حق دوستی
اپریل 10, 2021حق دوستی
کبھی کبھی ہم جو سوچتے ہیں ویسا ہوتا نہیں۔احترام کے رشتے کسی بھی
لمحے پامال ہو سکتے ہیں ۔یہ ضروری نہیں کہ ہر بار بدکاری کے لئے شروعات مرد کی طرف
سے ہو۔عورت کا اچانک وار بھی مرد کو پسپا ہونے پر مجبور کر سکتا ہے،ایسا ہی معاملہ
اس کے ساتھ ہوا اور وہ نہ چاہتے ہو ئے بھی اس عورت کے ساتھ زنا کر بیٹھا جس کا
رشتہ اس کے ساتھ احترام کا تھا۔ بیڈروم کی نیلگوں روشنی ایک پر سکون ماحول بنا رہی
تھی۔لکشمی باریک بلیک نائٹی میں ملبوس تھی ،اس کا گورا جسم اور اس کے نشیب و فراز
کافی حد تک اس جالی دار نائٹی سے جھانک رہے تھے۔اس کی آنکھوں میں سرخی نمایاں تھی
،جو شہوت کی خمار کا واضح پتہ دے رہی تھی۔لکشمی گداز جسم کی مالک ہندوستانی پنجابن
تھی۔عام ہندو لڑکیوں کی نسبت لکشمی کا رنگ و روپ سفید تھا۔اس کی آنکھیں پنجاب کی
کسی جٹی کی طرح بڑی بڑی اور آتش ہوس کو ہوا دینے والی تھیں۔قد کاٹھ البتہ نارمل
تھا۔جسم بھرا ہوا اور چھاتیوں کی اٹھان پر غرور تھی۔اس کی آنکھوں کی مستی دعوت زنا
دے رہی تھی ۔مگر عامر ایک سکتے کی سی کیفیت میں سامنے کھڑا اس کی طرف یک ٹک دیکھے
جا رہا تھا۔آج سے ایک دن پہلے تک وہ اس کے عزیز دوست کی بیوی ہونے کے ناتے اس کی
بھابھی تھی۔ایک ہی دن میں یہ کیسا بدلاؤ آیا تھا جس نے اس عورت کے خیالات کو یکسر
تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ پشپندر ایک ادارے میں پروڈکشن مینیجر کے طور تعینات
تھا۔یہ ادارہ بڑی بڑی کمپنیوں کی پبلسٹی کی ضروریات کو پورا کرتا تھا۔اس ادارے میں
سوائے پشپندر کے کوئی بھی پنجابی نہیں تھا۔کچھ اور انڈین تھے مگر وہ زیادہ تر تامل
تھے۔اس کے علاوہ بنگالیوں کی اکثریت تھی۔اسی دوران پشپندر کی کمپنی نے ایک بڑی
پرنٹنگ مشین کی خریداری کی۔مشین کی انسٹالیشن کے لئے جس انجینئر کو بھیجا گیا وہ
پاکستانی پنجاب سے تھا۔اسے دیکھتے ہی پشپندر کو اندازہ ہو گیا کہ یہ بندہ پنجابی
ہے۔بہت سے لوگوں کو اندازہ ہو گا کہ بیرون ملک رہنے والوں کی سکھ کمیونٹی سے دوسرے
انڈینز کے مقابلے میں زیادہ دوستی ہوتی ہے۔پشپندر اپنی بیوی لکشمی کے ساتھ رہتا
تھا ،اور کام کے علاوہ اس کی زندگی میں کوئی دوسری سرگرمی نہیں تھی۔اگرچہ اس کی
کمیونٹی کی لوگ مقامی سطح پر ہفتہ وار عبادت کے لئے ایک ٹیمپل میں اکٹھا ہوتے تھے
مگر پشپندر فطری طور پر مذہبی نہیں تھا۔وہ ڈرنک بھی کرتا تھا اور گوشت بھی کھا
لیتا تھا۔عامر سے پہلی ملاقات میں ہی وہ گھل مل گیا تھا۔ویسے بھی مستقبل میں
پرنٹنگ مشین کی دیکھ بھال اور مسائل کے سلسلے میں اس کا عامر سے ہی واسطہ پڑنے
والا تھا۔پنجابی ہونے کے ناتے چند ہی دنوں میں وہ ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے تھے۔
