ایک لڑکی کا بدلہ
اگست 15, 2021
ایک لڑکی کا
بدلہ
تحریر: مسکان
وہ تباہ ہو چکی تھی
پوری طرح سے، نوکری، عزت عصمت سب لٹ چکا تھا وہ اپنی ہی نظروں میں گنہاگار اور
مجرم تھی ، کیونکہ اس نے بھروسہ کیا تھا ایک ایسے انسان پر جو نہ صرف دولت مند
خاندان کا وارث تھا بلکہ نہایت طاقت ور بھی تھا۔ وہ اس بے وفا سے بدلہ لینا چاہتی
تھی مگر کیسے یہ وہ خود بھی نہی جانتی تھی بس اس کے دل و دماغ پر ایک ہی جنون سوار
تھا اس کی بس ایک ہی منزل تھی بدلہ۔بدلہ اور صرف بدلہ۔ مگر یہ سب شروع کیسے ہوا؟
وہ کیسے اس بھیڑیئے کے جال میں پھنس گئی؟ کیسے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی۔ وہ تو خود
کو بہت چالاک اور ہوشیار سمجھتی تھی اور کیوں نہ سمجھتی آخر وہ ایک پریس رپورٹر
تھی۔ دن میں کئی طرح کے ہونے والے جرموں کا راز فاش کرتی تھی اس کے کئی دوست تھے
مگر دشمنوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی اور شاید اس کے پیشے نے کسی کو اتنا
مجبور کردیا تھا کہ اس کے ساتھ اتنا بھیانک کھیل کھیلے کے اس کی آنے والی نسلیں
بھی یاد رکھیں۔ کہانی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے اس کا نام علینہ تھا، پریس اور
میڈیا کی اس تیز دنیا میں جہاں روز ایک نئی خبر کی تلاش ہی ایک رپورٹر کی سچی
کامیابی ہوتی ہے علینہ کو اس خبر سے کچھ زیادہ ہی چاہئے ہوتا تھاچوبیس برس کی یہ
نٹ کھٹ سی لڑکی بڑے بڑے بزنس مین، سیاستدان، بیورو کریٹس اور نہ صرف اس شہر بلکہ
ملک کے طاقت ور لوگوں کا بھی پیچھا نہیں چھورتی تھی۔ اس کے ساتھ اس کا دوست عاصم
جو کہ پیشے کے لحاظ سے کمیرا مین تھا علینہ کا ہمیشہ ساتھ دیتا تھا دونوں کی بہت
گہری دوستی تھی۔ اس رات بھی یہ دونوں بزنس مین اور بیوروکریسی کے ایک جرم کا راز
ڈھونڈنے ہی نکلے تھے۔ انہیں خبر ملی تھی کہ شہر کے مشہور ہوٹل میں ایک ایسی ڈیل
ہونے جارہی ہے جس کی وجہ سے کروڑوں روپے کا گھپلہ ہوگا۔ ایک سیمنٹ کمپنی کے مینیجر
اور گورنمنٹ کے سیکریٹری کے درمیان سڑکوں اور پل کی تعمیر کےلئے ایک ڈیل ہورہی تھی
۔ مگر یہ ڈیل خفیہ راز ہونے کے باوجود ان دونوں کے باخبر زرائع سے بچ نہیں سکی۔
علینہ اور عاصم نے اسی ہوٹل کی بالائی منزل میں عین اسی کمرے کے اوپر کمرا لیا اور
اپنے کیمرا اور لانگ اسٹک کی مدد سے نیچے ہونے والی اس ڈیل کی پوری ویڈیو بنا دی ۔
صبح کی نیوز پیپر اور چینلز میں یہ خبر آنے کی دیر تھی کہ اس کمپنی کا مارکیٹ
شیئرز یک دم سے گرنے لگ گئے اور کمپنی کو اربوں کا نقصان ہوا۔ اس کمپنی کے مالک کا
نام تھا ملک جواد ، ملک جواد ،ملک کے نامی گرامی بزنس مین ملک فواد کا بیٹا ہے۔
ملک جواد دنیا بھر میں اپنی کمپنی کی ساکھ کو کامیابی سے چلا رہا تھا وہ نہ صرف
جوان ، خو برو ،مضبوط اعصاب کا مالک تھا بلکہ ایک کامیاب بزنس مین بھی تھا۔ اس کے
باپ نے اسے ہمیشہ یہی نصِحت کی کہ "جہان پیسے سے کام بنتا ہو وہاں اپنا وقت
برباد مت کرو کیونکہ تہمارے لئے سب سے قیمتی تمہارا وقت ہے۔ کمپنی کی یہ خفیہ ڈیل
پکڑی گئی ہے یہ خبر بجلی بن کر ملک خاندان پر گری۔ ملک جواد نے فوراً اپنے کمپنی
کے اس منیجر کو آفس میں بلایا اور کہا کہ آپ کو ایک آفر کرتا ہوں کہ آپ اس ڈیل کا
سارا الزام اپنے سر لے لیں۔ میڈیا اور پولیس دونوں کہ یہی بتائیں کہ اس میں کمپنی
کا کوئی ہاتھ نہیں۔ بدلے میں آپ کو اور آپ کی فیملی کو لندن میں ایک عالی شان
بنگلہ اور دس کروڑ روپے کیش دئیے جائیں گے۔ اور جیل سے چھڑانا تو کوئی مسئلہ نہیں
ہے میرے بہترین وکیل کچھ ہی دنوں میں آپ کی ضمانت کرادیں گے۔ مینجر نے یہ آفر قبول
کرلی اور اور سارا الزام اپنے سر لیا ۔ اس رات علینہ کے موبائل کی گھنٹی بجی،
علینہ: ہیلو۔کون بات کرہا ہے؟ ملک جواد: میں وہ بات کر رہا ہوں جس کا آج آپ نے
کافی نقصان کردیا ہے۔ علینہ: جی میں سمجھی نہیں۔ ملک جواد: میں ملک جواد بات کر
رہا ہوں۔ علینہ: جی ملک صاحب کہیئے میں کیا کرسکتی ہوں؟ ملک جواد: کچھ نہیں بس آپ
سے ملاقات کرنی تھی اگر آپ کل صبح فری ہوں تو کل دس بجے کافی پیتے ہیں۔ علینہ:
سوچتے ہوئے۔ دس نہیں ۔۔۔۔۔۔ گیارہ بجے،اورپنی پسند کے کیفے کا نام بتایا۔ ملک
جواد: ٹھیک ہے۔ فون کٹ ہو چکا تھا مگر علینہ کے ذہن میں یہی چل رہا تھا کہ ملک
جواد کا اس کی خبر کی وجہ سے اتنا نقصان ہوا ہے تو اب وہ اس سے ملنا کیوں چاہتا
ہے؟ یہ تجسس اسے مجبور کر رہا تھا ملک جواد سے ملنے کے لئے اگلی صبح وہ تیار ہوکر
طے شدہ کیفے میں پنچ چکی تھی۔ علینہ نے آج تک ملک جواد کو دیکھا نہیں تھا اس لئے
اسے یہی پریشانی تھی کہ اسے پہنچانے گی کیسے مگر جیسے ہی وہ کیفے میں داخل ہوئی
اسے پورےہاال میں بہت کم لوگ نظر آئے اور ان سب میں خاص ایک نوجوان لگا اور یہی
خاص نوجوان ملک جواد تھا۔ وہ ملک جواد کی طرف بڑٰھنے لگی اور اسی اثنا میں ملک
جواد بھی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ملک جواد نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا ملک
جواد۔ ہائے میرا نام ملک جواد ہے علینہ: جی آئی ایم علینہ علینہ اب بیٹھ چکی تھی
جی بولئے آپ نے کیوں ملنا تھا مجھسے، علینہ نے اعتماد سے بات کا آغاز کیا ملک
جواد: میرے پاپا کہتے ہیں عقل مند دشمن سے دشمنی کرنے کے بجائے اس سے دوستی کرلو۔
اس سے زیادہ فائدہ تو نہیں ہوگا مگر آئندہ نقصان ہونے کا خدشہ بھی کم رہے گا
علینہ: آپ صاف صاف کہئے ملک جواد: آپ ذہین ہیں محنتی بھی ہیں۔ میں آپ کو اپنی
کمپنی میں جاب آفر کرنا چاہتا ہوں۔ بنگلہ، گاڑی اور اچھی سیلری۔ کیا کہتی ہیں آپ
علینہ: خوش ہوتے ہوئے۔ آفر تو اچھی ہے میں سوچوں گی ملک جواد ٹھیک ہے سوچ لجئے آپ
مجھے کل بتا سکتی ہیں۔ اگلے دن علینہ نے ملک جواد کو کال کر کے جاب کےلئے ہاں کردی
علینہ نے بہت جلد نہ صرف کمپنی بلکہ ملک جواد کے دل میں بھی جگہ بنا لی تھی۔ وہ
ملک جواد کی پرسنل اسسٹنٹ کی حیثیت سے جاب کر رہی تھی اور اس جاب کو وہ نہایت
ایمانداری سے کر رہی تھی اس نے کئی ڈیلز جو نا ممکن نظر آتی تھیں ملک جواد کے حق
میں منظور کرادی تھیں٘۔ ایک نہایت اہم ڈیل کے
سلسلے میں ملک جواد علینہ کے ساتھ اٹلی آیا ہوا تھا، اور وہ ڈیل علینہ کی ذہانت کی
بدولت ملک جواد کے حق میں ہوگئی تھی ملک جواد علینہ سے کافی خوش تھا۔ اس لئے ڈیل
ہونے ہر اس رات ملک حواد ہوٹل میں علینہ کے روم کے باہر موجود تھا۔دروازہ
کھٹکٹَانے ہرعلینہ باہر آئی ملک جواد: جلدی سے تیار ہوجاو ہم باہر ڈنر پر جارہے
ہیں۔ علینہ او کے کہہ کر واپس روم میں چلی گئی ایک گھنٹے بعد ملک جواد دوبارہ وہیں
موجود تھا۔ علینہ تیار ہوچکی تھی، نازک اندازحسینہ اس وقت بجلیاں گرا رہی تھی اور
ملک جواد ان بجلیوں سے گھائل ہوچکا تھا۔ ڈنر کرنے کے بعد دونوں نے شراب بھی پی لی۔
علینہ پیتی تو نہیں تھی مگر ملک جواد کی خوشی میں شریک نہ ہو کر وہ ملک جواد کو
ناراض نہیں کرسکتی تھی۔ اب دونوں کچھ نشے میں تھے مگر ملک جواد ڈرائیو کر کے ہوٹل
پہنچا علینہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی ملک جواد اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا
اور اس کی صراحی دار گردن پر کس کیا۔ علینہ بھی ملک جواد کی وجاہت سے متاثر تھی
اور کچھ شراب کا نشہ بھی اسے مست کر رہا تھا اور پھر ملک جواد نے اپنی جیب سے ہیرے
کی انگھوٹھی نکال کر جب علینہ کو پہنائی تو اس ہیرے کی چمک میں علینہ بھی جھوم گئی
اور خود کو ملک جواد بانہوں کے حوالے کردیا اور پھر یہ محبت، ہوس کا کھیل بن گئی
اور اہستہ آہستہ علینہ کے کپڑے اترنے لگے۔ ملک جواد نے علینہ کو بلکل ننگا کردیا
تھا، اس کا جسم واقع تعریف کے قابل تھا۔ ملک جواد نے علینہ کو مضبوطی سے اپنی طرف
کھینچا اور اپنےہونٹ علینہ کے ہونٹوں سے جوڑ لئے، علینہ بھی ملک جواد کا بھرپور
ساتھ دے رہی تھی اور ملک جواد کے بالوں میں پاتھ پھیر رہی تھی۔ اب جواد علینہ کے
پستانوں کی طرف متوجہ ہوا اور چونتیس ساءز کے پستانوں سے رس کشید کرنے لگا ، علینہ
مدہوش ہوئے جارہی تھی اس کی چوت گیلی ہوچکی تھی اور خوب مزے لے رہی تھی، جواد بھی
اپنی محبت کا بھرپور اظہار کر رہا تھا اور باری باری دونوں پستانوں کو چوس رہا
تھا، پھر جواد نے پوزیشن بدلی اور علینہ کو بستر پر دھکیل دیا، اب وہ علینہ کی چوت
کو اپنی انگلیوں سے مسل رہا تھا، اپنی انگلیوں پر گیلا پن محوس کر کے جواد سمجھ
گیا کہ یہی درست وقت ہے چوٹ مارنے کا اور پھر اس علینہ کی ٹانگیں کھول کر اپنے
ہونٹ علینہ کے ہونٹوں میں پیوست کردئے، اور اپنے لن کو علینہ کی چوت کا راستہ دکھا
دیا، علینہ کے چہرے پر درد کے آثار نظر آئے مگر کچھ ہی دیر بعد وہ مزے دنیا میں
سیر کر رہی تھی جواد نے اب اپنے دھکوں میں تیزی لاچکا تھا اور اس کے جھٹکے سے
علینہ کی آنکھین بند ہوتی اور پھر کھلتیں، وہ اس چودائی کو انجوائے کر رہی تھی.
