رازِ محبت جب کھلا
دوسری قسط
مہرو جاتے
ہوئے 2 کمبل بھی میرے اوپر ڈال گئی یہ کہہ کر کہ یہاں رات میں اکثر ٹھنڈ ہو جاتی
ہے ۔ مہرو نے بھی مجھے کپڑے نہیں پہنائے اور ایسے ہی کھڑکی بند کرکے چلی گئی شاید
اسکی نظر بھی میرے کھڑے ہوئے لن پر پڑ گئی تھی میری اس وقت آنکھیں تو بند تھی لیکن
پیرو کی دور ہوتی ہوئی آواز سے میں نے اندازہ لگا لیا تھا کی شاید اب کمرے میں
کوئی نہیں سوائے میرے اور میری تنہائی كے ۔
رات کو مجھے نیند نے کب اپنی آغوش میں لے لیا
میں نہیں جانتا۔صبح مجھے ناشتہ کروانے كے بَعْد مہرو اور گلبدن نے میری شیو بھی کی
اور بال بھی کاٹ دیئے ۔ شیشے میں اپنا یہ نیا روپ دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہو رہی
تھی اور بے چینی بھی ہوئی ۔ لیکن دِل میں اب یھی سوال بار بار آکے مجھے بے چین کر
دیتا تھا کہ میں کون ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ آخر کون ہوں میں؟
ایسی ہی دن گزرنے لگے اب میرے زخم بھی کافی بھر گئے تھے
اور اب میں چلنے-پھرنے كے قابل ہو گیا تھا ۔ لیکن ایک بات مجھے ہمیشہ پریشان کرتی
وہ تھی میرے سینے پر گولی كے نشان ۔ ۔ زخم بھر گیا تھا لیکن نشان ابھی بھی باقی
تھا میں جب بھی گلبدن یا مہرو سے اس نشان كے بارے میں پوچھتا تو وہ بات گول کر
جاتی اور مجھے اس نشان كے بارے میں کچھ بھی نہیں بتاتی ۔میں بابا سے یہ بات نہیں
پوچھ سکتا تھا کیونکہ عمر كے ساتھ انکی نظر بہت کمزور ہو چکی تھی اس لئے انہیں
دکھائی بھی کم دیتا تھا ۔ میں سارا دن یا تو کھڑکی كے سامنے کھڑا باہر كے نظارے دیکھتا
یا پھر گھر میں دونوں لڑکیوں کو گھر کا کام کرتے دیکھتا رہتا لیکن پھر بھی مہرو
مجھے گھر سے باہر نہیں جانے دیتی تھی ۔ مجھے پرانا کچھ بھی یاد نہیں تھا میری پرانی
زندگی اب بھی میرے لیے اک کورا کاغذ ہی تھی ۔گلبدن اب مجھے دوائی نہیں لگاتی تھی
لیکن مہرو روز مجھے دوائی لگانے آتی تھی اور ایسی ہی بنا کپڑوں كے اوپر کمبل ڈال
کر سلا جاتی ۔ آج دوائی لگاتے ہوئے مہرو بہت خوش تھی اور بار بار مسکرا رہی تھی
اسکی اِس خوشی کا راز پوچھے بنا میں خود کو روک نہیں پایا۔
میں : کیا
بات ہے آج بہت خوش لگ رہی ہو آپ؟
مہرو : جی آج میرے شوہر آ رہے ہے 5 مہینے بَعْد
میں : ارے واہ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔
مہرو : ہاں جی ( نظریں جھکا کر مسکراتے ہوئے ) آپ سے اک
بات کہوں تو آپ برا تو نہیں مانوگے ؟
میں : نہیں بالکل نہیں بولئے کیا کر سکتا ہوں میں آپکے
لیے ؟
مہرو : وہ آج میرے شوہر قاسم آ رہے ہیں تو اگر آپ برا نہ
مانو تو آپ کچھ دن اوپر والی کوٹھری میں رہ لینگے اور ہو سکے تو ان کے سامنے نہ
آنا۔
میں : ( بات میری سمجھ میں نہیں آئی ) کیوں ان کے سامنے
آ جاؤنگا تو کیا ہو جائیگا ؟
مہرو : بس ان کے سامنے مت آنا ۔نہیں تو وہ مجھے اور گلبدن
کو غلط سمجھیں گے اور شک کریں گے اصل میں ویسے تو وہ بہت نیک-دل ہے لیکن ایسے انکی
غیر-حاضری میں ہم نے اک مرد کو رکھا ہے گھر میں تو وہ آپ کے بارے میں غلط بھی سوچ
سکتے ہیں ۔ اس لئے!