عامر چار سال سے بحرین میں مقیم تھا۔اس کی کمپنی میں اس کےسوا کوئی بھی پاکستانی
نہیں تھا۔دوسرا اس کی پوسٹ کچھ اس طرح کی تھی وہ عام لیبر سے کم ہی بات چیت کرتا
تھا۔کمپنی کی طرف گاڑی دستیاب تھی ۔کیوں کہ اکثر اوقات رات کو بھی کمپلینٹ آجایا
کرتی تھی ،اس صورت میں اسے گاڑی کی وجہ سے کافی سہولت رہتی تھی۔پشپندر سے ملاقات
ہوئی اور پھر جلد ہی وہ دونوں گہرے دوست بن گئے ۔کچھ عرصے بعد پشپندر نے اسے اپنے
فلیٹ پر مدعو کیا جہاں لکشمی سے اس کی ملاقات ہوئی۔عامر کی نظر میں اس کے لئے
سوائے احترام کے اور کچھ نہیں تھا۔وہ بڑی عزت سے اس کے ساتھ پیش آیا کرتا
تھا۔نتیجے میں کچھ ہی دنوں میں وہ ایک فیملی کی طرح ہو گئے تھے۔اگر کچھ دن عامر کا
ان کی طرف گزر نہ ہوتا تو لکشمی خود بھی اسے کال کر کے گلہ کر لیا کرتی تھی۔یوں
پشپندر عامر کے لئے ایک بھائی جیسا ہو گیا تھا۔عامر کبھی کبھار ڈرنک بھی کر لیا
کرتا تھا،جب سے پشپندر کے ساتھ دوستی ہوئی تھی اکثر جمعرات کی شام وہ اس کے ساتھ
گزارا کرتا تھا۔وہ تینوں اکٹھے بیٹھ کر ڈرنک کرتے ۔چونکہ عامر کو واپس آنا ہوتا
تھا اس لئے وہ اتنا ہی ڈرنک کرتا جس سے اس کے ہوش و حواس قائم رہتے۔ کئی دفعہ
لکشمی اسے رک جانے کے لئے کہا کرتی مگر عامر کی طبیعت یہ گوارا نہیں کرتی تھی ۔ایک
چھٹی کا دن ہی تو ہوتا تھا جس میں لوگ ریلیکس کرتے تھے۔اس دن بھی اگر مہمان سر پر
سوار ہو تو وہ دونوں کس طرح انجوائے کر سکتے تھے۔خیر یہ سوچ تو صرف عامر کی
تھی۔عامر کی نظر میں چونکہ کوئ خرابی نہیں تھی اس لئے اسے لکشمی میں بھی کوئی
خرابی دکھائی نہیں دیتی تھی۔وہ اسے ایک شریف عورت لگتی تھی۔مگر لکشمی کے اندر کچھ
اور ہی چلنا شروع ہو گیا تھا۔پردیس کی اس تنہائی میں اسے کچھ خوشگوار لمحات کی شدت
سے ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ایسے موقع پر عامر کی صورت میں اسے ایک اچھا پارٹنر
دکھائی دے رہا تھا،اگرچہ وہ مسلمان تھا اور پاکستانی بھی تھا،مگر عامر کے اخلاق
اور اس کے لئے احترام نے لکشمی کے دل کو جیت لیا تھا۔وہ دل ہی دل میں اسے پسند
کرنے لگی تھی۔اور اس کے ساتھ ہم بستر ہونے کی تمنا بھی دل میں بسا بیٹھی تھی۔دوسری
طرف عامر کے وہم و گمان میں بھی ایسا نہیں تھا۔ دن کے گیارہ کا ٹائم ہو گا جب عامر
کو پشپندر کی کال موصول ہوئی۔اس نے عامر کو بتایا کہ اسے ارجنٹ انڈیا جانا پڑ رہا
ہے ۔وہ ایک ہفتے تک واپس لوٹ آئے گا۔اس نے عامر سے استدعا کی کہ وہ اس کی غیر
موجودگی میں لکشمی کا دھیان رکھے اور کوشش کرے کہ رات وہیں گزارا کرے۔عامر نے اسے
یہ تو کہا کہ کسی بھی قسم کی ضرورت ہو تو لکشمی بھابھی اسے بلا جھجک کال کر سکتی
ہے۔مگر رات پشپندر کی غیر موجودگی میں وہاں جا کر رہنا اخلاقاً مناسب نہیں۔مگر