علینہ کے ہاتھوں کو جواد کے قابو کیا ہوا تھا اور اس ہونٹ علینہ کے جسم کو چوم رہے
تھے کبھی ہونٹوں کو چومتا تو کبھی کانوں کی لو پر زبان پھیرتا اورپھر علینہ کے
خوبصورت سینے پر موجود چٹانوں کی طرح موجود پستانوں کہ چوسنے لگا اور کہیں کہیں
کاٹ بھی لیتا جس کی وجہ سے علینہ جنت کی سیر کر رہی تھی. مک جواد نے ایک بار پھر
پوزیشن تبدیل کی اور اس بار علینہ کو ڈوگی بننے کو کہا علینہ نے جواد کی بات پر
عمل کیا اور اپنے ہاتھ اور گھٹنوں کے بل ہوگئی، ملک جواد نے علینہ کی اٹھی ہوئی
گانڈ پر ایک تھپڑ لگایا جس سے علینہ کی سسکاری نکل گئی اور اس نے پہچھے مڑ کر جواد
کو ایک مست بھری نگاہ سے دیکھا، جواد علینہ کا اشارہ سمجھ گیا اور بنا وقت ضائع
کئے اپنے لن کو چوت میں داخل کردیا اب علینہ بھی اپنی گانڈ کو آگے پیچھے کر رپی تھی
اور کوشش کر رہی تھی کہ لن اس کی چوت کی جڑ تک جائےملک جواد کے دھکے اب طوفانی
رفتار اختیار کر گئے تھے اور علینہ بھی منزل کے قریب تھی ۔ جواد نے اب علینہ کے
بال پکڑ کر اپنے طرف کھیچے اور پوری طاقت سے جھٹکے مارنے لگا اور اسی وقت علینہ کی
چوت نے پانی چھوڑ دیا، جواد بھی اس مزے کو اور برداشت نہ کر پایا اور سارا پانی
علینہ کی چوت میں چھوڑدیا۔ دونوں اپنی منزل کو پہنچ چکے تھے اور دونوں بہت خوش
تھے۔باتیں کرتے ہوئے نجانے کب دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ ڈیل مکمل ہوچکی تھی اس لئے وہ
واپس پاکستان آگئے، پاکستان آتے ہی سب سے پہلے علینہ اپنے دوست عاصم کے گھر اس سے
ملنے گئی ۔ عاصم نے علینہ کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا مگر دل سے وہ خوش نہیں
تھا۔ علینہ اسے وہ تحفے دکھا رپہی تھی جو اسے ملک جواد نے دئے تھے اور کافی شاپنگ
بھی کرائی تھی، اس نے ایک گھڑی نکال کر عاصم کو دی، یہ تمہارے لئےعلینہ نے عاصم کو
مخاطب کیا عاصم: گھڑی کو دیکھتے ہوئے کافی مہنگی ہے علینہ: ہاں مگر تم سے زیادہ
نہیں عاصم: اب کیا ارادہ ہے؟ علینہ: مجھے جواد اچھا لگا ہے، میں اسے بہت جلد ممی
پاپا سے ملنوانے والی ہوں۔ عاصم: مسکراتے ہوئے، بہت اچھی بات ہے۔ اور پھر کچھ مزید
باتوں کے بعد علینہ چلی گئی مگر عاصم کی اداسی اپنی جگہ موجود تھی۔ وہ دل ہی دل
میں علینہ کو چاہتا تھا مگر کبھی بتا نہیں پایا تھااور اس نے اردہ کر لیا تھا کہ
اب وہ یہ بات کبھی زبان پر لائے گا بھی نہیں اگلی صبح، علینہ نے آفس میں داخل ہونے
کےلئے اپنا کارڈ سوئپ کیا تو کارڈ ناقابل استعمال ہےکا میسج اسکرین پر نمودار ہوا،
علینہ نے ایک بار پھر کارڈ سوئپ کیا اور اس بار پھر میسج یہی تھا وہ پریشان ہوتے
ہوئے ملک جواد کی سیکریٹری سےبولی، یہ کارڈ کام نہیں کر رہا مجھے دوسرا کارڈ جاری
کردو سیکریٹری: میڈم آپ کو کارڈ جاری نہیں کیا جاسکتا علینہ: غصے سے، کیون نہیں
جاری کیا جاسکتا؟ سیکریٹری: میڈم آپ کو نوکری سے فارغ کردیا گیا ہے علینہ : کیا
بکواس کر رہی ہو؟ علینہ بات مکمل کرتے ہی ملک جواد کے آفس کی طرف بڑھی، سیکریٹری
نے علینہ کو روکنے کی کوشش کی مگر علینہ نے اسے دھکیل دیا اس دوران ملک جواد آفس
سے باہر آیا، ملک جواد نے سیکریٹری کو آواز دی، علینہ کو اندر آنے دو علینہ نے ایک
بار پھر غصے سے سیکریٹری کو دیکھا اور کہا۔۔۔ دیکھ لیا۔۔ ملک جوادعلینہ کو لے کر
اندر آیا ، روم لاک کیا ۔ علینہ فوراً ملک جواد کے گلے لگ گئی علینہ ، شکر ہے تم
باہر آگئے ورنہ تمہاری وہ سیکریٹری بول رہی تھی کہ مجھے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔
میں کتنا ڈر گئی تھی پتا ہے ملک جواد نے مسکرا کر علینہ کو دیکھا اور اچانک اسے
اپنے آپ سے دور دھکیل دیا اور نہایت غصے میں غرایا میں اسے چود دیتا ہوں جو مجھے
نقصان پہنچاتا ہے۔ تجھے تیری اوقات دیکھائی ہے میںنےسالی رنڈی علینہ: گھبراتے
ہوئے،۔ جواد پلیز ایسے مت بولو، مذاق کر رہے ہونا ملک جواد: تجھے اب یہاں سے باہر
نکلوانے والا ہوں میں، کتیا اور اب نظر بھی مت آنا اس آفس کے آس پاس تجھسے بدلہ
لینا تھا میں جو میں نے لے لیا جا اب جا کر سب کو بول دے کہ تیرے ساتھ کیا ہوا ہے۔
علینہ سکتے میں آگئی تھی اسے پتہ چل چکا تھا کہ اس سے بدلہ لیا گیا ہے وہ پوری طرح
ٹوٹ گئی تھی وہ لڑکھراتی ہوئی ملک جواد کے کمرے اور پھر کمپنی سے باہر آگئی۔اسے
سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے، اور پھر وہ ایک ٹیکسی کے ذریعے اپنے گھر آگئی اسے
اپنے آپ کو سنبھالنے میں کئی دن لگ گئے۔ تین ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ وہ بہت کم
اپنے کمرے سے باہر نکلتی، اس کے والدین بھی اس کے بہت پریشان تھے کہ ایک نوکری کی
وجہ سے علینہ اتنی غمزدہ کیوں ہے؟وہ حقییقت سے نا آشنا تھے مگر جلد ہی انہیں سب
معلوم پڑگیا علینہ کے ساتھ ہوئے اس واقعے کے چار ماہ بعد علینہ کو اپنے جسم میں
تبدیلی محسوس ہونا شروع ہوگئی، وہ سمجھ نہیں پائی کہ یہ اس کے ساتھ کیا ہورہا
ہےمگر اس کی ماں تجربہ کار عورت تھی اور یہ بات اس سے چھپ نہیں سکی کہ علینہ حاملہ
ہوچکی ہے علینہ کی ماں نے اسے مشورہ دیا کہ اس بچے کو ضائع کرنا ہی بہتر ہوگا، مگر
علینہ ایسا نہیں چاہتی تھی چاہے وہ ملک جواد کا بچہ تھا مگر اتنا ہی حق علینہ کا
بھی تھا اس بچے پر لیکن علینہ بھی جانتی تھی کہ اس معاشرے میں بن بیاہی ماں کا کیا
حشر کیا جاتا ہے اس لئے اس نے ملک جواد سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اب علینہ کے
پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا اگر امید باقی تھی تو یہی کہ شاید ملک جواد کو اپنی
ہونے والی اولاد پر پیار آجائے اور شاید وہ اسے بچے سمیت قبول کر لے، اسی امید پر
اس نے ڈرتے ڈرتے ملک جواد کو کال کی ملک جواد: ہیلو علینہ: جی میں علینہ ملک جواد:
کیوں فون کیا ہے جلدی بولو علینہ: ہمت جمع کرتے ہوئے بولی ، میں تمہارے بچے کی ماں
بننے والی ہوں ملک جواد: کیا۔۔۔ سچ کہہ رہی ہو؟ علینہ ہاں سچ ہے یہ میں حاملہ ہوں
اور یہ بچہ تمہارا ہے، اب اگر تم نے اسے قبول نہیں کیا تو میں میڈیا کے سامنے چلی
جاوں گی اور ڈی این اے ٹیسٹ سے بھی ثابت ہوجائے گا کہ یہ بچہ تمہارا ہی ہے ملک
جواد: تمہیں ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ میرا بچہ ہے اور تم اس کی ماں،
تم میرے پاس آجاو میں تمہیں رانی بنا کر رکھوں گا علینہ خوش ہوکر بولی۔ میں جانتی
تھی تم اب بھی مجھسے پیار کرتے ہو ملک جواد نے اسے اپنے بنگلے پر آنے کو کہا علینہ
کی گاڑی ملک جواد کے بنگلے کے سامنے آکر رکی، ابھی وہ گاڑی سے اترنے ہی والی تھی
کہ اسے ملک جواد بنگلے سے نکلتا ہوا نظر آیا علینہ نے مسکرا کر ملک جواد کو دیکھا
اور گاڑی سے اتر کر اس کی جانب بڑھی لیکن اچانک ہی دو آدمی وہاں آپہنچے اور انہوں
نے ملک جواد کے سامنے علینہ کو پکڑا اور ایک آدمی نے ایک رومال علینہ کے منہ پر
رکھ دیا، کچھ ہی لمحوں بعد علینہ بے ہوش ہوچکی تھی. علینہ ہوش میں آرہی تھی آنکھیں
کھلتے ہی اسے سب سے پہلے جس بات کا احساس ہوا وہ یہ تھا کہ وہ کسی کمرے میں موجود
ہے اس کے آس پاس کوئی نہیں تھا علینہ نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اٹھ نہیں پائی، درد
کی شدید لہر نے اس کے پورے جسم کو جکڑ رکھا تھاعلینہ ہوش میں آرہی تھی آنکھیں
کھلتے ہی اسے سب سے پہلے جس بات کا احساس ہوا وہ یہ تھا کہ وہ کسی کمرے میں موجود
ہے اس کے آس پاس کوئی نہیں تھا علینہ نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اٹھ نہیں پائی، درد
