ایک دن کچھ یوں ہوا

اپریل 10, 2021

ایک دن کچھ یوں ہوا

میں نے امی کے بازو کے نرم حصے پر زور سے چٹکی کاٹی تو انکے منہ سے بےاختیار سسسی کی آواز نکلی اور وہ ہلکا سا چللا کر بولی..بتمیز کہی کے، اگر تم میری اکلوتی اولاد نہ ہوتے تو میں تمہیں مار ہی دیتی. .انکی آواز میں پیار اور شکوہ دونوں تھے. .میں نے مسکراتے ہوئے انہیں کہا. .امی ایک بار ہی تو کہہ رہا ہوں گود میں بیٹھنے کے لیے، کون سا روز روز کے لیے کہہ رہا ہوں کے روز بیٹھنا میری گود میں.انہوں نے شرماتے ہوئے بناوٹی غصے سے کہا. . بہت کمینے ہو تم، شرم کرو ماں ہوں میں تمہاری.میں نے شرارت سے بھرے لہجے میں کہا. .اسی لیے تو کہہ رہا ہوں آپکو، کے آپ ماں ہیں میری، اپنے بچے کی خواہش کا ذرہ احساس نہیں آپکو. .وہ اور میں کچن میں کھڑے تھے انہوں نے چمٹا اٹھا کر ہلکا سا حقیقی غصہ دیکھاتے ہوئے کہا. .چلو دفعہ ہو جاؤ یہاں سے، اور آنے دو اپنے ابو کو، تمہاری ساری شیطانیاں بتاتی ہوں انہیں.میں نے انہیں مزید تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور کچن سے باہر نکال کر اپنے روم میں آ گیا میرا نام اسد ہے اور میری عمر سترہ سال ہے، میری امی کی عمر پینتالیس سال ہے.میں ان کی اکلوتی اولاد ہوں اور بہت لاڈلی بھی.ہمارے بیچ بہت بےتکلفی ہے.میں اور امی مذاق مذاق میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے تھے اور پھر یہ مذاق مذاق کی لڑائی اب کسی اور ہی سیمت کو جا رہی تھی. میں نے روم کا دروازہ لاک کیا اور اپنے لیپ ٹاپ پر انسیسٹ پورن لگا لی جس میں بیٹا اپنی ماں کو چود رہا ہوتا ہے.میں نے ٹروزر سے اپنا لوہے کی طرح سخت ہوا لن باہر نکالا اور امی کا سوچ کر مٹھ مارنے لگا،مٹھ مارتے مارتے میرے خیال کچھ اِس طرح کے تھے کے میں اپنی امی کو چود رہا ہوں.مزے سے میرا برا حال ہونے لگا.ابھی میں مٹھ مار ہی رہا تھا کے باہر سے میرے روم کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی گئی.میں نے جلدی سے لیپ ٹاپ بند کیا اور لن کو ٹرؤزر میں ڈالتے ہوئے روم کا دروازہ جا کر کھولا.آگے امی کھڑی تھی انہوں نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا. .تمہارا منہ کیوں سرخ ہوا ہوا ہے؟. .ساتھ ہی جب انکی نظر نیچے کو گئی تو انہوں نے میرے لن کی اٹھان کو جب دیکھا تو کچھ مزید نہ پوچھا اور مجھے كھانا کھانے کا کہتے ہوئے چلی گئی.جاتے ہوئے ان کے چہرے پر گھبراہٹ کے اثر تھے.میں یہ سوچ کر کے امی نے مجھے اِس حالت میں دیکھ لیا ہے کافی شرمندہ سا ہو گیا.میرا لن جب پوری طرح ٹرؤزر کے اندر بیٹھ گیا تو میں پھر كھانا کھانے روم سے باہر نکلا ڈائنگ روم میں میں اور امی بیٹھے كھانا کھا رہے تھے تو امی نے مجھ سے کوئی بات نہ کی.میں خود بھی تھوڑا شرمندہ تھا تو میں نے بھی بات کرنے سے گریز ہی کیا.كھانا کھا کر میں چُپ چاپ اپنے کمرے میں آ گیا۔میں اپنے بیڈ پر لیٹا آہستہ آہستہ سوچوں کے سمندر میں ڈوبنے لگا تو میرے ذہن میں وہ لمحہ عکس بن کے ابھرا جب امی نے ٹرؤزر کے باہر سے میرے لن کو کھڑے ہوئے سخت حالت میں دیکھا تھا.اِس سوچ نے مزے سے میرا برا حال کر دیا.اب تو مزا اِس لیے آیا کے امی تھوڑا میرے سامنے تھی، اب تو میں تھا اور میری گندی سوچوں والی تنہائی تھی.