ہم۔دوست چھٹی قسط
مارچ 27, 2021ہم۔دوست
چھٹی
قسط
اگلے دن ولیمہ تھا جس کاسارا بندوبست ہماری گلی
میں ہی کیا گیا تھا چونکہ مہمانوں نے کافی دور سے آنا تھا اس لیۓ
ولیمے کا ٹائم شام 4 بجے تھا لیکن اس کی تیاری تو ہمیں ہی کرنا تھا اس لیۓ
یاسر کا بچہ صبع صبع ہی آ دھمکا اور سیدھا میرے پلنگ پر آ کر بیٹھ گیا اور جیسا کہ
آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ صبع صبع سب کا ہی لن کھڑا ہوتا ہے سو میرا لن بھی الف کھڑا
تھا چانچہ یاسر نے پلنگ پر بیٹھتے ہی میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے مسلنے
لگا اس کے اس طرح لن مسلنے سے میری آنکھ کھل گئ دیکھا تو میرا لن یاسر کے ہاتھ میں
ہے اور وہ اسے مسلتے ہوۓ
آگے پیچھے کر رہا تھا ۔۔ مجھے اُٹھتے دیکھ اس نے لن مسلنا بند کر دیا تا ہم ہاتھ
میں پکڑے رکھا اور میری طرف دیکھ کر بولا اُٹھو استاد جی دیگوں والے آ گۓ
ہیں اور بڑے ملک صاحب بھی آپ کو بُلا رہے ہیں ۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ کتنی
دیگیں آئیں ہیں تو وہ بولا استاد جی دیگیں تو کوئ پچاس ساٹھ کے قریب آئیں ہیں تو
میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ انتی دیگیں کس لیۓ
؟ تو وہ بولا سر جی اصل میں دیگیں تو دس بارہ ہی پکیں گی باقی سب ڈیش ڈرامے کے لیۓ
رکھی ہیں پھر بولا اب آپ جلدی سے اُٹھ جاؤ کہ کافی کام کرنے ہیں یا پھر اگر سونے
کا مُوڈ ہے تو مجھے کرنے والے کام بتا دو۔۔ اور خود آرام سے اُٹھ کر آ جانا اور اس
کے ساتھ ہی اس نے میرا لن بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا ۔۔۔ میں نے کچھ سوچ کر اس کو ہدایت
دیں اور کہا کہ تم یہ کام کرو میں بس نہا دھو کر آتا ہوں یہ سُن کر وہ جانے لگا تو
میں نے اس سے جاتے جاتے پوچھا سُنا یار کل تم لوگوں کا پروگرام کیسا رہا؟ تو وہ
جاتے جاتے رُک گیا اور میرے پاس آ کر بولا جیسا ہوتا ہے ویری ہاٹ اور مزے سے بھر
پُور ۔۔۔۔ پھر وہ دوبارہ آ کر میرے پاس بیٹھ گیا اور بولا استاد جی ایک بات کہوں
مانو گے تو میں نے کہا حکم کر یار تو وہ تھوڑا روہانسا ہو کر بولا بس ایک دفعہ اس
رفیق کے بچے کی گانڈ میرے سامنے مار دو پلیز ۔۔۔ تو میں نے جواب دیا ضرور ماروں گا
پر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اصل بات کیا ہوئ جس کی وجہ سے تم یہ فرمائش کر رہے ہو
تو وہ کہنے لگا یار تم کو پتہ ہے کہ رفیق بڑا کمینہ واقعہ ہوا ہے وہ مجھے اس بات
کے اکثر طعنے دیتا ہے کہ میں نے آپ سے بُنڈ مروائ ہے سو میری تم سے درخواست ہے کہ
ایک دفعہ میرے سامنے رفیق کی بنڈ مار کے حساب برابر کر دو۔ تو میں نے اس سے کہا
اگر یہ بات ہے تو کسی دن پروگرام بنا لو میں تمھارا یہ کام بھی کر دوں گا اس نے
میری یہ بات سن کر شکریہ ادا کیا اور پھر وہ خوشی خوشی دیگ والوں کی طرف روانہ ہو
گیا میری بھی نیند پوری ہو چکی تھی سو میں بھی اُٹھا اور نہا دھو کر ملک حاحب کے
گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔۔ راستے میں بڑے ملک صاحب مل گۓ
دیگوں والے نائ کے بارے میں پوچھنے پر میں نے ملک صاحب کو بتلایا کہ میں ادھر ہی
جا رہا ہوں ۔۔۔ کھانے کی اصل مینجمنٹ توظاہر ہے ان کے پاس ہی تھی جبکہ ہم لوگ فقط
ان کے چھوٹے تھے جو چھوٹے موٹے کام جیسے گھر سے فلاں چیز لے آؤ یا بھاگ کر جاؤ اور
بازار سے فلاں چیز یا فلاں مصالحہ لانے وغیرہ کا کام ہم لوگوں کے زمہ تھا اور میری
حیثیت ان چھوٹوں میں چیف چھوٹے کی سی تھی اسی لیۓ
جب میں نائ کے پاس پہنچا تو اتفاق سے وہاں کوئ بھی نہیں تھا ویسے بھی یہ ابھی کافی
صبع کا ٹائم تھا یاسر کو میں نے بھیجا تھا پر اس کا بھی اتہ پتہ نہیں مل رہا تھا
جانے وہ کہاں غائب تھا چناچنہ جیسے ہی میں وہاں پہنچا تو نائ جیسے میرا ہی انتظار
کر رہا تھا مجھے دیکھتے ہی بولا باؤ جی ایک درمیانہ سائز کا ٹب تو لے آؤ میں نے اس
کی بات سُنی اور ٹب لینے ملک صاحب کے گھر چلا گیا ۔۔۔۔ وہاں جا کر میں نے ایک کام
والی سے ٹب کے بارے میں پوچھا تو وہ بولی ایک بڑا ٹب تو میں نے ابھی دیا ہے دوسرے
کا مجھے نہیں پتہ ۔۔۔۔ ابھی وہ یہ بات کر رہی تھی کہ اندر سے روبی اور سلطانہ
نمودار ہوئیں مجھے دیکھ کر وہ دونوں ٹھٹھک گئیں پھر سلطانہ میرے پاس آئ اور بولی
کیا چاہئیے شاہ صاحب تو میں نے کہا کہ وہ جی باہر نائ ایک درمیانہ سائیز کا ٹب
مانگ رہا ہے میری بات سُن کر اس نے کام والی کی طرف دیکھا اور وہ کہنے لگی ۔۔۔
باجی ایک ٹب تھا وہ میں نے دے دیا ہے دوسرے کا مجھے پتہ نہیںکہاں رکھا ہے اس سے
قبل کہ سلطانہ اس سے کوئ مزید بات کرتی روبی فوراً بولی ۔۔ ایک ٹب ہاں بھی پڑا ہے
اس کی بات سُن کر سلطانہ مجھ سے بولی شاہ جی تم روبی کے ساتھ اسکے گھر جاؤ اور ٹب
لے کر نائ کو دے دو۔ چنانچہ سلطانہ کے کہنے پر میں روبی کے ساتھ اس کے گھر کی طرف
چل پڑا ۔ راستے میں اس نے میرے ساتھ کوئ بات نہ کی اور نہ ہی میں نے اس سے کوئ بات
کرنے کی کوشش کی جب ہم ان کے گھر میں داخل ہوۓ
تووہ ایک دم میری طرف مُڑی اور بولی سناؤ شاہ جی کیسے ہو تم ؟ تو میں نے بجاۓ
کوئ جواب د ینے کے ان سے پوچھا کہ روبی جی آپ صبع صبع ملک صاحب کے گھر کیوں گئیں
تھیں ؟؟ میری بات سُن کر وہ تھوڑا گڑبڑا سی گئ اور بولی ۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ ۔۔ یار
میرا سلطانہ کے ساتھ کوئ کام تھا اس لیۓ
گئ تھی تو میں نے اس سے پوچھا یہ بتائیں دلہن کیسی ہے ؟ تو وہ بولی کیا مطلب ؟ ارے
بابا وہ دلہن ہے ظاہر ہے اچھی ہی ہو گئ تم نے دیکھی نہیں؟ شادی سے پہلے ہزار دفعہ
تو یہاں آئ ہے اور وہ سلطانہ کی بیسٹ فرنینڈ ہونے کے ساتھ ساتھ میری بھی اچھی سلام
دعا والی ہے پھر کہنے لگی ایک منٹ رُکو میں ٹب لے آؤں اور میں وہاں دروازے میں ہی
رُک کر اس کا انتظار کرنے لگا کچھ دیر بعد اس نے آواز دی شاہ زرا سٹور میں آجاؤ ٹب
