتا تو پھدی کے لبوں بھی لن کو پکڑنے کی
کوشش میں تھوڑا باہر کو نکل آتے اور جب دوبارہ لن اندر جاتا تو وہ بھی ساتھ ہی
اندر گھس جاتے اب بوبی بھی فل فارم میں تھی اور اس کی آہوں اور سسکیوں سے پورا
کمرہ گونج رہا تھا اسی طرح پندرہ منٹ چودنے کے بعد وکٹر نے اچانک بوبی کے کندھوں
کو پکڑ لیا اور اپنی پوری جان سے ایک جھٹکا مارا اور پورا لن اندر جڑ تک گھسا دیا
بوبی کے لیے یہ جھٹکا آخری ثابت ہوا اور اس کی پھدی نے پھر پانی چھوڑنا شروع کیا
اور ساتھ ہی وکٹر کے لن نے بھی پچکاری ماری اور پھدی کو بھرنا شروع کر دیا ایسا لگ
رہا تھا جیسے لن سے منی کا دریا نکل رہا ہو اور پھدی کو سیراب کر رہا ہو بوبی مزے
کی وجہ سے مدہوش ہو چکی تھی انہوں نے لگاتار ایک گھنٹہ اور دس منٹ تک چدائی کی تھی
تبھی وکٹر اٹھا واش روم میں اپنی صفائی کرنے کے بعد بوبی کو کس کر کے بائے
وکٹر کے جانے کے بعد
لیری ساتھ والے کمرے سے ننگا باہر نکلا اور سیدھا بوبی پر جا پڑا اور جاتے ہی اپنا
لن اس کی پھدی میں گھسا کر جھٹکے مارنے شروع کیے اور چند منٹ میں ہی خالی ہو کر
سائیڈ پر لیٹ کر ہانپنے لگا بوبی نے خمار بھری نظروں سے اسے دیکھا اور پوچھا کے
کہو کیسا لگا لائیو شو تو لیری نے جوش سے جواب دیا اٹ واز امیزنگ مائنڈ بلوئنگ جاب
اور اتنی دیر تک چدائی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا پلیز میرے لیے کچھ کرو تو بوبی
نے کہا ٹھیک ہے ابھی تم جاؤ جیسے ہی تمہارا کام ہوا میں تمہیں خود بتا دوں گی اور
لیری چلا گیا
لیری کے جانے کے بعد ڈی دوسری سائیڈ سے اندر آ گئی اور
بوبی سے پوچھنے لگی بوبی یہ سب کیا ہے مطلب تم لیری کے ساتھ ایسے سیکس کیسے کر
سکتی ہو تو بوبی نے اسے سمجھایا کی ڈی میں ہمیشہ تمہیں اداس دیکھتی ہوں اور جیسے
تم اندر ہی اندر جلتی ہو یہ چیز مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی تو میں نے ایک پلان
بنایا تمہیں تمہاری خوشیاں لوٹانے کا اور لیری کے ساتھ سیکس کرنا بھی اس میں شامل
ہے ڈئیر اٹس آ پارٹ آف دی گیم اور رہی بات لیری کی تو مرد ذات ہمیشہ ہی ایسی ہے کہ
جہاں داؤ لگا پھدی بجا ڈالی تو تم بھی اپنی زندگی اپنے حساب سے جینے کا حق رکھتی
ہو ڈی نے کہا کہ میں کیا کر سکتی ہوں تو بوبی بولنے لگی جان تم بھی اپنا کوئی
ساتھی ڈھونڈ لو جو کہ تمہاری پیاس بجا سکے تمہاری تنہائیوں کو دور کر سکے یہ سن کر
ڈی کا رنگ لال پڑنے لگا اور وہ انکار میں سر ہلانے لگی نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی
یہ غلط ہے تو اچانک بوبی نے اپنا ہاتھ ڈی کی اسکرٹ میں سے اس کی ٹانگوں کے بیچ میں
گھسا دیا اور اس کی منی سے گیلی اور گرم پھدی کو دبوچتے ہوئے بولی لیکن یہ تو کچھ
اور ہی کہہ رہی ہے دیکھو میں جانتی ہوں تم گارڈن میں کھڑی تھی اور ہمارا لائیو شو