میں نے سوچا امی کیا سوچ رہی ہوں گی ابھی میرے بارے میں کے اسد نے کیا اپنا لن سخت کیا ہوا تھا، آخر کیا سوچ کر اس نے اپنا لن سخت کیا ہوا تھا؟.ایسی گندی گندی سوچیں سوچ کر میرے لن کی سختی میں مزید اضافہ ہونے لگا.میں نے لن کو پھر سے ٹرؤزر سے باہر نکال کر امی کا سوچ کر مٹھ مارنے لگا.یہ امی کے بارے میں میری گندی سوچیں کوئی آج کا کام نہیں تھی، میں تو ازلی انسیسٹ تھا.میرے ذہن میں اپنی کہی وہ بات آئی جب میں امی کو کہہ رہا تھا کے میری گود میں بیٹھیں،اُف کتنی گندی بات بول دے تھی میں نے انہیں.میں نے مٹھ مارتے مارتے دوسرے ہاتھ سے اپنا موبائل اٹھایا اور تیز سانسوں کو سمبھالتے ہوئے امی کو میسج کیا سوری امی.تھوڑے سے انتظار کے بعد مجھے انکا رپلائی آیا، ’ ’ کس بات کے لیے سوری؟ ’ ’.. میں نے رپلائی کیا،وہ جو میری نیچے سے حالت تھی اسکے لیے.ان کا تھوڑی دیر بعد غصے والا رپلائی آیا. .’ ’ بکو مت’ ’.میں مٹھ مارتے ہوئے کچھ ایسا مزے میں تھا کے مجھ پر صرف مزا حاوی تھا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کام ہی نہیں کر رہی تھی میں نے پھر ٹیکسٹ کیا’ ’ آئیں نہ میرے روم میں.انہوں نے رپلائی کیا،’ ’ کیوں جی؟. .میں نے کہا،’ ’میری گود میں بیٹھنے کے لئیے’ ’ . انہوں نے غصے والا اموجی بھیجا.اتنے میں مجھ سے اور سہا نہ گیا اور میں ڈسچارج ہو گیا.ابھی میں اپنی سپرم ٹشو سے صاف کر ہی رہا تھا کے، امی کا میسج آیا.اِس بار انکا اندازِ سمجھانے والا تھا. .’ ’اسد پہلے ہم مذاق میں لڑتے تھے، پھر آہستہ آہستہ یہ مذاق اتنا زیادہ ہونے لگا کے آج بات یہاں تک آ گئی ہے کے تم مجھ سے بری بری باتیں کرنے لگے ہو، یہ سب ٹھیک نہیں.میں نے کچھ سوچتے ہوئے رپلائی کیا.’ ’پر ہم دوست ہیں نہ؟. . انکا جواب آیا.’ ’ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، ایسے دوستی کی بھی ایک حد ہوتی ہے، نیکسٹ ٹائم مجھے شکایت کا موقع نہ ملے.تھوڑی دیر بعد انکا دوبارہ سے میسج آیا.’ ’ شام کو تمہارے چاچو آ رہے ہیں ابو سے ملنے تو روم میں مت گھسے رہنا اُس نے مل لینا شام کو جب چاچو آئے تو ہم سب انکے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے کے کسی بات پر چاچو اور ابو میں سخت کلامی ہو گئی.بات ابھی چاچو اور ابو کے درمیان ہو رہی تھے کے امی بیچ میں بول پڑی اور انہوں نے بھی چاچو کو کھری کھری سنا دی.چاچو امی کے بیچ میں بولنے پر خاموش ہو گے اور ہمارے گھر سے چلے گے.ابو تب کچھ نہیں بولے، پر جب رات کو میں اپنے روم میں تھا اور سلیپنگ ٹرؤزر اور ٹی شرٹ پہن کر سونے کی تیاری کر رہا تھا تو مجھے امی کے روم سے امی کی چیخوں کی آواز سنائی دی.میں بھاگا بھاگا انکے روم کے دروازے تک پہنچا اور زور سے دروازہ اوپن کیا تو اندر کا منظر ہی عجیب تھا، ابو آئرن راڈ سے امی کو مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے کے’ ’وہ معملا میرے اور میرے بھائی کے درمیان تھا تم کیوں بیچ میں بولی. .امی چیخ رہی تھی اور ساتھ میں رُو رہی تھی.میں بڑی مشکل سے امی کو ابو سے بچا کر اپنے روم میں لایا۔اپنے روم کا دروازہ بند کرتے ہوئے میں نے امی کو اپنے بیڈ پر بیٹھایا اور خود انکے ساتھ بیٹھتے ہوئے انہیں سینے سے لگا لیا.امی ابھی بھی ہچکیاں لے کر رُو رہی تھی،انکے آنسو تھے کے تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے.میں نے انکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا’ ’ بس امی چُپ کر جائیں پلیز.میں نے بڑی مشکل سے انہیں چُپ کروایا اور انہیں اپنے بیڈ پر لیٹا دیا.میں نے روم کی لائٹ آف کی اور زیرو پاور کا بلب آن کرتے ہوئے امی کے ساتھ آ کر بیڈ پر لیٹ گیا.ابھی بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد امی کی ہچکیوں کی آواز میرے کانوں سے ٹکراتی.میں نے اپنا ایک ہاتھ انکے سَر پر رکھ دیا اور انگلیوں سے انکے بال سہلانے لگا.ایسے ہی پتہ نہ چلا اور مجھے نیند آ گئی اور میں سو گیا دیر رات مجھے امی نے جنجھوڑ کر اٹھایا،میں اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا،اور سوالیہ اندازِ میں انھیں دیکھنے لگا.انہوں نے میری ایک کھلی سی ٹی شرٹ اور کھلا سا ٹرؤزر پہن رکھا تھا اور انکے ہاتھ میں آئل کی بوتل تھی، انہوں نے کہا، پلیز میری کمر اور ٹانگوں پر آئل کی مالش کر دو، بہت دَرد ہو رہا ہے.یہ کہہ کر انہوں نے بوتل مجھے دی اور وہ بیڈ کی دوسری طرف آئی اور الٹی ہو کر بیڈ پر لیٹ گئی.میں گھٹنوں کے بل انکے پاس آگیا اور کمر پر سے تھوڑا سا شرٹ کو اوپر کیا، انکے سفید جسم پر آئرن راڈ لگنے کی وجہ سے ریڈ ریڈ نشان بنے ہوئے تھے، جنہیں دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گے، میں نے تھوڑا سا آئل لیا اور اُسے دونوں ھاتھوں پر لگا کر آہستہ آہستہ انکی کمر کی مالش شروع کر دی.میرے ھاتھوں نے جوں ہی انکی کمر کو چھوا تُو انکی دَرد سے سسکی سی نکل گئی، آنکھوں میں آنسو لئیے میں نے غصے سے کہا،’ ’ ابو بہت برے ہیں’’ امی نے اک لمحے سے بھی کم وقت میں جواب دیا، ’ ’ایسا نہیں کہتے ، وہ تمہارے ابو ہیں، خبردار انکے بارے میں کچھ غلط کہا میں پھر خاموش ہو گیا.انکی کمر کی مالش کے بعد میں انکے پاؤں والی سائڈ پر آ کر بیٹھ گیا اور انکے ٹروزر کو گھٹنوں تک اوپر کر دیا.انکی سفید ٹانگوں پر بھی ریڈ نشان جگہ جگہ تھے.میں نے ہلکے ھاتھوں سے انکی ٹانگوں کی بھی مالش شروع کر دی،اب کی بار بھی انکی دَرد سے بھری سسکیاں بلند ہوئی.کافی دیر میں یوں ہی انکی ٹانگوں کی مالش کرتا رہا تو انہوں نے مجھے کہا.’ ’ پلیز تھوڑا رانوں پر بھی مالش کر دوں بہت دَرد ہے وہاں بھی.میں نے اس کھلے سے ٹرؤزر کو انکی رانوں سے بھی اور اوپر کو کر دیا.میں نے اپنے دونوں ہاتھ پہ آئل لگا کر انکی رانوں پر رکھے اور نیچے سے اوپر یعنی رانوں تک انکی مالش کرنے لگا.ایسے مالش کرتے کرتے میں انکی رانوں کو دیکھے جا رہا تھا کے مجھے انکی نرم بھری بھری رانوں کو مالش کرنے میں مزا آنے لگا، اور اِس مزے کی حالت میں میرا لن سخت ہونے لگا.مزا آہستہ آہستہ ایسے مجھ پر سوار ہونے لگا کے میں نے اپنے ھاتھوں کو رانوں سے تھوڑا اوپر کی جانب بڑھانا شروع کر دیا، پھر آہستہ آہستہ میرے دونوں ہاتھ پورے کے پورے امی کی گانڈ پر مالش کرنے لگے، دَرد میں ڈوبی سسکیاں سی نکلی انکے منہ سے، شاید گانڈ پر بھی انہیں آئرن راڈ سے ابو نے مارا تھا اچانک امی بولی،’ ’ بیٹا بس کر دوں اب.میں مزے میں ڈوبا بولا، کرنے دیں نہ مالش امی، آرام ملے گا آپ کو.پھر وہ خاموش ہو گئی.