پر کافی بھاری چیزیں پڑیں ہیں جو مجھ سے نہیں اُٹھائ جا رہیں میں ان کی بات سن
کرسٹور گیا دیکھا تو ایک گندہ سا ٹب وہاں پڑا تھا اور اس پر بہت سی الم غلم بھاری
بھر کم کچرا نما چیزیں پڑیں تھیں میں نے وہ ساری چیزیں وہاں سے ہٹایئں اور ٹب باہر
نکالا تو وہ بہت گندہ تھا یہ دیکھ کر وہ کہنے لگی یار لے جاؤ نائ خود دھو لے گا تو
میں نے کہا چلو دھو تو وہ لے گا آپ اسے تھوڑا صاف ہی کر دو تو اس نے ایک گندے سے
کپڑے سے ٹب صاف کیا اور میں اسے اٹھا کر باہر لے جانے لگا پھر میں نے جاتے جاتے
۔۔۔۔ ان سے رفیق کا پوچھا تو وہ کہنے لگی یار وہ تو کافی دیر سے امی کو لینے آپا
کے گھر گیا ہوا ہے کیونکہ رات کافی ہو گئ تھی اور امی تھک بھی گئیں تھیں اس لیۓ
وہ آپا کے گھر رہ گئیں تھیں ۔۔۔۔ پھر میں نے ان سے ان کے ابو کے بارے میں پوچھا تو
وہ بولی رفیق انہی کے ساتھ تو گاڑی پر آپا کی طرف گیا ہے ۔۔۔ تو میں نے ایک شیطانی
مسکُراہٹ سے ان کو کہا اس کا مطلب کہ اپ اس وقت گھر میں اکیلی ہیں تو وہ بولی
اکیلی کہاں تم ہو نا میرے ساتھ ۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی… میں تمھارے گندے ارادوں کو
اچھی طرح سے سمجھ گئ ہوں لیکن خبردار رہو کہ وہ لوگ کسی بھی وقت واپس آ سکتے ہیں
اسی لیۓ
میں گھر کھلا چھوڑ کر دلہن کو دیکھنے گئ تھی ۔۔ دلہن کا زکر کرتے ہی اس کی آنکھوں
میں ایک چمک سی آ گئ اور وہ مجھ سے پُر جوش انداز میں بولی پتہ ہے گلابی رنگ کے
لہنگے اور ساتھ میچنگ چولی میں دلہن کتنی کیوٹ لگ رہی تھی پھر اس نے میرے پوچھے
بغیر ہی مجھے بتانا شروع کر دیا کہ دلہن کے لیۓ
خاصہ مہنگا برینڈڈ لہنگا خریدا گیا تھا پھر اس نے لہنگے کی قیمت بتائ اور اس کے
بعد وہ دلہن کے زیور کی طرف آئ اور بتلانے لگی کہ اس نے کتنے تولے سونے کے زیور
وغیرہ پہنے ہوۓ
تھے دلہن کے ایک ہاتھ میں کتنے تولے کے کڑے اور چوڑیاں تھیں انگلیوں میں کتنے تولے
کی انگھوٹھیا ں پہنی تھیں اور دلہن کی ناک میں ڈایئمنڈ کا کوکا کیسا لگ رہا تھا
اور پھر وہ پتہ نہیں کیا کیا دلہن اور دلہا کے بارے میں بتاتی رہی جو کم از کم
میرے لیۓ
بڑی بورنگ تھیں لیکن میں ڈر کے مارے آگے سے کچھ بول نہیں رہا تھا کہ مجھے پتہ تھا
کہ خاتون کافی خبطی واقعہ ہوئ ہے اگر میں نے اس سے کچھ کہا تو کچھ پتہ نہیں آگے سے
وہ کیا کہہ دے ۔۔۔ اس لیۓ
میں نے اسے بولنے دیا۔۔۔۔ کوئ دس پندرہ منٹ جو میرے لئۓ
دس پندرہ سال کے برابر تھے کے بعد جب وہ بری و دیگر خواتین کے ملبوسات ان کے رنگ و
زیورات کے بارے میں مجھے کافی انفارمیشن دے چکی تو میں نے تنگ آ کر اس سے کہا روبی
جی وہ تو سب ٹھیک ہے یہ بتائیں رات دلہے کا سکور کیا رہا ؟ میری بات سُن کر اس کے
چہرے پر ایک شفق سی لہرا گئ پھر وہ اپنا منہ میرے پاس لا کر سرگوشی میں بولی ۔۔۔
سچ بوچھو تو میں بھی یہی پتہ کرنے سلطانہ کے گھر گئ تھی تو میں نے اشتیاق سے پوچھا
تو بتائیں نہ دلہے نے رات کتنی شارٹس ماریں تھیں ؟ میرے یہ بے باک لفظ سُن کر وہ
ایک لمحے کے لیۓ
جھجھکی ۔۔۔ پھر روانی سے کہنی لگی وہ شاذی (دلہن) پہلے تو بتا ہی نہیں رہی تھی پھر
جب میں نے اور سلطانہ نے بہت زیادہ اصرار کیا اور دباؤ ڈالا تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔
ایک تو رات لیٹ آۓ
تھے دوسرے گھر میں آ کر مزید رسموں کی وجہ سے ہم لیٹ ہو گۓ
تھے لیکن پھر بھی دولہے نے دو شارٹس ماریں ہیں ۔۔۔۔ پھر مجھ سے کہنے لگی میں نے تو
اتنی نہیں مگر سلطانہ نے بڑی ڈیپ انکوائری کی تھی ۔۔۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا
روبی جی آپ بھی سُن رہی تھیں نہ تو کچھ ہم کو بھی تفصیل سے آگاہ کرو تو وہ کہنے
لگی تمھارے لیۓ
یہی تفصیل کافی ہے کہ دلہے نے دو شارٹس لگاۓ
اور پہلی دفعہ زرا جلدی ۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب سمجھ رہے ہو نا جبکہ دوسری شارٹس بڑی
اچھی رہی پھر وہ اچانک مجھ سے کہنے لگی پتہ ہے رات میں نے بھی امی سے صاف صاف کہہ
دیا ہے کہ میں اپنی شادی پر ایسا ہی لہنگا لُوں گی اور ایسے ہی زیور پہنوں گی پھر
اچانک وہ اداس ہو گئ اور خلاؤں میں گھورتے ہوۓ
بولی ۔۔۔ پر ۔۔۔۔۔ شاہ ۔۔۔۔ میری شادی ہو گی تو پہنوں گی نا۔۔ !!!!!!!!!!!! وہ کھوۓ
کھوۓ
اور اسی اداسی بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی ۔۔ شاہ !!۔۔ شادی کا شوق تو ہر لڑکی کو
ہوتا ہے لیکن مجھے اپنی شادی کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے ۔۔۔ میرا بھی دل کرتا کہ میں
بھی دلہن بنوں ۔۔۔۔ سُہاگ رات مناؤں ۔۔۔ میرا بھی شوہر ہو۔۔ بچے ہوں ۔۔۔ پھر اس نے
اپنی بڑی بڑی اور اداس آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور میرے گلے سے لگ کر بولی ۔۔۔۔
شاہ ۔۔۔ میرا دلہا کہاں ہے ؟ وہ کب آۓ
گا ؟؟ کب کرے گا وہ مجھ سے شادی ؟؟؟؟؟؟ کب ۔۔۔ آخر کب وہ آۓ
گا ؟ کب میں دلہن بنوں گی ؟ شاہ اسے کہو نا جلدی سے آ جاۓ
میں اس کا اور کتنا انتظار کروں ؟ اس کا لہجا اتنا التجائیہ پُر اثر اور اداسی
بھرا تھا کہ پتہ نہیں کیوں میں بھی ایک دم جزباتی ہو گیا اور اس سے کہنے لگا روبی
جی میں آپ کا دلہا بنوں گا میں آپ سے شادی کروں گا ۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ ایک دم
مجھ سے الگ ہوئ اور بولی ۔۔۔۔ تم مجھ سے شادی کرو گے ؟ لیکن میں ایسا نہیں کر سکتی
۔۔۔ تو میں نے بڑی حیرانی سے پوچھا وہ کیوں روبی جی ؟؟ تو وہ سنجیدہ ہو کر بولی
۔۔۔۔ بے شک تم بڑے سمارٹ ہو۔۔۔۔ کیئرنگ ہو ۔۔۔ اور خاص کر تمھارا ویپن (لن) بھی
بہت زبردست ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے کہا لیکن کیا روبی جی ۔۔۔۔۔ تو میری بات
سن کر وہ جھجھکتے جھجھکتے بولی ۔۔۔۔ مائینڈ نا کرنا پلیز ۔۔۔ لیکن تمھارے اور
ہمھارے سٹیٹس میں بہت زیادہ فرق ہے ۔۔۔ پھر وہ بات بات کرتے کرتے رک کر بولی ۔۔۔۔
