چھوٹا بچہ
میرا نام سکندر ہےمیں ایک چھوٹی سی مگر کافی بزنس کرنے والی کمپنی کا مالک ہوں میری عمر اسوقت تقریباً چالیس سال کے قریب تھی جب یہ واقعہ ہوا۔ایک دن میرے شہر کے حالات کافی خراب ہوئے اور اچانک ہی کافی خراب ہو گئے میں نے بھی اپنے اسٹاف کی چھٹی کی اور آفس بند کرکے گھر کی جانب چل پڑا میرے پاس ایک کار ہے ۔ میرا گھر ڈیفینس میں ہے۔ میرا گھر چار سو گز پر ہے اچھا خاصہ محل ہے۔ میں اس میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ میری بیوی ایک ہفتہ پہلے امریکہ گئی تھی اپنے والدین سے ملنے اور بچے بھی اسکے ساتھ ہی تھے مجھے بھی کچھ دن میں جانا تھا ۔ مگر کمپنی کے کاموں کی وجہ سے میرا جانا اور لیٹ ہو رہا تھا۔ میری بیوی کافی سیکسی ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ہم سیکس نہ کرتے ہوں اب ایک ہفتہ سے مجھے خوارک نہیں ملی تھی تو میں بھوکا شیر بنا ہوا تھا میں دوسری لڑکیوں میں بھی منہ نہیں مارتا تھا کیونکہ میں اپنی بیوی تک محدود رہنا چاہتا تھا۔ مگر اس دن مجھ پر شیطان سوار ہو گیا۔
خیر میں آپ کو بتا رہا تھا کہ اس دن حالات کی خرابی کی وجہ سے میں نے آفس بند کر کے گھر کی راہ لی ابھی میں آفس سے تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ مجھے ایک لڑکے نے اشارہ کیا میں نے اسکے نزدیک کار روکی وہ کافی پریشان لگ رہا تھا وہ اسکول کے یونیفارم میں ملبوس تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں جاؤگے تو اس نے جو جگہ بتائی وہ میرے گھر سے مزید آگے تھی میں نے اس سے کہا میں ڈیفنس تک جاؤنگا وہاں تک تم کو لفٹ دے سکتا ہوں وہ تیار ہوگیا اور دروازہ کھول کر میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا میں نے اسکا جائزہ لیا تو وہ سرخ سفید اچھا خاصہ خوبصورت اور چکنا لڑکا تھا ابھی اسکی مونچھیں بھی نہیں نکلی تھیں۔ اسکی عمر تقریبا بارہ یا تیرہ سال ہوگی۔ وہ ساتویں کلاس میں بڑھتا تھا اور ساری تفصیل میں نے اس سے راستے میں پتہ کی تھی۔
ابھی ہم لوگ تھوڑی دور گئے تھے کہ روڈ پر میری نظر جلتی ہوئی گاڑیوں پر پڑی میں نے اپنی کار فوراً ایک محفوظ راستے کی جانب موڑدی۔ پھر میں نے اس سے کہا تم ایسا کرو میرے ساتھ میرے گھر تک چلو جب حالات کچھ بہتر ہو جائیں تو تم اپنے گھر چلے جانا جہاں تک ہو سکا میں تم کو چھوڑ دونگا اس نے کہا نہیں آپ بس جہاں تک جائیں مجھے وہاں اتار دیں میں چلا جاؤنگا میرے گھر والے پریشان ہو رہے ہونگے۔ میں نے کہا تم انکو میرے گھر سے فون کر کے بتا دینا کہ راستے خراب ہیں ابھی نہیں آسکو گے اور کسی دوست کے گھر پر ہوپھر وہ پریشان نہیں ہونگے ۔ میری بات سن کر وہ کچھ مطمئن ہوا۔
میں دل ہی دل میں اسکے ساتھ سیکس کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح اسکو گھر تک لے جاؤں۔ راستے میں وہ مجھ سے میرے کاروبار کے متعلق پوچھتا رہا ۔ اور میں اسکو غلط معلومات دیتا رہا۔ تاکہ مجھے بعد میں پریشانی نہ ہو اور وہ مجھے ڈھونڈتا ہی رہے میں اسکو اپنے گھر بھی لے کر گیا تو ایسے راستوں سے کہ وہ زندگی بھر بھی ڈھونڈتا تو نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ خیر میں اسکو لے کر گھر تک پہنچا وہاں چوکیدار نے دروازہ کھولا وہ اس لڑکے کو نہ دیکھ سکا ۔ کیونکہ میری گاڑی کے گلاس کافی ڈارک تھے اور چوکیدار بھی کافی بوڑھا اسکی دور کی نظر بھی اتنی اچھی نہیں تھی وہ میری کار کا ہارن پہچانتا تھا سو اس نے دروازہ کھول دیا۔ میں کار سیدھا اندر لے گیا اور بیک مرر میں دیکھا تو چوکیدار دروازہ بند کر کے اپنے کوارٹر میں جا چکا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا اور کار سے باہر نکلا اور پھر لڑکے سے کہا تم بھی باہر نکلو اور اندر چلو میرے ساتھ ۔ وہ کار سے نکلا میں اسکو بغور دیکھتا رہا کہ کہیں وہ میری کار کا نمبر تو نہیں دیکھ رہا مگر وہ واقعی ان باتوں سے بے خبر تھا کہ اسکے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔
میں مین دروازہ کھول کر اسکو اندر لے گیا۔ میرے پاس چوکیدار کے علاوہ کوئی اور ملازم نہیں تھا۔ میری بیوی سارے کام خود کرتی تھی۔خیر ہم دونوں چلتے ہوئے ڈرائنگ روم میں پہنچے میں نے اس سے کہا آرام سے بیٹھو اور پریشان نہ ہو اور اپنے گھر فون کر کے بتا دو کہ تم دوست کے گھر پر ہو اور بالکل محفوظ ہو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور فون کر کے اپنے گھروالوں کو مطمئن کردیا۔ پھر میں نے اس سے پوچھا تم کو بھوک تو لگی ہو گی چلو کچھ کھا لیتے ہیں، میں نے فریج سے اسکے اور اپنے لیے سینڈوچ نکالے اور مائیکرو ویو میں گرم کر کے اسکے آگے بھی رکھے اور خود بھی کھانے لگا۔ پھر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میں نے اس سے کہا تم کو سوئمنگ کا شوق ہے۔ اس نے کہا مجھے سوئمنگ تو نہیں آتی مگر میں جب بھی سمندر پر جاتا ہوں نہاتا ضرور ہوں، میں نے اس سے کہا میرے گھر میں ایک سوئمنگ پول ہے چھوٹا سا جس میں میرے بچے بھی میرے ساتھ سوئمنگ کرتے ہیں اور میں تو روزانہ کرتا ہوں ابھی بھی میرا موڈ ہے سوئمنگ کرنے کا اگر تم کو بھی کرنی ہے تو چلو میرے ساتھ۔یہ کہہ کر میں تو کھڑا ہوا مگر وہ بھی میرے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ اس کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے اس نے پوچھا پانی زیادہ گہرا تو نہیں ہے میں نے جواب دیا اگر گہرا ہوتا تو میرے چھوٹے چھوٹے بچے کیسے نہاتے اس میں۔
پھر میں اسکو لے کر سوئمنگ ایریا کی جانب چل پڑا جو کہ میرے گھر کی پچھلی طرف تھا۔ وہاں پہنچ کر میں نے اس سے کہا تم کپڑے تبدیل کر لو پھر پول میں چلتے ہیں۔ اس نے کہا میرے پاس کپڑے تو نہیں ہیں میں نے کہا فکر نہ کرو میں دیتا ہوں تمہیں کپڑے میں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اسکو ایسی انڈروئیر دی جو اسکے لازماً ڈھیلی رہنی تھی۔ میں نے کہا جاؤ چینجنگ روم میں اور یہ پہن کر آجاؤ پھر اترتے ہیں پانی میں ۔ وہ تھوڑا شرماتا ہوا چلا گیا۔ میں دل ہی دل میں خوش بھی ہو رہا تھا اور ڈر بھی رہا تھا کہ اگر اس بچے کو کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا۔ خیر اسکے چیخنے چلانے کی فکر نہیں تھی مجھے کیونکہ میرا پول ایریا پورا کورڈ تھا۔ باہر سے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ذرا دیر بعد وہ انڈرویئر پہنے آگیا اب میں نے اس سے کہا چلو میں بھی کپڑے تبدیل کر لوں پھر آتا ہوں یہ کہہ کر میں اب چینجنگ روم میں گیا اور ایک ایسی انڈرویئر پہنی جو بالکل باریک اور نیچے سے کافی ڈھیلی تھی۔
یہ پہن کر میں واپس اسکے پاس آیا۔ اور اسکا ہاتھ پکڑا جو کہ بالکل کسی کنواری لڑکی کی طرح نرم مگر گوشت سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے اس سے کہا چلو میرا پاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترو اور پانی میں چلو یہ کہتےہوئے میں نے اسکو پانی میں اتار دیا وہ پانی میں جاتے ہیں زور زور سے سانس لینے لگا مگر ذرا دیر میں نارمل ہوگیا۔ اب اسکو اچھا لگ رہا تھا میں اسکے سامنے ادھر سے ادھر تیرتا پھر رہا تھا میں نے اس سے کہا چلو تم بھی تیرو اس نے کہا مجھے نہیں آتا میں نے کہا چلو میں تم کو تیرنا سکھا تا ہوں۔ یہ کہہ کر میں نے اس کے پاس جا کر اسکے کولہوں پر ہاتھ رکھا پہلی بار احساس ہوا کہ اسکے کولہے ایکدم گول اور کسی تربوز کی طرح بڑے تھے مگر نرم ایسے جیسے روئی کے گالے۔
خیر اب تو میرا موڈ بالکل پکا ہو چکا تھا کہ اب اسکو نہیں چھوڑنا ہے اسکی انڈروئیر بار بار اترے جارہی تھی جس کو وہ اپنے ہاتھوں سے بار بار اوپر کرتا تھا اس طرح وہ کبھی بھی نہیں تیر سکتا تھا۔ اور یہ ہی میں چاہتا تھا میں نے اس سے کہا تم اپنا پورا وزن میرے ہاتھوں پر ڈال کرچھوڑ دو اور جیسے میں کہوں ویسے ہاتھ چلاتے رہو۔ اس نے ایسا ہی کیا اسی پریکٹس کے دوران اسکی انڈرویئر اتر کر اسکے گھٹنوں تک آگئی۔ اس نے مجھ سے کہا انکل میری انڈرویئر اتر رہی ہے میں نے کہا اترنے دو کوئی فرق نہیں پڑتا تم پانی میں ہو۔ اور یہاں ہے ہی کون میرے اور تمہارے سوا یہ کہہ کر میں نے بھی ایک ہاتھ سے اپنا انڈروئیر پانی کے اندر ہی اتار دیا۔ پھر میں نے اسکے کولہوں پر ہاتھ لگایا تو وہ ایکدم چونک کر مجھے دیکھنے لگا میں نے اسکی جانب دیکھ کر مسکرایا۔ وہ میری مسکراہٹ کو نہ سمجھ سکا اور جواب میں تھوڑا سا وہ بھی مسکرا دیا۔
اب شاید وہ کچھ کچھ سمجھ رہا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے ۔ پھر میں نے اسکے چھوٹے سے لنڈ کو چھوا تو وہ تقریباً اچھل ہی پڑا ۔ وہ ہراساں ہو کر مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے کہا گھبراؤ نہیں کچھ نہیں ہوتا۔ پھر میں نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسکو اپنے لنڈ پر لگایا جو کہ کسی راکٹ کی طرح تنا ہوا تھا وہ پہلے تو کچھ نہ سمجھا کہ یہ کیا ہے ایکدم اسکو ہاتھ میں لے لیا پھر جیسے ہی سمجھا اس نے فوراً اسکو چھوڑا اور مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے کہا چلو کنارے کی طرف چلتے ہیں یہ کہہ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر میں اسکو کنارے کی جانب لے آیا میرے لیے یہ سوئمنگ پول کافی چھوٹا تھا۔ میں تو اس نے چل رہا تھا مگر اسکے لیے یہ کافی تھا۔ سو وہ کافی احتیاط سے تیرتا ہوا میرے سہارے پر کنارے تک آیا میں مسلسل اسکے کولہوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا۔جسکو وہ بھی محسوس کر رہا تھا۔خیر اب وہ میرے سہارے کے بغیر سوئمنگ پول سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ کیونکہ اسکی اونچائی کافی زیادہ تھی اور وہ پانی میں رہتے ہوئے اس پر سے جمپ نہیں کرسکتا تھا اور ہم اس کنارے پر تھے جہاں سیڑھیاں نہیں تھیں پانی اسکی گردن تک آرہا تھا۔
میں نے اس سے کہا تم دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوجاؤ۔ اس نے پوچھا کیوں ؟ میں نے جواب دیا کرو تو صحیح پھر بتاتا ہوں اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے میری بات کی تعمیل کی۔ وہ جیسے ہی ادھر کی جانب مڑا میں نے اپنا لنڈ اسکے کولہوں کے بیچ میں پھنسا دیا وہ سمجھ گیا کہ اب کیا ہونے والا ہے کہنے لگا انکل یہ کیا کر رہے ہیں میں نے کہا کچھ نہیں یار۔ بس مذاق کر رہا ہوں تمہارا کیا جاتا ہے اس میں۔ وہ میری بات سن کر خاموش ہوگیا۔ میں پییچھے ہٹا اور اس سے کہا دیکھو گے میرا لنڈ کیسا ہے۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور عجیب سے نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں سمجھ گیا یہ اتنی آرام سے نہیں تیار ہوگا اسکے ساتھ زبردستی کرنی ہوگی۔ پھر میں نے اس سے کہا چلو پول سے باہر چلتے ہیں۔ یہ کہہ کر ایک ہاتھ سے اسکا ہاتھ پکڑا اور دوسرا ہاتھ اسکی گانڈ پر رکھ کر اپنی ایک انگلی اسکی گانڈ میں تھوڑی سی داخل کر دی جس سے اسکو شاید کچھ تکلیف تو ہوئی ہوگی مگر کچھ بولا نہیں اسکو احساس تھا کہ وہ پھنس چکا ہے۔
خیر ہم دونوں چلتے ہوئے سوئمنگ پول سے باہر آئے تو اسکا اور میرا انڈروئیر پول میں ہی تھا۔ پہلی بار اسکی گانڈ دیکھی ایکدم گوری اور گول میں تو دیکھ کر پاگل سا ہوگیا۔ مجھے اس وقت اپنی بیوی شدت سے یاد آنے لگی۔ میں نے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا کہ کہیں بھاگنے کی کوشش کرے۔پھر ہم دونوں پول سے باہر آچکے تھے وہ خوفزدہ نظروں سے میرے تنے ہوئے لنڈ کو دیکھ رہا تھا اور کچھ حیران بھی تھا کیونکہ شاید اس نے پہلی بار کسی مرد کا لنڈ دیکھا تھا۔ میں نے اس سے کہا چلو کچھ دیر یہاں بیٹھو میں ایک کرسی کی جانب اشارہ کیا اور وہ شرماتا ہوا اس کرسی پر بیٹھ گیا میں نے اسکو دیکھا اور کہا مجھے بھی تو جگہ دو تم تو اکیلے ہی بیٹھ گئے ہو یہ کہہ کر میں نے اسکو کھڑا کیا اور پھر خود بیٹھ کر اسکو اپنی گود میں بٹھا لیا میں نے اس سے کہا تھوڑا بدن سوکھ جائے تو پھر کپڑے تبدیل کر کے روم میں چلتے ہیں وہ بالکل خاموش تھا اور میری کسی بات کا جواب نہیں دے رہا تھا میں نے اسکو گود میں بٹھایا اور میرا لنڈ اسکی گانڈ کے سوراخ پر بالکل فٹ ہوگیا اس سے ٹھیک سے بیٹھا نہیں جا رہا تھا وہ با ر بار سیٹ ہونے کی کوشش کر رہا تھا جس سے اسکی گانڈ کے سواد میرے لنڈ کو مل رہا تھا اور میں دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔ پھر میں نے اسکو کھڑا کیا اور خود بھی کھڑا ہوا پھر اس سے کہا کہ چلو کرسی پر لیٹو وہ نہیں سمجھا پھر میں نے اسکو سمجھایا کہ کس طرح اسکو کرسی پر لیٹنا ہے جب وہ لیٹ چکا تو اسکی گانڈ میری جانب تھی اور اسکا منہ کرسی کے اندر اور دونوں ہاتھ کرسی سے باہر یہ وہ مشہور اسٹائل ہے جسکو ڈوگی اسٹائل کہا جاتا ہے۔
میں نےاسکی گانڈ پر لنڈ کو فٹ کیا اور ایک جھٹکا مارا مگر اسکی گانڈ کا منہ اتنا چھوٹا تھا کہ میرا بڑا اور موٹا لنڈ اسکے اندر نہیں جاسکتا تھا میں نے اس سے کہا ایسے ہی رہنا میں ابھی آتا ہوں یہ کہہ کر میں نے باڈی مساج آئل کی بوتل فوراً الماری سے نکالی اور اسکو لے کر واپس اسکے پاس آیا اور اچھی طرح تیل اسکی گانڈ اور اپنے لنڈ پرملا بلکہ یوں کہیں اچھی طرح لتھڑ دیا۔ اب میں نے دوبارہ کوشش کی میرا لنڈ کا ہیڈ اسکی گانڈ کے سوراخ میں گیا تو وہ چیخنے لگا کہ تکلیف ہو رہی ہے ایسا نہ کریں مگر میں کب باز نے والا تھا۔ مگر میں نے اتنا ضرور کیا کہ تھوڑا انتظار کیا تب تک میں اسکی چکنی رانیں اور بدن سہلاتا رہا۔ جس سے وہ اپنا درد بھول کر گرم اور مست ہونے لگا۔ پھر میں نے دوبارہ سے لنڈ پر زور لگایا تو وہ تھوڑا اور اندر گیا مگر پھر ایک بار وہ چیخنے لگا پھر میں نے لنڈ کو باہر تو نہیں نکالا مگر رک ضرور گیا۔