میں : کیا آپ نے ان کو میرے بارے میں نہیں بتایا ہوا ؟
مہرو : نہیں میں نے آپ کے بارے میں ان کو کچھ بھی نہیں بتایا
کبھی ۔ مجھے غلط مت سمجھنا لیکن میری بھی مجبوری تھی۔
میں : کوئی بات نہیں ! ! ! ٹھیک ہے جیسا آپ ٹھیک سمجھو۔
مہرو : میں ابھی آپکا بستر کوٹھری میں لگا دیتی ہوں وہاں
میں آپکو كھانا بھی دے جاؤں گی ۔کچھ
چاہئیے ہو تو روشن دان میں سے آواز لگا دینا۔ رسوئی میں اور کسی کمرے میں نہیں۔
یاد رکھنا بھولنا مت ٹھیک ہے ۔
میں : ( میں سر ہاں میں ہلاتے ہوئے ) مہرو جی آپ کے مجھ
پر اتنے احسان ہے اگر آپ نہ ہوتی تو آج شاید میں زندہ بھی نہیں ہوتا اگر میں آپ کے
کچھ کام آ سکوں تو یہ میری خوش قسمتی ھوگی ۔ آپ میری طرف سے بے فکر رہو میری وجہ
سے آپکو کوئی پریشانی نہیں ھوگی۔
مہرو : آپکا بہت-بہت شکریہ آپ نے تو اک پل میں میری اتنی
بَڑی پریشانی آسان کردی۔
پھر وہ
باہر چلی گئی اور میں بس اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا ۔ میں واپس اپنے بیڈ پر لیٹ گیا
تھوڑی دیر میں میرا بستر بھی کوٹھری میں لگ گیا اور میں اوپر کوٹھری میں جاکے لیٹ
گیا ۔ کوٹھری زیادہ بَڑی نہیں تھی پھر بھی میرے لیے کافی تھی میں اس میں آرام سے
لیٹ سکتا تھا اورگھوم پھر بھی سکتا تھا ۔ وہاں میرا بستر بھی بڑے سلیقے سے لگا ہوا
تھا اب میں ایسی جگہ پر تھا جہاں سے مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن میں سارے
گھر میں دیکھ سکتا تھا کیونکہ یہ کوٹھری گھر كے اک دم بیچ میں تھی اور گھر كے ہر
کمرے میں ہوا كے لیے کھلے ہوئے روشن دان سے میں کسی بھی کمرے میں جھانک کر دیکھ
سکتا تھا ۔ آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کی وہ سارے گھر کی اک بند چھت تھی ۔مہرو كے جانے
كے کچھ دیر بَعْد میں نے باری-باری ہر روشن دان کو کھول کر دیکھا اور ہر کمرے کا
جائزا لینے لگا ۔ پہلے روشن دان سے جھانکا تو وہاں بابا اپنی چارپائی پر بیٹھے
ہوئے حقا پی رہے تھے ۔ دوسرے روشن دان سے میں رسوئی میں دیکھ سکتا تھا ۔ تیسرا
کمرا شاید گلبدن کا تھا جہاں وہ بیڈ پر بیٹھی کاغذ پر کسی کی تصویر بنا رہی تھی پینسل سے ۔
چوتھا کمرا میرا تھا جہاں پہلے میں لیٹا ہوا تھا جو اب مہرو صاف کر رہی تھی شاید
یہ مہرو اور قاسم کا تھا اس لئے ۔ کوٹھری كے پیچھے والا روشن دان کھول کر دیکھا تو
وہاں سے مجھے گھر كے باہر کا سب منظر نظر آیا ۔یہاں سے میں ۔کون گھر میں آیا ہے
کون باہر گیا ہے۔ سب کچھ دیکھ سکتا تھا۔
میں ابھی
بستر پر آکے لیٹا ہی تھا اور اپنی ہی سوچو میں گم تھا کہ اچانک اک تانگا گھر كے
