ہم۔دوست نویں قسط

اپریل 09, 2021

ہم۔دوست

نویں قسط

 میڈم کے جانے کے کچھ دیر بعد یاسر آ گیا اور کہنے لگا کہ چاۓ پی لی ہے تو چلیں ؟؟ چاۓ میں نے نہ بھی پی ہوتی تو چل پڑتا کہ مجھے ان کے گھر جانے کی بڑی جلدی تھی لیکن میں یہ بات اس پہ ظاہر بھی نہیں کرنا چاہتا تھا چانچہ میں نے کہا وہ تو کب کی ختم بھی ہو چکی تو وہ بولا استاد جی چلو پھر ۔۔۔ میں اس کے ساتھ چل تو پڑا پر تھوڑا سا نروِس بھی ہو رہا تھا میری یہ حالت دیکھ کر وہ کہنے لگا ۔۔۔ فکر نہ کرنا استاد چھوٹی موٹی بات کو باجی نازو سنبھال لے گی تو میں نے اس سے پوچھا یار میں نے تو سنا تھا کہ تمھاری منگیتر اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے ؟ تو وہ کہنے لگا کہ آپ نے نے بلکل درست سناتھا جناب ۔۔۔ تو میں نے اگلا سوال داغتے ہوۓ اس سے پوچھا تو باجی نازو ۔۔؟ میرا سوال پورا ہونے سے قبل ہی وہ ایک دم کِھکھِلا کر ہنس پڑا اور بولا ۔۔۔ نازو باجی اصل میں مایا کی پھوپھو جان اور تقریباً ماما کی ایج فیلو ہے یا ان سے ایک آدھ سال چھوٹی ہو گی لیکن آپ دیکھو گے کہ وہ اپنی عمر سے کتنا کم نظر آتی ہیں ۔۔۔۔ اور وہ ہیں بڑی زندہ دل خاتون ۔۔۔ وہ مایا کی پھوپھو نہیں بلکہ ویری بیسٹ فرینڈ ہے اور اس نے سب بچوں کو سختی سے کہہ رکھا ہے کہ خبردار سب بچے انہیں باجی کے علاوہ کسی اور لفظ سے نہ پکاریں ۔۔ اسی طرح کی باتوں کے دوران ہم ۔۔۔ مایا کے گھر پہنچ گۓ ۔۔
 مایا کا گھر باہر سے اتنا بڑا نہیں لگتا تھا جتنا وہ اندر جا کر لگتا تھا اندر سے وہ ایک کافی بڑا لیکن سادہ سا گھر تھا یہ یک ٹرپل سٹوری مکان تھا گراؤنڈ فلور کامن روم کہلاتا تھا جہاں سب گھر والے بیٹھتے تھے یہیں پر ایک بڑا سا کچن تھا اور اسکے ساتھ ہی ایک بڑا سا ٹی لاؤنج بھی تھا ٹی وی لاؤنج کے ایک طرف ڈرائینگ روم تھا جو کسی خاص مہمان کے آنے پر کھولا جاتا تھا ورنہ یہ زیادہ تر بند ہی رہتا تھا کچن ساتھ ہونے کی وجہ س ان کی زیادہ سِٹنگ ٹی وی لاؤنج میں ہی ہوتی تھی اور اس کے ساتھ ہی ایک طرف کھانے کہ بڑی سی میز پڑی تھی پتہ چلا کہ چونکہ ان بھائیوں میں بڑا اتفاق تھا اس لی
ۓ ان کا کچن مشترکہ تھا رابعہ اور اس کا میاں تھرڈ فلور پر رہتے تھے جبکہ باقی لوگ سیکنڈ فلور پر رہتے تھے ۔۔ جب ہم مایا کے گھر داخل ہوۓ تو مایا کا ڈیڈی اور چچا ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے چاۓ پی رہے تھے جبکہ ایک طرف مایا کی ماما اور دادی لوگوں کے ساتھ وہ قاتلِ جان بھی بیٹھی تھی کہ جس کی خاطر میں یہاں آیا تھا ۔۔۔ لیکن اس وقت میں نے ان سب لیڈیز کو مشترکہ سلام کیا ۔۔۔۔۔اور پھر ان دونوں بھائیوں کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر دونوں نے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور مجھے چاۓ پینے کی دعوت دی چاۓ کے دوران وہ مجھ سے ایجوکیشن کے موضوع پر گپ شپ کرتے رہے دورانِ گفتگو مایا کے چچا (رابعہ کے میاں ) نے مایا کے فادر کو بتایا کہ بھائ جان آپ کو پتہ ہے کہ ملکوں کی شادی پر سارا بندوبست (میری طرف اشارہ کر کے ) انہی کا تھا اور کیا اچھا بندوبست تھا تو مایا کے ڈیڈی نے مجھ سے تصدیق کے لیۓ پوچھا تو میں نے فوراً سر ہلا دیا ۔۔۔ کچھ دیر بعد مایا کے ساتھ ایک دبلی پتلی بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت خاتون ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوئ اور ہیلو ہاۓ کے بعد ان بھائیوں کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئ اور مایا کے فادر سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔۔ کیسا لگا مایا کا ٹیچر ؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگا بظاہر تو اچھے ہیں اور ویسے بھی جب اتنے لوگ ان کی تعریف کر رہے ہیں تو ان میں خامی نکالنے والا میں کون ہوتا ہوں میری تو بس یہ خواہش ہے کہ مایا اچھے نمبر لے ۔ یہ سُنتے ہی وہ خاتون بولی مبارک ہو شاہ جی بھائ صاحب نے آپ کو مایا کا ٹیچر مقرر کر دیا ہے ۔۔۔ اس پر میں نے پلان کے مطابق جواب دیا کہ سر تھینک یو کہ آپ نے مجھے مایا کا ٹیوٹر رکھا پر میری ایک شرط ہو گی ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ ایک دم چونک گۓ اور بڑی حیرانی سے بولے ۔۔ وہ کیا ؟ تو میں نے کہا سر میں آپ کو رزلٹ دوں گا لیکن میرے کام میں کوئ مداخلت نہیں کرے گا ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگے ۔۔۔ اوہ ۔۔ آپ کا مطلب ہے کہ ۔۔۔۔۔ آپ کے پڑھائ کے سٹائل پر ۔۔۔ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔ تو وہ کہنے لگے اوکے ۔۔۔ جیسے آپ کی مرضی پھر کہنے لگے کل تو یہ لوگ مری جا رہے ہیں آپ ایسا کریں کہ پرسوں سے پڑھانے کے لیۓ آ جائیں ۔۔۔۔ ان کی بات سُن کو وہ خاتون بیچ میں بول اُٹھی پرسوں سے کیوں جی آپ آج ہی سے پڑہائ شروع کر دیں کہ ہم بھی تو دیکھیں کہ آپ کیسا پڑہاتے ہیں ۔۔۔ ان کی بات سُن کر مایا کے فادر بولے رہنے دو نازو۔!!! پرسوں آرام سے چیک کر لینا ۔۔۔۔ نازو کا نام سُن کر میں ایک دم چانک گیا اور بڑے غور سے ان کو دیکھنے لگا ۔۔ وہ کہہ رہی تھی آج کا کام کل پر نہیں چھوڑنا چاہیۓ ویسے بھی بھائ جان ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ۔۔۔۔۔۔ پڑھے لکھے کو فارسی کیا ۔۔۔۔ پھر مایا سے مخاطب ہو کر بولی جاؤ بیٹا اپنا بیگ لے آؤ ۔۔۔ اور مایا اُٹھی اور اپنا سکول بیگ لے کر میرے پاس آ گئ ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی کہ مایا اپنے ٹیچر کو میتھ کی کاپی چیک کرواؤ ۔۔۔۔ اور اس نے میتھ کی کاپی نکال کر میرے سامنے کر دی ۔۔ اور میں اسے اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگا پھر پلا ن کے مطابق اس نے اپنے ایک دن پُرانے ٹیسٹ کی شیٹ نکال کر میرے سامنے کر دی کہ جس میں وہ فیل ہوئ تھی میں نے اسے غور سے دیکھا اور پھر اس سے کہا آپ کو پتہ ہے کہ اپ نے اس سوال میں کہاں غلطی کی ہے تو وہ بولی پتہ ہے ہر سمجھ نہیں آ رہی ۔۔۔۔ اس پر میں نے اس کو سمجھانا شروع کر دیا اور سمجھانے کے بعد میں نے اس کو کہا کہ اب آپ یہ سوال دوبارہ حل کرو ۔۔۔ یہ سُن کر مایا وہ سوال حل کرنے لگی اور پھر پلان کے مطابق نازو باجی نے اس سے کہا ۔۔۔۔ مایا میں گھر جا رہی ہوں تمھارے کمرے میں میرا پرس پڑا ہے زرا بھاگ کے وہ تو اُٹھا لاؤ ۔۔۔ مایا نے نے انکی بات سُن کر کاپی ٹیبل پر رکھی اور جانے کے لیۓ اُٹھ کھڑی ہوئ ۔۔ جیسے ہی مایا اُٹھی میں نے اس سے کہا ۔۔۔ ایک منٹ ۔۔۔ مایا آپ کہاں جا رہی ہو تو وہ بولی ٹیچر میں نازو باجی کا پرس لنے جا رہی ہوں تو میں نے کہا کہ کیا آپ نے جانے کی مجھ سے اجازت لی ؟ تو پلان کے مطابق وہ بولی اس میں اجازت کی کیا بات ہے میں یوں گئ اور یوں آئ ۔۔۔ تو میں نے قدرے سخت لہجے میں اس سے بولا ۔۔۔۔ آپ سوال حل کرو اور جب تک میں نہ کہوں آپ کہیں نہیں جائیں گی اس پر نازو باجی بولی

لو کر لو گل یہ بھلا کیوں نہیں جاۓ گی ؟ تو میں نے ان سے کہا کہ سوری میڈم جب تک میں نہ کہوں یہ کہیں بھی نہیں جا سکتی پھر میں مایا سے مخاطب ہو کر مزید سخت لہجے میں بولا ۔۔ مایا اگلے پانچ منٹ میں آپ نے یہ سوال حل نہ کیا تو میں آپ کو پنش (سزا) بھی کر سکتا ہوں اور میری بات سُن کر مایا نے ڈرنے کا ڈرامہ کرتے ہوۓ بڑی مری ہوئ آواز میں بولی اوکے ٹیچر ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ مایا اپنی بات مکمل کرتے اس کا فادر مجھ سے بھی سخت لہجے میں بولا ۔۔۔ مایا جیسا ٹیچر کہہ رہے ہیں ۔۔ ویسا ہی کرو ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ دونوں بھائیوں کے چہرے پر بڑی خوشی کو آثار نظر آ رہے تھے ۔۔۔ چھوٹے نے فوراً بڑے بھائ کو مخاطب کر کے کہا دیکھا بھائ جان میں نہ کہتا تھا کہ یہ ٹیچر ہے بڑا اچھا مایا کا سارا ڈسپلن درست کر دے گا ۔۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر مایا کا فادر بولا یار بات تو تم نے ٹھیک کی تھی اور پھر وہ میری طرف منہ کر کے بولا ۔۔۔ ٹیچر میری طرف سے آپ کو اجازت ہے کہ آپ مایا کو ڈسپلن میں لانے کے لیۓ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور یوں اس چھوٹے سے ڈرامے سے اپنا پلان کامیاب ہو گیا اصل میں ہم کو رابعہ کی طرف سے بڑا خطرہ تھا کہ وہ کسی نہ کسی بہانے مجھے وہاں سے کک آؤٹ کروا دے گی کیونکہ ایک تو میری اس کے ساتھ بنتی نہ تھی دوسرا وہ تھی ہی ایسی ۔۔۔۔۔ سو اس کو فیل کرنے کے لیۓ باجی نازو نے یہ ایڈوانس پلان ترتیب دیا تھا اور اس پلان کی کامیابی کے بعد اب گویا مایا کے فادر نے میری ٹیچری پر مہر ثبت کر دی تھی ۔۔ اسکے بعد وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔ پڑھائ کے دوران ہی دونوں بھائ کسی کام سلسلے میں اُٹھ کر چلے گۓ اور ہم ریلکس ہو گۓ ۔۔۔ اس طرح میرا پہلا دن بڑا کامیاب رہا ۔۔۔۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر سواۓ سلام دعا کے رابعہ نے نہ ہمارے کام میں کوئ انٹرسٹ لیا اور نہ ہی مجھے کوئ لفٹ دی ۔۔۔۔۔۔۔ واپسی پر میں اسی ادھیڑ پن میں تھا کہ پتہ نہیں کیا ہو گا کہ یاسر بولا کیا بات ہے استاد تم کوئ خوش نظر نہیں آ رہے تو میں نےاس پر اپنا خدشہ ظاہر کر دیا سُن کر اس نے میری طرف دیکھا اور بولا استاد میں تو تم کو بڑا سیانا بندہ سمجھتا تھا ۔۔۔۔۔۔ پر تم ۔۔۔۔ پھر کہنے لگا تمھارا کیا خیال ہے کہ تم جیسے ہی رابعہ کے گھر پہنچو گے وہ نالا کھول کر تمھارے لیۓ بیٹھی ہو گی کہ تم آ کر اس کی لے لو ۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ارے استاد ابھی تو پہلا دن ہےاور تم تو ابھی سے گھبرا گۓ ۔۔۔۔ ۔۔۔ دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہو جاۓ گا اور کوئ نہ کوئ راستہ نکل ہی اے گا اور اس کے بعد بھی اس نے مجھے کافی تسلیاں دیں جن سے میرے دل کو کافی ڈھارس بندھی۔۔۔۔۔ اور ہم چلتے چلتے اپنے اپنے گھر چلے گۓ ۔۔ اگلی صبع چونکہ یاسر کی امی کے ساتھ میرا ٹائم سیٹ تھا اس لیۓ خوشی کے مارے میں معمول سے کچھ پہلے ہی اُٹھ گیا اور خوب نہا دھو کر اپنے آپ کو صاف کیا ۔۔۔ انڈر شیو گو کہ اتنی بڑھی ہوئ نہ تھی پھر بھی میں نے ایک دفعہ پھر اپنے نیچے والے بالوں کو اچھی طرح صاف کر کے لن کو بلکل گنجا کر دیا اور پھر بڑی بے صبری سے اس وقت کا انتظار کرنے لگا جو یاسر کی امی نے دیا تھا ۔۔۔ باقی خواتین کی نسبت یاسر کی امی بڑی ہی سٹائلش اور تھوڑا ہٹ کر تھی ۔۔۔ چونکہ معمول سے کچھ زیادہ ہی جلدی اُٹھ کر تیار ہو گیا تھا ۔۔۔۔ اس لیۓ کبھی ادھر گھوم کھبی ادھر گھومنے سے بھی میرا وقت نہ گزر رہا تھا پھر میں اپنی چھت پر چلا گیا مقصد یہ تھا کہ گلی میں جھانک کر ان کا گھر دیکھتا رہوں گا اور جیسے ہی یاسر وغیرہ گھر سے مری کے لیۓ نکلیں گے میں فوراً بعد بھاگ کر اس خاتوں کے پاس چلا جاؤں کہ جس نے مجھے اپنی دینے کے لیۓ بڑا انتظار کرایا تھا ۔۔۔۔ اپنی چھت پر پہچ کر کافی دیر تک نیچے گلی میں یاسر کے گھر کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔ دیکھتا رہا ۔۔۔ لیکن مجھے وہاں پر کوئ خاص ہلچل وغیرہ نظر نہ آ رہی تھی ۔۔۔ کافی دیر تک میں یونہی اپنی چھت پر ٹہلتا رہا اور بار بار نیچے گلی میں جھانک کر دیکھتا رہا لیکن وہاں ایک ویرانی کے سوا کچھ بھی دکھائ نہ دیتا تھا اور آخرِ کار میں مایوس ہو گیا اور سوچا کہ نیچے کچھ آرام کرتے ہیں اور پھر مقررہ ٹائم پر ہی یاسر کے گھر جاؤں گا ۔۔۔۔۔ یہ سوچا اور پھر ایک آخری دفعہ ان کے گھر کی طرف دیکھا اور وہاں پرانے حالات کو پا کر میں ڈھلیے ڈھیلے قدموں سے واپسی کے لیۓ مُڑا ۔۔۔۔ اور پھر ناجانے کیسے میری نظر سلطانہ کے چھت کی طرف اُٹھ گئ تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان کی چھت پر سلطانہ کی بھابھی کھڑی میری ہی طرف دیکھ رہی تھی اتنی صبع صبع بھابھی کو چھت پر دیکھ کر میں خاصہ حیران ہوا اور بے اختیار اشارے سے پو چھ ہی لیا کہ آپ اتنی صبع چھت پر کیا کر رہی ہو ؟؟؟؟ تو اس نے ایک گیلا کپڑا دکھایا مطلب یہ کہ وہ کپڑے دھو رہی تھی ؟؟؟؟؟؟؟ پھر میں نے اشارہ سے سلطانہ کے بارے میں پوچھا تو وہ ہنس پڑی اور سونے کا اشارہ کیا مطلب وہ سو رہی ہے ۔۔۔ اس کی بات سُن کر مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اشارے سے کہا کہ کپڑے دھوتے سے اس کی ساری قمیض گیلی ہو گئ ہے اور ساتھ اس کے سینے کی طرف اشارہ کر دیا ۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے میں بھابھی تک اپنے اس اشارے کا مطلب سمجھانے میں ناکام رہا تھا کیونکہ میں نے دیکھا کہ میرا اشارہ دیکھ کر بھابھی نے ایک نظر ادھر ادھر دیکھا اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے بھابھی نے اپنی قمیض کا اوپر والا ایک بٹن کھولا اور تھوڑا نیچے جھک گئ ۔۔۔۔ اوہ میں نے تو یہ کہا تھا کہ آپ کے سارے کپڑے بھیگ گۓ ہیں اور وہ یہ سمجھی کہ میں اسے اپنے ممے دکھانے کو کہہ رہا ہوں ۔۔۔ ۔۔ واؤ ۔۔۔ ایک دم میری ساری بوریت اور مایوسی کافور ہو گئ اور میں بڑے ہی انہماک سے یہ نظارہ دیکھنے لگا ہر چند کہ ان کا چھت کچھ فاصلے پر تھا اور مجھے کچھ ٹھیک سے نظر نہ آ رہا تھا لیکن پھر بھی میں نے دیکھا کہ اس کے ممے تھوڑا لمبوترے لیکن بہت گورے اور موٹے تھے۔۔ اب جبکہ میری ٹھیک کا بات کا اس نے غلط مطلب لیکر مجھے اپنے ممے دکھا دیۓ تھے تویہ دیکھ کر اب میں اور بھی شیر ہو گیا تھا اور یاسر کی امی کو بھول کر سلطانہ کی بھابھی سے مستی کر رہا تھا پھر میں نے اس سے دوسرا بٹن بھی کھولنے کو کہا ۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔۔۔۔ حیرت کی بات ہے کہ اس نے اس کام میں جعلی نخرہ بھی نہ کیا اور ایک منٹ میں ہی دوسرا بٹن بھی کھول دیا ۔۔۔۔۔۔ پھر وہ تھوڑا پیچھے ہٹی اور اپنی ممٹی کے پاس بنے ایک تنگ سی جگہ پر جا کر کھڑی ہو گئ ۔۔۔ اور یہ عین وہی جگہ تھی کہ جہاں میں اور سلطانہ گھنٹوں ایک دوسرے کی نظروں سے نظریں ملا کر ۔۔۔۔ کھڑے رہتے تھے ۔۔۔ وہاں جا کر اس نے اپنا ایک مما قمیض سے باہر نکال کر میرے سامنے کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس نے ایک اور بڑی ہی عجیب حرکت کی وہ یہ کہ اس نے اپنا مما ہاتھ میں پکڑا اور بلکل ۔۔۔ کسی گشتی کی طرح اپنے منہ سے زبان نکالی اور میری طرف دیکھ کر اپنے نپل کو چاٹنے لگی ۔۔۔ اُف اُف ۔۔۔ اس کی زبان کافی لمبی تھی اور جس ادا سے وہ اپنا نپل چاٹ رہی تھی اسے دیکھ کر میرا تو لن اتنی سختی سے کھڑا ہوگیا کہ مجھے لگا ابھی لن والے حصے سے میری پینٹ پھٹ جاۓ گی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ شاید اس نے بھی پینٹ میں سے میرے لن کا ابھار دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔ اشارے سے بولی کہ میں لن پینٹ سے باہر نکال کر اسے دکھاؤں ۔۔۔ اب میں نے اس کی طرح آس پاس کی چھتوں کو غور سے دیکھا صبع صبع کا ٹائم تھا اور آس پڑوس کی چھتوں پر کسی زی روح کا نام و نشان بھی نہ تھا پھر بھی میں نے اچھی طرح تسلی کر لی اور پھر دھیرے دھیرے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ اپنی پینٹ کی زپ کھولنے لگا ۔۔۔۔۔ وہ بڑے ہی غور اور اشتیاق سے میری یہ کاروائ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ جب میں نے اپنا لن پینٹ سے باہر نکالنے میں کچھ زیادہ ہی دیر لگائ تو اس نے بے صبری سے اشارہ کیا کہ جلدی کرو نا اس سے مجھے اس کی بے قراری کا اندازہ ہوا ۔۔۔۔۔ پھر میں نے اسے مزید ترسانے کی خاطر پینٹ سے صرف ٹوپا باہر نکالا اور اس کی طرف دیکھنے لگا میرا موٹا ٹوپا ۔۔۔ دیکھ کر اس نے اپنے لمبی سی زبان اپنی ہونٹوں پر پھیری اور مسلسل میرے ٹوپے کو گھورنے لگی ۔۔۔۔ ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے اپنا مما بھی مسلنے لگی کچھ دیر اس نے اشارہ کیا کہ اب باقی کا لن بھی اسے دکھاؤں ۔۔۔ سو میں نے آہستہ آہستہ باقی ماندہ لن بھی پینٹ سے باہر نکالا اور اسے اس کے سامنے کر لہرانے لگا ۔۔۔ جیسے ہی میرا سارا لن پینٹ سے باہر آیا اس نے میرے اکڑے ہوۓ لن کی طرف ایک فلائنگ کس اچھال دی ۔۔۔ اور پھر قمیض سے باہر نکلا ہوا اپنا مما دباتے ہوۓ بڑے غور سے میرا لن دیکھنے لگی اور میں نے اس سے اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اس سے پوچھا کہ میرا لن اس کو کیسا لگا ہے تو اس نے فینٹاسٹک کا اشارہ کیا اور دوبارہ اپنے مما دبانے لگی ۔۔۔۔ تو پھر میں نے اپنے لن کی طرف اشارہ کر کے اسے پوچھا کہ آیا وہ میرا لن اپنے منہ میں لینا پسند کرے گی ؟؟ تو اس نے کچھ دیر تو اپنے ہونٹ اپنے دانتوں میں دباۓ ۔۔۔ پھر مجھے اپنی درمیان والی انگلی دکھائ ۔۔۔ اور اشارہ کیا کہ فرض کرو یہ تمھارا لن ہے ۔۔۔۔ اور پھر اس نے اپنی انگلی کے گرد اپنی لمبی زبان لپیٹ لی ۔۔۔ اور پھر میرے لن کی طرف دیکھتے ہوۓ وہ اپنی انگلی کو آہستہ آہستہ چاٹنے لگی ۔۔۔۔ کھبی وہ اپنی انگلی کی پور کو اپنی زبان کی نوک بنا کر چاٹتی اور کھبی میری طرف دیکھتے ہوۓ وہ اپنی انگلی آہستہ آہستہ اپنے منہ کے اندر لے جاتی ۔۔۔۔۔ اور پھر منہ سے انگلی نکال کر اس پر ہلکا سا تھوک پھینکتی اور پھر لن کی طرح اس کو خوب چوستی ۔۔۔۔ میرا خیال ہے اگر وہ سچ مچ میرا لن چوستی تو بھی شاید مجھے اتنا مزہ نہ آتا جتنا اسے میرے لن کی طرف دیکھتے ہوۓ اپنی انگلی کو چوستے اور چاٹتے ہوۓ آیا تھا اور میں حیران بھی تھا کہ وہ اس قدر کیسے مست اور سیکسی پوز کیسے بنا لیتی تھی ۔۔۔ وہ جس اینگل سے بھی انگلی اپنے منہ میں لیتی ۔۔۔ اسے دیکھ کر میری تو جان ہی نکل جاتی اور میرا لن جوبن میں آ کر فضا میں ہی لہرانے لگتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جیسے ہی میرا لن لہراتا وہ انگلی منہ سے نکال کر اپنا نیچے والا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبا لیتی اور ۔۔۔ دوسرے ہاتھ سے اپنا مما بری طرح مسلنے لگتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد نے اسے اشارے سے اپنی پھدی دکھانے کو کہا پہلے تو وہ میری بات کا مطلب نہ سمجھی پھر جب میں نے دوبارہ ایکشن کر کے سمجھایا تو اس نے میرا مدعا سمجھ لیا اور ہر چند کہ وہ بلکل سیف پوزیشن پر کھڑی تھی پھر بھی اس نے کر فوراً اپنا مما قمیض میں ڈالا اور درست حالت میں ہو چھت پر آ کر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ پھر اس نے ایک نظر سیڑھیوں پر ڈالی اور مطمئن ہو کر دوبارہ اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئ اور پھر اس نے اپنی قمیض کو کافی اوپر کر لیا اور پھر جھک کر اپنی آلاسٹک والی شلوار آہستہ آہستہ نیچے کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔ اور میں بے چینی سے اوپر اُٹھ اُٹھ کر اس کی چوت دیکھنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔۔میری نسبت اس نے مجھے زیادہ نہیں ترسایا اور کچھ ہر سکینڈ کے بعد اپنی شلوار گھٹنوں تک کر دی اور سیدھی کھڑی ہو کر میری طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔ اب میں نے دیکھا تو مجھے صرف اس کے گول گول اور موٹی تھائیز ہی نظر آ رہی تھیں ۔۔۔۔۔ جبکہ اس کی پھدی ان موٹی تھائیز میں کہیں چُھپی ہونے کی وجہ سے صاف نظر نہ آ رہی تھی تھا البتہ سفید رانوں کے پاس اور چوت کے اوپر کا کچھ حصہ کالا کالا نظر آ رہا تھا جو غور سے دیکھا تو یہ کالا کالا اس کی چوت پر اُگے بال تھے جو بہت چھوٹے پر گھنے تھے اس کے علاوہ مجھے اس کی چوت صاف نظر نہ آ رہی تھی ۔۔۔ مجھے الجھن میں دیکھ کر اس نے اشارے سے پوچھا کہ کیا مسلہ ہے تو میں نے اسے بتایا کہ مجھے آپ کی چوت صاف دکھائ نہیں دے رہی ۔۔۔ میرا اشارہ سمجھ کر اس نے ایک نظر نیچے دیکھا اور پھر اس نے واضع طور پر ۔۔۔” اوہ ” کہا اور پھر ۔۔۔۔۔ اس نے میری طرف دیکھا اور اشارہ کیا کہ اب میں اس کی چوت واضع طور پر دیکھ سکوں گا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ۔۔۔۔ اپنی دونوں ٹانگٰیں پوری طرح کھول دیں اور اپنی اوپری باڈی کو تھوڑا پیچھے کر لیا اور نیچے والے پورشن کو سامنے کر کے مجھے اپنی پھدی کا نظارہ کرانے لگی ۔۔۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اتنی دُور سے مجھے اس کی چوت بلکل صاف نظر نہ آ رہی تھی پھر بھی میں لن ہاتھ میں پکڑے اس کی چوت کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا رہا ۔۔۔ وہ بھی میری ہی طرف دیکھ رہی تھی اور اس کی نظریں مسلسل میرے اکڑے لن کا تعاقب کر رہیں تھیں ۔۔۔ پھر اس نے میرے لن کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ فار ۔۔۔ یو۔۔۔ اور اپنی درمیانی انگلی اپنی چوت کی لکیر پر پھیرنے لگی ۔۔۔ اتنے دور سے مجھے ٹھیک سے نظر تو نہ آ رہا تھا لیکن میرا خیال ہے کہ لزت کے مارے اس کی چوت کافی چِپ چِپ کر رہی تھی کیونکہ جب اس نے اپنی درمانی انگلی اپنی پھدی کی لکیر پر پھیری توؤ وہ اس کی پھدی پر جیسے چپک سی گئ تھی پھر اس نے اپنی وہ والی انگلی اپنی چوت میں اندر تک ڈِپ کی اور تھوڑا گھما کر باہر نکالی ۔۔ اور پھر اس نے اپنی وہ انگلی میرے سامنے کر کردی اتنی دور سے بھی میں دیکھ لیا تھا کہ اس کی انگلی پر ۔۔۔ سفید سفید مادہ چپکا ہوا تھا جسے اس نے ایک نظر پھر مجھے دکھایا اور پھر اپنی انگلی پر لگا وہ مادہ بڑے مزے سے چاٹنا شروع ہو گئ ۔۔ اور میں اپنے چھت پر کھڑا سلطانہ کی بھابھی کی اس بے باکی کو دیکھ حیران اور پریشان تھا کہ یہ میری اور اس کی فرسٹ میٹنگ تھی اور وہ اس قدر آگے چلی گئ تھی کہ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ یہ خاتون کس قدر آذاد خیال اور بے باک تھی ۔۔۔ دوسری طرف میں اس کے یہ ایکشن دیکھ دیکھ کر مزید پاگل ہوا جا رہا تھا اور سکیس تو مجھ پر صبع سے ہی سوار تھا لیکن اس کے یہ ایکشن میرے اندر مزید بارود بھر رہا تھا ۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے اسے اپنی گانڈ دکھانے کو کہا وہ فوراً مُڑی اور اپنی موٹی گانڈ میرے سامنے کر دی اس کی گانڈ کافی موٹی اور سفید تھی اس نے گانڈ کے دونوں پٹ کو انے دو انگلیوں کی مدد سے کھولا اور مجھے اپنی موری کا درشن کروایا لیکن دور ہونے کی وجہ سے میں ٹھیک سے نہ دیکھ سکتا ۔۔۔ پھر اس نے وہ ہاتھ وہاں سے ہٹاۓ اور پھر اپنی بُنڈ پر ہلکے ہلکے تھپڑ مارنے لگی ۔۔۔ یہ سین دیکھ کر میں پاگل ہو گیا ۔۔ اس نے اپنی موٹی گانڈ کو یہ نظارہ کچھ دیر تک کروایا پھر سیدھی ہو گئ اور ایک دفعہ پھر اپنی پھدی میرے سامنے کر دی ۔۔۔۔اور اس مین اپنی انگلی ان آؤٹ کرنے لگی ۔۔۔۔ ۔۔۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی پھدی کی طرف اشارہ کر کہا کہ کیسی لگی میری چوت ؟؟ تو میں نے اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ٹھیک سے نظر نہ آ رہی ہے ۔۔۔ تو اس نے ہنس کر اشارے سے کہا کہ یہ چھوٹی ہے نا اس لیۓ مجھے دور سے نظر نہیں آ رہی ۔۔۔۔ اور اس نے ساتھ ہی اشارے سے کہا کہ میں اس کی طرف سے اپنے لن کو مسلوں ۔۔۔ اور میں نے اپنے لن کا منہ اس کی طرف کیا اور اس کو مسلنا شروع کر دیا۔۔۔ وہ بڑے غور سے میری یہ کاروائ دیکھتی رہی اور ساتھ ساتھ میری طرح اپنے چوت کے دانے کو بری طرح سے رگڑتی رہی ۔۔۔۔ اور ایسا کرنے کے کچھ دیر بعد ہی وہ اپنی انگلی تیزی سے دانے پر رگڑتی جاتی اور کھبی وہ انگلی اپنی چوت میں داخل کر کے وہاں سے گیلا کر کے دوبارہ اسے میری طرف دیکھتے ہوۓ رگڑنے لگتی ۔۔۔۔ تب میں نے اسے ویسے ہی اشارہ کیا کیوں نہ وہ اپنی انگلی کی بجاۓ میرے لن اپنی پھدی پر رگڑے۔ اور ساتھ ہی ہوا میں ایک دو گھسے بھی مار دیۓ ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ وہ میری طرف سے اسی آفر کی منتظر تھی ۔۔۔ جیسے ہی میرا وہ فُحش اشارہ ختم ہوا اس نے فوراً مجھے اپنے ہاں آنے کو دعوت دے دی ۔۔ چاہیۓ تو یہ تھا کہ میں انکار کر دیتا مگر مجھ پر اس قدر منی سوار تھی کہ میں نے اس سے پوچھا کہ کہ آپ کا شوہر اور بڑے ملک صاحب کہاں ہیں ؟؟ تو وہ اشارے سے بولی وہ دونوں کام پہ گۓ ہیں ۔۔۔ پھر سلطانہ کے بارے میں بولی وہ بھی سوئ ہوئ ہے تو میں نے اسے اشارے سے پوچھا کہ دن دیہاڑے آ کر میں تم کو کیسے چودوں ؟ تو اس نے فوراً ہی اشارہ کیا کہ اس وقت گھر کی سب لیڈیز سوئ پڑی ہیں اور ۔۔۔۔ اور مرد حضرات کام پر گۓ ہیں ۔۔۔ سو میں اس ٹائم آ کر اس کو چود سکتا ہوں ۔۔ پھر اس نے اشارے سے کہا کہ میں بجاۓ مین گیٹ کے ڈرائینگ روم کے دروازے سے اندر آؤں اور وہاں ہی اس کو چود لوں کہ میں گیٹ سے پھر بھی رسک ہے لیکن ڈرائینگ میں نہ ہے کہ وہ اکثر بند رہتا تھا اور خاص مہمان کی آمد پر ہی کھلتا تھا پھ اشارہ کیا کہ جلدی سے آؤ اور اس کی پھدی مار لو ۔۔۔۔۔۔ سب باتیں طے ہونے کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ ۔۔۔۔۔ لیکن پھر بھی میں بغیر کسی وجہ کے اس کے گھر کیسے آ سکتا ہوں تو وہ اشارے سے ہی کہنے لگی وجہ ابھی بن جاتی ہے اور پھر اس نے اپنی دیوار پر سوکھنے کے لیۓ پڑے دھوۓ ہوۓ دو تین سوٹوں کو نیچے گلی میں پھینک دیا اور اشارے سے بولی ۔۔۔۔ یہ لے کر گھر آ جاؤ ۔۔۔ اور مجھ پر شہوت کا اس قدر غلبہ تھا اور مجھ پر اس قدر منی سوار تھی کہ میں بنا سوچے سمجھے بھاگتا ہوا نیچے گلی میں گیا اور وہ کپڑے اُٹھا کر اس کے گھر کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔۔۔ اور وہاں جا کر ان کی گھنٹی بجانے ہی لگا تھا کہ ڈرئینگ روم کے دروازے کی طرف سے بھابھی کی گھٹی گھٹی سی آواز سنائ دی ۔۔۔ ادھر ۔۔۔ دروازہ کھلا ہے اندر آ جاؤ ۔۔۔ اور میں نے کن اکھیوں سے ایک نظر گلی میں دیکھا اور اسے سُنسان پا کر ان کے ڈرائینگ روم میں داخل ہو گیا اور جیسے ہی اندر گیا اس نے جلدی سے مجھ سے وہ گیلے کپڑے پکڑے اور بولی تمھارے جوتے کافی گندے ہیں ان کو دروازے کے اندر میٹ پر اتار دو ۔۔ اور انتظار کرو میں کپڑے رکھ کر ابھی آئ ۔۔۔۔ اس کے جانے کے بعد میں نے اپنی گندے جوتے ڈرائینگ روم کے میٹ پر رکھے اور ایک کونے میں ایسی جگہ صوفے پر جا بیٹھا کہ جہاں سے ڈرائینگ روم میں اندر داخل ہونے والے شخص کی ایک دم نظر نہ پڑتی تھی اس وقت میرا سارا بدن شہوت کی آگ میں بُری طرح سے جل رہا تھا جس کی وجہ سے میں صوفے پر ٹک کر نہ بیٹھ سکا اور کھڑا ہو کر ٹہلنے لگا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد بھا بھی بھی کمرے میں داخل ہو گئ اور ڈرائینگ روم کا پردہ آگے کر کے میرے پاس آ گئ اور مجھے گلے سے لگا لیا پھر اس نے اپنے جلتے ہوۓ ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھے اور بولی ۔۔۔۔ جلدی سے اپنا لن باہر نکالو۔۔۔ بھا بھی کی یہ بات سُن کر میرے اندر سے مستی کی ایک تیز لہر نکلی اور میرا سارا جسم سیکس کی آگ سے بھر گیا اور میں نے جلدی سے اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور لن باہر نکال دیا ۔۔۔ جیسے ہی لن باہر آیا اس نے جلدی سے اسے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور باہر کی طرف دیکھتے ہوۓ سرگوشی میں بولی ۔۔۔ ہاۓ کتنا بڑا ہے تمھارا ۔۔۔۔ اور پھر اسے آہستہ آہستہ مسلنے لگی ۔۔۔ اس کے بعد وہ گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گئ اور اپنی لمبی زبان نکال کر میرے ٹوپے پر پھیرنے لگی اور سرگوشی میں بولی ۔۔۔ غضب کا ٹوپا ہے تمھارا ۔۔۔۔۔ پھر اس نے ٹوپے کو اپنے منہ میں لیا اور تھوڑی دیر چوستی رہی پھر اس نے میرا ٹوپا اپنے منہ سے نکلا اور میرے لن کے گرد اپنی لمبی زبان لپیٹ لی اور اس سے سارے لن پر مساج کرنے لگی ۔۔۔۔ پھر اس نے میرے لن سے اپنی زبان ہٹائ اور اُٹھ کر میرے سامنے کھڑی ہو گئ اور میرا لن ہاتھ میں پکڑ کر بولی اس دن تم نے اس لن سے سلطانہ کو بڑے ظالم گھسے مارے تھے تب سے مین اس لن کے لیۓ مرے جا رہی ہوں ۔آج ۔۔۔ بلکل اسی طرح تم میری پھدی بھی مارنا ۔۔۔ پھر میرے کان کے گرد اپنا منہ لا کر بولی ۔۔۔ بلکل اسی طرح میری بھی مارو گے نا۔۔۔ تو میں نے کہا جی میں ویسے ہی آپ کو چودوں گا ۔۔ یہ سُن کر وہ بولی ۔۔ میری جان میں تمھارے سامنے اپنی پھدی ننگی کرنے لگی ہوں ۔۔۔۔ اپنے موٹے لن سے اس کو پھاڑ دو۔۔۔ چیر دو۔۔۔ پھر دوبارہ اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر بولی ۔۔۔۔۔ چیرپھاڑ کرو گے نا میری پھدی کی ۔۔۔ اور پھر بنا کہے اس نے اپنی شلوار نیچے کی اور اپنے دونوں ہاتھ اسی صوفے کے بازو ٹکا دیۓ اور مُڑ کر میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔۔۔ میری پھدی سلطانہ سے زیادہ تنگ اور چھوٹی ہے ۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے لن اس کی چوت کی طرف کیا ۔۔۔۔اور ۔۔۔ اپنا ٹوپا ۔۔۔ رکھا ہی تھا کہ اچانک باہر سے بڑے ملک صاحب کی گاڑی کی ایک زنردست چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ رکی ۔۔۔۔ ایسے جیسے کسی نے زبردستی بریک لگائ ہو اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک دھماکے سے سے گاڑی کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائ دی ۔۔ ۔۔۔ یہ آواز سُن کر بھابھی ایک فٹ زمین سے اچھلی اور بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا ۔۔۔ ہاۓ میں مر گئ ۔۔۔۔۔۔ اب کیا ہو گا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے جلدی سے اپنی شلوار اوپر کی اور ۔۔۔ گھبراۓ ہوۓ لہجے میں بولی ۔۔۔۔ کسی نے مخبری کر دی ہے ۔۔۔ آج تو یہ ہم دونوں کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔ اس کے بعد ان کا مین گیٹ ایک زوردار آواز سے کھلا اور بڑے ملک صاحب اندر داخل ہو گۓ اور پھر عین ڈرائینگ روم کے دروازے کے پاس ان کی بڑی ہی سخت ، کرخت اور گرجدار آواز سنائ دی ۔۔۔ بہو۔۔۔۔ !!!!یہ سُنتے ہی بہو کو تو پتہ نہیں کیا حال ہوا پر میرے ٹٹے ہوائ ہو گۓ اور میں بیدِ مجنوں کی طرح تھر تھر کانپنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ ڈر گھبراہٹ اور خوف کی وجہ سے میرا بلڈ پریشر ایک دم لو ہو گیا اور میرے آنکھون کے گرد اندھیرا چھانے لگا ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ملک صاحب کے قدموں کی چاپ عین ڈرائینگ روم کے پردے کے پاس آ کر رُک گئ اور وہ تقریباً چیختے ہوۓ اپنی اسی مخصوص گرجدار۔۔۔۔۔ سخت اور کرخت آواز سے بولے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ بہو ۔۔۔
 !!!!!!!!!!!!