پشپندر نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی تھی۔اس نے جلدی میں ہی فون بند کر دیا
تھا۔عامر بعد میں ایک مشین پر ایسا مصروف ہو ا کہ اس کے ذہن سے ہی نکل گیا کہ اسے
لکشمی کو فون کر کے پوچھنا ہے۔ دوسری طرف لکشمی بے چین تھی۔پشپندر چلا گیا تھا اور
موقع تھا کہ وہ عامر کو بانہوں میں بھر سکتی۔وہ دن بھر یہی سوچتی رہی کہ کس طرح
اسے عامر کو اپنی طرف مائل کر کے سیکس کے لئے راضی کرنا ہے۔انہیں خیالات میں ڈوبے
رہنے کی وجہ سے اس کی شہوت ابھر آئی تھی۔اس نے پشپندر سے سنا تھا کہ پاکستانی مرد
بالوں سے پاک پھدی کے شیدائی ہوتے ہیں۔عامر کو دیکھ کر بھی یہی لگتا تھا کہ وہ
پیار کرنے میں حد سے گزر جانے والا ہوگا،صاف ستھرا دکھائی دینے والا عامر یقیناً
اپنے سیکس پارٹنر کے لئے بھی یہی خیالات رکھتا ہوگا۔لکشمی سوچتی جا رہی تھی اور اس
کی چوت گیلی ہو تی جا رہی تھی۔اس کا دماغ پوری طرح پراگندہ ہو چکا تھا۔وہ تو چاہ
رہی تھی کہ عامر بس اسی وقت آجائے اور اسے دبوچ لے۔اس کے انگ انگ کو توڑ پھوڑ
ڈالے۔شہوت کی وجہ سے آنکھیں سرخ ہو رہی تھی۔اس نے بھرپور طریقے سے غسل کیا اور سب
غیر ضروری بال صاف کر دیے۔ویسے تو عام انڈین لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ صفائی
پسند تھی ۔مگر اآج کی رات تو اہتمام کے ساتھ تیار ہو رہی تھی۔اسے ابھی تک اندازہ
نہیں تھا کہ وہ عامر کو شکار کر بھی سکے گی کہ نہیں۔مگر اسے اتنا یقین ضرور تھا کہ
عامر بھی عورت کے لئے خوب پیاسا ہو گا،کیوں کہ اس میں کوئی بری عادت تو تھی نہیں
،اور گزشتہ چند سالوں سے وہ بیرون ملک تھا تو یقیناً سیکس کی طلب بھی اپنے عروج پر
ہوگی۔ غسل کے بعد اس نے گلابی رنگ کی ساڑھی زیب تن کی اور پوری طرح تیار ہونے کے
بعد کچن کی طرف بڑھی،حالانکہ اسے کھانے کی تیاری کے بعد غسل خانے کا رخ کرنا چاہئے
تھا مگر اسے وقت کا اعتبار نہیں تھا۔وہ ہرگز یہ نہیں چاہتی تھی کہ جب عامر آئے تو
وہ پسینے میں شرابور اسے ملے۔لکشمی نے پورے اہتمام کے ساتھ کھانا تیار کیا۔اس نے
کوشش کی کہ سب کچھ عامر کی مرضی کا ہو۔اتنے دنوں کی دوستی میں اسے سب معلوم ہو چکا
تھا۔واڈکا کی بوتل بھی موجود تھی۔کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ عامر وہسکی پر واڈکا کو
ترجیح دیتا ہے۔شراب نوشی تو چونکہ لکشمی کے کلچر کا حصہ تھی اس لئے اس کے گھر میں
کوئی نہ کوئی بوتل ہر وقت موجود رہتی تھی۔ رات قریباً آٹھ ہو چکے تھے۔عامر کام سے
فارغ ہو کر خمیس میں موجود اپنے فلیٹ میں آچکا تھا ۔اس دن کافی کام کیا تھا جس کی
وجہ سے تھکن طاری تھی۔اس نے جلدی سے اپنے کپڑے اتارے اور غسل خانے میں گھس گیا۔گرم
پانی سے شاور لیتے ہوئے جیسے ہی اس کے جسم میں سکون آنا شروع ہوا ،اسے بھوک بھی