باہر آکر رکا اور اس میں سے اک آدمی ہاتھ میں لال اٹیچی لیے اترا ۔ شاید یہ قاسم
تھا جسکے بارے میں مہرو نے مجھے بتایا تھا ۔ دیکھنے میں قاسم کوئی خاص نہیں تھا
چھوٹے سے قد کا اک دبلا پتلا سا آدمی تھا مہرو اسکے مقابلے بہت زیادہ خوبصورت تھی ۔
وہ تانگے سے اترکر گھر میں داخل ہو گیا میں بھی واپس اپنی جگہ پر لیٹ گیا اور میری کب آنکھ لگی مجھے پتہ نہیں چلا
۔
شام کو
اچانک کسی كے چلانے سے میری جاگ کھل گئی میں نے اُٹھ کر دیکھا تو قاسم بہت گندی-گندی
گالیاں دے رہا تھا اور مہرو سے پیسے مانگ رہا تھا ۔ مہرو لگاتار روئے جا رہی تھی
اور اسکو کہیں جانے كے لیے منع کر رہی تھی ۔ لیکن وہ بار بار جانے کی بات کر رہا تھا اور مہرو سے پیسے مانگ
رہا تھا اچانک اس نے مہرو کو تھپڑ مارا اور گالیاں دینے لگا اور کہا کہ اپنی اوقات
میں رہا کر رنڈی میرے معاملوں میں ٹانگ اڑائی تو اٹھا کے گھر سے باہر پھینک دونگا۔
5 مہینے میں سالی کی بہت زبان چلنے لگی ہے ۔ تجھے تو آکرٹھیک کرونگا ۔ اور قاسم تیز
قدموں
كے ساتھ گھر كے باہر نکل گیا ۔ مہرو وہی بیڈ پر بیٹھی روو رہی تھی ۔ یہ دیکھ کر
مجھے بہت برا لگا لیکن میں مجبور تھا مہرو نے ہی مجھے گھر كے نیچے آنے سے منع کیا
تھا اس لئے میں بس اسکو روتے ہوئے دیکھتا رہا اور قاسم كے بارے میں سوچنے لگا ۔
مہرو
ہمیشہ میرے سامنے قاسم کی تعریف کرتی تھی اور اس نے مجھے قاسم اک نیک-دل انسان
بتایا تھا اسکے اِس طرح كے برتاؤنے یہ صاف کر دیا کہ مہرو نے مجھ سےقاسم كے بارے
میں جھوٹ بولا تھا ۔ کافی دیر تک مہرو کمرے میں روتی رہی اور میں اسکو دیکھتا رہا۔
رات کو مہرو
میرے لیے كھانا لے کر آئی چہرے پر اپنی
سدا بہار مسکان كے ساتھ ۔ لیکن میں اِس مسکان كے پیچھے کا دَرْد جان گیا تھا اس لئے
شاید مہرو کی حالت پر اداس تھا پھر بھی میں نہیں چاہتا تھا کی اسکو میری وجہ سے
کسی قسم کا دکھ ہو اس لئے اسکو کچھ نہیں کہا ۔ لیکن نہ چاھتے ہوئے بھی میرے منہ سے
یہ سوال نکل گیا
میں : آپ
کے شوہر آ گئے ؟
مہرو : ہاں جی آ گئے تبھی تو آج میں بہت خوش ہوں ۔ (بناوٹی
مسکراہٹ كے ساتھ)
میں : اچھی بات ہے میں تو چاہتا ہوں آپ سب لوگ ہمیشہ ہی
خوش رہو
مہرو : میں آپ کے لیے كھانا لائی ہوں جلدی سے كھانا کھا
لو نہیں تو ٹھنڈا ہو جائیگا
میں : آپ نے کھا لیا
مہرو : ہاں جی میں نے قاسم كے ساتھ ہی کھا لیا تھا
میں : میرا تو آپکو دیکھ کر ہی پیٹ بھر گیا اب اِس کھانے
کی ضرورت مجھے بھی نہیں
مہرو : ( چونکتے ہوئے ) کیا مطلب ؟
