ہم ۔دوست پانچویں قسط

مارچ 25, 2021



ہم ۔دوست

پانچویں قسط

تم ساری چیزیں بمطابق لسٹ لاۓ ہو یہ سُن کر میں نے شکر ادا کیا اور جانے کے لیۓ مُڑا تو وہ بولی ۔۔ سناؤ کل رات تمھارے ساتھ سُلطانہ کا رویہ کیسا تھا ۔۔ تو میں نے کہا رُوبی جی حیرت انگیز طور پر کل رات سلطانہ کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا سُن کر بولی مجھے دعائیں دو بچہ جس نے تمھارا کام ایک دم فٹ کر دیا ہے پھرکہنے لگی مزے کرو دوست اب سلطانہ تمھارے ساتھ پہلے والی سلطانہ ہو گی- میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو وہ بولی اس مین شکریہ کی کوئ بات نہیں ۔۔ اس کے بدلے میں تم نے میرا بھی کام کرنا ہو گا تو میں نے کہا بولیں میں ہر طرح سے حاضر ہوں تو وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔۔ سُنو تم سلطانہ سے جو مرضی کرو مجھے اس سے کوئ غرض نہیں ہو گی بلکہ اُلٹا میں تمھاری ہیلپ کروں گی لیکن تم کو میرے ساتھ دو تین وعدے کرنا ہوں گے تو میں نے پوچھا رُوبی جہ وہ کیا تو وہ کہنے لگی پہلا وعدہ وہ جو ہر لڑکی لڑکے سے لیتی ہے مطلب یہ بات صرف میرے بیچ رہے گی ۔۔ اور دوسرا وعدہ زرا سخت ہے سوچ لو تم نبھا پاؤ گے تو میں نے کہا آپ پلیز بتاؤ میں نبھانے کی پوری کوشش کروں گا ۔۔ تو وہ کہنے لگی وعدہ کرو میں تم کو جس ٹائم بھی بلاؤں تم ہر صورت آؤ گے ۔۔۔ تو میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور بولا میں ایسا ہی کروں گا ۔۔۔ اور پھر ویاں سے جانے لگا تو اچانک ایک بات میرے زہن میں آ گئ اور مین نے اس سے کہا روبی جی!! آپ سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں تو وہ بولی ضرور پوچھو !!! تو میں نےاس سے کہا کہ آج میں دو تین دفعہ آپ کے گھر آیا گیا ہوں اور ہر دفعہ مجھے کہ آپ کی ماما کچھ اپ سیٹ نظر آئیں ۔۔ اس کی کوئ خاص وجہ ہے کیا ۔۔۔ کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے میرے ساتھ کھبی ایسا بی ہیو نہیں کیا تھا میری بات سُن کر وہ ہنس پڑی اور بولی واقعی یار آج ماما بڑی اپ سیٹ ہیں تو میں نے اس سے پوچھا اس کی وجہ کیا ہے تو وہ کہنے لگی وجہ وہی ہے جو میں نے تم کو بتائ تھی پھر خود ہی بولی ۔۔۔ رات کو پہلے تو ماما میرے ساتھ والی چارپائ پر کروٹیں بدلتی رہیں پھر مجبور ہو کر ابو کے پاس گئ لیکن میرا خیال ہے ان کا کام نہیں بنا کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد وہ واپس آگئ تھی اور تب سے وہ کافی اپ سیٹ ہیں ۔۔۔۔ یہ سُن کر کہ آج اس کی ماما بہت گرم ہیں اور کوشش کے باوجود بھی اس کی چودائ نہیں ہوئ ۔۔۔۔ مجھے ایک دم ہوشیاری آگئ اور میرے لن نے پینٹ کے اندر ہی ایک زور دار انگڑائ لیکر میرے کان میں سرگوشی کی اور بولا۔۔۔ موقعہ چنگا تو فائدہ اُٹھا لے مُنڈیا " یہ سوچ ابھی میرے دماغ میں ابھی آئ ہی تھی کہ اچانک روبی نے اپنے نتھنے سُکیڑنے شروع کیے اور شکی لہجے میں بولی ۔۔۔ ابھی ابھی مجھے تمھارے جسم سے شہوت انگیز حیوانی بُو کا بھبکا آیا ہے اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔ اس کی بات سُن میری تو گا نڈ پھٹ کے گلے میں آ گئ اور ایک دفعہ تو مجھے ایسا لگا کہ میں اس کی ماما کے بارے میں ایسا ویسا سوچتے ہوۓ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہوں اور مجھے کچھ سمجھ نا آیا کہ میں اس کی بات کا کیا جواب دوں اسی دوران اچانک میری نظر اس کی نیم عریاں چھاتی پر پڑ گئ اور پھر ودن نو سکینڈ سارا پلان میرے دماغ میں آ گیا ۔۔ چنانچہ میں نے بڑے ہی پیار سے اس کی طرف دیکھا اور رومانٹک لہجے میں بولا ۔۔۔ میڈم جی مجھ سے شہوت انگیز حیوانی بُو کیوں نا آۓ ۔۔۔۔ میں نے آپ کے خوبصورت نیم عریاں بریسٹ جو دیکھ لیۓ ہیں ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کچھ شرما سی گئ اور بولی تم سچ کہہ رہے ہو نا ۔۔۔؟؟ تو میں نے ڈائیڑیکٹ ان پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا ان حسین مموں کو دیکھ کر تو مُردہ بھی اُٹھ جاۓ میری تو حیثیت ہی کچھ نہیں ۔۔ یہ سُن کر وہ نشیلے سے لہجے میں بولی ۔۔ چوم نا میرے بریسٹ کو اور میں نے اس کے کھلے گلے والی قمیض کے اوپر سے ہی اس کے مموں کو چومنا شروع کر دیا ۔۔ اس کے سارے بدن سے ایک سکیسی کلون کی خوشبو آ رہی تھی ۔۔۔ پھر اس نے میرا سر پکڑ کر اوپر کیا اور بولی ۔۔۔اب میرے ساتھ لپ کسنگ کرو اور میں نے اس سے کسنگ شروع کر دی ۔۔ کچھ دیر تک وہ مجھ سے اپنے نرم لپ چوسواتی رہی پھر اچانک اس نے مجھے دھکا کر کر خود سے الگ کیا اور بولی اب تم فوراً یہاں سے دفعہ ہو جاؤ۔۔ کہ مجھے تیار بھی ہونا ہے اور میں حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے کسنگ کا کہہ رہی تھی اور اب دفعہ ہونے کا کہہ رہی ہے ۔۔۔ عجیب خبطی لڑکی تھی ۔۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ ۔۔۔ میں نے یہ سوچا اور پھر بڑا بے مزہ ہو کر اس کے کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔ میں دروازے سے باہر جا ہی رہا تھا کہ مجھے سامنے سے آنٹی اپنے کمرے کی طرف جاتی نظر آئ ان کو دیکھتے ہی میں نے پاس چلا گیا اور بڑے ہی تپاک سے ان کو ملا اور پھر اسی پُر جوش لیکن زُو معنی لہجے میں ان سے پوچھا آنٹی جی آپ نے شادی کے لیۓ کونسا سوٹ بنوایا ہے۔۔ ؟؟ تو وہ بولی کالے شیڈ والا سوٹ ہے ان کی بات سُن کر میں ان کے بلکل پاس کھڑا ہو گیا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے ہی معنی خیز لہجے میں بولا ۔۔۔ آنٹی جی آپ کے پاس کالے رنگ کا میچنگ کیچر ہے ؟ اگر نہیں تو میں آپ کو لا دیتا ہوں ۔۔۔ کالا اور موٹا سا کلپ ؟ میری بات سُن کر ان کی آنکھوں میں ایک لحضے کے لیۓ چمک سی آئ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ نارمل ہو گئ اور سیریس ہو کر بولی ۔۔۔ تھینک یو بیٹا یہ سب لڑکیوں کے چونچلے ہیں اور اپنے کمرے میں داخل ہو گئ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی بات سُن کر میں نے اپنے کندھے اُچکاۓ اور بولا جیسے آپ کی مرضی اور رفیق سے ملے بغیر باہر آ گیا ۔۔ گلی میں آ کر دیکھا تو محلے میں شادی کی رونق شروع ہو گئ تھی لڑکیاں رنگ برنگے لباس پہنے منہ پر منوں میک اپ کی تہیں چڑھاۓ ملک صاحب کے گھر کی طرف جا رہی تھیں ۔۔۔ میں بھی ادھر کو چلنے لگا اور راستے میں مجھے ملک صاحب مل گۓ ۔۔۔ دیکھتے ہی بولے شاہ پُتر ۔۔ کوسٹر والے آگۓ ہیں زرا جا کر ان سے چاۓ پانی کا پوچھ آؤ اس سے قبل کہ میں ان کو کوئ جواب دیتا ان کا بھتیجا جو پاس ہی کھڑا تھا بولا انکل میں نے ان کو چاۓ وغیرہ دے دی ہے یہ سُن کر ملک صاحب نے اس کو شاباش دی اور پھر میں نے ان سے کہا انکل بارات کب نکلے گی تو وہ کہنے لگے یار میں نے تو صبع کا ٹائم دیا تھا لیکن کسی نے میری نہیں سُنی تو میں نے کہا آپ سب کو جلدی سے تیار ہونے کا کہیں ورنہ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ خواتین تو قیامت تک تیار ہوتی رہیں گی میری بات سُن کر وہ بولے ۔۔۔ کہتے تو تم ٹھیک ہو پھر کہنے لگے اچھا تو میں جا کر ان زنانیوں میں رولا رپا ڈالتا ہوں اور ان کو جلدی تیار ہونے کا کہتا ہوں اور وہ دوبارہ اپنے گھر کے اندر چلے گۓ اور میں ان کے دروازے کے پاس ہی کھڑا ہو گیا اور آنے جانے والوں خاص کر خواتین کو دیکھنے لگا ۔۔۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے محلے کی کافی عورتیں ان کے گھر میں داخل ہو گئیں ۔۔ کیا زبردست تیاری کی ہوئ تھی ان لیڈیز نے ۔۔۔۔ پھر میری نظر یاسر کی امی پر پڑی ۔۔۔ واؤو و و ۔۔۔۔ کیا خوش شکل اور حسین عورت تھی ۔۔۔ اس نے حسبِ معمول آستینوں کے بغیر کالے رنگ کا سُوٹ پہن رکھا تھا اور حسبِ معمول ہی وہ اس میں بڑی شاندار لگ رہی تھی میں اس کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ اتنے میں وہ میرے پاس آ گئ اور میں نے جھٹ سے ان کو سلام دے مارا اور پھر پوچھا یاسر نہیں آیا تو وہ کہنے لگی اس کا مُوڈ نہیں بنا ۔۔ تو میں نے ان سے کہا میم یہ سُوٹ بھی آپ پر بہت جچ رہا ہے میری بات سُن کر وہ دھیرے سے مسکُرائ اور بولی ۔۔۔ میں سب سمجھتی ہوں کہ تم یہ کیوں کہہ رہے ہو اور پھر ملک صاحب کے گھر کے اندر چلی گئ ۔۔۔ اتنے میں ملک صاحب گھر سے برآمد ہوۓ ان کے ساتھ گاؤں سے آۓ ہوۓ کچھ بندے بھی تھے مجھے دیکھتے ہی بولے شاہ پتر تم ان بے چاروں کو تو کوچ میں بٹھاؤ میں زرا زنانیوں کے پیچھے لگ کر ان کا بندوبست کرتا ہوں۔ دیکھو یار ٹائم کیا ہو گیا ہے اور یہ ابھی تک تیار نہیں ہوئیں ہم نے واپس بھی آنا ہے ملک صاحب بڑبڑاتے ہوۓ دوبارہ اندر چلے گۓ اور میں ان لوگوں کو لیکر مردانہ کوچ میں آ گیا اور ان کے ساتھ خود بھی کوچ میں بیٹھ کر اس کے چلنے کا انتظار کرنے لگا ملک صاحب کی ان تھک کوششوں کے بعد بالآخر خواتین تیار ہو کر زنانہ کوچ میں سوار ہو گئیں اور ہماری بارات چل پڑی اور ہماری بارات کی منزل گوجرانوالہ تھی جہاں سے ہم نے دلہن کو لانا تھا ۔۔ چونکہ میں مردانہ کوچ میں سوار تھا اس لیۓ راستہ آرام سے کٹ گیا اور کوئ خاص واقعہ وقوع پزیر نہ ہوا ۔۔۔ دوپہر 3 کی بجاۓ ہم لوگ شام تقریباً 6 ساڑھے چھ بجے گوجرانوالہ پہنچے اور پھر شادی ہال تک پہنچتے پہنچتے شام کے سات ، آٹھ بج ہی گۓ تھے اس بات کو بڑے ملک صاحب نے محسوس کر کے دلہن کے گھر والوں سے معزرت بھی کی جو انہوں نے بڑی خوش دلی سے قبول کر لی ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد دولہا کا نکاح وغیرہ ہوا اور پھر نکاح کے فوراً بعد دلہن والوں نے روٹی کھول دی ۔ بڑا اچھا اور مزیدار کھانا تھا ۔ کھانا کھانے کے فوراً بعد دلہن والے دلہا کو لیکر خواتین کی طرف چلے گے جہاں پر خواتین نے دودھ پلائ ، جوتا چھپائ اور اس قسم کی رسمیں وغیرہ ادا کرنا تھی میں نے بھی دلہا کے ساتھ نتھی ہونے کی بڑی کوشش کی پر کامیاب نہ ہو سکا اور دلہا اپنے کزنوں کے ساتھ خواتین کی طرف چلا گیا میں نے ہمت نہ ہاری اور کسی نہ کسی طرح لیڈیز کی طرف جانا چاہا لیکن کوشش کے باوجود بھی وہاں نہ جا سکا میں خواتین والے حصے کے آس پاس منڈلا رہا تھا کہ ایک چھوٹا بچہ میرے پاس آیا اور ایک طرف اشارہ کر کے بولا بھائ جان وہ والی آنٹی آپ کو بُلا رہی ہیں ۔۔۔۔ اب جو میں نے نگاہ اُٹھا کر اس طرف دیکھا تو وہ کوئ اور نہیں رابعہ تھی اسے دیکھ کر میری باچھیں کھل گئیں اور میں سوچنے لگا یقیناً میڈم میرے لن کا اگلا شکار ہو گئ اور اس دن والے ادھورے کام کو پورا کرنے کا پروگرام بناۓ گی پھر میں نے سوچا کہ رابعہ کے خاوند کا لن یقینناً میرے لن سے چھوٹا ہو گا جبھی تو وہ میرے ساتھ پروگرام کرنے کے لیۓ مجھے بُلا رہی ہے اس قسم کی خوش کُن باتیں سوچتے سوچتے میں جھومتا ہوا رابعہ کے پاس چلا گیا ۔۔ اس وقت ہلکا ہلکا اندھرا چھا رہا تھا وہ لیڈیز ہال سے باہر سبزے کے پاس کھڑی تھی جہاں اور بھی کافی سارے لوگ ادھر ادھر اپنے عزیزں سے خوش گپیاں کر رہے تھے سبزے کے پاس ہی چند پچے رنگین غباروں سے کھیل رہے اور ادھر پنڈال کے اندر سے خواتین کی ہاؤ ہو کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں رابعہ نے سفید رنگ کا سوٹ پہنا تھا جس پر سبز سی بڑی ہی نفیس کڑھائ ہو ئ تھی جس سے سُوٹ کی اور ساتھ رابعہ کی بھی شان اور بھی بڑھ گئ تھی اس نے بڑے سلیقے سے ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا اس نے اپنے ہاتھوں میں ایک پیارا سا رُومال پکڑا ہوا تھا جس سے وہ بار بار اپنا پسینہ پونچھ رہی تھی میں اس کے پاس گیا اور جاتے ہی بولا ۔۔ اس دن آپ بھاگ کیوں گئیں تھیں ؟ اور یہ بتائیں آپ کو میری پرفارمس کیسی لگی تھی ؟ (پرفارمس سے یہاں مراد میرا لن تھا کہ اس کی لمبائ موٹائ کیسی لگی) جیسے ہی میں اس کا جواب سننے کے لیۓ خاموش ہوگیا ۔۔۔ ہوا کہ اس کا منہ غصہ سے میری بات سُن کر پتہ نہیں اس کو کیا لال بھبھوکا ہو گیا اور وہ بظاہر نارمل لیکن کاٹ دار لہجے میں بولی ۔۔۔ ایسی بات کرتے ہوۓ تم کو زرا شرم زرا حیا نہیں آئ؟؟ ۔۔۔ پھرخون خوار لیجے میں بولی حرام زادے مجھ سے ایسی بات کرنے کی تم کے جرات کیسی ہوئ ؟؟ پھر اسی لجے میں کہنے لگی شکر کرو اس دن میں چلی گئ تھی ورنہ میں تم کو وہ زلیل کرتی وہ زلیل کرتی کہ تم محلے میں کسی کو منہ دکھنے کے لائق نہیں رہتے ۔۔۔ پھر پھنکارتے ہوۓ بولی تم کو معلوم ہے کہ تم نے میرے ساتھ کس قدر بے غیرتی کا کام کیا ہے ؟؟ اور اس کے بعد وہ جو نان سٹاپ شروع ہوئ تو میں کیا بتاؤں دوستو اس نے تو میری ماں بہن ایک کر دی ویسے عورتوں کے معاملے میں میں گالیاں کھا کر کھبی بھی بے مزہ نہ ہوا تھا پر اس کے لہجے کی کاٹ اس کا حقارت آمیز لہجا اس کی باتوں کا انداز ۔۔۔۔ اور اس کی دی ہوئ گالیوں نے تو میرے تن بدن میں آگ لگا دی ۔۔۔ اس نے اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات کی تھی یعنی گانڈ وہ خود میرے لن کے ساتھ رگڑتی رہی تھی لیکن اب کمال کی معصوم بن رہی تھی اور اب وہ کس قدر ڈھٹائ سے خود دودھ کی دُھلی بن کے سارا الذام مجھ پر ڈال رہی تھی ۔۔۔ غصے کے مارے میرا بہت بُرا حال ہو رہا تھا پر مشکل یہ تھی کہ وہ مجھے کوئ بات کرنے کا موقع ہی نہ دے رہی تھی وہ میرے پاس تقریباً 10،15 منٹ تک رہی اور نان سٹاپ مغلظات بکتی رہی اس کا لہجہ بڑا ہی توہین آمیز اور نفرت انگیز تھا اور میں نے اپنی بڑی سخت بے عزتی محسوس کی تھی میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اس خاتون کو اس قدر دروغ گوئ پر ۔۔۔۔۔ کچھ کر دوں پھر خیال آتا کہ ہمارے معاشرے کا سیٹ اپ کچھ ایسا ہے کہ لیڈیز ہر حال میں بے گناہ قرار پاتی ہے یہ سوچ کر میں بڑی ہی بے بسی کے عالم میں اس کی زہر میں بجھی ہوئ باتیں سُنتا رہا اور پھر جب وہ مجھے باتیں سُنا کر چلی گئ تو میں کافی دیر تک ۔۔۔ غصے میں اُبلتا رہا پھر میں اس حال کے باہر بنے سبزے کے ایک طرف بیٹھ گیا اور اپنی بےعزتی کے بارے میں سوچتا رہا ۔۔۔۔۔۔ پھر میرے دماغ میں بات آئ کہ غصہ کرنے کا کوئ فائدہ نہیں لیکن اس خاتون نے جو بےعزتی کی ہے اس کا جواب بھی ضروری ہے پھر میں نے بڑی مشکل سے اس اپی توہین کو اپنے اندر اس عہد کے بعد جزب کیا کہ اس کی مرضی سے اس کی ایک دفعہ ضرور لینی ہے ۔کیسے ؟ یہ بعد میں سوچوں گا لیکن اس کو ایک دفعہ چودنا ضرور ہے ۔۔۔ میں نے اپنے اس فیصلے پر خود ہی ڈن کیا اور پھر کچھ دیر تک مراقبہ میں بیٹھا اپنا مُوڈ سیٹ کرتا رہا کچھ دیر بعد جب میں کچھ نارمل ہو گیا تو میں وہاں سے اُٹھا اورشادی حال کی طرف چل پڑا دیکھا تو حال تقریباً خالی تھا بھاگ کر باہر گیا تو میری نظر بڑے ملک صاحب پر پڑ گئ وہ مجھے دیکھتے ہی بولے ۔۔۔۔ اوۓ کملیا تو کہاں تھا ہم نے تم کو بہت ڈھونڈا پر تم نہ ملے پھر بولے مردانہ کوچ تو کب کی نکل چکی ہے اور ہماری گاڑی میں بھی جگہ نہیں ہے تم ایسا کرو کہ ۔۔۔ زنانہ کوچ میں بیٹھ جاؤ پھر انہوں نے مجھے بازو سے پکڑا اور ڈرائیور سے کہہ کر کوچ کے اندر داخل کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ کوچ خواتین اور بچوں سے کچھا کھچ بھری ہوئ تھی اور پوری کوچ میں ایک عجیب سی ہڑبونگ مچی ہوئ تھی اوپر سے ڈرائیور نے فُل سپیڈ میں ریکارڈنگ لگائ ہوئ تھی کچھ بیبیوں نے اونچی آواز میں گانے لگانے پر اعتراض بھی کیا لیکن ڈریئور نے یہ کہہ کر سب کو چُپ کرا دیا کہ اگر وہ انچی آواز میں گانے لگا کر نہ سُنے گا تو اسے نیند آ جاتی ہے اس کی یہ بات سن کر لیڈیز چپ ہو گئیں کہ جان سب کو ہی عزیز ہوتی ہے ۔ ادھر کوچ میں میرے لیے کوئ جگہ نہ تھی لیکن اس کے سوا کوئ چارہ بھی نہ تھا کہ مردانہ کوچ تو پہلے ہی جا چکی تھی اور کاروں میں جگہ نہ تھی سو مرتا کیا نہ کرتا دل میں سوچا چل بھائ جیسے تیسے سفر تو کرنا ہے یہ سوچ کر میں ایک طرف کھڑا ہو گیا اور کوچ کا سیلنگ ڈندا پکڑ لیا ۔۔۔اور کوچ چل پڑی ۔۔۔ جب کوچ شہر سے نکل کر مین جی ٹی روڈ پر چڑھی تو کوچ میں سب بیٹھیں خواتین و بچے سیٹ ہو چکے تھے اور اب ان کا ہنگامہ بھی کافی حد تک ختم ہو گیا تھا چونکہ رات کافی ہو چکی تھی اور ویسے بھی اب واپسی کا سفر تھا جاتے ہوۓ تو سب لوگ ہی پُرجوش تھے لیکن اب اکا دُکا کے سوا لیڈیز یا تو اونگھ رہی تھیں یا پھر سو چکی تھیں اور میرے دماغ میں رابعہ گھوم رہی تھی سالی نے بڑی دبا کے بے عزتی کی تھی جو میں نے اپنے اندر جزب تو کر لی تھی لیکن مجھ سے ہضم نہ ہو رہی تھی ۔۔۔ اسی لیۓ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ایک نہ ایک دن رابعہ کی پھدی ضرور ماروں گا ۔۔۔ پر کیسے ؟ یہ سمجھ نہ آ رہی تھی پھر خیال آیا کہ وہ لیڈیز کوچ میں ہو گی زرا دیکھوں تو لیکن ساتھ ہی یاد آگیا کہ رابعہ ان کی امی اور روبی رابعہ کی گاڑی میں آئیں تھیں ابھی میں اسی ادھیڑ پن میں مصروف تھا کہ کسی نے میرے کندھے زور زور سے ہلاۓ میں نے ایک دم چونک کر دیکھا تو وہ کوئ خاتون تھی جو مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر بولی ۔۔۔ وہ یاسر کی امی آپ کو بُلا رہی ہیں ۔۔۔ اب میں نے اس کی انگلی کی ڈائیڑیکشن کی طرف دیکھا تو آخری سیٹ پر ٖفرح آنٹی کے پیچھے والی سیٹ پر وہ بیٹھی نظر آئ ۔۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر انہوں نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بُلایا اور جب میں ان کے پاس پہنچا تو بولی شاہ کھڑے کھڑے تھک جاؤ گے بیٹھ جاؤ تو میں نے کہا کوئ بات نہیں جی میں ایسے ہی ٹھیک ہوں تو وہ کہنے لگی پاگل سفر کافی لمبا ہے اور تم کافی تھکے ہوۓ لگ رہے ہو پلیز بیٹھ جاؤ ۔۔ ان کی بات سُن کر میں نے ادھر اُدھر دیکھا تو ساری کوچ فُل نظر آئ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ بات تو آپ کی درست ہے پر میں بیٹھوں تو کہاں بیٹھوں یہ سُن کر انہوں نے طائرانہ سی نظروں سے پوری کوچ کا جائزہ لیا اور پھر اپنی چھوٹی بیٹی کو جو کہ ان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہوئ تھی کو اُٹھایا اور فرح آنٹی جو کہ ان سے آگے والی سیٹ پر بیٹھی تھی کے حوالے کیا اور مجھ سے بولی تم یہاں بیٹھ جاؤ۔۔۔ اور میں جھجھکتا ہوا ان کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گیا میں یاسر کی امی سے تھوڑا ہٹ کر سیٹ کے کونے پر بیٹھا تھا جبکہ ساتھ والی سیٹ پر وہ تھیں ۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ مجھ سے بولی اتنے سہمے سہمے کیوں بیٹھے ہو درست ہو کر بیٹھو نا ۔۔۔ تو میں نے پھیکی سی مُسکراہٹ سے کہا نہیں میں بلکل ٹھیک بیٹھا ہوں ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی خاک ٹھیک بیٹھے ہو ۔۔ بھر اچانک وہ تھوڑا سائیڈ پر ہو کر بولی تم اس طرف آ جاؤ اور میں ان کے حکم کی تعمیل میں کوچ کی کھڑکی کی طرف بیٹھ گیا جبکہ وہ میرے ساتھ بیٹھی تھی چونکہ میرا دھیان ابھی بھی رابعہ کی طرف تھا۔۔۔ میں اپنی سوچوں میں گُم تھا کہ اچانک سوتے میں یاسر کی امی کا سر میرے کندھوں کے ساتھ ٹکرایا لیکن فوراً ہی انہوں نے اپنا سر اُٹھا لیا اور مجھ سے معزرت کر کے دوبارہ سو گئ پھر یہ واردات کافی دفعہ ہوئ ۔۔۔ اس لیۓ پہلے پہل تو اس طرف میرا دھیان ہی نہ گیا تھا لیکن جب یاسر کی امی چوتھی دفعہ بظاہر نیند میں میرے اوپر گری تو میں چونک گیا اور میرے کان کھڑے ہو گۓ اور میں ان کی حرکات نوٹ کرنے لگا اور پھر جب مجھے یقین ہو گیا تو کہ یہ سب ایویں ایویں ہے تو میں بھی ہوشیار ہو گیا ۔۔ پھر کچھ دیر بعد جب وہ میرے اوپر گری تو اس وقت میں تیار تھا میں نے بھی بظاہر ان کو پکڑنے کے لیۓ اپنا ہاتھ بڑھایا اور ان کو مموں سے پکڑ کر اوپر اٹھا لیا ۔۔ وہ ایک دم جاگی اور مجھ سے بولی کیا کر رہے ہو؟ تو میں نے جواب دیا میں آپ کو گرنے سے بچا رہا تھا ۔۔۔۔تو وہ بولی لیکن تم نے یہ کا حرکت کی ہے ؟ تو میں نے معصوم بنتے ہوۓ کہا میں نے بھلا کیا کیا ہے یہ سُن کر وہ ہنس پڑی اور بولی تم بڑے تیز ہو ۔۔۔ اور پھر سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی اب کی بار کافی دیر ہو گئ لیکن جب انہوں نے کوئ حرکت نہ کی تو میں خود سوتا بن گیا اور اب کی بار میں ان پر گیا اور سوتے سوتے دوبارہ ان کا مما پکڑ لیا یہ دیکھ کر وہ میرے پاس کان لا کر بولی مت کرو کوئ دیکھ لے گا ان کی بات سُن کر میں نے آنکھ کھولی اور میں بھی اپنا منہ ان کے قریب لے گیا اور قدرے تیز آواز میں ان سے کہا فکر نہ کرو میڈم کوئ بھی نہیں دیکھے گا اور ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا انہوں نے میرے ہاتھ کو ہٹانے کی کوئ کوشش نہ کی اور بولی پلیز آہستہ بولو کوئ سُن لے گا تو میں نے ان سے کہا دیکھو میڈم اتنی اونچی آواز میں گانے لگے ہیں اور آپ کے ساتھ والی مائیوں کے خراٹے بھی کافی اونچی آواز میں گونج رہے ہیں تو یسے میں ہماری بات چیت کون سُنے گا۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔ اچھا بابا لیکن کوئ دیکھ تو سکتا ہے نہ ؟؟ تو میں نے کہا دیکھیں ہماری پچھلی سیٹ کو جسے صوفہ کہتے ہیں وہاں پر دلہن کا سامان از قسم اٹیچی وغیرہ پڑے ہیں ہم سے آگے فرح آنٹی بمعہ آپ کی صاحبزادی بیٹھی ہیں اب اپ بتائیں ایسی صورتِ حال ہم کو کون دیکھے گا ؟ میری بات سُن کر وہ تھوڑا ڈھیلی پڑ گئ لیکن بولی کچھ نہیں اب میں نے ان کی خاموشی کو رضامندی سمجھا اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر پھیرنا شروع کر دیا ان کا ہاتھ بڑا ہی نرم اور مُلائم تھا پھر میں اپنا ہاتھ ان کے اوپر کی طرف لے آیا اور ان کی آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ ان کی چھاتی پر لے گیا اور جیسے ہی ان کی چھاتی کو پکڑ کر دبانے لگا انہوں نے فوراً ہی اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا اور میری طرف دیکھ کر بولی نا کرو پلیز تو میں نے کہا کچھ نہیں کروں گا آپ بس اپنا ہاتھ ہٹا لیں تو وہ بولی نہیں تم شرارت کرو گے تو میں نے کہا وعدہ کوئ شرارت نہیں کروں گا آپ بس اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے ہٹا لیں تو وہ آہستہ سے بولی پکی بات ہے نہ کہ تم کوئ شرارت نہیں کرو گے ؟ تو مین نے کہا پکی ٹیٹ بات ہے میں کوئ شرارت نہیں کروں گا بس آپ کے شاندار ۔۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ پر ہاتھ رکھوں گا تو وہ بولی یاد رکھنا کوئ شرارت نہیں چلے گی اور اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا دیا
 اب میں نے اپنا ہاتھ ان کے ایک ممے پر رکھے رکھا اور مزید کوئ حرکت نہ کی جب ان کو یقین ہو گیا تو میں نے ان کے کھلے گلے میں ہاتھ ڈالا اور برا کے اندر سے ممے پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔ اس دفعہ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھنے کی کوشش کی لیکن میں نے اپنے دوسرے ہاتھ سے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا کرنے دیں نا پلیز۔۔ !!اور ان کے ننگے ممے پر ہاتھ پھیرنے لگا خلافِ توقعہ ان کا مما کافی سخت تھا لیکن میں اسے ہلکےہلکے دباتا رہا اور اس کے ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے ان کا ہاتھ پکڑے رکھا جس سے وہ مزاحمت کی کوشش کر رہی تھیں پھر میں اپنا ہاتھ ان کی نپل پر لے گیا اور اس کو اپنی دو انگلیوں میں لے کر مسلنے لگا آہ ۔۔اس وقت ان کا نپل کافی پھولا ہوا اور کھڑا تھا اب میں اپنے ناخن سے ہولے ہولے ان کا نپل کھرچنے لگا ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی یاسر کی امی نے ایک لزت آمیز سسکی لی اور میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ہ۔۔۔ ہ۔۔ہ نہ کرو نا۔۔۔ لیکن میں نے ان کے نپل کے موٹے سرے کو اپنے ناخن سے کُھرچنا جاری رکھا اب ان کے ہاتھ کی مزاحمت دم توڑ چکی تھی اور وہ ہلکہ ہلکہ لزت آمیز کراہ رہی تھی اُف۔ف۔ف۔فف۔۔۔۔۔ ان کو سیکس کا نشہ چڑھ رہا تھا پھر وہ اپنی سیٹ سے تھوڑا اُٹھی اور میرے ساتھ جُڑ کر بیٹھ گئ اور بولی ۔۔۔۔ مجھے کیوں گرم کر رہے ہو ؟؟ تو میں نے کہا میڈم جی میں بھی تو گرم ہو رہا ہوں نا پھر میری نظر ان کی ہوٹوں پر پڑی واہ کیا شاندار ہونٹ تھے سو میں ان کی طرف جھک گیا اور کہا میڈم جی میں آپ کے ہونٹ چوم سکتا ہوں میری بات سُن کر وہ یک دم گھبرا گیا ور بولی ۔۔۔۔۔ نہ نہ بابا میں یہ رسک ہر گز نہیں لے سکتی ۔۔۔۔ اور فوراً ہی اپنے دونون ہاتھ جوڑ کر سامنے والی سیٹ کی پشت پر رکھے اور پھر اپنا سر وہاں چھپا لیا ۔۔۔ انہوں نے جب دونوں ہاتھوں میں سر چھپا کر سیٹ کی پشت سے لگا لیا تو میری نظر ان کے خوبصورت اور عریاں کندھوں پر پڑی ۔۔۔ واہ۔۔۔۔ بغیر آستین کے ننگے کندھے کالی قمیض میں بڑے ہی سیکسی لگ رہے تھے ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بھی اپنا منہ بیک سیٹ پر ٹکایا اور پھر بڑے آرام سے ان کا دوپٹہ ایک طرف کر کے اپنے ہونٹوں کو ان کے ننگے کندھے پر رکھ دیا ۔۔۔۔ اور اس کو چومنے لگا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی میرے ہونٹ ان کے عریاں کندھے سے ٹکرا
ۓ ۔۔ انہوں نے ایک جُھرجُھری سی لی اور اس کے ساتھ ہی ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گۓ اہنوں نے پتہ نہیں کون سا باڈی لوشن لگایا ہوا تھا کہ ایک دفعہ جب میرے ہونٹ ان کے ننگے کندھے سے چپکے تو پھر چپکے ہی رہے ۔۔۔ ادھر وہ لزت کے مارے ہلکی آواز میں کراہ رہی تھیں لیکن وہ اپنے کندھے مزید میرے منہ کے ساتھ جوڑ رہی تھی ۔۔۔ ننگے کندھوں کو کچھ دیر تک چومنے کے بعد میں نے اپنی زبان نکالی اور ان کو چاٹنے لگا میرا خیال ہے میرا یہ عمل ان کی لیۓ کافی ناقابلِ برداشت تھا اسی لیۓ انہوں نے بے اختیار ایک چیخ ماری ہی تھی کہ میں نے پھرتی سے ان کے منہ آگے اپنا ہاتھ رکھ دیا اور ان کے کندھوں کو چاٹنے لگا ۔۔۔ ان کے رونگٹے تو پہلے سے ہی کھڑے تھے اب وہ میرے ہونٹوں کے نیچے باقاعدہ کِسمسا رہی تھیں ان کے منہ سے سسکیوں کا سیلاب نکلنے کو مچل رہا تھا پر میں نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا ۔۔۔ پھر میں نے ان کے کندھے چاٹنے کا عمل تھوڑی دیر کے لیۓ موقوف کر دیا اور اپنا ہاتھ جو ان کے منہ پر رکھا ہوا تھا تھوڑا ڈھیلا کر دیا اور اپنی درمیانی انگلی ان کے ہونٹون پر پھیرنے لگا ۔۔ ان کے ہونٹ بڑے ہی نرم تھے اور میرے انگلی کی پور ان کے ہونٹوں کے گرد گھوم رہی تھی انگلی کو کچھ دیر تک گھومانے کے بعد میں نے اسے ان کے منہ میں داخل کر دیا اور انہوں نے بھیاپنا منہ کھول لیا اور اپنے ہونٹ جوڑ لیے اور میری انگلی کو لن سمجھ کر چوسنے لگی اور پھر اپنی زبان میری انگلی گرد پھیرنے لگی اس وقت وہ بڑی موج میں اور سیکسی لگ رہی تھی اور وہ میرے درمیانی انگلی کو نیچے سے اوپر تک چاٹ رہی تھی چوس رہی تھی ۔۔ اور مجھے بڑا مزہ آ رہا تھا پھر میں ان کی طرف جھکا اور سرگوشی میں بولا میڈم آپ لن چوستی ہو ؟ تو انہوں نے زبان نکال کر میری انگلی کو نیچے سے اوپر تک چاٹتے ہوۓ سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا تو میں نے ایک دفعہ اور ان کی طرف جھک گیا اور سرگوشی میں بولا آپ کے چوسنے کے سٹائل سے لگتا ہے کہ آپ چوس چوس کر لن کو پاگل کر دیتی ہو گی تو انہوں نے میری انگلی اپنے گرم منہ سے نکالی اور دھیرے سے بولی میں لن کو پاگل نہیں کرتی بلکہ پاگلوں کی طرح لن چوستی ہوں اور دوبارہ میری انگلی اپنے منہ میں لے لی اور اسے چوسنے لگی پھر کچھ دیر بعد انہوں نے میری انگلی اپنے منہ سے نکالی اور بولی ۔۔۔ اب تم پھر سے ویسے ہی میرے کندھے چومو اور دوبارہ انہوں نے اپنا سر سامنے ولی سیٹ کے بیک سے لگا لیا ۔۔۔ اب میں نے ان کے اپنے دونوں ہونٹ جوڑے اور ان کے ننگے کندھوں کو چومنے لگا ۔۔ اسکے کچھ دیر بعد میں نے اپنی زبان نکالی اور برش کر طرح ان کے ننگے کندھوں پر پھیرنے لگا میرے اس عمل سے وہ ایک بار پھر میرے زبان کے نیچے کِسمسائیں اور ننگے کندھے مزید میری زبان کے ساتھ جوڑ دیۓ ۔۔ اور پہلے تو ہلکہ ہلکہ کراہیں پھر جب زور سے کراہنا شروع ہی کیا تھا کہ میں نے دوبارہ ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کندھوں کے ساتھ ساتھ ان کے سیکسی آرم پٹ کو بھی چاٹنے لگا اب یہ حملہ ان کے لیۓ شاید ناقابلِ برداشت تھا کیونکہ سسکیوں اور آہوں کا طوفان ان کے منہ سے نکلنے کو بے تاب تھا لیکن ان کے منہ کے آگے میرا ہاتھ ہونے کی وجہ سے یہ سب دبی دبی سسکیوں میں ڈھل رہا تھا پھر کچھ دیر بعد ان کو کافی حد سانس چڑھ گیا اور وہ میرے ہونٹوں کے نیچے بری طرح مچلنے لگی اور ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ان پر ترس آ گیا اور میں نے اپنے ہونٹ وہاں سے ہٹا لیۓ ۔۔۔ اور پھر ان کے منہ سے بھی ہاتھ ہٹا لیا جیسے ہی میرا ہاتھ ان کے منہ سے ہٹا وہ ہانپنے لگی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی کچھہ دیر بعد جب ان کے سانس بحال ہوۓ تو وہ میری طرف دیکھ کر ہولے سے رومانٹک انداز بولی ۔۔۔۔۔ بڑے وہ ہو تم اگر تم تھوڑی دیر اور اپنا ہاتھ اور ہونٹ نہ ہٹاتے تو میں تو مر ہی گئ تھی یہ سُن کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ اب کس دو گی یا پھر رکھوں اپنے ہونٹ وہاں پر ۔۔۔ یہ سُن کر وہ قدرے ہنس کر بولی نہ بابا ایسا نہ کرنا اور اپنا سر بیک سیٹ کے نیچے کر لیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں اب مین اپنی سیٹ سے تھوڑا سا پرے ہوا اور اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر کے اپنا منہ ان کے منہ کے قریب لے گیا اور ان کے ہونٹون پر اپنے ہونٹ رکھ دییۓ ان کے منہ سے تیز گرم سانس نکل رہی تھی اور ان کے ہونٹ بڑے نرم تھے سو میں نے ان کے نیچے والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔ کچھ دیر ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں ڈال دی اور ان کے منہ میں گھومانے لگا فوراً ہی انہون نے بھی اپنی زبان میرے آگے کر دی اور میں نے ان کے زبان کو اپنی زبان سے ٹچ کرنے لگا مزہ لینے لگا بلا شبہ ان کے زبان کا زائقہ بڑا ہی مست تھا پھر کافی دیر تک ہم ایسے ہی اپنی زبانیں لڑاتے رہے ۔۔۔ پھر اس نے اپنا منہ میرے منہ سے ہٹا لیا اور بولی بس۔۔۔ لیکن میں کہاں بس کرنے والا تھا سو میں نے اس دفعہ اپنا ہاتھ ان کے بغیر آستین کے قمیض میں ڈالا اور ایک دفعہ پھر ان کا مما پکڑ کر دبانے لگا اس دفعہ ان کا مما کافی سخت اور نپل پہلے سے زیادہ اکڑے ہوۓ تھے ۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا دیا اور ان کی تھائ پر رکھ دیا میرا ہاتھ اپنی تھائ پر فیل کرتے ہی انہوں نے اپنی دونوں ٹانگیں تھوڑی اور کھول دیں اور اپنے چڈے چوڑے کر کے بیٹھ گئیں ۔۔ اب میں اپنی انگلی ان کی چوت کی لکیر پر لے گیا واؤ ؤؤؤؤ۔۔۔۔۔ ان کی شلوار کافی گیلی تھی اور ان کی چوت کے لبوں سے چپکی ہوئ تھی۔۔ اسکے کچھ دیر بعد میں نے اپنی زبان نکالی اور برش کر طرح ان کے ننگے کندھوں پر پھیرنے لگا میرے اس عمل سے وہ ایک بار پھر میرے زبان کے نیچے کِسمسائیں اور ننگے کندھے مزید میری زبان کے ساتھ جوڑ دیۓ ۔۔ اور پہلے تو ہلکہ ہلکہ کراہیں پھر جب زور سے کراہنا شروع ہی کیا تھا کہ میں نے دوبارہ ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کندھوں کے ساتھ ساتھ ان کے سیکسی آرم پٹ کو بھی چاٹنے لگا اب یہ حملہ ان کے لیۓ شاید ناقابلِ برداشت تھا کیونکہ سسکیوں اور آہوں کا طوفان ان کے منہ سے نکلنے کو بے تاب تھا لیکن ان کے منہ کے آگے میرا ہاتھ ہونے کی وجہ سے یہ سب دبی دبی سسکیوں میں ڈھل رہا تھا پھر کچھ دیر بعد ان کو کافی حد سانس چڑھ گیا اور وہ میرے ہونٹوں کے نیچے بری طرح مچلنے لگی اور ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ان پر ترس آ گیا اور میں نے اپنے ہونٹ وہاں سے ہٹا لیۓ ۔۔۔ اور پھر ان کے منہ سے بھی ہاتھ ہٹا لیا جیسے ہی میرا ہاتھ ان کے منہ سے ہٹا وہ ہانپنے لگی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی کچھہ دیر بعد جب ان کے سانس بحال ہوۓ تو وہ میری طرف دیکھ کر ہولے سے رومانٹک انداز بولی ۔۔۔۔۔ بڑے وہ ہو تم اگر تم تھوڑی دیر اور اپنا ہاتھ اور ہونٹ نہ ہٹاتے تو میں تو مر ہی گئ تھی یہ سُن کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ اب کس دو گی یا پھر رکھوں اپنے ہونٹ وہاں پر ۔۔۔ یہ سُن کر وہ قدرے ہنس کر بولی نہ بابا ایسا نہ کرنا اور اپنا سر بیک سیٹ کے نیچے کر لیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں اب مین اپنی سیٹ سے تھوڑا سا پرے ہوا اور اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر کے اپنا منہ ان کے منہ کے قریب لے گیا اور ان کے ہونٹون پر اپنے ہونٹ رکھ دییۓ ان کے منہ سے تیز گرم سانس نکل رہی تھی اور ان کے ہونٹ بڑے نرم تھے سو میں نے ان کے نیچے والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔ کچھ دیر ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں ڈال دی اور ان کے منہ میں گھومانے لگا فوراً ہی انہون نے بھی اپنی زبان میرے آگے کر دی اور میں نے ان کے زبان کو اپنی زبان سے ٹچ کرنے لگا مزہ لینے لگا بلا شبہ ان کے زبان کا زائقہ بڑا ہی مست تھا پھر کافی دیر تک ہم ایسے ہی اپنی زبانیں لڑاتے رہے ۔۔۔ پھر اس نے اپنا منہ میرے منہ سے ہٹا لیا اور بولی بس۔۔۔ لیکن میں کہاں بس کرنے والا تھا سو میں نے اس دفعہ اپنا ہاتھ ان کے بغیر آستین کے قمیض میں ڈالا اور ایک دفعہ پھر ان کا مما پکڑ کر دبانے لگا اس دفعہ ان کا مما کافی سخت اور نپل پہلے سے زیادہ اکڑے ہوۓ تھے ۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا دیا اور ان کی تھائ پر رکھ دیا میرا ہاتھ اپنی تھائ پر فیل کرتے ہی انہوں نے اپنی دونوں ٹانگیں تھوڑی اور کھول دیں اور اپنے چڈے چوڑے کر کے بیٹھ گئیں ۔۔ اب میں اپنی انگلی ان کی چوت کی لکیر پر لے گیا واؤ ؤؤؤؤ۔۔۔۔۔ ان کی شلوار کافی گیلی تھی اور ان کی چوت کے لبوں سے چپکی ہوئ تھی۔۔ میں کافی دیر تک اپنی انگلی ان کی چوت کی گیلی لکیر میں پھیرتا رہا اور اس کو مزید گیلا کر دیا پھر میں نے شلوار کے اوپر سے ہی اپنی انگلی ان کی چوت کے اندر لے جانے کی کوشش کی لیکن شلوار گیلی ہونے کی وجہ سے انگلی چوت میں زیادہ اندر تک نہ جا سکی پھر میں نے اپنی انگلی وہاں سے ہٹا لی ۔۔۔ اور اپنا ہاتھ ان کی شلوار کے اوپر لے گیا اور پھر ان کا آزار بند کھولنے کی کوشش کرنے لگا لیکن خوش قسمتی سے ان کی شلوار میں آزار بند نہ تھا بلکہ آلاسٹک تھا سو میں نے اپنا ہاتھ ان کی شلوار میں ڈالا اور ان سے اپنی ٹانگیں مزید کھولنے کو کہا یہ سُن کر انہوں نے اپنی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا دی اور اپنی ٹانگوں کو مزید کھول دیا ۔ اب میں نے اپنی انگلی ان کی چوت کےموٹے موٹے لبوں پر پھیرنے لگا اور پھر وہ انگلی ان کی چوت میں داخل کر دی ۔۔۔ اُف ان کی چوت بڑی ہی گرم اور پانی سے بھری ہوئ تھی اور ان کی چوت کا پانی بھی کافی گرم تھا اب میں ان کی طرف جھکا اور ان کے کان میں کہا ۔۔۔ میڈم آپ کی چوت اور اس کا پانی دونوں بہت گرم ہیں ۔۔۔۔ تو وہ مست آواز میں بولی ہاں میری چوت گرم اور اس کا پانی اُبل رہا ہے ۔۔۔ تم پلیز اپنی انگلی تھوڑی اور آگے لے جاؤ نا ۔۔۔ اور میں اپنی انگلی ان کی چوت کی گہرائ تک لے گیا اور پھر اس کو ان کی گرم چوت میں ان آؤٹ کرنے لگا ۔۔۔ ان کی پانی سے بھری ہوئ چوت کافی مست تھی میں کافی دیر تک اپنی سنگل انگلی سے ان کی چوت میں ان آؤٹ کرتا پھر وہ کہنے لگی ڈالنگ میرا ایک سے گزارا نہیں ہو رہا کم از کم دو تو ڈالو نہ ۔۔۔ پھر میں نے ان کی گرم چوت میں اپنی دو انگلیاں ڈالیں اور ان کو چوت میں ہی ہلانے لگا کچھ دیر بعد ہی انہون نے میرا بازو مضبوطی سے پکڑا اور جھٹکے لےلے کر چھوٹنے لگی ان کی چوت پہلے ہی پانی سے بھری ہوئ تھی اب اور بھی پانی جمع ہونے سے ان کی چوت میں منی کا تالاب سا بن گیا تھا پھر میں نے اپنی وہ انگلیاں ان کی چوت سے باہر نکالیں اور ان کی چوت کی منی سے لتھڑی انگلیاں ان کے ہونٹوں پر رکھ کر پھیرنے لگا انہوں نے فوراً اپنا منہ کھولا اور اپنی انگلیاں منہ میں لے لیں اور بڑے اشتیاق سے میری انگلیوں پر لگی اپنی چوت کی منی کو چاٹنے لگی جب میری انگلیاں بلکل صاف ہو گئیں تو انہوں نے ایک دفعہ پھر دونوں انگلیوں کو اپنے منہ میں ڈالا اور پھر لن کی طرح چوسنے لگیں کچھ دیر چوسنے کے بعد مجھ سے بولیں مزہ آیا ۔۔ ؟ تو میں نے کہا جی میڈم آپ میں تو مزہ ہی مزہ ہے اس کے ساتھ ہی میں نے ایک دفعہ پھر دونوں انگلیاں ان کی چوت میں ڈالیں اور ان کی چوت کے پانی میں اچھی طرح گھومائیں جب ان کی چوت کے پانی سے میری انگلیاں اچھی طرح لتھڑ گیئں تو میں نے وہ انگلیاں ان کی چوت سے باہر نکالیں اور دوبارہ ان کے منہ میں دینے کی کوشش کی تو انہوں نے راستے میں ہی میرا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر میرے منہ کی طر ف لے گھیں اور بولیں ہر دفعہ میری منی مجھے ہی نہ چٹواؤ نا کچھ تم خود بھی اس کا زائقہ چھکو نا ۔۔۔ اور یہ کہتے ہوے انہوں نے میری انگلیاں میرے منہ میں ڈال دیں ۔۔۔۔ واؤوو۔۔۔۔۔ ان کی منی سے بھینی بھینی مست بُو آ رہی تھی اور پھر میں نے بھی اپنی انگلیوں پر لگا ہوا ان کی چوت کا سارا پانی چاٹ کر اپنی انگلیاں صاف کر لیں ۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ بولی یہ ہوئ نہ بات ۔ پھر مجھ سے پوچھا کیسا لگا میری منی کا زائقہ تو میں نے کہا ایک دم مست ۔۔۔ تو وہ بھرائ ہوئ سیکسی آواز میں بولی میری ہر چیز کا زائقہ بڑا رِچ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ دیا ۔۔۔ کیونکہ میرا لن بھی کافی زیادہ اکڑ چکا تھا اور پینٹ سے باہر آنے کو سخت بے قرار تھا ۔۔۔۔ اس بار انہوں نے زرا بھی مزاحمت نہ کی اور پینٹ کے اوپر سے ہی میرا لن پکڑ لیا اوراسے اپنے ہاتھ میں لے کر ماپنے لگی پھر میری طرف جھک کر سیکس سے چُور نشے میں بولی ۔۔۔ تمھارا لن تو کافی بڑا ہے ڈارلنگ ۔۔۔ اور مضبوط بھی ہے اس کو پکڑ کر مزہ آ گیا ہے ۔۔۔ اور اس کو اپنے ہاتھ میں لیکر آہستہ آہستہ دبانے لگیں اِدھر میں ان کے اکڑے ہوۓ نپل دبا رہا تھا اُدھر وہ میرا لن دبا رہی تھیں پھر اہنوں لن دباتے دباتے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ میں اسے پینٹ سے باہر نکال لُوں ؟ اور پھر خود ہی انہوں نے میری پینٹ کی زپ کھولی اور لن باہر نکال لیا جیسے ہی لن چھومتا ہوا پینٹ سے باہر آیا انہوں نے اسے پکڑ لیا اور پھر وہ میرے ٹوپے کو بڑے غور سے دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ تمھارے لن کا ہیڈ توبہت موٹا ہے ۔۔۔۔۔۔ چھوٹی موٹی ۔۔۔۔۔ چوت کا تو یہ بُرا حال کر دیتا ہو گا ۔۔۔۔ یہ کہا اور پھر لن کو اپنی مُٹھی میں کر مسلنے لگی جبکہ میں آنکھیں بند کیۓ ان کی نرم ہتھیلی کا لمس اپنے لن پر محسوس کرتا رہا ۔۔ لن مسلنے کے دوران اچانک وہ میری طرف جھکی اور بولی ۔۔ وہ ۔۔۔وہ کوچ کا ڈرائیور کافی دیر سے مجھے اپنی لال لال آنکھوں سے مسلسل گھور رہا ہے ان کی بات سن کر میں چونک گیا اور اپنی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا تو۔۔ تو واقعی ڈرائیور اپنے چھت والے شیشے کی مدد سے ہم کو گھور رہا تھا اور وہ شکل سے ہی حرامی لگ رہا تھا ۔

یہ دیکھ کر میں تھوڑا گھبرا گیا لیکن اس بات کا یاسر کی امی کے سامنے اظہار نہ کیا ۔۔۔ بلکہ اُلٹا میں نے ان سے کہا میڈم آپ اتنی کیوٹ اور گریس فُل ہو کہ دنیا کا ہر بندہ آپ پر لایئن مارنے کی کوشش کرتا ہے اسے دفعہ کریں اور میرے لن پر توجہ دیں میری بات سُن کر وہ بولی نہیں شاہ میرا خیال ہے اس نے ہماری حرکات دیکھ لیں ہیں ہمیں تھوڑی احتیاط کرنا ہو گی میڈم ہم نے اب تک جو بھی کیا ہے بڑی ہی احتیاط کے ساتھ کیا ہے ورنہ دل تو میرا ابھی بھی یہ چاہ رہا ہے کہ میں آپ کو گھوڑی بنا لوں اور پورا لن آپ کی چوت میں ڈال دوں ۔۔ میری بات سُن کر انہوں نے بڑی ٹھنڈی سانس بھری اور بولی دل تو میرا بھی یہی کر رہا ہے ۔۔۔ تو میں نے تھوڑا چڑ کر ان سے کہا لن پے چڑھے ڈرائیور جو ہو گا دیکھا جاۓ گا آپ بس میرا لن پکڑکر دبائیں میری بات سُن کر وہ کچھ نہ بولی اور میرا لن اپنے نازک ہاتھوں میں پکڑ لیا اور صرف میرے ٹوپے پر اپنے انگھوٹھے سے مساج کرنے لگیں تو میں نے ان سے کہا میڈم جی باقی لن پر بھی نظرِ کرم کریں اور اس پر بھی مساج کریں تو وہ بولی نہیں مجھے تمھارا ٹوپا پسند آیا ہے اس لیۓ میں اپنے انگھوٹے سےصرف اسی پر مساج کروں گی ۔۔ یہ سن کر میں چُپ ہو گیا اور ان کے مساج کا مزہ لینے لگا کچھ دیر بعد میں نے ان سے کہا میڈم پلیز ٹوپے کو تھوڑا چکنا تو کر لیں تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی بے فکر رہو کچھ دیر میں تمھارا لن خود چکنائ پھینکے گا جو میں اس پر مل دوں گی ۔۔۔ اور پھر یہی ہؤا۔۔۔ میرے لن نے مزے میں آ کر مزی ( پری کم) کا ایک موٹا سا قطرہ چھوڑا جسے اس نے فوراً میرے ٹوپے پر مل دیا اور بولی کیوں ہو گیا نا تمھارا ٹوپا چکنا اور پھر اس پر تیز تیز مساج کرنے لگی ۔۔۔۔۔ اسی دوران لن نے ایک دو اور مزی کے قطرے بھی چھوڑے جو انہوں نے فوراً ہی میرے ٹوپے پر مل دیۓ اور پھر ٹوپے پر تیز تیز مساج کرنے لگیں ۔۔۔۔ آخرِ کار ان کی کوششیں رنگ لے آئیں اور ۔۔۔ میرا سارا بدن مزے کے مارے اکڑنے لگا یہ دیکھ کر وہ جلدی سے بولی ۔۔ بس۔۔۔؟؟؟ تو میں نے بھی تیز تیز سانسوں میں بمشکل اتنا کہا ۔۔۔ بسسس۔۔۔۔س۔۔۔۔س۔ اور میرے چھوٹنے سے قبل ہی انہوں نے اپنی ہتھیلی آگے کی اور میں نے اپنا لن پکڑ کر ان کی ہتھیلی پر رکھا اور چھوٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ ابھی میں پوری طرح ان کی ہتھیلی پر فارغ بھی نہ ہوا تھا کہ وہی ہوا جس کا خدشہ یاسر کی امی نے کافی دیر پہلے ظاہر کیا تھا ۔۔۔ اس حرامی ڈرائیور نے اچانک کوچ روک لی اور اسکی ساری لائیٹس آن کر دیں ۔۔۔ لائیٹس آن ہوتے ہی یاسر کی امی کا رنگ فق ہو گیا اور وہ آہستہ سے بولی آج تم نے مروا دیا ظالم ۔۔۔۔۔ ان کی بات سُن کر میں اور بھی پریشان ہو گیا ۔۔۔ اور میرا دل اتنی زور زور سے دھڑکنے لگا کہ مجھے لگا کہ وہ ابھی میرا سینہ توڑ کر باہر آ جاۓ گا ہم دونوں کا رنگ بُری طرح اُڑا ہوا تھا ادھر ان کی ہتھیلی پر میری بہت ساری منی پڑی تھی اور میرے لن سے ہنوز منی کے قطرے نکل رہے تھے ۔۔۔۔ اور پھر یاسر کی امی نے میری اور میں نے ان کی طرف دیکھا۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے بڑی ہی پُھرتی سے اپنی ہتھیلی پر رکھے میرے لن کو سائیڈ پر کیا اور فوراً جھک گئیں اور ہتھیلی کو اپنے منہ کے پاس لے گئیں اور پھر انہوں نے اپنی زبان کو اپنے منہ سے باہر نکلا اور پھر اپنی ہتیھلی پر پڑی میری ساری منی ایک لمحے میں چاٹ کر صاف کر گئیں ۔۔۔ اور پھر مجھ سے بولیں جلدی اپنا لن پینٹ کے اندر کر لو اور خود سامنے والی سیٹ سے سر ٹکا کر سونے کی ایکٹینگ کرنے لگیں ادھر میں نے جب ایک نظر سامنے دیکھا تو وہ حرامی ڈرایئیور ابھی تک شیشے میں ہماری ہی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اسی دوران کچھ خواتین بھی جاگ گئیں تھیں اور وہ غنودگی کے عالم میں ایک دوسرے سے پوچھ رہی تھیں کہ کیا ہوا گاڑی کیوں رُک گئ ہے ؟ میں بظاہر تو سویا ہوا تھا لیکن کانی آنکھ سے ڈرایئور کی حرکات و سکنات کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ حرامی ڈرائیور کچھ دیر تک تو ہمیں گھورتا رہا ۔۔۔ پھر پتہ نہیں اس کے دل میں کیا آئ کہ وہ اونچی آواز میں بولا۔۔۔ گاڑی چاۓ کے کیۓ رکی ہے اور میں چاۓ پی کر آتا ہوں یہ گاڑی 15 منٹ کھڑی رہے گی جس جس نے واش رُوم وغیرہ جانا ہے ہوٹل میں جا کر اپنی حاجت پوری کر سکتا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک دفعہ پھر ہماری طرف دیکھا اور ڈرائیور سائیڈ کا دروازہ کھول کر باہر چلا گیا ۔ جیسے ہی وہ نیچے اُترا میڈم نے ایک بڑی ہی ٹھنڈی سانس لی اور بولی شُکر ہے ۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر ہولی سے بولی آج تو ہم بال بال بچے ہیں ۔۔ میں نے بھی دل میں شکر ادا کیا اور پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لُلے پر رکھ دیا ۔۔۔ وہ ایک دم چونک کر میری طرف دیکھنے لگی اور بولی ۔۔۔۔ صاحب جی گاڑی کھڑی ہے ابھی چلی نہیں اور دوسری بات یہ کہ ابھی کس مشکل سے جان بچی ہے وہ یاد نہیں ؟ پھر اپنا ہاتھ میرے لن سے ہٹا کر بولی ۔۔ نو رسک ۔۔۔۔ خبردار اب یہاں کوئ ایسی ویسی حرکت مت کرنا ۔۔۔ یہ کہا اور اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر سچ مُچ سونے کی کوشش کرنے لگی ۔۔ 15 کی بجاۓ کوئ بیس منٹ کے بعد ڈرائیور کوچ میں واپس آیا اور اور بیٹھتے ساتھ ہی مرر میں ہمیں دیکھنے لگا لیکن وہاں کچھ نہ پا کر اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور پھر ایک دو لمبے لمبے ہارن مارے اور بولا کوئ سواری باہر تو نہیں رہ گئ ؟؟ ۔۔۔ اور خود ہی ایک نظر ساری کوچ کو دیکھنے لگا اور پھر مطمئین ہو کر چل پڑا ۔۔۔ کچھ دیر بعد جب گاڑی نے جب ردہم پکڑ لیا اور اکا دُکا جاگنے والی خواتین دوبارہ سو گئیں تو میں نے ایک دفعہ پھر میڈم کا ہاتھ اپنے لن پر رکھ دیا انہوں نے آنکھ کھول کر میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ تم باز نہیں آؤ گے ؟؟ تو میں نے ہولے سے کہا جسٹ پکڑنے میں کیا حرج ہے ؟ تو وہ بولی حرج کے بچے ابھی کا واقعہ یاد نہیں تو میں نے کہا بس ۔۔ اس سے زیادہ ڈیمانڈ نہیں کروں گا ۔۔۔ میری بات سُن کر انہوں نے اپنا ہاتھ میرے لن پر رکھا اور پینٹ کے اوپر سے پکڑ کر اسے دبانے لگی ۔۔۔ لیکن اب ان کے پکڑنے میں وہ پہلی جیسی مستی اور جوش نہ تھا وہ فقط میرا دل رکھنے کو میرا لن پکڑ رہیں تھیں ۔ سو میں نے ان کا ہاتھ اپنے لن سے ہٹا لیا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پھر پتہ نہیں کب میری آنکھ لگ گئ ۔ میرے خیال میں اس وقت رات کے دو یا ڈھائ بجے ہوں گے ہماری کوچ واپس اپنی جگہ پر پہنچ گئ تھی کوچ رُکتے ہی یاسر کی امی نے مجھے کندھے سے پکڑ کر ہلایا اور بولی اٹھو پنڈی آ گیا ہے میرے ہوش میں آتے آتے وہ اپنی بیٹی کو لیکر فوراً ہی کوچ سے اتر کر یہ جا وہ جا ۔۔۔۔اور جب میں اٹھا تو اس وقت کوچ سے اترنے والوں میں ان کا پہلا یا دوسرا نمبر تھا جبکہ اور خواتین کی کوچ سے اترنے کے لیۓ لائن لگی ہوئ تھی میں بھی اس لائین میں کھڑا ہو گیا پھر جیسے ہوتا ہے کوچ سے اترنے والوں میں ایک بھگڈر سی مچ گئ اور اسی بھگڈر میں میرے آگے کھڑی فرح آنٹی نے اپنی گانڈ بلکل میرے لن کے ساتھ جوڑ لی اور تھوڑا رگڑ کے پیچھے کی طرف دیکھا اور جیسے ہی ہماری نظریں آپس میں ملیں انہوں نے اپنے ہوٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ اور میں حیران ہو کر ان کو دیکھتا رہا پھر خیال آیا کہ رات وہ ہمارے آگے والی سیٹ پر بیٹھی تھی اور انہوں نے ہمارا لائیو شو تو نہ دیکھا پر سُنا ضرور ہو گا اسی لیۓ وہ گرم ہو کر مجھے لائین مار رہی تھیں پر پھر خیال آیا یہاں بھی کہیں رابعہ والی سٹوری دوبارہ نہ دھرائ جاۓ سو میں نے مزید ان کے ساتھ کوئ حرکت کرنے سے خود کو سختی سے روک لیا اور بڑی شرافت سے کوچ سے نیچے اترا اور اپنے گھر چلا گیا۔

You Might Also Like

0 تبصرے

thanks

BUY NOVELS ON WHATSAP