میں چاہتا تھا وہ بھی اس سیکس کو انجوئے کرے تاکہ بھرپور مزہ حاصل کیا جاسکے۔ اب میں نے اس سے پوچھا کبھی ایسا کیا ہے کسی کے ساتھ اس نے ہاں میں جواب دیا میں حیران ہوا اور پوچھا کس کے ساتھ تو اس نے بتایا جب وہ دس سال کا تھا تب اسکے ایک دوست کے بڑے بھائی نے اسکے ساتھ ایسا کیا تھا ۔ میں خوش ہو گیا کیونکہ اسی وجہ سے وہ اب تک کچھ بول نہیں رہا تھا ورنہ میرا اندازہ تھا اسکو شور مچا دینا چاہیئے تھا۔ شاید اس لڑکے نے جب اسکے ساتھ کیا ہو تب اندر نہ ڈالا ہو کیونکہ اسکی عمر کافی کم تھی اس وقت تو اسکو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ اور اوپر اوپر سے ہی مزے لے کر چھوڑ دیا ہو تو اسی وجہ سے شاید وہ اب بھی یہ ہی سمجھ رہا تھا مگر اسکو کیا پتہ تھا کہ اسکی گانڈ سوجنے والی ہے۔
اب میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا میں نے ایک بار پھر سے زور لگایا تو میرا لنڈ دندناتا ہوا اسکی گانڈ میں آدھے سے زیادہ گھس گیا اور وہ درد سے بلبلانے لگا مگر میں اب رکنے والا نہیں تھا کیونکہ اسکی گانڈ اتنی گرم اور سیکسی تھی میرا دل نہیں کر رہا تھا کہ اپنا لنڈ اسکی گانڈ سے نکالوں میں نے دوبارہ سے زور لگایا اور تیل کے مساج نے اپنا کام دیکھایا اور میرا لنڈ پورا اسکی گانڈ میں تھا اسکی آنکھیں تکلیف سی سرخ ہو رہی تھی اور چہرہ بھی مجھے ایک لمحے کو اسپر ترس تو آیا مگر پھر شیطان نے میرے دماغ پر قبضہ کیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب جب تک منی سے اسکی گانڈ نہ بھر دوں اپنا لنڈ نہیں نکالوں گا۔ پھر میں نے اسکو تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں ابھی تکلیف ختم ہو جائے گی پھر تم کو مزہ آئے گا۔ وہ میری بات پر یقین کرنے لگا اور ذرا دیر بعد ہی اسکے چہرے پر سکون کے آثار نمایاں ہوئے تو میں بھی پرسکون ہوا کیونکہ میں ڈر چکا تھا کہ اگر اسکی گانڈ پھٹ گئی تو اسکو لے کر بھاگنا پڑے گا ہسپتال اور ایک نیا ڈرامہ بن جائے گا۔
خیر وہ جیسے ہی نارمل ہوا میں نے پوچھا اب تو تکلیف نہیں ہے اس نے کہا نہیں بس پھر کیا تھا میں نے تیل کی بوتل ہاتھ میں رکھی اور لنڈ کو اندر باہر کرنا شروع کیا اور جیسے ہی لنڈ کو اندر کرتا اس سے پہلے اس پر تھوڑا سا تیل ٹپکا دیتا ذرا دیر میں ہی میرا پسٹن رواں ہو چکا تھا اور اسکی گانڈ کی مزے سے سیر کر رہا تھا وہ بھی اب پرسکون تھا مگر میں دیکھ رہا تھا کہ اسکی گانڈ سے کچھ خون نکلا ہے جو کہ پول کے فرش پر پھیلا ہوا تھا مگر میں نے سوچا جو ہوگا دیکھا جائے گا اب تو کردیا جو کرنا تھا۔ پھر میں نے اپنے پسٹن کی رفتار میں اضافہ کرنا شروع کیا اس لڑکے کی سانس کافی تیز چل رہی تھی میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا اسکا لنڈ بھی کھڑا تھا مگر اس میں وہ جان نہیں تھی ابھی جو کہ ایک مرد کے لنڈ میں ہونی چاہئے۔
میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنی رفتار بڑھاتا رہا اور وہ وقت بھی آگیا جب مجھے اپنی منی سے اسکی گانڈ بھرنا تھا۔ میں نے اپنا لنڈ اسکی گانڈ میں ہی رکھا اور اس سے کہا آہستہ سے فرش پر لیٹو وہ ہاتھوں کے بل پر پہلے زمین پر لیٹا پھر پیٹ کے بل پر لیٹ گیا۔ شاید اسکو اندازہ تھا کہ میں چاہتا ہوں میرا لنڈ اسکی گانڈ سے نہ نکلے۔ جیسے ہی وہ لیٹا میں اسکے اوپر لیٹا مگر پورا وزن اسپر نہیں ڈالا صرف اسکی چکنی گانڈ کو دبایا اور پوری طاقت سے لنڈ اسکی گانڈ میں گھسیڑ دیا اور اندر ہی رکھ کر صرف جسم زور زور سے ہلانے لگا اس طرح کرنے سے میرا لنڈ اس مقام پر آگیا جہاں اس کو اپنا لاوا اگلنا تھا۔ اور اس نے گرم گرم منی اگلنا شروع کی تو اس لڑکے کا ایکدم سانس رکا مگر پھر سے وہ سانس لینے لگا اور عجیب حیران اور ہراساں تھا کہ یہ کیا گرم گرم اسکے جسم میں داخل ہو رہا ہے ۔
بالاخر میرا لنڈ جو کہ ایک ہفتہ سے خالی نہیں ہوا تھا آج اسکی گانڈ میں خالی ہوا جو کہ میری پوری منی کو قبول کرنے کے قابل بھی نہیں تھی۔ پھر میرا لنڈ ڈھیلا ہونا شروع ہوا اور میں نے اسکو آہستہ سے باہر نکال لیا۔ اور اسکے گالوں پر کس کی اتنی نرم ملائم گال تھے اسکے اس لڑکے نے مجھے بہت مزہ دیا تھا۔ میں نے اس کو گود میں اٹھایا اور پول ایریا میں بنے باتھ روم میں لے گیا میں نے اپنا لنڈ دیکھا وہ اسکے خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ میں نے شاور کھول کر پہلے اپنا لنڈ دھویا اسکے بعد اسکی گانڈ کو اچھی طرح سے دھو کر اس پر مساج بھی کیا تاکہ اسکی تکلیف کم ہو جائے۔ پھر میں اسکو لے کر بیڈ روم میں آیا اور وہاں اسکو جوس پینے کو دیئے اور واپس پول ایریا میں جاکر اسکے کپڑے بھی لایا اور اسکو کہا انکو پہن لے وہ ایسا ہی کر رہا تھا جیسا مین کہہ رہا تھا شاید وہ مجھ سے ڈر چکا تھا میں نے اسکے تھوڑی دیر بعد اس کو اپنی کار میں بٹھایا اور اسکے گھر سے تھوڑا دور اتار دیا
پردے میں رہنے دو
میرے گھر میں نیا چوکیدار آیا تھا۔ لمبا سا سانولے رنگ کا پنجابی لڑکا تھا نام اس کا ساجد تھا اور مجھے وہ بہت سیکسی لگا۔ میں نے سوچ لیا کہ اس پنجابی لڑکے تنخواہ کے ساتھ کچھ بونس بھی دوں گی۔ لیکن پہلے یہ ضروری تھا کہ میں چیک کرلوں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرے گھر میں کسی کو بتادے یا کسی نوکر کو بتادے جو بعد میں میرا بھانڈا پھوڑ دے۔ میرا بیڈ روم پہلے فلور پر ہے اور ہمارے گھر کا واحد بیڈ روم ہے جس کی کھڑکی گھر کے مین گیٹ کی طرف کھلتی ہے باقی سب بیڈ روم دوسری طرف ہیں اور ان کی کھڑکیاں لان میں کھلتی ہیں۔ مین گیٹ کے ایک طرف ایک چھوٹا سا کواٹر ہے جہاں ساجد آرام کرتا تھا۔
میرے ابو اکثر رات کو دیر سے گھر آتے ہیں اسلئیے جب تک ابو نہیں آتے وہ ساجد چوکسی سے گیٹ پر بیٹھا رہتا تھا تاکہ ابو کو زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑے۔اس رات ابو جلدی ہی گھر آگئے تھے مگر لگتا تھا کہ ساجد کو اس کا پتہ نہیں تھا اور وہ ابھی تک گیٹ سے اندر اپنی کوٹھری کے باہر بیٹھا تھا۔ اس نے سیکوریٹی گارڈ والی نیلی یونیفارم پہن رکھی تھی اور کوئی اخبار پڑھ رہا تھا۔ میں نے چپکے سے اسے دیکھا اور اپنے کپڑے اتار دئیے۔ اب میں بالکل ننگی تھی لیکن وہ مجھے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ میں اسے آہستہ آہستہ گرم کرنا چاہتی تھی۔ ننگی ہونے کے بعد میں نے اپنے کمرے میں روشنی کم کردی اب میں کھڑکی کے پاس آکر ٹہلنا شروع ہوگئی۔ میں کھڑکی سے کافی دور ٹہل رہی تھی اور میرا اندازہ یہ تھا کہ ساجد کو یوں لگے جیسے مجھے نہیں معلوم کہ میں اسے نظر آرہی ہوں۔ میں نے چھپ کر دیکھا تو ساجد بے قراری سے کھڑکی کی طرف دیکھ رہا تھا۔اگلے دن میں نے آفس جاتے ہوئے ساجد کو دیکھا اس کی نظریں میرے مموں پر جمی تھیں۔
اس رات میں نے کھڑکی میں اسے ایک ہلکی سی جھلک اور دکھائی۔ ایک دن میں نے اسے اپنے کمرے میں آنے کو کہا اور اسے اپنے واش روم کا نل صحیح کرنے کو کہا۔ واش روم میں میری بریزر اور پینٹی پڑی تھی۔ اسطرح میں اسے تھوڑا تھوڑا دکھاتی رہی۔ایک دن میرے گھر والوں نے تین دن کے لئیے ایک شادی میں لاہور جانا تھا میں آفس کا بہانا کرکے رک گئی۔ صبح صبح میں نے ایک بالکل باریک کپڑے کی قمیض اپنی بریزر پر پہنی اور اس کے پاس جاکر اسے بازار سے کچھ سامان لانے کو کہا۔ اس کی نظریں میری چوچیوں پر جمی ہوئی تھیں۔ میں نے اس سامان سیدھا میرے بیڈروم لے کر آنے کا کہا اور اندر چلی گئی۔ بیڈروم پہنچ کر میں نے اپنی قمیض اور شلوار اتار دی اب مں صرف بریزر پہنی تھی۔ میری چوت گیلی ہونے لگی تھی اور میں نے اپنی انگلیاں چوت پر مسلنے لگی۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی میں نے کہا آجاؤ۔وہ اندر داخل ہوا اور مجھے بیڈ پر ننگا لیٹے دیکھ کر وہ رک گیا۔ میں بیڈ پر ننگی لیٹی تھی اور ٹانگیں اوپر اٹھا رکھی تھیں اور میری انگلیاں میری چوت پر تھی اور میری چوت اس کے سامنے تھی۔اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ میں مسکرائی اور اسے کہا کہ وہ سامان میز پر رکھ کر بیڈ پر آجائے۔ سوری میڈم میں بیڈ پر نہیں آسکتا۔ کیوں؟ میں نے پوچھا۔ آپ میری مالکن ہیں لیکن میں آپ کے ساتھ زنا نہیں کرنا چاہتا۔ یہ سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
میں نے کہا لیکن میں خود تمہیں کہہ رہی ہوں۔ وہ سامان رکھ کر واپس جانے لگا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کا مضبوط بازو تھام لیا۔ تم مجھے ایسے چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ وہ کہنے لگا میڈم مجھے جانے دیں پلیز۔ میں نے کہا اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو میں سب کو بتادوں گی کہ تنہائی کا موقع پا کر تم نے میری عزت لوٹنے کی کوشش کی۔آپ ایسا نہیں کرسکتیں کیونکہ اس سے آپ کی بھی بدنامی ہوگی۔ وہ بولامیں بدنامی سے نہیں ڈرتی ایک لڑکی جو کسی چوکیدار کو اپنا جسم پیش کر سکتی ہے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ کیا کچھ کرسکتی ہے۔میڈم پلیز مجھے جانے دیں میں شادی شدہ ہوں اور اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہوں۔ میرا ایک بچہ بھی ہے۔سوچ لو اگر تم یہاں سے چلے گئے تو میرے ایک فون پر پولیس تمہیں ڈھونڈ نکالے گی تمہارے گاؤں میں تمہارے گھر پر چھاپے پڑیں گے اور تمہاری بیوی کو پتہ چل جائے گا کہ تم نے شہر میں اپنے مالک کی بیٹی کی عزت لوٹنے کی کوشش کی۔ تمہیں جیل ہوجائے گی اور تمہارا بچہ ساری زندگی تم سے نفرت کرے گا۔
میڈم مجھے معلوم ہے آپ شروع دن سے ہی میرے ساتھ یہ کام کرنا چاہتی تھیں لیکن میں نے ہمیشہ آپکی عزت کی ہے آپ مجھ پر مہربانی کریں میں غریب آدمی ہوں۔مہربانی ہی تو کر رہی ہوں میں نے کہا۔ ایک خوبصورت جوان لڑکی بالکل ننگی تمہارے سامنے کھڑی ہے اور پھر اگر تم یہ کرلوگے تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور اگر نہیں کروگے تو مجھ جیسی ڈائن تمہاری زندگی کتنی بھیانک بنادے گی تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ تمہاری نوکری چھوٹ جائے گی تمہیں کراچی شہر چھوڑنا پڑے گا تم اپنے گھر بھی نہیں جاسکوگے۔ میں تمہاری زندگی جہنم بنادوں گی۔کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ بولا ٹھیک ہے۔ لیکن آپ میرے ساتھ زبردستی کررہی ہیں جو کچھ آپ کرنا چاہتی ہیں کرلیں اس نے کہا اور سر جھکا لیا۔
میں اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ تک لائی اور اسے بیڈ پر دھکا دے دیا۔ نیلے رنگ کی پینٹ شرٹ میں اس کا ٹائٹ بدن میرے جسم کو سیراب کرنے کو تیار تھا۔ میں نے اس کے اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹوں پر کسنگ شروع کردی۔ اس نے اپنے ہونٹ مضبوطی سے بند کئیے ہوئے تھے میں نے اس کی مونچھوں پر زبان پھیری۔ اپنا منہ کھولو میں نے کہا اور اس نے منہ کھول دیا میں نے اس کے منہ میں اپنی زبان ڈال کر اس کی زبان سہلائی۔ اس نے اپنے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ رکھے تھے۔ کچھ دیر کسنگ کے بعد میں نے اس کی شرٹ کے بٹن کھولے۔ اس کے سینے پر گھنے کالے بال تھے۔ میں نے اس کے نپلز پر اپنے دانتوں سے کانٹا۔ وہ بالکل ساکت لیٹا ہوا تھا۔ میں نے جب زور سے کاٹا تو اس کے منہ سے 'سی' کی آواز نکلی۔ مگر اس نے ہاتھ نہ ہلائے۔ شرٹ اتارنے کے بعد میں نے اسکی بیلٹ کھولی اور اسکی پینٹ کا بٹن کھولا۔ اندر اس کا سانولا سا لنڈ ادھ مرا پڑا تھا۔ میں نے اپنے ہونٹوں سے اسکے لنڈ کو کس کیا اور اس کی گیندوں کو چوسنے لگی۔ اور ہاتھوں سے اسکے لنڈ کو سہلانے لگی۔
کچھ دیر بعد اس کا لنڈ تھوڑا بڑا ہوا۔ ساڑھے سات انچ کا اور بہت موٹا لنڈ تھا اس کا۔ میں نے اس کا لنڈ منہ میں لیا اور چوسنے لگی۔ پہلے میں نے تھوڑا سا اندر لیا اور اس کے ٹوپے کو اپنی زبان سے سہلایا پھر اس کا لنڈ اور اندر لیا۔ اس کے لنڈ کے ذائقے نے میری چوت میں سے اور جوس نکلوادئیے۔ میں نے اس کے لند کو لالی پاپ کی طرح اندر باہر چوسنا شروع کردیا۔ مگر وہ ایسے ہی چت لیٹا رہا۔پھر میں نے اس کی پینٹ پوری اتاردی اب وہ پورا ننگا تھا اور اس کا لمبا موٹا لنڈ راکٹ کی طرح تنا ہوا تھا۔ مگر وہ ایسے ہی لیٹا رہا۔ میں اس کے برابر میں لیٹ گئی اور اسے کہا کہ وہ میری چوت میں انگلی کرے اس نے انگلی سے میری چوت سہلانا شروع کردی۔ مین نے اپنی چوچی اس کے منہ پر رکھ دی مگر اس نے اپنا منہ بند کئیے رکھا۔ اسے اپنے منہ سے چوسو اور چاٹو میں نے اسے حکم دیا۔
اس نے میرے ممے چاٹنا شروع کردئیے۔ کاٹو زور سے کاٹو میں نے اسے کہا تو اس نے اپنے دانتوں سے میری ممے کاٹے۔ اور انگلیوں سے میری چوت چودتا رہا۔ اس کے بعد میں نے اسے بیڈ پر چت لٹایا اور اپنے چوت اس کے منہ پر رکھ دی۔ مگر اس نے منع کردیا کہ آپ کی چوت نہیں چاٹوں گا۔ میں نے زبردستی اپنی چوت اس کے منہ پر رگڑی اور ہاتھوں سے اس کا منہ دبایا اور اس کے ہونٹ اپنی چوت پر لگائے۔ تنگ آکر میں نے اس کے لنڈ کو چوس کر تھوڑا گیلا کیا۔ اب وہ بیڈ پر چت لیٹا تھا۔ میں اس کے لنڈ پر آئی اور اس کی طرف منہ کرکے آرام سے اس کا لنڈ تھوڑا سا اپنی چوت میں ڈالا۔ پھر آہستہ آہستہ پورا اپنی چوت میں لے لیا۔ پھر میں مزے سے اس کے لنڈ کی سواری کرنے لگی۔