کی شدید لہر نے اس کے پورے جسم کو جکڑ رکھا تھا، اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے
ساتھ کیا ہوا ہے۔ دماغ ماوف تھا مگر آہستہ آہستہ اسے سب یاد آنے لگا کس طرح وہ ملک
جواد کے بلانے پر اس کے گھر گئی اور کس طرح دو آدمیوں نے ملک جواد کے سامنے اسے
پکڑ لیا مگر ملک جواد نے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ ابھی انہی خیالوں میں گم تھی کہ اسے
اچانک اپنے جسم میں کچھ اجنبی چیز محسوس ہوئی اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو خوف
اور گھبراہٹ کے مارے اس کی چیخ نکل گئی، اس کا آپریشن ہوچکا تھا اور اس کے پیٹ پر
ٹانکے لگے ہوئے تھے وہ اب حاملہ نہیں رہی تھی یہ بات سوچ کر ہی اسے رونا آگیا ،
ایک ماں سے اس کا بچہ چھین لیا گیا تھا ابھی وہ اس درد کو برداشت بھی نہیں کر پا
ئی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور ملک جواد کمرے میں داخل ہوا۔ علینہ حیرت
کی شدت سے گنگ رہ گئی، ملک جواد اندر آتے ہی بولنے لگا، مجھےبدنام کرے گی مجھے۔
رنڈی اب تجھے میں نے وہ بنا دیا ہے جو کوئی عورت کبھی بننا نہیں چاپتی۔۔ میں نے
تجھے بانجھ بنا دیا ہے اب نہ تو حاملہ ہے اور نہ کبھی حاملہ ہو پائے گی۔ تیری یہی
سزا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ملک جواد کے کچھ آدمی اندر آئے اور ملک جواد نے انہیں حکم
دیا، اسے کہیں پھینک آو، بچ گئی تو اس کی قسمت اور نہ بچی تو لاش چیل کوے کھائیں
گے ملک جواد کے آدمیوں نے اسے لاش کی طرح اٹھا کر ایک گاڑی میں ڈال دیا، علینہ کا
بدن کام نہیں کر رہا تھا مگر اسے محسوس سب ہو رہا تھا، اسے صاف دکھائی دے رہا تھا
کہ گاڑی ایک بیا بان علاقے سے گزر رہی ہے جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور پھر
گاڑی رک گئی اور ان آدمیوں نے علینہ کو اٹھا کر کسی گھٹڑی کی طرح باہر رکھ دیااور
گاڑی اسٹارٹ کر کے چل دئیے علینہ بہت دیر وہیں پڑی رہی اور آخر کار اپنی ہمت جمع
کر کے اٹھنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے جسم کو گھسیٹتے ہوئے سفر طے کر رہی تھی اور پھر
اسے ایک گاڑی نظر آئی جو اسی راستے پر آرہی تھی جس پر علینہ موجود تھی، اپنی جان
بچانے کی آخری امید اس گاڑی تک رسائی ہی تھی یہ بات سوچ کر علینہ نے اپنا پورا ذور
لگا کر سڑک پر آگئی اور گاڑی میں موجود شخص نے ایک لڑکی کو اس طرح روڈ پر آتے دیکھ
کر فوراً بریک لگا دی. اگلے کچھ گھنٹوں میں علینہ اپنے گھر میں موجود تھی، اس کا
اور کوئی ٹھکانہ بھی تو نہیں تھا، اس کی ماں نے جب اسکی یہ حالت دیکھی تو ممتا سے
صبر نہ ہوسکا اور وہ فوراً اسے گھر میں لائی ۔ اگلے کچھ دن علینہ اور اسکی فیملی
دونوں پر بہت بھاری گزرے، علینہ کے جسم پر موجود زخم اب دھیر ے دھیرے بھر رہے تھے
مگر جو زخم اس کی روح پر آئے تھے وہ صرف بدلے سے ہی بھر سکتے تھے، علینہ نےبھی اب
ملک جواد سے بدلہ لینے کی ٹھان لی تھی لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا یہ وہ خود بھی نہیں
جانتی تھی۔ وہ نہایت طاقتور تھا پولیس ، پیسہ سب اس کی جیب میں تھا لیکن یہ ایک
عورت کا انتقام تھا اور کہتے ہیں کہ جب ایک عورت بدلہ لینے پر اتر آتی ہے تو وہ
اپنی ساری حدیں بھول جاتی ہے اگر اسے کچھ یاد رہتا ہے تو وہ ہے بدلہ علینہ شہر کے
سب سے بڑے اور مشہور کوٹھے میں کھڑی تھی، کوٹھے کی نائیکہ نے بغور اس کا جائزہ لیا
سر سے پیر تک دیکھنے کے بعد نائیکہ بول پڑی ، کیا لینے آئی ہو؟ علینہ: مجھے اس
کوٹھے کی سب بہترین رنڈی چاہئیے نائیکہ: ہائے کیا وقت آگیا ہے، تو کیا کرے گی اس
کا؟ علینہ: آپ یہ مت سوچیں کہ میں اس رنڈی کا کیا کروں گی بلکہ آپ یہ سوچیں کہ اس
ہیرے کا آپ کیا کریں گی، ملک جواد کی دی ہوئی اس ہیرے کی انگوٹھی کو اس نے کوٹھے
کی نائیکہ کو پکڑاتے ہوئے کہا۔ نائیکہ نے ہیرے کو دیکھ کر حیرت سے علینہ کی طرف
دیکھا اور پھر کوٹھے میں موجود ایک رنڈی کو آواز دی، رانی کہاں ہے؟ جواب ملا ارے
وہ تو اپنے فارم ہاوس پر ہوگی نائیکہ: لے جاو اسےاس کےپاس ۔ رانی شہر کی سب
خوبصورت اور مشہورکال گرل تھی ہر طرح کے لوگوں سے اس کا واسطہ پڑا تھا اور ہر طرح
کا سیکس وہ کر چکی تھی اس لئے جب علینہ اس کے سامنے آئی تو رانی کو زیادہ حیرت
نہیں ہوئی، لیکن وہ تجسس کا شکار تھی کہ ایک عام لڑکی اس کے کیا سیکھنا چاہتی ہے
اور کیوں علینہ نے رانی کو اپنی ساری کہانی سنادی، رانی خود بھی ایک عام گھرانے سے
تعلق رکھتی تھی مگر حالات نے اسے اس نہج پر لا پٹکھا تھا، علینہ اور رانی آپس میں
گھل مل گئے تھے دو ہفتے گزر چکے تھے علینہ کو اچھا محسوس کرانے کے لئے رانی اسے
شاپنگ پر لے جاتی اور اسے وہ سب بھی سکھا رہی تھی جو علینہ یہاں سیکھنے آئی تھی۔
ایک دن رانی نے علینہ کو اپنے پاس بلایا اور کہا، رانی: آج سے پریکٹیکل شروع
علینہ: تو کیا کرنا ہے اب؟ رانی: اپنے کپڑے اتارو علینہ: یہاں؟ رانی : ہاں یہیں
اور جلدی کرو علینہ نے چپ چاپ اپنی قیمض اتار دی ، رانی فورا ً بولی سارے کپڑے
اتارو، علینہ نے نیچے ٹراوزر پہن رکھا تھا جسے اس نے اتار دیا ۔ اب علینہ برا اور
پینٹی میں تھی، سفید رنگ کے برا میں اس کے پستان باہر نکلنے کو بیتاب تھے، رانی نے
بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے کہا، چل اب یہ بھی اتار اور ننگی ہوجا علینہ نے حکم
کی تعمیل کی اور برا کا ہک کھول دیا اور پینٹی بھی اتار دی، اب علینہ الف ننگی ایک
لڑکی کے سامنے کھڑی تھی، زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی نے اسے اس طرح بناء کپڑوں کے
دیکھا تھا مگر اب وہ ذہنی طور پر تیار تھی سب کچھ کرنے کے لئے۔ رانی اٹھ کر اس کے
قرہب آئی اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی اور پھر اس نے علینہ کے ایک پستان
کو پکڑ کر دبایا، علینہ کے منہ سے نکلی سسکاری سننے لائق تھی ۔ رانی: ایک بات یاد
رکھنا، سیکس کرنے والے بہت قسم کے ہوتے ہیں مگر جب کوئی مرد کسی رنڈی سے سیکس کرتا
ہے تو جانور بن جاتا ہے اور اس رنڈی کو غلام بننا پڑتا ہے، تجھے بھی سیکھنا ہوگا
کہ کیسے غلام بن کر بھی رانی بننا ہے، مرد کو لگتا ہے کہ چوادئی میں وہ ڈرائیور
اور عورت گاڑی ہے کہ جیسے چاہے اسے چلا لے ،مگر حقیقت یہ ہے کہ گاڑی خود ڈرائیور
کو یہ موقع دیتی ہے کہ اسے چلائے اگر گاڑی کو یہ منظور نہ ہو تو حادثہ بھی ہوجاتا
ہے اور نقصان بے چارے ڈرائیور کا ہوتا ہے۔ یہ کہہ رانی نے علینہ کے ہونٹوں پر اپنے
ہونٹ رکھ دئیے، علینہ کے لئے یہ حملہ بلکل متوقع نہیں تھا اس لئے اس نے مزاحمت کی
مگر علینہ کھلاڑی تھی فوراً علینہ ہاتھوں کو قابو میں کیا اور اپنی زبان کو علینہ
کے منہ میں ڈال دیا، اب علینہ کو رانی کی بات سمجھ آرہی تھی. اس لئے اس نے مزید
مزاحمت کرنے کے بجائے سیکس کے اس حصے کو سیکھنے کا فیصلہ کیا اور رانی کی زبان کو
چوسنے لگی ۔ رانی کے ہاتھ علینہ کے جسم پر چل رہے اور پورے شہر کو اپنے اشاروں پر
نچانے والی رانی علینہ کے جوان بدن سے کھیل رہی تھی، اب رانی علینہ کے پستانوں پر
ٹوٹ پڑی اور کسی وحشی کی طرح اس کے پستانوں کو چوسنے اور کاٹنے لگی، علینہ کو
تکلیف اور مزہ دونوں مل رہے تھے رانی نے علینہ کے پستانوں کو چوس کر اور کاٹ کاٹ
کر لال کردئیے تھے اور پھر رانی نے اچانک اپنی دو انگلیاں علینہ کی چوت میں ڈال
دیں علینہ کے منہ سے غیر انسانی آواز نکلی جیسے ابھی گر کر مر جائے گی۔ مگر رانی