میری بات سمجھ رہے ہو نا ۔۔۔ اور میں اس کی بات ۔۔۔ اس کے کہے الفاظ کا مطلب بہت
اچھی طرح سمجھ گیا تھا اور اس کے الفاظ کا سیدھا سا مطلب یہ تھا کہ بوجہ اپنے
کمزور مالی پوزیشن کے میں ان کے سٹیندڑڈ پر پُورا نہیں اترتا تھا ۔۔۔ اس کی بات
سُن کر مجھے اپنے استاد کا سنایا ہوا محاورہ یاد آ گیا کہ مرتے مر گئ پر چوت کی
لالی نہ گئ سالی بَر کے لیۓ
ترس رہی تھی اور ابھی بی اس کے زہن میں وہی سٹیٹس گھسا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے
باوجود جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کے معصوم سے چہرے پر پریشانی دیکھ کر جانے
کیوں مجھے اس پر زرا بھی غصہ نہیں آیا بلکہ بلکہ میں اور بھی جزباتی ہو گیا اور اس
سے بولا روبی جی کیا ہوا جو آج ہماری مالی پوزیشن کمزور ہے اور ہم آپ کے مقابلے
میں غریب ہیں ۔۔۔ میں خوب پڑھوں گا اور سخت محنت کروں گا اور پھر کسی نہ کسی جوگا
بن جاؤں گا میری بات سن کر اس نے بڑی عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر
اداسی بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔۔ شاہ جب تم پڑھ لکھ کر کسی جوگے بن جاؤ گے نا ۔۔۔ تو
اس وقت ہم کسی بھی جوگے نہیں رہیں گے ۔۔۔ روبی کی یہ بات سُن کر میں سناٹے میں آ
گیا بات وہ ٹھیک کہہ رہی تھی اس وقت میرا لڑکپن جوانی کی دہلیز پر دستک دے رہا تھا
جبکہ اس کی جوانی بُڑھاپے کی سرحدوں کو چھو رہی تھی یعنی وہ چراغِ سحری تھی ۔۔۔۔
اور میں چڑھتا سورج ۔۔ ظاہر ہے میں نے ابھی دس بارہ سال سٹرگل کرنے کے بعد کچھ
بننا تھا اور تب تک وہ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اور ایک دفعہ پھر میرے زہن میں اس کی کہی ہوئ
بات گونجنے لگی ۔۔۔۔ شاہ جب تک تم کسی جوگے بنو گے ۔۔۔۔ تب تک ہم کسی بھی جوگے
نہیں رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روبی نے ایک دفعہ پھر میری طرف ڈُبڈُبائ ہوئ آنکھوں سے
دیکھا اور بولی ۔۔۔۔۔ شاہ یہ سب کیا ہے ؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ مجھے سلطانہ کو
اور ایسی کئ دوسری لڑکیوں کو من پسند لڑکے کیوں نہیں مل رہے ؟ ہم کیوں ترس رہیں
ہیں ؟ ہم اور تو کچھ نہیں مانگ رہے بس اپنی پسند۔۔۔۔۔ کیا ہمیں اتنا سا بھی حق
نہیں ہے ؟؟ یہ بات کہتے ہوۓ
اس کے جزبات کا بندھ ٹوٹ گیا اور وہ بات کو ادھورا چھوڑ کر اندر بھاگ ۔۔۔۔۔ اس کی
اس ادا نے مجھے بھی کافی جزباتی کر دیا اور میرے دل میں اس کیوٹ ، معصوم اور سادہ
سی لڑکی کے لیۓ
ہمدردی کے شدید جزبات پیدا ہو گۓ
۔۔۔ جب وہ وہاں سے چلی گئ تو میں نے بھی ٹب اُٹھایا اور باہر نکل گیا اس وقت مجھے
مجید امجد کی ایک نظم کا ایک بند یاد آ گیا اگر میں خدا اس زمانے کا ہوتا تو عنواں
کچھ اور اس فسانے کا ہوتا عجب لُطف دنیا میں آنے کا ہوتا مگر ہاۓ
ظالم زمانے کی رسمیں نہیں میرے بس میں نہیں میرے بس میں میں وہ بند دھراتا رہا اور
روبی کو یاد کرتا رہا پھر یوں ہوا کہ روبی کی ہمدردی کی یہ تیز لہر آہستہ آہستہ
میرے سارے جسم میں ٹریول کرتے کرتے میری آنکھوں میں آ کر پانی بن گئ اور پھر یہ
نمکین پانی وہاں سے بہہ بہہ کر رُخساروں سے ہوتا ہو نیچے زمین میں گر کر مٹی میں
جزب ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔ آنسو نکل پڑے تو میری لاج رہ گئ اظہارِغم کا ورنہ سلیقہ نہ تھا
مجھے میں اس کیوٹ سی لڑکی کے لیۓ
اس سے زیادہ اور کیا کر سکتا تھا ؟؟ جیسے ہی ولیمے کا سامان ریڈی ہوا ہم لوگ بھی
کپڑے تبدیل کرنے چلے گۓ
اور جب واپس آۓ
تو لوگوں کی آمد و رفت شروع ہو چکی تھی ۔ مہندی کے بر عکس اس دفعہ میں یاسر اور
رفیق اکھٹے ہی لیڈیز والی سائیڈ پر کھڑے ہو گۓ
تھے ہم سے پہلے کچھ لیڈیز آ چکیں تھیں جبکہ باقی خواتین ہمارے آنے پر آنا شوروع
ہوئیں تھیں سب سے پہلے یاسر کی امی اور اس کی بیسٹ فرینڈ فرح پنڈال میں داخل ہوئیں
اب پتہ نہیں یہ اتفاق تھا یا کوئ پلانگ کہ یاسر کی امی تو سیدھی میرے پاس آ کر رُک
گئ جبکہ فرح آنٹی ہم سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہو کر یاسر اور رفیق سے گپ شپ لگانے لگی
خلافِ توقع آج یاسر کی امی نے کالے رنگ کی بجاۓ
سُرخ سوٹ پہنا ہوا تھا لیکن۔۔۔۔ تھا یہ بھی بغیر آستین کے ۔۔۔ اور حسبِ معمول وہ
اس میں بھی بڑی ہی شاندار لگ رہی تھیں اور میں انہیں ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا اور
جب وہ میرے پاس آئیں تو چپکے سے بولیں زیادہ گھورو مت بچے ساتھ کھڑے ہیں تو میں نے
ان کو کہا ان کی فکر مت کریں وہ فرح آنٹی سے گپ لگا رہے ہیں آپ یہ بتائیں کہ رات
آپ بھاگ کیوں گئیں تھیں تو وہ سنجیدہ ہو کر بولی ۔۔۔ میری پوزیشن سمجھو یار میں
بڑی ڈر گئ تھی پھر انہوں نے اونچی آواز میں یاسر کو بلایا اور کہنے لگی میں تمھارا
گفٹ پیک کروا لائ ہوں یہ سُن کر یاسر بڑا خوش ہوا اور بولا ۔۔ یو آر گریٹ ماما ۔۔۔
اور وہ مُسکراتے ہوۓ
پنڈال میں داخل ہو گئیں ۔۔۔ ان کے جاتے ہی میں نے یاسر سے آپ کی ماما کس گفٹ کی
بات کر رہی تھیں ؟ تو یاسر کی بجاۓ
رفیق بولا یار اس کی منگیتر کی آج سالگرہ ہے اور یہ گفٹ اس سلسلہ میں لیا گیا ہو
گا یہ سن کر میں نے یاسر کی طرف دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے بعد چار پانچ اور بھی خواتین آئیں جن سے ہم نے بس رسمی سی ہیلو ہاۓ
کی اور پھر اچانک ایک گاڑی رُکی اور اس میں سے بڑے ہی نخرے اور طمطراق سے رابعہ
اُتری ۔۔ اسے دیکھ کر ہم تینوں تھوڑا پیچھے ہٹ گۓ۔۔
نیچےاُترتے ہی اس نے رفیق کو اشارے سے اپنے پاس بُلایا اوراس سے کوئ بات کہی جسے
سُنتے ہی رفیق نے سر ہلایا اور بغیر کہے سنے وہاں سے چلا گیا رفیق کے جاتے ہی وہ
ایک مست چال سے پنڈال کی طرف آنے لگی اور میں اس کو اپنی طرف آتے دیکھنے لگا جبکہ
یاسر نے اسے دیکھتے ہی کھسکنے کی بڑی کوشش کی مگر رابعہ نے فوراً ہی اس کو آواز