میں مزے سے اس کے لنڈ کی سواری کررھی تھی ۔ اسکے لنڈ سے میری چوت فل ہوگئی تھی اور ہلکا سا درد بھی کر رہی تھی۔ میں اسکے لنڈ پر اوپر نیچے ہورہی تھی اور میرے ممے خوب اچھل رہے تھے، مگر اس نے اپنے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ رکھے تھے اور میری جسم کو ٹچ بھی نہ کر رہا تھا اور اس کی آنکھیں بھی بند تھیں۔ میں کافی دیر تک اس کے لنڈ سے اپنے چوت چودتی رہی مگر اس کی منی نہ نکلی۔
پھر میں بیڈ پر لیٹ گئی اور اسے کہا کہ وہ مجھے چودے۔ وہ کھڑا ہوا اور میں نے اسے بتایا کہ کسطرح چودنا ہے۔ پھر اسنے میری ٹانگیں پکڑیں اور اپنا لنڈ میری چوت میں ایک جھٹکے سے ڈال دیا۔ وہ بہت جاندار مرد تھا۔ پوری طاقت سے وہ میری چوت پر اپنا غصے اور مجبوری نکالتا رہا۔ جتنا زور سے وہ لنڈ اندر ڈالتا مجھے اتنا ہی سرور آتا۔بہت دیر تک چودنے کے بعد بھی وہ ٹھنڈا نہ ہوا اور نہ ہی میں ٹھینڈی ہوئی۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ رک جاؤ اور اس نے اپنا لنڈ میری چوت سے نکال لیا۔ اب میں الٹی ہوئ اور اسے کہا کہ وہ میری گانڈ مارے۔ اس نے پہلے انکار کیا تو میں نے اسے بتایا کہ اب میری چوت پر چدائی کے نشان بھی ہیں اور ڈی این اے ٹیسٹ بھی اب اگر میں چاہوں تو اسے پندرہ سال قید بھی کرواسکتی ہوں۔
اس نے اپنا لنڈ میری گانڈ کے سوراخ پر رکھا۔ میں نے پہلے بھی گانڈ مرائی تھی لیکن اتنا بڑا لنڈ اوراتنے طاقتور مرد کے لنڈ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس نے رکے بغیر اپنا لنڈ پورا میری گانڈ میں گھسیڑ گیا۔ درد سے میری چیخ نکل گئی۔ میں نے اسے رکنے کا کہا مگر وہ نہیں رکا۔ اور اس نے زور زور سے جھٹکے مارنا شروع کردئیے۔ میں چیختی رہی وہ بولا۔رنڈی تجھے لنڈ چاہئیے نا یہ لے کتیا گانڈ میں۔ اور ایک اور زور کا جھٹکا مارا۔ مجھے لگا کہ میری گانڈ پھٹ جائے گی۔ میں نے ہٹنا چاہا مگر اسنے اپنے پیروں میں میرے پیر دبائے ہوئے تھے اور میرے ہاتھ اس کی گرفت میں تھے۔
درد سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے مگر پھر آہستہ آہستہ مجھے مزہ آنے لگا۔ وہ بہت زور زور سے میری گانڈ چود رہا تھا ایک دم پورا لنڈ باہر نکالتا اور پھر پوری قوت سے اندر ڈالتا۔ پانچ منٹ تک اس طرح چدنے کے بعد مجھے اتنا مزہ آرہا تھا کہ دل چاہ رہا تھا یہ چدائی ختم ہی نہ ہو۔ مگر پھر اس نے زور زور سے مجھے دو چار گالیاں بکیں اور مجھے اس کی گرم گرم منی اپنی گانڈ میں نکلتی محسوس ہوئی۔ فارغ ہوتے ہی اس نے مجھے بیڈ پر پھینکا اور میرے منہ پر ایک تھپڑ مارا۔رنڈی اب میں نے تیری خواہش پوری کردی۔ مگر یہ نہ سمجھ کہ تو نے میرا فائدہ اٹھایا ہے میں تجھ جیسی امیر رنڈیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں کوئی تم سے جتنا دور ہوتا ہے وہ اتنا ہی تم اس کا لنڈ اپنی چوت میں لینے کو بیقرار ہوتی ہو۔ اسی لئیے میں یہ ڈرامہ کررہا تھا۔
لیکن آج سے میں یہیں نوکری کروں گا۔ دن میں نوکری کروں گا اور رات میں تو میرے لنڈ کی نوکری کرے گی۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا اور وہ سامان جو میں نے اس سے منگوایا تھا اسکی تھیلی میں سے ایک چھوٹا سے ٹیپ ریکارڈ نکالا۔تیری ساری گفتگو اس ٹیپ میں ریکارڈ ہوچکی ہے اور اب تو وہی کرے گی جو میں چاہوں گا۔ ورنہ تیری شرافت کا سارا بھانڈا پھوڑ دوں گا۔ کتیا! اب مین بھی تجھے چودوں گا اور اپنے دوستوں سے بھی چدواؤنگا۔ تیری چوت کی آگ ہمیشہ کے لئیے ٹھنڈی کردوں گا۔
ساجد نے مجھے اچھا چوتیا بنایا۔ اب اس کے پاس میری آواز کی ریکارڈنگ موجود تھی جس میں میں اس سے خود کو چودنے کے لئیے کہہ رہی ہوں اور اسے دھمکا رہی ہوں کہ اگر اس نے مجھے نہیں چودا تو میں کیا کروں گی۔ مجھے ساجد کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کا زیادہ دکھ نہیں ہوا۔ کیونکہ اس بلیک میلنگ کی آڑ میں ساجد نے بار بار مجھے چودا۔
اکثر رات کو وہ گیٹ چھوڑ کر میرے کمرے میں آجاتا اور مجھے چود کر واپس چلا جاتا۔ مگر پرابلم تب شروع ہوئی جب اس نے مجھے ایک دن اپنے ایک دوست کے پاس جانے پر مجبور کیا۔ میں نے اس کی بہت منتیں کیں مگر وہ نہ مانا اور ایک دن میں آفس سے اس کے ساتھ اس کے دوست کے گھر پہنچی۔ مکان دیکھ کر ہی میں سمجھ گئی تھی کہ یہ ساجد کے دوست کا گھر نہیں ہے کیونکہ وہ ایک بنگلہ تھا۔ ساجد نے کسی سیٹھ سے پیسے لے کر مجھے وہاں سپلائی کیا تھا۔ اندر پہنچی تو ایک موٹا خبیث بڈھا میرا انتظار کر رہا تھا۔ بڈھے نے ساجد کو باہر جانے کا کہا تو میں نے کہا کہ اگر ساجد باہر گیا تو میں کچھ نہیں کروں گی اور جو کچھ کروں گی وہ ساجد کی موجودگی میں ہوگا۔
بڈھا بہت خوار تھا فورا مان گیا۔ بڈھے نے مجھے کپڑے اتارنے کو کہا۔ میں نے اپنی شلوار اور کرتا اتارا بریزر کھولی اور بالکل ننگی کھڑی ہوگئی۔ بڈھے نے اپنے کپڑے اتارے تو اس کا دو انچ کا لنڈ بالکل ساکت پڑا تھا۔ میں نے بڈھے کو بیڈ پر لٹایا اور اس کا دو انچ کا لنڈ اپنی چوچیوں کے بیچ میں دبالیا۔ بڈھے کی مرادانگی بالکل زیرو تھی اور میری چوچیوں میں لنڈ آتے ہی اس نے میرے مموں پر ہی منی نکال دی۔ پھر میں نے واش روم میں جاکر اپنا جسم دھویا۔ باہر آئی تو ساجد نے ایک نئی کہانی سنائی کہ اب بڈھا چاہتا ہے کہ ساجد مجھے اس کے سامنے چودے۔ میں تو ننگی ہی تھی ساجد نے بھی اپنی جینز کی پینٹ اور ٹی شرٹ اتاری اور اپنا لنڈ میرے منہ میں دے دیا۔ ہم لوگ بیڈ پر تھے۔ ساجد لیٹا ہوا تھا اور میں اس کی ٹانگوں میں بیٹھ کر اس کا لنڈ چوس رہی تھی کہ بڈھا پیچھے سے آیا اور میری گانڈ کا سوارخ چاٹنے لگا۔
تھوڑی دیر لنڈ چوسنے کے بعد میں لیٹ گئی۔ بڈھے نے فرمائش کری کہ میں اس کے اوپر ایسے لیٹوں کے میری چوت بڈھے کے منہ پر آجائے میں لیٹ گئی تو بڈھے نے ساجد سے کہا کہ اب وہ میری چوت میں اپنا لنڈ ڈالے۔ ساجد نے میری ٹانگیں اٹھائیں اور اپنا لنڈ بڈھے کے منہ پر ٹچ کرتے ہوئے میری چوت میں ڈال دیا۔ بڈھا اپنی زبان سے میری چوت اور ساجد کا لنڈ چاٹ رہا تھا۔ ساجد نے جلدی جلدی مجھے چودنا شروع کردیا اور جب اس کی منی نکلنے والی تھی تو اس نے اپنا لنڈ میری چوت سے نکالا اور میری پھدی پر اپنی منی کا فوارہ چھوڑ دیا۔ میری پھدی سے ہوتی ہوئی ساجد کی منی بڈھے کی زبان پر گری جسے اس نے فورا چاٹ لیا اور میری پھدی بھی چاٹ کر صاف کردی۔
اس کے چدائی کے بعد ساجد سے جان چھڑانا ضروری ہوگیا تھا اور میں نے ساجد سے جان چھڑانے کا طریقہ بھی سوچ لیا تھا۔ میں نے اپنے ایک پرانے ٹھوکو کو فون کر کے اس سے پوچھا کہ کس طرح ساجد سے پیچھا چھڑایا جاسکتا ہے۔ ساجد میرا چوکیدار ہے جسے بلیک میل کرنے کے چکر میں میں خود بلیک میل ہوگئی تھی اور اب وہ میرے جسم کی کمائی کھانا چاہتا تھا۔ میرے دوست نے کہا کہ مجھے ایک سیاسی جماعت کے غنڈوں سے رابطہ کرنا چاہئیے۔میں نے اس سیاسی جماعت کے کارکنوں کا پتہ لگایا اور ان میں سے ایک لڑکے کاشف کو ریستوران میں لنچ پر بلالیا۔
لنچ کے دوران میں نے اسے بتایا کہ میرے چوکیدار کے ہاتھ میری کچھ ثبوت لگ گئے ہیں جن کی وجہ سے وہ مجھے بلیک میل کر رہا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ میرے راستے کا کانٹا نکل جائے۔ اس نے کہا کہ وہ میرا کام کردے گا مگر شرط یہ ہوگی کہ مجھے اس کے لنڈ کی پیاس بجھانا ہوگی۔ میں تیار ہوگئی اور اس نے مجھے ایک ایڈریس دیا کہ یہاں پہنچ جانا یہیں ساجد کو بھی بلوالیں گے اور تمہارے سامنے اس کو مار مار کے معافی منگوائیں گے اور تمہاری آواز کا ٹیپ بھی نکلوائیں گے۔
اگلے دن میں اس ایڈریس پر پہنچی وہ ایک خالی مکان تھا اور ایک ویران علاقے میں تھا۔ کاشف وہاں چند لڑکوں کے ساتھ میرا انتطار کررہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک کار آکر رکی اور اس میں سے کچھ لڑکے ساجد کو بالوں سے کھینچتے ہوئے باہر لائے۔ پھر انہوں نے ساجد پر خوب لاتیں اور گھونسے برسائے اور اس سے وہ کیسٹ بھی لے لی۔ اس کے بعد کاشف بولا۔ سبین تمہارا کام ہوگیا اب میرا کام کرو۔ یہ کہہ کر اس نے سب لڑکوں کے سامنے اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور اپنا سات انچ لمبا لوڑا باہر نکالا۔ میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اس کا لنڈ چوسنے لگی۔ اس نے کہا نہیں ڈارلنگ پہلے کپڑے اتارو اور پھر میں نے اتنے سارے لڑکوں کی موجودگی میں کپڑے اتار دئیے۔ اور ساجد کا لنڈ چوسنے لگی۔ یہ سین دیکھ کر سب لڑکوں کے لنڈ ان کی پینٹوں میں پھنسنے لگے اور آہستہ وہ سب اپنے لنڈ باہر نکالنے لگے۔ اور مٹھ مارنے لگے۔
تھوڑی دیر بعد کاشف نے مجھے ایک میز پر بٹھایا اور میری ٹانگیں کھول کر اپنا لنڈ میری پھدی میں ڈال دیا اور دھنا دھن میری چوت چودنے لگا۔ کاشف کا لنڈ کسی راکٹ کی طرح کام کررہا تھا وہ پورا لنڈ باہر نکالتا اور پھر ایک جھٹکے سے میری پھدی میں ڈالتا۔ ان جھٹکوں سے میرے ممے اچھل رہے تھے اور میں اپنے ہاتھوں سے انہیں دبا رہی تھی۔آس پاس کھڑے لڑکوں میں سے ایک نے ساجد کے منہ پر گھونسا مارا اور ساجد کے منہ سے خون نکلنے لگا اس لڑکے نے اپنا لنڈ ساجد کے منہ میں ڈال دیا اور ساجد اس کا لنڈ چوسنے لگا۔ اتنے میں ایک اور لڑکے نے ساجد کی پینٹ اتاری اور اس کی گانڈ میں اپنا لنڈ گھسیڑ دیا ساجد پہلے ہی زخموں سے چور تھا بیچارا کچھ نہیں کرسکا۔
ایک طرف کاشف مجھے چود رہا تھا دوسری طرف دو لڑکے ساجد کی گانڈ مار رہے تھے۔ اور باقی لڑکے مٹھ مار رہے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے کی منی نکلنے والی تھی اس نے جلدی سے قریب آکر اپنی منی میرے منہ پر ڈال دی جبکہ کاشف بدستور میری پھدی زور زور سے چود رہا تھا۔ باقی لڑکے بھی باری باری آکر اپنی منی میرے منہ مموں اور پیٹ پر ڈالتے رہے۔ اور آخر کار کاشف نے بھی میری چوت میں اپنی منی چھوڑ دی۔ ساتھ ہی میں بھی ٹھنڈی ہوگئی۔ سب لڑکوں اور کاشف نے مل کر ساجد کے اوپر پیشاب کیا اور پھر ہم سب کپڑے پہن کر اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر ساجد کو وہیں چھوڑ کر چلے گئے۔اس دن کے بعد میں نے ساجد کو پھر کبھی نہیں دیکھا۔ ہاں کاشف اور اس سیایسی جماعت کے لڑکوں کے ساتھ میں اکثر چدواتی رہی اور ان سے اپنے دوسرے کام بھی نکلواتی رہی۔
ختم
ٹھرکی چاہدری
چوہدری بختیار جدی پشتی رئیس تھا اور اس کے شوق بھی وہی تھے جو عام طور پر رہیسوں کے ہوتے تھے۔ اس کا باپ اس کے ترکے میں 50 مربعے زمین چھوڑ کر مرا تھا۔
اس کی بہنیں شادی کی عمر گزار کر گھر میں بیٹھی تھیں،جائداد کے حصے بخرے نہ ہوں اسی لئے وہ کبھی بیاہی ہی نہ گئی تھیں۔
بلقیس اس کی بیوی بھی ایک زمیندار خاندان سے تھی جو صرف اسی وقت کام آتی تھی جب چوہدری کو اپنا غصہ کسی عورت پر نکالنا ہوتا تھا۔ وہ بیچاری چوہدری کی مار کھاتی اور اسے اپنا فرض سمجھ کر چپ ہو رہتی۔
چوہدری عیاش طبع تو تھا ہی ساتھ میں ظالم بھی تھا۔
آئے روز لاہور اور گوجرانوالا کے بدنام کوچوں سے رنڈیاں آتیں اور ہزار بار کے بکے ہوئے سکوں کو کسی نئے سکے سے بھی زیادہ دام میں بیچتیں۔
اس کی رعایا میں سو کے قریب کمی خاندان تھے جو کئی نسلوں سے اس کے خاندان کی چاکری کر رہے تھے۔ چوہدری ان کو بس ان دیتا کہ وہ زندہ رہیں اور اتنا دباتا کہ بس جان اٹکی رہے۔
یہ کمی اپنی بہو بیٹیاں چوہدری کے بستر پر سلانا اپنے لئے خوش بختی سمجھتے۔
ادھر کسی کی بیٹی تیرہواں سن پار کرتی اور اس کی شلوار میں خون کی پہلی بوند پڑتی تو پاکی نہاتے ہی اس کا باپ اسے چوہدری کے بستر تک چھوڑ آتا۔
اگر کوئی ایسا نہ کرتا تو اس کی شامت آ جاتی، اس کی بہو بیٹیوں پر چوہدری کے کتے سب کے سامنے ٹوٹ پڑتے۔
اگر کوئی اور چوہدری سے پہلے کسی لڑکی کو جھوٹا کر دیتا تو اس لڑکی پر سارا گاؤں باری باری سوار ہوتا، اس وقت تک جب تک وہ زندگی سے آزاد نہ ہو جاتی۔
گاؤں کے لوگوں میں غیرت اور عزت جیسے لفظ صرف چوہدریوں کے لئے تھے۔
چوہدری کبھی بھی کسی کو طلب کر لیتا اور کسی کو اپنے بستر پر لے جاتا۔
یہ سب کرنے کے لئے اسے کسی سے چھپنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اسے رعایا پر حکومت کرنے کا گر سمجھا جاتا تھا۔
بلقیس اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ تھی،اس نے یہی سب اپنے گھر بھی دیکھا تھا۔
چوہدری ایک دن ایک غریب لڑکی کو لایا اور ایک کمرے میں اسے زبردستی چودنے لگا۔ لڑکی کی چیخوں سے پورا گھر گونج رہا تھا۔
بلقیس اٹھ کر کمرے کے دروازے پر آ گئی، لڑکی چوہدری کے بھاری وجود کے سامنے کچھ بھی نہ تھی۔ کم خوراک اور سخت محنت نے اسے اتنا موقع ہی نہ دیا تھا کہ اس کے جسم پر کوئی گوشت آتا۔ چوہدری شراب کے نشے میں اس کی چوت پھاڑنے حد تک مار رہاتھا۔ بلقیس کچھ لمحے تو یہ ننگا ناچ دیکھتی رہی پھر آ گئی۔
لڑکی کی چیخیں اب بند ہو گئی تھیں، شاید وہ درد سے بیگانہ گئی تھی یا ہوش سے۔ ایک ملازمہ اندر گئی اور ادھ مری لڑکی کو ایک چادر میں لپیٹ کر اس کے باپ کے حوالے کر دیا۔
اس لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کے کنوارے خون سے سنے چند لال نوٹوں پر جھپٹا،نیم بےہوش بیٹی باپ کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر اپنی پہلی کمائی پر دل ہی دل میں نازاں ہوئی۔