محسوس ہونے لگ گئی۔گرم پانی کا فوارہ چل رہا تھا اور عامر کا دل باہر نکلنے کو
نہیں کر رہا تھا،دوسری طرف اس کے فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔مگر عامر کو اس کی
آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔دوسری طرف لکشمی بار بار فون کر کرکے مایوس ہو رہی
تھی۔اس کی ساری تیاری رائیگاں جانے والی تھی۔ کچھ دیر بعد عامر غسل خانے سے اسی
طرح برہنہ نکل آیا۔اس نے تولئے سے جسم خشک کیا ،اسی دوران فون کی گھنٹی دوبارہ بجی
تو عامر نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھا لیا "ہیلو!" "عامر جی کہاں ہیں
آپ؟" لکشمی کی شہوت سے بھرپور آواز عامر کے کانوں سے ٹکرائی تو اسے ہوش آیا
"اوہ!بھابھی جی۔۔۔سوری جی میں نہا رہا تھا،مجھے پتہ نہیں چلا۔۔"عامر نے
جواب دیا "یہ تو بہت بری بات ہے عامر جی۔۔میں کتنی دیر سے فون کر رہی
تھی،پریشان کر دیا آپ نے مجھے"لکشمی نے کہا "ارے نہیں بھابھی جی!آج کام
کافی تھا تھکن سی ہو رہی تھی اس لئے گرم پانی سے شاور لے رہا تھا"عامر نے
تھوڑا سا شرمندہ ہوتے ہوئے جواب دیا "اب جلدی سے آجاؤ۔۔کھانا تیار ہے ۔۔میں
انتظار کر رہی ہوں۔آپ کو پتا ہے پشپندر نہیں ہے یہاں ۔۔بس جلدی سے
آجائیے"لکشمی نے بصد اصرار کہا تو عامر نے جواباً اسے کہا کہ وہ آدھے پونے
گھنٹے تک پہنچ جائے گا۔ وہ رکنا نہیں چاہتا تھا۔مگر لکشمی اسے جانے نہیں دے رہی
تھی۔ "کیا بات ہے ۔ادھر بھی تو رات اکیلے ہی گزارنی ہے آپ نے۔۔یہاں میں اکیلی
ہوں۔۔آپ کے دوست کی بیوی ہوں۔۔کچھ تو خیال کیجئے" لکشمی بول رہی تھی مگر عامر
کسی اور ہی سوچ میں تھا۔ "مجھے صبح جلدی اٹھنا ہوتا ہے۔ٹائم پر آفس پہنچنا
ضروری ہوتا ہے۔یہاں سوجاؤں گا تو صبح لیٹ ہو جاؤں گا۔دوسرا یہ کہ پشپندر یہاں ہوتا
تو میں رک جاتا مگر ابھی مجھے یہ ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔"عامر نے جواب دیا تو
لکشمی مسکرا دی۔اس کا چہرہ جذبات سے تمتا رہا تھا۔وہ پوری طرح تیار تھی۔اسے بس
عامر کو روکنا تھا یہاں۔وہ رک جاتا تو باقی کی منزل کافی آسان تھی۔ "کیوں عامر
جی ! ہم آپ کو پسند نہیں کیا۔۔آپ ہماری خواہش پر یہاں نہیں رک سکتے۔۔دیکھیں نا میں
اکیلی ہوں یہاں۔۔آپ کو پتہ ہی ہے یہاں کے مقامی حالات کس طرح کے ہیں ان
دنوں۔۔۔"لکشمی نے مستی بھری آواز میں عامر کی طرف دیکھتے ہوئےکہا۔عامر کو دال
میں کالا دکھائی دے رہا تھا۔اسے لکشمی کا والہانہ پن شک میں ڈال رہا تھا۔وہ پھسلنا
نہیں چاہتا تھا۔اسے لگتا تھا کہ لکشمی پشپندر کی امانت ہے اور اس میں کسی طرح کی
خیانت بھی جائز نہیں۔ "نہیں بھابھی ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔مگر مجھے جھجک سی
ہو رہی ہے۔۔"وہ ہچکچاتے ہوئے بولا لکشمی اٹھ کر اس کے قریب آگئی اور وہ جس