دیکھ کر اپنی پھدی کی آگ کو اپنے ہاتھ سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور ڈی
فٹا فٹ پیچھے ہٹ کر اپنی پھدی کو اس کے شکنجے سے چھڑانے لگی اور اپنی آنکھیں چرانے
لگی بوبی نے دیکھا کہ اب لوہا گرم ہے چوٹ لگائی جا سکتی ہے تو ڈی کو کندھوں سے پکڑ
کر اپنے پاس کیا اور کہنے لگی کہ میں اب تمہاری پھدی کو ٹھنڈا کرنے میں تمہاری مدد
کر سکتی ہوں تو ڈی نے آنکھیں اٹھا کر اس کو دیکھا اور پوچھ لیا کہ کیسے یہ سننا
تھا کہ بوبی نے اچانک آگے ہو کر اس کو پکڑ لیا اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں کے ساتھ
جوڑ دیے اور کسنگ کرنے لگی ڈی اس اچانک حملے سے بوکھلا گئی لیکن بوبی کی زبان کا
لمس محسوس کرتے ہی ایک دم سے لرز اٹھی اور اپنا بدن ڈھیلا چھوڑ دیا یہ کس اتنی
لمبی اور ہاٹ ہوئی کہ ڈی کی پھدی ایک دفعہ پھر گیلی ہو گئی اور اس نے بھی رسپانس
دینا شروع کر دیا اور اپنا منہ کھول کر بوبی کی زبان کو ویلکم کہا اور دونوں اپنی
زبانیں لڑانے لگیں اس کسنگ کے ساتھ دونوں بہت ہاٹ ہوتی جا رہیں تھیں بوبی نے آہستہ
آہستہ ڈی کے مموں کو بھی دبانا شروع کر دیا تو اس نے بھی جواباً بوبی کے بڑے ممے
پکڑ لیے اور ان کو اپنے ہاتھوں سے مسلنے لگی جبکہ بوبی کا تو کچھ اور ہی ارادہ تھا
اس نے اپنے ممے چھڑوائے اور پیچھے ہو کر ڈی کے بدن کو کپڑوں سے آزاد کر دیا اور
نیچے جھک کر ڈی کے تنے ہوئے نپل کو منہ میں لے لیا اور زور زور سے چوسنے لگی اور
اپنے ایک ہاتھ سے اس کے دوسرے ممے کو سہلانے لگی اور دوسرا ہاتھ ڈی کے پیٹ اور
ٹانگوں پر گشت کرنے لگا ایسے ہی نپل کو چوستے ہوئے اور ممے مسلتے ہوئے بوبی نے اس
کی پھدی پر ہاتھ رکھا اور دونوں لبوں کے درمیان کلٹ کو مسلنے لگی تو ڈی جھٹکا کھا
گئی اس کو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ مزے کے کسی اور ہی جہان میں پہنچ گئی ہو
بوبی ایسے ہی تھوڑی دیر ڈی کی پھدی کو مسلتی رہی اور وہ بھی اب پوری طرح مست ہو
چکی تھی اور اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر بوبی کا ساتھ دے رہی تھی۔۔
تھوڑی دیر تک ایسا کرنے کے بعد بوبی نے اس کے مموں کو
چھوڑا اور اٹھ کر ڈی کی ٹانگوں کے درمیان میں لیٹ گئی اور اس کی ٹانگیں پوری
کھولتے ہوئے اوپر کو کر دیں اور اپنے بازو اوپر کو کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اس
کے ممے پکڑ لیے اور اسی طرح مموں کو مسلتے ہوئے بوبی نے ڈی کی پھدی کی سائیڈوں پر
اپنی زبان پھیرنا شروع کی ڈی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح بوبی اپنی زبان
پوری اندر ڈال کر اس کو فارغ کر دے اور وہ اپنی گانڈ ہلا ہلا کر اس کی زبان کو
اپنی پھدی کے اندر سمونے کی کوشش کرنے لگی پھر بوبی نے پھدی کے ہونٹوں کو چوسنا