میں اپنے مضبوط ھاتھوں سے انکی نرم گانڈ کی مالش کرتا رہا اور پھر میں نے آہستہ آہستہ سے مالش کرتے ہوئے اپنے انگھوٹھوں کو انکی گانڈ کی دراڑ میں ڈالا اور انکی گانڈ کی دراڑ کی مالش بھی شروع کر دی.امی نے لیٹے لیٹے اپنی گانڈ ہلکی سی ہلائی.میرا لن خوشی سے پگلا گیا تھا.اب میں نے مالش کو چھوڑ کر اپنے دونوں انگھوٹھوں کو انکی گانڈ کے سوراخ پر رگڑنا شروع کر دیا.میرے دونوں انگھوٹھے انکی گانڈ کی دراڑ میں ہونے کی وجہ سے انکی گانڈ اور چوڑی ہو چکی تھی.اک آوارہ پن اور دیوانگی سی مجھ پر طاری ہو چکی تھی.میں نے اِس آوارَگی کے عالم میں اپنے دونوں ہاتھ باہر نکالے اور امی کے ٹرؤزر کو آہستگی سے انکی گانڈ سے ہٹاتے ہوئے انکی ٹانگوں سے جدا کر دیا، اب امی کمر سے لے کر پاؤں تک میرے سامنے ننگی تھی.میں نے انکی بھاری بھرکم گانڈ کو آگے جھک کر چومنا شروع کیا اور اتنے میں وہ بولی’ ’ اسد مت کرو ایسے، آج تمہیں سمجھایا بھی تھا.انکی آواز لذت میں ڈوبی ڈوبی سی محسوس ہوئی مجھے۔ میں نے پیچھے ہوتے ہوئے اپنا ٹرؤزر اور شرٹ اتاری اور ننگا ہو گیا.میرے لن نے خوابوں میں بھی یہ منظر کب دیکھا ہو گا.میں نے آگے بڑھ کر اپنی سائڈ کا سرہانہ اٹھا کر امی کہ پیٹ کے نیچے ایڈجسٹ کیا.ایسا کرنے سے انکی گانڈ تھوڑا اوپر کو اٹھ گئی اور انکی پُھدی مجھے نظر آنے لگی،میں نے نیچے یعنی امی کے اوپر جھک کر اپنے ھاتھوں سے انکی کمر کو پکڑا اور اپنا لن انکی پُھدی پر لگایا،( انکی پُھدی بے-پناہ گیلی ہو چکی تھی ، امی نے پھر ہلکے سے اپنی گانڈ کو ہلایا.میں نے ایک ہلکا سا دھکّا مارا اپنے لن کا انکی پُھدی پر تو میرا مضبوط موٹا لن انکی پُھدی میں آدھا اندر تک چلا گیا.بے-اختیار امی کے منہ سے نکلا، ہاے اسد، کیا کر رہے ہو پاگل.میرے منہ سے بھی سرور میں ڈوبی سسکیاں سی نکلنے لگی اور پھر میں نے دوسرا دھکّا مارا، جس سے میرا لن امی کی گیلی پُھدی میں تھوڑا اور اندر تک چلا گیا.امی کے منہ سے پھر لذت سے بھرے لفظ نکلے، ’ ’ اف آ آ بس کر دو بیٹا.پر اب بس کرنے کا وقت ہی کہاں رہا تھا میرے پاس.میں نے اب اپنے لوہے کے راڈ کی طرح سخت ہوئے لن کو امی کی پُھدی میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا، بڑی ہی تیزی سے میرا لن باہر کو آتا اور میں امی کی کمر پر اپنی گرفت کو مضبوط کر کے بڑے ہی زور کا جھٹکا دیتا جس سے میرا لن انکی پُھدی کی مزید گہرایوں تک اترتا چلا جاتا.انکی اور میری لذت اور سرور سے بھری سسکیاں روم کے ماحول کو خوب نشیلا کیا جا رہی تھی.میرے ہر دھکے پر انکی موٹی چوڑی گانڈ بڑے زور سے ہلتی.پھر اچانک انکی پُھدی نے میرے لن پر پانی گرانا شروع کیا جس سے میرا لن مزید گرم ہو گیا، جو کے میں سہہ نہ پایا اور میں بھی ان کے ساتھ ساتھ ڈسچارج ہونے لگا، ڈسچارج ہوتے ہوئے میں نے ان سے کہا،’ ’ پلیز امی میرے لن کو دبائیں اپنی پُھدی سے.امی نے اپنی پُھدی کا پانی میرے لن پر گراتے ہوئے ساتھ ساتھ میرے لن کو اپنی پُھدی سے سہی دبایا، جس سے میرا مضبوط لن اور مزے لے لے کر انکی پُھدی میں فارغ ہوا.میں فارغ ہو کر امی کے اوپر گر گیا اور تیز تیز سانسیں لیتے ہوئے بولا،’ ’ امی ابو کو کہیں کے وہ روز آپ کو مارا کریں.میری یہ بات سن کر وہ منہ پیچھے موڑ کر اور مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی۔

 

You Might Also Like

0 تبصرے

thanks

BUY NOVELS ON WHATSAP