بلقیس کو اپنی بڑی نند نصرت جو تیس کا ہندسہ عبور کر چکی تھی وہ اپنے کمرے ہی مل گئی۔ اس نے بلقیس کو
بلا لیا۔
نصرت بولی: کی ہویا بھرجائی، آج تجھے نیند نہیں آئی۔
بلقیس : نیند تو شاید آ جاتی مگر اس نمانی کی چیخوں نے سونے نہ دیا۔
نصرت ہنسی: وے جھلی نہ ہو تو یہ کوئی نویں گل ہے کیا۔
بلقیس: نویں تو نہیں بس آج عجیب سا درد ہوا تھا مجھے۔
نصرت بولی: کیسا درد بھرجائی کھل کے بول۔
بلقیس: رہن دے وڈی باجی تو میری چنتا نہ کر سو جا۔
نصرت: وے بھلیے لوکے میں نے سو کے کیا کر لینا تو بیٹھ اور بتا۔
بلقیس: باجی مجھے اج ایک عجیب سا درد ہویا کہ چوہدری صیب میرے ساتھ ایسا کیوں نہیں کرتا۔
نصرت: تیرے ساتھ مطلب، تو تو اس کی زنانی ہے، تیرے ساتھ ایسا کیوں کرے گا۔
بلقیس: کنا ویلے ہو گیا چوہدری نے مجھے ھاتھ نہیں لگایا ویاہ کے بعد تو بس وہی کمی کمیں عورتیں یا رنڈیاں ہی اس کے ساتھ سوتی ہیں۔ اج میرے من میں ہوک اٹھی کہ کنا چنگا ہوتا کہ اس نمانی کے بدلے میں چیخ رہی ہوتی۔چوہدری بھلے درد دیتا پر دیتا تو صحیح۔
نصرت نے گہری سانس لی اور بولی: بھرجائی یہ جو مرد ہوتا ہے نا اسے اپنا نالہ تو کھلا پسند ہے مگر گھر کی عورتوں کا نالہ اسے کسا ہوا چاہئیے۔ اپنے لئے تو سارے عورتیں جائز ہیں پر اپنی عورت کے لئے سب حرام۔ جس آگ میں تو سال سے جل رہی ہے میں اٹھارہ سال سے جل رہی ہوں۔
جو درد تجھے اج ہویا ہے وہ مجھے اٹھارہ سال پہلے ہوتا تھا جب کسی نمانی کی چیخیں نکلتی تو میں سوچتی کہ کوئی میری بھی یوں چیخیں نکالے۔ جب کسی کو جھوٹا چوہدری کو کھلانے کی سزا ملتی تو میں روتی کاش اس گاؤں کا ہر مرد میرے اوپر چڑھ ڈورے، میں مرد کی نیچے سے ہی مر جاؤں۔
بلقیس یہ سب سن کے حیران تھی کہ اس کی نند اسی دور سے گزر چکی ہے۔
نصرت بولی: میری اگ تو بجھ گئی ہے تجھے تو اٹھارواں لگا ہے تیری شلوار تو ابھی تر ہے تو اس اگ میں کیوں جلے۔
بلقیس: کیا مطلب وڈی باجی۔
نصرت: ویکھ میرا ویاہ ہوتا تو اج تیرے جتنی میری دھی ہوتی، مرد کی اگ پہ تو قطرے گرتے رہتے ہیں عورت کی اگ اسے آپ بجھانی پڑتی ہے۔ اگلا بوہا(دروازہ) بند ہوے تے پچھلی کھڑکی کھول لینی چاہی دی ہے۔
بلقیس:مگر۔۔ ۔ ۔
نصرت: اگر تو اس اگ کو پالتی رہی تو اک دن یہ تجھے ساڑ دے گی، چوہدری کا کیا ہے نویں زنانی آ جائے گی، تجھے مرجھانا نہیں ہے بلکہ ایس کو نال نال بجھانا بھی ہے۔ بانی گرتا رہے تے زمین بنجر نہیں ہوندی۔
بلقیس: لیکن اگر کسی کو پتہ لگ فیر۔
نصرت: فیر کی روز روز مرنے سے اک واری چنگا۔
بلقیس کسی حد تک مطمئن ہو گئی تھی مگر ڈر بھی رہی تھی۔
بلقیس: پر یہ ہو گا کیسے۔
نصرت: ویسے جیسے چوہدری کڑی لاتا ہے تو منڈے لے ائے گی۔
بلقیس: مگر کیسے
نصرت: تو مجھ پہ چھوڑ دے، پرسوں کی رات چوہدری کے ڈیرے پہ کنجریاں ناچیں گی، چوہدری ویلے سے نہیں مڑے گا، تو بس تیار رہنا۔
بلقیس جو شاید پچھلے سوا سالہ شادی شدہ زندگی میں ایک دو بار چدی تھی اب اس آگ کے ھاتھوں بے چین ہو گئی تھی۔
ﻣﯿﺮﺍ
ﻧﺎﻡ ﺍﺣﻤﺮ
ﺟﺒﺮﺍﻥ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺎﺩﯼ
ﺷﺪﮦ
ﺷﺨﺺ ﮨﻮﮞ ﻋﻤﺮ
27 ﺳﺎﻝ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ
ﺫﺍﺗﯽ
ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ,
ﯾﮧ
ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺍﻥ ﺭﺷﺘﮧ
ﺩﺍﺭﻭﮞ
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ
ﺳﮯ
ﻣﻨﺴﻠﮏ
ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺮﺩﺍﺭﻭﮞ
ﮐﮯ
ﮔﺮﺩ ﮔﮭﻮﻣﺘﯽ
ﮨﮯ ﺟﻮ
ﻣﯿﺮﮮ
ﺑﯿﮉ ﮐﯽ ﺯﯾﻨﺖ
ﺑﻨﮯ
.
ﺍﺏ
ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﯽ
ﻃﺮﻑ
ﯾﮧ
2014 ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ
ﺟﺐ
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ
ﺣﻨﺎ
ﭘﺮﯾﮕﻨﯿﻨﭧ
ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﮐﺎ
ﺳﺎﺗﻮﺍﮞ ﻣﮩﯿﻨﮧ
ﭼﻞ ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ
ﻣﯿﺮﯼ
ﻭﺍﻟﺪﮦ
ﮐﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﺎﻧﯽ
ﺍﻣﺎﮞ
ﺟﻮ ﮐﮧ ﮐﺎﻓﯽ ﻋﺮﺻﮧ
ﺳﮯ
ﻋﻠﯿﻞ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﻋﯿﺎﺩﺕ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﺣﯿﻢ
ﯾﺎﺭ
ﺧﺎﻥ ﺟﺎﻧﺎ
ﭘﮍﺍ ﮔﮭﺮ
ﭘﺮ
ﺣﻨﺎ
ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ
ﮐﮯ
ﻟﯿﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺳﻮ
ﺣﻨﺎ
ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ
ﺑﮩﻦ
ﺻﺒﺎ ﮐﻮ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ ﺟﻮ
ﮐﮧ
ﮐﺎﻓﯽ ﻧﮏ ﭼﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ
ﺍﭘﻨﮯ
ﺁﭖ ﻣﯿﮟ
ﻣﮕﻦ ﺭﮨﻨﮯ
ﻭﺍﻟﯽ
ﻟﮍﮐﯽ ﮨﮯ , ﺻﺒﺎ
ﭘﺮﺍﺋﯿﻮﺋﯿﭧ
ﺑﯽ ﺍﮮ ﮐﺮ
ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﮐﺎ
ﻓﺮﺳﭧ
ﺳﻤﺴﭩﺮ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ
ﻟﯿﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﭘﮭﭙﮭﻮ
ﺟﻮ ﮐﮧ
ﻣﯿﺮﯼ
ﺳﺎﺱ ﺑﮭﯽ
ﮨﯿﮟ
ﺍﺳﮯ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ
ﺑﮭﯿﺠﻨﮯ
ﭘﺮ
ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﮔﺌﯿﮟ.
ﺻﺒﺎ
ﺍﮐﯿﻠﯽ
ﮨﯽ ﻓﯿﺼﻞ
ﺁﺑﺎﺩ
ﺳﮯ ﻻﮨﻮﺭ ﭘﮩﻨﭽﯽ
ﺗﻮ
ﻣﺠﮭﮯ
ﮐﺎﻓﯽ ﻏﺼﮧ ﺁﯾﺎ
ﻣﮕﺮ
ﺟﺐ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺻﺒﺎ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﺎ
ﭼﺎﮨﯽ
ﺗﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﻣﯿﮟ
ﺍﭘﻨﯽ
ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﻧﺎ
ﺟﺎﻧﺘﯽ
ﮨﻮﮞ ﺁﭖ
ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ
ﻧﮧ
ﮨﻮﮞ ﺍﺱ
ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ
ﺧﺎﻣﻮﺵ
ﮨﻮ ﮔﯿﺎ , ﺩﻭ ﺗﯿﻦ
ﺩﻥ
ﺗﻮ ﺳﺠﻮﻥ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ
ﻣﮕﺮ
ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ
ﺟﺐ
ﻣﺠﮭﮯ
ﻃﻠﺐ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺣﻨﺎ ﮐﻮ ﺭﺍﺕ
ﭼﻮﺩﻧﺎ
ﭼﺎﮨﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﯾﮧ
ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﻨﻊ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
ﮐﮧ
ﮈﺍﮐﭩﺮ
ﻧﮯ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ
ﮐﺮﻧﮯ
ﮐﺎ
ﺑﻮﻻ ﮨﮯ, ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﺗﮭﯽ
ﺳﻮ
ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﺩﻭﺳﺮﮮ
ﮐﻤﺮﮮ
ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﻮﻭﯼ
ﺩﯾﮑﻨﮭﮯ
ﻟﮕﺎ , ﺍﺏ ﻣﯿﮟ
ﺳﻮﭺ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺣﻨﺎ ﺗﻮ
ﮨﺎﺗﮫ
ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ
ﺭﮨﯽ
ﺍﺏ ﮐﯿﺎ
ﮐﺮﻭﮞ ﮐﮧ
ﺍﭼﺎﻧﮏ
ﺻﺒﺎ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ
ﺫﮨﻦ
ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ
ﺻﺒﺎ
ﮐﺎ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﺫﮨﻦ
ﻣﯿﮟ
ﺭﮐﮫ
ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺩﺍﺋﯽ
ﮐﺎ
ﻣﻨﺼﻮﺑﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ
ﺑﮩﺖ
ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺍﯾﮏ
ﺁﺋﯿﮉﯾﺎ
ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ
ﺁﯾﺎ
ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ
ﮐﺮﻧﮯ
ﮐﺎ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺳﻮ
ﮔﯿﺎ
.
ﺍﮔﻠﮯ
ﺩﻥ ﻣﯿﮟ
ﺷﺎﻡ ﮐﻮ
ﻣﯿﮟ
ﺟﻠﺪﯼ ﮔﮭﺮ
ﺁ ﮔﯿﺎ
ﺍﻭﺭ
ﺣﻨﺎ
ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺁﺝ ﮐﮭﺎﻧﺎ
ﺑﺎﮨﺮ
ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺣﻨﺎ
ﺑﻮﻟﯽ
ﺁﭖ ﺻﺒﺎ
ﮐﻮ ﻟﮯ
ﺟﺎﺅ
ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ
ﮔﮭﻤﺎ ﻻﺅ
ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ
ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮔﮭﺮ
ﮨﯽ
ﻟﮯ ﺁﻧﺎ ,
ﺍﺏ ﺍﻧﺪﮬﺎ
ﮐﯿﺎ
ﭼﺎﮨﮯ
ﺩﻭ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
, ﺳﻮ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ
ﮨﻮﻧﮯ
ﮐﺎ ﺑﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ
ﺳﺐ
ﺳﮯ ﺁﻧﮑﮫ ﺑﭽﺎ
ﮐﺮ
ﺻﺒﺎ
ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻤﺮﮮ
ﮐﮯ
ﻭﺍﺵ
ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ
ﭼﻼ ﮔﯿﺎ
ﺍﻭﺭ
ﺍﻧﺪﺭ
ﺳﮯ ﮐﻨﮉﯼ ﻟﮕﺎﮮ
ﺑﻐﯿﺮ
ﻧﮩﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ , ﺍﭼﺎﻧﮏ
ﮨﯽ
ﺻﺒﺎ ﻧﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ
ﮐﻮ
ﺩﮬﮑﯿﻼ
ﺍﻭﺭ ﻭﺍﺵ
ﺭﻭﻡ
ﮐﮯ
ﺍﻧﺪﺭ
ﺁﮔﺌﯽ ﺍﺏ
ﺍﺳﮯ
ﮐﯿﺎ
ﭘﺘﮧ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﯽ
ﭼﻮﺩﺍﺋﯽ
ﮐﮯ ﭘﻼﻥ ﭘﺮ
ﻋﻤﻞ
ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ,
ﺟﺐ
ﺻﺒﺎ
ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ
ﭘﮍﯼ
ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ
ﺑﻨﺪ
ﮨﻮ
ﮔﺌﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ
ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ
ﺗﮭﺎﻣﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﯽ
ﮔﮭﻮﺭ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
, ﺻﺒﺎ ﺟﻠﺪﯼ
ﺳﮯ
ﺳﻮﺭ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﮨﺮ
ﻧﮑﻞ
ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ
ﻭﺍﺵ
ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ
ﺟﺎ ﮐﺮ
ﭼﯿﻨﺞ
ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ , ﺟﺐ
ﻣﯿﮟ
ﻓﺮﯾﺶ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ
ﺑﺎﮨﺮ
ﺁﯾﺎ ﺗﻮ
ﺻﺒﺎ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﯽ
ﺟﺎﻧﮯ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﮕﺮ ﮐﭽﮫ
ﮔﮭﺒﺮﺍﺋﯽ
ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ , ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺍﺳﮯ ﭼﻠﻨﮯ
ﮐﺎ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ
ﺟﺎ
ﮐﺮ ﮔﺎﮌﯾﻤﯿﮟ
ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ,
ﺻﺒﺎ
ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ
ﺁﺋﯽ
ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﭩﮭﺎ
ﮐﺮ
ﮔﺎﮌﯼ
ﺳﭩﺎﺭﭦ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ
ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﭘﮩﻠﮯ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﮐﺮﻭ
ﮔﯽ
ﯾﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﮟ ,
ﺻﺒﺎ
ﺑﻮﻟﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﮏ
ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ
ﭘﮩﻠﮯ
ﻻﻧﮓ
ﮈﺭﺍﺋﯿﻮ
, ﺍﺱ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ
ﺷﺎﭘﻨﮓ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ
ﮐﮭﺎﻧﺎ
, ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺗﻨﺎ
ﻭﻗﺖ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ
ﺣﻨﺎ
ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﯽ
ﺍﺱ
ﻧﮯ
ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﯽ ﮐﻮ
ﺑﺘﺎ
ﮐﺮ
ﺁﺋﯽ ﮨﻮﮞ
ﺍﭖ ﻓﮑﺮ
ﻧﮧ
ﮐﺮﯾﮟ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﺎ ﺭﺥ
ﻓﻮﺭﭨﺮﯾﺲ
ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﻣﻮﮌﺍ
ﺍﻭﺭ ﮔﺎﮌﯼ
ﮐﺎ ﻭﯾﮉﯾﻮ
ﭘﻠﺌﯿﺮ
ﭼﻼ ﺩﯾﺎ ﺟﺲ
ﻣﯿﮟ
ﺁﺝ
ﺳﺎﺭﮮ ﮨﯽ ﮔﺎﻧﮯ
ﮐﺎﻓﯽ
ﺳﯿﮑﺴﯽ
ﺍﻭﺭ ﺟﺬﺑﺎﺕ
ﺍﺑﮭﺎﺭﻧﮯ
ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ
, ﻣﯿﮟ
ﮔﺌﯿﺮ
ﺑﺪﻟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺎﻥ
ﺑﻮﺟﮫ
ﮐﺮ ﺻﺒﺎ ﮐﻮ ﺫﺭﺍ ﺳﺎ
ﭨﭻ
ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺳﻤﭧ
ﺳﯽ
ﮔﺌﯽ
, ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ
ﯾﮩﯽ
ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺻﺒﺎ
ﻧﮯ
ﮔﮭﻮﺭ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ
ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﻣﮕﺮ
ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ
ﺑﻮﻟﯽ,
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ
ﺑﻌﺪ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﮨﻤﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ
ﺍﺳﮑﯽ
ﺭﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ
ﮨﺎﺗﮫ
ﺭﮐﮫ
ﺩﯾﺎ ﺻﺒﺎ
ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ
ﺭﺳﭙﺎﻧﺲ
ﺩﯾﺎ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺗﮭﻮﮌﺍ
ﺳﺎ ﺩﺑﺎﯾﺎ
ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ
ﻃﺮﻑ
ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ
ﮈﺍﻝ ﮐﺮ
ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ
ﺳﮯ ﻭﯾﮉﯾﻮ
ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ
ﻟﮕﯽ , ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ
ﺣﻮﺻﻠﮧ
ﮐﭽﮫ ﺑﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﺍﻧﻮﮞ
ﮐﻮ
ﺳﮩﻼﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
,
ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﻭﯾﮉﯾﻮ
ﻣﯿﮟ
"
ﺟﺴﻢ ﭨﻮ " ﮐﺎ ﮔﺎﻧﺎ ﭼﻞ
ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎ . ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺎ
ﻣﯿﺮﮮ
ﮨﺎﺗﮫ
ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ
ﮨﻠﮑﺎ
ﺳﺎ
ﮐﭙﮑﭙﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ.