اور پھر میری ںظر بھابھی پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ ان کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا یہ دیکھتے ہی میں نے فوراً چھلانگ لگائ اور ان کے وکٹورین سٹائل تھری سیٹر صوفے کے پیچھے جا چھپا ۔۔۔۔ اور وہاں سے سر نکال کر بھابھی کو دیکھنے لگا جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ ملک صاحب کی آمد سے کچھ سکینڈ تک تو وہ از حد پریشان ہوئ تھی اور خاص کر ملک صآحب کی پہلی آواز سن کر تو بھابھی کا رنگ اُڑ گیا تھا لیکن جیسے ہی ملک صاحب نے دوسری آواز لگائ ۔۔۔۔۔۔ حیرت انگیز طور پر بھابھی نے خود کو سنبھال لیا اور پھر فوراً ہی وہ نرم لیکن تھوڑا کرخت لہجے میں بولی ۔۔۔ آئ ابا جی ۔۔۔۔ کیا ہوا کیوں شور مچا رہے ہو آپ ؟ (اس انداز سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ملک صاحب کی بڑی لاڈلی بہو ہو گی) ۔۔ بھابھی کی آواز سُن کر ملک سیدھے ڈرائینگ روم میں ہی آ گ
ۓ اور اس سے کہنے لگے ۔۔۔ ارے تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟؟ تو بھابھی نے جواب دیا ۔۔۔۔۔ وہ ابا ۔۔۔ آج کام والی کی چھٹی تھی نا اس لیے میں نے سوچا کہ زرا جلدی سے خود ہی صفائ کر لوں ۔۔۔ پھر ہانڈی روٹی کا ٹائم ہو جاۓ گا ۔۔۔۔۔ یہ سُن کر ملک صاحب کی قدرے شفقت بھری آواز سنائ دی کہ سارے کام خود ہی نہ کیا کر پُتر ۔۔۔۔ کچھ اس ہڈ حرام (سلطانہ) کو بھی کرنے کو کہا کر ۔۔۔ تو بھابھی ہنس کر بولی ابا جی ایک دفعہ اپنے گھر چلی جاۓ ۔۔ سسرال والے خود ہی اس سے سارے کام لے لیں گے اور پھر ملک صاحب سے کہنے لگی آپ واپس کیوں آۓ ہیں ؟ تو وہ کہنے لگے پُتر ۔۔ میرے ٹیکس کی فائل گھر رہ گئ تھی اور آج ٹیکس جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے سو وہ لینے آیا ہوں پھر بھابھی سے بولے بہو رانی جلدی سے جا کر ہمارے کمرے سے وہ فائل لے آو اور ہاں آتے وقت روح افزاء بھی ساتھ لیتی آنا کہ آج گرمی بہت تیز ہے اور جاتے جاتے پنکھا بھی چلاتی جاؤ ۔۔۔ میں تمھارا یہیں بیٹھ کر انتظار کرتا ہوں ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ملک صاحب میرے سامنے والے سنگل سیٹر صوفے پر بیٹھ گۓ اور ۔۔۔ ان کے بلکل سامنے ٹرپل سیٹر صوفے کے پیچھے میں چھپا ہوا تھا اور دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ ملک صاحب کہیں اُٹھ کر ٹہلنے نہ لگ جائیں ایسی صورت میں میں میرا پکڑا جانا لازمی تھا کہ اس تھری سیٹر صوفے کی اونچائ اتنی زیادہ نہ تھی جبکہ ملک صاحب خاصے لحیم شحیم واقعہ ہوۓ تھے ۔۔۔۔ پتہ نہیں وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب میں نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ ملک صاحب کہیں اُٹھ کر ٹہلنا نہ شروع ہو جائیں ۔۔۔ اور میری بد قسمتی دیکھو عین اس ٹائم وہ سچ مُچ اُٹھ کر ٹہلنا شروع ہو گۓ۔۔۔۔ ان کو ٹہلتا دیکھ کر میری تو بُنڈ بند ہو گئ ۔۔۔۔۔۔۔ ٹہلتے ٹہلتے ان کے قدم جب میری طرف آتے تو مارے ڈر کے میری گانڈ پھٹ کر گلے گلے تک آ جاتی اور جب وہ واپس جاتے تو میں سُکھ کا سانس لیتا ان کی یہ ٹہلائ بمشکل 1یک دو منٹ جاری رہی لیکن مجھے یہ دو تین منٹ دو صدیوں کے برابر لگے ۔۔ان کی اس ایکسر سائز نے تو میری جان ہی نکال دی تھی ۔۔۔۔ کیونکہ میں اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اگر میں پکڑا گیا تو مجھے بچانے والا کوئ نہ ہو گا اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ ملک صاحب کی پہنچ بڑی اوپر تک تھی علاقے کا ایس ایچ او۔۔۔۔ اور ڈی ایس پی وغیرہ عموماً ملک صاحب کے گھر آتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے خود کو ایک موٹی سی گالی دی اور کہا کہ سالے اچھی بھلی یاسر کی امی دے رہی تھی پھر تم کیوں اس بھابھی کے چکر میں پڑ گۓ ۔۔۔ مارنی تو پھدی تھی نہ ۔۔ چاہے وہ بھابھی کی ہو یا یاسر کی امی کی ۔۔ یہی سوچ کر میں خود کو کوسنے دے رہا تھا کہ اچانک وہ ملک حرامزادہ میرے اس قدر قریب آ کر کھڑا ہو گیا کہ میری تو روح ہی فنا ہو گئ ۔۔۔ اور میرے آٹو میٹکلی دانت بجنے لگے جن کو میں نے جلدی سے منہ پر ہاتھ رکھ کر اور بڑی مشکل سے بجنے سے روکا ۔۔۔ دوستو ۔۔۔۔ آپ یقین نہیں کریں گے لیکن سچ یہ ہے کہ آج بھی جب میں اس صورتِ حال کو لکھ رہا ہوں تو میں اپنا وہ ڈر اور خوف جو اس وقت مجھ پر طاری تھا عین اس طرح نہیں لکھ پا رہا یقین کریں اب تو وہ وقت گزر گیا ہے پر ابھی بھی لکھتے ہوۓ میں پسینے پسینے ہو گیا ہوں وجہ یہ تھی کہ ہم لوگ محلے کی سب سے کمزور پارٹی تھے یوں سمج لیں کہ غریب کی جُورو سب کی بھابھی والا معملہ تھا ۔۔۔ اسی لیۓ وہ ماڑا بندہ سمجھ کر محلے والے ہر تقریب میں مجھ سے ہی کام کرواتے تھے اور میں وہ کام کچھ اس لیۓ بھی خوشی خوشی کرتا تھا کہ ۔۔۔۔ اس بہانے کوئ نہ کوئ چوت مل ہی جاتی تھی ۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ملک صاحب میرے اتنے قریب آ کر کھڑا ہو گیا کہ قریب تھا کہ میں ڈر کے مارے فوت ہو جاتا عین اسی لمحے بھابھی کی آواز سنائ دی ۔۔۔۔ ابا جی آپ کی فائل یہی ہے ؟ اور میری گڈ لک کہ ملک صاحب فوراً گھوم گۓ اور میرے خیال میں بھابھی کے ہاتھ میں پکڑی فائل دیکھ کر بولے ہاں یہی ہے اور پھر ساتھ ہی بھابھی کی آواز سنائ دی بیٹھ کے پانی پی لیں اور کچھ دیر بعد مجھے ملک صاحب کی آواز سنائ دی شکریہ پُتر ۔۔ اب میں جا رہا ہوں تم دروازکو اندر سے بند کر لو۔۔۔۔۔ ملک صاحب کی یہ بات سُنتے ہی میری جان میں جان آئ اور پھر کچھ ہی دیر بعد ملک صاحب کی موٹر کا دروازہ بند اور گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز سنائ دی ۔۔۔۔ وہ چلے گۓ لیکن اس کے باوجود میرے پاؤں کا کانپنا نہیں بند ہو رہا تھا یہاں تک کہ بھابھی کمرے میں آ گئ اور مجھے صوفے سے باہر نکالا اور میری حالت دیکھ کر کافی محفوظ ہوئ اور پھر کہنے لگی ۔۔ ابا جی چلے گۓ ہیں اب ہم آذاد ہیں آؤ پیار کریں ۔۔ لیکن میری تو گھگھی بندھی ہوئ تھی اور پھر وہ مجھے مسلسل کانپتا دیکھ کر وہ خاصی پریشان ہوئ اور کہنے لگی ۔۔۔ اوۓ میں عورت ہو کر اتنا نہیں ڈری جتنا تم مرد ہو کر ڈر رہے ہو ۔۔۔۔۔ پھر بولی ۔۔۔ خیری صلا ہے ۔۔۔ ملک صاحب کام پہ چلے گۓ ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن مجھ پر اپنی کسی بھی بات کا کوئ اثر نہ دیکھ کر وہ ایک دم غصے میں آ گئ اور بولی ۔۔۔۔ لن تو تمھارا اتنا بڑا ہے اور دل اتنا سا ؟ حوصلہ پھڑ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پر پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ کہ میں حوصلہ نہیں پھڑ رہا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ مزید غصے میں آ گئ اور اس نے جا کر ڈرائینگ روم کا دروازہ کھول کر ایک نظر باہر دیکھا اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بڑے غصے میں بولی ۔۔۔۔ اگر تم ایک منٹ میں یہاں سے دفعہ نہ ہوۓ نا تو میں شور مچا دوں گی ۔۔۔۔ بھاگ جا یہاں سے بزدل کہیں کا بہن چود ۔۔۔۔ حرامزادہ ۔۔ کُتا ۔۔۔۔ اور میں جپ جاپ ان کے گھر سے باہر آ گیا اور پھر گرتا پڑتا گھر جا کر بستر پر لیٹاگیا اور پھر اسکے بعد مجھے کوئ ہوش نہ رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کون سا ٹائم تھا کہ میری آنکھ کھلی دیکھا تو یاسر کی امی مجھ پر جھکی ہوئیں تھیں اور ان کے ایک ہاتھ میں ایک گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں شاید کوئ دوائ وغیرہ پکڑی ہوئ تھی ۔۔۔ جیسے ہی مجھے ہوش آیا وہ کسی سے مخاطب ہو کر کہنے لگی ۔۔۔۔ شکر ہے خالہ جان کہ ۔۔۔ آپ کے بیٹے کو ہوش آ گیا ہے ۔۔۔ تو میں نے آنکھیں کھول کر حیرانی سے ان کو دیکھا اور بولا مجھے کیا ہوا تھا ؟۔۔۔۔ تو اس سے قبل کہ وہ کوئ جواب دیتی میں نے امی کی آواز سُنی وہ کہہ رہی تھیں کہ بیٹا تم آٹھ دس گھنٹے کے بعد ہوش میں آۓ ہو اور پھر جیسے ہی میں نے اُٹھنے کی کوشش کی تو وہ بولیں لیٹا رہ لیٹا بیٹا تم کو شدید بخار ہو رہا ہے ۔۔۔ تو میں نے حیرانی سے کہا کہ مجھے اور بخار لیکن کیوں ؟ پر بھی تو میں ٹھیک ٹھاک تھا ۔۔۔۔ پھر میں نے یاسر کی امی کی طرف دیکھ کر کہا کہ ۔۔۔۔ میڈم جی مجھے کیا ہوا ہے ؟؟؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ شاہ جی آپ اس وقت شیدید بخار میں مبتلا ہیں ۔۔۔۔ پھر انہوں نے اُلٹا مجھ سے پوچھا ۔۔۔۔ تم نے ایسا کیا کھایا یا کونسا ایسا کام کیا ہے کہ جس سے تم کو انتا سخت بُخار ہو گیا ہے ؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ میرے دماغ کی سکرین پر صبح کی ساری فلم چل گئ کہ کیسے میں بھابھی کے گھر گیا تھا اور کیسے ملک صاحب ۔۔۔۔ یہ خیال آتے ہی مجھے ایک جُھرجُھری سی آ گئ ۔۔۔ یہ دیکھ کر یاسر کی امی بولی ۔۔۔۔ خالہ ایک گلاس دودھ اور لے آؤ کہ اسے ابھی کافی کمزوری ہو رہی ہے دیکھ لیں ابھی بھی بخار سے کانپ رہا ہے یہ سُن کر امی کچن کی طرف چلی گئ جبکہ یاسر کی امی نے مجھے گولی کھلائ اور میں نے ان کا شکریہ ادا کر کے پوچھا کہ آپ کب آئیں۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ یار ایک تو تم نے بڑا ستایا ہے ۔۔۔ تم کو پتہ ہے کہ جیسے ہی یاسر لوگ مری گۓ تو میں تمھارا انتظار کرتی رہی کرتی رہی ۔۔۔ لیکن جب میرے انتظار کی حد ہو گئ تو میں نے فرح کو ساتھ لیا اور تمھارے گھر آ گئ یہاں آ کر پتہ چلا کہ لاٹ صاحب تو صبع سے ہی بخار میں پھونک رہے ہیں ۔۔۔ سو تمھاری امی سے اجازت لیکر میں نے ہمارے جاننے والے ڈاکٹر ہیں جو مکھا سنکھ اسٹیٹ میں کلینک کرتے ہیں کو سپیشل درخوست پر بُلایا ۔۔۔ پھر بولی تم انہیں اچھی طرح جانتے ہو وہ یار علی کلینک والے حیدر صاحب چانچہ انہوں نے آکر تم کو دیکھا اور ٹیکا شیکا لگایا ۔۔۔۔ اور مجھے ماتھا پر پٹیاں کرنے کو کہا ۔۔۔ سو صبح سے اب تک میں تمھارے پاس ہی ہوں اب جبکہ تم کو ہوش آ گیا ہے تو میں چلتی ہوں تومیں نے کہا ۔۔ میڈم وہ پروگرام ؟؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگی کمال ہے تم کو اتنے شدید بخار میں بھی پروگرام کی پڑی ہے تو میں نے کہا پھر پتہ نہیں موقعہ ملے نہ ملے ۔۔۔۔ تھوڑا سا ٹائم ہے ۔۔۔ ویسے بھی وہ لوگ شام کو آ جائں گے یہ سُن کر یاسر کی امی تھوڑا مُسکُرائ اور کہنے لگی ۔۔۔۔۔ خوش ہو جاؤ کہ وہ آج شام کی بجاۓ کل دوپہر تک واپس آئیں گے پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔ وہ اصل میں مری میں نا مایا کے فادر کے کسی نے پیسے دینے تھے اور آج کا وعدہ تھا لیکن کسی وجہ سے وہ یہ پیسے کل دے گا اور وہ لوگ پیسے لیکر کل دوپہر کو ہی پہنچیں گے ۔۔۔۔ اتنے میں امی دودھ کا گلاس لے آئیں اور یاسر کی امی نے ان کے ہاتھ سے وہ گلاس پکڑا اور مجھے اپنے ہاتھوں سے پلانے لگی ۔۔ یہ دیکھ کر امی جان اس سے بڑی متاثر ہوئ اور مجھ سے بولیں بیٹا ان کا شکریہ ادا کرو کہ انہوں نے تمھارے لیۓ بڑی بھاگ دوڑ کی ہے تمھارے لیۓ انہوں نے ڈاکٹر کو بھی بلایا تھا ۔۔۔۔ امی کی بات سُن کر میں یاسر کی امی کا شکریہ ادا کرنے لگا تو وہ بولی کوئ بات نہیں تم بھی تو بڑی محنت سے میرے بیٹے کو پڑھاتے ہو پھر امی کو مخاطب کر کے بولیں اچھا خالہ جان میں چلتی ہوں اسے دوائ وغیرہ کھلا دی ہے اب پھر شام کو ڈاکٹر کے پاس جانا ہو گا اپ ایسا کیجیۓ گا کہ اسے چھ ساتھ بجے ہمارے گھر پیج دینا میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گی اس کی بات سُن کر میں بولا بہت شکریہ لیکن اب میں ٹھیک ہوں یہ سُن کر اس نے میری طرف غصے سے دیکھا اور پھر امی سے نظر بچا کر مجھے آنکھ ماری اور بولی ۔۔۔ خاک ٹھیک ہو ابھی ابھی تو کانپ رہے تھے میں ان کا مطلب سمجھ کر بولا اوکے جی میں شام سات بجے آپ کے پاس پہنچ جاؤں گا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے امی سے اجازت لی اور اپنے گھر چلی گئ ۔۔ ٹھیک سات بجے کا ٹائم تھا جب میں نے یاسر لوگوں کے گھر کی گھنٹی بجائ تو جواب میں میڈم نے دروازہ کھولا اور مجھے اندر آنے کو کہا اور جیسے ہی میں اندر داخل ہوا وہ مجھ چمٹ گئ اور میرے گالوں کو چُوم کر بولی ۔۔۔۔ ظالم کے بچے آج تم نے بڑا انتظار کروایا پھر میں نے بھی اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیۓ اور ہم نے کسنگ سٹارٹ کر دی کافی دیر تک میں ان کے نرم ہونٹوں کو چوستا رہا پھر انہوں نے خود کو مجھ سے چھُڑایا اور بولی چلو اندر چلتے ہیں اور ہم باہنوں میں باہیں ڈالے اندر ان کے ڈرائینگ روم میں آ گۓ یہاں آ کر انہوں نے مجھے صوفے پر بیھٹنے کو کہا اور میری نبض پر ہاتھ رکھ کر بولی اب طبعیت کیسی ہے تمھاری ؟ بھر خود ہی کہنے لگی بخار تو اترا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ میں نے جھٹ سے جواب دیا لیکن سکیس بخار بُری طرح چڑھا ہوا ہے اس سے قبل کہ وہ کچھ بولتی اس کے گھر کی گھنٹی ایک بار اور بجی اور وہ ۔۔ بات ادھوری چھوڑ کے باہر چلی گئ واپس آئ تو اس کے ساتھ ان کی بیسٹ فرنیڈ و ہمراز و ہمدم فرح آنٹی تھی وہ بھی سیدھی میرے پاس آئ اور بولی ۔۔۔ اب تمھاری طبعیت کیسی ہے ؟ تو میں کہا ایک دم فسٹ کلاس ہے ۔۔ پھر فرح آنٹی یاسر کی امی سے مخاطب ہو کر ذُومعنی الفاظ میں بولی منڈا اب ٹھیک ہو گیا ہے ان کی بات سُن کر یاسر کی امی کہنے لگی مجھے پتہ ہے تُو یہ بتا ۔۔۔۔۔۔ وہ لائ ہو؟ ۔۔۔ یہ سُن کر فرح آنٹی بولی ۔۔ ۔۔۔ اوہ ۔۔۔۔۔ سوری ۔۔۔۔ ۔۔۔ یہ تو میں بھول ہی گئ تھی اور پھر انہوں نے اپنے پرس سے دو کیپسول نما گولیاں جس میں ایک کا رنگ پنک ااور دوسری سبز تھی نکالیں اور ان سے کہنے لگی انہیں نیم گرم دودھ سے دینا ۔۔۔ یاسر کی امی نے ان کے ہاتھ سے کیپسول نما گولیاں لیں اور کچن کی طرف چلی گئ اور فرح آنٹی میرے سامنے بیٹھ گئ اور میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی کچھ ہی دیر بعد یاسر کی امی ایک جگ میں کافی سارا دودھ اور ایک گلاس ٹرے میں رکھ کر لے آئ اور پھر بڑے پیار سے جگ میں سے ایک گلاس دودھ بھرا اور پھر مجھے پنک رنگ کی گولی دیکر کر بولی اسے کھا لو ۔۔۔۔۔ میں نے فوراً ہی ان کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس لیا اور وہ گولی نگل لی ۔۔۔۔۔ پھر کچھ وقفے کے بعد انہوں نے سبز گولی میرے ہاتھ میں پکڑائ پھر اسی طرح جگ سے گلاس میں دودھ بھرا اور بولی یہ بھی کھا لو ۔۔۔ اور میں نے وہ گولی بھی نگل لی ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ فرح آنٹی سے گپ شپ بھی کر رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ کہ اسی اثنا میں ان کے فون کی گھنٹی بجی ۔۔۔۔ یاسر کی امی ایک منٹ کہہ کر فوراً ساتھ والے کمرے میں چلی گئ جو کہ یاسر کی امی کا کمرہ تھا اور یہیں ان کا فون بھی پڑا ہوتا تھا۔۔۔۔۔ پھر چند ہی سکینڈ کے بعد وہ واپس آئ تو ان کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا کمرے میں داخل ہوتے ہی فرح آنٹی نے ان سے پوچھا کہ کس کا فون تھا تو وہ خوشی سے بولی یاسر کے ابو کا سعودی عرب سے فون ہے اس پر فرح آنٹی ہنس کر بولی تمھارا چہرہ بتا رہا ہے کہ بھائ صاحب نے لمبا سا ڈرافٹ بھیجا ہے۔۔ اس کی بات سُن کر یاسر کہ امی مُسکرائ اور کہنے لگی کچھ ایسی ہی بات ہے اور پھر فرح آنٹی سے کہنے لگی ابھی تم نے جانا نہیں میں فون سُن کر ابھی آئ ۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ اپنے کمرے میں چلی گئ۔۔۔۔ جیسے ہی یاسر کی امی اندر گئ فرح آنٹی جو میرے سامنے بیٹھی تھیں اُٹھ کر میرے پاس آ گئ اور آتے ہی میری نبض پر ہاتھ رکھ کر بولی ۔۔۔ بخار تو نہیں ہے پر تم ہلکے ہلکے گرم لگ رہے ہو پھر خود ہی ہنس پڑی اور بولی کیوں میں غلط تو نہیں کہہ رہی نا۔۔؟ تو میں نے ان کا سوال نظر انداز کر کے ان سے پوچھا آنٹی جی یہ جو آپ نے گولیاں دیں تھیں یہ کس چیز کی تھیں ؟ تو وہ ہنس کر بڑی بے تکلفی سے بولی ۔۔۔۔ میرے چاند !! ۔۔ ان میں سے ایک طاقت کی تھی اور دوسری ٹائمننگ کے لیۓ ۔۔۔۔۔ تو میں نے تھوڑا حیران ہو کر ان سے پوچھا وہ کیوں تو وہ کہنے لگی وہ اس لیۓ کہ تمھاری میڈم کا خیال ہے کہ وہ اتنے عرصے کے بعد ۔۔۔۔۔ کر رہی ہیں تو ایسا نہ ہو کہ تم جلدی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولی تم میرا مطلب سمجھ رہے ہو نا ۔۔۔۔ تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔ پھر وہ مجھ سے بولی ۔۔۔۔۔ سچ مُچ تم نے ابھی اتک اس کے ساتھ ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ والا کام نہیں کیا ؟؟ تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اچانک میرے دماغ میں ایک چھناکا ہوا اور مجھے یاد آ گیا کہ ملک صاحب کے بیٹے کی شادی سے واپسی پر ایک تو انہوں نے نہ صرف میرا اور میڈم کا سارا سکیس سین دیکھا/سُنا تھا بلکہ یاد آیا کہ کوچ سے اترتے وقت انہوں نے اپنی گانڈ بھی میرے لن کے ساتھ خوب رگڑی تھی اب پتہ نہیں یہ اتفاق تھا یا کہ سوچی سمجھی سازش کہ یاسر کی امی فون سننے کے بہانے دوسرے کمرے میں چلی گئ تھی اور یہ میرے پاس بیٹھی تھی۔۔ میں نے کچھ دیر اس صورتِ حال پر غور کیا اور پھر میرے اندر فرح آنٹی کے لیۓ ہوس کی آگ بھڑک اُٹھی ۔۔۔ اور لن نے چپکے سے میرے کان میں کہا۔۔۔ کیا حرج ہے یار کہ اگر آج کے دن ایک کی بجاۓ 2، 2 چوتیں مل جائیں کہ ٹائمنگ کی گولی تم آل ریڈی کھا ہی چکے ہو اور میں نے لن کی بات بڑے دھیان سے سنی ۔۔۔۔۔ اور اب میں دوسرے اینگل سے فرح آنٹی کو دیکھنے لگا وہ بھی میری ہی طرف دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ اپنے ہونٹ بھی کاٹ رہی تھی پھر وہ کہنے لگی لیکن تمھاری اور اس کی دوستی کو تو کافی عرصہ ہو گیا ہے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔ حیرت ہے ؟ پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولی تمہیں اس میں سب سے اچھی چیز کیا لگی ہے ؟ تو میں نے کہا آنٹی یہ پوچھیں کیا چیز اچھی نہیں ہے یہ تو انتہائ کیوٹ اور سٹائلش لیڈی ہیں تو وہ کہنے لگی یہ تو ٹھیک ہے پر پھر بھی کوئ ایک خاص چیز جو تم کو زیادہ اچھی لگی ہو تو میں نے جھٹ سے کہہ دیا ان کی بیک یعنی کہ ہپس ۔۔ ۔

تو وہ ہنس کر بولی بیک تو میری اس سے زیادہ بڑی ہے ۔۔ تو میں نے کہا جی میں نےٹیسٹ کی ہوئ ہے تو وہ ایک دم حیران ہو کر بولی کب ؟ تو میں نے کہا یاد کریں ملکوں کی شادی پر کوچ سے اترتے ہوۓ آپ کی ۔۔۔۔ بیک کی دراڑ میں میں نے اپنا ۔۔۔۔۔ پھنسایا تھا ۔۔۔۔ میری بات سُن کر اس کا منہ ایک دم لال ہو گیا اور وہ بولی ۔۔۔ ہاں ہاں یاد آیا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر نیچے دیکھنے لگی ۔۔۔ اب میں اُٹھ کر ان کے بلکل قریب ہو گیا اور ان کی تھوڑی کو پکڑ کر ان کا منہ اوپر کیا اور ۔۔۔۔ بڑے ہی رومنٹک انداز میں بولا ۔۔۔۔آنٹی جی آپ کی ہپ ۔۔۔۔واقعہ ہی بڑی نرم اور گوشت سے بھر پور ہے اور اپنا منہ ان کے منہ کے قریب لے گیا ۔۔۔ میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں کے قریب آتے دیکھ کر وہ تھوڑا گھبرا کر بولی ۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو دیکھو وہ کسی بھی وقت واپس آ سکتی ہے ۔۔۔۔۔ یہ کام تم پھر کسی اور وقت کر لینا ۔۔ پلیز ۔۔۔۔ تو میں نے کہا آنٹی بس ایک چھوٹی سی کس ہی دے دیں تو وہ بولی ۔۔ بس ایک کس ۔۔۔۔۔ اوکے۔۔۔۔ تو میں نے کہا۔۔۔ اوکے آنٹی ۔۔۔ اور انہوں نے اپنا منہ میرے آگے کر دیا اور ہونٹ ڈھیلے چھوڑ دیۓ ۔۔ اب میں نے ان کے لبوں کو اپنے لبوں میں لیا اور ان کو چوسنے لگا اس کے ساتھ ہی میں نے فرح آنٹی کا ہاتھ اپنے لن پر رکھ دیا اور انہوں نے اسے پکڑ لیا ۔۔ لیکن ساتھ ہی اپنا منہ بھی میرے منہ سے ہٹا دیا ۔۔۔ اور بولی دیکھو کوئ بھی خاتون اپنے بواۓ فرینڈ کو اور خاص کر تم جیسے فنٹاسٹک لڑکے کو کسی دوسرے کے ساتھ نہ دیکھ سکتی ہے اور نہ ہی شیئر کر سکتی ہے ۔۔۔۔ اس لیۓ پلیز احتیاط ۔۔۔۔ اور پھر وہ تھوڑی دیر تک میرا لن مسلتی رہی پھر اسے بھی چھوڑ دیا۔۔ یہ دیکھ کر میں نے فوراً پینٹ سے لن باہر نکالا اور ان سے کہا پلیز تھوڑا سا چوسیں ناں ۔۔۔۔ انہوں نے ایک نظر میرے لن پرڈالی اور دوسری باہر والے دروازے پر ڈال کر بولی ۔۔۔ تم مرواؤ گے اور پھر اُٹھ کر یاسر کی امی کے کمرے میں چلی گئ ۔۔۔ اور فوراً ہی واپس آ گئ اور بولی کمرے میں بڑا ہاٹ سین چل رہا ہے تو میں نے پوچھا کیا ہو رہا ہے ؟ تو وہ کہنے لگی فون سیکس ہو رہا ہے اور پھر جلدی سے میرے ننگے لن کو اپنے منہ میں لے لیا اور تھوڑی دیر تک اچھی طرح چوسا پھر بولی میں نے اس کو بتا دیا ہے کہ میں گھر جا رہی ہوں اور اس نے تمہیں پیغام بھیجا ہے کہ تم دروازے کو کُنڈی لگا لو ۔۔۔۔۔۔ یہ سُن کر میں آنٹی کے ساتھ چل پڑا ۔۔۔۔ اور دروازے کے پاس جا کر ایک دفعہ پھر میں نے ان کو پیچھے سے پکڑ لیا ان کی نرم گانڈ پر لن کو گھسانے لگا ۔۔۔۔ آنٹی نے ایک نظر پیچھے مُڑ کر میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف تمھارا یہ موٹا ڈنڈا مجھے بڑی بُری طرح سے چُب رہا ہے ۔۔۔۔ تو میں نے کہا آنٹی لن تو پینٹ میں جکڑا ہوا ہے یہ آپ کو کیسے چُب سکتا ہے تو وہ میری طرف نشیلی نظروں سے دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ چُب رہا ہے اور بڑا سخت چُب رہا ہے ۔۔۔ میں آنٹی کی نظروں کا مطلب سمجھ گیا اور ان کو کہا کہ یہ ۔۔۔ نہیں چُبے گا اگر آپ اس کو اپنی ۔۔۔۔۔ اس میں سما لیں تو۔۔۔۔۔۔ وہ بولی ۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں اس کو سارے کا سارا اپنے اندر سمانے کے لیۓ تیار ہوں ۔۔۔۔۔۔ پر پلیز تھوڑا اوٹ میں ہو جاؤ اور ہم یاسر لوگوں کے مین دروازے سے ہٹ کر ایک پلر کی اوٹ میں ہو گۓ آنٹی نے پلر کے پاس جا کر اس پر دونوں ہاتھ رکھ دیۓ اور اپنی گانڈ باہر نکال کر میری طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ اب میں ان کے پیچھے گیا اور ان کی شلوار اتار کر ان سے بولا آنٹی تھوڑی ٹانگیں اور کھولیں اور انہوں نے کافی حد تک اپنی ٹانگین کھول دیں اب میں ان کے پیچھے گیا اور ان کی شلوار کو نیچے کر کے ان کی ننگی اور نرم گانڈ کو دبانے لگا پھر میں جیسے ہی اپنے لن پر تھوک لگانے لگا تو وہ بولی لاؤ اسے میں گیلا کر دوں پھر وہ گھومی اور اکڑوں بیٹھ کر میرے لن کو اپنے منہ میں لے لیا اور پھر اس کو اچھی طرح چوسنے لگیں ۔۔ پھر اسکے بعد لن کے چاروں طرف تھوک لگا کر اُٹھ گئ اور بولی ۔۔۔۔ تمھارا لن بڑا ٹیسٹی ہے۔۔۔ کبھی فرصت میں اسے خوب چوسوں گی ۔۔۔۔ یہ کہا اور پھر سے پلر پر ہاتھ رکھ کر اپنی ٹانگیں کھول کر ریڈی ہو گئ اب میں ان کے پیچھے آیا تو انہوں نے ایک نظر مُڑ کر میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔ میری چوت کو اپنی زبان کا ذائقہ نہیں چکھاؤ گے ؟؟ ۔۔۔۔۔۔ ان کی فرمائیش سُن کر میں بھی اکڑوں بیٹھ گیا اور ان کی چوت کو دونوں انگلیوں کی مدد سے آکری حد تک کھولا اور پھر اس میں اپنی زبان داخل کر دی ۔۔۔۔ ان کی چوت کافی گرم اور لیس دار تھی۔۔۔ مزہ اچھا اور چوت کی بُو بڑی مست تھی ۔۔۔ سو کچھ دیر تک میں ان کی چوت میں اپنی زبان چلاتا رہا ۔۔۔۔ پھر میں ان کو بتاۓ بغیر اُٹھا اور لن پر تھوڑا تھوک لگا کر ان کے اندر داخل کر دیا ۔۔۔۔۔۔ اور ہلکے ہلکے گھسے مارنے لگا اور وہ بھی سیکسی انداز میں آہستہ آہستہ کراہنے لگی ۔ پھر میں نے کچھ گھسے مارنے کے بعد لن ان کی چوت سے باہر نکالنا چاہا تو انہوں نے پیچھے مُڑ کر میری طرف دیکھا اور بولی کیا کرنے لگے ہو؟ تو میں نے کہا ٹائم کم ہے اس لیۓ لن باہر نکالنے لگا ہوں تو وہ التجائیہ انداز میں بولی تم نے کون سا چھوٹنا ہے ۔۔۔۔ بس دو چار ہی زور دار گھسے اور مارو گے ۔۔۔ تو میرا کام ہو جاۓ گا میری بس نکلنے ہی والی ہوں ۔۔۔۔ سو میں نے لن باہر نکالنے کا پروگرام ملتوی کر دیا اور دوبارہ ہلکے مگر تیز تیز گھسے مارنے لگا ۔۔ پھر چند ہی گھسوں کے بعد آنٹی مزید پُر جوش ہو گئ اور خود ہی پیچھے کی طرف گھسے مارنے لگی اور میں سمجھ گیا کہ وہ اب چھوٹنے والی ہیں ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد انہوں نے گہرے گہرے سانس لینے شروع کر دیۓ اور۔۔۔ دھیمی مگر لزت آمیز سیکسیوں کی آوازیں نکالتے نکالتے اپنی پھدی میرے لن کے ساتھ جوڑ لی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان کی چوت نے ڈھیر سارا لیس دار پانی چھوڑ دیا چھوٹنے کے بعد وہ فوراً ہی پیچھے مُڑ گئیں اور پھر دوبارہ اکڑوں بیٹھ کر میرے لن کو جو ابھی ابھی ان کی چوت سے نکلا تھا کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دیکھنے لگی اور بولی ۔۔۔ کیا بات ہے تیرے شیر جوان کی ۔۔۔۔اس وقت میرا لن ان کی منی سے لِتھڑا ہوا تھا ۔۔ لیکن انہوں نے اس کا کوئ نوٹس نہ لیا اور میرا لن پکڑ کر دوبارہ اپنے منہ میں لے لیا اور اس پر لگی ساری لیس دار منی چاٹ کر صاف کر گئیں ۔۔۔ پھر وہ اُٹھیں اور اپنی شلوار اوپر کر کے بولی کنڈی لگا لو ۔۔۔ ۔جیسے ہی ہم دروازے کے پاس پہنچے تو انہون نے اپنے لپس میرے لپس پر رکھے اور آہستہ سے بولی جب اس کے پاس جاؤ گے نا تو ۔۔۔ اس سے پہلے اپنے لن کو اچھی طرح دھو لینا کہ تمھارا لن چوستے ہوۓ اسے میری چوت کی بو آۓ گی اور کافی سارا تھوک بھی تمھارے لن پر لگا ہوا ہے یہ بھی خظرناک ہو سکتا ہے ۔۔۔۔اور پھر دوبارہ کس کر کے بولی ۔۔۔۔ اب پھر کب کرو گے ؟؟ تو میں نے کہا جب آپ کہو تو وہ کہنے لگی اوکے میں بندوبست کر کے تم کو بتا دوں گی اور دوبارہ اپنا منہ میرے منہ کے ساتھ جوڑ دیا فرح آنٹی کے منہ سے تازہ منی کی بُو آ رہی تھی جو مجھے بڑی پسند تھی سو میں نے اپنی زبان آنٹی کے منہ میں ڈال دی اور اسے ان کے منہ میں گھمانے لگا کچھ منی جو ابھی تک ان کی زبان سے لگی رہ گئ تھی اس کو میں نے اچھی طرح چاٹا اور ان کی زبان کو خوب چوسا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد انہوں نے اپنا منہ ہٹایا اور مجھے ٹاٹا کر کے بولی اب کلی بھی کر لینا کہ تمھارے منہ سے بھی چوت کی مہک آۓ گی اور پھر وہ چلی گئ ۔۔۔ میں نے دروازہ بند کیا کُنڈی لگائ اور باتھ روم میں جا کر اچھی طرح سے لن کو دھویا اور کافی ساری کلیاں بھی کیں اور واپس آ کر یاسر کی امی کے کمرے میں چلا گیا۔۔
