نمرہ اور باسط ایک یونیورسٹی میں ہم جماعت تھے۔ پوری
جماعت میں ان کے درمیان بہت بحث و تکرار کسی بھی بات پر ہوجاتی اور آپس میں مقابلہ
بھی بہت ہوتا۔ دونوں پڑھنے لکھنے میں تیز تھے۔ باسط بہت شریف اور سادہ سا لڑکا تھا
اس میں نشہ کرنے اور دوسرے عیب ہرگز نا تھے۔ کلاس میں کبھی نمرہ زیادہ نمبر لے
جاتی کبھی باسط یعنی مقابلہ دونوں میں اوپر نیچے ہوتا رہتا تھا۔ نمرہ کچھ زیادہ
جذباتی تھی اور اس میں اکڑ کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ اپنی عزت یا اوقات پر زرے برابر
بھی بات برداشت نا کرتی اور پوری کلاس میں اکڑ کر کلاس کی لڑکیوں کو اپنے پیچھے
لگائی رکھتی۔ امیر فیملی کی لڑکی تھی اس کو کوئی ڈر خوف بھی نہیں تھام کسی سے بھی
الجھ جاتی تھی۔ اساتذہ کی بہت عزت کرتی مگر بے عزتی پر ان سے بھی تکرار شروع
کردیتی۔ سب اس سے تھوڑا ڈرتے اور اس کی قابلیت کی عزت بھی کرتے اساتذہ کو بھی وہ
اسی بات پر اچھی لگتی تھی کے وہ قابل تھی اور پڑھائی میں اس کی کبھی کوئی شکایت نا
تھی۔ باسط کے بھی کلاس فیلوز سب اس سے بہت پیار کرتے اور اس کے پکے دوست تھے اس کا
ساتھ دیتے اور اس کے ساتھ رہنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ نمرہ جان بوجھ کر گزرتے
گزرتے باسط کو آگ لگانے والی باتیں کرتی کے دیکھیں گے اس بار کون پہلی پوزیشن لیتا
ہے کون زیادہ نمبر یا گریڈ لے گا۔ اور باسط اس کی بس سن لیتا اور اسے دیکھیں گے کا
جواب دے دیتا۔ وہ شاید لڑکی ہونے کے ناتے بھی اس کی عزت کرتا اور اس سے زیادہ بحث
میں نا پڑتا تھا۔ اساتذہ کے سامنے بھی کئی بار ان کی بحث اور لڑائی ہوجاتی اور وہ
دونوں ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اب ان کے فائنل امتحان قریب
تھے تیاریاں خوب زور شور پر تھی۔ پڑھائی کو سبھی پورا پورا وقت دے رہے تھے۔ باسط
اپنی جگہ اور نمرہ اپنی جگہ پہلے سے بھی زیادہ محنت کر رہے تھے۔ اساتذہ اور باقی
کے اسٹوڈنٹس بھی ان دونوں میں مقابلے کے منتظر تھے۔ دونوں کا مقابلہ بھی کسی
الیکشن سے کم نا تھا۔ کلاس میں ایسے نعرے لگائے جاتے جیسے بس وہی دونوں پوزیشن
حاصل کرنے کے لیئے رہ گئے ہیں اور کوئی ان کے مقابلے میں ہے ہی نہیں۔ خیر امتحان
قریب آئے اور سب کے محنت کی سب کے سب اب صرف باسط اور نمرہ کے نتیجے کا انتظار کر
رہے تھے۔ جب نتیجہ نکلا تو باسط نمرہ سے چند نمبر زیادہ لے کر پہلے نمبر پر رہا
اور نمرہ دوسرے نمبر پر۔ باسط کے سب دوستوں نے بہت جشن کیا پوری یونیورسٹی میں اسے
کندھوں پر اٹھائے گھومتے رہے۔ یہ بات نمرہ کو راس نا آئی اور وہ اندر ہی اندر جلتی
گئی اسے اپنی شکست کو دیکھنا قبول ہی نہیں ہورہا تھا۔ وہ دانتوں کو پیس پیس کر
باسط کے ساتھ جشن کرنے والوں پر غصہ کر رہی تھی۔ اب بات اس کی انا پر آگئی تھی۔ تو
پاس کھڑی دوست نے مشورہ دیا کے دشمن کو غصے سے نہیں پیار کی مار مارتے ہیں۔ اور
زبان کڑوی نہیں شہد جیسی میٹھی رکھو اور مٹھی زبان کی تلوار سے اپنے دشمن کو کاٹ
ڈالو۔ نمرہ کی سمجھ میں یہ بات آئی اس نے ایک پلان کیا۔ باسط کی کامیابی کے دن ہی
اس نے کلاس میں جاکر باسط سے بہت پیار سے بات کی۔ جب وہ اس کے پاس گئی تو اس ساری
جماعت دیکھ رہی تھی۔
نمرہ: بہت بہت مبارک ہو باسط۔
باسط: شکریہ!