میں : آپ نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا تھا قاسم كے بارے میں
۔ معاف کرنا لیکن میں نے آپ کے کمرے میں جھانک لیا تھا۔
مہرو یہ
سن کر خاموش ہو گئی اور منہ نیچے کرکے اچانک روو پڑی ۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ
اسکو چُپ کیسے کرواو ٔں ۔اس لئے پاس پڑا پانی کا گلاس اسکے آگے کر دیا ۔ کچھ دیر
رونے كے بَعْد مہرو چُپ ہو گئی اور پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑ لیا۔
میں : جب
آپکو پتہ تھا کی قاسم ایسا گھٹیا انسان ہے تو آپ نے اس سے شادی ہی کیوں کی ؟
مہرو : ہر چیز پر ہمارا زور نہیں ہوتا مجھے جو ملا ہے وہ
میرا نصیب ہے
میں : آپ چاھو تو مجھ سے اپنی دِل کی بات کر سکتی ہے آپ
کے دِل کا بوجھ ہلکا ہو جائیگا
مہرو : ( نظریں جھکا کر کچھ سوچتے ہوئے ) اِس دِل کا
بوجھ شاید کبھی ہلکا نہیں ھوگا ۔ شادی كے شروع میں قاسم ٹھیک تھا پھر اسکی دوستی
گاؤں كے چارپانچ کھیتوں میں کام کرنے والے لوگوں سے ہوئی ان کے ساتھ رہ
کر یہ روز شراب پینے لگا جوا کھیلنے لگا اس کے گھٹیا دوستو نے قاسم کو کوٹھے پر
بھی لے جانا شروع کر دیا ۔ قاسم رات-رات بھر گھر نہیں آتا تھا ۔ لیکن میں سب کچھ
چپ چاپ سہتی رہی کہتی بھی تو کس کو مجھے یتیم کا تھا بھی کون جو میری مدد کرتا ۔
وقت كے ساتھ ساتھ قاسم اور برا ہوتا گیا اور وہ روز شراب پی کر گھر آتا اور کوٹھے
پر جانے كے لیے مجھ سے پیسے مانگتا ۔ ہم جو کھیتی کرکے تھوڑا بہت پیسہ کماتے ہیں
وہ بھی چھین کر لے جاتا ۔ اک دن قاسم نے مجھ سے کہا کہ میں اسکے دوستوں كے ساتھ رات گزاروں جب میں نے منع کیا تو قاسم
نے مجھے بہت مارا اور گھر چھوڑ کر چلا گیا ۔ کچھ دن بَعْد قاسم نے چوہدری كے گودام
سے اپنے دوستو كے ساتھ مل کر اناج کی کچھ بوریا چرائی اور بیچ دیں اپنے رنڈی بازی كے شوق كے لیے ۔ صبح پولیس اسکو
اور اس کے دوستو کو پکڑ کر لے گئی اور اسکو 5 ماہ کی سزا ہو گئی ۔ اب یہ باہر آیا
ہے جیل سے تو اب بھی ویسا ہے میں نے سوچا تھا شاید جیل میں یہ سدھر جائیگا لیکن
نہیں میری تو قسمت ہی خراب ہے ( اور مہرو پھر سے رونے لگ گئی)
میں : ( مہرو كے کندھے پر ہاتھ رکھا کر ) فکر مت کرو سب
ٹھیک ہو جائیگا ۔ اگر میں آپ کے کسی بھی کام آ سکوں تو میری خوش-قسمتی سمجھونگا۔
مہرو : ( میرے کندھے پر اپنے گال سہلا کر ) آپ نے کہہ
دیا میرے لیے اتنا ہی کافی ہے
میں : پہلے جو ہو گیا وہ ہو گیا لیکن اب خود کو اکیلا مت
سمجھنا میں آپ کے ساتھ ہوں
مہرو : کب تک ساتھ ہو آپ ۔ ۔ تب تک ہی نا جب تک آپکی یادداشت نہیں آتی