کو اس پر بلکل ترس نہیں آیا اور اسنے اپنا کام جاری رکھا ، علینہ کی چوت میں اب
گیلا پن آنا شروع ہوگیا تھا اس لئے اب وہ سکاریاں بھر رہی تھی. علینہ مزے کی دنیا
میں سیرکر رہی تھی اس کی ٹائٹ چوت میں دو انگلیاں پھنس پھنس کر جارہی تھی اور اس
کی چوت پر انگلیوں کی رگڑ علینہ کو مست کر رہی تھی۔ رانی علینہ کے چہرے پر موجود
تاثرات کا بغور جائزہ لے رہی تھی اور پھر اسنے اگلا وار کیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ
کر اپنا منہ علینہ چوت پر رکھ دیا، علینہ اس وقت کھڑی ہوئی تھی اور رانی بیٹھ کر
علینہ کی دونوں ٹانگوں کے بیچ اپنا منہ دے کر اس کے چوت میں سے رس کشید کر رہی تھی
، علینہ پہلے ہی مزے کی وادیوں تھی اور نیچے سے رانی کی تجربہ کاری نے بھی اپنا
کام دکھایا اور علینہ کی چیخیں نکلنا شروع ہوگِئیں اور اگلے ہی لمحے علینہ کی چوت
سے ایک گرم پانی کی دھار نکلی جو رانی نے بخوشی اپنے منہ میں بھر لی اور کھڑی
ہوگئی اور اپنا منہ کھول کر علینہ کے سامنے آئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے
سارا پانی گلے سے اتار لیا. اور علینہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اب یہ سب
تمپہں کرنا ہے بنا کچھ پوچھے اور مجھے کسی چیز میں کوئی کمی نہیں چائیے۔ اور ہاں
ایک بات یاد رکھنا مجھے ٹھنڈا کرنا اتنا بھی آسان نہیں ہے
علینہ اس سارے عمل کے بعد اب اپنے حواس بحال کرچکی
تھی اس لئے اس نے بھی ایک عزم سے کہا میں یہاں یہ سب اسی لئے سیکھنے آئی ہوں کیوں
کہ مجھے بدلہ لینا ہے اور اس بدلے کے لئے میں کچھ بھی کرسکتی ہوں تمھین ٹھنڈی بھی
کرسکتی ہوں۔ رانی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی، اب علینہ نے اپنے پونٹ رانی کے
ہونٹوں سے ملادئیے اور جس پر ابھی بھی اسکی چوت کے پانی کے قطرے لگے ہوئے تھے
علینہ شدت کے ساتھ رانی کے پونٹ چوس رہی تھی اور پھر اس نے ایک پاتھ سے رانی کی
نائٹی بھی اتار دی جس کے نیچے اس نے پنک کلر کی برا اور پہ پنک پینٹی پہن رکھی تھی
علینہ نے برا کا ہک کھول کر برا کو اپنے گلے میں باندھ دیا جیسے خود کو اسکا غلام
بتانا چاہ رہی ہو۔ رانی نے بھی آگے بڑھ کر علینہ کے گلے میں موجود برا کو پکڑ کر
نیچے کیا جس کی وجہ سے علینہ کو بھی نیچے جھکنا پڑا اور پھر علینہ نے رانی کا
اشارہ سمجھتے ہوئے رانی کی پینٹی اتار دی اور اپنے ہونٹ رانی کی چوت پر رکھ دئیے،
رانی بھی اس سیکس کو انجوائے کر رہی تھی اس لئے اس کی چوت گیلی ہوچکی تھی ، علینہ
نے بنا کسی جھجھک کے پانی چھورتی ہوئی چوت کو چوسنا شروع کردیا اور اپنی زبان کو
جتنا ہوسکے اندر ڈالنے کی کوشش کی دو منٹ بعد رانی نے علینہ کو گردن سے پکڑ کر
کھڑا کیا اور کسسنگ کرنے لگی اور اپنی چوت کا ذائقہ بھی چکھنے لگی رانی نے علینہ
کو لیٹنے کا اشارہ کیا اور خود اس کے مخالف یعنی اس کی چوت کی طرف منہ کر کے لیٹ
گئی اب علینہ کے منہ کے اوپر رانی کی چوت اور رانی کے منہ کے نیچے علینہ کی چوت
موجود تھی جسے دونوں بہت محنت اور شدت سے چوس رہی تھی اور بیچ بیچ میں کاٹ بھی
لیتیں، علینہ کو اب اپنے جذبات روکنا مشکل ہو رہا تھا اس لئے اور زیادہ لگاو سے
چوت چاٹنے لگی اور اپنی پوری زبان اندر ڈالنے لگی، رانی نے بھی اب ہتھیار ڈال دئیے
تھے اور دونوں اپنی منزل بلکل قریب تھیں اور علینہ نے اپنی دونوں کے بیچ میں رانی
کے سر کو چکڑ لیا اور رانی بھی اپنا سارا زور علینہ کے منہ پر ڈال دیا اور دونوں
نے تقریباً ساتھ ہی اپنا پانی چھوڑا جسے دونوں پی گئیں ، دونوں لیٹے لیٹے ہی اپنی
سانسیں بحال کرنے لگیں لیکن علینہ اس سبق کے بعد اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی تھی اس
لئے اس نے رانی سے سوال کیا اب کیا سیکھنا ہے؟ رانی نے مسکراتے ہوئے کہا جان من
ابھی تو چوت چاٹی ہے لیکن کسی مرد کو پھنسانے کےلئے اس کے لنڈ پر بیٹھنا پڑتا
ہےاور کسی مرد کو کیسے رجھانا ہے یہی تیرا اگلا سبق ہے۔ رانی علینہ کو ایک نائٹ
کلب میں لائی تھی یہاں آج علینہ کو اکیلے کسی مرد کا شکار کرنا تھا اور یہی اس کا
آخری امتحان تھا جس کے لئے علینہ ذہنی طور پر پوری طرح تیار تھی، نائٹ کلب میں
چلتی ہیجان خیز موسیقی اور اس پر تھرتھراتے جسم نہایت اثر انگیزماحول پیدا کر رہے
تھے جو ہر انسان کو اپنے آپے سے باہر کر رہا تھآ علینہ نےنائٹ کلب میں موجود مردوں
پر نظر ڈالی اور پھر ایک نوجوان پر علینہ کی نظر رک گئی اور اپنا شکار مل گیا تھا
اب علینہ اس نوجوان کے قریب کھڑی تھی مگر علینہ اکیلے ہی ڈانس کر رہی تھی علینہ نے
اس نوجوان کی طرف دیکھنا بھی بند کردیا تھا لیکن کچھ ہی دیر بعد اس لڑکے نے علینہ
کو دیکھا اور پھر وہ خود کو اس کے پاس جانے روک نہیں پایا، ٹائٹ جینز اورسیاہ رنگ
کے ٹاپ میں وہ نہایت سیکس لگ رہی تھی اب وہ لڑکا علینہ کے ساتھ ڈانس کر رہا تھا
اور پھر لڑکے نے شور بھرے ماحول میں علینہ سے مخاطف ہو کر کہا، یو آر ویری بیوٹ
فول اینڈ ہاٹ، علینہ نے مسکرا کر اس لڑکے پر نظر ڈالی اور کہا رئیلی؟؟ لڑکے نے
ڈانس جاری رکھتے ہوئے علینہ کی پتلی کمر میں ہاتھ ڈال کر کہا یس یو آر۔ علینہ اس
نوجوان سے اور قریب ہوگئی اور کہا آپ بھی کچھ کم نہیں، نوجوان ایسے کلب میں آنے
والی لڑکیوں کو اچھی طرح سمجھتا تھا، وہ جانتا تھا کہ ایسی لڑکیاں اپنی تنہائی سے
تنگ ہوکر یہاں مزے کرنے اور اپنے جسم کی آگ ٹھنڈی کرنے آتی ہیں اور اسی طرح یہاں
موجود لڑکے بھی ایسی لڑکیوں کی تاک میں رہتے ہیں۔ اب علینہ اور اس لڑکے کے بیچ آنکھوں
ہی آنکھوں میں سمجھوتا ہوچکا تھا اس لئےوہ لڑکا علینہ کو اپنے ساتھ لے کر کلب کی
کار پارکنگ مین لے آیا اور اب دونوں کو کچھ بولنے اور سننے کی ضرورت نہیں تھی،
نوجوان نے علینہ کو کار میں پچھلی سیٹ پر بٹھایا اور خود بھی اندر بیٹھ کر گاڑی
لاک کردی اندر بیٹھتے ہی لڑکے نے علینہ کو سر کے تھاما اور علینہ کے نازک ہونٹوں
کو چوسنا شروع کردیا علینہ بھی اسی موقع کے انتظارمیں تھی اس نے بھی جوابی وار کیا
اور لڑکے کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی اور پھر شرٹ اتار بھی دی، لڑکا بھی جلدی اس
کھیل میں شامل ہونا چاہ رہا تھا اس لئے علینہ کا ٹاپ اوپر کر اس کے پستانوں کو
چومنے اور چاٹنے لگا اب علینہ کی آنکھوں میں مستنی بڑھنے لگی تھی کسی مرد کو اپنے
جسم سے کھیلتا پوا محسوس کر کے اسے افسوس بھی ہوا کیوںکہ وہ ایسی لڑکی ہر گز نہیں
تھی مگر ملک جواد نے اسے ایسا بنا دیا ہہ سوچتے ہی علینہ جنونی بن گئی اور لڑکے کی
اور کمر پر اپنے ناخنوں کا دباو بڑھا دیا لڑکا بھی اب اپنی حد پار کرچکا تھا اس
لئے فوراً علینہ کی جینز کھول کر اتار دی اور نیچے موجود پینٹی بھی چند لمحوں کی
مہمان ثابت ہوئی اور اگلے ہی لمحے لڑکے نے اپنی انگلی علینہ کی چوت میں ڈال دی
علینہ سسکاری بھر کر لڑکے کی طرف مست بھری نظروں سے دیکھنے لگی اور پھر اس نے بھی
لڑکے کی پینٹ اتار دی اور انڈروئیر میں موجود سخت لنڈ کو باہر نکال دیا علینہ ابھی
اس لنڈ کو دیکھ ہی رہی تھی کہ لڑکے نے علینہ کے بالوں کو چکڑ کر اپنے لنڈ کی طرف
جھکا دیا علینہ اس کے لئے تیار نہیں تھی مگر رانی نے اسے سب کچھ سکھا دیا تھا اس
لئے اگلے ہی لمحے اس نے لنڈ پر کس کی اور پھر آہستہ آہستہ لنڈ کو اپنے ہونٹوں سے
گزارتے ہوئے منہ میں لے لیا اور پھر لڑکے نے نیچے سے جھٹکے لگانے شروع کردئیے،
لڑکا انتظار کے موڈ میں بلکل نہیں تھا اس لئے تھوڑی دیر لنڈ چسوانے کے بعد اس نے