ﺍﭼﺎﻧﮏ
ﮨﯽ ﺻﺒﺎ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﺍ
ﮨﺎﺗﮫ
ﺟﮭﭩﮏ ﮐﺮ ﭘﯿﭽﮭﮯ
ﮐﺮﺩﯾﺎ
ﺍﻭﺭ ﻏﺼﮧ
ﺳﮯ
ﺑﻮﻟﯽ
ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﺧﯿﺎﻝ
ﮐﺮﯾﮟ
, ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ
ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﺑﺮﺍ ﻟﮕﺎ
ﮐﯿﺎ ﺗﻮ
ﺑﻮﻟﯽ
ﺍﭼﮭﺎ ﺑﮭﯽ
ﻧﮩﯿﮟ
ﻟﮕﺎ
, ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﺏ
ﯾﮧ
ﺍﻧﮑﺎﺭ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ,
ﺳﻮ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﺎﮌﯼ
ﮔﮭﻤﺎﺋﯽ
ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ
ﺍﯾﮏ
ﻓﻠﯿﭧ
ﭘﺮ ﺟﺎ ﺭﻭﮐﯽ
ﺟﺴﮯ
ﻣﯿﮟ ﺁﺟﮑﻞ ﮔﻮﺩﺍﻡ
ﮐﮯ
ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻤﻌﺎﻝ
ﮐﺮ
ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎ , ﺻﺒﺎ ﺑﻮﻟﯽ ﯾﮧ ﺁﭖ
ﮐﺲ
ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ
ﮔﻮﺩﺍﻡ
ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ
ﺳﺎﻣﺎﻥ
ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ
ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﮨﮯ
ﺗﺎﮐﮧ ﺻﺒﺢ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ
ﻣﯿﮟ
ﺩﮮ ﺳﮑﻮﮞ
.
ﻣﯿﮟ
ﮔﺎﮌﯼ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﺍ
ﺍﻭﺭ
ﺻﺒﺎ
ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺁ ﺟﺎﺅ
ﺳﺎﻣﺎﻥ
ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ,
ﺻﺒﺎ
ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ
ﻓﻠﯿﭧ
ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺁ ﮔﯿﺎ
ﺍﻭﺭ
ﻓﺮﯾﺞ
ﺳﮯ ﺟﻮﺱ ﮐﺎ ﮐﯿﻦ
ﻧﮑﺎﻝ
ﮐﺮ ﺻﺒﺎ ﮐﻮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﺧﻮﺩ
ﺭﯾﮉ ﺑﻞ
ﭘﯿﻨﮯ ﻟﮕﺎ
ﺻﺒﺎ
ﺟﻮﺱ ﺧﺘﻢ
ﮐﺮ ﮐﮯ
ﮐﯿﻦ
ﺑﺎﺳﮑﭧ ﻣﯿﮟ
ﭘﮭﯿﻨﮑﻨﮯ
ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺍﺳﮯ
ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﺟﮑﮍ ﮐﺮ
ﺩﯾﻮﺍﺭ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ
ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ
ﭘﺮ
ﮐﺲ
ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ , ﺻﺒﺎ ﻧﮯ
ﻏﺼﮧ
ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﺍﻭﺭ
ﮐﮩﺎ ﭼﮭﻮﮌﯾﮟ ﻣﺠﮭﮯ,
ﺁﭖ
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﺠﺎ
ﮨﻮ ﺍﻭﺭ
ﯾﮧ
ﺳﺐ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ , ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﮐﮩﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺑﺮﺍ
ﻟﮕﺎ
ﺗﻮ ﺳﻮﺭﯼ ﺍﻭﺭ
ﭘﯿﭽﮭﮯ
ﮨﭧ
ﮔﯿﺎ , ﺻﺒﺎ ﯾﮏ ﻟﺨﺖ
ﻣﮍﯼ
ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ
ﮔﮭﻮﺭﻧﮯ
ﻟﮕﯽ
, ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ
ﯾﮧ
ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﻭﮨﯽ
ﮨﻮﺍ ﺟﺲ ﮐﺎ
ﮈﺭ ﺗﮭﺎ,
ﺻﺒﺎ ﮐﺎﻓﯽ
ﺩﯾﺮ
ﺗﮏ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﮭﻮﺭﺗﯽ ﺭﮨﯽ
ﺍﻭﺭ
ﭘﮭﺮ
ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ
ﺑﺎﮨﺮ
ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ
ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮔﯽ . ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ
ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﯾﺎ ﻣﮕﺮ
ﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ
ﺑﺎﺕ
ﮐﯿﮯ ﺑﻨﺎ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ
ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺭﮨﯽ
ﮔﻮ
ﻭﮦ ﺑﺎﺕ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﺮﮮ
ﺳﺎﺗﮫ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ
ﭘﺮ
ﻏﺼﮧ
ﯾﺎ ﻧﻔﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ
ﺗﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﺴﺎ
ﻟﮓ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺟﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ
ﺳﻮﭺ
ﻣﯿﮟ
ﮨﻮ, ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﺎﮌﯼ
ﺳﭩﺎﺭﭦ ﮐﺮ
ﮐﮯ
ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺋﭙﺮ
ﺳﭩﺎﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﺭﺥ
ﻣﻮﮌ ﺩﯾﺎ
, ﻭﮨﺎﮞ
ﺳﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﻮ
ﺷﺎﭘﻨﮓ
ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ
ﻣﻮﺟﻮﺩ
ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭧ
ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ
ﺍﻭﺭ
ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ
ﺳﻔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ
ﮔﯿﺎ
ﺍﺏ ﻣﯿﮟ
ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ
ﺍﯾﺴﺎ
ﻧﮧ ﮨﻮ ﮐﮧ ﺻﺒﺎ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺣﻨﺎ ﮐﻮ
ﺑﺘﺎ
ﺩﮮ ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ
ﺷﺪﮦ
ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﺑﮕﺎﮌ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ
ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺧﯿﺮ
ﺍﺳﯽ
ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ
ﮨﻢ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ,
ﺻﺒﺎ
ﻧﮯ ﺣﻨﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮑﺎﻻ ﺟﻮ
ﮐﮧ
ﮨﻢ ﭘﯿﮏ ﮐﺮﻭﺍ ﻻﺋﮯ
ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ
ﮐﺎﻓﯽ
ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ
ﻣﯿﮟ
ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ
ﺍﺱ ﮐﮯ
ﭘﯿﭽﮭﮯ
ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ
ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﺮﻧﺎ
ﭼﺎﮨﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﯾﮧ
ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﭨﻮﮎ ﺩﯾﺎ
ﮐﮧ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺱ
ﻣﻮﺿﻮﻉ
ﮐﻮ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭﮞ
ﻭﮦ ﺧﻮﺩ
ﺑﺘﺎ
ﺩﮮ
ﮔﯽ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﺑﺎﺕ
ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮ ﮔﯽ ,
ﮐﺎﻓﯽ
ﭘﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺻﺒﺎ ﺑﻮﻟﯽ ﮐﮧ
ﺁﺝ
ﻭﮦ ﺣﻨﺎ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻮﺋﮯ ﮔﯽ ﺳﻮ
ﻣﯿﮟ
ﺩﻭﺳﺮﮮ
ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﺩﻭﺳﺮﯼ
ﻣﻨﺰﻝ
ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﭼﻼ ﮔﯿﺎ, ﺍﻭﭘﺮ
ﻭﺍﻟﯽ
ﻣﻨﺰﻝ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﺗﺎ
ﺗﮭﺎ
ﺍﮔﺮ ﮐﺒﮭﯽ
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺁ
ﺟﺎﺗﮯ
ﺗﻮ
ﺍﻥ ﮐﻮ ﻭﮨﺎﮞ
ﭨﮭﮩﺮﺍﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ
ﺗﮭﺎ ,
ﺭﺍﺕ
ﮐﮯ 2 ﺑﺠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ
ﺍﺳﯽ
ﺍﺩﮬﯿﮍ ﺑﻦ
ﻣﯿﮟ ﻟﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ
ﺻﺒﺎ
ﻻﺯﻣﯽ ﻃﻮﺭ
ﭘﺮ ﺣﻨﺎ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﮮ
ﮔﯽ
ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ
ﮐﻤﺮﮮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ
ﭘﺮ
ﮨﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﺩﺳﺘﮏ ﮨﻮﺋﯽ
ﺍﻭﺭ..........
ﺻﺒﺎ
ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﺩﺍﺧﻞ
ﮨﻮﺋﯽ
ﺍﺱ ﻭﻗﺖ
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ
ﺳﻠﯿﭙﻨﮓ
ﮈﺭﯾﺲ
( ﺻﺒﺎ
ﺳﻮﺗﮯ
ﻭﻗﺖ ﭨﺮﺍﺅﺯﺭ
ﺍﻭﺭ
ﻟﻮﺯ
ﭨﯽ ﺷﺮﭦ ﭘﮩﻨﺘﯽ
ﺗﮭﯽ
) ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ
ﮐﺎﻓﯽ
ﺳﯿﮑﯽ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ
ﺻﺒﺎ ﻧﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ
ﮐﻮ
ﺑﻨﺪ
ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮉ
ﮐﮯ
ﮐﻨﺎﺭﮮ
ﭘﺮ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﯽ
ﺍﻭﺭ
ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ
ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﺁﭖ
ﺳﻮﺋﮯ
ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻧﯿﻨﺪ
ﻧﮩﯿﮟ
ﺁ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﺗﻢ
ﮐﯿﻮﮞ
ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ
ﺑﻮﻟﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﻨﺪ
ﻧﮩﯿﮟ
ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ
ﺳﻮﭼﺎ
ﮐﮧ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺷﺎﻡ
ﻭﺍﻟﯽ
ﺣﺮﮐﺖ ﭘﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ
ﻟﻮﮞ,
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ
ﺍﻧﺪﺍﺯ
ﻣﯿﮟ ﺻﺒﺎ ﮐﻮ
ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
ﺗﻮ
ﮐﺎﻓﯽ
ﺩﯾﺮ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ ﺑﻮﻟﯽ
ﮐﮧ
ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ
ﮐﯿﻮﮞ
ﮐﯿﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﻮ
ﺳﻮﭼﺘﮯ
ﮐﮧ ﺣﻨﺎ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ
ﮔﺰﺭﺗﯽ
ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﭘﺘﮧ
ﭼﻠﺘﺎ
ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ
ﺳﺎﺗﮫ
ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺮﮐﺖ
ﮐﯽ
ﮨﮯ
, ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺻﺒﺎ ﺍﮔﺮ
ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺑﺮﺍ ﻟﮕﺎ
ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ
ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ
ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ
ﮐﯿﺎ
ﮐﺮﻭﮞ
ﮐﮧ ﺗﻢ ﮨﻮ ﮨﯽ ﺍﺗﻨﯽ
ﭘﯿﺎﺭﯼ
ﮐﮧ ﺩﻝ ﮐﺮﻧﮯ
ﻟﮕﺘﺎ
ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ
ﮐﻮ
ﺍﻭﺭ
ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ
ﺣﻨﺎ ﮐﮯ
ﺁﺧﺮﯼ
ﺩﻥ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ
ﺑﮭﯽ
ﻧﮩﯿﮟ
ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ
ﯾﮧ
ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﺮ ﮔﺰﺭﺍ
ﻭﺭﻧﮧ
ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﺎﻧﺘﯽ
ﮨﻮ
, ﺻﺒﺎ ﺑﻮﻟﯽ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ
ﭨﮭﯿﮏ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ,
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ
ﺍﭘﻨﮯ
ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﮯ
ﺍﻭﺭ
ﺑﻮﻻ ﮐﯿﺎ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ ﺍﺱ
ﻣﯿﮟ
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ
ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ
ﻧﮩﯿﮟ
ﭼﻠﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ
ﻭﻋﺪﮦ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ
ﻧﮩﯿﮟ
ﭼﺎﮨﻮ
ﮔﯽ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ
ﻓﻮﺭﺱ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺧﺘﻢ
ﺳﻤﺠﮭﻮ
ﻧﮧ ﺗﻢ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ
ﮐﮩﻨﺎ
ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﻨﺪﮦ
ﺍﯾﺴﺎ
ﺳﻮﭼﻮﮞ
ﮔﺎ . ﺻﺒﺎ ﺳﺮ
ﺟﮭﮑﺎ
ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ
ﻣﯿﮟ
ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ
ﺩﻭﮞ
ﺗﻮ
.........ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ
ﻗﺮﯾﺐ
ﮐﮭﯿﻨﭻ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ
ﮐﺎﻥ
ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﺳﮯ
ﺑﻮﻻ
ﺗﻮ ﺗﻢ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﯿﺮﮮ
ﺩﻝ
ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮ ﮔﯽ
ﺍﻭﺭ
ﺳﺎﺗﮫ
ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺻﺒﺎ ﮐﯽ
ﮔﺮﺩﻥ
ﮐﻮ ﮐﺲ ﮐﺮﻧﺎ
ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ,
ﺻﺒﺎ ﺍﺏ
ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ
ﺑﻠﮑﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﭘﺮ
ﻟﺪﯼ
ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
, ﻣﯿﮟ
ﮔﺮﺩﻥ
ﺳﮯ ﺁﮨﺴﺘﮧ
ﺁﮨﺴﺘﮧ
ﺻﺒﺎ
ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﯽ
ﻃﺮﻑ
ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﺍﯾﮏ ﺩﻡ
ﺳﮯ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﻮﻣﻞ
ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ
ﮐﻮ ﭼﻮﺳﻨﺎ
ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﺏ
ﺻﺒﺎ
ﮐﺴﻤﺴﺎ
ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ
ﺍﯾﺴﺎ
ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺟﯿﺴﮯ
ﻭﮦ
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ
ﭘﯿﻮﺳﺖ
ﮨﻮ
ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ, ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﮐﺲ
ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﯽ
ﺷﺮﭦ
ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ
ﺍﺏ
ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺷﮕﻮﺍﺭ
ﺳﯽ
ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮﺋﯽ
ﮐﮧ
ﺻﺒﺎ
ﮐﮯ 34 ﺳﺎﺋﺰ ﮐﮯ
ﻣﻤﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺩﺳﺘﺮﺱ
ﻣﯿﮟ
ﺗﮭﮯ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﻮ
ﻧﯿﭽﮯ
ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ
ﺍﺱ
ﮐﮯ
ﺍﻭﭘﺮ ﺁﮔﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﮨﺎﺗﮫ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﺮﭦ
ﻣﯿﮟ
ﮈﺍﻝ
ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﻮﻝ
ﺍﻭﺭ
ﺳﺘﻮﺍﮞ
ﻣﻤﮯ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ
ﺍﻧﮩﯿﮟ
ﺩﺑﺎﻧﮯ
ﻟﮕﺎ , ﺻﺒﺎ ﺍﺏ
ﻣﺰﮮ
ﺳﮯ ﺁﮨﯿﮟ ﺑﮭﺮ
ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ
ﻣﺰﮮ ﺳﮯ
ﺍﺱ
ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﭼﻮﺳﮯ
ﺟﺎ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ
ﺍﯾﺴﺎ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺻﺒﺎ ﮐﻮ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺍﻭﭘﺮ
ﮐﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﮐﯽ ﺷﺮﭦ
ﺍﺗﺎﺭ
ﺩﯼ ﺍﺏ
ﺟﻮ ﻣﻨﻈﺮ
ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ
ﭘﺎﮔﻞ
ﮐﯿﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
,
ﺻﺮﺍﺣﯽ
ﺩﺍﺭ ﺷﻔﺎﻑ
ﮔﺮﺩﻥ
, ﻏﺮﻭﺭ ﺳﮯ ﺗﻨﮯ
ﮨﻮﺋﮯ
ﻣﻤﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ
ﮐﮯ
ﺑﺎﮨﺮ
ﮐﻮ ﻧﮑﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﻼﺑﯽ
ﻣﺎﺋﻞ
ﻧﭙﻠﺰ , ﺍﺳﮑﮯ ﻧﯿﭽﮯ
ﺻﺒﺎ
ﮐﺎ ﭼﭙﭩﺎ ﭘﯿﭧ ﺍﻭﺭ
ﭘﺘﻠﯽ
ﺳﯽ ﮐﻤﺮ , ﺍﺏ ﻣﺎﻧﻮ
ﺗﻮ
ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﭘﯿﻨﭧ
ﭘﮭﺎﮌ ﮐﺮ
ﺑﺎﮨﺮ
ﺁﻧﮯ ﮐﻮ
ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﮟ
ﺟﻨﻮﻧﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ
ﻣﯿﮟ
ﺻﺒﺎ
ﮐﮯ ﻣﻤﻮﮞ ﭘﺮ ﭨﻮﭦ
ﭘﮍﺍ
ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺱ
ﭼﻮﺱ ﮐﺮ
ﺍﻥ
ﮐﯽ ﺍﮐﮍ ﺍﻭﺭ
ﻏﺮﻭﺭ
ﺗﻮﮌﻧﮯ
ﻟﮕﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ
ﺩﺍﺋﯿﮟ
ﺳﮯ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻟﭙﮑﺘﺎ
ﺗﻮ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺳﮯ
ﺩﺍﺋﯿﮟ,
ﭼﻨﺪ ﮨﯽ ﻣﻨﭧ
ﻣﯿﮟ
ﺻﺒﺎ ﮐﮯ ﮔﻼﺑﯽ ﻧﭙﻞ
ﺳﺮﺧﯽ
ﻣﺎﺋﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﻭﺭ
ﺻﺒﺎ ﮐﯽ ﺁﮨﻮﮞ
ﺳﮯ
ﮐﻤﺮﮦ
ﮔﻮﻧﺞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
, ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺁﮨﺴﺘﮧ
ﺁﮨﺴﺘﮧ
ﻧﯿﭽﮯ
ﮐﺎ
ﺳﻔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ
ﺍﻭﺭ
ﺻﺒﺎ
ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﮐﻮ ﭼﺎﭨﺘﮯ
ﮨﻮﺋﮯ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﭨﺮﻭﺍﺅﺯﺭ
ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ
ﻟﮕﺎ , ﺻﺒﺎ ﻧﮯ ﮔﺎﻧﮉ
ﺍﭨﮭﺎ
ﮐﺮ ﭨﺮﺍﺅﺯﺭ ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ
ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ
ﮐﯽ,
ﺟﯿﺴﮯ
ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ
ﮐﺎ
ﭨﺮﺍﻭﺯﺭ ﺍﺗﺎﺭﺍ
ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ
ﺑﺠﻠﯽ
ﭼﻤﮏ ﺍﭨﮭﯽ,
ﺻﺒﺎ
ﮐﯽ
ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭼﻮﺕ
ﭘﺎﻧﯽ
ﭘﺎﻧﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﮐﮯ
ﮔﻼﺑﯽ ﻟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮭﻞ
ﺭﮨﮯ
ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ
ﺭﮨﮯ
ﺗﮭﮯ , ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﺒﺎ
ﮐﯽ
ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﭘﺲ
ﻣﯿﮟ
ﻣﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﻟﮉ
ﮐﺮ
ﮐﮯ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ
ﺳﮯ
ﻟﮕﺎ
ﺩﯾﺎ ,
ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺻﺒﺎ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ
ﮨﻮﻧﭧ
ﺭﮐﮭﮯ ﺗﻮ
ﺍﺱ ﻧﮯ
ﻣﺰﮮ
ﻣﯿﮟ ﮨﻠﮑﯽ ﺳﮯ
ﭼﯿﺦ
ﻣﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ
ﻧﯿﭽﮯ
ﺳﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺎﻧﮉ
ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯽ
ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﮐﻮ
ﺍﭘﻨﮯ
ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ
ﭼﻮﺕ
ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﺩﮬﮑﯿﻠﻨﮯ
ﻟﮕﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺑﮭﯽ
ﺟﻮﺵ ﻣﯿﮟ
ﺁﮐﺮ ﺻﺒﺎ
ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ ﻣﻨﮧ
ﻣﯿﮟ ﻟﯽ
ﺍﻭﺭ
ﺍﺳﮯ ﭼﻮﺳﻨﮯ
ﻟﮕﺎ
ﺟﺘﻨﯽ
ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ
ﺍﺳﮯ
ﭼﻮﺱ ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎ ﺍﺱ
ﺳﯽ
ﺩﻭﮔﻨﯽ ﺷﺪﺕ
ﺳﮯ
ﺻﺒﺎ
ﮐﯽ ﺁﮨﯿﮟ ﺑﻠﻨﺪ
ﮨﻮ
ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ
ﺷﺪﺕ
ﭘﺮ ﺍﮐﺴﺎ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯿﮟ
ﺍﺏ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ
ﮐﻮ ﺑﮭﻨﺒﮭﻮﮌﻧﺎ
ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ
, ﺻﺒﺎ
ﮐﯽ
ﭼﯿﺨﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﻤﺮﮮ
ﻣﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﻃﻮﻓﺎﻥ
ﺍﭨﮭﺎ
ﺩﯾﺎ
ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ
ﮐﺮ
ﺍﺱ
ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ
ﺳﮯ
ﺩﺑﺎﯾﺎ
ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ
ﺯﺑﺎﻥ
ﺻﺒﺎ
ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ
ﺩﺍﺧﻞ
ﮐﺮ ﺩﯼ ﮐﭽﮫ
ﮨﯽ
ﺩﯾﺮ
ﻣﯿﮟ ﺻﺒﺎ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ
ﺍﮐﮍﻧﺎ
ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ,
ﺍﺏ
ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ
ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ
ﺻﺒﺎ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ
ﺯﺑﺎﻥ
ﮔﮭﻤﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ
ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ
ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺮ
ﺍﭘﻨﯽ
ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﺩﺑﺎﯾﺎ
ﮨﻮﺍ
ﺗﮭﺎ
, ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ
ﻣﺰﮮ ﮐﯽ
ﺍﻧﺘﮩﺎ
ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺻﺒﺎ
ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ ﻧﮯ ﭘﺎﻧﯽ
ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
ﺍﺏ
ﺻﺒﺎ ﻣﺰﮮ ﺳﮯ ﺁﮨﯿﮟ
ﺑﮭﺮ
ﺭﮦ ﺗﮭﯽ
ﺍﺱ ﮐﯽ
ﺁﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﻟﺬﺕ ﺍﻭﺭ
ﻃﻠﺐ
ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﻣﺘﺰﺍﺝ
ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭨﺮﺍﺅﺯﺭ
ﻧﯿﭽﮯ
ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ 8 ﺍﻧﭻ
ﻟﻤﺒﺎ
ﺍﻭﺭ
3 ﺍﻧﭻ ﺳﮯ
ﺯﯾﺎﺩﮦ
ﻣﻮﭨﺎ
ﻟﻦ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮﺻﺒﺎ
ﮐﮯ
ﻣﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﺮ ﮐﮯ
ﮐﮩﺎ
ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﭼﻮﺳﻮ
, ﺻﺒﺎ
ﮐﯽ
ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ
ﻟﻦ
ﺩﯾﮑﮫ
ﮐﺮ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺑﻞ ﭘﮍﯼ
ﺗﮭﯿﮟ
, ﻣﯿﮟ ﻧﮯﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ
ﮐﮩﺎ
ﺻﺒﺎ ﮔﮭﺒﺮﺍﻭ ﻣﺖ ﯾﮧ
ﺁﺝ
ﺳﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ
ﮨﯽ ﮨﮯ , ﺗﻮ ﺻﺒﺎ
ﮔﮭﺒﺮﺍﺋﯽ
ﮨﻮﺋﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ
ﺑﻮﻟﯽ
ﺑﮭﺎﺋﯽ ﭘﻠﯿﺰ ﺍﺳﮯ
ﭼﻮﺕ
ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ
ﺩﯾﮟ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻮﺱ ﺳﮑﻮﮞ
ﮔﯽ,
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻟﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ
ﭘﺮ ﭘﮭﯿﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﺮ
ﺩﯾﺎ ﺍﺏ
ﺻﺒﺎ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ
ﮔﺮﻡ
ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ , ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ
ﮐﮯ
ﻗﺮﯾﺐ
ﻣﻨﮧ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﺳﺎﻟﯽ
ﺟﯽ ﺍﺏ ﻟﻦ ﺍﻧﺪﺭ
ﺟﺎﻧﺎ
ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ
ﺍﺟﺎﺯﺕ
ﺩﻭ ﺍﻧﺪﺭ
ﺟﺎﻧﮯ
ﮐﯽ
, ﺻﺒﺎ ﺑﻮﻟﯽ ﺑﮭﯿﺎ ﺁﭖ
ﺍﯾﮏ
ﺩﻡ ﺍﻧﺪﺭ
ﮈﺍﻟﻨﺎ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺷﺶ
ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ ﮐﮧ
ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ
ﮐﺮ ﺳﮑﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺻﺒﺎ ﮐﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﮐﻮ
ﻣﮑﻤﻞ
ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﮭﻮﻻ
ﺍﻭﺭ
ﺑﯿﭻ
ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﻟﻦ ﮐﺎ
ﭨﻮﭘﺎ
ﺻﺒﺎ ﮐﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﭘﺮ
ﺳﯿﭧ
ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﮑﺎ
ﻟﮕﺎ
ﮐﺮ
ﻟﻦ ﺍﻧﺪﺭ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ
ﮐﻮﺷﺶ
ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ
ﻣﮕﺮ
ﭼﻮﺕ ﺗﻨﮓ
ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ
ﻭﺟﮧ
ﺳﮯ ﻟﻦ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ
ﭘﮭﺴﻞ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺻﺒﺎ
ﺑﻮﻟﯽ
ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺍﺏ ﺻﺒﺮ
ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺭﮨﺎ ﭘﻠﯿﺰ
ﮈﺍﻝ
ﺩﯾﮟ
ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻨﻨﺎ
ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﻟﻦ ﮐﻮ ﺳﺎﻟﯽ ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ
ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﻧﺎ
ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﯿﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﭨﻮﭘﮯ
ﮐﺎ
ﺳﺮﺍ
ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺍﻧﺪﺭ
ﮔﯿﺎ
ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺻﺒﺎ ﮐﮧ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ
ﮨﻠﮑﯽ
ﺳﯽ ﭼﯿﺦ ﻧﮑﻠﯽ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﺱ
ﮐﺎ
ﻣﻨﮧ ﺩﺑﺎﯾﺎ
ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﯽ
ﺯﻭﺭ
ﺳﮯ ﺩﮬﮑﺎ ﻣﺎﺭﺍ
ﮐﮧ
ﺻﺒﺎ
ﮐﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﺑﮑﺎﺭﺕ
ﮐﻮ
ﭼﯿﺮﺗﮯ
ﮨﻮﺋﮯ ﻟﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ
ﻣﯿﮟ ﺟﮍ ﺗﮏ ﮐﮭﺐ
ﮔﯿﺎ,
ﺻﺒﺎ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺯﻭﺭ
ﺳﮯ
ﭼﯿﺦ ﻣﺎﺭﯼ ﮐﮧ ﻣﻨﮧ
ﺩﺑﺎ
ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ
ﺍﺱ
ﮐﯽ
ﭼﯿﺦ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﮔﻮﻧﺠﯽ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ
ﺫﺑﺢ
ﮨﻮﺗﯽ
ﮨﻮﺋﯽ ﺑﮑﺮﯼ ﮐﯽ
ﻃﺮﺡ
ﺗﮍﭘﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﻣﮕﺮ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺑﻨﺎ ﺭﮐﮯ ﺳﺎﺭﺍ
ﻟﻦ
ﺑﺎﮨﺮ
ﻧﮑﺎﻻ ﺻﺮﻑ ﭨﻮﭘﺎ
ﺍﻧﺪﺭ
ﺭﮨﻨﮯ ﺩﯾﺎ
ﺩﻭ ﺳﮯ
ﺗﯿﻦ
ﺳﯿﮑﻨﮉ ﮐﺎ ﻭﻗﻔﮧ ﺩﮮ
ﮐﺮ
ﭘﻮﺭﺍ ﻟﻦ ﭘﮭﺮ
ﺳﮯ ﺍﺱ
ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ
ﺩﺍﺧﻞ
ﮐﺮﺩﯾﺎ
ﯾﮧ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﺍﺗﻨﺎ
ﺷﺪﯾﺪ
ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ
ﭨﭩﻮﮞ
ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﭼﻮﭦ
ﭘﮍﯼ
, ﺻﺒﺎ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ
ﺳﮯ
ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﻨﮯ
ﻟﮕﮯ , ﺍﺏ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﮯ ﻣﻤﮯ ﻣﻨﮧ
ﻣﯿﮟ
ﻟﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ
ﮐﻮ
ﭼﻮﺳﻨﮯ
ﻟﮕﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ
ﺩﮬﮑﮯ ﺑﮭﯽ
ﺟﺎﺭﯼ
ﺗﮭﮯ
ﺍﻭﺭ ﻟﻦ ﺍﭘﻨﯽ
ﭘﻮﺭﯼ
ﺗﯿﺰﯼ
ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ
ﭼﻮﺕ
ﮐﻮ ﮐﮭﺪﯾﮍ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺻﺒﺎ
ﮐﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﮔﮭﭩﯽ
ﭼﯿﺨﯿﮟ
ﻣﺠﮭﮯ ﺟﻨﻮﻧﯽ
ﺳﺎ
ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﺟﺲ
ﻭﺟﮧ ﺳﮯﻣﯿﮟ
ﭘﻮﺭﯼ
ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﺍﺱ
ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ
ﮐﻮ ﭼﻮﺩ ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎ
ﺻﺒﺎ
ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ
ﮐﮯ
ﺍﺷﺎﺭﮮ
ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻨﮧ
ﺳﮯ
ﮨﺎﺗﮫ ﮨﭩﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﻮﻻ
ﺟﯿﺴﮯ
ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮨﺎﺗﮫ
ﮨﭩﺎﯾﺎ
ﺻﺒﺎ ﺑﻠﺒﻼﻧﮯ ﻟﮕﯽ
ﺑﮭﺎﺋﯽ
ﭘﻠﯿﺰ ﺭﮎ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﻣﯿﮟ
ﻣﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﯽ ﻣﺠﮫ
ﺳﮯ
ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺭﮨﺎ
, ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﮯ
ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ
ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ
ﻣﯿﮟ
ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ
ﺳﮯ
ﭘﻮﺭﯼ
ﻗﻮﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺟﮭﭩﮑﺎ
ﻣﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ
ﻟﻦ ﺟﮍ
ﺗﮏ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ
ﻣﯿﮟ
ﮈﺍﻝ
ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﺭﮎ ﮐﺮ ﺻﺒﺎ
ﮐﻮ
ﮐﺲ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ, ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً
2 ﻣﻨﭧ ﺭﮐﻨﮯ
ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﻟﻦ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﺎﻝ
ﺑﻐﯿﺮ
ﮨﯽ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻟﮕﺎﻧﮯ
ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﺮﺩﯾﺌﮯ ﺍﺏ
ﺻﺒﺎ
ﮐﻮ
ﺑﮭﯽ ﻣﺰﺍ ﺁﻧﺎ
ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ
ﮔﯿﺎ
ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ
ﭘﻮﺭﯼ
ﺷﺪﺕ
ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ
ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ
ﮐﻮ ﭼﻮﺱ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ
.ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ
ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻤﮯ
ﭘﮑﮍﮮ
ﺍﻭﺭ ﻟﻦ ﮐﻮ
ﺍﯾﮏ
ﺭﺩﮬﻢ
ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺮﻧﮯ
ﻟﮕﺎ
ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺮ ﺩﮬﮑﺎ
ﺍﺗﻨﺎ
ﺷﺪﯾﺪ
ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﻮﺭﺍ ﻟﻦ ﺟﮍ
ﺗﮏ
ﺍﻧﺪﺭ
ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﯽ
ﮨﯽ
ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ
ﺁﺗﺎ
,
ﮐﭽﮫ
ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻟﻦ
ﺑﺎﮨﺮ
ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭﺻﺒﺎ ﮐﻮ
ﮈﻭﮔﯽ
ﺳﭩﺎﺋﻞ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ
ﺑﻮﻻ
ﺍﺳﮑﯽ ﻧﻈﺮ
ﺟﯿﺴﮯ
ﮨﯽ
ﺑﯿﮉ ﺷﯿﭧ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ
ﻭﮦ
ﺍﭘﻨﮯ
ﺧﻮﻥ ﺳﮯ ﺳﺮﺥ
ﮨﻮﺋﯽ
ﺟﮕﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ
ﭘﮭﺮ
ﺳﮯ
ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ
ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ
ﺩﯾﮑﮫ
ﻟﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ
ﮐﯿﺎ
ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﺗﻢ
ﮐﻮ ﺑﺮﺍ ﻟﮕﺎ
ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺮ
ﮐﻮ
ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ
ﮨﻼ ﮐﺮ
ﺑﻮﻟﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ
ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ
ﮨﯽ
ﮔﮭﭩﻨﻮﮞ
ﮐﮯ ﺑﻞ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ
ﺍﺱ
ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﮩﻨﯿﺎﮞ
ﺑﯿﮉ
ﭘﺮ
ﭨﮑﺎ ﺩﯾﮟ ,
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﭘﯿﭽﮭﮯ
ﺳﮯ ﺁ ﮐﺮ ﺍﺱ
ﮐﯽ
ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ
ﻣﻼ
ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﺧﻮﺩ ﺍﺱ
ﮐﮯ
ﺍﻭﭘﺮ
ﺁ ﮔﯿﺎ
, ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ
ﻟﻦ
ﭘﮭﺮ
ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﻟﯽ
ﮐﯽ
ﭼﮭﻮﭨﯽ
ﺳﯽ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ
ﺟﺎﻧﮯ
ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﺎ
, ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﻟﻦ ﮐﺎ ﭨﻮﭘﺎ ﺻﺒﺎ ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ
ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ
ﮐﯽ ﮐﻤﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ
ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﭘﮑﮍ
ﮐﺮ
ﺻﺒﺎ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻧﺐ
ﮐﮭﯿﻨﭽﺎ
ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ
ﮨﯽ
ﭘﯿﭽﮭﮯ
ﺳﮯ ﺯﻭﺭ ﮐﺎ ﺩﮬﮑﺎ
ﻣﺎﺭﺍ
, ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﺟﺴﻢ
ﭨﮑﺮﺍﻧﮯ
ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ
ﺍﻭﺭ
ﭘﻮﺭﺍ
ﻟﻦ ﺻﺒﺎ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ
ﻣﯿﮟ
ﮔﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺻﺒﺎ ﮐﻮ ﮐﻤﺮ ﺳﮯ ﻧﮧ
ﭘﮑﮍﺍ
ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﯾﻘﯿﻨﺎً
ﮔﺮ
ﺟﺎﺗﯽ,
ﺁﮦ ﺁﮦ
ﺁﮦ ﺁﮦ
ﺁﻭﮞ
ﺁﻭﮞ
ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﻧﮑﻠﻨﺎ
ﺷﺮﻭﻉ
ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ ﺗﮭﯽ, ﻭﮦ
ﻣﺰﮮ
ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺩ
ﺳﮯ ﭼﻼ
ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ
ﻃﺮﺡ
ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﺍ
ﺟﮭﭩﮑﺎ
ﻣﺎﺭﺍ
, ﺻﺒﺎ ﮐﯽ ﺁﮨﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ
ﺑﻠﻨﺪ
ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺭﺩﮬﻢ ﺑﻨﺎ
ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﭨﻮﭘﮯ
ﺗﮏ
ﻟﻦ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﺎﻟﺘﺎ ﺍﻭﺭ
ﺻﺒﺎ
ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ
ﮐﮭﯿﻨﭽﺘﮯ
ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﺭﯼ
ﺯﻭﺭ
ﺳﮯ ﺩﮬﮑﺎ ﻣﺎﺭ
ﺩﯾﺘﺎ
ﺍﺏ
ﺗﻮ ﺻﺒﺎ ﮐﯽ ﻣﺰﮮ
ﺑﮭﺮﯼ
ﺳﺴﮑﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﻤﺮﺍ
ﺳﺮ
ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺎ
ﺗﮭﺎ ﮐﭽﮫ
ﮨﯽ
ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ
ﺻﺒﺎ ﮐﺎ
ﺟﺴﻢ
ﮐﺎﻧﭙﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﻧﮯ
ﻣﺰﮮ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ
ﺳﮯ
ﺩﻭﺳﺮﯼ
ﺑﺎﺭ ﭼﻮﺕ
ﺳﮯ
ﭘﺎﻧﯽ
ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ
ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ
ﻟﻦ
ﺁﺳﺎﻧﮯ
ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺑﺎﮨﺮ
ﺟﺎ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﭽﮫ
ﺩﯾﺮ ﺍﺳﯽ
ﺣﺎﻟﺖ
ﻣﯿﮟ
ﺍﺳﮯﭼﻮﺩﻧﮯ
ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﻟﻦ
ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﺎﻻ ﺻﺒﺎ ﮐﻮ
ﺳﯿﺪﮬﯽ
ﮐﺮ ﮐﮯ ﻟﭩﺎ ﺩﯾﺎ
ﺍﻭﺭ
ﺍﺳﮑﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ
ﮐﻮ
ﻟﻤﺒﺎﺋﯽ
ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮐﺮ
ﮐﮯ
ﻟﻦ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ
ﭘﮭﺮ
ﺍﺳﮑﯽ
ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ
ﮈﺍﻻ
ﻣﮕﺮ
ﭘﻮﺭﺍ ﺍﻧﺪﺭ
ﻧﮧ ﮔﯿﺎ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﺳﮯ ﺗﮑﯿﮧ
ﺍﭨﮭﺎ
ﮐﺮ ﺻﺒﺎ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﮯ
ﻧﯿﭽﮯ
ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ
ﭘﮭﺮ ﺳﮯ
ﺟﮭﭩﮑﺎ
ﻣﺎﺭﺍ ﺍﺏ
ﮐﯽ ﺑﺎﺭ
ﭘﻮﺭﺍ
ﻟﻦ ﺻﺒﺎ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ
ﻣﯿﮟ
ﭼﻼ ﮔﯿﺎ, ﺻﺒﺎ ﻧﮯ
ﺍﭘﻨﮯ
ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﻭﺯﻥ ﺍﭘﻨﮯ
ﺑﺎﺯﺅﮞ
ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﻟﯿﺎ
ﻣﯿﮟ
ﺟﻮﮞ
ﮨﯽ ﻟﻦ ﮐﻮ ﺩﮬﮑﯿﻠﺘﺎ
ﺗﻮ
ﺻﺒﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺎﻧﮉ
ﺍﭨﮭﺎ
ﺩﯾﺘﯽ
ﺟﺲ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﻟﻦ
ﺍﻧﺪﺭ
ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ,. ﺻﺒﺎ
ﻣﺰﮮ
ﮐﯽ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ
ﻟﻤﺒﯽ
ﻟﻤﺒﯽ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ ﺑﮭﺮ
ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ
ﯾﮧ
ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺰﺍ ﺩﮮ
ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ
ﺑﮭﯽ
ﻭﻗﺖ
ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﮟ
ﺻﺒﺎ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ
ﺍﭘﻨﮯ
ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻗﯿﺪ
ﮐﯿﮯ
ﺍﻭﺭ ﭨﮭﮑﺎ
ﭨﮭﮏ ﺍﺳﮯ
ﭼﻮﺩﮮ
ﺟﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﭽﮫ
ﮨﯽ
ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ
ﻧﮯ
ﺍﺳﮑﯽ ﭼﻮﺕ
ﻣﯿﮟ
ﻻﻭﺍ
ﺍﮔﻠﻨﺎ
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺎ
ﻣﯿﮟ
ﺍﺳﮑﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﮨﯽ
ﻓﺎﺭﻍ
ﮨﻮ ﮔﯿﺎ, ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﻟﻦ ﺍﻧﺪﺭ
ﮨﯽ ﮈﺍﻟﮯ
ﺭﮐﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺎ
ﮐﻮ ﮐﺲ
ﮐﺮﺗﺎ
ﺭﮨﺎ
.
ﺟﺐ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﮯ
ﮨﻮﻧﭧ
ﭼﮭﻮﮌﮮ ﺗﻮ ﻭﮦ
ﺑﻮﻟﯽ
ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﺎﻝ
ﻟﯿﻨﺎ
ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ
ﭘﺮﯾﮕﻨﻨﭧ
ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ
ﮨﻮﻧﮯ
ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ
ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺍﭨﮭﺎ
ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ
ﺟﯿﺐ
ﺳﮯ ﭨﯿﺒﻠﭩﺲ ﮐﺎ
ﭘﺘﮧ
ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ
ﺩﯾﺎ ﮐﮧ
ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ
ﺩﻭ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ
ﮐﮭﺎﻧﯽ
ﮨﯿﮟ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺍﯾﮏ
ﻣﮩﯿﻨﮯ
ﺗﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﻮ
ﺳﯿﮑﺲ
ﮐﺮﻭ ﮐﻮﺋﯽ
ﻣﺴﺌﻠﮧ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﺏ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﻮ ﺑﺎﺯﺅﻭﮞ
ﻣﯿﮟ
ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﺵ
ﺭﻭﻡ
ﻣﯿﮟ
ﻟﮯ ﮔﯿﺎ, ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﺍﮐﭩﮭﮯ
ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺎﮨﺮ
ﻧﮑﻠﮯ
ﺍﻭﺭ ﮐﭙﮍﮮ
ﭘﮩﻦ
ﻟﯿﮯ
, ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﻨﮯ
ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﻮ
ﻟﻤﺒﯽ
ﺳﯽ ﮐﺲ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ
ﺻﺒﺎ
ﺍﮔﻠﯽ ﺭﺍﺕ
ﻣﻠﻨﮯ ﮐﺎ
ﻭﻋﺪﮦ
ﮐﺮ ﮐﮯ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ
ﻟﯿﮯ
ﺣﻨﺎ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﯿﭽﮯ
ﭼﻠﯽ
ﮔﺌﯽ .
ﺍﮔﻠﮯ
ﺩﻥ ﻣﯿﮟ
ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ
ﺳﮯ
ﺍﭨﮭﺎ ﻧﮩﺎﻧﮯ
ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﻣﯿﮟ
ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ
10
ﺑﺞ
ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺣﻨﺎ
ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ
ﺗﻮ ﺍﺱ
ﻧﮯ
ﺻﺒﺎ ﮐﻮ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺗﯿﺎﺭ
ﮐﺮﻧﮯ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ
,
ﺻﺒﺎ
ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ
ﮐﺎﻓﯽ
ﻓﺮﯾﺶ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ
ﮐﺮ
ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ
ﻟﮕﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﺟﻠﺪﯼ
ﺳﮯ ﺷﺮﻣﺎ ﮐﺮ ﺳﺮ
ﺟﮭﮑﺎ
ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ
ﻣﯿﮟ
ﮨﯽ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ
ﮐﺮ ﺍﺱ
ﺍﭘﻨﯽ
ﺟﺎﻧﺐ ﮐﮭﯿﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ
ﺍﭨﮭﺎ
ﮐﺮ ﮈﺍﺋﻨﻨﮓ
ﭨﯿﺒﻞ ﭘﺮ
ﺑﯿﭩﮭﺎ
ﺩﯾﺎ, ﺻﺒﺎ
ﺗﮭﻮﮌﺍ
ﮔﮭﺒﺮﺍ
ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ
ﺑﮭﺎﺋﯽ
ﺣﻨﺎ ﺟﺎﮒ ﺭﮨﯽ
ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ
ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺁ
ﺟﺎﺋﮯ
ﺳﻮ ﭘﻠﯿﺰ ﺍﺑﮭﯽ
ﻧﮩﯿﮟ
, ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﻠﮑﯽ
ﺳﯽ
ﮐﺲ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ
ﭼﮭﮍ
ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﮐﮩﺎ ﭨﮭﯿﮏ
ﮨﮯ
ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﺎﺭﺍ
ﺣﺴﺎﺏ
ﺑﺮﺍﺑﺮ
ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ , ﺻﺒﺎ
ﺟﻠﺪﯼ
ﺳﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ
ﻣﯿﮟ
ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ
ﺟﺐ
ﻭﮦ ﺭﻭﭨﯽ
ﺑﯿﻞ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ
ﺳﯽ
ﮔﺎﻧﮉ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺑﺎﮨﺮ
ﻧﮑﻠﯽ
ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺩﻝ ﺗﻮ
ﮐﺮ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﭨﮫ ﮐﺮ
ﻟﻦ ﺍﺱ
ﭼﮭﻮﭨﯽ
ﺳﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﻣﯿﮟ
ﮔﮭﺴﺎ
ﺩﻭﮞ ﻣﮕﺮ
ﯾﮧ ﺳﻮﭺ
ﮐﺮ
ﺻﺒﺮ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ
ﺭﺍﺕ
ﺍﺱ ﮔﺎﻧﮉ
ﮐﺎ ﮨﯽ
ﻧﻤﺒﺮ
ﻟﮕﮯ ﮔﺎ, ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺗﯿﺎﺭ
ﮨﻮﺍ
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ
ﺳﮯ
ﻧﺎﺷﺘﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻨﺎ
ﮐﮯ
ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﺟﺎ ﮐﺮ
ﺍﺱ
ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﮔﮭﺮ
ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ ﻣﯿﺮﺍ
ﺍﺭﺍﺩﮦ
ﭘﮩﻠﮯ ﭼﭽﺎ ﮐﯽ
ﻃﺮﻑ
ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ
ﮐﯽ
ﺷﺎﺩﯼ
ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ
ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ
ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ
ﺷﮩﺮ
ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ
ﻟﯿﮯ
ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﺟﺎ ﮐﺮ
ﻣﺒﺎﺭﮎ
ﺑﺎﺩ ﺩﯾﻨﮯ
ﮐﮯ
ﻋﻼﻭﮦ
ﻣﻌﺬﺭﺕ ﺑﮭﯽ
ﮐﺮ
ﺁﺅﮞ
, ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺑﺎ
ﺍﻭﺭ
ﭼﭽﺎ ﺩﻭ ﮨﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ
ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻓﯽ
ﭘﯿﺎﺭ ﺑﮭﯽ
ﮨﮯ
ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﭼﭽﺎ
ﻧﮯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ
ﺩﻭﻟﺖ
ﺍﻭﺭ ﺍﭼﮭﺎ
ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ
ﮨﻮﻧﮯ
ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ
ﺑﮭﯽ
ﮐﺒﮭﯽ
ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ
ﺭﮐﮭﺎ
ﺗﮭﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ
ﺗﮭﺎ
ﺗﻮ ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﺍ
ﮐﺎﻓﯽ
ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ
ﮐﻮﺋﯽ
13ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﯾﮧ
ﮐﮩﮧ
ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ
ﺩﮮ
ﺩﺋﯿﮯ ﺗﮭﮯ
ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ
ﺗﻮ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ
ﮨﯽ ﮨﻮ
ﺍﺳﮯ
ﺑﮭﯽ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ
ﻣﯿﮟ
ﺍﻧﻮﯾﺴﭧ
ﮐﺮﻭ. ﻣﯿﺮﮮ
ﭼﭽﺎ
ﮐﮯ ﺩﻭ ﮨﯽ ﺑﭽﮯ
ﺗﮭﮯ
ﺳﻤﯿﺮ ﺑﮍﺍ ﺑﯿﭩﺎ
ﺟﻮ
ﮐﮧ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ 4 ﺳﺎﻝ
ﭼﮭﻮﭨﺎ
ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﺳﮯ
ﭼﮭﻮﭨﯽ
ﮨﺎﻧﯿﮧ ﺟﻮ ﮐﮧ 17
ﺳﺎﻝ
ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻟﺞ
ﮐﮯ
ﻓﺮﺳﭧ ﺍﺋﯿﺮ ﻣﯿﮟ
ﺗﮭﯽ
, ﺳﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ
ﮐﺎ
ﻧﺎﻡ
ﺳﺤﺮﺵ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ
ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ
ﮐﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ
ﺗﮭﯽ
, ﺳﺤﺮﺵ , ﺳﻤﯿﺮ
ﮐﯽ
ﺧﺎﻟﮧ
ﺯﺍﺩ ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﮐﯽ
ﻋﻤﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮓ ﺑﮭﮓ
20 ﯾﺎ 21 ﺳﺎﻝ
ﺗﮭﯽ .
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﭼﭽﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎ
ﮐﺮ
ﮔﯿﭧ ﭘﺮ ﮨﺎﺭﻥ ﺩﯾﺎ
ﺗﻮ
ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ
ﻧﮯ ﮐﮭﻮﻻ
ﮈﺭﺍﺋﯿﻮ
ﻭﺋﮯ ﻣﯿﮟ
ﮔﺎﮌﯼ
ﭘﺎﺭﮎ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﮐﮧ
ﭼﭽﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ
ﺍﻥ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ
ﻧﻈﺮ
ﻧﮩﯿﮟ
ﺁ ﺭﮨﯽ
ﺗﻮ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ
ﮐﮧ ﭼﭽﺎ
ﺍﻭﺭ
ﺳﻤﯿﺮ ﺗﻮ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ
ﺳﮯ
ﺩﻭﺑﺌﯽ ﮔﺌﮯ
ﮨﻮﺋﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺟﺒﮑﮧ ﭼﭽﯽ ﺍﻭﺭ
ﮨﺎﻧﯿﮧ
ﺭﺍﺕ ﺳﯿﺎﻟﮑﻮﭦ
ﺍﭘﻨﮯ
ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ
ﮔﺌﮯ
ﮨﻮﺋﮯ
ﮨﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ
ﺳﻤﯿﺮ
ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ
ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ
ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮐﺰﻥ
ﺟﻮ
ﮐﮧ ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ
ﺳﮯ ﺁﯾﺎ
ﮨﮯ
.ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ
ﺍﺭﺍﺩﮦ
ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﻞ
ﭼﮑﺮ
ﻟﮕﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ
ﯾﮧ
ﺳﻮﭺ
ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ
ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ
ﻗﺪﻡ
ﺑﮍﮬﺎ ﺩﺋﯿﮯ ﮐﮧ
ﺳﺤﺮﺵ
ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ
ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ
ﺍﺳﮯ
ﺷﺎﺩﯼ
ﮐﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﺑﮭﯽ
ﺩﮮ
ﺩﻭﮞ.