جیسے ہی میں ان کے کمرے کے اندر داخل ہوا تو انہوں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے چُپ رہنے کا اشارہ کیا اور اشارے سے ہی پوچھا کہ کیا آنٹی چلی گئ تو میں نے اشارے سے ہی ان کو بتلایا کہ وہ چلی گئ ہیں اور میں نے کنڈی بھی لگا دی ہے یہ سُن کر وہ مطمئین ہو گئ اور مجھے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا اور خود فون پر بڑی ہی سیکسی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔ ہاں نا ں میری جان آج اتنے دنوں کے بعد مین گھر میں اکیلی تم کو شدت سے مس کر رہی ہوں میرے خیال میں دوسری طرف سے ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیسے یاد کر رہی ہو تو وہ بولی میری جان کیسے یاد کرتے ہیں یہ بھی کوئ پوچھنے کی بات ہے پھر اپنی آواز کو مزید سیکسی بنا کر بولی ۔۔۔۔۔ میں اپنی پھدی کو مسل کر اپنے مموں کو دبا کر تم کو یاد کر رہی ہوں ۔۔۔ کاش تم یہاں ہوتے تو میں تمھارا لن پکڑ لیتی ۔۔۔ میرا خیال ہے دوسری طرف سے کہا گیا کہ اب بھی تصور کرو کہ تم نے میرا اکڑا ہوا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑا ہوا ہے تو انہوں نے مجھے اُٹھنے کا اشارہ کیا اور لن نکالنے کو کہا اور میں نے لن زپ سے باہر نکالا اور ان کے ہاتھ میں پکڑا دیا وہ اس کو اپنے ایک ہاتھ میں پکڑ کر بولی ۔۔۔ ہاں جان میں نے تمھارا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ہے ۔۔۔۔ اُف ۔۔۔ کتنا گرم ہے یہ لن ۔۔۔۔۔۔۔ میرا ہاتھ جل رہا ہے جان ۔۔۔۔ پھر پتہ نہیں وہاں سے کیا کہا گیا کہ وہ بولی ۔۔۔۔۔ ہاں ہلا رہی ہوں میں اس لن کو اور مزے لے رہی ہوں ۔۔۔۔ پھر بولی ۔۔۔۔۔۔ آہ ۔۔۔ مجھے بھی بڑا مزہ آ رہا ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں نے سچ مُچ تمھارا لن پکڑا ہوا ہو ۔۔ اور میرے لن کو دبانے لگی ۔۔۔ پھر ادھر سے کچھ کہا گیا تو وہ بولی ۔۔۔ اوکے ویٹ میں اپنی شلوار اتارتی ہوں اور پھر انہوں نے رسیور سائیڈ پر رکھا اور اپنی شلوار کے ساتھ ساتھ قمیض اور برا بھی اتار دی ۔۔۔۔۔۔ اور بلکل ننگی ہو گئیں اور اپنی ٹانگیں پھیلا کر بیڈ پر بیٹھ گئیں اور دوبارہ میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر رسیور منہ سے لگا کر سیکسی آواز میں بولی ۔۔ جان ۔۔۔۔ میں نے تمھارے لی
ۓ اپنی شلوار تو کیا قمیض بھی اتار دی ہے ۔۔۔ دیکھو نا میری ننگی پھدی کس قدر صاف ہے ۔۔۔ اور میرے نپلز تمھارے لن کا سنتے ہی اکڑ گۓ ہیں ۔۔۔ پھر دوسری طرف کی بات ۔۔۔۔ سُن کر بولی ۔۔۔۔ ہاں ہاں میں تمھاری زبان اپنی پھدی پر محسوس کر رہی ہوں آہ جان۔۔۔ کتنے مزے کی ہے ۔۔۔۔ اور ساتھ ہی انہوں نے میرا لن اپنے ہاتھ سے چھوڑا اور مجھے اپنی پھدی کی طرف اشارہ کیا اور میں ان کی بات سمجھ کر ان کی ٹانگوں کے درمیان آ گیا اور پھر میں نے اپنا منہ ان کی تپی ہوئ چوت پر رکھ دیا اور زبان نکال کر اسے چاٹنے لگا ۔۔۔۔ میری زبان کی پہلی ہی رگڑائ سے انہوں نے ایک بڑی ہی گرم سسکی لی اور بولی ۔۔۔ آہ ڈارلنگ تم ہیمشہ سے ہی بڑی اچھی چوت چاٹتے ہو۔۔۔ تمھاری رگڑائ سے میری چوت نے پانی چھوڑ دیا ہے اور ساتھ ہی ان کی چوت سے تھوڑا سا نمکین پانی باہر آیا جسے میں نے اپنے منہ مین لے لیا اور دوبارہ ان کی چوت چاٹنا شروع ہو گیا انہوں نے پھر سسکیاں لینا شروع کر دیں اور ساتھ ہی ایک ہاتھ سے میرے سر پر انگلیاں پھرنے لگی ۔۔۔۔۔ کچھ دیر تک وہ ایسے ہی اپنی پھدی چٹواتی رہی اور پھر دوسری طرف کی آواز سُن کر بولی ۔۔۔۔۔ ہاں ہاں ضرور جان ۔۔ تم جانتے ہی ہو کہ میں کس قدر تمھارے لن کی عاشق ہوں ۔۔۔ پھر کہنے لگی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمھارا لن ننگا ہو اور میرے منہ میں نا جاۓ ۔۔۔ لاؤ اپنا لن میرے منہ میں ڈالو اور ساتھ ہی مجھے اشارہ کر دیا اور میں نے ان کی پھدی سے اپنا منہ ہٹایا اور کھڑا ہو گیا اب انہوں نے میرے لن پر اپنی زبان پھری اور رسیور کے قریب منہ لے جا کر بولی ۔۔۔۔۔ میری جان میں ۔۔۔ تمھارے موٹے لن پر اپنی زبان پھیر رہی ہوں اورساتھ ہی زبان نکال کر میرے ٹوپے پر پھیرنا شروع ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ دوسری طرف کی آواز سں کر بولی ۔۔۔۔۔۔ ہاں نا میں قیامت کا لن چوستی ہوں ۔۔ یہ میرا لن ہے نا اسے میں جی بھر کر چوسوں گی ۔۔۔ اور پھر انہوں نے میرا لن منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگی اور کمرے میں لن چوسنے کی مخصوص آواز آنے لگی ۔۔۔ میرے خیال میں دوسری طرف سے بھی یہ بات نوٹ کی گئ تھی ۔۔ اور اس بارے میں میڈم کو کچھ کہا گیا۔۔۔۔۔۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد میں نے میڈم کی سیکس سے بھر پور آواز سنی وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔ جان میں اپنے انگھوٹھے کو تمھارا لن سمجھ کر چوس رہی ہوں اور اس کو میں نے بلکل اُسی طرح منہ میں لیا ہوا ہے جیسے تمھارے والا لیتی تھی ۔۔۔ اسکے بعد وہ بڑی ہی نشیلی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔ اُف ف۔ میری جان ۔۔۔ آہ ۔۔۔ تمھارا لن غضب ڈھا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری پھدی کو پہلے سے زیادہ گیلا کر رہا ہے ۔۔۔۔ آہ جان ۔۔۔ اب یہ لن میری چوت میں ڈالو نہ کہ اب مجھ سے بلکل بھی برداشت نہیں ہو پا رہا اور پھر وہ دوسری طرف کی آواز سن کر ۔۔۔ وہ ایک دم پلنگ پر لیٹ گئ اور اپنی چوت کی لکیر کو مسلتے ہوۓ مجھے اپنے اوپر آنے کو کہا اور ساتھ ہی اپنی ٹانگین کھول لیں ۔۔۔ اور جیسے ہی میں ان کی ٹانگوں کے درمیان گیا ۔۔۔ انہوں نے رسیور پر ہاتھ رکھا اور بولی ۔۔۔۔ تیز گھسے نہیں مارنے جسٹ اندر ڈالنا بے اور بے آواز طریقے سے لن کو میری چوت میں ان آؤٹ کرنا ہے چنانچہ میں نے اپنا ٹوپا ان کی پھدی پر فٹ کیا اور بڑے ہی آرام آرام سے لن کو ان کی چوت کے اندر کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔جیسے ہی لن فل ان کے اندر جا کر بچہ دانی سے ٹکریا وہ رویسور اپنے منہ کے قریب لے گئیں اور چیخ کر بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اف ف۔ جان تم نے میری پھدی پھاڑ دی ہے ۔۔۔ آہ ،،، مجھے بڑا مزہ آ رہا ہے ۔۔۔۔اور وہ کچھ دیر تک ایسے ہی سکسی ڈائیلاگ مارتی رہیں ۔۔۔۔۔ پھر اچانک انہوں نے چیختے ہوۓ کہا ۔۔۔۔ ہاں ہاں ۔،۔۔۔۔ نکال دے ساری منی میری چوت میں ۔۔۔۔ او ۔۔ او۔۔ جان میں یہاں سے تمھاری ساری منی اپنی چوت میں گرتی محسوس کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے چار پانچ مصنوعی سی سسکیاں لیں اور چیخیں ماریں اور اپنے خاوند کا نام لیکر بولی ۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔ جان میری چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی کچھ مصنوعی سی ہچکیاں لین اور سانس تیز چھڑھانے کی ایکٹنگ کی اور پھر دھیرے دھیرے شانت ہو گئیں اور پھر ریسور کو اوپر نیچے تین چار پپیاں دیتی ہوۓ بولیں ۔۔۔ کمال کر دیا تم نے ڈارلنگ ۔۔۔ حیرت انگیز طور پر تم نے آج پھر مجھے اور میری پھدی دونوں کو ٹھنڈا برف کر دیا ہے ۔۔۔۔ واہ میری جان ۔۔۔ یو آر گریٹ اور پھر کچھ دیر اور اس قسم کی سیکسی باتیں کر تھوڑا غنودگی بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔۔۔۔ آہ ۔۔ جان مجھے تمھارے لن کی خماری چڑھ گئ ہے اور میں سونے لگی ہوں اور پھر ۔۔۔ اس کے بعد کافی ساری نان سٹاب کسنگ کے بعد انہوں نے ریسور رکھ دیا ۔۔ ادھر جیسے ہی میں نے یہ سُنا کہ وہ ٹھنڈی ٹھار ہو گئ ہے میرے تو جیسے ارمانوں پر اوس پڑ گئ اور میں مایوس ہو کر سوچنے لگا کہ جب بھی اس میڈم کی پھدی مارنے کی باری آتی ہے پتہ نہیں کیوں کوئ نہ کوئ مس ہیپ ضرور ہو جاتا ہے ۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے یاسر کی امی کی طرف دیکھا اور پھر ان نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ میڈم فون سیکس کر کے کیا سچ مُچ آپ ٹھنڈی برٖف ہو گئ ہیں ۔۔۔ تو میری بات سُن کر انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور بولی ۔۔ اپنا ہاتھ ادھر لاؤ اور میں نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا تو انہوں نے میرے ہاتھ کو سیدھا اپنی چوت پر رکھ دیا اور بولی ۔۔۔۔ کیا خیال ہے یہ تم کو ٹھنڈی نظر آتی ہے ؟ وہ ٹھیک کہہ رہی تھیں کیونکہ ان کی چوت کافی گرم اور تپی ہوئ تھی میں نے ان کی چوت پر اچھی طرح ہاتھ لگا کر اسے چیک کیا اور بولا یہ تو سخت تپی ہوئ ہے یہ سُن کر وہ بولی توہ کہنے لگی اب اپنی ایک انگلی اس کے اندر ڈال کے دیکھو شاید میری چوت اندر سے کچھ ٹھنڈی ہو تو میں نے فوراً اپنی انگلی ان کی چوت میں داخل کر دی ۔۔۔ اف ان کی چوت باہر کی نسبت اندر سے سو گُنا زیادہ گرم تھی ۔۔۔۔ وہ بولی اب اس میں اپنی انگلی کو گھماؤ ۔۔۔اور جب میں نے اپنی انگلی ان کی چوت میں اچھی طرح گھما لی تو کہنے لگی ۔۔۔۔ اب بتاؤ ۔۔۔ میری چوت گرم ہے یا ٹھنڈی ؟ تو مین نے کہا میڈم یہ تو گرم نہیں گرم آگ ہے ۔۔۔۔ لیکن پھر ان سے جھجھکتے جھجھکتے پوچھ ہی لیا کہ ۔۔۔۔۔ آپ فون پر ۔۔۔ تو وہ میری بات سمجھ کر پہلے تو ہنسی پھر سیریس ہو کر بولی ۔۔۔ ارے وہ تو میں نے اپنے خاوند کو خوش کرنے کے لیۓ کہا تھا ۔۔۔۔ ہم عورتیں جب تک تم مردوں سے اس قسم کی باتیں نہ کریں تب تک تم لوگوں کی انا کو تسکین نہیں ملتی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہنے لگی دفعہ کر یار ۔۔۔ اور پھر وہ مجھ پر گر گئ اور اپنے سینے سے میرا سینہ ملایا اور میرے اوپر لیٹ کر میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ بھی ملا دیۓ ۔۔اسی پوزیشن میں وہ کچھ دیر تک میرے ہونٹ چوستی رہی اور پھر وہ مجھ سے اٹھی اور اپنی گردن پیچھے موڑی اور ہاتھ بڑھا کر میرا تنا ہوا لن پکڑ لیا اور ۔۔۔ پھر میرے ٹوپے کو اپنی چوت کے لبوں کے اندر تک گھماتی رہی جب ٹوپا ان کی چوت کے پانی سے اچھی طرح چکنا ہو گیا تو انہوں نے لن کو سیدھا کھڑا کیا اور پھر آہستہ آہستہ اس پر بیٹھنے لگی ۔۔۔ یہاں تک کہ میرا سارا لن ان کی خوبصورت چوت میں غائب ہو گیا ۔۔۔ اب میڈم نے اپنے دونوں ہاتھوں کا پنجا کھولا اور میجھے بھی ایسا کرنے کو کہا پھر انہوں نے میرے دونوں ہاتھوں کے پنجوں میں اپنے پنجے پھنساۓ اور اپنی آنکھیں بند کر کے میرے لن پر اُٹھک بیٹھک شروع کر دی اور پہلے تو وہ اپنی چوت میں میرے لن کو بڑے آرام آرام سے لن ان آؤٹ کرتی رہی پھر چند ہی گھسوں کے بعد اہنوں نے ایک بڑی سی سسکی لی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹ گئ ۔۔۔ لیکن اپنے سانس بحال ہونے تک وہ میرے لن پر ہی بیٹھی رہی ۔۔۔ پھر جب ان کے سانس کچھ اعتدال میں آۓ تو وہ نیچے آ گئ اور میرے لن کے پاس بیٹھ کر اسے سہلاتے ہوۓ میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ اپنے لن کے ارد گرد دیکھ رہے ہو نا کہ یہ کیا چیز ہے ؟ تو میں نے دیکھا ۔۔۔ تو میرے لن کے ارد گرد ان کی منی لگی ہوئ تھی ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کی خوبصورت منی ہے جو چھوٹتے وقت آپ کی چوت کے میرے لن سے چمٹنے سے یہ میرے لن پر لگی رہ گئ ہے ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ تھوڑا سا مسکُرائ اور کہنے لگی ۔۔۔ تم خوش نہ ہو کیونکہ میں تمھاری وجہ سے بلکل بھی نہیں چھوٹی ۔۔ بلکہ یہ جو منی نظر آ رہی ہے نا۔۔۔ یہ میرے خاوند نے فون سیکس کے زریعے جو گرمائش دلائ تھی یہ اس کا پھل ہے پھر انہوں نے ایک خاص نظر سے مجھے دیکھا ۔۔۔۔۔ یہ تو تھی میرے خاوند کی دلائ گئ گرمی کا پانی ۔۔۔۔۔ اب تم کو اس سے دوگنا پانی میری چوت سے نکالنا ہو گا ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میڈم اگر میں آپ کی چوت اس پانی سے دوگنا نہیں بلکہ تین گنا پانی نکال لوں تو۔۔۔۔۔ بتایۓ پھر کیا پیکج ہو گا ؟؟ ۔۔۔۔ انہوں نے میرے لن پر ہلکہ سا تھپڑ مارا اور بولی ۔۔۔۔ میں سب سمجھتی ہوں کہ تم کس پیکج کی بات کر رہے ہو ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی کان کھول کر سُن لو ۔۔۔ تم نے میری بُنڈ کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھنا ۔۔۔۔۔۔ میں اس کے ساتھ کوئ کھلواڑ نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔ آج جو بھی کام ہو گا صرف اورصرف ۔۔۔ آگے سے ہو گا ۔۔۔۔ ہاں اگلی دفعہ تمھاری اس فرمائش پر غور کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ پھر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اُٹھانے کی کوشش کی اور جب میں بستر اُٹھا تو وہ میرے گلے سے لگ گئیں اور ایک دفعہ پھر کسسنگ کا سیشن چلا پھر انہوں نے کہا ۔۔۔۔ ہاں جی میری پھدی سے تین گنا پانی نکالنے کی تمھاری باری ہے دیکھتی ہوں تم یہ کام کیسے کرتے ہو ۔۔۔ میں نے تو یہ سین پہلے ہی سوچا ہوا تھا ۔۔۔ سو اب مین نے ان کو ایک کس دی اور بولا ۔۔۔۔۔ آپ بیڈ پر لیٹ جائیں میڈم ۔۔۔ تو وہ بولی تم کیا کرو گے ۔۔۔؟ فرح آنٹی مجھے پہلے ہی ان کی کمزوری بتا چکی تھی کہ میڈم کو چوت چٹوانا بڑا پسند ہے اور یہی ان کی کمزوری بھی تھی میرے کہنے پر وہ بستر پر لیٹ گئیں اور اب میں نے ان کے ہپس کے نیچے تکیہ رکھا جس سے ان کی پھدی اور ابھر کر سامنے آ گئ ۔۔۔ اب میں ان کی چوت پر جُھکا اور ان کی چوت کے براؤن سے دانے پر زبان رکھی اور ریگ مار کی طرح اس پر اپنی زبان مار مار کر اسے کھسانے لگا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ میں نے اپنی درمیانہ انگلی ان کی چوت میں ڈال کے رکھ دی ۔۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ ان کی چوت کے نازک دانے کو اپنی کھردری زبان سے رگڑنے لگا ۔۔۔ اور پھر میں ان کا دانہ چاٹتا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ چاٹتا گیا ۔۔۔ کچھ دیر بعد مجھے رزلٹ ملنا شروع ہو گیا ۔۔۔۔ میڈم کی چوت تو پہلے ہی ہلکی سی نم تھی پھر ۔۔۔۔۔۔۔ جوں جوں میری زبان چلتی گئ ۔۔۔ آہستہ آہستہ ان کی چوت میں پانی کی آمد شروع ہو گئ ۔۔۔۔۔ ان کی چوت نے پہلے تھوڑا تھوڑا پانی چھوڑا ۔۔۔ پھر تھوڑا اور۔۔۔ اس دوران میری زبان کا ریگ مار ۔۔۔ ان کی چوت کے دانے کو گھساتا رہا ۔۔۔۔ اب ان کی چوت سے پانی کی رفتار کچھ اور تیز ہو گئ پہلے انہوں نے محض میرے سر پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔۔۔ اسکے بعد انہوں نے بڑی مضبوطی سے اسے پکڑ لیا اور پھر ان کی سسکیوں کی رفتار تیز سے تیز ہوتی گئ ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میری زبان کی رفتار اور بھی بڑھتی گئ ان کی سکیوں کی آواز انچی ہو گئ اور اونچی ۔۔۔۔ دانہ براؤن سے ریڈش ہو گیا پر میں نے اپنی رگڑائ جاری رکھی ۔۔۔ میری انگلی جو ان کی چوت میں پڑی تھی پہلے بھیگی پھر تو ان کی چوت نے اتنا پانی چھوڑا کہ میری انگلی اس میں ڈوب گی ۔۔۔ اب وہ چلانے لگی مجھے گالیاں دینے لگی کہ بہن چود ۔۔ بس کر ۔۔۔بس کر لیکن میں نے اپنا کام جاری رکھا پھر وہ منت پر اتر آئ اور بولی ۔۔۔ پلیز بس کرو ۔۔۔ میری گانڈ ابھی مار لو پر پلیز بس ۔۔ کرو۔۔۔ پر میں نے ان کی ایک نہ سُنی اور اپنا کام جاری رکھا ۔۔۔۔ اورپھر آخر وہ لمحہ آ ہی گیا ۔۔ جس کا کہ مجھے انتظار تھا ۔۔۔۔ اچانک میری زبان کے نیچے ان کا دانہ بہت زیادہ پھول گیا ۔۔۔۔۔ اور ان کی چوت ایک دم پھڑ پھڑانے لگی ۔۔۔۔ اور وہ فُل سپیڈ سے سسکیاں لینے لگیں اور اپنی چوت کو بڑی سختی سے میرے منہ کے ساتھ جوڑنے لگی ۔۔۔۔۔ یہی وہ وقت تھا کہ جس کا مجھے انتظار تھا میں نے ان سے کچھ کہے بغیر اپنا منہ ان کی چوت سے ہٹایا اور ان کی ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھا اور پھر اپنا لن چوت میں ڈال کر پوری طاقت سے دھکے مارنز شروع ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ میرے لن ان کی چوت کہ پانی سے نہا گیا تھا ۔۔۔۔ اور میرے گھسوں سے وہ مزے کی آخری سیڑھی پر پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر میں دھکے پہ دھکا مارتا رہا ۔۔۔۔ یہاں تک کہ دھکے مار مار کر میری کمر بھی تھک گئ پر میں نے اپنا کام جاری رکھا ۔۔۔۔ اور پھر مجھے یوں لگا کہ ۔۔ میں بس۔۔۔۔ نکلنے والا ہوں ۔۔ اور میرا سانس بھی چڑھ گئ تھی ۔۔۔۔ اور ہم دونوں پسینے میں نہا گۓ تھے پر میں نے گھسے مارنے جاری رکھے پھر ۔۔۔۔ ۔۔۔ میرے منہ سے کود بخود عجیب عجیب آوازیں نکلنا شروع ہو گئین جن کو سُن کر وہ سمجھ گئ کہ میں بھی بس گیا کہ گیا ۔۔۔ سو اب وہ بھی جوش دکھانے لگی ۔۔ اور ۔۔۔ نیچے سے اپنی چوتڑ اُٹھا کر گھسے مارے لگی ۔۔۔ پھر ۔۔۔ اس کا پتہ نہیں ۔۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔ میں ۔۔ چھوٹ گیا ۔۔۔۔۔ اور لن سے جیسے ہی منی خارج ہوئ مین بے دم ہو کر ان کے اوپر ہی لیٹ گیا اور کہرے گہرے سانس لینے لگا انہوں نے میری پشت سہلانا شروع کر دی ۔۔۔۔۔ پھر جب مجھے ہوش آیا تو میں نے ان سے پوچھا ۔۔۔۔ بتائیں میڈم میرا پانی دو گنا تھا یا تین گنا تو وہ ہنس کر بولی ۔۔ نہیں سو گنا ۔۔۔۔۔ اسکے ساتھ ساتھ میں اب مایا کے گھر بھی ریگولر جا رہا تھا شروع شروع میں یاسر میرے ساتھ ہوتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ جب میں ان کے ماحول کا عادی ہو گیا اور ان کو بھی مجھ پر اعتبار آ گیا تو پھر یاسر نے میرے ساتھ جانا چھوڑ دیا ہاں یاد آیا جس کے لیۓ میں وہاں گیا تھا یعنی کہ رابعہ ۔۔۔ اس دشمنِ جاں نے ابھی تک مجھے کوئ لفٹ نہیں دی تھی لفٹ تو دُور کی بات اس نے ایک دفعہ بھی سر اُٹھا کر مجھے نہیں دیکھا تھا لیکن میں برابر چوری چوری اس کو تاڑتا رہتا تھا ہاں یہ میں نے ضرور نوٹ کیا تھا کہ جب یاسر میرے ساتھ ہوتا تو وہ بڑی خندہ پیشانی سے ملتی تھی اور کھانے پینے کی چیزیں خود لایا کرتی تھی ۔۔۔۔ لیکن تب بھی وہ مجھے نہیں بلکہ شاید مجھے جلانے کے لیۓ یاسر کو کچھ زیادہ ہی لفٹ کراتی تھی ۔۔۔۔ میں جب بھی ان کے گھر جاتا تو حسبِ ھدایت مایا کو لے کر سب کے سامنے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ جاتا تھا۔۔ لیکن وہاں لیڈیز کا شور کچھ زیادوہ ہونے کی وجہ سے کچھ عرصے بعد ہم ٹی وی لاؤنج کے دوسرے کونے میں بیٹھنا شروع ہو گۓ کیونکہ یہاں پر لیڈیز کا شور کچھ کم ہوتا تھا ۔۔۔۔۔ یہاں بھی میں اس ڈائیریکشن میں بیٹھتا تھا کہ جہاں سے وہ دشمنِ جاں سامنے نظر آۓ اور اس کے ساتھ ہی باجی نازو بھی ہو تی تھی ۔۔۔۔ مایا کے مطابق وہ رابعہ کو کور کرتی تھی کہ کوئ ایسی ویسی بات نہ کر دے ۔۔۔۔ اس لیۓ وہ عموماً رابعہ کے ساتھ ہی بیٹھتی تھی اور میں نے وہاں جا کر دیکھ لیا تھا کہ رابعہ کو کوئ پسند بھی نہیں کرتا تھا لیکن اس کے شر کی وجہ سے سب لوگ سامنے سامنے اس کی از حد عزت کرتے تھی کہ رابعہ تھی بڑی خطرناک خاتون ۔۔۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں حسبِ معمول ان کے گھر گیا نازو باجی ابھی نہ آئیں تھیں اور باقی لیڈیز بھی شاید ادھر ادھر تھیں ۔۔۔۔ اور مایا اپنا بیگ لینے اوپر روم میں گئ تھی کہ اصل پڑھائ تو وہ وہاں ہی کرتی تھی میرے پاس پڑھنا تو جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں ۔۔۔۔ محض ڈرامہ تھا ۔۔۔۔ اتے میں کیا دیکھتا ہوں کہ رابعہ سیڑھیاں اُتر رہی ہے ۔۔۔ اور حال خالی پا کر وہ سیدھے میرے پاس آئ اور بڑے ہی زہریلے انداز میں کہنے لگی ۔۔۔۔۔ مجھے پتہ ہے کہ تم یہاں کیوں آۓ ہو ۔۔۔۔۔۔۔ پھر دانت پیستے ہوۓ کہنے لگی تم یہاں آ تو گۓ ہو لیکن یاد رکھنا تم کو یہاں سے زلیل و خوار کر کے اور دھکے دیکر نہ بھیجوں تو میرا نام بھی رابعہ نہیں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ چونکہ میں یہاں ایک ہی مقصد لے کر آیا تھا کہ رابعہ کو ہر صورت چودنا ہے اس لیۓ میں نے مُسکُراتے ہوۓ کہا کہ وہ ۔۔۔ آپ کو غلط فہمی ہوئ ہے ۔۔۔ میں تو۔۔۔ لیکن اس نے میری بات پوری نہ ہونے دی اور پھر اسی زہریلے لہجے میں بولی ۔۔۔۔ مجھے سمجھانے کی کوشش نہ کرو میں سب سمجھتی ہوں ۔۔ اور اس سے قبل کہ وہ کچھ اور کہتی اسے اوپر سیڑھیوں پرمایا نظر آ گئ ۔۔۔۔۔ جو اپنا بیگ لیۓ نیچے اُتر رہی تھی ۔۔۔۔ مایا پر نظر پڑتے ہی رابعہ وہاں سے چلی گئ ۔۔ کچھ دیر بعد مایا نیچے اُتری تو اس کے چہرے پر کافی فکرمندی کے آثار تھے آتے ہی مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔ موصوفہ کیا بول رہی تھیں ؟؟ تو میں نے کہا بس یار ۔۔۔۔ تو وہ دوبارہ اسی فکر مندی سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔ ٹیچر اس ے بچ کر رہنا میں نے آپ کو بتایا نہیں ۔۔۔ لیکن یہ اب تک آپ پر کافی وار کر چکی ہے ۔۔۔۔ وہ تو شکر ہے کہ نازو باجی نے بر وقت کاؤنٹر کر لیا ۔۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ پھر مجھ سے کہنے لگی ویسے یہ کہہ کیا رہی تھی تو میں نے کہا کہ دھمکی لگا رہی تھی اور کیا کہنا ہے تو وہ بولی ۔۔۔ اس کی دھمکی کی آپ فکر نہ کریں ہاں تھوڑا مُحتاط رہیں ۔۔۔ باقی میں سنبھال لوُں گی ۔۔۔۔ پھر اس نےبیگ کھولا اور ۔۔۔ پڑھائ شروع ہو گئ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تیسرے ہفتے کی بات ہے کہ پہلے جب میں یاسر کو پڑھانے گیا تو اس نے مجھے کہا کہ استاد جی آپ کی مُخالف پارٹی کافی زور لگا رہی ہے ۔۔ تو میں نے قدرے فکر مندی سے کہا تو بتا نہ یار میں کیا کروں تو وہ بولا ۔۔۔ آپ کچھ نہ کرو بس ایک ٹیسٹ کی تیاری کرو ۔۔ جو آپ نے آج مایا سے لینا ہے ۔۔۔ تو میں نے تھوڑا حیرانی سے کہا میں کچھ سمجھا نہیں یار ۔۔۔؟ تو وہ بولا ۔۔۔۔۔ میں سمجھاتا ہوں اور پھر کہنے لگا بات یہ ہے استاد جی ۔۔۔۔ رابعہ کی سازشوں کے توڑ کے لیۓ نازو باجی نے یہ پلان بنایا ہے کہ آج آپ رابعہ کے سامنے مایا کا ٹیسٹ لیں گے اور سر جی جس سوال کو آپ نے ٹیسٹ لینا ہے وہ کافی لمبا اور مشکل ہے ۔۔۔۔ تو مجھے کہا گیا ہے کہ میں ایک تو آپ کو بتا دوں کہ کونسا سوال ہے دوسرا یہ کہ وہ سوال آپ کو سمجھا بھی دوں کہ اس حرامزادی کا کوئ پتہ نہیں کہیں یہ نہ کہہ دے کہ پہلے ٹیچر اس کو حل کرے ۔۔۔ اس کے بعد اس نے متعلقہ سوال نکلا اور مجھے خوب اچھی طرح رٹا دیا ۔۔۔ ویسے بھی میں کوئ اتنا بھی جاہل بھی نہ تھا پچھلی کلاسوں میں یہ سب پڑھ چکا تھا ۔۔۔۔۔ اس لیۓ بس مجھے اس کی گائیڈنس کی ضرورت پڑتی تھی باقی کام میں خود کر لیتا تھا ۔۔۔۔ متعلقہ سوال اچھی طرح سمجھانے کے بعد اس نے احتیاطاً اسی سے متعلقہ دو تین اور بھی سوال مجھے زہین نشین کروا دیۓ ۔۔۔۔۔ اور پھر میں مایا کے گھر چل پڑا ۔۔۔۔ وہاں جا کر ابھی مایا اپنا بیگ کھول ہی رہی تھی کہ نازو باجی آ گئ اس کے ساتھ رابعہ بھی تھی ۔۔۔۔۔ وہ آتے ساتھ ہی مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں ۔۔۔۔ ہاں تو ٹیچر صاحب آپ کچھ ہم کو بھی بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپ نے اب تک ہماری مایا کو کیا پڑھایا ہے ؟ تو میں نے کہا کہ اب تک میں نے جو بھی پڑھایا ہے آپ اس کا ٹیسٹ لے سکتی ہیں ۔۔۔۔ اس پر نازو باجی بولی ۔۔۔۔ دیکھ لیں اگر بچی ٹیسٹ میں فیل ہو گئ تو؟ تو میں نے کہا کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔۔۔ اس پر وہ رابعہ کی طرف دیکھ کر بولی کیا خیال ہے رابعہ جی کیوں نہ آج مایا کا امتحان ہو جاۓ ۔۔۔ اور پھر انہوں نے مایا سے کہا کہ مایا میتھ کی بُک ان کو دو ۔۔۔ اور یہ بھی بتاؤ کہ ٹیچر نے اس کو اب تک کیا پڑھایا ہے ۔۔۔۔ جیسے ہی مایا نے بُک نکالی ۔۔۔ نازو کی بجاۓ رابعہ نے وہ بُک اس کے ہاتھ سے پکڑ لی اور بولی آپ رہنے دو نازو جی میں بتاتی ہوں کہ کون سا سوال کرنا ہے اور پھر وہ مایا سے مخاطب ہوئ اور کہنے لگی ہاں تو بیٹا آپ نے اب تک جو جو پڑھا ہے اس کے بارے میں مجھے بتا دو ۔۔۔ رابعہ کے ہاتھ میں بُک دیکھ کر میرا تھوڑا فکرمند ہو تو نازو نے مجھے آنکھ مار دی ۔۔۔۔ اور پھر رابعہ سے بولی کون سا کؤسچن سلکٹ کیا ہے ؟ تو رابعہ جو میتھ کی بُک کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی ۔۔۔ تھوڑا منہ بنا کر بولی نازو جی آپ نے ہی میتھ سٹیت وغیرہ پڑھا ہے آپ مجھ سے بہتر فیصلہ کر سکتی ہیں اور بُک نازو باجی کے ہاتھ میں پکڑا دی اب بُک نازو باجی نے لی اور اس مایا سے پوچھنے لگی بیٹا اب تک کون کون سے چیپٹر ہوۓ ہیں؟؟ تو مایا نے اسے بتا دیا اور پھر نازو نے ایک سوال نکالا اور مایا کو دینے سے اس نے رابعہ سے کچھ مشورہ کیا اور پھر کچھ دیر بعد نازو باجی نے وہ سوال مایا کو لھکوا دیا ۔۔۔۔۔ اور اس سے کہا کہ وہ ان سے دور جا کر یہ سوال حل کرے ۔۔۔ اور بُک میز پر رکھ دی ۔۔۔ اسی دوران مایا کی ماما اور ایک دو اور خواتین بھی ہمارے پاس آ چکی تھیں اور ان دونوں کہ کاروائ بڑے غور سے دیکھ رہیں تھیں ۔۔ جب مایا کچھ دُور جا کر سوال کو حل کر رہی تھی تو رابعہ نے میری طرف دیکھتے ہوۓ نازو باجی کو مُخاطب کیا اور کہنے لگی نازو جی آپ تو جانتی ہی ہیں کہ ہماری مایا کس قدر لائق لڑکی ہے ۔۔۔ ہو سکتا ہے اسے یہ سوال پہلے سے ہی آتا ہو ۔۔۔؟ ایسا کرتے ہیں کہ ہم اسی سوال کے بارے میں ٹیچر سے بھی کچھ سوالات کر لیتے ہیں اس طرح کم از کم میری تسلی ہو جاۓ گی رابعہ کی بات سُن کر نازو باجی نے میری طرف ایسی نظر سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ دیکھا ۔۔ میں نے ٹھیک گیس کیا تھا نا کہ ہو سکتا ہے رابعہ بھی پنگا لے ۔۔ اسی لیۓ یاسر کو کہہ دیا تھا کہ ٹیچر بھی سوال کو اچھی طرح سمجھ کے آۓ۔۔۔۔ پھر کچھ سوچتے ہوۓ بولی ۔۔۔ کسی حد تک بات تمھاری بھی ٹھیک ہے اور پھر میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ سوری ٹیچر مجھے کافی عرصہ ہو گیا ہے میتھ کو پڑھے ہوۓ ۔۔۔۔ آپ پلیز یہ سوال مجھے سمجھا سکتے ہیں کہ میں نے ہی مایا کا ٹیسٹ چیک کرنا ہے ۔۔۔ نازو باجی کی یہ بات سُن کر رابعہ نے مجھے فاتحانہ نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ اب آیا نہ اونٹ پہاڑ کے نیچے ۔۔۔۔ لیکن میں نے رابعہ کو نظر انداز کرتے ہوۓ نازو باجی کو کہا کہ کیوں نہیں باجی میں آپ کو بتا دیتا ہوں اور پھر میں نے نازو باجی کو سوال کی ایک ایک جزو ۔۔۔ بڑی ہی اچھی طرح سمجھائ ۔۔۔ (رٹا جو لگایا ہوا تھا ) سب سمجھ کر وہ بولی ویری گُڈ ٹیچرآپ کو پتہ ہے کہ اس بُک کا یہ سب سے مشکل سوال تھا جو میں نے آپ اور مایا سے کیا آپ تو کے مارکس تو سو فی صد ہیں اب مایا کا دیکھتے ہین کیا رزلٹ ہوتا ہے ۔۔۔ یہ سُن کر مایا کی ماما پہلے دفعہ بولی ۔۔۔۔ نازو تمہیں پتہ ہے یہ ٹیچر ہم نے بڑی اچھی طرح چھان پھٹک کر لیا ہے اس لیۓ یہ غلط نہیں ہو سکتا تو پھر مایا کیسے ہو گی؟ تو نازو بولی ۔۔۔۔ بھابھی آپ کی بات درست ہے پر ہمارا بھی تو کچھ فرض ہے نہ ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی بھابھی آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ زمانہ کس طرف جا رہا ہے سو ان حالات میں ہمیں سب کچھ ٹیچر پر ہی نہیں چھوڑنا چاہیۓ ۔۔۔ اسی اثنا میں مایا بھی سوال حل کر کے لے آئ تھی ۔۔۔۔ اب نازو باجی نے اس سے کاپی لی اور سوال چیک کرنے لگی ۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعد وہ مایا کی ماما سے مخاطب ہوئ اور کہنے لگی مبارک ہو بھابھی آپ کی بچی نے بھی سو فی صد نمبر لیۓ ہیں ۔۔۔ اور کاپی میری طرف بڑھائ۔۔۔ تو میں نے سکرپٹ کے مطابق کاپی مایا کو دیتے ہوۓ کہا کہ مایا اس جواب پر مجھے آپ کے پاپا کے دستخط چاہیے ہوں گے تو مایا بولی نو پرابلم ٹیچر میں یہ کام کر لوں گی ۔۔۔ پھر اس کی ماما بولی تھینک یو بیٹا ۔۔۔۔ مایا دستخط نہ بھی کراۓ تو بھی میں آج کی ساری بات اس کے پاپا کو بتا دوں گی ۔۔ یہ سُن کر رابعہ بنا کسی کو بتاۓ پیر پٹختی ہوئ وہاں سے چلی گئ ۔۔۔ اسے جاتے دیکھ کر مایا کی امی نازو باجی کر طرف دیکھ کر بولی پتہ نہیں اسے کیا تکلیف ہے ہر وقت اس مُنڈے کے پیچھے پڑی رہتی ہے ؟