اسکے بَعْد ؟
میں : ( کچھ سوچتے ہوئے ) اگر یہاں سے جانا بھی پڑا تو
بھی جب بھی آپ لوگوں کو میری ضرورت ھوگی میں آؤنگا یہ میرا وعدہ ہے۔
مہرو : ( حیرانی سے مجھے دیکھتے ہوئے ) چلو اِس دُنیا
میں کوئی تو ہے جو میرا بھی سوچتا ہے ۔ ( مسکراتے ہوئے ) شکریہ۔
اسکے
بَعْد کوٹھری میں خاموشی چھا گئی اور جب تک میں كھانا کھاتا رہا مہرو مجھے دیکھتی
رہی ۔ پھر وہ بھی مجھے دوائی لگاکے نیچے چلی گئی ۔ آج بھی میں صرف اک کمبل میں پڑا
تھا اندر جسم ننگا تھا میرا ۔ میں اب نیچے مہرو کو بستر پر اکیلے لیٹا ہوا دیکھ
رہا تھا ۔ شاید قاسم آج بھی گھر نہیں آیا تھا اِس بار جو مہرو نے قاسم كے بارے میں
بتایا تھا وہ درست تھا ۔ مہرو ابھی بھی جاگ رہی تھی اور بار بار روشن دان کی طرف
دیکھ رہی تھی شاید وہ کچھ سوچ رہی تھی لیکن اسے نہیں پتہ تھا کی میں بھی اسکو دیکھ
رہا ہوں ۔ ایسے ہی کافی دیر تک میں اسے دیکھتا رہا پھر مجھے نیند آنے لگ گئی اور
میں سونے كے لیے واپس اپنے بستر پر لیٹ گیا کچھ ہی دیر میں مجھے نیند آ گئی۔
رات کو جب
میں گہری نیند میں سو رہا تھا ۔ اچانک کسی کے دھیرے سے کوٹھری کا دروازہ کھولنے سے
میری جاگ کھل گئی ۔ لالٹین بند تھی اس لئے میں اندھیرا ہونے كے کارن یہ دیکھ نہیں
سکتا تھا کہ یہ کون ہے؟ اس سے پہلے کہ میں پوچھ پاتا اس انسان نے میرے پیر کو
دھیرے سے ہلایا ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ کون ہے اور اِس وقت یہاں کیا کر
رہا ہے ۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ اِس وقت یہاں کیا کرنے آیا ہے اس لئے
خاموش لیٹا رہا ۔ پھر مجھے میری ٹانگوں پر
اس انسان كے لمبے بال محسوس ہوئے ۔ اس سے مجھے اتنا تو پتہ چل ہی گیا تھا کہ یہ کوئی
لڑکی ہے ۔ یہ یا تو مہرو تھی یا پھر گلبدن۔ کیونکہ اِس وقت گھر میں یہی 2 لڑکیاں
موجود تھی ۔ مگر میرے دِل میں ابھی یہ سوال تھا کی یہ یہاں اِس وقت کیا کرنے آئی
ہے ۔ میں ابھی اپنی ہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک وہ لڑکی میرے ساتھ آکر لیٹ گئی
اور میرے گالوں کو سہلانے لگی ۔ اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا
تھا ۔پھر اچانک وہ ہاتھ میرے گالوں سے رینگتا ہوا میری چھاتی پر آ گیا اور میری
چھاتی كے بالوں کو سہلانے لگا ۔پھر ہاتھ نیچے کی طرف جانے لگا میں نے ہاتھ کو پکڑ
لیا تو شاید اس لڑکی کو یہ احساس ہو گیا کہ میں جاگ رہا ہوں اس لئے کچھ دیر كے لیے
وہ رک گئی اور اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ۔ میں نے دھیرے سے پوچھا کہ کون ہو تم