شروع کیا اور اچھی طرح چوسنے کے بعد اپنی زباں اس کی پھدی کے اندر گھسا دی اور پوری
زبان کے ساتھ پھدی کی اندرونی دیواروں کو چاٹنا شروع کر دیا یہ سب کچھ ڈی کی
برداشت سے باہر اور بہت زیادہ تھا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ بوبی کے سر پر رکھ کر
اس کو اپنی پھدی کی طرف دبا لیا اور ایک دم گانڈ اٹھائی اور جسم اکڑا کر بری طرح
چھوٹ گئی بوبی نے جب دیکھا کہ ڈی چھوٹ رہی ہے تو اس نے زبان اور اندر تک گھسا دی
اور پھدی کو چاٹ چاٹ کر پانی نکالنے لگی ایسے ہی چاٹتے چاٹتے اس نے ڈی کے کلٹ پر
دو تین بار زبان پھیری جس سے ڈی کا جسم لرز اٹھا لیکن بوبی نے اس کا کلٹ اور پھدی
کو چوسنا اور چاٹنا جاری رکھا اور ساتھ ساتھ ہی وہ اس کے نپلز کو بھی مسلتی رہی
تھوڑی ہی دیر میں ڈی پھر سے ہاٹ ہو چکی تھی اور اپنی گانڈ ہلانا شروع کر دی لیکن
اب اس کا دل کر رہا تھا کہ اب اس کی پھدی کے اندر کچھ چلا جائے جس کو بوبی نے بھی
محسوس کیا اور اس نے اپنی دو انگلیاں ڈی کی پھدی میں ڈال کر چودنا شروع کر دیا
ایسا کرنے سے ڈی کو تھوڑا سکون ملا لیکن پھدی چیخ چیخ کر ایک تگڑے لن کی ڈیمانڈ کر
رہی تھی تبھی ڈی چلانے لگی بوبی یہ آگ مجھے جلا ڈالے گی میرا کچھ کرو مجھے لن
چاہیے ابھی اور اسی وقت تو بوبی اٹھ کر بیٹھ گئی اور بولی کہ اس ٹائم تو ایک ہی
کام ہو سکتا ہے اگر تم تھوڑا ہمت دکھاؤ تو ڈی چلائی کہ چاہے گدھے کا لن لے آؤ لیکن
لے آؤ تو بوبی اٹھ کر کمرے کے باہر چلی گئی اور کچھ دیر بعد واپس آئی اور بولی کہ
ڈی بندوبست ہو تو گیا ہے لیکن اس بندے کی ایک شرط ہے وہ یہ کہ سیکس کے دوران
تمہاری آنکھوں پر پٹی ہو گی اور تم تب تک نہیں ہٹاؤ گی جب تک وہ خود نا ہٹائے اور
نا ہی وہ کچھ بولے گا سیکس کے دوران تو ڈی تھوڑا گھبرائی کہ بندہ کون ہے تو بوبی
نے کہا گھبراؤ مت میں یہاں ہوں نا تم بس ہاں کرو تو ابھی تیری خدمت میں ایک موٹا
تازہ لن پیش کرتی ہوں جو تیری برسوں کی تراس نکالے گا یہ سن کر ڈی کی آنکھوں میں
ڈورے تیرنے لگے اور اس نے آمادگی ظاہر کر دی تو بوبی نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ
دی اور اس کو لیٹنے کا کہہ کر باہر سے کسی کو اندر لے آئی
(دوستو اب باقی کی کہانی ڈی کی زبانی)
میری آنکھوں پر پٹی تھی اور میں آنے والے لمحات کے بارے
میں سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی کبھی ڈر کا احساس کہ پتہ نہیں یہ کون ہو گا اور
کہیں کچھ غلط نا ہو جائے تو کبھی خوشی کا احساس کہ آج ایک انجان لڑکا میری چدائی
کرے گا اور ساری تراس نکالے گا اتنے میں مجھے کمرے کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے
کی آواز آئی تو میں تھوڑا کسمسائی اور اپنے ہاتھ آنکھوں کی طرف لیجانے کی کوشش کی
تو بوبی کی آواز سنائی دی دیکھو دیکھو یہ خلافِ رولز ہے شرط کے مطابق تم اپنی پٹی