دیکر اپنے پاس بُلا لیا اور پھر اس نے جان بُوجھ کر مجھے بُری طرح نظر انداز کرتے
ہوۓ
یاسر کے ساتھ گپ شپ لگانی شروع کر دی میں نے دیکھا کہ بظاہر تو یاسر اس سے بڑا ہنس
ہنس کر باتیں کر رہا تھا لیکن اس کے رویے سے لگ رہا تھا کہ وہ یہ کام خوشی سے نہیں
کر رہا کچھ دیر بعد رابعہ وہاں سے گئ تو یاسر نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اور ہولے
سے بولا ۔۔۔ ۔۔۔ کتیا ۔۔۔۔۔۔۔۔یاسر کا رویہ دیکھ کر میں حیران ہو گیا اور بولا خیر
تو ہے نا مُنے ۔۔۔ یہ تم اتنے بے زار کیوں نظر آ رہے ہو۔۔؟؟ تو وہ بولا استاد تم
اس عورت کو نہیں جانتے یہ عورت نہیں ناگن ہے میرے سسرال والے سارے لوگ اس ڈر کر اس
کی عزت کرتے ہیں اس نے اپنے بندے کو اتنا قابو میں کیا ہوا ہے کہ اگر یہ کہے دن ہے
تو وہ دن کہتا ہے اور اگر رات کہے تو رات کہتا ہے برادری والے کہتے ہیں کہ اس نے
اس کو تعویز گھول کر پلا رکھے ہیں ۔۔۔۔ رابعہ کے بارے میں یہ نئ معلومات تھیں جو
یاسر مجھے دے رہا تھا پھر میں نے کرید کرید کر یاسر سے رابعہ کے بارے میں پوچھا
اور اپنے زہن میں یہ ساری معلُومات محفوظ کر لیں ۔۔۔۔ رابعہ کے جانے کے بعد بھی
کافی لیڈیز آئیں لیکن میری چونکہ وہاں دلچسپی نہ تھی اس لیۓ
میں نے ان میں کوئ خاص انٹرست نہ لیا ۔۔۔۔ پھر روبی اور سلطانہ بمعہ دلہن کے
پہنچیں یہ دلہن کو بیوٹی پارلر سے تیار کروا کر لائیں تھیں سلطانہ تو تھی ہی حُسن
کی شہزادی سو اس کا زکر ہی کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن خاص بات یہ تھی کہ آج روبی بڑا
غضب ڈھا رہی تھی اور اس پر طرہ یہ کہ اس کا مُوڈ بھی خاصہ خوشگوار نظر آ رہا تھا
لکین اس کے ساتھ ساتھ اس کی صبع کہہ رہی تھی اس کے شام کی کہانی کے مصداق اس کی
آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں اور غور سے دیکھنے پر پتہ چلتا تھا کہ یہ روتی رہی ہے پر
اتنا ٹائم کس کے پاس تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی مسکُرائ اور پاس آ کر ہولے
سے بولی ۔۔ نظر نہ لگا دینا ۔۔۔۔ اورپھر وہ دلہن کے پیچھے پیچھے اندر چلی گئیں۔
ولیمے پر مدعو ملک صاحب کے تقریباً سارے ہی مہمان پہنچ گۓ
تھے ادھر کھانا بھی تیار تھا دیگیں دم پر دی ہوئیں تھیں اب انتظار تھا تو دلہن
والوں کا لیکن ہمارے برعکس دلہن والے زیادہ لیٹ نہ ہوۓ
اور دیۓ
ہوۓ
وقت سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد وہ پہچ گۓ
ملک صاحب نے بھی ان کی طرح ٹائم ضائع کیۓ
مجھے کھانا لگانے کی ھدایت دے دی حسبِ معمول میں یاسر اور رفیق اور ملک صاحب کے
کچھ رشتے دار لڑکے عورتوں کی طرف کھڑے تھے جبکہ باقی لوگ مردانہ سائیڈ پر تھے ۔
کھانا سرو کرتے کرتے مجھے ایک شرارت سوجھی اور میں نے نائ سے ڈونگے میں خاص کر
مرغے کے موٹے موٹے تھائ پیس ڈلواۓ
اور وہ ڈونگہ لیکر سیدھا رابعہ کے پاس آ گیا وہ کرسی پر بیٹھی تھی جبکہ اس کے
سامنے دوسرے کرسی پر کھانا رکھا تھا میں نے اس سے پوچھے بغیر ہی مرغا کا ایک موٹا
سا تھائ پیس ڈالا اور کہا دیکھیں میڈم میں آپ کی پلیٹ میں کتنا موٹا سا پیس ڈال
رھا ہوں امید ہے آپ اس موٹے پیس کو انجواۓ
کریں گی ۔۔ یہ سُن کر رابعہ نے قہر آلود نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر اپنی
پلیٹ سے وہ تھائ پیس نکال کر باہر پھینکتے ہوۓ
ہولی میں تم پر اور تمھارے موٹے تھائ پیس پر ہزار لعنت بھیجتی ہوں ۔۔۔۔ میں نے اس
کی یہ بات سُنی اور چپکے سے وہاں سے چلا آیا ۔۔۔۔ ابھی میں وہاں سے چلا ہی تھا کہ
روبی نے مجھے اشارے سے اپنے پاس بُلایا اور آہستہ سے بولی ٹھیک 8 بجے رات تم ٹب
لیکر کر گھر آ جانا اس کی بات سُن کر میں نے بنا کوئ جواب دیۓ
اثبات میں اپنا سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب روٹی ختم ہوئ تو رابعہ
نے یاسر کو آواز دیکر پاس بلایا اور مجھے لانے کو کہا جب میں اس کے پاس پہنچا تو
وہ تو وقت اور بھی لیڈیز وہاں پر موجود تھیں چانچہ وہ ان سب کی موجودگی میں وہ مجھ
سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔ ویل ڈن شاہ تم نے اور تمھاری ٹیم نے بڑا اچھا کام کیا ہے
اور پھر اس نے اپنا پرس کھولا اور بڑے ہی حقارت آمیز طریقے سے سے ایک پھٹا پُرانا
سا سو روپے کا نوٹ نکال کر بڑے ہی توہین آمیز طریقے سے میری طرف بڑھایا اور بولی
یہ تمھارا انعام ہے ۔۔۔ اس کا رویہ دیکھ کر میں تو حیران ہی رہ گیا اور سمجھ نہ آ
رہی تھی کہ میں کیا کروں کہ اتنے میں وہ زبردستی نوٹ میرے ہاتھ میں دیتے ہوۓ
بولی رکھ لو۔۔۔ رکھ لو ۔۔۔ تم جیسے کنگلوں کو ٹپ دینے کی میری پُرانی عادت ہے اور
میں نے ۔۔۔۔ نہ چاہتے ہوۓ
بھی اس کا دیا ہوا نوٹ پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔ مجھے نوٹ پکڑا کر وہ تیزی سے واپس مُڑی باہر
کی طرف چل دی اور میں حیرت غصے اور شرمندگی بھری نظروں سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا
کہ یاسر نے چپکے سے میرے کان میں کہا استاد بتی ۔۔۔۔۔ اور فوراً سے پہلے ہی میں اس
کی ساری بات سمجھ گیا کہ وہ مجھ سے کیا کہہ رہا ہے سو میں تیزی سے رابعہ کی طرف
گیا اور اسے آواز دیکر روک لیا وہ رُکی اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی
۔۔۔۔ اب میں نے اس کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور اس کے سامنے سو روپے کے نوٹ کی
بتی بنائ اور اسی کے انداز میں اس سے کہا ۔۔۔۔۔ رابعہ جی یہ بہت کم ہیں آپ واپس لے
لو ۔۔۔ یہ کہتے ہوۓ
میں نے نوٹ کو ایک اور وَٹ دیا اور بلکل بتی بنا کر زبردستی اس کے ہاتھ میں پکڑا
دیا ۔۔۔ اور پھر اس کا جواب سنے بغیر واپس آ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولیمے کا کھانا ختم
ہوا تو لوگ باگ دلہے کو سلامی کا لفافہ دیتے ہوۓ
اور بڑے ملک صاحب سے کھانے کی تعریف کرتے ہوۓ