اور اِس وقت کیا کر رہی ہو ۔؟ہاتھ پھر سے میرے سینے سے ہوتا ہوا میرے ہونٹوں پر آیا اور اک انگلی میرے ہونٹوں پر آکے رک گئی
جیسے وہ مجھے چُپ رہنے کا اشارہ کر رہی ہو ۔ میری ابھی بھی کچھ سمجھ میں نہیں آ
رہا تھا کہ وہ لڑکی جو ابھی میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی دھیرے سے اس نے کمبل اک طرف
سے اٹھایا اور کھسک کر کمبل میں میرے ساتھ آ گئی اسکے اِس طرح مجھ سے چپکنے سے اور
اسکے گرم بدن كے احساس سے میرے بدن میں بھی حرکت ہونے لگی اور میرے سوئے ہوئے لن
میں جان آنے لگی یہ اک عجیب سا مزہ تھا جو میں نا تو سمجھ پا رہا تھا نا ہی کچھ
بول پا رہا تھا ۔ پھر اسکی اک ٹانگ میری ٹانگوں کو سہلانے لگی اور اس لڑکی کا ہاتھ
میرے گلے سے ہوتا ہوا چھاتی اور پیٹ پر
گھومنے لگا پھر اچانک وہ لڑکی میرے اوپر آ گئی اور میرے گالوں کو دھیرے دھیرے
چومنا شروع کر دیا ۔
مزے سے میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں اس لڑکی كے ہونٹوں
کا گرم احساس میرے لیے بے حد مزیدار تھا اسکے ہونٹ میری گردن اور گالوں کو چوس اور
چوم رہے تھے ۔ میرا لن لوہے جیسا کڑک ہو گیا تھا ۔ میں مزے كی وادیوں میں کھو رہا
تھا کہ اچانک اک میٹھی سی لیکن بے حد دھیمی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔ تم مجھے
پہلے کیوں نہیں ملے ماجھی؟ میں جانے کب سے پیاسی ہوں میری پیاس بجھا دو ۔ آج مجھے
خود پر قابو نہیں ہے ۔ اک آگ جل رہی ہے مجھے سکون چاہیے مجھے آج پیار چاہئے ۔
میں بس اتنا ہی کہہ پایا کہ کیا کروں میں ؟۔
اس لڑکی نے میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور دھیرے سے اپنے نچلے ہونٹ سے
میرے دونوں ہونٹوں کو چھو لیا اور کہا پیار کرو مجھے۔ تم نے کہا تھا نا کہ جب بھی
مجھے تمہاری ضرورت ھوگی میری مدد کروگے تو آج مجھے تمہاری سب سے زیادہ ضرورت ہے
میں جل رہی ہوں میرے اندر کی آگ کو بجھا دو ۔ یہ بات میرے لیے کسی جھٹکے سے کم
نہیں تھی کیونکہ یہ بات میں نے مہرو کو کہی تھی ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بول پاتا اُس
نے اپنے گرم ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر انہیں چوم لیا اور میرے سوکھے ہوئے ہونٹوں
پر اپنی رسیلی زبان سے انہیں گیلا کرنا شروع کر دیا ۔ میں نے بھی اپنے دونوں ہاتھ
اسکے کمر كے گرد-باندھ لیے اور اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اپنے تپتے ہونٹ اسکے ہونٹوں
سے ملا دیئے جسے مہرو نے چُومتے ہوئے دھیرے دھیرے چُوسنا شروع کر دیا۔