 میرے ساتھ رابعہ کا یہ رویہ دیکھ کر میں خاصہ مایوس ہو رہا تھا ۔۔ میرا خیال تھا کہ میں وہاں جا کر کوئ نہ کوئ سُرنگ نکال لوں گا ۔۔۔۔ پر یہاں تو معاملہ ہی اُلٹا تھا ۔۔۔۔ وہ لفٹ تو کُجا ۔۔۔۔ مجھے وہاں سے زلیل کر کے نکلوانے کے چکر میں رہتی تھی ۔۔۔۔ کبھی میں مایوس بھی ہوتا پر پتہ نہیں کیوں مجھے ضد سی چڑھ گئ تھی کہ میں نے رابعہ کی لینی ہی لینی ہے ۔۔۔۔ اور اس ضد میں اس کے اس رویے کا خاصہ دخل تھا ۔۔۔ مثلاً ایک دن میں مایا کو پڑھا رہا تھا کہ وہ ہماری طرف آتی نظر آئ ۔۔۔ اور دور سے مایا کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا ۔۔ مایا اس کی طرف جاتے ہو
ۓ اہستہ سے بڑبڑائ ۔۔۔۔ آ گئ فتنی ۔۔۔ اور مسکرا کر بولی ۔۔ آئ آپی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اُٹھ کر چلی گئ ۔۔ میری بھی ساری توجہ انہی کر طرف تھی ۔۔ جیسے ہی مایا رابعہ کے قریب گئ ۔۔ اس نے ہولے سے اس کو کچھ کہا جسے سُن کر مایا کا رنگ سُرخ ہو گا اور اس نے بھی ہولے سے کچھ کہا اور پھر میرے پاس آ گئ ۔۔۔۔۔ جبکہ رابعہ اوپر اپنے کمرے میں چلی گئ ۔۔۔ ادھر مایا صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولی حد ہوتی ہے ہر چیز کی ۔۔۔۔ اور میں نے اس سے پوچھا کیوں خیریت تو ہے نا ؟ تو وہ بولی ۔۔۔ ٹیچر ایک بات تو بتاؤ آخر اس کو آپ سے پرابلم کیا ہے ؟ تو میں نے پوچھا کچھ بتاؤ گی نہیں ؟ کہ اس نے تم کو کیا کہہ دیا ؟؟ تو وہ کافی غصے میں بولی ۔۔۔ مجھے کیا کہنا کیا تھا اس حرامزدی نے ۔۔ آپ کے بارے میں ہی بات کر رہی تھی تو میں نے پوچھا کیا فرما رہی تھی آپ کی آپی ؟ تو وہ تلخی سے بولی ۔۔ بڑی چِیپ عورت ہے کہہ رہی تھی کہ اس کے خاوند کے کچھ پُرانے کپڑے ہیں دے دوں ۔۔۔ سُن کر میری بھی جھانٹیں جل گئیں پر میں کچھ نہ بولا اور کہا ۔۔۔ چھوڑو یار ۔۔۔۔ اس کا تو یہ روز کا کام ہے تم بیگ کھولو ۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔ سوری ٹیچر اس حرامزادی نے میرا مُوڈ خراب کر دیا ہے ۔۔ آج میں نہ پڑھ سکوں گی آپ پلیز آج چھٹی کر لیں اس کی بات سُن کر میں وہاں سے اُٹھا اور گھر چلا آیا ۔۔۔۔ اس طرح اور بھی کافی باتیں ہیں ۔۔۔۔ لیکن طوالت کے خوف سے نہیں لکھ رہا ۔۔۔ ورنہ اس نے تو کوئ کسر نہ چھوڑی تھی ۔۔۔ لیکن ایک بات ہے اس کی ہر اس بات سے میرا عزم اور بھی پختہ ہوتا جاتا کہ میں نے اس کی ایک دفعہ ضرور لینی ہے اور اب تو اس کے رویے سے میں دوسرے آپشن یعنی کی اس کے ریپ پر بھی غور کر رہا تھا کہ اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلا تو میں اس کر زبردستی چودوں گا ۔۔۔۔ پھر جو ہو گا دیکھا جاۓ گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میری فرسٹ پرائیرٹی اس کی رضا مندی سے چوت مارنے کی تھی ۔۔۔۔ جس کے اب تک تو دور دور تک کوئ چانس نطر نہ آ رہے تھے ۔۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں مایا کو لیکر حسبِ معمول لاؤنج کے کونے میں بیٹھا پڑھا رہا تھا اور ہمھارے سامنے رابعہ اور باجی نازو بیٹھی تھیں میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ کن اکھیوں سے رابعہ کو بھی تاڑتا جا رہا تھا ۔۔ اس دن پتہ نہیں سورج کس طرف سے نکلا تھا ۔۔۔۔ کہ جب سے میں اس گھر میں آیا تھا رابعہ کو پہلی دفعہ اتنا خوش دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اور۔۔۔ اور وہ میرے بار بار دیکھنے کو بھی مائینڈ نہ کر رہی تھی بلکہ اسے نظر انداز کر کے وہ باجی نازو سے بڑی ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی لیکن میرے اس طرح بار بار دیکھنے سے باجی نازو کو شاید کچھ درک ہو گئ تھی چنانچہ جب بھی میں چوری چوری رابعہ کو دیکھنے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔ نازو کی نظر مجھ سے ضرور ٹکراتی ۔۔۔۔ رابعہ نے اس دن پیلے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا اور اس سوٹ میں وہ بڑا ہی غضب ڈھا رہی تھی ۔۔۔۔ اور میں نہ چاہتے ہوۓ بھی اس کی طرف بار بار دیکھنے پر خود کو مجبور پا رہا تھا جسے شاید نازو باجی نے بھی محسوس کر لیا تھا اور اب وہ بڑی خون خوار نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ لیکن مجھے اس بات کا ہوش ہی کہاں تھا اور میں ان کی طرف دیکھ ہی کب رہا تھا میں تو بس اس دشمنِ جاں کو دیکھے جا رہا تھا کہ جس کی ہر ایک ادا اشارت کیا عبارت کیا ۔۔۔ غرض ہر چینز ہر شے میرے لیۓ بلاۓ جاں تھی ۔۔ آخر وہ غیرتِ ناہید میری نظروں کی تاب نہ لا کر وہاں سے اُٹھ کر کہیں چلی گئی۔

لیکن مجھے اس بات کا پتہ نہیں چلا کہ میں اس ٹائم مایا کے ساتھ بزی تھا اور اب نازو باجی وہاں اکیلی بیٹھی تھی ۔۔۔ اور جب میں نے ویسے ہی عادتاً اس طرف دیکھا تو مجھے صرف نازو باجی ہی نظر آئ جو مجھے ہی گھورے جا رہی تھیں ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے میں نے ڈر کے مارے فوراً اپنی نظریں جھکا لیں اور مایا کو پڑھانے لگا ۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد جب میں نے چوری چوری ادھر دیکھا تو ۔۔۔ اب اس جگہ کو بلکل ہی خالی پایا ۔۔۔۔ رابعہ کے بعد نازو باجی بھی وہاں سے اُٹھ کر کہیں جا چکی تھیں۔۔۔ کچھ دیر بعد ان کی کام والی ٹرے میں شربت لیکر ہماری طرف آئ ۔۔۔۔۔۔( یاسر کی امی کے بر عکس یہ لوگ مجھے ٹھنڈا پلاتے تھے جبکہ وہ چاۓ کے ساتھ اچھے خاصے لوزامات سے تواضع کرتی تھی ) اور بجاۓ ٹرے رکھ کر جانے کے وہ بیٹھ گئ اور گلاس مین شربت ڈال کر مایا سے پوچھا ۔۔۔ بی بی جی آپ شربت پیو گی ؟ تو مایا جو اپنے سکول کے ٹیسٹ کی تیاری میں بُری طرح مصروف تھی اور سر جھکا کر کوئ سوال حل کر رہی تھی نے نا میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔ اتنے میں اس کام والی نے مجھے شربت کا گلاس پیش کیا اور۔۔۔۔۔ گلاس کے ساتھ ہی ایک کاغز کا ٹکڑا بھی تھا ۔۔۔۔ جیسے ہی میں نے وہ گلاس پکڑا اس نے کاغز کا وہ ٹکڑا بھی میرے ہاتھ میں دے دیا اور میں اس کی یہ حرکت دیکھ کر حیران رہ گیا ۔۔۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھنے لگا اور اشارے سے پوچھا کہ یہ کس نے بھیجا ہے ؟ تو اس نے اُس طرف کا اشارہ کر دیا کہ جہاں کچھ دیر پہلے وہ قاتلِ جاں بیٹھی تھی اس کے ساتھ ہی اس نے اشارے سے اس کاغز کو مایا سے چھپانے کا کہا اور میں نے فوراً ہی اس کاغز کے ٹکڑے کو اپنی مُٹھی میں دبا کر مُٹھی بند کرلی ۔۔ اور شربت پینے لگا۔۔۔ اور دل میں پہلا وسوسہ یہی آیا کہ کہیں یہ ٹریپ تو نہیں؟ اور مجھے پھنسانے کی یہ نئ چال تو نہیں ؟ حیرانی اور ڈر سے میں مسلسل اس کے با رے میں سوچنے لگا کہ اب میں کیا کروں ؟؟ ۔۔۔ ۔۔۔ گلاس پکڑاتے ہی کام والی تو چلی گئ لیکن مجھے ایک عجیب مخمصے میں ڈال گئ ۔۔۔ وہ مُڑا تُڑا کاغز میری مٹھی میں تھا اور میرا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔۔۔۔ اب میں نے شربت پیتے ہوۓ ایک نظر مایا کی طرف دیکھا وہ بڑے انہماک سے میتھ کا کوئ سوال حل کر رہی تھی ۔۔۔۔ سو میں نے جلدی سے وہ مُڑا تُڑا کاغز کا ٹکڑا اپنی بند مُٹھی سے باہر نکالا۔۔ اور مایا سے نظر بچا کراسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر جلدی جلدی میں چند لکیریں گھسیٹی گئیں تھی میں نے ایک دفعہ پھر مایا کی طرف دیکھا وہ بدستور اپنے کام میں مصروف تھی ۔۔ اور پھر میں کاغز پر لکھی تحریر کو پڑھنے لگا ۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔ جیسے جیسے میں یہ تحریر پڑھتا گیا میری حیرت بڑھتی گئ پھر میرے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے اور مجھے اپنے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئ نظر آئ ۔۔۔ آسمان گھومتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔اور میرے چودہ طبق روشن ہو گۓ ۔۔۔۔ لکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ وہ خط نازو باجی کی طرف سے تھا اور اس میں انہوں نے لکھا تھا - " مجھے ایسے چوری چوری نہ دیکھا کرو کہ کہیں اس کو (رابعہ ) کو شک ہو گیا تو قیامت آ جاۓ گی اور تمھارے ساتھ میری پوزیشن بھی خراب ہو جاۓ گی ۔۔۔۔ چُھٹی کے بعد تم میرے پیچھے پیچھے چلے آنا ۔۔۔ باقی باتیں گھر پر جا کر ہوں گی ۔۔۔۔۔" نازو " نیچے فُٹ نوٹ میں لکھا تھا ڈرو نہیں گھر میں کوئ نہیں ہو گا۔۔۔۔ میں نے نازو باجی کا خط پڑھا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا حقیقت یہ ہے کہ رابعہ کی طرف دیکھتے ہوۓ میرے زہن کے کسی بعید ترین گوشے میں بھی یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ میرے اس طرح دیکھنے کو نازو باجی اپنی طرف منسوب کر لے گی ۔۔۔ یہ بات نہ تھی کہ نازو باجی خوبصورت نہ تھی اور نہ ہی ان میں کوئ کمی تھی یا کمزوری تھی ۔۔۔۔۔ بلکہ بات صرف اتنی سی تھی کہ میں یہاں ایک مشن لیکر آیا تھا اور میرا سارا فوکس اپنے مشن کی طرف تھا یہ الگ بات ہے کہ میں ابھی تک اپنے مشن کی طرف ایک انچ بھی نہ بڑھا تھا لیکن پھر بھی جوں جوں میں رابعہ ۔۔۔ کو دیکھتا تھا میرے جنون میں اور بھی اضافہ ہوتا جاتا تھا اور اس کو چودنے کی خواہش دن بدن بڑھتی جا رہی تھی اور خاص کر وہ بھی آج کل کچھ اس قسم کی ڈریسنگ کر رہی تھی کہ اسے دیکھ کر اچھا خاصہ بندہ پاگل ہو سکتا تھا ۔۔۔ اور میں تو پہلے سے ہی گھائل تھا ۔۔۔۔۔ اپنی اس پریشانی میں، میں مایا کو بھول ہی گیا تھا یاد تب آیا جب مایا نے ہاتھ بڑھا کر میرے ہاتھ سے وہ رُقعہ لے لیا اور اسے پڑھنے لگی ۔۔۔۔۔ اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ بار بار میری جانب بھی دیکھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔ اور پھر جب اس نے سارا خط پڑھ لیا تو ایک گہرا سانس لیکر ایک دفعہ پھر میری طرف دیکھنے لگی اور بولی ۔۔۔۔ خط میں باجی نے ٹھیک ہی لکھا ہے یہی بات کچھ دن سے میں بھی نوٹ کر رہی تھی کہ آپ نظریں بچا کر بار بار نازو باجی کو ہی دیکھتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس پر میں نے مایا سے فوراً ہی کہہ دیا ایسی کوئ بات نہیں مایا ۔۔۔ میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ۔۔۔۔ تو مایا ہنس کر بولی ۔۔۔۔۔ چھوڑو نہ ٹیچر ۔۔۔۔ آج تک کسی بھی چور نے اپنی چوری مانی ہے جو آپ مانو گے ۔۔ ۔۔۔ پھر وہ میری طرف دیکھ کر بڑے ہی معنی خیز لہجے میں بولی ۔۔۔ حضور کسی غلط فہمی میں نہ رہئیے گا یاسر نے مجھے آپ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے ۔۔۔۔۔ اب میں مایا کو کیا بتاتا کہ ۔۔ دیکھتا تو میں ضرور تھا مگر اس کی نازو باجی کو نہیں بلکہ اس دشمنِ جاں کو۔۔۔۔۔ کہ جس کو ہم سے اور ہم کو اس سے ضد سی پڑی تھی ۔۔۔۔۔ اور وہ خواہ مخواہ ہی ستا رہی تھی ۔۔۔ پرمیں اس سے یہ بات کہہ نہ سکتا تھا کہ یاسر اور میرے علاوہ اصل بات کی کسی کو بھی خبر نہ تھی اور نہ ہی میں یہ بات کسی کو بتانا چاہتا تھا کیوں کہ میں یہاں اپنی کمزور معاشی پرابلم کا بہانا بنا کر آیا تھا اور اب میرے لیۓ بڑی مشکل پیش آ گئ تھی کہ اگر میں مایا کو اصل بات بتاتا تو پھنستا اور اگر ۔۔۔۔۔۔ نہ بتاتا تو ۔۔ ۔۔۔۔ پھنستا ۔۔۔ پھر میرے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور میں نے اپنی اصل سٹوری سے توجہ ہٹانے کے لیۓ مایا کے سامنے ایسا منہ بنا لیا کہ جیسے میری چوری پکڑی گئ ہو اور میں نے فوراً اپنا سر نیچے کر لیا اور منہ پر تھوڑی سی شرمندگی طاری کر لی اور بولا ۔۔۔ سوری مایا ۔۔۔ اب آپ بتاؤ کہ میں کیا کروں ؟؟ ۔۔ تو وہ بولی ۔۔ دیکھو ٹیچر نازو باجی کے ہم پر بڑے احسانات ہیں اگروہ ہماری مدد نہ کرتیں تو یقین کرو آپ کب کے یہاں سے کک آؤٹ ہو چکے ہوتے پھر وہ بڑی ہی سیریس ہو کر بولی اینی وے ٹیچر ۔۔۔۔ یہ آپ اور نازو باجی کا زاتی مسلہ ہے میری آپ سے بس ایک ہی درخواست ہے تو میں اس کے لہجے کی ٹون سُن کر ایک دم چونک سا گیا اور جلدی سے کہا بولو مایا ۔۔۔۔ تو وہ کہنی لگی ۔۔۔ دیکھو ٹیچر میں اور یاسر کتنے بھی اچھے دوست ہوں لیکن وہ ہے تو میرا ہونے والا خاوند نا ۔۔۔ آپ نازو باجی سے کوئ بھی تعلق رکھیں ۔۔۔۔ مجھے اس پر کوئ اعتراض نہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔ پلیز آپ اس تعلق کی بات کو صرف اور صرف اپنے تک ہی محدود رکھیۓ گا ۔۔۔ اور میں اس کی ساری بات سمجھ گیا اور اس سے بولا ۔۔۔ مایا آپ بے فکر رہو ۔۔۔ میں یہ نہیں بلکہ آپ کے گھر کی کسی بھی بات کا یاسر سے تو کیا اپنے آپ سے بھی زکر نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔ تم اس طرف سے بے غم ہو جاؤ ۔۔۔۔۔ میری بات سُن کر اس کے چہرے پر پھیلی فکر مندی دُور ہو گئ اور پھر اس نے اطمینان کا سانس لیکر کہا ۔۔۔ ٹیچر میرے خیال میں آپ کو نازو باجی کی بات سننی چاہیۓ اور اگر ہو سکے تو ۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی دائیں آنکھ دبا لی ۔۔۔۔۔ اور آنکھ مار کر بولی آپ کو ایک بات بتاؤں ۔۔۔ یہ نازو باجی اوپر سے جتنا خوش نظر آتی ہے اندر سے وہ اتنی ہی دکھی عورت ہے تو میں نے حیران ہو کر وہ کیسے ؟ تووہ بات کرتے کرتے رُک گئ اور بولی ۔۔۔۔ پتہ نہیں آپ خود ہی اس سے پوچھ لینا ۔۔۔ ہم باتیں کر رہے تھے کہ ہمیں دُور سے نازو باجی آتی دکھائ دی انہیں دیکھ کر مایا جلدی سے بولی ٹیچر باجی کو پتہ نہیں چلنا چاہیۓ کہ میں ان کے خط کے بارے میں جان گئ ہوں ۔۔ پھر نازو باجی اور قریب آئ تو وہ کاپی کو میرے آگے کرتے ہوۓ بولی ۔۔ سر ٹیسٹ چیک کر لیں اتنے میں نازو باجی پاس آ گئ اور بولی ۔۔۔ ہاں جی کیسی جا رہی ہے پڑھائ؟؟؟؟ اور پھر مایا کے پاس بیٹھ گئ اور موقعہ ملتے ہی مجھے آنکھ کا اشارہ کر کے بولی میرا رُقعہ پڑھ لیا تھا ؟ تو میں نے بھی اشارے سے ہی جواب دیا کہ ہاں پڑھ لیا تھا ۔۔۔۔ پھر انہوں نے اشارے سے ہی پوچھا کہ اور کتنی دیر ہے ؟؟ تو میں نے بھی اشارے سے ہی باتا دیا کہ بس تھوڑی ہی دیر ہے ۔۔۔ مایا یہ سب دیکھتے ہوۓ بھی جان بوُجھ کر انجان بنی ہوئ تھی پھر میں نے مایا کی کاپی چیک کی اور اس کو ایسے ہی کل کا کام دے کر بولا یہ یاد کر لو کل اس کا ٹیسٹ ہو گا اور نازو باجی کو چلنے کا اشارہ کیا وہ مجھ سے پہلے ہی اُٹھ کر چلی گئ اور اسے جاتے دیکھ کر مایا میری طرف دیکھ کر مسکرائ اور بولی ۔۔۔۔ گُڈ لک ٹیچر کل آپ سے اس کے بارے میں پوچھوں گی تو میں نے بھی اٹھتے اُٹھتے اس کہا یار نازو باجی کے بارے میں کچھ تو بتاؤ چلو کوئ ٹِپ ہی دے دو ۔۔۔ تو میری بات سُن کر وہ ہولے سے بولی ہاں ایک ٹِپ دے سکتی ہوں لیکن اس کی تفصیل نہ پوچھنا اسکے بعد وہ کہنے لگی ۔۔۔ دیکھو نازو باجی ازیت سہہ سہہ کر ازیت پسند ہو گئیں ہیں اور بولی بس اس سے زیادہ نہیں بتا سکتی ۔۔ اس کی بات سُن کر میں کچھ کچھ سمجھ گیا ۔۔۔ اور پھر میں وہاں سے بظاہر گھر جانے کے لیۓ نکل آیا ۔ باہر آ کر ادھر ادھر دیکھا تو نازو باجی ایک گھر کے سامنے کھڑی تھیں جیسے ان کی نظر مجھ پر پڑی انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور پھر میرے آگے آگے چلنا شروع ہو گئیں مایا کے گھر سے تھوڑی ہی دُور گلی کے نکڑ پر ان کا گھر تھا ۔۔۔ وہاں پہنچ کر نازو باجی نے ایک نظر گلی پر ڈالی لوگ آ جا رہے تھے اور پھر انہوں نے پرس سے چابی نکالی اور پھر تالا کھول دیا اتنے میں میں بھی ان کے قریب پہچ چکا تھا وہ میری جانب دیکھ کر بولی ڈرو نہیں سیدھا اندر آ جاؤ اور جیسے ہی انہوں نے دروازہ کھولا میں ان کے پیچھے پیچھے اندر چلا گا ۔۔۔اندر جا کر انہوں نے مجھے ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے جانے کو کہا اور خود دوبارہ دروازے کی طرف چلی گئ ۔۔ اور میں ان کے بتاۓ ہوۓ کمرے میں گیا تو اندر کمرے میں کافی اندھیرا تھا ۔۔۔۔ ابھی میں لائیٹ کا بٹن تلاش کر ہی رہا تھا کہ نازو باجی پینچ گئیں اور انہوں آتے ساتھ ہی بتی جلا دی اور مجھے ایک طرف بیٹھنے کو کہا میں نے ایک نظر کمرے پر ڈالی اور ان کی بتائ ہوئ سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا یہ ان کا ڈرائینگ روم تھا جو بڑا اچھی طرح سجایا گیا تھا ۔۔۔ کمرے میں قیمتی قالین بچھا ہوا تھا اور درمیان میں لگا فانوس کافی مہنگا لگ رہا تھا ہر چیز سلیقے سے سجی اور قرینے سے پڑی تھی ان کا ڈرایئنگ روم دیکھ کر مجھے نازو باجی کے اعلیٰ ذوق کا اندازہ ہوا ۔۔۔ اپنے ڈرائینگ روم کا جائزہ لیتے دیکھ کر وہ کہنے لگی کیسا لگا ہمارا ڈرائینگ روم ۔۔؟؟؟ تو میں نے کہا نہایت اعلیٰ اور شاندار پھر میں نےا ن سے پوچھا کہ کمرے میں پڑی چیزیں کس کی چوائس کی ہیں تو جیسے ان کو کچھ یاد آ گیا ہو وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔۔ یہ بتاؤ کہ تم مجھے ایسے چوری چوری کیوں دیکھتے ہو ۔۔۔ ؟؟ تمھیں پتہ ہے اگر رابعہ کو زرا بھی شک ہو گیا تو ہم دونوں بے موت مارے جائیں گے ۔۔۔ اس وقت تک میں نازو باجی کے بارے میں اپنا مائینڈ بنا چکا تھا سو جھٹ سے اپنی ڈکشنری سے بہترین لفظوں کا انتخاب کیا اور بولا ۔۔ نازو جی مین آپ کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ آپ مجھے اپنی طرف دیکھنے کو مجبور کرتی ہیں میری بات سُن کر حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور وہ بولی ۔۔ میں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ میں نے کب تم سے کہا کہ تم مجھے دیکھا کرو ۔۔۔ تو میں نے اپنے لہجے میں جہاں بھر کی شیرینی اور رومانس سمیٹ کر ان سے کہا ۔۔۔۔۔ آپ نہیں باجی بلکہ آپ کا یہ خوبصورت سرو قد سراپہ ،سُرخ و سپید جسم ، صراحی دار گردن ۔۔ جھیل سی آنکھیں ۔۔ ریشمی زلفیں ستواں ناک ، یہ نرم نرم اور رسیلے لب اور آپ کا محبت بھرا رویہ مجھے آپ کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتا ہے آپ کی یہ بڑی بڑی اور کالی آنکھیں مجھے اپنی طرف کھینچتی ہیں اور باجی آپ کی بات کرنے کا انداز آپ کی دلنشیں لہجہ ۔۔۔۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ کھڑے کر لیۓ اور بولی ۔۔۔ بس بس۔۔۔۔ اب مجھے اتنا بھی بانس پر نہ چڑھاؤ لیکن ان کا چہرہ اس بات کی چُغلی کھا رہا تھا کہ میرا تیر ٹھیک نشانے پر لگ چکا ہے ۔۔۔۔ پھر انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہنے لگی تم کو پتہ ہے میں ایک شادی شدہ عورت ہوں تم کیوں میرا گھر برباد کرنے پر تُلے ہوۓ ہو؟ تو میں نے کہا میں کب آپ کا گھر برباد کر رہا ہوں میں تو بس اتنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اپنی طرف دیکھنے کی اجازت دے دیں ۔۔۔ اور میرے ساتھ دوستی کر لیں میری بات سُن کر وہ تھوڑا سا مُسکرائ اور کہنے لگی بس دیکھنے کی ۔۔۔۔ تو میں نے گڑبڑانے کی ادا کاری کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔ نہ نہ ۔۔۔ ہاں ہاں بس اتنی اجازت بھی مِل جاۓ تو میرے لیۓ بڑی بات ہے ۔۔۔۔ میری اس بات پر وہ بڑے لاڈ سے بولی تم پکے بدمعاش ہو ۔۔۔ لیکن یاد رکھنا میں کسی اور طرح کی عورت ہوں ۔۔ پھر اچانک ان کو خیال آ گیا اور بولی کیا پیو گے چاۓ یا ٹھنڈا لاؤں ؟ تو میں نے کہا کچھ نہیں ۔۔ بس اتنی اجازت دے دیں کہ میں آپ کا یہ خوبصورت سا ہاتھ پکڑ سکوں ۔۔۔۔۔ تو انہوں نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا اور ہنس کر بولی لو تم بھی کیا یاد کرو گے کہ کس حاتم طائ سے پالا پڑا تھا ۔۔۔ میں نے جلدی سے ان کا ہاتھ پکڑا اور اس کی پشت کو چوُم لیا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ دیکھو میں ایسی عورت نہیں ہوں تم کو ضرور کوئ غلط فہمی ہوئ ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ کھڑی ہو گئ اور کہنے لگی ۔۔۔۔۔ اب تم پلیز اپنے گھر جاؤ ۔۔۔۔ تمھاری امی تمھارا انتظار کر رہی ہوں گی ۔۔۔ ان کی یہ بات سُن کر میں جانے کے لیۓ کھڑا ہو گیا اور بولا اوکے ۔۔ نازو باجی آپ کے کہنے پر میں جاتا ہوں اور ان سے ہاتھ ملانے کے لیۓ میں نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا ۔۔۔۔ انہوں نے ایک نظر مجھے اور پھر میرے بڑھے ہوۓ ہاتھ کی طرف دیکھا اور جھجھکتے ہوۓ اپنا ہاتھ آگے کر دیا اب میں نے ان کا نرم و نازُک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔۔ اور پھر میرے کانوں میں مایا کا کہا ہوا فقرہ گونجنے لگا کہ ۔۔ اذیت سہتے سہتے باجی بھی اذیت بسند ہو گئ ہے ۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں ان کا ہاتھ بڑی گرم جوشی سے دبانے لگا ۔۔۔ پھر ان کا ہاتھ دباتے دباتے میں نے ایک دم ان کو اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔۔۔ بے چاری دھان پان سے نازو باجی کھینچتی ہوئ میری طرف آگئ اور میں نے ان کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا ۔۔۔۔ وہ میری گرفت میں آ کر کافی کسمسائ اور خود کو چُھڑانے کی بڑی کوشش کی مگر ۔۔۔۔ کہاں وہ دبلی پتلی اور ایک نازک سی خاتون اور کہاں میں ۔۔۔۔ سو وہ چاہ کر بھی میری گرفت سے آزاد نہ ہو سکیں پھر میں نے کچھ دیر تک بڑی گرم جوشی کے ساتھ ان کو اپنے سینے کے ساتھ لگاۓ رکھا پھر اس کے بعد میں نے اپنا منہ ان کے منہ کی طرف لے جانا شروع کر دیا۔۔۔۔ وہ فوراً میری اس حرکت کا مطلب سمجھ گئیں اورپہلے تو انہوں نے اپنا منہ میرے سینے میں چھپانے کی بڑی کوشش کی لیکن چونکہ وہ میری ہی ہم قد تھیں اس لیۓ میری تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ ایسا نہ کر سکیں ۔۔۔ یہاں سے ناکامی کے بعد انہوں نے اپنا منہ دائیں بائیں کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں مجھ پر بھی جنون سوار ہو گیا تھا سو میں نے ان کو بالوں سے پکڑا اور زبردستی ان کا منہ اپنے منہ کی طرف لے آیا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنا ایک ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ دیا اور اور گھٹی گھٹی سی آواز میں بولی ۔۔۔ یہ کیا حرکت ہے ؟ تم پاگل ہو گۓ ہو کیا ۔۔۔۔ لیکن میں نے ان کی کوئ بات بھی نہ سُنی اور ایک جھٹکے سے ان کا ہونٹوں پر رکھا ہوا ہاتھ وہاں سے ہٹا دیا یہ دیکھ کر انہوں نے اپنے ہونٹ سختی سے بھینچ لیۓ ۔۔۔۔ اور خاص کر اپنا نیچے والا ہونٹ دانتوں میں دبا لیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنی زبان نکالی اور ان کے خوبصورت گال چاٹنا شروع کر دیۓ ۔۔۔ ہاں ایک بات میں نے شروع میں ہی نوٹ کر لی تھی کہ جب میں ان پر جھکا تھا تو وہ چاہتی تو اپنے لمبے ناخنوں سے میرا چہرہ نوچ سکتی تھی لیکن انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ۔۔۔ جس سے میں نے اندازہ ہوا کہ مایا ٹھیک کہہ رہی تھی وہ مجھے اس ٹائپ کی خاتون لگتی تھی کہ جس پر درخواست کا کچھ اثر نہیں ہوتا ہاں زبردستی ان سے جو کام مرضی ہے کروا لو۔۔۔ اس کے بعد میں اپنی زبان ان کی لمبی گردن پر لے گیا ۔۔۔۔ اور اسے چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ ۔ اور پھر کچھ دیر چاٹنے کے بعد میں نے محسوس کر لیا کہ میڈم اب کچھ ڈھیلی پڑ گئ ہے سو میں نے ان سے التجا کی اور بولا ۔۔ پلیز باجی بس ایک دفعہ مجھے اپنے ہونٹ چھونے دو نا۔۔۔ پہلے تو وہ انکار کرتی رہی ۔۔۔ پھرکافی دیر مِنتوں کے بعد وہ بولی ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔ پروعدہ کرو کہ تم ان کو صرف ٹچ ہی کرو گے اور میں نے فوراً ہی ان سے وعدہ کر لیا اور بولا وعدہ کرتا ہوں نازو باجی کہ میں صرف اپنے ہونٹ ہی آپ کے ہونٹوں سے ٹچ کروں گا یہ سُن کر وہ ساکت ہو گئ اور اپنی آنکھیں بند کر کےاپنے ہونٹوں کو ڈھیلا چھوڑ دیا ۔۔۔اب میں نے اپنے ہونٹ ان کے ہونٹوں پر رکھے اور ان کو چومنا شروع کر دیا پھر کچھ دیر بعد انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے بس کرنے کو کہا ۔۔ اور میں نے اپنا منہ وہاں سے ہٹا کر ان سے کہا بس تھوڑا سا اور ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی دیکھ لو تم اپنا وعدہ توڑ رہے ہو تو میں نے کہا میں نے تو کچھ نہیں کیا اور دوبارہ اپنے ہونٹ ان کے ہونٹوں پر رکھے اور ساتھ ہی ان کا نیچے والا ہونٹ اپنے منہ میں لے لیا اور اس کو چوسنے لگا ۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ تھوڑا سا کسمسائ لیکن خود کو چُھڑانے کی کوئ کوشش نہ کی ۔۔۔۔ اب میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں ڈالی اور اپنے مخصوص انداز میں ان کے منہ میں گھمانے لگا ۔۔۔ کسنگ کا یہ طریقہ مجھے ایک نہایت ہی تجربہ کار آنٹی نے سکھایا تھا اور بتایا تھا کہ اس طریقے سے جنسِ مخالف کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔۔۔ اور اس کے اندر شہوت کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے ۔۔۔ اور میں اس وقت کسنگ کا یہ سٹائل نازو باجی پر آزما رہا تھا ۔۔۔ ویسے بھی مجھے آج تک اس سٹائل کی کسنگ کبھی ناکام نہیں ہوئ تھی ۔۔۔۔ اور پھر وہی ہوا جو ایسے موقعوں پر ہوا کرتا ہے ۔۔۔ نازو باجی نے اپنا بدن مکمل طور پر ڈھیلا چھوڑ دیا اور مجھے کھُل کر کسنگ کرنے دی ۔۔۔۔ میں کافی دیر تک اپنے مخصوص سٹائل میں ان کو کسنگ کرتا رہا ۔۔۔ پھر میں نے دھیرے سے اپنی زبان ان کے منہ سے واپس کھینچ لی اور ۔۔۔۔ ان کے ہونٹ کو تھوڑا سا چوس کر ان سے الگ ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ اور ان کو اپنی گرفت سے آزاد کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

You Might Also Like

0 تبصرے

thanks

BUY NOVELS ON WHATSAP