خود اپنے ہاتھوں سے نہیں نکالو گی بس جان ریلیکس میں یہاں ہوں نا تمہارے بلکل پاس
تم بس انجوائے کرو یہ کہہ کر بوبی میرے پاس بیٹھ گئی اور مجھے کسنگ کرنا اور ساتھ
ساتھ دونوں ہاتھوں سے میرے مموں کے نپلز مسلنے شروع کر دیے میں مزے اور تجسس کے
ملے جلے امتزاج کے ساتھ کانپنے لگی اچانک مجھے اپنی ٹانگوں پر ایک نہایت مضبوط اور
کھردرے ہاتھ کا احساس ہوا تو میرے منہ سے چیخ نکل گئی تو پھر بوبی بولی ریلیکس بس
اب اس کے آگے مزہ ہی مزہ ہے تبھی دو مردانہ ہاتھوں نے میری ٹانگیں کھول دیں اور
مجھے اپنی پھدی پر کھردری زبان کا احساس ہوا اور اس نے بھی میری پھدی کے دونوں لب
کھولے اور سیدھا زبان اندر ڈال دی اور میں جو کچھ دیر پہلے ڈر رہی تھی سب کچھ بھول
کر صرف مزہ لینے لگی ایک مرد کی گرفت کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے کچھ دیر میری پھدی
چوسنے کے بعد وہ پیچھے ہٹ گیا بوبی اس دوران اپنی پھدی میرے منہ پر رکھ کر بیٹھ
چکی تھی جس میں کچھ دیر پہلے وکٹر اور لیری نے اپنی منی نکالی تھی اس میں سے نہایت
عجیب سی مہک آ رہی تھی اور میں دو مردوں کی منی کا ٹیسٹ اپنی زبان پر محسوس کرنے
لگی اور نہایت جوش سے پھدی چاٹنے لگی اور وہ انجان لڑکا میرے مموں سے رس کشید کرنے
لگا وہ کبھی دایاں نپل اپنے منہ میں ڈالتا اور کبھی بایاں نپل اور زور زور سے
چوستا کبھی سخت ہونٹوں سے کاٹتا اور میں اور جوش سے بوبی کی پھدی چوستی کاٹتی چلی
گئی اچانک بوبی میرے اوپر سے اٹھی اور مجھے بھی اٹھا کر بٹھا دیا اور وہ لڑکا بھی
میرے ممے چھوڑ کر پیچھے ہو گیا۔۔۔
اور پھر کچھ دیر بعد بوبی نے میرا ہاتھ پکڑ کر اس کے لن
پر رکھ دیا میں نے لن کو پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے اس کی لمبائی اور موٹائی کا
اندازہ کر کے اندر تک کانپ گئی کچھ آٹھ انچ لمبا اور اڑھائی انچ موٹا لن تھا پھر
اس نے اپنا لن چھڑوایا اور ایک ہاتھ میرے سر پے رکھا اور اسی وقت لن کی ٹوپی مجھے
اپنے ہونٹوں پر محسوس ہوئی اور ایک عجیب سی سمل میرے نتھنوں میں گھسی اور میں سمجھ
گئی کہ وہ کیا چاہتا ہے اور میں نے اپنا منہ کھولا اور لن پر ایک کس کی تو اس کی
ٹوپی پر تھوڑا گیلا پن محسوس ہوا لیکن نمکین نمکین ٹیسٹ مزے کا لگا تو میں نے لن
کی ٹوپی اپنے منہ میں لے لی اور اس کو چوسنا شروع کر دیا میں لائف میں پہلی دفعہ
لن چوس رہی تھی اور وہ بھی کسی اجنبی بندے کا یہ چیز میری شہوت کو اور بھڑکا رہی
تھی میں بڑے پیار سے ٹوپی چوس رہی تھی کچھ لمحے ایسے ہی چوسنے کے بعد میں نے لن
منہ سے نکالا اور اس کی شافٹ پر زبان پھیری اور اس کو چاٹنے لگی جب اس کا لن میرے
تھوک سے گیلا ہوگیا تو میں نے لن کو اوپر کی طرف کر کے ٹوپی کی نیچے والی سائیڈ پر