نمرہ: ہاتھ نہیں ملاو گے؟
باسط: کیوں نہیں ہاتھ ملانے میں کوئی مسئلہ نہیں یہ لو۔
نمرہ: خیر تمہاری محنت تھی شاید میری محنت میں کمی تھی
جو تم سے پیچھے رہی۔
باسط: مممممم
نمرہ: تم حقدار تھے اس مقام کے اور عقلمند تو ہو ہی خیر
میں تمہیں انعام کے طور پر کچھ دینا چاہوں گی۔
باسط: وہ کیا؟
نمرہ: میں تمہاری کامیابی پر ایک پارٹی دینا چاہتی ہوں۔
باسط: اس کی ضرورت نہیں تم نے مبارکباد دی وہ کافی ہے
میرے لیئے۔
نمرہ: ارے کیا ہوگیا ہے اس کا مطلب ہے تم ابھی بھی دل
میں کدورت رکھتے ہو۔
باسط: نہیں ایسی بات نہیں ہم کرلیں گے خود پارٹی کیوں
بوائیز؟
نمرہ: میں پوری کلاس کو دعوت دیتی ہوں۔ اور ایسا ہے تو
میرا خیال ہے کے تم اپنی خوشی میں شامل نہیں کرنا چاہو گے مجھے۔
باسط: نہیں ایسی بھی بات نہیں اتنے برے نہیں ہم۔
ساری کلاس بولنے لگی کے باسط مان جا خوشی سے دعوت دے رہی
ہے نمرہ مان جا سب مل کر انجوائے کریں گے۔ باسط مان جاتا ہے اور نمرہ باسط کی
کامیابی کی خوشی میں ایک شاندار پارٹی کا اپنے فارم ہاوس پر اعلان کرتی ہے۔ سب بہت
پرجوش ہوتے ہیں اور اس پارٹی کا سبھی کو بہت انتظار ہونے لگتا ہے۔ پارٹی کا دن آتا
ہے باسط اپنے دوستوں کے ہمراہ پہنچتا ہے پارٹی کے دن کلاس کے کافی لوگ نہیں آپاتے
مگر پھر بھی جو نمرہ اور باسط کے زیادہ قریب تھے وہ تو ضرور آتے ہیں۔ پارٹی چلتی
ہے کھانا پینا چل رہا ہوتا ہے اور پارٹی میں بہت سے لڑکے لڑکیاں نشے کر رہے ہوتے
ہیں۔ ایک دوسرے کے اوپر گر رہے ہوتے ہیں اور خوب ہنسی مذاق چل رہا ہوتا ہے۔ نمرہ
باسط کو دیکھ دیکھ کر آج اور بھی زیادہ جلتی ہے کے وہ اس قدر خوبصورت لگ رہا ہوتا
ہے کے کلاس کی سب لڑکیاں اور نمرہ کی یونیورسٹی سے ہٹ کر بھی سہیلیاں باسط کی
تعریف کرتی ہیں۔ نمرہ شراب کے گلاس پر گلاس کھینچتی چلی جاتی ہے۔ اور باسط کی طرف
غصے سے دیکھتی جاتی ہے جب بھی وہ کبھی اسے پلٹ کر دیکھتا ہے تو نمرہ آگے سے مسکرا
دیتی۔ ڈانس چل رہا ہوتا ہے اور سب اپنی اپنی گپ شپ میں مگن ہوتے ہیں کے نمرہ ہاتھ
میں شراب کا گلاس لیئے باسط کے پاس جاتی ہے اسے اس کی جگہ سے بہت پیار سے اٹھاتی
ہے۔ باسط بالکل اپنی اصل حالت میں ہوتا ہے اس نے کچھ بھی ایسا نہیں کیا ہوتا کے
ڈگمگائے یا اپنے ہوش میں نا رہے۔ نمرہ باسط کو اسٹیج پر لیجاتی ہے اور ہاتھ میں
شراب کا گلاس لیئے سب کو اپنی طرف مخاطب کرتی ہے۔
نمرہ: ہیلو! آپ سب کے آنے کا شکریہ آج کی شام یہ پارٹی
جو آپ انجوائے کر رہے ہیں باسط کی کامیابی کی خوشی میں ہے۔
سب لوگ شور مچاتے ہیں اور اونچی آواز سے نمرہ کو سراہتے
ہیں۔ ساتھ ہی نمرہ مڑ کر باسط کی طرف دیکھتی ہے تو ہاتھ میں پکڑا شراب سے بھرا
گلاس اچھال کر ساری شراب باسط کے منہ پر پھینک دیتی ہے۔ سب کے سب حیران رہ جاتے