ﻣﯿﮟ
ﻻﻥ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ
ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ
ﺩﺍﺧﻞ
ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﯽ
ﺗﯿﺰ
ﺍﻭﺭ
ﺑﮯ ﮨﻨﮕﻢ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ
ﻣﯿﻮﺯﮎ
ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻤﯿﺮ
ﮐﮯ
ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﺁ
ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﺳﯿﮍﮬﯿﺎﮞ
ﭼﮍﮬﺘﺎ
ﮨﻮﺍ ﺳﻤﯿﺮ
ﮐﮯ
ﮐﻤﺮﮮ
ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮪ
ﮔﯿﺎ,
ﮐﻤﺮﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﭘﮩﻨﭻ
ﮐﺮ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺩﺭﺍﻭﺯﮮ ﮐﻮ ﻧﺎﮎ
ﮐﺮﻧﺎ
ﭼﺎﮨﺎ
ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ
ﺳﮯ ﮨﻠﮑﯽ
ﮨﻠﮑﯽ
ﭼﯿﺨﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ
ﺁﺋﯽ
ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ
ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮭﺎ
ﻭﮨﯿﮟ
ﺭﮎ ﮔﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ
ﺁﻭﺍﺯﻭﮞ
ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ
ﻟﮕﺎ
ﭘﮩﻠﮯ
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ
ﺑﮯ
ﮨﻨﮕﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮩﻮﺩﮦ
ﺍﻧﮕﻠﺶ
ﻣﯿﻮﺯﮎ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ
ﺳﻤﺠﮭﺎ
ﻣﮕﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ
ﭘﺮ
ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺁﻭﺍﺯ
ﺍﺱ
ﻣﯿﻮﺯﮎ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ
ﻧﮩﯿﮟ
ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ
ﮐﮯ ﮨﯿﻨﮉﻝ ﮐﻮ
ﭘﮑﮍ
ﮐﺮ ﮔﮭﻤﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ
ﺑﮯ
ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮭﻞ
ﮔﯿﺎ ﺍﻧﺪﺭ
ﮐﺎ
ﻣﺎﺣﻮﻝ
ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ
ﻣﯿﺮﮮ
ﺗﻮ
ﮨﻮﺵ ﭨﮭﮑﺎﻧﮯ
ﺁﮔﯿﮯ
,
ﺍﯾﮏ
ﻟﮍﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ
ﮐﯽ
ﻃﺮﻑ
ﻣﻨﮧ ﮐﯿﮯ ﮔﺎﻧﮉ ﺑﺎﮨﺮ
ﮐﻮ
ﻧﮑﺎﻟﮯ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ
ﺍﯾﮏ
ﻟﮍﮐﺎ ﮔﮭﭩﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻞ
ﺑﯿﭩﮭﺎ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ
ﮐﻮ
ﭘﯿﭽﮭﮯ
ﺳﮯ ﭼﻮﺱ ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎ
, ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ
ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﺤﺮﺵ ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﮟ
ﺑﮯ
ﺁﻭﺍﺯ ﻗﺪﻣﻮﮞ
ﺳﮯ
ﮐﻤﺮﮮ
ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ
ﺍﻭﺭ
ﮨﻠﮑﮯﺳﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ
ﺑﻨﺪ
ﮐﺮ
ﮐﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﯿﺐ
ﺳﮯ
ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ
ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯿﺎ
(ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ
ﺍﻥ
ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﮐﻮ ﺍﯾﺴﯽ
ﺣﺎﻟﺖ
ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ
ﻣﯿﺮﺍ
ﺷﯿﻄﺎﻧﯽ ﺩﻣﺎﻍ
ﺍﻭﺭ
ﻟﻦ
ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﮨﯽ ﺣﺮﮐﺖ
ﻣﯿﮟ
ﺁ ﮔﺌﮯ
ﺗﮭﮯ ) ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﮐﯿﻤﺮﺍ
ﺁﻥ ﮐﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ
ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﮐﻮ ﻓﻮﮐﺲ ﮐﺮ ﮐﮯ
ﻭﯾﮉﯾﻮ
ﺭﯾﮑﺎﺭﮈﻧﮓ
ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﺮ
ﺩﯼ . ﻭﮦ
ﻟﮍﮐﺎ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ
ﻃﺮﯾﻘﮯ
ﺳﮯ ﺳﺤﺮﺵ ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ
ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ
ﺳﮯ
ﭼﻮﺩ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﺳﺤﺮﺵ
ﻣﺰﮮ
ﺳﮯ ﭼﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﺍﭘﻨﯽ
ﮔﺎﻧﮉ ﮐﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ
ﮐﯽ
ﺟﺎﻧﺐ ﺩﮬﮑﯿﻞ
ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ
ﺟﺲ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﺎ
ﻣﻨﮧ
ﺳﺤﺮﺵ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉ
ﻣﯿﮟ
ﭘﯿﻮﺳﺖ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﻮﺋﯽ
ﺩﻭ ﻣﻨﭧ
ﺍﺳﯽ
ﻃﺮﯾﻘﮯ
ﺳﮯ ﭼﻮﺳﻨﮯ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ
ﻭﮨﺒﻠﮍﮐﺎ
ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ
ﺍﻭﺭ
ﺁﺱ
ﭘﺎﺱ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﺑﻨﺎ
ﺳﺤﺮﺵ
ﮐﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﯽ
ﮨﻮﺋﯽ
ﭼﻮﺕ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ
ﺍﭘﻨﺎ
ﻟﻦ
ﭘﮭﯿﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ , ﺳﺤﺮﺵ
ﯾﮧ
ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ
ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺑﺪﮐﯽ
ﻣﮕﺮ
ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﯾﮏ
ﺑﺎﺯﻭ
ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ
ﮐﻮ
ﺩﯾﻮﺍﺭ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﺑﺎﯾﺎ
ﺍﻭﺭ
ﺳﺤﺮﺵ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ
ﻣﯿﮟ
ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ,
ﺍﺏ
ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ
ﺳﺤﺮﺵ
ﮐﯽ ﭼﺪﺍﺋﯽ
ﺷﺮﻭﻉ
ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ
ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ
ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ
ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ
ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ
ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺳﻤﺠﮭﺎ
ﺍﻭﺭ
ﺩﮬﺎﮌ
ﺳﮯ ﻣﺸﺎﺑﮧ
ﺁﻭﺍﺯ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﻮﻻ " ﯾﮧ
ﮐﯿﺎ
ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﺳﺤﺮﺵ
ﺍﻭﺭ
ﯾﮧ ﻟﮍﮐﺎ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ
" ﻭﮦ
ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﺍﯾﺴﮯ ﭘﻠﭧ
ﺟﯿﺴﮯ
ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ
ﻧﮯ
ﺑﻢ ﭼﻼ ﺩﯾﺎ ﮨﻮ
ﺳﺤﺮﺵ
ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ
ﺑﺲ
ﺍﺗﻨﺎ ﻧﮑﻼ
, ﺍﻭﮦ ﮦ
ﮦ
ﮦ
! ﺍﺣﻤﺮ ﺑﮭﺎﺋﯽ
ﺁﭖ
............ ( ﺳﺤﺮﺵ
ﻣﺠﮭﮯ
ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﯽ
ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﮐﺎﻓﯽ
ﺩﻭﺳﺘﺎﻧﮧ
ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ
ﺍﯾﮏ
ﺩﻭﺳﺮﮮ
ﺳﮯ ﻣﻠﺘﮯ
ﺗﮭﮯ
) ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﮧ
ﮐﺮ ﻭﮦ
ﺳﺎﮐﻦ
ﮨﻮﮔﺌﯽ . ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ
ﻟﮍﮐﺎ
ﺟﻠﺪﯼ ﻣﯿﮟ
ﺍﭘﻨﮯ
ﮐﭙﮍﻭﮞ
ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻟﭙﮑﺎ
ﺍﻭﺭ
ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﻨﮯ
ﻟﮕﺎ ﺍﺱ
ﻧﮯ
ﭘﯿﻨﭧ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ
ﺳﮯ
ﺩﮬﺎﮌﺍ
ﺟﻠﺪﯼ ﮐﭙﮍﮮ
ﭘﮩﻦ
ﺭﻧﮉﯼ
ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﺍﺱ
ﻧﮯﺑﺠﻠﺪﯼ
ﺳﮯ ﺷﺮﭦ
ﭘﮩﻨﯽ
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ
ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ
ﺳﮯ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ
ﺯﻧﺎﭨﮯ
ﺩﺍﺭ ﺗﮭﭙﮍ
ﺍﺱ ﮐﮯ
ﺭﺳﯿﺪ
ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ
ﻧﺎﻡ
ﮐﯿﺎ
ﮨﮯ ﺗﯿﺮﺍ ﺧﺒﯿﺚ
ﺍﻧﺴﺎﻥ
ﻭﮦ ﮔﮭﺒﺮﺍﺋﮯ
ﮨﻮﺋﮯ
ﻟﮩﺠﮯ
ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ ﺟﯽ
ﻉ
....ﻋﺪ ....ﻧﺎﻥ
, ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﮔﮭﺮﮎ
ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ
ﺩﻓﻊ
ﮨﻮ ﺟﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺍﺑﮭﯽ
ﻭﮦ
ﺣﺎﻝ
ﮐﺮﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ
ﺗﯿﺮﮮ
ﻣﺎﮞ
ﺑﺎﭖ ﺑﮭﯽ
ﻧﮩﯿﮟ
ﭘﮩﭽﺎﻧﯿﮟ
ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﺋﻨﺪﮦ
ﺍﺱ
ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺁﺱ
ﭘﺎﺱ
ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮭﺎ ﺗﻮ
ﺳﯿﺪﮬﺎ
ﮔﻮﻟﯽ ﻣﺎﺭ ﺩﻭﮞ
ﮔﺎ
. ﻋﺪﻧﺎﻥ ﻧﮯ ﺟﻠﺪﯼ
ﺳﮯ
ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ
ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻋﺎﻓﯿﺖ
ﺳﻤﺠﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺮﮮ
ﺳﮯ
ﻧﮑﻞ
ﮔﯿﺎ, ﻣﯽ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ
ﺑﮍﮪ
ﮐﺮ ﺩﺭﻭﺯﺍﮦ ﺍﻧﺪﺭ
ﺳﮯ
ﻻﮎ
ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ
ﺑﻨﺪ
ﮨﻮﻧﮯ
ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ
ﺟﯿﺴﮯ
ﺳﺤﺮﺵ ﺳﮑﺘﮯ
ﺳﮯ
ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ
ﺳﮯ
ﺑﯿﮉ ﺷﯿﭧ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ
ﺍﭘﻨﮯ
ﺁﭘﮑﻮ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ
ﻟﮕﯽ ,
ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ
ﮐﺮ
ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﺗﻮ ﻋﺪﻧﺎﻥ
ﺟﻠﺪﯼ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺎﺭ
ﻣﯿﮟ
ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ
ﺳﭩﺎﺭﭦ
ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ
ﮐﯽ ﺗﯿﺰﯼ ﭘﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ
ﮨﻮﺍ
, ﻗﮧ ﮔﺎﮌﯼ ﺳﭩﺎﺭﭦ
ﮐﺮ
ﮐﮯ
ﮔﯿﭧ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ
ﭘﻠﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺤﺮﺵ
ﮐﯽ
ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮫ
ﺗﻮ ﻭﮦ
ﺳﺮ
ﮐﻮ ﺟﮭﮑﺎﺋﮯ ﮐﮭﮍﯼ
ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﮨﻮﻟﮯ
ﮨﻮﻟﮯ
ﮐﺎﻧﭗ
ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﺁﮔﮯ
ﺑﮍﮬﺎ
ﺍﻭﺭ ﺳﺤﺮﺵ
ﮐﮯﺳﺎﻣﻨﮯ
ﺟﺎ ﮐﮭﮍﺍ
ﮨﻮﺍ
.ﺳﺤﺮﺵ ﮐﺎ ﺣﺴﻦ
ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ
ﻻﺋﻖ ﺗﮭﺎ , ﭘﺘﻼ
ﭼﮩﺮﮦ
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﻮﻝ
ﺟﯿﺴﮯ
ﮨﻮﻧﭧ
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ
ﮨﯽ
ﮐﺎﭦ ﮐﮭﺎﻧﮯ
ﮐﻮ ﺩﻝ
ﮐﺮﮮ
ﺍﻭﺭ ﻟﻤﺒﯽ
ﺻﺮﺍﺣﯽ
ﺩﺍﺭ
ﮔﺮﺩﻥ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﮐﮭﻨﮑﺎﺭ
ﮐﺮ
ﺳﺤﺮﺵ ﮐﻮ ﻣﺘﻮﺟﮧ
ﮐﯿﺎ
ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮈﺭﺗﮯ
ﮈﺭﺗﮯ
ﺳﺮ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎ
ﺩﯾﺎ
ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ
ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ
ﻟﮕﯽ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ
ﻣﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺧﻮﻑ
ﺍﻭﺭ
ﺍﻟﺘﺠﺎ
ﺗﮭﯽ, ﻭﮦ ﮐﭙﮑﭙﺎﺗﮯ
ﮨﻮﺋﮯ
ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﯽ
ﺑﮭﺎﺋﯽ
ﭘﻠﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﮏ
ﮔﺌﯽ
ﺗﮭﯽ , ﭘﻠﯿﺰ ﻣﺠﮭﮯ
ﻣﻌﺎﻑ
ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﻣﯿﺮﯼ
ﻋﺰﺕ
ﺍﺏ ﺁﭖ
ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ
ﻣﯿﮟ
ﮨﮯ , ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ
ﻣﻨﮧ
ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎ ﺳﮑﻮﮞ
ﮔﯽ
ﭘﻠﯿﺰ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ
ﮐﺮ
ﺩﯾﮟ .ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺳﺤﺮﺵ
ﮐﻮ
ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﮑﮍﺍ
ﺍﻭﺭ
ﺑﻮﻻ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ
ﮐﭽﮫ
ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ
ﻣﯿﺮﯼ
ﺍﯾﮏ ﺷﺮﻁ
ﮨﮯ ,
ﺳﺤﺮﺵ
ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ
ﺳﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ
ﺩﯾﮑﮭﻨﮯﻟﮕﯽ
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺍﭘﻨﯽ
ﭘﯿﻨﭧ ﮐﯽ ﺯﭖ
ﮐﮭﻮﻝ
ﺩﯼ ﺍﻭﺭ
ﺍﭘﻨﺎ ﻟﻦ
ﺑﺎﮨﺮ
ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ
ﺟﻮ ﺍﺱ
ﻭﻗﺖ
ﻟﻮﮨﮯ ﮐﮯ ﮈﻧﮉﮮ
ﮐﯽ
ﻃﺮﺡ
ﺗﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ
,
ﺳﺤﺮﺵ
ﮐﯽ ﺗﻮ ﺣﯿﺮﺕ
ﺳﮯ
ﺳﯿﭩﯽ ﮔﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ
ﺍﻭﺭ
ﻭﮦ ﺭﻭﮨﺎﻧﺴﯽ
ﮨﻮ ﮐﺮ
ﺑﻮﻟﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﺠﮫ
ﭘﺮ
ﺭﺣﻢ ﮐﺮﯾﮟ
ﭘﻠﯿﺰ ﯾﮧ
ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ , ﺁﭖ ﺳﻤﯿﺮ
ﮐﮯ
ﺑﮍﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ
ﮨﻮ, ﻣﯿﮟ
ﻣﺮ
ﺟﺎﺅﮞ ﮔﯽ ﻣﮕﺮ
ﺍﯾﺴﺎ
ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ
......ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ
ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ
ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ
ﻭﮦ
ﻭﯾﮉﯾﻮ
ﭘﻠﮯ ﮐﺮﺩﯼ ﺟﻮ
ﮐﮧ
ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﻗﺒﻞ
ﺑﻨﺎﺋﯽ
ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ
ﺳﺤﺮﺵ
ﮐﯽ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ
ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﮐﺮ
ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﺑﻮﻻ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ
ﻟﻮ
ﭘﮭﺮ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﮕﺮ
ﯾﺎﺩ
ﺭﮐﮭﻮ ﺟﺲ
ﺣﺎﻟﺖ
ﻣﯿﮟ
ﺗﻢ ﮨﻮ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﻮﮞ
ﺗﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ
ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ
ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ
ﺗﮭﺎ
ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﮐﮧ
ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ
ﺭﺿﺎ
ﻣﻨﺪﯼ ﺳﮯ ﮨﻮ
ﻭﺭﻧﮧ
ﯾﮧ
ﻭﯾﮉﯾﻮ
ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ
ﮨﮯ
, ﺍﺏ ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ
ﺳﺤﺮﺵ
ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ
ﻧﮯ ﺧﻮﻥ ﻧﭽﻮﮌ
ﺩﯾﺎ
ﺗﮭﺎ
ﻭﮦ ﯾﮏ ﭨﮏ
ﻣﯿﺮﯼ
ﻃﺮﻑ
ﺩﯾﮑﮭﯽ
ﺟﺎ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ,
ﻣﯿﮟ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ
ﺍﻭﺭ
ﺑﯿﮉ
ﺷﯿﭧ (ﺟﻮ ﮐﮧ
ﺳﺤﺮﺵ
ﻧﮯ ﻟﭙﯿﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﺗﮭﯽ
) ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ
ﺟﮭﭩﮑﮯ
ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ
ﮐﺮ
ﺩﯾﺎ
,
urdu romantic poetry books pdf download
best urdu romantic novels of all time
urdu romantic novel after marriage download
urdu romantic novels after marriage
urdu romantic novels army based
urdu romantic novels based on rude hero
urdu romantic novels cousin based