چاٹتے ہوئے نیچے جانے لگی اور ٹٹوں تک چاٹ لیا وہاں اس کے بڑے بڑے بالز نما ٹٹے
لٹک رہے تھے میں نے بے اختیار ان پر زبان پھیری تو وہ جیسے کانپ اٹھا میں سمجھ گئی
کہ وہ بھی اب پوری لہر میں ہے اور میں پوری دلجمعی کے ساتھ اس کے لن کو اوپر سے
نیچے تک اور کبھی ٹٹے چاٹنے لگی اور کبھی جتنا لن منہ میں آتا اس پر اپنی زبان گول
گول گھما کر اندر ہی اندر چوستی گئی کچھ دس منٹ بعد جب لن بلکل لوہے کے راڈ کی طرح
تن گیا تو اس نے مجھے نیچے لٹایا اور مجھے سیدھا لٹا کر ٹانگیں دونوں سائیڈوں میں
کھول دیں اور اپنے لن کی ٹوپی میری پھدی پر رکھی اور ہلکا سا دباؤ ڈالا مجھے ایسا
لگا جیسے میں پھدی پر کوئی وزنی چیز اندر گھسنے کی کوشش کر رہی ہے میں نے اپنا
سانس روک لیا اور اپنے بدن کو ڈھیلا چھوڑنے کی کوشش کی تبھی اس نے ایک بار پھر
دھکا لگایا اور لن کی ٹوپی اندر چلی گئی مجھے یوں لگا کوئی موٹا اژدھا پھنس پھنس
کر اندر گھستا چلا جا رہا ہے اور میرے منہ سے چیخ نکل گئی اور وہ وہیں رک گیا اتنے
میں بوبی نے مجھے پچکارتے ہوئے کہا بس تھوڑی سی تکلیف اور ہو گی بلکل معمولی سی یہ
بندہ بہت کو آپریٹو ہے میری تو سیل بھی اسی نے توڑی تھی اور یہ کہہ کر میرے مموں
کو چوسنا اور مسلنا شروع کر دیا ابھی میرا دھیان تکلیف سے ہٹا ہی تھا کہ اس لڑکے
نے پھر پریشر بڑھانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ آدھے سے زیادہ لن اندر چلا گیا میرے
لیے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا تبھی بوبی میرے مموں سے پیچھے ہٹ گئی اور وہ لڑکا
میرے اوپر جھک کر لیٹ گیا اس کا وزن کافی زیادہ تھا اس کی جسامت سے محسوس ہوتا تھا
کہ وہ کوئی صحت مند لڑکا ہے وہ مجھے کسنگ کرنے لگا اور ساتھ ساتھ ممے دبانے لگا
میری تکلیف میں کمی ہوئی تو اس نے پھر پریشر بڑھانا شروع کیا میں نے ہلنے کی کوشش
کی لیکن اس کے وزن کی وجہ سے ہل نا پائی تو سانس روک کر تکلیف برداشت کرنے لگی کچھ
پانچ منٹ میں وہ اپنا سارا لن میری پھدی میں ڈال چکا تھا میرے اندر مرچیں لگی ہوئی
تھیں لیکن یہ تکلیف برداشت کے قابل تھی پھر آہستہ آہستہ اس نے آگے پیچھے ہلنا شروع
کر دیا چند منٹوں میں ہی لن میری پھدی کے اندر اپنی جگہ بنا چکا تھا اب مجھے تکلیف
کا احساس کم ہوتا گیا اور مزہ آنا شروع ہو گیا اور میں بھی نیچے سے ہلنے لگی یہ
دیکھ کر اس نے اپنی دھکے مارنے کی رفتار تھوڑی بڑھا دی اور متواتر دھکے مارنے لگا
اب میں مزے سے آہیں بھر رہی تھی مسلسل دس منٹ اسی پوزیشن میں چدوانے کے بعد میں
تھک چکی تھی کیونکہ اس کا وزن بہت زیادہ تھا لیکن مزہ تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی
نہیں لے رہا تھا اس کے دھکوں سے کمرے میں دھپ دھپ کی آواز گونجنے لگی تبھی میں
بولی کہ اب پوزیشن بدلتے ہیں میں تھک چکی ہوں تو وہ اتر کر سائیڈ پر ہو گیا اور اچانک