ہیں اور ایک دن سناٹا چھا جاتا ہے۔ نمرہ باسط کے منہ پر تھوکتی ہے اور نشے میں
اسٹیج پر ڈگماتے ہوئے سب کو کہتی ہے۔
نمرہ: یہ پارٹی اس کی ہے؟ یہ یہ ہی یہ ہی سمجھ سسسسس
سمجھ رہے ہو نا آپ سب؟ نہیںییییییی یہ پارٹی یہ پارٹی میری ہے اس کو چیلنج دینے کے
لیئے اگلی بار اگ اگگگ اگلی بار یہ مجھ سے جیت کر دکھائے اگلی بار میر میری
کامیابی کی پارٹی ہوگی۔ اس کی کیا اوقات ہے؟
باسط چپ چاپ غصے سے نمرہ کی اس حرکت پر اس کے چہرے کی
طرف دیکھ رہا ہوتا ہے وہ خاموشی سے کھڑا رہتا ہے۔ نمرہ وہیں کھڑے سگریٹ لگاتی ہے۔
اور سگریٹ کا ایک کش کھینچ کر دھواں باسط کے چہرے پر اڑا کر بولتی ہے چلو بس ختم
پارٹی اور تو تو جو ہے نا تو سب سے پہلے نکل۔ اور تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا چل
دیکھ کیا رہا ہے چل اب کھا پی لیا نا دفعہ ہو یہاں سے چل۔
نمرہ باسط کو بہت زیادہ بے عزت اور رسوا کرتی ہے۔ باسط
اسی وقت چل پڑتا ہے اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور وہ تیزی سے فارم ہاوس کے
باہر کا رخ کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساری پارٹی کا ماحول خراب ہوجاتا ہے اور سب
حالانکہ نمرہ کی اپنی سہیلیاں اسے چھوڑ کر چل پڑتی ہیں۔ وہ چلاتی ہے چیختی ہے کے
تم لوگ تو رکو۔ مگر کوئی نہیں رکتا اس وقت وہ اپنی بھی بے عزتی سمجھ کر وہاں سے چل
پڑتے ہیں اور نمرہ کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ نمرہ کے نوکر اٹھا کر اسے اندر کمرے
میں لیجا کر سلا دیتے ہیں۔ نمرہ کو کچھ ھوش نہیں ہوتا کے وہ کہاں پڑی ہے اور اس سے
کیا حرکت سرزد ہوئی ہے۔ کالج سے پندرہ دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اگلی صبح نمرہ اٹھتی
ہے اور اٹھ کر تھوڑا بہت پریشان ہوتی اس کے زہن میں اتنا ضرور ہوتا ہے کے رات کو
اس سے کچھ غلط حرکت ہوئی ضرور ہے اور اسی کے بارے مکمل جانکاری کے لیئے وہ اپنے
نوکروں کو بلاتی ہے اور وہ بھی سر جھکائے نمرہ کو اس کی رات کی گئی حرکت کے بارے
میں صاف صاف بتا دیتے ہیں۔ نمرہ بہت پریشان ہوجاتی ہے کے وہ کیوں اپنے غصے پر قابو
نہیں کر پائی اور اس نے یہ کیا حرکت کردی۔ اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی ہے کے وہ
غصے کی اس قدر گھٹیا ہے کے وہ قابو نا کر پائی کسی کی کامیابی اسے ہضم تک نا ہو
پائی اور کونسی زندگی موت کا مقابلہ تھا اس شریف لڑکے باسط سے بلآخر پڑھائی ہی کا
تو مقابلہ تھا۔ اس کا زہن کام کرنا بند کر دیتا ہے اسے باسط کا چہرہ یاد آتا ہے
اور وہ اس کا معصوم چہرہ یاد کرکے زار زار رونے لگتی ہے۔ وہ اپنی ایک دو قریبی