علینہ کو گھوڑی بنایا اور اپنا لنڈ علینہ کی چوت میں داخل کردیا علینہ گھوڑی بنی
ہوئی تھی اور جگہ کم ہونے کی وجہ سے اس کا سر دروازے کی کھڑکی سے باہر نکل رہا تھا
اور ہر جھٹکے کے ساتھ وہ دروازے کے ساتھ جا لگتی لڑکا علینہ کی بھرپور چدائی کررہا
تھا اور جوش میں آکر علینہ کی گانڈ پر تپھڑ بھی لگا رہا تھا اسی دوران علینہ چھوٹ
گئی مگر لڑکا ابھی اس چدائی کو جاری رکھے پوئے تھا اور پھر علینہ کے کاندھوں کو
مضطوطی سے تھآم کر آخری جھٹَکے لگانے گا اور چوت کے اندر کی چھوٹ گیا اس شارٹ مگر
ہاٹ چدائی کے بعد علینہ وہیں تھک کر گر گئی اور لڑکے نےگاڑی میں موجود ایک کپڑے سے
اپنا لنڈ صاف کیا اور اپنی جینز میں سے بٹوہ نکال کر اس میں ہزار کے کچھ نوٹ نکال
کر علینہ کے سینے پر رکھ دئیے اور خود جینز پہننے لگا، اسی دوران علینہ بھی اپنے
حواس میں واپس آچکی تھی اور پیسوں کو دیکھ اس نے کوئی رد عمل نہیں دیا، وہ لڑکا
علینہ کو کوئی رنڈی ہی سمجھا تھا اس لئے علینہ نے کوئی وضاحت دینے کے بجائے اپنے
کپڑے پہنے اور گاڑی سے اتر گئی لڑکے نے مسکرا کر علینہ کودیکھا اور کہا یو آر ہاٹ
بے بی بائے، علینہ نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی ذیشان کو
گولف کافی پسند تھی اس لئے وہ شہر کے مشہور گولف کلب میں اکثر گولف کھیلنے آتا
رہتا تھا، ویسے تو ذیشان شادی شدہ تھا مگر ایک امیر آدمی ہونے کا فائدہ وہ اکثر
اٹھاتا تھا اور عیاشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا مگر وہ اپنے کام کا
ماہر اور مخلص ضرور تھا وہ ملک جواد کی سیمنٹ کمپنی کا ڈائریکٹر تھا۔ علینہ اسی
گولف کورس میں موجود تھی اور پھر وہ ذیشان کی جانب بڑھی اور ذیشان کو مخاطب کر کے
بولی، ہائے کیا مجھے آپ کا آٹو گراف مل سکتا ہے؟ ذیشان حیران ہوتے ہوئے جی میرا
آٹوگراف؟ علینہ: جی آپ کوئی معمولی شخصیت تو نہیں ہیں آپ کی وجہ سے ملک اینڈ کمپنی
کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے میں نے آپ کا انٹرویو پڑھا تھا ایک نیوز پیپر میں علینہ
کی باتوں سے زیادہ زیشان کو علینہ کا لحجہ متاثر کر رہا تھا، سرخ رنگ کے مختصر سے
لباس میں علینہ قیامت ڈھا رہی تھی اور رانی کے سکھائے ہوئے ہر طریقے سے ذیشان کو
گھائل کر رہی تھی، ذیشان نے پین مانگا تو علینہ نے اپنی لب اسٹک نکال کر دے دی اور
پھر آٹو گراف لینے کے ساتھ ذیشان کا نمبر بھی مانگ لیا جو ذیشان نے خوشی خوشی لکھ
کر دے دیا۔ علینہ ملک جواد کو تباہ کرنے کےلئے ایک پلان کے ساتھ ذیشان سے ملی تھی
اور یہ پلان کا پہلا حصہ تھآ اب علینہ ذیشان سے فون پر بات کرنے لگی تھی اور کچھ
ہی دن بعد علینہ نے ذیشان کو ایک ڈنر کی دعوت دے دی، یہ دعوت علینہ کے گھر پر ہی
تھی ، ذیشان کی بیوی ذیشان سے بے حد محبت کرتی تھی مگر ذیشان کو اس سب کی کوئی پرواہ
نہیں تھی کیونکہ اس وقت اس کے سامنے علینہ جیسی حور موجود تھی جس کی ہرادا قاتلانہ
تھی ذیشان علینہ کے گھر پہنچ چکا تھا، اس وقت وہ دونوں دوسرے کے سامنے موجود کھانے
کی ٹیبل پر وائن پی رہے تھے، اس مہنگی شراب نے دونوں پر سرور طاری کیا ہوا تھا مگر
علینہ نے ایک حد تک پی اور ذیشان کو شراب پلانے پر زیادہ توجہ دی اور پھر دونوں
اٹھ کر بیڈ روم کی طرف چل دئیے، دونوں کے جسم آگ میں جل رہے تھے، فرق صرف یہ تھا
کو ذیشان کا جسم ہوس کی آگ سے مگر علینہ کا جسم بدلے کی آگ سے جھلس رہا تھآ، علینہ
نے آگے بڑھ کر ذیشان کا کوٹ اتارا اور پھر اس کی شرٹ بھی اتار دی، ذیشان بھی کچھ
زیادہ جذباتی تھا اس لئے علینہ کو جکڑ لیا اور بھر پور کس کرنے لگا مگر علینہ اسے
بے خود کر دینا چاہتی تھی اس لئے اپنے ہونٹ پیچھے کر کے نیچے جھک گئی اور ذیشان کی
پینٹ اتار کر اس کے انڈوئیر کو بھی اتار پھینکا اب ذیشان بنا کپڑوں کے کھڑا تھا
مگر علینہ کے منہ میں اس وقت اس کا لنڈ بھی اکڑ چکا تھا جسے علینہ نہایت تجربہ
کاری سے چوس رہی تھی ذیشان اب جوشیلا ہوگیا اور بے قابو ہوتے ہوئے علینہ کے منہ
میں اپنے لنڈ کو آگے پیچھے کرنےلگا جیسے اس کے منہ کو چوت سمجھ لیا ہو،علینہ بھی مہارت
کو خوب مظاہرہ کر رہی تھی کبھی وہ ذیشان کا لنڈ پورا منہ میں لیتی تو کبھی اس کی
بالز کو چوستی اور چاٹتی تھوڑی ہی دیر بعد علینہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ذیشان کو مخاطب
کر کے بولی ڈارلنگ لیٹس پلے اے گیم ، ذیشان ابھی سمجھ بھی نہیں پایا تھا کہ علینہ
نے اسے بیڈ پر دھکا دیا اور پاس موجودایک کپڑے سے اس کی انکھوں پر پٹی باندھ دی
اور پھر اس کے ہاتھ بھی بیڈ کے کناروں سے باندھ دئیے اور خود اس کے سخت لنڈ پر
بیٹھ گئی اور گانڈ اٹھا اٹھا کر اچھلنے لگی لیکن اب ذیشان کو کچھ نظر نہیں آرہا
تھااس لئے علینہ نے بیڈ پر ہی موجود ذیشان کے کپڑوں میں سے ذیشان کا موبائل نکال
کر اس کا بلو ٹوتھ آن کیا اور اس میں موجود ملک اینڈ کمپنی کی تمام فائلز کو اپنے
موبائل پر سینڈ کرنا شروع کردیا، اس دوران وہ ذیشان کے لنڈ پر اچھلتی رہی تا کہ
ذیشان کو کچھ پتا نہ چلے اور پھر ذیشان فارغ ہونے کے قریب آگیا تو اس نے علینہ کو
اپنے سینے سے لگالیا اور اس کے ہونٹون چوستے ہوئے نیچے سے فوری رفتار کے ساتھ
جھٹکے لگانے لگا علینہ بھی ذیشان کا مکمل ساتھ دینےلگی، کمرہ دونوں کی آوازوں سے
گونج رہا تھا اور پھر دونوں اپنی منزل کو پہنچ گئے اور علینہ جیسے ذیشان کے سینے
سے چپک گئی شہر کے مشہور ہوٹل میں آج ایک بلڈر کی ملک جواد سے میٹنگ ہونے والی تھی
، وہ بلڈر اس وقت واش روم میں موجود اپنے ہاتھ دھو رہا تھا جب علینہ دروازہ کھول
کر اندر گھسی ، بلڈر ایک انجان حسینہ کو اندر آتے دیکھ کر بوکھلا گیا ، علینہ اس
کے پاس آ کھڑی ہوئی اور اس سے کہنے لگی علینہ : لگتا ہے آپ کو اپنا نقصان کرانے کا
بہت شوق ہے بلڈر: کیا مطلب؟ علینہ: ملک جواد کی کمپنی کے ساتھ ڈیل کرکے آپ اپنا
نقصان ہی کریں گے، ملک جواد کی کمپنی اس وقت گھٹیا ترین میٹریل بنا رہی ہے اور اسے
مہنگے داموں بیچ بھی رہی ہے کیونکہ اس کمپنی کی مارکیٹ ویلیو زیادہ ہے لیکن شاید
آپ یہ نہیں جانتے کہ اس سے بھی کم ریٹ میں سیمنٹ مل سکتی ہے لیکن اس کے لئے آپ کو
میرے ساتھ ایک ڈیل کرنی ہوگی ، پانچ کروڑ روپے میرے اکاونٹ میں جمع ہوجانے چاہئیے،
اور آپ کو سستی سیمنٹ کیسے ملے گی یہ میں آپ کو میٹنگ سے پہلے ای میل کردوں گی،اس
ای میل میں وہ کچھ ہے جو آپ کو آدھی قیمت میں سیمنٹ دلوا سکتی ہے۔ ڈیل منظور ہو تو
بولیں بلڈر پریشان ضرور تھا مگر علینہ کی باتوں کو بغور سن رہا تھا، سوچتے ہوئے
بولا، تم کون ہو یہ میں نہیں جانتا مگر میں ایک بزنس مین ہوں
مجھے جس میں فائدہ ہو میں وہی کام کرتا ہوں سو تہماری یہ ڈیل بھی
مجھے منظور ہے علینہ نے ٹشو پر اپنا اکاونٹ نمبر لکھتے ہوئے کہا، آدھے گھنٹے میں
پیسے پہنچ جانے چاہئیے، میٹنگ میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہےاور مسکراتے ہوئے باہر
نکل گئی اس ڈیل سے ملک جواد کی کپنی کو کروڑوں کا نقصان ہوا تھا لیکن ملک جواد اب
تک سمجھ نہیں پایا تھا کہ اس کا دشمن کون ہے اور کس نے اس بلڈر کو اس کی کمپنی کی
خفیہ معلومات دیں، اس بلڈر کو کس طرح معلوم ہوا کہ اس کی کمپنی اسٹارک مارکیٹ میں
جتنی مارکیٹ ویلیو رکھتے ہیں وہ سب دکھاوا ہے۔ ابھی ملک جواد انہی سوچوں میں گم
تھا کہ اس کے پاس کال آئی، ملک جواد نے کال ریسوکی اور بولا۔۔ ہیلو۔۔ کسی رہی آج
کی میٹنگ۔ مجھے یقین ہے کہ تمہیں یہ ڈیل سائن کر کے بلکل اچھا نہیں لگا ہوگا۔۔ ملک
