ایک حسین دوپہر

اپریل 09, 2021

ایک حسین دوپہر

یہ ان دنوں کی بات ھے، جب میں لاھور میں قیام پذیر تھا۔ ھم کل دو افراد ایک مکان میں رھتے تھے۔ مالک مکان ھمارے اوپر ھی رھتے تھے۔ مالک مکان سے ھمارے تعلّقات شروع شروع میں اتنے اچھّے نھیں تھے، مگر ایک دو واقعات ایسے ھوئے، جس میں اتّفاقیہ طور پر ھمارے ذریعے سے قدرت نے مالک مکان کی مدد کروا دی تھی۔ اس طرح سے آھستہ آھستہ مالک مکان بھی ھم سے نرم رویّہ رکھنے لگا، جو بعد میں اچھّی خاصی سلام دعا میں بدل گیا۔ حتّیٰ کہ ھم ایک دوسرے سے ضرورت کی چیزیں، جس میں سب سے زیادہ اھم چیز استری تھی، لے لیتے تھے۔ تقریباْ پینتالیس سالہ مالک مکان کا نام امجد خان تھا، اور وہ ایک سرکاری نوکری کرتا تھا۔ اس کی اولاد میں ایک جوان بیٹی (رابعہ) اور دو چھوٹے چھوٹے بیٹے (سلیم اور کلیم ) شامل تھے۔ اس کے علاوہ اس کی بیوی تھی، جو بیچاری کسی وجہ سے دونوں آنکھوں سے محروم ھو چکی تھی۔ اس کی بیٹی میٹرک پاس کر چکی تھی، اور دونوں بیٹے پرائمری میں زیر تعلیم تھے۔ میرا کمرے کا ساتھی بھی میری طرح ایک پرائیویٹ جاب کرتا تھا۔ سارا دن کام کرنے کے بعد، ایک دن ھماری عید کا ھوتا تھا، اور وہ دن ھوتا تھا، اتوار کا۔ اتوار کے دن ھم دونوں لیٹ اٹھنے کے عادی تھے۔ بارہ ایک بجے تک ھم تیّار ھو کر باھر گھومنے پھرنے چلے جاتے تھے ۔ مالک مکان بھی ھماری اس روٹین سے واقف ھو چکے تھے، کیونکہ اتوار کے دن ھمارے کمرے کو اکثر تالہ لگا رھتا تھا۔ ایک اتوار میرے کمرے کے ساتھی نے اپنے گاؤں جانا تھا، تو اس کے جانے کے بعد، میں کمرے پر ھی لیٹ رھا۔ اس دن گرمی بھی بے حد پڑ رہی تھی۔ (لاھور میں رھنے والے زیادہ بہتر جانتے ھوں گے، کہ لاھور میں گرمی کتنے غضب کی پڑتی ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!) میں نے فل سپیڈ میں پنکھا لگایا ھوا تھا، اور آنکھیں موندے لیٹا ھوا تھا، کہ اچانک کمرے پر دستک ھوئی۔ میں نے آکھیں کھول کر دروازے پر توجّہ دی۔ اسی اثناٴ میں دوبارہ دستک ھوئی، تو مجھے معلوم ھوا، کہ دستک باھر والے دروازے پر نہیں، بلکہ اس دروازے پر ھو رھی ھے، جو مالک مکان کے گھر کی طرف کھلتا تھا، اور ھر وقت دونوں طرف سے بند ھی رھتا تھا۔ یہ میرے لئے اچھّی خاصی حیرانی کی بات تھی۔ خیر، میں اٹھّا، اور دروازہ کھولنا چاھا، تو دروازہ کھل گیا، کیونکہ دروازے کی دوسری جانب والی کنڈی بھی کھلی ھوئی تھی، اور وھاں مالک مکان کی بیٹی رابعہ کھڑی ھوئی تھی۔ ( رابعہ صرف اس وقت ھمارے دروازے پر دستک دیتی تھی، جب انتہائی مجبوری ھوتی تھی، ورنہ وہ گھر میں ھی بند رھنے والی لڑکی تھی۔) میں نے حیرانی سے اسے دیکھا، اور اس کے ابّو کا پوچھا۔ اس نے بتایا، کہ اس کے ابّو ایک کام سے گئے ھیں، اور اس کے دونوں بھائی بھی اس کے باپ کے ساتھ ھی ھیں۔ اس کو استری چاھئے تھی۔ میں نے استری اٹھّا کر اس کو دے دی۔ اس نے خاموشی سے استری لی، اور واپس مڑی۔ مگر جاتے جاتے اس نے آنکھوں ھی آنکھوں میں مجھے ایک مخصوص انداز سے دیکھا۔ یہ وہ انداز تھا، جو کہ میں نے اکثر اس کی آنکھوں میں اپنے لئے محسوس کیا تھا۔ میں کوئی دودھ پیتا بچّہ نہیں تھا، کہ اس طرح کے اشارے کا مطلب نہ سمجھتا، مگر میں اس محلّے میں ابھی رھنا چاھتا تھا، اور پردیس میں رھتے ھوئے، کسی محلّے میں رھنے کے لئے آپ کو اپنا کردار انتہائی مضبوط رکھنا پڑتا ھے۔ خصوصاْ جب آپ بغیر فیملی کے، بطور " چھڑے " ( bechular) رہ رھے ھوں۔ یہی وجہ تھی، کہ میں نے ابھی تک محلّے میں اپنی طرف اٹھنے والی ھرلڑکی کی نظر کو اگنور کیا تھا۔ میں صرف برے وقت سے بچنا چاھتا تھا، ورنہ تو میں بھی جوان مرد تھا، میرے اندر بھی مخصوص گرمی حد درجہ موجود تھی۔ میں بھی گندم کا آٹا کھاتا تھا۔ میں بھی آج کے ماحول میں ھی جی رھا تھا، اور عورت کی شدید طلب میرے اندر بھی موجود رھتی تھی۔ میرے لن میں بھی کھجلی ھوتی رھتی تھی، اور یہ کھجلی اس وقت اور بھی دوچند ھو جایا کرتی تھی، جب محلّے کی کوئی بھی جوان لڑکی مجھے لفٹ کرواتی تھی۔ میری اتنے دن کی احتیاط کے باوجود، اس دن میں نے رابعہ کو پہلی بار ایک جوان مرد کی نظر سے دیکھا۔رابعہ ایک سلجھی ھوئی جوان لڑکی تھی، جس کی عمر اندازاْ اٹھارہ سے بیس سال کے درمیان تک رھی ھو گی۔ اس کا قد مجھ سے دو تین انچ کم ھی ھو گا۔ وہ ایک انتہائی خوب صورت اور تیکھے نقوش والی لڑکی تھی۔اس دن اس نے گلابی رنگ کے پھولوں والا سوٹ پہن رکھّا تھا، جس میں وہ کافی پر کشش لگ رھی تھی۔ میں نے محلّے میں دو تین لڑکوں کو اس کے پیچھے چکّر لگاتے دیکھا تھا۔ لیکن ابھی تک رابعہ کا کسی کے ساتھ کوئی چکّر میرے علم میں نہیں آ سکا تھا۔ اور آج رابعہ بھی میرے اتنے نزدیک پہلی بار آ کر کھڑی ھوئی تھی۔ اس سے پہلے تو میں نے اس کو دور دور سے ھی دیکھا تھا۔ اس دیکھنے میں اور آج کے دیکھنے میں ایک فرق بھی موجود تھا۔ اس سے پہلے میں نے اس کو اس انداز میں دیکھا تھا، کہ اس کے ھونے یا نہ ھونے سے مجھے کوئے فرق نہیں پڑتا۔ مگر، آج تو وہ اتنے پاس کھڑی تھی، اور آج تو میرے اندر کا تھوڑا بہت پرہیز بھی دم توڑ رھا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی، کہ ھم ایسی جگہ کھڑے تھے، جہاں سے کسی بھی محلّے والے کی نظر ھم پر نہیں پڑ سکتی تھی، لہٰذا کوئی ھم کو چیک نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ حسن آج اتنے خاص انداز سے سجا ھوا میرے سامنے موجود تھا، تو اگر میں اس پر خصوصی توجّہ نہ دیتا،تو میرے حسن پرست ھونے میں شک آ جاتا۔ اور میری کسی بھی قابلیّت پر شک کی گنجائش بھی موجود نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! میں نے اس دن پہلی دفعہ اس کی مسکراھٹ کا جواب مثبت انداز میں دیا تھا۔ اس کے چہرے پر آنے والی مسکراھٹ ایک دم سے گہری ھو گئی۔ میں نے محسوس کیا، کہ اس کی مسکراھٹ نے سیدھا میرے دل پر اثر کیا ھے۔ اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ میں نے ادھر ادھر دیکھے بغیر، اسے اندر کھینچ لیا۔ وہ اس کے لئے تیّار نہ تھی۔ میرے اس طرح سے کھینچ لینے پر اس کے تو ھوش اڑ گئے۔ اب وہ گریز کا مظاھرہ کر رھی تھی، اور اپنے آپ کو میری گرفت سے چھڑانے کی مکمّل کوشش کر رھی تھی، مگر وہ مرد ھی کیا، جو ایک بار گرفت میں آئی ھوئی جوان لڑکی کو ، اور کچھ نہیں تو، کم از کم، بنا ھلکا سا کسّ اور ٹچ کئے، چھوڑ دے۔ سو میں نے بھی اب موقع غنیمت جانا، اور اس کو اپنے ساتھ لٹا لیا۔ لٹانے سے پہلے میں نے ایک ھاتھ پیچھے کو کر کے کمرے کی کنڈی لگا دی تھی۔ باھر والی کنڈی تو پہلے ھی لگی ھوئی تھی۔ اب میں نے رابعہ کی ایک نہ چلنے دی، اور اس پر ٹوٹ پڑا۔ اس کے منہ سے عجیب قسم کی آوازیں نکل رھی تھیں، جو کہ میرے منہ میں ھی کہیں گم ھو رھی تھیں، وجہ صاف تھی، کہ اس کا منہ میرے منہ میں تھا۔ میں انتہائی شدید ترین انداز میں اس کی کسّنگ کر رھا تھا۔ وہ بیچاری ففٹی ففٹی ھو رھی تھی۔ ایک طرف تو اس کے اندر بھی میری طلب موجود تھی، جو کہ کسی نہ کسی طرح سے وہ ظاھر بھی کر رھی تھی، مگر دوسری طرف، وہ اس اچانک کارروائی کے لئے قطعی تیّار نہ تھی۔ اس کے وھم و گمان میں بھی نہ ھو گا، کہ صرف ایک ھی مسکراھٹ سے وہ اس طرح سے پھنس جائے گی۔ اس کے سامنے یقیناْ میرا ایک امیج بنا ھوا تھا۔ وہ سمجھتی تھی، کہ آج تک کسی بھی مسکراھٹ کا جواب نہ دینے والا، اوّل تو ایک نگاہ التفات تک نہیں ڈالے گا، اور اگر ایسا ممکن ھو بھی گیا، تو بھی وہ آج زیادہ سے زیادہ ھنس کر ھاتھ وغیرہ تھامنے تک ھی رھے گا۔ وہ بھی اگر اس کے اندر کوئی گرمیٴ جذبات نے سر اٹھایا، تب ، ، ، ، ! اسے کیا معلوم تھا، کہ اس کی آج کی ایک ھی مسکراھٹ، اس کو سیدھا میرے نیچے پہنچا دے گی۔ میرے ھاتھ بہت تیزی سے اس کے جوانی سے بھر پور وجود کی پیمائش کر رھے تھے۔ جب میں نے اس کی چھاتی پر ھاتھ رکھّے، تو میرے اندر سرور کی ایک خاص قسم کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی چھاتی بے حد نرم و نازک محسوس ھو رھی تھی۔ میں نے اس کی قمیض کو اوپر کرنا چاھا، تو اس نے مزاحمت تیز کر دی۔ میں نے محسوس کیا، کہ میری گرفت اس پر ھلکی ھو رھی ھے۔ چنانچہ میں نے اس کو قابو کرنے کے لئے اپنا وجود اس پر ڈال دیا۔ اب وہ میرے نیچے دب گئی۔ اس سے وہ بجائے مزاحمت کرنے کے، میری طرف رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔ میں نے ھلکی سرگوشی میں اس سے کہا، " اگر تو میرے ساتھ تعاون کرو گی، تو میرے ساتھ تم بھی مزہ اٹھا سکتی ھو، لیکن اگر مجھے روکو گی، تو بھی میں زبردستی سب کچھ کر گزروں گا، مگر اس صورت میں تمھیں بے حد اذیّت اٹھانا ھو گی۔ اور یہ تو تم بھی جانتی ھو، کہ اس کمرے میں ، میں نے تمھیں نہیں بلایا، بلکہ تم خود چل کر میرے کمرے تک آئی ھو۔ میں جانتا ھوں، کہ تم ھمیشہ سے میری قربت چاھتی ھو ۔تمھاری آج کی مسکراھٹ بھی اسی لئے تھی، کہ میں تمھارے قریب آؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوراب اگر میں راضی ھو ھی گیا ھوں، تو تم کیوں اس طرح کر رھی ھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟ " میری باتوں کے جواب میں اس کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے۔ شائد اس نے تصوّر میں مجھے اپنے ساتھ زبر دستی کرتے ھوئے دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ میری باتوں نے اس پر اثر ڈالا، اور جواب میں اس کی مزاحمت ختم ھو گئی۔ اب وہ میرے ساتھ تعاون پر آمادہ نظر آ رتھی تھی۔ اس کو آمادہ دیکھ کر میرے اندر مستی کی تحریک تیز ھو گئی۔ اب میں اس کے جسم کی جوانی سے کھل کر کھیل سکتا تھا۔ میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی، " تھینکس رابی، (اس کے گھر والے اسے مختصراْ رابی کے نام سے ھی پکارتے تھے۔ ویسے اس کا اصل نام رابعہ تھا۔) اب دیکھنا، آج میں تم کو کتنا مزہ دیتا ھوں۔ میرے ساتھ گزارے گئے یہ لمحات تمہیں ساری عمر یاد نہ رھیں، تو کہنا۔ " میری اس بات سے اس کا چہرہ سرخ ھو گیا، اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے بعد میں اس کے وجود سے ھٹ گیا، اور اس کے برابر میں لیٹ گیا۔ میں جان چکا تھا، کہ ھمارے پاس وقت اتنا زیادہ نہیں ھے۔ اس لئے میں نے سب سے پہلے اس کو دوبارہ سے گرم کرنا شروع کر دیا۔ مجھے معلوم تھا، کہ اگر میں نے ابھی سے اس سے کپڑوں کا مطالبہ کر دیا، تو وہ فطری شرم و حیا کے باعث انکار کر سکتی ھے۔ میں پہلے اس کے جذبات کو مکمّل گرم کر دینا چاھتا تھا، تا کہ جب کپڑوں کا مطالبہ کروں، تو وہ بلا چون و چرا مان جائے، یا کم سے کم دیر لگائے۔ رابعہ کے تعاون کا یہ نتیجہ نکلا، کہ میرا کام آسان ھو گیا۔ کیونکہ اب رابعہ بھی میرا ساتھ دے رھی تھی۔ میں نے اس کی کسّنگ سٹارٹ کی، تو اس نے بھی جواب دیا، اور اپنا ھاتھ میرے بازو کے اوپر سے میری کمر پر ٹکا لیا۔ اس کی آنکھیں بند ھونا شروع ھو رھی تھیں۔ میں نے کم و بیش تین چار منٹ تک مسلسل اس کی کسّنگ کی۔ اس دوران میرا ایک ھاتھ اسکی کمر پر حرکت کرتا رھا، جبکہ دوسرا ھاتھ میں نے اس کے سر کے نیچے دے رکھّا تھا۔ چند منٹ کی کسّنگ نے رابی کے جذبات کو اچھّی خاصی تحریک دے ڈالی تھی۔ اس کی سانسوں کی آوازیں بتا رھی تھیں، کہ اس وقت وہ اپنے کنٹرول سے آؤٹ ھو چکی ھے۔ اوپر سے میرا ھاتھ اس کی کمر سے ھوتا ھوا اب اس کے سینے پر مصروف عمل تھا۔ میری ٹانگیں بھی اس کے وجود سے رگڑ کھا رھی تھیں۔ اگر مجھے ٹانگوں کے رستے اس کے جسم کی گرمی اپنے اندر منتقل ھوتی محسوس ھو رھی تھی، تو یقیناْ میرے بدن کی حرارت بھی اس کے اندر لازمی طور پر اتررھی ھو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرا ھتھیار تو لگاتار رابی کی ٹانگوں کے ساتھ ٹچ ھو ھو کر، اس کی پھدّی کو دعوت مبارزت ( جنگ میں اپنے مدّ مقابل کو مقابلے کے لئے للکارنا۔ جنگ کے لئے دعوت دینا۔ ) دے رھا تھا۔ اب میں نے اس کے سینے کے اندر ھاتھ ڈالا، اور اندر سے اس کی چھاتیوں کو انتہائی نرمی سے دبانا شروع کیا ۔ جب میرا ھاتھ اس کی چھاتی سے ٹچ ھوا تھا، تو اس کے منہ سے ایک خاص آواز بر آمد ھوئی تھی، جو اس کی اندرونی کیفیّت کو ظاھر کر رھی تھی۔ یقیناْ وہ بھی میری حرکتوں سے سرور میں ڈوبی جا رھی تھی۔ ورنہ اس کا تنفّس اتنا تیز نہ ھوتا۔ میں نے کچھ دیر مزید اس کے کپڑوں کو برداشت کرتے ھوئے اس کے جسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رکھّی۔ رابی بار بار اپنے سر کو دائیں بائیں حرکت دے رھی تھی۔ میری محنت رنگ لا رھی تھی، اور رابی اب اس مرحلے پر آ رھی تھی، جب جلد ھی وہ میرے ایک اشارے پر کپڑے بھی اتار دیتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے ھاتھ مسلسل اپنے کام میں مصروف تھے۔ رابی کے ھونٹ سرخ ھو چکے تھے۔ میں نے اپنے ھاتھ سے رابی کے ایک ممّے کو نپل سے پکڑ کر ھلکا سامسلا، تو رابی کے منہ سے سسکاری نکل گئی، مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ میں بھی بس یہی دیکھنا چاھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! جس ھاتھ سے میں رابی کے ممّوں کو مسل رھا تھا، اسی ھاتھ کو میں اندر سے ھی رابی کی کمر تک لے گیا۔ اس کام کے لئےمجھے رابی کی کسّنگ تیز کرنا پڑی تھی، مگر فائدہ یہ ھوا، کہ میں بنا کسی اعتراض کا سامنا کیے، رابی کا برا کھولنے میں کامیاب ھو گیا۔ برا کی ھک کھولنے کے بعد، میرا ھاتھ رابی کے ممّوں کے لمس سے صحیح معنوں میں آشنا ھوا۔ اس کے بدن کا لمس واقعی کمال کا مزہ رکھتا تھا۔ میرے اندر کرنٹ دوڑ گیا۔ میں نے اس کے ممّوں کو دبایا، تو رابی کی آنکھیں کھل گئیں، مگر میرے ساتھ بات کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔، ، ، اس کے ھونٹوں پر ابھی تک میرے ھونٹوں کا قبضہ تھا۔ میں کم و بیش، دو منٹ تک اس کے ممّوں کو دباتا رھا، کبھی میں اس کے ممّوں کو نرمی سے مسلتا، تو کبھی میں اس کے نپلز کو پکڑ کر اوپر سے رگڑنا شروع کر دیتا۔ حتّیٰ کہ مجھے محسوس ھو گیا، کہ اب رابی کے کپڑے اتروائے جا سکتے ھیں۔ چنانچہ میں نے رابی کے کان میں سرگوشی کی۔ "رابی ، میری ایک بات مانو گی؟" جواب میں، رابی نے مجھے دیکھا، تو مجھے اندازہ ھوا، کہ اس کی آنکھیں از حد سرخ ھو چکی تھیں۔ ، ، ، ، تب مجھے معلوم ھوا، کہ رابی بھی اس قبیل سے تعلّق رکھتی تھی، کہ جو لوگ جب بھی سیکس کے لئے تیّار ھوتے ھیں، تو ان کی آنکھیں سرخ ھو جاتی ھیں۔ (میری زندگی میں میرا ایسی چند ایک ایسی لڑکیوں سے واسطہ پڑا ھے، جن کی آنکھیں سیکس کے دوران، یا سیکس کے شروع میں ھی، مکمّل طور پر سرخ ھو جاتی تھیں۔ ، ،یہ سرخی ، آنکھوں کے عام سرخ ھونے سے سے کافی حد تک زیادہ ھوتی تھی۔ شائد آپ میں سے بھی کسی دوست کے ساتھ ایسا اتّفاق ھوا ھو۔ ) میں جان چکا تھا، کہ اب رابی تیّار ھے۔ چنانچہ میرے کہنے پر اس نے ذرا سے تردّد کے بعد، اپنے کپڑے اتاردئے۔بھی اپنے آپ کو کپڑوں سے آزاد کر چکا تھا۔ رابی نے اپنی شلوار تو اتار دی تھی، مگر اس نے ابھی تک اپنا انڈر ویئر نہیں اتارا تھا۔ میں نے اس کو اپنے ساتھ لٹایا، اور اپنے ھاتھ اس کے ممّوں پر رکھ دئے۔ اس نے شرم سے آنکھیں بند کر لیں۔ میں نے اس کی کسّنگ کرنی چاھی، تو اس نے آگے سے اپنے ھونٹ کھولنے میں بھی دیر لگائی۔ میں نے محسوس کیا، کہ کپڑے اتارنے کے بعد، ایک دم سے رابی کا موڈ تبدیل ھو گیا ھے، اور وہ اب میرا ساتھ دینے کی بجائے، کافی گھبرائی گھبرائی سی لگ رھی ھے۔ ،،،،،،،،،، یقیناْ رابی ٹینشن محسوس کر رھی تھی، مگر میں بھی کیا کرتا، مجھے رابی نے ھی شروع میں اکسایا تھا۔ اب جبکہ میں اس حالت تک آ گیا تھا، تو میرے لئے ھر گز ھر گز ممکن نہیں تھا، کہ میں رابی کو ایسے ھی جانے دیتا۔ اب تو جب تک میرے فوجی کی گرمی نہ نکل جاتی، وہ چین نہ پاتا، اور اس کا چین، رابی کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں موجود تھا۔ ، ، ، ، اپنے لن کی گرمی کا خیال اس وقت سب خیالات پر حاوی تھا۔ میں نے رابی کی کسّنگ شروع کر دی، چنانچہ کچھ ھی دیر میں رابی پھر سے گرم ھو کر میرا ساتھ دینے لگی۔ اب وہ چدنے کے لئے مکمّل طور پر تیّار تھی۔ میں نے اس کا انڈر ویئر کھینچ کر نیچے کیا، اور اتار دیا۔ اب وہ ٹوٹل برھنہ حالت میں میرے سامنے موجود تھی۔ اس کے سینے پر موجود ابھار دودھیہ رنگت کے حامل تھے جن پر گلابی رنگ کے نپل موجود تھے۔اس حسینہ کا بدن بالکل بے داغ تھا۔ (مطلب حسین جسم پر کوئی داغ نہیں تھا۔ ورنہ تو وہ پہلے سے چدی ھوئی تھی ۔ ) اس کی گول مٹول رانوں کا نظّارہ بھی مجھے پاگل کئے دے رھا تھا۔ اس کے پیٹ میں بھی وہ کشش موجود تھی، جو ایک لڑکی کے پیٹ میں اس وقت تک موجود رھتی ھے، جب تک کہ وہ ماں نہیں بن جاتی۔ اس کا پیٹ بے حد کشش رکھتا تھا۔ اس کے پیٹ کے نیچے وہ مقام موجود تھا، جس کی خاطر اتنی محنت ھوئی تھی۔ ، ، ، ، اس کی پھدّی ۔ ۔ ! اس کی پھدّی بھی بالوں سے صاف تھی۔ شائد اس نے آج یا کل ھی صفائی کی تھی۔ میں نے مزید وقت ضائع کئے بغیر، اس کے بدن پر ھاتھ پھیرتے ھوئے، اس کی ٹانگوں کی طرف آ گیا۔ ( قارئین کی وضاحت کے لئے عرض کرتا چلوں، کہ یہ سب کارروائی تیس منٹ سے بھی کم وقت میں انجام پائی تھی۔ کہانی میں ایک ایک بات کی وضاحت کرنی ضروری ھے، تا کہ آپ سب کو ایسے محسوس ھو، کہ یہ سب آپ کے سامنے ھی ھو رھا ھے، اور آپ سب یہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رھے ھیں۔) اب میں نے اس کی رانوں پر ایک دو بار ھاتھ پھیرا، یہ اس کے جذبات کو چھیڑنے کے لئے تھا، اور رابی اس پر اچھّی خاصی مچل گئی۔ میں مسکرایا، اور اس کے دیکھنے پر گویا ھوا۔ " پلیز، گیٹ ریڈی ٹو بی فکڈ، مائی ڈئر سویٹ ھارٹ، Please Get Ready To Be) Fucked, My Dear Sweet Heart.) میری اس بات کے جواب میں رابی شرم سے سرخ ھو گئی۔ میں نے اس کی ٹانگیں اٹھائیں، اور اپنے دائیں بائیں پھیلا دیں۔ اس کی پھدّی سے اس وقت ایک خاص قسم کا لیس دار مادّہ نکل رھا تھا۔ میرے لن کے سوراخ پر بھی چند قطرے پانی جمع ھو کر نکل رھا تھا۔ رابی نے کہا، " پلیز، میرے پاس زیادہ وقت نہیں ھے۔ میری ماں جاگ گئی ھو گی۔ ، ، ، میں مسکرا دیا۔ یقیناْ وہ یہ چاھتی تھی، کہ میں جلد سے جلد اس کی پھدّی میں اپنا لن اتاردوں۔ ، ، ، میں نےپوچھا، "اگر تم کنواری ھو، تو تمھیں درد ھو گا۔ برداشت کر لو گی ؟ " ، ، ، جواب میں اس نے کہا، کہ وہ برداشت کر لے گی۔ ۔ ۔ (بعد میں پتا چلا، کہ وہ تو اس درد کے مرحلے سے چھے ماہ پہلے ھی گزر چکی ھے۔ )میں نے اس کی ٹانگیں پکڑیں، اور اپنے لن کا ٹوپہ اس کی پھدّی پر سیٹ کیا۔ ایک نظر اس کی طرف دیکھا، اور ایک دھکّا لگایا۔ میرے لن کی ٹوپی اس کی پھدّی میں گھس گئی۔ اس کے چہرے پر تکلیف محسوس ھو رھی تھی۔ میں نے آگے کو ھوتے ھوئے، اس کے ھونٹ اپنے ھونٹوں میں لے لئے، نیچے سے میں نے اپنی پوزیشن کا خاص خیال رکھّا تھا، کہ میرا لن اس انداز میں اس کی پھدّی پر سیٹ رھے، کہ میرے ایک ھی دھکّے سے اس کی پھدّی میں گھس جائے۔ اس کی کسّنگ کے دوران ھی، میں نے اچانک ایک جاندار دھکّا لگایا، اور اس کی پھدّی کی گہرایئوں میں اپنا لن اتار دیا۔ اس کے منہ سے نکلنے والی چیخ میرے منہ میں ھی کہیں دب گئی۔ ، ، ، ! (میں سوچ رھا تھا، کہ آج کنواری لڑکی کی سیل توڑنے کا موقع ملا ھے، مگر بعد میں پتہ چلا تھا، کہ وہ درد اسے اس وجہ سے ھو رھا تھا، کہ اس نے کافی دنوں کے بعد سیکس کیا تھا، اور یہ اس کے لئے صرف تیسری بار ھی تھا۔ اس لئے ابھی اس کی پھدّی اتنی رواں نہیں تھی۔ ) چند سیکنڈ کے توقّف کے بعد، میں نے چپّو چلانا شروع کر دئے۔ (ایک بات کا تو میں اندازہ لگا چکا تھا، کہ رابی کنواری نہیں تھی۔ وہ اس سے پہلے بھی کسی نہ کسی مرد سے چدوا چکی تھی، مگر یہ سوال بعد میں بھی ھو سکتے تھے۔ ابھی تو بہت کام باقی تھا۔) میں نے اس کے منہ سے اپنا منہ ھٹا لیا تھا، کیونکہ اب وہ میرا لن برداشت کر چکی تھی۔ لہٰذا کسی قسم کی چیخ کا کوئی امکان نہیں تھا۔ویسے بھی باہر بارش شروع ھو گئی تھی، اور اب اس کےباپ اور اس کے بھائیوں کے آنے کا موھوم سا امکان بھی نہیں رہ گیا تھا۔( میں تو پچھلے آدھے گھنٹے سے بند کمرے میں رابی کے ساتھ مصروف تھا، اسی وجہ سے مجھے پتہ ھی نہیں چل سکا تھا، کہ باھر کب بادل آئے، اور بارش بھی برسنے لگ گئی۔ ) میں بے فکری سے اس کی پھدّی مار رھا تھا۔ اس نے بھی اب انجوائے کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں چاھتا تھا، کہ وہ میرے ستاھ فارغ نہ ھو، بلکہ اس کے فارغ ھونے کے بعد بھی، کم از کم، پانچ سات منٹ تک میں اس کی چدائی کرتا رھوں، تا کہ بعد میں وہ اس چدائی کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے یاد رکھّے۔ اس کی سیکسی آوازیں بھی نکل رھی تھیں، مگر میں اس کے منہ پر کبھی کبھی ھاتھ بھی رکھ دیتا تھا، مبادا اس کی آواز باھر چلی جائے، اور کوئی سن لے۔ حالانکہ باھر بارش میں کسی کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ کچھ دیر میں نے آھستگی سے جھٹکے لگائے، پھر میں نے اپنی سپیڈ تیز کر دی۔ ساتھ ساتھ میں اس کو چھیڑ بھی رھا تھا۔ اس سے وہ جلد ھی فارغ ھو گئی۔ میں نے اس پوزیشن میں پانچ منٹ تک اس کو چودا۔ پھر میں نے اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل بنانے کو کہا۔ وہ مان نہیں رھی تھی، تب میں نے کہا، اگر وہ مجھ سے جلد جان چھڑانا چاھتی ھے، تو اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل میں آنا ھی ھو گا۔ وہ اٹھی، اور جھک گئی۔ اس سے اس کی پھدّی بالکل واضح ھو گئی۔ یہ میرے لئے بے حد دلفریب نظّارہ تھا۔ اس کی گیلی پھدّی، گول مٹول رانیں۔ (لمبی، گوری اور گول مٹول رانیں ھمیشہ سے میری کمزوری رھی ھیں۔) میں نے اس کے پیچھے سے آ کر اس کی پھدّی پر اپنا لن سیٹ کیا، اور ایک ھی جھٹکے سے اپنا لن اس کی پھدّی میں ڈال دیا۔ میں نے اس کی کمر سے اس کو پکڑ لیا تھا، ورنہ وہ لازمی طور پر آگے کو گر جاتی۔ اس انداز میں ، کم از کم پانچ منٹ مزید میں نے اس کی جم کر چدائی کی۔ اب میں نے سوچا، کہ بس کر دینی چھاھئے۔ ، ، چنانچہ میں نے اس کو سیدھا لٹا کر اس کی ٹانگیں اٹھا کر شروع ھو گیا۔ دو منٹ کے جاندار سٹروکس سے میں اس کی پھدّی میں ھی فارغ ھو گیا۔ اس نے کوشش کی تھی، کہ میں اپنا پانی باھر نکالوں، مگر میں نے اس کو ھلنے بھی نہیں دیا۔ ( وہ کیا ھے ناں، کہ جب تک میں اپنا پانی عورت کی پھدّی میں نہ نکالوں، مجھے سیکس کا مزہ ھی نہیں آتا۔) ا اس کے بعد میں نے واش روم کا رخ کیا۔ کپڑے وغیرہ پہن کر میں فارغ ھوا، تو وہ بھی اپنے کپڑے پہن چکی تھی۔ کافی دیر تک تو وہ مجھ سے نظریں ھی نہیں ملا سکی تھی۔ آخر اس نے مجھ سے گلہ کیا، کہ میں نے پانی نکالتے وقت کوئی بھی احتیاط نہیں کی۔ اس پر میں نے اس کو ایک خاص قسم کی ورزش کروائی۔ تکلیف کے باوجود اس نے وہ ورزش کی، کیونکہ وہ ماں بننے کی بدنامی سے بچنا چاھتی تھی۔اس کے بعد میں نے اس کو مزید تسلّی دیتے ھوئے کہا، کہ آج شام کو میں اس کو ایک خاص چیز لا دوں گا۔ اس کے استعمال سے وہ حاملہ ھونے سے محفوظ رھے گی۔ اس کے بعد میں نے اس سے سوال کیا، کہ کیا اس نے مزہ محسوس کیا، یا کہ وہ ناراض ھے؟ ، جواب میں وہ مسکرائی، اور میرے سینے پر ایک مکّا مارتے ھوئے میرے ساتھ لگ گئی۔ میں بھی خوشی سے جھوم اٹھّا۔ یقیناْ میری مردانہ کارکردگی حوصلہ افزاء تھی۔ اس کے بعد, میرے گال پر ایک کس کرتے ھوئے وہ جانے لگی، تو میں نے اس کو پکڑ کر پوچھا۔ " ایک بات تو بتاؤ، تم کنواری نہیں ھو۔ سچّ سچّ بتانا۔کس کے ساتھ کیا ھے؟ " میری اس بات پر اس نے شرماتے ھوئے بتایا، کہ پہلی اور دوسری دفعہ اس نے اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ اسی کمرے میں کیا تھا، جب اسی طرح اس کا باپ کسی کام سے باھر گیا ھوا تھا، اور اس کی والدہ سوئی ھوئی تھی۔ یہ آج سے چھے ماہ پہلے کی بات ھے۔ اس کے بعد اس کا کزن دوبئی چلا گیا۔ میں نے اس سے کہا، کہ آج کے کام میں جلد بازی موجود تھی۔ آئندہ اگر وہ موقع دے، تو میں اس کو اس سے بھی زیادہ مزہ دے سکتا ھوں۔ میری بات کے جواب میں اس نے مصنوعی ناراضگی سے مجھے دیکھا، اور مکّا لہراتی ھوئی چلی گئی۔

 

You Might Also Like

0 تبصرے

thanks

BUY NOVELS ON WHATSAP