میری آنکھوں پر سے پٹی اتار دی اور میری آنکھیں پھٹ کر حلقوں تک جا لگئیں کیونکہ
وہ ۔۔۔۔ وہ وہ
وہ کوئی اور نہیں وکٹر
تھا جی ہاں میرا باس اور بوبی کا بوائے فرینڈ میں گم صُم سی حیران تھی تبھی وکٹر
بولا ڈی کیا ہوا حیران کیوں ہو تم بے فکر رہو میری طرف سے تمہیں کوئی تکلیف نہیں
ہو گی اور جب تم چاہو مجھے سے مزہ لے سکتی ہو یہ سن کر مجھے چند منٹ پہلے تک آنے
والا مزہ یاد آ گیا اور میں اچھل کر وکٹر کے گلے کا ہار بن گئی اور کسنگ کرنے لگا
اچانک مجھے یاد آیا بوبی کہاں ہے ادھر دیکھا تو وہ بیٹھی برے برے منہ بنا رہی تھی اور
کہنے لگی ڈئیر اب مجھے مت بھول جانا یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے تو میں نے اس کو
بھی پکڑ کر کھینچ لیا اور ہم تینوں وہیں ساتھ موجود صوفہ پر بیٹھ گئے اور وکٹر جو
کے درمیان میں بیٹھا تھا دونوں کو باری باری کسنگ کرنے لگا اور کبھی ایک کے ممے
چوستا کبھی دوسری کے اور ہم دونوں لڑکیوں نے ہاتھوں سے اس کے لن اور ٹٹوں کو
سہلانا شروع کر دیا واہ کیا مزہ آ رہا تھا تھری سم کا اب تھوڑی ہی دیر میں ہم
تینوں گرم ہو چکے تھے اب وکٹر نے مجھے اپنے اوپر بلا لیا اور نیچے سے اپنا لن میری
پھدی میں گھسا دیا تکلیف تو ہوئی لیکن پہلے سے کم اور مزہ اس کا تو میں بتا نہیں
سکتی چند ہی لمحوں میں پورا لن میرے اندر تھا اور میں آہستہ آہستہ اچھلنے لگی وکٹر
کا لن میری بچہ دانہ کو جا کر ٹکراتا اور میرے منہ سے سسکاریاں نکل جاتی اب میں نے
دونوں ہاتھ وکٹر کے سینے پر رکھے اور تھوڑا آگے کی طرف جھک کر اپنی پھدی کو چودنے
لگی بوبی وکٹر کو کس کرنے لگی اور وکٹر اس کی پھدی کو مسلنے لگا چند منٹ بعد بوبی
اٹھ کر کھڑی ہوئی اور دونوں ٹانگیں کھول کر اپنی پھدی وکٹر کے منہ پر رکھ دی جسے
وکٹر بڑے پیار سے چاٹنے لگا اور میں لن پر اچھلتے ہوئے اب چھوٹنے کے قریب تھی میں نے
اپنی رفتار تیز کی اور چند جھٹکوں کے بعد ہی میں چھوٹ گئی اور وکٹر کے اوپر گر گئی
وکٹر نے بوبی کو ہٹایا اور مجھے اتار کر ایک سائیڈ پر لٹا دیا اور اسی پوزیشن میں
دوبارہ بیٹھ گیا اب میری جگہ بوبی لن کی سواری کر رہی تھی اور آہیں بھرنے لگی میں
اتنی دیر تک سنبھل چکی تھی اور آرام سے بیٹھ کر ان کی چدائی دیکھتی رہی اب بوبی
پورا زور لگا کر خود کو چود رہی تھی کیونکہ وہ پہلے ہی بہت ہاٹ ہو چکی تھی اب میں
بھی دوبارہ ہاٹ ہو رہی تھی چنانچہ میں اٹھی اور وکٹر کے اوپر آ گئی لیکن میرا منہ
بوبی کی طرف تھا میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی پھدی کھولی اور وکٹر کے منہ پر رکھ
دی اور آگے ہو کر بوبی کے مموں کو پکڑ لیا اور ساتھ میں کسنگ کرنے لگی وکٹر نے بھی
اپنی پوری زبان پھدی میں ڈال دی اور زور زور سے چوسنے چاٹنے لگا اب حالت کچھ یوں