صوفے پر بیٹھا ہوا تھا اس کے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔ "کیوں پریشان ہو تے ہو
عامرجی!آپ اور میں اگر ایک ساتھ ایک گھر میں رات گزار بھی لیں گے تو کسی کو کیا
خبر ہو گی۔۔"لکشمی نے اپنا ہاتھ عامر کے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا۔اس کے ہاتھ
کی حرارت عامر کو اندر تک جاتی محسوس ہوئی۔خیر و شر کی لڑائی شروع ہو چکی تھی۔آدم
کا بیٹا پھسلنے والا تھا کہ شیطان کی تیاری مکمل تھی۔جال تیار تھا۔"آپ بیٹھو
یہاں۔۔میں اندر جا رہی ہوں۔کچھ دیر بعد میرے بیڈ روم میں آجانا۔۔پھر اگر جانا ہوا
تو چلے جانا روکوں گی نہیں۔۔"لکشمی ایک ادا سے اٹھی اور کمرے کی طرف اٹھلاتے
ہوئے چلی گئی۔پہلی بار عامر کی نظر اس کے کولہوں پر پڑی۔اس کے چلنے کی حرکت کے
ساتھ اس کے کولہے ہل رہے تھے۔عامر کا گلا خشک ہونے لگا۔ اس کے پاؤں من من کے ہو
چلے تھے۔وہ کئی بار اٹھا اور باہر کے دروازے کی طرف گیا۔مگر پھر لوٹ آتا۔اندر کی
کشمکش اسے مجبور کر رہی تھی کہ اس بھرپور عورت کے ساتھ رات گزار کے زندگی کا وہ
لطف اٹھالوں جس کے لئے وہ کئی برسوں سے ترس رہا ہے۔لذیذ ترین کھانا سامنے تھا اور
اسے کھانے کے لئے فقط چند قدم اٹھ کر جانا کافی تھا۔پھر اس کشمکش پر جنسی خواہش
غالب آنے لگی۔وہ اٹھا اور کمرے کی طرف بڑھا۔ بیڈروم کی نیلگوں روشنی ایک پر شہوت
ماحول بنا رہی تھی۔لکشمی باریک بلیک نائٹی میں ملبوس تھی ،اس کا گورا جسم اور اس
کے نشیب و فراز کافی حد تک اس جالی دار نائٹی سے جھانک رہے تھے۔ ۔اس کی آنکھوں میں
سرخی نمایاں تھی ،جو شہوت کی خمار کا واضح پتہ دے رہی تھی۔لکشمی گداز جسم کی مالک
ہندوستانی پنجابن تھی۔عام ہندو لڑکیوں کی نسبت لکشمی کا رنگ و روپ سفید تھا۔اس کی
آنکھیں پنجاب کی کسی جٹی کی طرح بڑی بڑی اور آتش ہوس کو ہوا دینے والی تھیں۔قد
کاٹھ البتہ نارمل تھا۔جسم بھرا ہوا اور چھاتیوں کی اٹھان پر غرور تھی۔اس کی آنکھوں
کی مستی دعوت زنا دے رہی تھی ۔مگر عامر ایک سکتے کی سی کیفیت میں سامنے کھڑا اس کی
طرف یک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔ "اب بھی واپس جاؤ گے عامر جی!آگے بڑھو اور تھام
لو مجھے۔۔۔۔"لکشمی کی آواز میں وہ شہوت بھری ہوئی تھی کہ عامر کے لن نے
انگڑائی سی لی۔وہ جو یک ٹک اسے تکے جا رہا تھا ،ایک جھٹکے سے ہوش میں آیا۔لکشمی نے
نائٹی نے بٹن کھولنے شروع کر دیے تھے۔عامر کے کان سرخ ہونے لگے۔لکشمی نے چند
سیکنڈز میں ہی نائٹی کو قدموں کی راہ دکھا دی۔لکشمی پوری طرح ننگی ہو چکی تھی۔اب
صورت ایسی تھی کہ آگے بڑھ کر لکشمی کو تھام نہ لیتا تو اس کی توہین ہو تی۔عورت
ننگی ہو اور دعوت زنا دے رہی ہو تو کم ہی کسی کا حوصلہ ہو گا اسے چھوڑ جانا۔ لکشمی
نے بانہیں پھیلا دی اور عامر نے لپک کر اسے بانہوں میں بھر لیا۔بس پھر کیا تھا ہوش