جواد:آواز پہنچانتے ہوئے ، علینہ؟؟ علینہ: واہ تم تو میری آواز پہنچان گئے، چلو تو
پھر سنو اب تمہیں میں تباہ کرنے آئی ہوں یہ ڈیل تو ابتداء ہے آگے آگے دیکھو ہوتا
ہے کیا۔ کال کٹ چکی تھی لیکن ملک جواد پریشان اور ہکا بکا کھڑا تھآ۔۔ علینہ گھر سے
باہر گئی ہوئی تھی جب ملک جواد کے کچھ بندے علینہ کے گھر میں گھسے اور اس کے پورے
گھر میں ہر جگہ خفیہ کیمرے نصب کرنے لگے، اس بات کا خاص خیال رکھا جارہا تھا کہ
علینہ کے اٹھتے بیٹتھتے کھاتے پیتے ہر حرکت پر نظر رکھی جائے۔ یہ کام کرنے کے بعد
جس خاموشی سے وہ علینہ کے گھر میں گھسے تھے اسی خاموشی سے وہ گھر سے باہر نکل
گئے۔۔ علینہ گھر واپس آکر نہانے باتھ روم چلی گئی، اپنی گداز مگر گرم بدن کی حدت
کو کم کرنے کےلئے وہ شاور کے نیچے اپنے جسم کو پانی سے ٹھنڈا کرر ہی تھی، اور پھر
وہ ایک باتھ ٹاول لپیٹ کر باتھ روم سے بار آگئی اس دوران وہ ٹیبل پر بیٹھ کر خود
کو دیکھنے لگی کہ اچانک بے دھیانی میں اس کا ٹیبل پر موجود گلدان سے ٹکرا گیا اور
وہ گلدان نیچے گر پڑا، علینہ نیچے پڑا گلدان اٹھانے کے لئے جھکی ہی تھی کہ اسے
گلدان کے ساتھ کچھ چپکا ہوا نظر آیا۔ کچھ ہی لمحوں میں اسے سمجھ آگیا کہ وہ ایک
خفیہ کیمرا ہے جو نہایت ہی چھوٹے سائز کا ہے۔۔اس نے اس کیمرے کی طرف دیکھے بنا
گلدان اٹھایا اور واپس وہیں رکھ دیا جہاں گلدان موجود تھا اور اس گلدان کے ساتھ
چپکا ہوا کیمرا بھی وہیں لگا رہنا دیا۔۔ علینہ نے اپنا موبائل اٹھا کر ذیشان کا
نمبر ڈائل کیا۔ ذیشان: یس مائی ڈارلنگ، علینہ: اپنی آواز کا ہیجان خیز بناتے ہوئے
۔۔۔جان مجھے تمہاری بہت یاد آرہی ہے، پلیز آجاو میرے پاس۔ ذیشان اس وقت اپنی بیوی
سے دور بیٹھآ ہوا تھا، بیوی نے ذیشان کو فون پر بات کرتے دیکھا تو اس کے قریب
آگئی، ذیشان نے جلدی سے موبائل پر جواب دیا۔ یس باس۔۔ ابھی پہنچتا ہوں۔۔ پانچ منٹ
میں ذیشان کی بیوی جس کا نام ماہرہ تھا، ذیشان سے پوچھا۔۔۔ کہاں جارہے ہیں آپ ؟
ذیشان: یار باس کی کال تھی ابھی بلایا ہے جانا ضروری ہے ماہرہ: مایوس ہوتے ہوئے۔۔
لیکن آج تو آپ میرے ساتھ باہر لنچ کرنے والے تھے نا۔۔ ذیشان: دلاسہ دیتے ہوئے
بولا۔۔ آئی ایم سوری جان مگر باس نے بلایا ہے ہم کل لنچ کرلیں گے باہر۔۔ اوکے میں
جارہا ہوں۔۔بائے علینہ کے گھر پہنچتے ہیں ذیشان بے دھڑک علینہ کے بیڈ روم میں گھسا
مگر اسے علینہ کہیں نظر نہیں آئی ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ علینہ نے آواز دی،
ذیشان یہاں آجاو ذیشان نے علینہ کی آواز کا تعاقب کیا تو وہ باتھ روم میں موجود
تھی اور شاور سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی، ذیشان کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ
آگئی، ذیشان فوراً باتھ روم میں گھس آیا جہاں علینہ بلکل ننگی شاور کے نیچے کھڑی
نہا رہی تھی، علینہ کی پیٹھ ذیشان کی طرف تھی ذیشان نے بنا انتظار کئے اپنے کپڑے
اتارنا شروع کئے اور کچھ ہی دیر میں وہ بھی قدرتی لباس میں موجود تھآ اور علینہ کی
پیٹھ سے لپٹ گیا اور اس کے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگا جو پانی سے گیلا ہورہا تھا اور
پھر اس نے اپنے ہاتھ کو نیچے لاتے ہوئے علینہ کے نرم اور ابھرے ہوئے چوتڑوں پر رکھ
دیا اور اسے دبانے لگا اور اسکا دوسرا ہاتھ علینہ کے پستانوں کو دبا رہا تھا اس
ڈبل مزے سے علینہ کی سسکاریاں نکل رہی تھی، اب ذیشان نے علینہ کا چہرہ اپنی طرف
کرتے ہوئے علینہ کے ہونٹ چوسنے لگا جیسے وہاں شہد لگا ہو، شاور سے نکلتا پانی اب
دونوں کے ہونٹوں مییں جارہا تھا جسےدونوں پی رہے تھے ، اب ذیشان سے زیادہ صبر نہیں
ہورہا تھآ اس لئے بنا انتظار کئے اس نے اپنا اکڑا ہوئے لنڈ کو علینہ کی چوت کا
راستہ دکھایا اور علینہ کی چوت کے دروازے پر دستک دی، چونکہ علینہ کھڑی تھی اس لئے
لنڈ ٹھیک سے اندر نہیں گیا تو علینہ نے اپنی ٹانگیں اور کھول دیں، ذیشان جیسے اسی
کا اتنظار کر رہا تھا، ذرا سی جگہ ملتے ہی ایک زور دار جھٹکا علینہ کی چوت پر دے
مارا، علینہ کے جسم میں درد اور مزے کی ملی جلی لہر دوڑ گئی، جسے برداشت کرتے ہوئے
علینہ نے اپنے دانت ذیشان کےکاندھے پر گاڑھ دئیے، ذیشان بھی جنونی ہوگیا اور اپنے
جھٹکوں کو طوفانی رفتار دے دی اور علینہ کے چوتڑوں کو پکڑ کو اٹھا لیا اورنیچے سے
طوفانی دھکے مارنے لگا، اب علینہ اور ژیشان دونوں منزل کے قریب تھے، علینہ کے منہ
سے سس اور آہیں نکلنا جاری تھیں صاف پتا چل رہا تھا کہ علینہ اس کھیل میں کتنے مزے
لے رہی ہے، اور اسی مزے کے دوران اس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا ذیشان کے جھٹکے جاری
تھی اب ذیشان نے علینہ کو دیوار سے لگا کر جھکا دیا اور پیچھے سے اپنا لنڈ ایک
جھٹکے سے چوت میں گھسا دیا، علینہ نے پیچھے مڑکر ذیشان کی طرف دیکھا اور بولی دم
نہیں ہے کیا؟ مرد بن مرد ذیشان کے جسم میں جیسے آگ بھڑک گئی اور ذیشان پاگل سا
ہوگیا، علینہ کے بالوں کو پکڑ کر چودنے میں پوری جان لگا دی، اور اب ذیشان کی اس
جاندار چودائی سے علینہ کی چوت میں گرمی پھر سے بڑھنے لگی تھی اور اگلے تین منٹ
میں دونوں ایک ساتھ چھوٹ گئے، اور پھر دونوں ایک ساتھ نہانے کے بعد باہر آگئے
علینہ نے گاون پہن لیا تھا جبکہ ذیشان نے اپنے کپڑے پہن لئے تھے، علینہ اب کچھ
اداس نظر آرہی تھی، ذیشان نے بھی یہ بات نوٹ کی اور علینہ سے پوچھ بیٹھا، ذیشان:
کیا ہوا؟ اتنی اداس کیوں ہو گئی ہو؟ علینہ: مجھے تمہیں ایک بات بتانی ہے۔ ذیشان:
بتاو علینہ: وعدہ کرو تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاو گے ذیشان: ارے میں تمہیں کیوں
چھوڑوں گا؟میں تم سے پیار کرتا ہوں علینہ: لیکن میں جو تمہیں بتانے والی ہوں وہ
بھی ایک بہت بڑی بات ہے ذیشان: الجھتے ہوئے، اب بتا بھی دو علینہ: میں نے تمہارے
موبائل سے کچھ سیکرٹ فائلز نکالی ہیں جس کی وجہ سے ملک انڈسٹری کو نقصان پہنچا ہے،
ذیشان: کیا؟؟ تم نے ایسا کیوں کیا؟ علینہ: پلیز مجھے غلط مت سمجھنا میں نے سب
مجبوری میں کیا۔ ذیشان: غصے میں آتے ہوئے، مجبوری میں تم نے میرا استعمال کیا، اب
باس کو کیا جواب دوں گا میں۔ علینہ: کچھ نہیں ہوگا، کسی کو پتا نہیں چلے گا پلیز
تم مجھ سے پیار نہیں کرتے کیا؟ ذیشان: پریشان ہوکر، کرتا ہوں پیار مگر یہ سب ٹھیک
نہیں ہوا۔۔ یہ کہہ کر ذیشان اٹھ کر جانے لگا تو علینہ بھی اس کےپیچھے اٹھ کھڑی
ہوئی اور ذیشان کو آواز دی۔۔۔۔ذیشان۔۔۔۔۔۔۔۔ ذیشان نے پلٹ کر جب علینہ کو دیکھا تو
وہیں منجمد ہوگیا، علینہ نے اپنا گاون اتار پھینکا تھا اور اب وہ اپنے دلکش اور
مرمریں برہنہ جسم کے ساتھ وہاں کھڑی تھی، ذیشان کے لئے یہ نظارہ برداشت سے باہر
تھا اور پھر عورت کے جسم نے اسے وفاداری کا سبق بھلا دیا اور وہ دوڑ کر علینہ کے
سینے سے لگ گیا اور اپنے ہونٹ علینہ کے ہونٹوں سے جوڑ دئیے ہوس کا کھیل ایک بار
پھر چل پڑا۔ لیکن یہ سب کچھ ملک جواد کے لگائے ہوئے خفیہ کیمروں میں ریکارڈ بھی ہو
رہا تھآ، ذیشان اور علینہ اس وقت سیڑھیوں پر موجود تھے، علینہ نیچے اور ذیشان اس
کے اوپر چودائی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا، دونوں ہی اس مزے میں گم تھے مگر
علینہ جانتی تھی کہ یہ سب ملک جواد بھی ضرور دیکھ رہا ہوگا، ان کیمروں کے ذریعے
ملک جواد پورے گھر کی نگرانی کر رہا تھا اور جسم میں گرمی بھر دینے والے یہ نظارے
ملک جواد اس وقت براہ راست اپنے گھر میں موجود ٹی وی پر دیکھ رہا تھا، ملک جواد کو
