ہم ۔دوست تحریر: ماہر جی دوسری قسط

مارچ 25, 2021

ہم ۔دوست

تحریر: ماہر جی

دوسری قسط


تمہاری وجہ سے جو کام ادھورا رہ گیا تھا اسے اب پورا کرنا ہے اور مجھے دعوت دی کہ میں چاہوں تو ان کا لائیو پروگرام دیکھ سکتا ہوں ۔۔ لیکن میرا دل نہ مانا اور میں ان سے اجازت لے کر جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے واپس گھر چلا گیا ۔۔۔ اُسی شام معمول کے مطابق میری ملاقات رفیق سے ہوئ لیکن نہ ہی اس نے اور نہ ہی میں نے اس کے ساتھ اس ٹاپک پر کوئ گفتگو کی ۔۔۔۔ بلکہ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ ایسا ٹریٹ کیا جیسے ایسی ویسی کوئ بات ہی نہ ہوئ ہو ۔۔۔ رفیق لوگوں کا گھر تھوڑا اونچا تھا اس لیۓ ہم عام طور پر ان کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر (جسے تھڑا بھی کہ سکتے ہیں ) گپ شپ لگاتے تھے ۔۔۔ اسی شام ہم سیڑھوں پر بیٹھ کر گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک ملکوں کے گھر پر لگی مرچیں (لائیٹس) جل اُٹھیں ۔۔۔۔۔ اونچی آواز میں لگے میوزک نے پہلے ہی سارے مُحلے کی جان عزاب میں ڈالی ہوئ تھی لائیٹس جلتی دیکھیں تو میں نے اس سے پوچھا یار یہ بتا سالے ملک کی شادی ہے کب ؟ تو وہ بولا یار ابھی تواس میں پندرہ بیس دن پڑے ہیں ۔۔۔ تو میں نے کہا اس کا مطلب یہ کہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد ملک پھدی کا منہ دیکھ سکے گا ؟؟؟ تو وہ بولا جی سر جی ان کا پروگرام تو یہی ہے تو میں نے اس سے پوچھا یار پھر انہوں نے اتنی جلدی شادی والی لائیٹس کیوں لگا لیں ہیں۔۔۔ ؟؟؟ اوپر سے لؤوڈ میوزک نے ہماری مَت ماری ہوئ ہے ۔۔ تو وہ بولا بہن چودا ان کی مرضی ہے جو چاہیں کریں تمھاری گانڈ میں کیوں خارش ہو رہی ہے ۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟ گانڈ کا زکر کرتے ہوۓ ۔۔ اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر ہنس پڑا ۔۔۔ اسے یوں ہنستا دیکھ کر میں نے اُس سے پوچھا۔۔ کس بات پر ہنسی نکل رہی ہے تیری ۔۔ ؟؟ تو وہ بولا کچھ نہیں یار بس ویسے ہی ۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی مجھے آنکھ مار دی ۔۔ چُھٹیوں کے دوران جب بھی یاسر کے گھر والے کہیں جاتے یہ لوگ سیکس پروگرام بنا لیتے تھے اور پتہ نہیں کیوں اپنے ہر پروگرام کی مجھے ضرور اطلاع دیا کرتے تھے ۔۔ لیکن اس دن کے بعد میں نے ان کے ساتھ کوئ پروگرام نہیں کیا ۔۔ کوئ خاص وجہ بھی نہ تھی بس مُوڈ ہی نہ بنا تھا ۔ حالانکہ اُس دِن کی فکنگ کے بعد دونوں خاص کر یاسر تو میرے لن کا دیوانہ بن چکا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اب وہ میرا بڑا اچھا دوست بھی بن چکا تھا ۔۔ اور مجھے میرے نام کی بجاۓ استاد جی کہتا تھا ہمساۓ ہونے کی وجہ سے میرا تو ابھی نہیں پر ہمارے گھر والوں کا یاسر کے گھر آنا جانا شروع ہو چکا تھا ۔۔۔ پھر کچھ دن بعد ہم سب کے سکول کالج کھل گۓ اور روٹین لائف شروع ہو گئ ۔۔۔۔ اور یہ سکول کالج کُھلنے کے کوئ دو ہفتے بعد کا زکر ہے۔۔۔ میں حسبِ معمُول کالج جانے کے لیۓ گھر سے نکلا اور گھر کے راستے میں چونکہ رفیق کا گھر آتا تھا اس لیۓ میں اس کو ساتھ لے جاتا تھا ۔۔ اُس دن بھی میں نے یہی پریکٹس کرنی تھی ۔۔۔ پر ہوا یہ کہ جیسے ہی میں گھر سے نکلا تو ساتھ والے گھر سے ( جو کہ یاسر لوگوں کا تھا ) سے آنٹی کی مسلسل زور زور سے باتیں کرنے کی آوازیں آ رہیں تھیں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی کے ساتھ لڑ رہی ہوں ۔۔۔ پہلے تو میں ان آوازوں کو معمول کی بات سمجھا پھر جب یاسر کی امی کی آوازوں کا والیم کچھ زیادہ ہی اونچا ہونے لگا تو میں جو رفیق کے گھر کی طرف تین چار قدم بڑھا چکا تھا یہ آوازیں سُن کر واپس ہو گیا اور جا کر یاسر کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ۔۔۔ پر کسی نے کوئ جواب نہ دیا ۔۔۔۔ میں نے ایک دفعہ اور تھوڑا زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔ اور انتظار کرنے لگا ۔۔ پر اس دفعہ بھی کسی نے کوئ جواب نہ دیا ۔۔ اور میں کچھ دیر کھڑا رہنے کے بعد سوچا شاید وہ دروازہ نہیں کھولنا چاہتے شاید کوئ گھریلو مسلہ ہو گا اور وہاں سے چل پڑا ابھی میں نے جانے کے لیۓ مشکل سے ایک آدھ ہی قدم بڑھایا ہو گا کہ اچانک یاسر کے گھر کا دروازہ کُھل گیا اور دیکھا تو دروازے پر آنٹی کھڑی سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھیں ۔۔ اُن کو یوں دیکھ کر میں تھوڑا گھبرا گیا اور ۔۔۔ پوچھا آنٹی جی سب خیریت تو ہے نا ۔۔؟ تو وہ بولی ہاں خیر یت ہی ہے تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔وہ آپ کے گھر سے ۔۔۔۔۔ تو وہ جلدی سے بولی ۔۔۔ وہ اصل میں یاسر سکول جانے سے آج پھر انکاری ہے کہتا ہے میں نے اس سکول میں نہیں پڑھنا ۔۔۔ میرا سکول تبدیل کرو ۔۔۔ اب بتاؤ نا بیٹا میں کیا کروں ۔۔۔ کہ اب تک یہ بچہ کم از کم چار سکول تبدیل کر چکا ہے تو میں نے پوچھا اس کی وجہ کیا بتاتا ہے ۔۔؟ تووہ بولی وجہ ہی تو نہیں بتانا نہ ۔۔۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی ۔۔۔۔ میں تو اس لڑکے سے بڑی عاجز آگئ ہوں۔۔۔ بس ایک ہی رٹ لگا ر کھی ہے کہ سکول نہیں جانا۔۔۔ سکول نہیں جانا۔۔۔۔ تو میں نے جواب دیا میرا خیال ہے اس نے ہوم ورک نہیں کیا ہو گا ؟ تو وہ بولی پتہ نہیں کیا بات ہے کچھ بتاتا بھی تو نہیں ہے نا ۔۔۔ تو میں کہا آنٹی جی اگر آپ اجازت دیں تو میں ٹرائ کروں تو وہ مجھ سے کہنے لگی اگر تم اس سے پوچھ کر کچھ بتا سکو تو تمھاری بڑی مہربانی ہو گی ۔۔۔ اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے اندر آنے کے لیۓراستہ دے دیا ۔۔۔۔۔ اور میں ان کے گھر کے اندر چلا گیا اور آنٹی سے پوچھا کہ یاسر کس کمرے میں ہے تو وہ بولی ۔۔۔۔ اپنے رُوم میں بیٹھا ہے اور میں سیدھا اس کے کمرہ میں چلا گیا ۔۔ دیکھا تو یاسر منہ بسُورے پلنگ کے ایک طرف بیٹھا تھا ۔۔ جبکہ دوسرے طرف اس کا سکول ہونیفارم پڑا ہوا تھا اور سامنے تپائ پر ناشتہ رکھا تھا ۔۔۔ جو پڑے پڑے ٹھنڈا ہو چکا تھا ۔۔ مجھے یوں اپنے رُوم میں دیکھ کر وہ بڑا حیران ہوا اور بولا ۔۔۔ استاد جی آپ ؟؟؟ (مطلب سیکس کا استاد ) تو میں نے اس سے بوچھا یار تم نے کیا سارے گھر کو ٹینشن میں ڈال رکھا ہے ۔۔۔ آج سکول کیوں نہیں جا رہے ؟ اور ساتھ ہی یہ بھی سوال کر لیا کہ تمھاری امی کہہ رہی ہیں کہ تم سکول بدلنے کا کہہ رہے ہو ؟ چکر کیا ہے ؟ میری بات سُن کر پہلے تو اس نے مجھے ٹالنے کی کوشش کی ۔۔۔ پر میں کہاں ٹلنے والا تھا سو میں نے اس سے صاف صاف کہہ دیا کہ بیٹا میں تمھاری اماں جان نہیں ہوں کہ ٹل جاؤں ۔۔۔۔ میرے ساتھ صاف اور دو ٹوک بات کرو اور بتاؤ کہ اصل معاملہ کیا ہے تب اس نے میری طرف دیکھا اور کچھ سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔ تو میں نے اس کہا سوچتا کیا ہے یار تمھارا اور میرا کوئ پروہ ہے جو بات کو یوں چھُپا رہے ہو تو اس نے ایک دفعہ پھر میری طرف دیکھا اور ۔۔۔ اس کے چہرے پر کشمکش کے آثار دیکھ کر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ گھبرا مت یار میں تمھارا دوست ہوں ۔۔۔۔۔ کوئ مسلہ ہے تو ہم مل کر حل کر لیں گے اور کہنے لگا دیکھو ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں میری اس طرح کی باتوں سے اسے کافی تسلی ہوئ اور پھر کچھ اٹک آٹک کر اس نے مجھے بتلایا ۔۔۔۔ ۔۔۔ وہ استاد جی بات یہ ہے ۔۔۔ کہ وہ سر پی ٹی مجھے بڑا تنگ کرتا ہے۔۔۔ اس کا اتنا کہنا تھا کہ میں ساری بات سمجھ گیا لیکن پھر بھی میں نے اس سے کنفرم کرنے کے لیۓ پوچھ لیا کہ وہ کیوں تنگ کرتا ہے ؟ تو وہ عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔۔۔۔ یار وہ اصل میں میری لینے کے چکر میں ہے ۔۔۔۔ اور سر جھکا لیا ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ اچھا تو اتنے سکول بدلنے کی یہی وجہ تھی ؟ تو اس نے اپنا سر ہاں میں ہلا دیا ۔۔۔ اور میرے خیال میں اُس کی آنکھوں میں آنسو بھی آ گے تھے ۔۔۔۔ مجھے اس کی بات سُن کر ایک شعر یاد آ گیا کہ اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی پھر میں نے اس سے اس کے سکول کا نام پوچھا تو ( یہ پنڈی میں ) مری روڈ پر ایک پرائیویٹ سکول تھا ۔۔۔ اتفاق سے جس کے پرنسپل کا بیٹا میرے ساتھ ہی کالج میں پڑھتا تھا ۔۔۔ سو میں نے اس کو کہہ دیا کہ یاسر یار تم یونیفارم پہنو اور بے فکر ہو کر سکول چلے جاؤ آج کے بعد سر پی ٹی تو کیا اس کا باپ بھی تمھاری طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھے گا اور یہ بھی کہا کہ آئیندہ اگر کبھی ایسی بات ہوئ تو تم مجھے بتانا ۔۔۔ میری بات سُن کر اس نے بے یقینی سے میری طرف دیکھا اور بولا ۔۔ تم سچ کہ رہے ہو استاد جی۔۔؟ تو میں نے کہا آزمائیش شرط ہے بیٹا ۔۔۔۔ یہ سُن کر وہ تھوڑا مطمئین ہو گیا لیکن پھر فکرمند سا ہو کر بولا دیکھ یار مُروا نہ دینا ۔۔۔۔ تو میں نے کہا ایسی کوئ بات نہیں ہے دوست۔۔ اعتبار کرو اور کہا کہ تم بس یونیفارم پہن کر تیار ہو جاؤ میں تمھارا کھانا گرم کروا کر لاتا ہو ۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔ ٹھیک ہے پر ایک بات اور !!! ۔۔۔ تو میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا ہاں بولو تو وہ کہنے لگا ۔۔ پلیز اس بات کا امی اور رفیق کو نہیں پتہ چلنا چاہیۓ تو میں نے کہا یار امی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے یہ رفیق کو کیوں نہیں بتانا۔۔۔؟ تو وہ بولا یار یہ لوگ بعد میں اس بات کا بڑا مزاق اُڑاتے ہیں اس کی بات سُن کر میں نے اس سے وعدہ کر لیا کہ یہ بات میرے اور اس کے بیچ ہی رہے گی ۔۔ تو وہ ایک بار پھر مجھ سے کہنے لگا استاد جی پکی بات ہے نا کہ آپ میرا مسلہ حل کر لو گے۔۔؟؟ تو میں نے جواب دیا فکر نہ کر بیٹا تمھارا کام ہو جاۓ گا تو وہ دوبارہ کہنے لگا استاد جی وہ بڑا حرامی آدمی ہے پلیز ۔۔ پلیز اس پر زرا پکا ہاتھ ڈالنا ورنہ یو نو۔۔!! اور ساتھ ہی سر جھکا لیا۔۔ وہ کافی ڈرا ہوا لگ رہا تھا اس لیۓ میں نے اس کو بتا دیا کہ ان کے سکول کے پرنسپل کا لڑکا میرے ساتھ پڑھتا ہے اور اپنا یار ہے یہ سُن کر اس نے ایک گہری سانس لی اور بولا ٹیھک ہے آپ جاؤ میں ہونیفارم وغیرہ پہن کر خود ہی چلا جاؤں گا پھر کہنا لگا پلیز آپ اس لیۓ بھی جاؤ کہ کہیں رفیق آپ کی طرف ہی نہ آ جاۓ۔۔۔ تو میں نے کہا او کے تم یونیفارم پہنو میں یہ ناشتے کے برتن تمھاری امی کو دے کر جاتا ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی پتا دیا کہ تمھاری امی کے پوچھنے پر میں یہ وجہ بات بتاؤں گا اور برتن لے کر باہر نکل گیا ۔۔
 باہر نکلا تو سامنے ہی اس کی امی کھڑی تھی اور وہ دروازے ہی کی طرف دیکھ رہی تھیں مجھے نکلتے دیکھ کر وہ آگے بڑھی اور بولی ۔۔۔ کیا بات ہوئ اس سے؟؟ ۔۔۔۔ اور کیا کہتا ہے وہ ؟؟ ۔۔۔ تو میں نے کہا آنٹی جی سب ٹھیک ہو گیا ہے ۔۔۔ آپ بس اس کا کھانا گرم کر دیں وہ ہونیفارم پہن رہا ہے اور ناشتہ کے بعد سکول چلا جا
ۓ گا تو وہ بولی لیکن وہ سکول کیوں نہیں جا رہا تھا ؟؟ تو میں نے کہا اصل میں جیسا کہ آپ کو پتہ ہے انگلش میڈیم بچوں کی اُردو بڑی کمزور ہوتی ہے ۔۔ اور ان کی اردو کا ٹیچر بڑا سخت ہے لیکن اب میں نے اس کو سمجھا دیا ہے اب وہ سکول بھی جاۓ گا اور آئیندہ آپ سے سکول چھوڑنے کی بات بھی نہیں کرے گا۔۔ پھر میں نے برتن اُن کے ہاتھ میں پکڑا کر کہا کہ آپ پلیز اس کا کھانا گرم کر دیں ۔۔ وہ میری بات کچھ سمجھی کچھ نہ سمجھی پر میرے ہاتھوں سے کھانے کا برتن لیا اور کچن کی طرف چلی گئ ۔۔۔ اور میں وہاں سے سیدھا رفیق کی طرف گیا اور جیسے ہی اس کے گھر پر دستک دینے لگا تو وہ گھر سے میری ہی طرف نکل رہا تھا ۔۔ مجھے دیکھ کر بولا خیریت تھی آج لیٹ ہو گۓ تم۔۔؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ بس یار کھبی کبھی ایسا ہو جاتا ہے تو وہ بولا ہاں یہ تو ہے اور ہم کالج کی طرف چل پڑے۔۔۔ میں کالج پہنچ کر سیدھا اپنے دوست کے پاس گیا اور اسے ساری صورتِ حال بتا دی ۔۔۔ سُن کر فکر مندی سے بولا ۔۔۔ اب تم بتاؤ کیا چاہتے ہو ۔۔۔؟ کہو تو ابا سے بات کر اُس حرامزادے کو نوکری سے نکلوا دوں۔۔۔؟ تو میں نے کہا نہیں یار نوکری سے نکالنے کی کوئ ضرورت نہیں ہے - میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ آئیندہ وہ یاسر کو تنگ نہ کرے ۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ٹھیک ہے یار جیسے تم کہو گے ویسا ہی ہو گا اور مجھ سے بولا تم کس ٹائم فری ہو گے تو میں نے کہا ۔۔ میرا کیا ہے جان جی میں تو فری ہی فری ہوں ۔۔ - تو وہ کہنے لگا تو پھر چلو سکول چلتے ہیں اور ہم نے کالج سے اپنے ایک دو پیریڈ مِس کیے اوریاسر کے سکول کی طرف چل پڑے۔۔ راستے میں دوست نے مجھ سے یاسر کی کلاس اور دیگر معلُومات حاصل کر لیں پھر سکول پہنچ کر اس نے مجھے سٹاف روم میں بٹھایا اور آفس بواۓ کو میرے لیۓ چاۓ لانے کا بول کر خود غائب ہو گیا اور جاتے جاتے بولا کہ تم چاۓ پئیو ۔۔۔۔ میں بس ابھی آیا ۔۔۔ کافی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک پکی سی عمر کا گھُٹے ہوۓ جسم والا مکرُوہ صورت آدمی بھی تھا جس کا رنگ گہرا سانولا اور شکل پر لعنت برس رہی تھی اس کا پیٹ کافی باہر کو نکلا ہوا تھا ناک لمبی (طوطے کی طرح) اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی تھیں مجموعی طور پر وہ ایسا شخص تھا کہ جس سے گانڈ تو بہت دُور کی بات ہے اس سے تو ہاتھ ملانے کو بھی جی نہیں چاہتا تھا آ کر میرے پاس بیٹھ گیا اور پھر دوست مجھ سے مخاطب ہو کر بولا شاہ یہ سر پی ٹی ہیں اور پھر میرا سر پی ٹی سے تعارُف کراتے ہوۓ بولا اور سر یہ میرے دوست ، کلاس فیلو اور یاسر کے بڑے بھائ شاہ ہیں اسے دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگی ہوئ تھی اور میں اسے بڑی ہی غضب ناک نظروں سے گھور رہا تھا میری نظروں کی تاب نہ لا کر پی ٹی سر نے سر جھکا لیا پر میں نے اسے گھورنا جاری رکھا ۔۔۔ اس وقت سٹاف روم میں ہمارے علاوہ اور کوئ نہ تھا اور کمرے میں عجیب پُر اسرار سی خاموشی چھائ ہوئ تھی ۔ پھر اس خاموشی کو دوست نے ہی توڑا۔۔ اس نے پہلے تو کھنگار کر گلا صاف کیا اور پھر بولا شاہ میں نے ان سے تفصیلی بات کر لی ہے اور ان کو ساری بات سمجھا بھی دی ہے میرا خیال ہے آئیندہ تم کو ان سے شکایت کا موقعہ نہیں ملے گا اس لیے پلیز تم ابھی ابا سے ان کے بارے میں کوئ بات نہ کرنا ورنہ تم کو تو پتہ ہی ہے کہ ابا طوفان لے آئیں گے اور سر کی جگ ہنسائ الگ سے ہو گی ۔۔ ۔۔۔ پھر وہ پی ٹی سر سے مُخاطب ہو کر بولا کیوں سر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟؟ ۔۔ اس کی بات سُن کر پی ٹی نے بے بسی سے میری طرف دیکھا اور کھسیانی ھنس کر بولا جی ۔۔۔۔ آپ درست کہہ رہے ہیں اور پھر سر جھکا لیا اور اپنے ہونٹ کاٹنے لگا ۔۔ پھر دوست نے میری طرف دیکھا اور بولا شاہ کیا تم نے سر کی معزرت قبول کر لی ہے۔۔؟؟ تو میں نے کہا یار تم میری بات چھوڑو ۔۔۔ تم اُس لڑکے کی بابت کیوں نہیں سوچتے جو ان کی حرکتوں کو وجہ سے سکول چھوڑ نے پر تیار ہو گیا تھا ؟؟؟ میری بات سُن کر دوست بولا۔۔ کھُل کر بتاؤ تم کیا چاہتے ہو؟ تو میں نے جواب دیا میں چاہتا ہوں کہ یہ صاحب خود اس سے معزرت کریں اس طرح اس کے دل سے ان کا ڈر بھی دُور ہو جاۓ گا اور یہ بھی بعد میں اس کے ساتھ کوئ بدمعاشی نہیں کر سکیں گے ۔۔۔ میری بات سُن کر پی ٹی سر کو ایک دم شاک لگا اور وہ بولا ۔۔ نہیں یہ ۔۔۔ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔ میں نے آپ سے معزرت کر لی ہے ۔۔۔ یہ کافی نہیں ہے کیا ؟ ۔۔۔۔۔ اب میں کیا بچے سے معزرت کروں گا اس طرح بچے پر میرا امپریشن کیا رہ جاۓ گا۔۔؟؟؟؟؟ تو میں نے تلخی سے جواب دیا کہ جناب کو اپنے امپریشن کی اُس وقت کوئ فکر نہیں تھی جب آپ بچے کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنے کی کوشش کر رہے تھے ؟؟ ۔۔۔ میری بات سُن کر پی ٹی تھوڑا کھسیانہ ہو گیا پر بولا کچھ نہیں ۔۔۔۔ بھر میں نے دوست کو مخاطب کر کے کہا کہ ۔۔ ٹھیک ہے دوست اگر یہ بچے سے معزرت نہیں کرے گا تو مجبوراً مجھے یہ معاملہ انکل کے پاس لے جانا پڑے گا پھر میں نے ہوا میں تیر چھوڑتے ہوۓ کہا کہ۔۔۔ میں نے یاسر کے ساتھ ایک دو اور لڑکے بھی تیار کیے ہوۓ ہیں جن کے ساتھ انہوں نے ۔۔۔ یہ غلیظ حرکت کی ہوئ ہے ۔۔۔ اور وہ سب کے سب آج ان کے خلاف گواہی دیں گے ۔۔۔ میں نے یہ کہا اور اُٹھ کر چلنے لگا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر پی ٹی اپنی کرسی پر اضطراری حالت میں پہلو بدلتے ہوۓ میری باڈی لینگؤیج کو نوٹ کرنے لگا اور جب میں اُٹھ کر دروازے تک پہنچ گیا تو وہ بولا ایک منٹ بیٹا ۔۔۔۔ پر میں نہ رُکا تو دوست کی آواز آئ یار ایک منٹ ان کی بات سننے میں حرج ہی کیا ہے ؟؟ تو میں وہاں رُک گیا اور بولا ۔۔۔ جو کہنا ہے جلدی کہیں ۔۔۔۔ تو وہ بولا ۔۔ دیکھو بیٹا میں تمھارے باپ کی عمر کا ہوں اور ٹیچر ویسے بھی باپ ہی ہوتا ہے تو کیا یہ اچھا لگے کا کہ میں ایک بزرگ اپنے بیٹے سے بھی چھوٹے لڑکے سے ایکسکیوز کرے۔۔؟ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔۔ یہ بات تو آپ نے پہلے سوچنے تھی ناں اور پھر باہر جانے کے لیۓ جیسے ہی دروازے سے باہر قدم رکھا ۔۔۔۔۔۔ پی ٹی مری ہوئ آواز میں بولا ۔۔۔۔ او کے۔۔۔۔ بچے کو بُلا لو۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا دوست بولا مجھ سے مُخاطب ہو کر بولا تم بیٹھو میں یاسر کو لاتا ہوں ۔۔۔۔ اور میں واپس آ کر صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔ کمرے میں گھنا سناٹا چھایا ہوا تھا اور پِن ڈراپ سائیلنس تھا اور اس خاموشی میں پی ٹی کسی گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا اور میں حسبِ معمول اسے مسلسل کھا جانے والی نظروں سے گُھورے جا رہا تھا ۔۔ کچھ دیر بعد دیر بعد دوست کے ساتھ یاسر کمرے میں نمودار ہوا اور مجھے اور پی ٹی کو دیکھ کر کسی حیرت کا اظہار نہ کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ دوست اسُے سارے معاملے پر پہلے ہی بریف کر چکا تھا۔۔ یاسر کمرے میں داخل ہوتے ہی سیدھا میرے پاس آ کر پیٹھ گیا اور سر جھکا کر نیچے دیکھنے لگا ۔۔۔ کمرے میں ایک بار پھر پِن ڈراپ سائیلنس ہو گیا ۔۔۔۔ پھر میں نے خاموشی کو توڑا اور پی ٹی سے مخاطب ہو کر بولا ۔۔۔۔ یاسر آ گیا ہے ۔۔ پی ٹی جو کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا میری بات سُن کر ہڑبڑا کر اُٹھا اور میری طرف دیکھنے لگا تو میں نے جلدی سے یاسر کی طرف اشارہ کر دیا ۔۔ پی ٹی کے چہرے پر تزبزب کے آثار ۔۔۔ دیکھ کر میرے دوست نے بھی ایک گھنگھورا مارا اور پی ٹی کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔ اب پی ٹی کے لیۓ پاۓ رفتن نہ جاۓ ماندن والا معاملا ہو گیا تھا ۔۔۔ پھر اس نے ہمت کی اور یاسر سے بولا ۔۔۔۔ یاسر بیٹا جو کچھ بھی ہوا اس کے لیۓ سوری۔۔۔۔۔ یہ کہا اور اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔ جیسے ہی وہ کمرے سے باہر نکلا یاسر میرے گلے سے لگ گیا اور آہستہ سے میرے کان میں بولا ۔۔۔۔ تھینک یو ۔۔۔ تم واقعی اُستاد ہو ۔۔ اور پھر دوست کا شکریہ ادا کیا تو وہ بولا کوئ بات نہیں ۔۔ اور کہنے لگا ۔۔۔ یار آپ نہیں آپ کے کسی بھی دوست کے ساتھ اگر یہ بندہ دوبارہ ایسی حرکت کرے تو میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگا پلیز تم صرف ان کو بتا دینا ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگا آج جو اُس کے ساتھ ہو گئ ہے اُمید ہے کہ اس کے بعد کسی کے ساتھ یہ ایسا برتاؤ نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔۔ اُس نے یہ کہا اور پھر مجھے چلنے کا اشارہ کر دیا اور ہم واپس آگے ۔۔۔۔۔۔۔ اُسی دن شام کی بات ہے کہ میں کمیٹی چوک کسی کام سے جا رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے یاسر کی آواز سُنائ دی میں اسے دیکھ کر رُک گیا اور جہسے ہی وہ میرے پاس آیا اس نے ایک بار پھر میرا شُکریہ ادا کیا تو میں نے کہا یار کیوں شرمندہ کرتے ہو تو وہ بولا ۔۔۔ یار شکریہ کے ساتھ ایک معزرت بھی کرنی ہے ۔۔ تو مین نے کہا وہ کیا تو وہ بولا یار تم کو تو پتہ ہی ہے کہ ماما اس بات کے پیچھے ہی پڑ گئیں تھیں اور باربار کرید کرید کر مجھ سے اس بارے میں پوچھتی رہی تھیں تو میں نے تنگ آ کر کہہ دیا کہ شاہ نے مجھ سے وعدہ کر لیا ہے کہ وہ مجھے ہر شام اُردو اور میتھ پڑھا دیا کرے گا ۔۔۔ یہ سن کر میں پریشان ہو گیا اور بولا کیا یہ کیا کر دیا یار ۔۔۔ تو وہ بولا مجبوری تھی باس ورنہ ۔۔۔ یو ۔۔ نو ۔۔!!! پھر میں نے اس سے کہا یار اُردو تو ٹھیک ہے یہ میتھ تو میرے باپ دادے کی بھی سمجھ سے باہر ہے تو وہ ہنس کر بولا ۔۔ اُستاد آپ اس چیز کی فکر ہی نہ کرو مجھے اُردو اور میتھ کیا ہر سبجیکٹ خوب اچھے طرح سے آتا ہے ۔۔۔۔ پر اس وقت مجبوری ہے ۔۔۔ ماما کو کور کرنا تھا سو جھوٹ بول دیا بس اب تم شام سے ہمارے گھر مجھے پڑھانے آ جانا ۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔ او یار شام کا ٹائم کیوں رکھ دیا تو نے ؟؟؟؟ ۔۔ تو وہ بولا کیوں شام کو کیا ہوتا ہے ؟؟ ۔۔۔۔ تو میں نے جواب دیا سالے یہی ٹائم تو چھت پر بھونڈی کا ہوتا ہے اور میں اس ٹائم تمھارے ساتھ مغز ماری کروں گا تو وہ کہنے لگا یار تم نے کون سا پڑھانا ہے ۔۔۔ بس ڈرامہ ہی کرنا ہے نہ۔۔۔ اور ڈرامہ بھی ایک ماہ کرنا ہے ۔۔۔پھر ماما کو بتا دینا کہ بچہ چل گیا ہے اب اسے ٹیچر کی کوئ ضرورت نہیں رہی اور دوسری بات بھونڈی تو تم جانتے ہو کہہ میں لڑکی سے زیادہ اچھا چوپا لگا تا ہوں سو جب تم چاہو میں تمھارا اے ون چوپا لگا دیا کروں گا تم بس اب میری بات مان لو ۔۔۔۔ اور میں نے اس کی بات مان لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میں کمیٹی چوک سے واپس گھر آیا تو امی میرے پاس کمرے میں آ گئ اور بولی آج یاسر کی امی ہمارے گھر آئ تھی اور تمھارا پوچھ رہی تھی ۔۔۔ تو میں نے پوچھا کیا کہیتی تھی وہ ۔۔ تو امی کہنے لگی وہ کہہ رہی تھی کہ تم ان کے بیٹے کو پڑھا دیا کرو ۔۔۔ پھر بولی پُتر ہمسائیوں کے بڑے حقُوق ہوتے ہیں اب وہ بے چاری چل کے ہمارے گھر آ گئ ہے تو تم نہ، نہ کرنا ۔۔۔ اور کل سے یاسر کو پڑھانے چلے جانا ۔۔۔۔ کہ میں نے بھی اسے حامی بھر دی ہے پھر کہنے لگی تمھارا کیا خیال ہے۔۔؟؟ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔۔ بے بے جب آپ نے حامی بھر لی ہے تو اب انکار کی کوئ گُنجائیش ہی نہیں رہی ۔۔۔ سو آپ کے حکم کے مطابق کل سے میں یاسر کو پڑھانے چلا جاؤں گا۔۔ میری بات سُن کر بے بے کہنے لگی جیتے رہو پُتر مجھے یقین تھا کہ تم میری بات کو کبھی نہیں ٹالو گے ۔ اگلے دن شام کو میں یاسر کے گھر گیا اور گھنٹی بجائ تو یاسر باہر نکلا اور بڑی گرم جوشی سے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور ایک دفعہ پھر میرا شکریہ ادا کیا اور پھر مجھے اپنے ساتھ گھر کے اندر لے گیا اور مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کروہاں سے ہی آواز لگائ ۔۔۔ ما ما ۔۔ ٹیچر آ گۓ ہیں ۔۔!!!! اور پھر میری طرف دیکھ کر آنکھ مار دی ۔۔۔ میں بھی اس کی طرف دیکھ کر پھیکی سی مُسکُراہٹ کے ساتھ ہنس پڑا ۔۔۔ اور ان کے ڈرائینگ رُوم کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔ ان لوگوں نے ڈرائینگ روم بڑی اچھی طرح سے سجایا ہوا تھا ابھی میں اس کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ یاسر کی امی ڈرائینگ روم میں داخل ہو گئ جسے دیکھ کر میں احتراماً کھڑا ہو گیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ بولی ارے ارے ۔۔ آپ کھڑے کیوں ہیں بیٹھیں نہ پلیز۔۔۔ !!! لیکن میں اُس وقت تک بیٹھا رہا جب تک کہ وہ میرے سامنے صوفے پر نہ بیٹھ گئ ۔۔۔ انہوں نے کالے رنگ کی کُھلے گلے والی سلیو لیس قمیض پہنی ہوئ تھی اور اس کالے رنگ کی قمیض میں ان کا گورا بدن صاف چھلک رہا تھا اور اور قمیض کے اوپر انہوں نے ایک باریک سا کالے ہی رنگ کا دوپٹہ لیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کا سنگِ مر مر سے تراشا ہوا گورا بدن مزید نکھر کر سامنے آ گیا تھا ۔۔۔ ان کے شانے چوڑے اور کافی بڑے تھے اس لیۓ ان پر سلیو لیس بڑا جچ رہا تھا ۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ صوفے پر بیٹھ گئ تو میں بھی بیٹھ گیا ۔۔۔ بیٹھے ہی وہ مجھ سے مُخاطب ہو کر بولی کال میں آپ کے گھر بھی گئ تھی ۔۔۔ لیکن آپ گھر پرموجود نہ تھے ۔۔۔ تو میں نے آپ کی امی سے ریکؤئسٹ کی تھی کہ آپ یاسر کو پڑھا دیا کریں اور شُکر ہے کہ خالہ جان نے میری درخواست منظور کر لی تھی ۔۔ اور تھینک یو آپ کا کہ آپ آ گۓ۔۔ پھر کہنے لگی دیکھو مجھے بات کرتے ہوۓ لگ تو عجیب رہا ہے لیکن شرع میں شرم نہیں ہونا چاہیۓ اسلیۓ آپ خود ہی بتا دو کہ آپ فی سبجیکٹ کتنے پیسے لو گے ؟ اُن کی بات سُن کر میں واقعہ ہی حیران ہو گیا اور بولا ۔۔۔۔ کیسے پیسے جی ؟ تو وہ کہنے لگی یہ آپ کی مہربانی ہے کہ آپ اپنےقیمتی وقت میں سے کچھ ٹائم میرے بچے کو دے رہے ہیں تو ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی شرمائیں نہ پلیز ۔۔۔ آپ کی جو بھی ڈیمانڈ ہے بتا دیں ۔۔ اب میں نے اُن کو کہا کہ اگر تو آپ نے پیسے دے کر ہی پڑھوانا ہے تو میری طرف سے معزرت قبول کرلیں ۔۔ یہ بات سُن کر وہ کہنے لگی او ہو ۔۔ آپ تو ناراض ہی ہو گۓ ہیں ۔۔ چلیں اس ٹاپک پہ ہم بعد میں گفتگو کر لیں گے آپ بچے کو پڑھانا شروع کریں میں آپ کے لیے ٹھنڈا لے کر آتی ہوں اور وہ اُٹھ کر چلی گئ۔۔ اب میں اور یاسر کمرے میں اکیلے رہ گۓ تو میں نے اُس سے کہا یہ تم نے کس مصیبت میں ڈال دیا ہے یار ۔۔۔ تو وہ ہنس کر کہنے لگا ۔۔۔ سب چلتا ہے باس اور بیگ کھول کر کتابیں نکالنے لگا۔۔۔ اور اس طرح میں نے یاسر کو پڑھانا شروع کر دیا ۔۔۔ مجھے یاسر کو پڑھاتے ہوۓ 3،4 دن ہو گۓ تھے۔۔ اوراس کی امی ریگولرلی میرے لیۓ ٹھنڈا یا گرم لے کر آتی تھی اور مجھ سے یاسر کی پڑھائ کے بارے ڈسکس کرتی تھی ۔۔ اصل میں وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے لیۓ کافی فکر مند تھی اور اس طرح کرتے کرتے اب میری یاسر کی ماما سے بہت اچھی گپ شپ ہو گئ تھی ۔

You Might Also Like

0 تبصرے

thanks

BUY NOVELS ON WHATSAP