و حواس ساتھ چھوڑ گئے۔لکشمی کی مستی نے اسے دیوانہ کر دیا۔وہ دونوں چند ہی منٹوں
میں بستر پر لوٹ پوٹ ہو چکے تھے۔عامر بھی ننگا ہو چکا تھا اور جذبات کے ساتھ لکشمی
کے بے داغ جسم کو چوم اور چاٹ رہا تھا،لکشمی نے مسحور کن خوشبو سے اپنے پورے جسم
کو بسایا ہو ا تھا۔اس خوشبو نے عامر کی شہوت کو اور بڑھاوا دے دیا تھا۔لکشمی نے
عامر کو دھکیلا اور خود اس کے اوپر آگئی۔ا س نے اس شدت کے ساتھ عامر کے جسم کو
بوسے دینے شروع کئے کہ عامر کا لن پورے تناؤ میں آگیا۔لکشمی تیزی کے ساتھ نیچے کی
طرف گئی اور پھر اس نے بے حجابانہ انداز میں عامر کا لن منہ میں بھر لیا۔یہ وہ وقت
تھا جب عامر کا خود پر کنٹرول ختم ہو گیا۔اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا اور وہ آسمانوں
کی سیر کرنے لگا۔اس نے آنکھیں موند لی تھی،لکشمی جڑ تک لن کو منہ میں لے
لیتی۔یقیناً لکشمی کو لن چوسنے میں ملکہ حاصل تھا۔کچھ دیر بعد لکشمی نے لن کو منہ
سے نکالا اور عامر کے اوپر آگئی۔لکشمی کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی۔اس کا بدن جل
رہا تھا۔اس نے ٹانگیں کھول کر لن کو چوت پر رکھا اور آہستگی سے اوپر بیٹھتی چلی
گئی۔ جنسی عمل میں جتنے بھی دھکے سہے جائیں عورت کو گوارا ہوتے ہیں۔لکشمی گھوڑی
بنی ہوئی تھی اور عامر نے اسے کمر سے پکڑا ہوا تھا۔وہ اپنے پورے زور سے لکشمی کو چود
رہا تھا۔لکشمی بری طرح چنگھاڑ رہی تھی۔شرم و حیا کے سبھی پردے ایک ایک کر کے اتر
گئے تھے۔ایک ہندوستانی چوت نے پاکستانی لن کو دل کی گہرائیوں سے جڑ تک اندر لے لیا
تھا۔ہندوستانی چوت لن کی ضربات سے لذت کشی کے ان مراحل سے گزرتی جا رہی تھی جن سے
وہ آج تک محروم تھی۔وہ پشپندر کی بیوی تھی۔عامر کے عزیز ترین دوست کی بیوی۔دوستی
کا حق ادا ہو رہا تھا،چدائی زوروں پر تھی۔دونوں حال سے بے حال ہو گئے تھے۔لکشمی کی
چوت نے کئی بار پانی چھوڑ دیا تھا۔اب عامر کی باری تھی۔اسے فارغ ہونا تھا۔اس نے
لکشمی کو سیدھا کرکے لٹایا اور اس کے اوپر آکر اس کی ٹانگیں اپنی کمر کے گرد کس
لی۔اس نے لکشمی سے کہا کہ وہ اب فارغ ہونے والا ہے۔عامر کی توقع کے بر عکس لکشمی
نے کہا۔ "میری جان! میرے اندر بہا دو اپنا سارا پانی۔۔مجھے اپنے بچے کی ماں
بنا دو۔۔۔٭٭٭٭٭٭۔۔بجھا دو میری پیاس ۔۔" وہ سسک رہی تھی۔مگر عامر اسے اپنا
بچہ کیسے دے دیتا۔فیصلہ مشکل تھا۔اسی وقت لکشمی نے اپنی چوت کو بھینچنا شروع
کردیا۔لن پر چوت کی پکڑ اور جکڑ نے عامر کو بے خود کردیا۔وہ منی کی پھواریں مارتا
ہوا لکشمی کے اوپر ہی گر گیا۔لکشمی دیوانہ وار اسے چومنے لگی۔وہ اس کے چہرے کو
بوسے دے رہی تھی۔اس کی منی کے ایک ایک قطرے کو اندر تک سمو لینا چاہتی تھی۔عامر نے
حق دوستی ادا کردیا تھا۔
0 تبصرے
thanks