ذیشان پر سخت غصہ آرہا تھا کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ یہی وہ غدار ہے جس کی مدد سے
علینہ نے ملک جواد کو نقصان پہنچایا ہے اور اب ملک جواد نے ان دونوں کو سبق سکھانے
کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اگلی صبح ذیشان اپنی کار میں مردہ حالت میں پایا گیا، پولیس
کاروائی میں پتا چلا کہ کسی نے ذیشان کو گولی مار کر قتل کردیا ہے، اور اسی شام
پولیس نے علینہ کو حراست میں لے لیا، ملک جواد کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر
میں علینہ پر شک کا اظہار کیا گیا تھا اور پھر ملک جواد کی طاقت کے آگے سارے جھوٹ
سچ ہو گئے،پولیس نے علینہ پر قتل کا کیس فائل کردیا اور عدالت میں پیشی بھی ہوئی
جس میں ملک جواد نے علینہ اور ذیشان کی سیکس ویڈوز بھی دکھائیں، ان سب ثبوتوں کے
ساتھ اور جھوٹے گواہان نے علینہ کے خلاف گواہی دی جس کی وجہ سے علینہ کو بہت جلد
سزا ہوسکتی تھی علینہ کو اپنی شکست نظر آرہی تھی لیکن کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ بازی
پلٹتے دیر نہیں لگتی علینہ کے گرفتار ہونے سے قبل ملک جواد کی کمپنی کو سرکاری 400
کروڑکے میگا پروجیکٹ کا کنٹریکٹ ملا تھا یہ کنٹریکٹ ملک جواد نے ایک کیبنٹ منسٹر
کو 40 کروڑ روپے کی رشوت دے کر حاصل کیا تھا لیکن علینہ نے اس پروجیکٹ کی ساری
تفصیلات ذیشان کے ذریعے معلوم کرلی تھیں اور ذیشان نے مرنے سے ایک دن پہلے علینہ
کو سب کچھ بتا دیا تھا کہ کس طرح ملک جواد نے یہ کنٹریکٹ حاصل کیا ہے، ابھی علینہ
اس کنٹریکٹ کو لے کر ملک جواد کو نقصان پہنچانا ہی چاہتی تھی کہ اسے گرفتار کرلیا
گیا ۔ علینہ سے پولیس کی پوچھ گچھ جاری تھی اسی دوران علینہ نے پولیس آفیسر کو اس
منسٹر سے ملوانے کا کہا، پولیس والا علینہ کی اس دیدہ دلیری پر حیران ضرور ہوا مگر
وہ جانتا تھا کہ سیاست میں پیسہ اورعورت دونوں لازم ہیں اس لئے اس نے علینہ کا
پیغام اس کیبنٹ منسٹر تک پہنچا دیا اس منسٹر کا نام یونس ابڑو تھا وہ نہ صرف منسٹر
تھا بلکہ ایک طاقتورسیاسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا، سیاست میں کئی سال گزار کر اس
نے بہت سے تعلقات بنا لئے تھے، پولیس آفیسر کے پیغام کے جواب میں یونس نے ملنے کی
حامی بھرلی مگر سوال یہ تھا کہ ملنا کہاں ہے، کیونکہ علینہ جیل سے باہر آ نہیں
سکتی تھی اور منسٹر جیل جا نہیں سکتا تھا، اس کا حل بھی اسی پولیس آفیسر نے دیا۔۔
پولیس آفیسر نے علینہ کو پولیس وین میں ایک سنسان روڈ پر لے آیا جہاں یونس بھی
موجود تھا، یہیں دونوں کی ملاقات طے پائی تھی ، یونس: ویسے تو میں تم سے ملنے سے
انکار بھی کرسکتا تھا مگر سیاست میں نہ کا لفظ استعمال کرنے سے منع کیا جاتا ہے اب
بتاو تم کیا چاہتی ہو؟ علینہ: ملک جواد کو ،لنے والے کنٹریکٹ میں آپ کو 40 کروڑ کی
رشوت دی گئی ہے، اور یہ بات مجھے ذیشان نے مرنے سے پہلے بتا دی تھی۔ یونس: کھوکھلی
ہنسی ہنستے ہوئے:، اور یہ تم ثابت کیسے کروگی؟ علینہ: ثبوت جمع کرنے کے لئے
اپوزیشن پارٹی ہے، میڈیا ہےایف آئی اے ہے۔ مجھے تو بس کل کورٹ میں یہی کہنا ہے کہ
آپ نے رشوت لی پے ۔ آپ سوچ لیجئے آپ کو کیا کرنا ہے۔۔ہم دونوں ساتھ جیل میں بھی رہ
سکتے ہیں اور باہر بھی۔۔ فیصلہ آپ کا ہے۔ یہ معنی خیز جملہ کہتے ہوئے علینہ نے
اپنا ہاتھ یونس کی ٹانگ پر رکھ دیا۔۔ یونس: آپ کی باتیں تو مجھے مشکل میں ڈال رہی
ہیں۔۔۔فکر نہ کریں کل آپ رہا ہوجائیں گی۔ اور یہ کہہ کر یونس گاڑی سے اتر گیا۔۔
یونس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اگلے دن کی پیشی میں علینہ کو ضمانت پر رہا کردیا رہا
ہونے کے بعد چوہدری یونس نے علینہ کو اپنے فارم ہاوس پر بلایا ہوا تھا جہاں اس وقت
دونوں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ یونس اپنی ہوس بھری نگاہوں سے علینہ کے جسم کا
معائنہ کررہا تھا، علینہ پر کشش جسم کی مالک تھی اور پھر اس نے تو اس کام میں
ٹریننگ لے رکھی تھی اس لئے وہ بھی اپنے جلوے دکھا کر یونس کو پاگل کر رہی تھی۔
یونس: آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا میں نے اب آپ تک پہنچنے کے لئے کوئی راستہ
بھی دکھا دیں علینہ: آپ کی پنچ تو بہت اوپر تک ہے مگر مجھ تک پہنچنے کےلئے آپ کو
میرا ایک کام کرنا ہوگا
رہا ہونے کے بعد چوہدری یونس نے علینہ کو اپنے
فارم ہاوس پر بلایا ہوا تھا جہاں اس وقت دونوں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ یونس اپنی
ہوس بھری نگاہوں سے علینہ کے جسم کا معائنہ کررہا تھا، علینہ پر کشش جسم کی مالک
تھی اور پھر اس نے تو اس کام میں ٹریننگ لے رکھی تھی اس لئے وہ بھی اپنے جلوے دکھا
کر یونس کو پاگل کر رہی تھی۔ یونس: آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا میں نے اب آپ تک
پہنچنے کے لئے کوئی راستہ بھی دکھا دیں علینہ: آپ کی پہنچ تو بہت اوپر تک ہے مگر
مجھ تک پہنچنے کےلئے آپ کو میرا ایک کام کرنا ہوگا یونس: بے تابی سےکیسا کام؟
علینہ: وہ کیا ہے نا میری بچپن سے خواہش تھی کسی بینک میں کام کرنے کی، یونس: اب
علینہ کے پاس بیٹھ چکا تھا، یہ میری پہنچ سے باہر ہے علینہ جی علینہ: اگر ایسی بات
ہے تو پھر میں بھی آپ کی پہنچ سے باہر ہوں۔۔یہ کہہ کر علینہ اٹھ کھڑی ہوئی یونس:
بہت ضدی ہیں آپ، اور یہ کہتے ہی یونس اب علینہ پر پل پڑا، اور علینہ کی شرٹ اتارنے
لگا، علینہ بھی اب یونس کو اور ترسانہ نہیں چاہتی تھی بینک کی ڈائریکٹر کی پوسٹ
چاہئیے، سٹی بینک۔۔نام یاد رکھئیے گا۔ یونس جو اب علینہ کے پستانوں کو دبا رہا تھا
اور چوس رہا تھآ، جلدی سے بولا۔۔ ڈن۔۔ مجھے منظور ہے۔۔ علینہ اب اپنے آپ کو یونس
کے حوالے کرچکی تھی، لیکن دل ہی دل میں وہ اپنے مقصد کی کامیابی پر خوش تھی۔ وہ
اپنے مقصد سے بس کچھ ہی قدم کی دوری پر تھی۔۔ ملک سیمنٹ کمپنی کی سالانہ ایگزیکٹیو
بورڈ کی میٹنگ شروع ہونے والی تھی، مگر ایک نئے بورڈ آف ڈائریکٹر کا انتظار ہورہا
تھا، جو کہ سٹی بینک کی ڈائریکٹر تھی۔ اسی دوران علینہ میٹنگ ہال میں داخل ہوئی
ملک جواد اور اس کا باپ ملک فواد بھی اس میٹنگ میں موجود تھے، علینہ کو کمپنی کے
چئیرمین ملک فواد کے ساتھ والی سیٹ ملی، میٹنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ملک جواد نے چیخ
کر علینہ سے کہا، نکلو یہاں سے تم کیسے اس میٹنگ میں آگئیں، علینہ کے جواب دینے سے
پہلے باپ کی طرف سے ڈانٹ سننے کو ملی، جواد چپ ہوجاو، فواد مجھے کس طرح سے ویلکم
کیا جارہا ہے؟ علینہ نے ملک فواد کو اس کے نام سے پکارتے ہوئے کہا ملک فواد ضبط
کرتے ہوئے، سوری مس علینہ آپ فرمائیے۔ علینہ: میرا آج پہلا دن ہے یہاں سو مجھے اس
کمپنی کے بینک اکاونٹ سمیت ہر قسم کے اکاونٹ کے پاسورڈز چاہئیے، تا کہ میں اس
کمپنی کے ہر معاملے کو اسٹڈی کر سکوں۔ ملک فواد: غصے اور گھبراہٹ کے ملے جلے تاثر
کے ساتھ بولا، سیکریٹری پلیز مس علینہ کو جو بھی پاسورڈز یا انفارمیشن چاہئیے
انہیں دے دی جائے۔ ملک جواد کو اس وقت اپنے غصے پر قابو پانا مشکل ہورہا تھآ،
میٹنگ ختم ہوتے ہی ملک فواد نےاپنے بیٹے کو کمرے میں بلایا ملک فواد: یہ کیا ہورہا
ہے جواد؟ چلاتے ہوئے۔ ایک طرف ہماری کمپنی کا ایک ڈائریکٹر جیل میں ہے اور ایک مر
چکا ہے اور اب شہر کی رنڈی ہماری کمپنی کی ڈائریکٹر بن گئی ہے اور مجھے ملک فواد کو
میرے نام سے پکار رہی ہے۔ ملک جواد: ڈرتےہوئے بولا۔۔پاپا میں سنبھال لوں گا۔۔ پاپا