تھی کہ بوبی وکٹر کے لن پر بیٹھ کر خود اپنی پھدی کو چود رہی تھی جبکہ میں زبان سے
چد رہی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے ممے مسل رہیں تھیں ساتھ مدہوش ہو کر کسنگ بھی
کر رہیں تھیں اب مجھے لگا کہ میں چھوٹنے والی ہوں تو میں نے اپنی پھدی وکٹر کے منہ
پر دبا دی اور چھوٹ گئی وکٹر مزے سے ساری منی چاٹ گیا ادھر بوبی کی پھدی بھی ٹائٹ
ہونا شروع ہو گئی جس کا وکٹر کو بھی اندازہ ہو گیا اور وہ نیچے سے زور زور سے دھکے
مارنے لگا تو بوبی کی پھدی نے بھی ایک دم منی کی برسات کر دی اور وہ بھی فارغ ہو
گئی جبکہ وکٹر ابھی باقی رہتا تھا چنانچہ وکٹر نے مجھے پکڑا اور ڈوگی سٹائل میں کر
کے میری گیلی پھدی میں اپنا لن ایک جھٹکے سے جڑ تک اتار دیا میرے منہ سے فلک شگاف
چیخ نکلی اور درد سے میں تڑپ اٹھی مجھے لگا جیسے میری پھدی کو دو سائیڈوں میں چیر
دیا گیا ہو تو فوراً بوبی نے میرے ہونٹوں کو چوسنا اور مموں کو مسلنا شروع کر دیا
وکٹر نے اپنا لن باہر نکالا اور درمیانی رفتار سے دھکے مارنے لگا پانچ منٹ بعد
میری تکلیف کم ہوئی تو مجھے بھی مزہ آنے لگا۔۔
وکٹر کی رفتار تیز ہوتی گئی اب وہ اپنی پوری جان سے میری
چدائی کر رہا تھا وہ لن ٹوپی تک باہر نکالتا اور پوری جان سے اندر جھٹکا مار دیتا
تبھی وکٹر کا جسم اکڑنے لگا اور مجھ محسوس ہوا جیسے کسی نے میری پھدی میں آبشار
لگا دی ہو وکٹر کا لن جھٹکے کھاتا ہوا منی چھوڑنے لگا اور یہی پچکاریاں میرے لیے
فیصلہ کن ثابت ہوئی اور میں بھی چھوٹ گئی کچھ دیر ریسٹ کرنے کے بعد ہم تینوں نے
ایک ساتھ شاور لیا اور میں نے وکٹر اور بوبی کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ لیا کہ اب
جب بھی دل کرے گا وکٹر ایسے ہی میری چدائی کرے گا یہ دن میرے لیے یادگار دن تھا
اور میں اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈی کے جانے کے بعد
وکٹر اور بوبی کھلکھلا کر ہنسنے لگے قصہ دراصل یوں تھا
کہ وکٹر بہت دیر سے ڈی پر فدا تھا اور اس کی پھدی مارنا چاہتا تھا لیکن وہ ہمیشہ
ریزرو رہتی تھی اور کبھی بھی وکٹر کو فری ہونے کا موقع نہیں دیتی تھی وکٹر نے اسی
بابت بوبی سے ذکر کیا اور چونکہ بوبی ڈی کی گہری دوست ہونے کے ناطے ڈی اور لیری کی
اندر کی باتیں اور سیکس لائف کے مسئلے کو جانتی تھی تو تبھی انہوں نے ایک پلان
بنایا اور وکٹر کے لن کی کمزوری کو سیڑھی بنا کر براستہ بوبی وکٹر ڈی کی پھدی
مارنے میں کامیاب ہو گیا
بوبی نے وکٹر سے لیری کیلئے ایک سیکس پاور کی دوائی لیکر
لیری کو دے دی جس سے اب لیری بھی پہلے سے بہتر وقت نکالتا ہے اور ڈی کی خوشیوں کا
تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں وہ لیری سے بھی چدواتی ہے اور جب کبھی پروگرام ہوتا تو
بوبی اور وکٹر کے ساتھ ملکر تھری سم بھی