واپس جانے لگے جبکہ دلہن والے دلہا دلہن کے ساتھ فوٹو سیشن کرنے لگے پھر کچھ دیر
بعد یہ ہنگامہ بھی ختم ہو گیا اور دلہن والے مکلاوہ لیکر واپس گوجرانوالا چلے گۓ
جبکہ یاسر اور رفیق پہلے ہی یاسر کی منگیتر کی سالگرہ پارٹی میں شرکت کے لیۓ
چلے گۓ
تھے ۔۔۔ اب پیچھے غریب دا بال یعنی کہ میں رہ گیا سو میں نے ٹینٹ والوں کوگن کر ان
کا سامان دیا کچھ چمچے اور پیلٹس کم تھیں جو انہوں نے لکھ لیں اور آہستہ آہستہ سب
کام ختم ہو گیا جب سب لوگ چلے گے تو میں نیم اندھیری گلی میں ایک کرسی پر بیٹھ کر
رابعہ کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔ پتہ نہیں کیوں اس خاتوں کو مجھ سے کس بات کی
الرجی تھی ؟؟؟ مجھے دیکھتے ہی اس کا مُوڈ آف ہو جاتا تھا ۔۔۔۔۔ پھر مجھے اس کاآج
کا رویہ یاد آ گیا اور نا چاہتے ہوۓ
بھی میرا پارہ ہائ ہو گیا اور میرے منہ سے بے اختیار ایک موٹی سے گالی نکل گئ اور
اس کے ساتھ ہی ایک دفعہ پھر میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ ایک دن میں اس مغرور ،
بدتمیز اور بد تہزیب خاتون کو ضرور چودوں گا۔۔ لیکن کیسے ؟؟ ابھی تک کوئ ترکیب
سمجھ میں نہ آ رہی تھی ۔۔ لیکن چاہے کچھ بھی ہو میں نے اسے چودے بغیر چھوڑنا نہیں
تھا ۔۔۔ یہ میرا اپنے آپ سے وعدہ تھا میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ ۔۔۔ اچانک بڑے
ملک صاحب آ گۓ
اور آتے ہی مجھے گلے سے لگا لیا اور میرا بہت بہت شکریہ ادا کرنے لگے ۔۔۔ اور پھر
ایک طرف اشارہ کر کے بولے پتر یہ ٹب کن کا ہے ؟ ٹب کو دیکھتے ہی مجھے روبی کی
ہدایت یاد آ گئ اور میں نے گھبرا کر ٹائم دیکھا تو میں روبی کے دیۓ
ہوۓ
وقت سے آدھا گھنٹہ لیٹ تھا یہ دیکھ کر میں نے تیزی سے ٹب لیا اور ملک صاحب کو
بتایا کہ میں ٹب دے کر ابھی آیا اور ان کا جواب سُنے بغیر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔
اور ٹب اُٹھاۓ
رابعہ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ۔۔۔ فوراً ہی روبی دروازے میں نمودار ہوئ اور مجھے
دیکھ کر بولی میں نے تم کو کون سا ٹائم دیا تھا؟ تو میں نے اپنے منہ پر مسکینی طاری
کرتے ہوۓ
کہا کہ وہ جی ٹینٹ والوں کی وجہ سے لیٹ ہو گیا تھا تو وہ قدرے غصے سے بولی تم نے
ٹینٹ والوں کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی دروازے سے ہٹ گئ اور مجھے اندر
آنے کا راستہ دے دیا پھر وہ مجھ سے بولی چلومیرے ساتھ اور یہ ٹب جہاں سے لیا تھا
وہاں رکھو اور میں ٹب اٹھاۓ
اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا راستے میں میں نے روبی سے پوچھا کہ روبی جی آپ سالگرہ
پر نہیں گیئں ؟؟ تو وہ تھوڑا ہنس کر بولی تم کو جو ٹائم دیا تھا سو کیسے جا سکتی
تھی ؟ تو میں نے کہا آپ کے گھر والوں نے اس بات پر اؑعتراض نہیں کیا کہ آپ ان کے ساتھ
نہیں گئیں ؟؟؟؟؟ تو وہ پھر ہنس کر بولی ارے گھر والوں کو پتہ ہے کہ روبی تھوڑی
پاگل اور مرضی کی مالک ہے پھر کہنے لگی تم اس بات کی فکر نہ کرو ۔۔۔ اتنے میں سٹور
آ گیا اور میں نے ٹب وہاں رکھ دیا اور اچانک ہی روبی کو اپنے گلے سے لگا لیا یہ
دیکھ کر وہ خود کو مجھ سے چھُڑاتے ہوۓ
بولی ۔۔۔۔۔ ارے ارے ۔۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو تو میں نے کہا آپ سے پیار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو
اچانک وہ اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولی۔۔۔ شش ۔۔۔۔۔۔ سالے میں نے تم کو اپنے
لیۓ
نہیں بُلایا ۔۔۔۔۔ تو میں نے حیران ہو کر ان سے پوچھا ۔۔۔ تو ۔۔۔؟ تو وہ بولی یہ
ایک سرپرائز ہے پھر انہوں نے مجھے بازو سے پکڑا اور اپنے کمرے میں لے آئیں ۔۔۔ اور
کمرے کے دروازے میں داخل ہوتے ہی وہ ہو گیا ۔۔۔ جس کی مجھے بلکل بھی امید نہ تھی
۔۔۔ وہ سلطانہ جس سے ایک زمانے تک میرا آنکھ مٹکا رہا تھا ۔سامنے ایزی چئیر پر
بیٹھی تھی ۔۔ سلطانہ بھی روبی کی ہم عمر تھی کنواری تھی اور روبی کی طرح سٹیسٹس کے
چکر میں شادی کرنے کی عمر سے کافی آگے نکل چکی تھی تاہم روبی کر طرح ابھی بھی وہ
فٹ تھی ۔۔۔۔ وہ دروازے کے بلکل سامنے ایزی چئیر پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔ میرے بر عکس وہ
مجھے دیکھ کر وہ زرا بھی حیران نہ ہوئ اور وہیں سے بیٹھے بیٹھے بولی ہیلو شاہ کیسے
ہو تم ۔۔۔۔ ؟؟ اور میں منہ کھولے حیرت خوشی اور جگر پاش نظروں سے اسے دیکھنے لگا
مجھے ایسے دیکھتے دیکھ کر وہ قدرے شرما کر بولی ایسے کیوں دیکھ رہے ہو شاہ ؟ تو
میں نے کہا سلطانہ جی حسیں لوگ تو میں نے بہت دیکھے ہیں پر مجسم حُسن پہلی بار
دیکھ رہا ہوں اپنی تعریف سُن کر اس کے چہرے پر ہلکی سی مُسکراہٹ آ گئ اور وہ کہنے
لگی اب اتنا بھی نا بناؤ ۔۔۔۔۔ تو میں نے کہا میں آپ کو کیسے یقین دلاؤں کہ آپ
۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا وہ چئیر سے اُٹھی اور کہنے لگی روبی یار میں
زرا فریش ہو کر آتی ہوں یہ کہا اور واش روم میں گُھس گئ ۔۔ جیسے ہی سلطانہ نے واش
روم کا دروازہ بند کیا روبی نے ایک ہلکا سا تھپڑ میرے منہ پر مار کر کہا خبردار
میرے سامنے اس کی تعریف نہ کرنا ۔۔۔ تو میں نے کہا وہ کیوں روبی جی تو وہ سر جھکا
کر بولی مجھے جلن ہوتی ہے ۔۔۔۔ تو میں نے کہا کمال ہے آپ خود ہی تو موقع دے رہی ہو
تو وہ کہنے لگی اس کی بات اور ہے ۔۔۔۔ پھرکہنے لگی خیر چھوڑو ان باتوں کو ۔۔۔۔۔ یہ
پھر بھی ہو جائیں گی ۔۔۔۔ اور پھر دھیرے سے بولی ۔۔ شاہ ویسے تو تم خود بھی بڑے
حرامی ہو ۔۔۔ پھر بھی میں تم کو ایک دو ٹِپس دے رہی ہوں اس پر عمل کرو گے تو فائدے
میں رہو گے ۔۔ پہلی ٹِپ یہ کہ لوہا بہت گرم ہے ۔۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم
فوراً ہی ہوہتھوڑا دے مارو ۔۔۔ باقی تم سمجھتے ہو ۔۔۔ پھر بولی خبردار میرے اور
تمھارے معاملے کی اس کو زرا بھی بھنک نہیں پڑنی چاہیۓ
۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بات کرتی دروازے کی کُنڈی کھلنے کو آواز آئ اور روبی
ایک دم مجھ سے دُور ہٹ کر کھڑی ہو گئ اور پھر اونچی آواز میں بولی ۔۔۔ یوں دیدے
پھاڑ پھاڑ کی دروازے کی طرف کیا دیکھ رہے ہو ابھی باہر آ جاۓ
گی تمھاری دوست۔۔۔ اور پھر زور زور سے ہنسے لگی اتنے میں سلطانہ بھی کمرے سے باہر
آ گئ تھی اور روبی کو ہنستے دیکھ کر بولی کس بات پر ہنس رہی ہو تم ؟ تو وہ پھر
ہسنتے ہوۓ
کہنے لگی یار جب سے تم واش روم میں گئ ہو موصُوف اسی وقت سے واش روم کے دروازے کو
گھورے جا رہا ہے ۔۔۔ پھر اس نے سلطانہ کو کہا تم دونوں باتیں کرو میں چاۓ
لیکر آتی ہوں ۔۔۔۔ روبی کے جانے کے بعد سلطانہ نے میری طرف دیکھا اور بولی روبی سچ
کہہ رہی ہے ؟ تو میں نے کہا جی ۔۔۔ میرا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ میں واش روم کا
دروازہ توڑ کو آپ کے پاس آ جاتا ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کچھ نہ بولی اور ایزی چئیر
پر بیٹھ کر اپنے دوپٹے سے کھیلنے لگی۔۔ اور کمرے میں گہری خاموشی چھا گئ ۔۔۔
سلطانہ سر جھکا کر اپنے دوپٹے سے کھیل رہی تھی اور میں اس کو دیکھ رہا تھا اور
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیسے بات شروع کروں پھر مجھے ایک بات یاد آ
گئ اور میں نے اس سے کہا سلطانہ جی سنائیں بھائ کی دلہن کیسی لگی ۔۔ تو اس نے سر
اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور اچھی ہے کیوٹ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میری اچھی
دوست ہے ۔۔۔ اس کے بعد میں نے سلطانہ سے کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کیں اور
پھر وہ کافی حد تک میرے ساتھ گھل مل گئ اتنے میں روبی دروازہ ناک کر کے اندر آئ
اور سلطانہ کو چئیر پر اور مجھے تھوڑے فاصلے پر دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئ پر اس نے
اس بات کا اظہار نہیں کیا اور بولی اُٹھو بچو میں نے تم لوگوں کی چاۓ
اوپر والے روم میں لگا دی ہے چلو شاباش میرا کمرا خالی کرو یہ سُن کر سلطانہ اٹھی
اور پھر ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والے روم میں جانے لگے میرا چونکہ ان کے گھر بہت
زیادہ آنا جانا تھا اس لیۓ
مجھے پتہ تھا کہ ان لوگوں نے اوپر والی منزل پر گیسٹ روم بنایا تھا اور روبی ہم کو
وہیں جانے کا کہہ رہی تھی کیونکہ وہاں خطرہ کم تھا ۔
پھر جیسے ہی میرا لن سلطانہ کی گرم چوت سے ٹچ ہوا ۔۔۔۔ پتہ نہیں اس کے جی میں کیا آئ کہ اس نے اپنا ایک ہاتھ تیزی سے آگے بڑھا کر میرے لن کے سامنے کر دیا اور چلا کر بولی ۔۔۔۔۔۔۔ سالے حرامی ۔۔۔۔ یہ تم اپنا لن میری چوت میں اتنا ترسا ترسا کر کیوں ڈال رہے ہو۔۔ ؟؟؟؟ تو میں نے کہا سلطانہ جی آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ کہ آپ لن کو اپنی چوت میں جاتا دیکھنا چاہتی ہو۔۔۔۔ تو میں اسی لیۓ یہ سب کر رہا تھا میری سُن کر وہ تھوڑا غصے میں بولی۔۔۔ بھاڑ میں گیا میرا شوق ۔۔۔۔۔ توُ بس لن کو اندر ڈالنے والی بات کر ۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی ٹھہرو تم رہنے دو میں خود تمھاری اوپر آ کر لن اپنی چوت میں ڈالتی ہوں اس نے یہ کہا اور پھر وہ تیزی سے بستر سے اُٹھی اور مجھے دھکا دیکر نیچے گرایا اور پھر میرے اوپر چڑھ کر اس نے اپنی ٹانگیں اِدھر اُدھر کیں اور پھر ایک ہاتھ میں میرے لن کو پکڑ کو اپنی چوت پر سیٹ کیا اور پھر میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔۔۔ دیکھ سالے ایسے دیتے ہیں لن۔۔۔ اس وقت وہ بڑے ہی جوش میں لگ رہی تھی ۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور پھر وہ ایک جھٹکے سے میرے لن پر بیٹھ گئ اور سارے کا سارے لن اپنی گرم چوت میں لے لیا ۔۔۔ اس کی چوت بڑی ہی گرم اور تنگ تھی سو میرا لن اس کی چوت کی دیواروں سے رگڑ کھاتا ہوا اس کی بچہ دانی سے جا ٹکرایا اور اس ساتھ ہی اس نے ایک چیخ ماری اور بولی ۔۔۔ اُف ۔ف۔ف۔ ۔ف ۔ف اور ایسے ہی وہ لن پر کچھ دیر بیٹھی اس کا مزہ لیتی رہی پھر کچھ دیر بعد اس نے لن پر اچھل کود شروع کر دی ۔۔ لن پر جمپ مارنے سے پہلے وہ مجھ سے بولی ۔۔۔۔ میں لن پر جمپیں مارنے لگی ہوں اس دوران تم میرے دونوں دودھ پکڑ کر انہیں زور زور سے دبانا ۔۔۔۔ اور میں نے اس کی ہداہت پر عمل کرتے ہوۓ اس کے مموں کو کس کر پکڑ لیا اب وہ تھوڑا نیچے جھکی اور بولی دیکھو زور سے دبانا ہاں ۔۔۔۔۔ اور پھر اس نے بے دریغ لن پر اوپر نیچے ہونا شروع کر دیا اور اس طرح اس نے لن پر کافی گھسے مارے پھر وہ تھوڑی دیر کے لیۓ رُک گئ اس کا سانس بُری پھولا ہوا تھا اور وہ گہرے گہرے سانس لے رہی تھی جب کچھ دیر بعد اس کا سانس کچھ بحال ہوا تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی شاہ ۔۔۔۔۔ اب تمھاری باری ہے تم نے میری چوت کو اس طرح سے مارنا ہے کہ ۔۔۔۔۔ اس کی اگلی پچھلی ساری کسریں آج ہی نکل جائیں ۔۔۔۔۔ اس نے یہ کہا اور پھر وہ میرے لن سے نیچے اُتر آئ اور کہنے لگی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ تم مجھے کس سٹائل میں چودنا پسند کرو گے ؟ تو میں نے کہا سلطانہ جی ویسے تو سارے ہی سٹائل اچھے ہیں پر مجھے ڈوگی سٹائل میں چودنا اچھا لگتا ہے ۔۔۔۔ یہ سُن کر وہ مسکرا دی اور بولی ڈوگی از دی بیسٹ سٹائل ۔۔۔ پھر اس نےاپنا منہ پلنگ کے سرہانے کی طرف کیا اور وہاں پر دونوں ہاتھ ٹکا کر ڈوگی سٹائل میں ہو گئ ۔۔۔ اور پھر اپنی گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔۔۔۔ دیر نہ کرو۔۔۔۔۔۔ آ جاؤ ۔۔۔۔۔ میں اس کی بات سنی اور پھر گھوم کر اس کے عین پیچھے ہو لیا اور پھر جیسے ہی اس کے پیچھے پہنچا تو میں اس کی گانڈ دیکھ کر ایک دم ٹھٹھک سا گیا اور پھر میں اس کی گانڈ کے تھوڑا اور نزدیک ہوا اور پھر بڑی ہی باریک بینی سے اس کا جائزہ لینے لگا اس کی گانڈ کافی موٹی اور گول تھی جبکہ گانڈ کے رِنگ کا سائز ویسا نہ تھا جیسا کہ کنواری لڑکیوں کی گانڈ کا ہوتا ہے ۔۔۔ پھر میں نے اپنے بائیں ہاتھ کی درمیانہ انگلی کو اس کی چوت میں داخل کیا ا کی چوت تالاب بنی ہوئ تھیا اور اس میں بہت سا پانی کھڑا تھا ۔۔۔۔۔ سو میں نے اپنی انگلی کو اس تالاب میں اچھی طرح سے گھما کر چوت کے پانی سے تر گیلا کیا اور پھر میں نے اپنی وہ انگلی اس کی گانڈ کی موری پر رکھی ۔۔۔۔۔ تو اچانک سلطانہ نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ہے۔۔۔۔ کیا کر رہے ہو؟ جلدی سے اندر ڈالو نا ۔۔۔ تو میں نے کہا سلطانہ جی میں آپ کی دلکش گانڈ چیک کرنے لگا ہوں تو وہ بولی پہلے اپنا ادھورا کام تو پورا کر لو پھر جو مرضی ہے چیک کرتے پھرنا ۔۔۔ لیکن میں نے اس کی نہ سُنی اور اپنی درمیانہ انگلی اس کی گانڈ میں ڈال دی ۔۔۔۔۔۔ اس نے ایک ۔۔ لزت پھری سسکی لی ۔۔۔۔ آآآآہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔ اور بولی ۔۔۔۔ نہ کرو نا جان تو میں نے اس کی گانڈ میں انگلی گھماتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔ میڈم آپ کی چوت کی طرح آپ کی گانڈ بھی کنواری نہیں ہے۔۔۔ میری بات سُن کر اس نے بڑے غصے سے میری طرف دیکھا اور بولی میں یہاں اپنا کنوار پن چیک کروانے نہیں آئ ہوں بلکہ تمھارے لن سے مزہ لینے آئ ہوں ۔۔۔ زیادہ انکوئری کی ضرورت نہیں میں ایک جوان اور تمھاری طرح سیکسی عورت ہوں ۔۔۔۔۔۔ اسلیۓے اپنی انگلی کو میری وہاں سے نکالو اور اپنے اس سانڈ (لن) کو وہاں ڈالو جہاں تم اسے ڈالنے والے تھے۔۔ اب میں نے اس کی بات مان لی اور اپنی انگلی کو اس کی گانڈ سے نکالا اور اپنا لن اس کی چوت پر رکھا اور اور پھر ایک زور دار گھسا لگا دیا ۔۔۔۔ وہ میرا گھسا برداشت نہ کر سکی اور بلبلا کر بولی ۔۔۔۔۔۔ آہستہ میری جان آہستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا بھی زور مت لگاؤ ۔۔۔ مزے مزے سے چودو مجھے ۔۔۔۔۔ اور پھر میں نے قدرے آرام آرام سے اس کی پمپنگ شروع کر دی ۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ بھی فل جوبن میں آ گئ اور بولی ۔۔۔۔۔ شاہ ۔۔۔۔اب پہلے کی طرح گھسے مارو ۔۔۔ میرا آخری ٹائم آ گیا ہے ۔۔۔ پلیز ۔۔۔ زرا بھی رحم مت کرنا میری پھدی پر۔۔۔ اور مارو اس کو ۔۔اس کو مارو ۔۔۔۔ ماروو نہ اور میں نے زور دار گھسےمارنے شروع کر دہۓ کچھ ہی دیر بعد اس نے گردن موڑ کر میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ آخری گھسے ہیں ۔۔۔۔ آخری ۔۔۔۔ اور پھر اس ساتھ ہی اس کی چوت نے میرے لن کے گرد ٹائٹ ہونا شروع کر دیا ۔۔۔۔ ادھر میں نے بھی اس کو گھسے مارتے مارتے ہاتھ بڑہا کر روبی کا دیا ہوا کپڑا پکڑا اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا جسم بھی اکڑنا شروع ہو گیا ۔۔۔۔ اور پھر ایک دو گھسوں کے بعد میرے لن نے بھی اس کی چوت میں فوارا مارنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ میری طرف دیکھ کر بے ترتیب سانسوں میں بولی ویل ڈن شاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج تم نے حد کر دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری چوت سے ڈھیروں پانی نکال کر سے ایک دم ٹھنڈا کر دیا ہے ۔۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے جلدی سے لن اس کی چوت سے باہر نکلا اور روبی کے دئیے ہوۓ کپڑے سے اس کی چوت کو اندر تک صاف کیا اور ۔۔۔ پھر میری نگاہ سلطانہ کی طرف گئ تو مارے مزے کے اس کی آنکھیں بند ہوتی جا رہیں تھیں اور وہ بے سدھ سی ہو کر سونے لگی تھی پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی نیند گہری ہو گئ میں نے اس کو جگانہ مناسب نہ سمجھا اور اور کپڑے پہن کر باہر آ گیا۔ نیچیے گیا تو روبی ٹی وی دیکھ رہی تھی مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر بولی ۔۔۔ میرا کام کیا ؟ اور میں نے بنا کوئ بات کیۓ اپنے ہاتھ میں پکڑا گیلا کپڑا اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور چلنے ہی لگا تھا کہ اچانک اس نے اپنے نتھنے پھیلانے شروع کر دیۓ اور میری تھائیز کی طرف اشارہ کر کے بولی مجھے تمھارے یہاں سے مست رگڑائ کی بُو آ رہی ہے اور پھر مزیر بات کیۓ بغیر اس نے میری پینٹ کو سامنے والی سائیڈ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور پھر بنا کوئ بات کیۓ اس نے پہلے تو میری پینٹ کے اوپر والے بٹن کھولے پھر زپ کھول کر پینٹ کو دونوں طرف سے پکڑ کر اسے میرے گھٹنوں تک نیچے کر دیا۔۔ اور جیسے ہی میرا ننگا لن اس کے سامنے ہوا تو وہ حیران ہو کر بولی تم نے انڈر وئیر نہیں پہنا تھا ؟ تو مجھے یاد آیا کہ انڈر وئیر تو میں اوپر ہی بھول گیا ہوں اور میں نے جیسے ہی اس کو یہ بات بتائ تو وہ کہنے لگی ۔ رہنے دو میں سنبھال لوں گی پھر بولی جس طرح تم میں سے کچھ لڑکے خواتین کی پینٹی سونگھنے کے شوقین ہوتے ہونا اسی طرح ہم میں سے کچھ لیڈیز بھی تم لڑکوں کے انڈر وئیر سونگھنے کے شوقین ہوتیں ہیں اور اس کے فوراً بعد اس نے اپنی ناک میرے چڈوں (اِنرتھائ) میں ڈالی اور بولی ۔۔ اصل مال تو یہاں ہے اور گہرے گہرے سانس لیکر وہ جگہ سونگھنے لگی ۔۔ پھر کچھ دیر بعد میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔ لگتا ہے سلطانہ نے جم کر تیرے اوپر سواری کی ہے تو میں نے حیران ہو کر ان سے پوچھا ۔۔۔ لیکن یہ آپ کو کیسے پتہ چلا تو وہ کہنے لگی وہ اسطرح میرے چندا کہ یہاں سے تم دونوں کی گہری رگڑائ کی زبردست مہک آ رہی ہے – کچھ دیر بعد اس نے اپنے منہ سے عجیب سی لزت آمیز آوازیں نکالیں اور پھر اپنے منہ سے زبان باہر لے آئ اور پھر مست ہو کر میری وہ جگہ چاٹنے لگی ۔۔ پھر آہستہ آہستہ وہ اپنی زبان میرے لن کے پاس لے آئ اور پھر لن پر زبان رکھ دی اور ایک دفعہ پھر میری طرف دیکھ کر بولی تھینک یو ۔۔۔۔ تو میں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا تھینک یو کس بات کا روبی جی ؟؟ تو وہ کہنے لگی کہ اپنے لن کو کپڑے سے صاف نہ کرنے کا ۔۔۔ تو مجھے یاد آیا کہ جلدی میں اپنا لن بھی اس کے دیئے ہوۓ کپڑے سے صاف نہ کر سکا تھا لیکن اس کے سامنے میں نے اس کا اظہار نہ کیا اور کمال عیاری سے اس کو کہا کہ یہ سب میں نے آپ کے لیۓ کیا روبی ڈارلنگ ۔۔۔ تو وہ مسکُرا کر بولی تھینکس ڈئیر آئ لو یو ۔۔ اور دوبارہ لن چاٹنے لگی اور یوں اس نے چاٹ چاٹ کر میرا سارا لن صاف کر دیا اتنے میں میرا لن الف ہو گیا اور مجھے دوبارہ ہوشیاری آ گئ اور میں نے اس کے سامنے لن لہراتے ہوۓ کہا ۔۔۔ روبی جی لیٹ جاؤ میں آپ کو چودنا چاہتا ہوں میری بات سُن کر اس نے میرا لن اپنے منہ سے نکلا اور بولی ۔۔۔۔ نو میں تمھارا گندہ لن کھبی بھی اپنی چوت میں نہیں لوں گی تو میں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا " گندا لن " پر وہ کیسے روبی جی تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ تمھارا یہ لن سلطانہ کو چو ت سے ہو کر نہیں آیا؟؟ تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو وہ بولی ۔۔۔ چوت میں جانے سے لن گندا ہوتا ہے یا صاف ؟؟ تو میں کہا ظاہر ہے گندا تو وہ بولی تو تمھارا لن گندا ہوا نا ۔۔۔ اس خبطن کی یہ بات سُن کر میں نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پر قابو پایا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔۔۔ اس کے بعد بھی وہ کچھ دیر تک میرے لن کو چوستی رہی پھر ۔۔۔ مجھ سے مخاطب ہو کر بولی پینٹ پہن لو کیونکہ تم سے آنے والی ساری سمیل میں نے ان ہیل کر لی ہے اس کی یہ بات سن کر میں نے جلدی سے پینٹ پہنی اور چُپ چاپ وہاں سے اپنے گھر چلا آیا ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد زندگی پھر سے معمول کے مطابق شروع ہو گئ ۔۔۔ وہی گھر سے کالج ۔۔۔ شام کو یاسر کے گھر براۓ ٹیوشن پھر اس کے بعد اپنے چھت سے سلطانہ کے ساتھ آنکھ مٹکا وغیرہ وغیرہ ۔لیکن اب سلطانہ چھت پر بہت کم وقت کے لیۓ آتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی نئ نویلی بھابھی کے ساتھ زیادہ ٹائم گزارتی تھی ۔ پھر بھی تانکا جھانکی یہ سب معمول کے مطابق جاری و ساری تھا ۔۔ اور میرا ٹھرک پورا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہ سلطانہ کی فَکِنک کے ایک ہفتے کے بعد کا زکر ہے میں حسبِ معمول یاسر کو ٹیوشن پڑھانے گیا تو میں نے ان کے گھر معمول سے کچھ زیادہ چہل پہل دیکھی پوچھنے پر پتہ چلا کہ یاسر کی سُسرالی خواتین آئ ہوئیں ہیں ۔۔ میں نے اس بات کو روٹین میں لیا اور اندر جا کر یاسر کا ہوم ورک دیکھنے لگا جبکہ یاسر مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر خود ابھی آیا کہہ کر غائب ہو گیا اور اس کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد ایک سڈول اور بھرے بھرے جسم والی خوبصورت سی کم سِن حسینہ کہ جس کے انگ انگ سے شرارت ، مستی اور بے چینی ٹپک رہی تھی بڑی بے باکی سے روم میں داخل ہوئ اور بڑے تپاک سے مجھے ملی ۔۔۔ اس کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی وہ وہ بڑی ہی زہین و فطین لڑکی ہے مجھ سے مل کر وہ سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئ اور پھر مسلسل میری طرف دیکھ کر میرا جائزہ لینے لگی ۔۔۔ میں چونکہ کم سن لڑکیوں کا بلکل بھی شوقین نہیں ہوں اس لیۓ میں اس کے جسم کے نشیب و فراز کا اندازہ لگانے کی زرا بھی کوشش نہ کی اور چپ چاپ یاسر کے ہوم ورک کی کاپی دیکھتا رہا ۔۔۔ کچھ دیر تک تو وہ چپ رہی پھر اس نے کھنگار کر اپنا گلہ صاف کیا اور بولی ۔۔۔۔ ٹیچر صاحب آپ کے سامنے ایک مہمان لڑکی بیٹھی ہے اور آپ ہیں کہ بڑی بے مُروتی سے ہوم ورک کی کاپی دیکھے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس سے قبل کہ میں کچھ جواب دیتا یاسر آندھی اور طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوا اور اس حسینہ کو دیکھ کر بولا ۔۔۔ میں تم کو سارے گھر میں ڈھونڈ رہا ہوں اور تم یہاں بیٹھی ہو ۔۔۔۔ پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔۔ استاد جی اس آفت کی پرکالہ نے آپ کو تنگ تو نہیں کیا ؟ تو وہ حسینہ بول اٹھی کہ ابھی تو میں نے سٹارٹ ہی لیا تھا کہ اوپر سے تم نازل ہو گۓ ۔۔۔ تھوڑا لیٹ نہیں آ سکتے تھے کیا ؟ یہ سن کر یاسر بولا اوۓ اوۓ میں تم کو پہلے ہی بولا تھا کہ میرے استاد کے ساتھ پنگا نہیں لینے کا ۔۔۔ اس نے یہ بات کی اور پھر وہ دونوں ہی ہنسنے لگے ۔۔۔۔ اور میں ہونقوں کی طرح ان کو ہنستے دیکھتا رہا ۔۔۔ پھر شاید یاسر کو ہی کچھ خیال آیا اور وہ ایک دم سیریس ہو کر بولا سوری استاد جی ۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ویسے تو کسی بھی لڑکی کو تم سے ملانا خطرے سے خالی نہیں لیکن چونکہ مجھے زاتی طور پر معلوم ہے کہ آپ کی پسند کم عمر لڑکیاں ہر گز نہیں ہیں اس لیۓ سر جی ان سے ملو یہ ہے میری منگیتر مایا ۔۔۔۔ اور اس کی بات سُن کر مایا نے ایک دفعہ پھر جھک کر مجھے آداب کیا تو یاسر بولا ۔۔۔ او میڈم ۔۔۔۔ تم کو بتایا تو تھا کہ ان کو ہر گز تنگ نہیں کرنا ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ مایا یاسر کی بات کا جواب دیتی ۔۔۔ یاسر کی امی روم میں داخل ہوئی جسے دیکھ کر مایا ایک دم مؤدب ہو گئ اس نے آتے ساتھ ہی کہا مایا بیٹا چاۓ لگ ہے پلیز پی لو ۔۔۔۔ تو یاسر میری طرف اشارہ کر کے بولا ماما ان کو بھی۔۔۔ تو وہ اس کی بات کاٹ کر بولی ۔۔۔ مجھے پتہ ہے بابا کہ ان کو بھی چاۓ دینی ہے تم لوگ جاؤ میں ان کی بھی چاۓ لیکر آتی ہوں تو مایا بولی آپ رہنے دیں ماما میں ٹیچر کے لیۓ چاۓ لے آؤں گی ۔۔۔۔۔ اور پھر وہ تینوں کمرے سے باہر نکل گۓ ۔۔۔۔۔۔
0 تبصرے
thanks