مجھے وقت دیں۔۔ ملک فواد: یہ لاسٹ وارننگ ہے تمہاری مجھے نتیجہ چاہئیے۔۔سمجھے تم
یس سسس پاپا، ملک جواد کے اب طوطے اڑ چکے تھے۔۔ مگر ملک جواد اب کچھ نہیں کر پارہا
تھآ۔۔ علینہ نے نہ صرف پاسورڈ حاصل کئے بلکہ ملک سیمنٹ کمپنی کی ہر جعل سازی کو
کھود نکالا ملک اینڈ سیمنٹ کمپنی کی سالانہ میٹنگ ہونے والی تھی جہاں نہ صرف میڈیا
بلکہ کمپنی کے شئیر ہولڈرز بھی موجود ہونگے،اور ملک جواد بلکل نہیں چاہتا تھا کہ
علینہ وہاں آکر کوئی ہنگامہ کھڑا کرے اور کسی بھی طرح ان کی کمپنی کو نقصان ہو۔ اس
لئے ملک جواد نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ علینہ کو قید کر لیں اور کسی بھی طرح
میٹنگ سے پہلے نہ چھوڑیں۔ دوسری طرف علینہ ملک جواد کی اس حرکت کے لئے بلکل تیار
تھی اورعاصم اس کا پرانا دوست بھی اس کی مدد کےلئے موجود تھآ، ملک جواد کے غنڈے
علینہ کے گھر پر آدھمکے جہاں علینہ ملک جواد کی سیمنٹ کمپنی کے خلاف موجود تمام
ثبوتوں کو ایک فائل کی شکل دے رہی تھی، عاصم نے غنڈوں گھر میں گھستے دیکھا تو
علینہ کو خبردار کردیا اور دونوں گھر کے پچھلے دروازے سے بھاگ نکلے، غنڈے ابھی بھی
انکا پیچھا کر رہے تھے، عاصم اور علینہ اپنے گاڑی میں سوار ہو کر اپنی منزل کی
جانب بڑھنے لگے اور ان کی منزل کہیں اور نہیں ملک اینڈ کمپنی کی سالانہ میٹنگ کی
جگہ تھی۔ غنڈے اب بھی اپنی جیپ پر ان کا پیچھا کر رہے تھے لیکن عاصم اپنے ڈرائیونگ
صلاحیتوں کا پورا استعمال کرتے ہوئے پچھے موجود جیپ کو پاس پنچنے نہیں دے رہا تھا
اسی دوران غنڈوں نے فائرنگ بھی کی مگر خوش قسمتی سے کوئی گولی انہیں یا گاڑی کو
نہیں لگی اب عاصم اور علینہ سالانہ میٹنگ کی بلڈنگ کے بہت قریب پہنچنے والے تھے
مگر ٹریفک جام ہوچکا تھا اور یہاں اب دونوں پھنس چکے تھے نا گاڑی آگے جاسکتی تھی
اور نہ ہی پیچھے، ملک جواد کے غنڈے بھی اب نزدیک آچکے تھے اور پیدل اتر کر ان کی
طرف بھاگنے لگے، عاصم نے علینہ کو بھاگنے کا کہا اور خود ان غنڈوں کو روکنے کے لئے
ان کی طرف بڑھاعلینہ بھی اب منزل کے اتنے قریب آکر پیچھے ہٹنا نہیں چاہتی تھی اس
لِئے وہ بلڈنگ میں گھس گئی، اور میٹنگ میں آن پہنچی جہاں اس وقت ملک جواد اپنی
کمپنی کی ترقی کی کہانیاں سنا کر شئیر ہولڈرز اور میڈیا کو خوش کر رہا تھآ لیکن
علینہ نے آتے ہی چلا کر کہا مسٹر ملک جواد اسٹاپ اٹ تمہاری یہ بکواس اب کوئی سننے
والا نہیں بلکہ اب لوگوں کو تمہاری اصلیت کا پتا چلے گا کہ کیسے تم پلاٹس لے کر ان
پر کمپنی نہیں بناتے مگر میڈیا اور شئیر ہولڈرز حتی کہ گورنمنٹ کے اداروں کو بھی
بے وقوف بنا رہے ہو، سب کی نظر میں تمہاری کمپنی ترقی کررہی ہے اوراسٹاک مارکیٹ
میں تمہاری کمپنی کے شئیرز کی ویلیو بھی بڑھ رہی ہے مگر اب یہ ڈرامہ نہیں چلے گا۔۔
یہ ثبوت اب سب دیکھیں گے۔ یہ کہہ کر علینہ نے وہ ڈاکومنٹس میڈیا اور کیمرا کے
سامنے دکھانا شروع کردئیے اور کیمرا مین ان کاغذات کی تصویری لینا شروع کردیں۔۔
علینہ نے بات جاری رکھی، ان ثبوتوں کی ایک فوٹو کاپی منسٹری آف ڈیفنس کو بھی بھیجی
جاچکی ہے اب ملک جواد کے لئے وہاں سے بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا مگر وہ
بھاگ کر جاتا بھی کہاں ، ملک جواد اس وقت بھاگ کر سیدھا اپنے آفس گیا، اپنے آفس
پہنچ کر جیسے ہی وہ اپنی کمرےمیں پہنچا اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔۔ علینہ وہاں بھی
موجود تھی۔۔ تم یہاں ؟؟ ملک جواد نے حیرت بھرے لہجے میں سوال کیا۔۔ تمہاری بربادی
کی کہانی میرے سامنے مکمل ہونی چاہئیے تبھی مجھے سکون ملے گا۔۔ ملک جواد نے دراز
سے پسٹل نکال کر علینہ پر تان لیا، میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔۔ علینہ ہنستے
ہوئے میں تو اسی دن مر گئی تھی جب تم نے مجھے اسی آفس میں دھکے دے کر باہر نکال
دیا تھآ ملک جواد جان گیا تھا کہ علینہ کو مار کر کوئی فائدہ نہیں ہوگا الٹا وہی
جیل کی سلاخوں کے پہیچھے اور کئی سال سڑے گا یا پھر پھانسی ہوجائے گی، اسے اپنے
باپ کا سامنا کرنے کا سوچ کر ہی ڈر لگ رہا تھا جو اسے اتنی بھیانک غلطی کرنے پر
کبھی نہیں بخشتا۔۔ اس نے پسٹل اپنی کنپٹی پر تان لی اور کہا، تمہیں میں جیتنے نہیں
دوںگا۔۔ یہ سر کہیں نہیں جھکے گا یو بچ اور یہ کہہ کر جواد نے ٹریگر دبا دیا۔۔مگر
گولی نہیں چلی ابھی جواد مزید ٹریگر دبا رہا تھا کہ علینہ قہقہ لگانے لگی اور کہا،
کیا ہوا؟ جیت نہیں پائے؟ گولیاں تو میں نے پہلے ہی نکال لی تھیں۔۔ علینہ کی بات
ابھی جاری تھی کہ پولیس دروازہ توڑ کر اندر گھس آئی اور ملک جواد کو گرفتار
کرلیا۔۔علینہ نم آنکھوں کے ساتھ اپنی جیت کو دیکھ رہی تھی۔ اسے اپنا بدلہ مل چکا
تھا اسے اپنا مقصد مل چکا تھا، وہ سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے گی وہ، زندہ رہنے کا
مقصد تو وہی تھا جو اس نے پالیا اب کیا؟ آنے والے کچھ ہفتوں میں ملک جواد کو ذیشان
کے قتل، عوام کے ساتھ جعل سازی اور گورنمنٹ کے ساتھ دھوکہ دہی کے جرم میں پھانسی
کی سزا سنائی گئَی اور ملک اینڈ سیمنٹ کمپنی کے تمام اکاونٹس کو منجمد کردیا گیا،
ملک خاندان سڑکوں پر آچکا تھا۔ علینہ اب اس گھر سے اپنا سامان سمیٹ رہی تھی جہاں
اس نے ذیشان کے ساتھ کچھ رنگین راتیں گزاری تھیں۔ مگر وہ سب بھی انتقام کا حصہ تھا
اس لئے اس کا دل اس گھر میں بلکل نہیں لگا، عاصم بھی اس کے ساتھ موجود تھا، علینہ:
میں سوچ رہی ہوں لندن چلی جاوں اپنی باقی کی پڑھائی بھی پوری کر لوں گی اور ان سب
سے دور بھی چلی جاوں گی۔۔ عاصم: تم کہیں نہیں جاوگی؟ علینہ: کیوں؟ تم کیوں روک رہے
ہو مجھے؟ عاصم: یہاں کیا پرابلم ہے تمہیں، اپنے آنسو بمشکل روکتے ہوئے بولا علینہ:
تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو، بولو عاصم : کیوں کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں ایڈیٹ۔۔
نظر نہیں آتا تمہیں۔ علینہ: حیرت کے مارے منہ کھول کر دیکھ رہی تھی، میں نے کبھی
۔۔۔۔ عاصم نے ٹوکتے ہوئے کہا، ہاں کیوں کہ تم ملک جواد کے پیار میں اندھی ہوگئی
تھی، اس وقت تمہیں کچھ نظر نہیں آرہا تھا مگر میں تمہیں تب بھی پیار کرتا تھا اور
اب بھی کرتا ہوں دونوں گلے لگ گئے، شاید دونوں کو قرار آگیا تھا۔ علینہ کو بھی
جینے کی وجہ مل گئی تھی۔ علینہ آنسو پونچتے ہوئے بولی، تم یہ سامان پیک کرو میں
ابھی آتی ہو، وہ کمرے سے باہر آگئی جہاں پورا چاند اپنی روشنی بکھیر رہا تھا اور
علینہ اپنے مستقبل کو سوچ رہی تھی کہ اچانک اسے ذیشان کو بیوی اس پر پستول تانے
ہوئی نظر آئی ابھی علینہ اس سے مخاطب ہونے ہی والی تھی کہ اس نے گولی چلا دی جو
سیدھا علینہ کے سینے میں جا گھسی اور پھر دوسری گولی اس کے پیٹ میں لگی، علینہ گر
پڑی، گولی کی آواز سن کر عاصم بھاگتا ہوا باہر آیا جہاں علینہ نیچے گری ہوئی تھی
اور ذیشان کی بیوی اب پستول اپنے سر پر لگا کر کھڑی تھی اور پھرعاصم کے سامنے اس
نے اپنے سر میں گولی مار دی، اور وہیں اس کی موت ہوگئی، علینہ بھی اب آخری سانس لے
رہی تھی ، تم نے میرا بہت ساتھ دیا عاصم، آئی لو یو، ہوسکے تو مجھے معاف کردینا
میں تمہیں سمجھ نہیں پائی تم۔۔۔۔۔ بات پوری ہونے سے پہلے ہی اس کی روح اس کے جسم
کو چھوڑ چکی تھی
1 تبصرے
جواب دیںحذف کریںRawlpindi islamabd ke Koi larki ya ourat sex krna chati ho to rabta kry baki cityke b rabta kr sakti hai 0314921703232جو لڑکیاں اور عورتیں سیکس کا فل مزہ لینا چاہتی ہیں رابطہ کریں
حذف کریں
thanks