کچھ ہی دیر میں ہم دونوں اک دوسرے كے ہونٹوں کو بری طرح
چوس اور چاٹ رہے تھے وہ میرے ہونٹوں کو بری طرح چوس رہی تھی اور ان کو کاٹ رہی تھی
کبھی وہ میرا نچلا ہونٹ چوستی اور کاٹ لیتی کبھی اوپر والا ہونٹ چوستی پھر کاٹ
لیتی ۔ ہم جس مزے کی دُنیا میں تھے اس میں نہ اسے کوئی ہوش تھا نا ہی مجھے ہم بس
دونوں ہی اک دوسرے میں سما جانا چاھتے تھے ۔ میرے دونوں ہاتھ اسکی پیٹھ کی ریڑھ کی
ھڈی کو سہلا رہے تھے اور اسکی گانڈ لگاتار میرے لن کو مسل رہی تھی ۔ اچانک اس نے
میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی چھاتی پر رکھ دیئے اور میرے ہاتھوں کو اپنی چھاتی پر
دبانے لگی میں نے بھی اسکے ٹھوس اور بڑے مموں کو تھام لیا اور انہیں زور سے دبانے
لگا جس سے اسکے منہ سے اک سسیی کی آواز ہی نکل سکی اور وہ پھر میرے ہونٹوں کو
چُوسنے لگ گئی میرا ہاتھ بار بار اسکی چھاتی سے رینگتا ہوا اسکی کمر تک جاتا اور پھر
اسکے موٹے مموں کو تھام لیتا اچانک وہ رک گئی اور لگ بھگ میرے لن پر اپنی بَڑی
گانڈ رکھ کر بیٹھ گئی اور اپنی قمیض اور برا کو ایک ساتھ اوپر کر دیا اور پھر میری
چھاتی كے اوپر لیٹ گئی اسکے نازک اور گرم ممے جو ہر طرح سے بے-پردہ میری چھاتی سے
چپکے ہوئے تھے انہوں نے مجھے اک عجیب سا مزہ دیا اب میں اسکے ننگے مموں کو دبا رہا
تھا اور اسکی ننگی کمر کو سہلا رہا تھا اسکے نپل انگور کی طرح سخت ہو چکے تھے
جنہیں جب میں نے پکڑا تو اک آہہ اسکے منہ سے نکل گئی اور اس نے میرے کان كے پاس منہ
لاکر کہا کہ " انہیں چوسو ماجھی اب رہا نہیں جا رہا " میں نے تھوڑا نیچے
سرک کر اسکے اک ممے کو تھام لیا اور اندازے سے اسکے ممے کا جائزا لینے لگا وہ کافی
بڑے تھے لیکن اسکے نپل چھوٹے مگر بہت سخت ہو گئے تھے ۔ اسکے مما میرے اک ہاتھ میں
پُورا نہیں آ رہا تھا اچانک اس نے میرے سر كے بال پکڑ کر میرے منہ کو اپنے ممے پر زور
سے دبا دیا اور میں نے اپنا منہ کھول کر اسکے نپل کو اپنے منہ میں جانے کا رستہ دے
دیا میں کسی چھوٹے بچے کی طرح اسکے نپل کو چوس رہا تھا اور کاٹ رہا تھا وہ لگاتار منہ
سے عجیب سے آوازیں نکال رہی تھی ۔ اچانک اس نے اپنی قمیض اور برا دونوں اک ساتھ
پوری طرح سے اُتار دی لیکن شلوار ابھی بھی اس نے پہنی ہوئی تھی ۔ میں لگاتار زور
زور سے اسکے نپل کو چوس اور کاٹ رہا تھا اور میرے ہاتھ اسکی گانڈ کی دونوں پہاڑیوں
کو بار بار دبا رہے تھے اسکا بدن بے حد نازک اور ملائم تھا چُدوانے كے لیے
TO BUY COMPLETE NOVEL
PRESS WHATS AP BUTTON ON SCREEN