سہیلیوں کو کال ملاتی ہے تو ان سے بھی اسے پتا چلتا ہے کے رات اس نے کیا حرکت کی۔
خیر یونیورسٹی دوبارہ شروع ہوتی ہے تو نمرہ باسط سے نظریں نہیں ملا رہی ہوتی اور
باسط تو اس کی طرف دیکھتا تک نہیں۔ باقی بھی کلاس کے سب اسٹوڈنٹس نمرہ کے اس برے
رویئے سے اس کے ساتھ بات چیت کم کر دیتے ہیں۔ یونیورسٹی کے چند دن بعد نمرہ رات کو
ایک پارٹی سے گھر جارہی ہوتی ہے تو اس کے سامنے ایک لڑکا سڑک پر گر کر ایکٹنگ کرتا
ہے اور نمرہ اس پر ترس کھا کر باہر آتی ہے اور اسے قریب ہوکر دیکھتی اور پوچھتی ہے
تو اسے فوری پیچھے سے کوئی اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے اغواء کر لیتا ہے۔ وہ
چلانے کی کوشش کرتی ہے ہاتھ پیر مارتی ہے مگر کچھ نہیں ہوتا۔ پانچ سے چھ لڑکے ہوتے
ہیں جو اسے ایک خالی گھر میں لےجاتے ہیں۔ مگر سب میں سے صرف ایک ہی نمرہ کے ساتھ
بند کمرے میں ہوتا ہے۔
نمرہ: کون ہو تم کس لیئے لائے ہو مجھے؟ تم جانتے نہیں
میں کون ہوں۔
وہ لڑکا منہ پر نقاب پہنے کچھ بولتا ہی نہیں۔ اور اسے
ایک کمرے میں لیجا کر پھینک دیتا ہے۔
ہاتھ باندھے وہ اسے پہلے بٹھا دیتا ہے اور پھر اس کو اسی
کمرے کے باتھ روم میں لیجا کر اس کے ساتھ ظالمانہ انداز میں پیش اتا ہے۔ نمرہ بہت
چیختی اور چلاتی ہے کوشش کرتی ہے کے اس کی جان چھوٹ جائے وہ ان درندوں کے شکنجے سے
چھوٹ جائے مگر وہ اسے بالکل نہیں چھوڑتا۔
نمرہ کا رو رو کر برا حال ہوا ہوتا ہے اور سامنے والا
لڑکا بس اسے زیادہ کسی قسم کی تکلیف دیئے اپنا لن نکال کر اسے چوسنے کو کہتا ہے۔
وہ نخرے کرتی ہے تو اسے رکھ کر ایک تھپڑ مارتا ہے اور اس کا منہ لال کر دیتا ہے۔ نمرہ
کے آنسو نکل آتے ہیں۔ اور وہ آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے ہی لولا منہ میں لیکر چوسنا
شروع کردیتی ہے۔
لڑکا بہت سختی سے پیش آتا ہے وہ لولا اس کے حلق میں
پھنسا پھنسا کر اسے درد دیتا ہے اور جب لولا چند سیکنڈ پھنسا کر نکالتا ہے تو نمرہ
منہ کھول کھول کر سانس لیتی ہے۔
لڑکا مکمل جوش میں آیا ہوتا ہے اسے بہت مزا آتا ہے اور
وہ نمرہ کے منہ کو ہی پھدی بنا کر چودنے کے انداز میں لن بیچ میں پھنسائے دیتا ہے۔
اس کے حلق تک لولا کرکے سر کے پیچھے سے پکڑ کر اسے ہلنے بھی نہیں دیتا اور جب سانس
بند ہونے کی نوبت تک آتا ہے تو وہ پھر اپنا لولا ایک دم باہر نکالتا ہے اور لولا
رالوں سے بے شمار بھرا ہوتا ہے۔
نمرہ کے منہ سے لولا نکال کر وہ اس کے منہ کے آگے گانڈ
کرتا ہے کے اس کی گانڈ کو چاٹے۔ مگر نمرہ انکار کرتی ہے اور بار بار منہ پیچھے
کرتی ہے۔ وہ لڑکا رکھ کر پھر ایک تھپڑ مارتا ہے اور نمرہ پھر سے آنسووں سے رونا
شروع کردیتی ہے اور اس کے روتے روتے لڑکا اپنی گانڈ کھول کر اس کے آگے کرتا ہے تو
پھر وہ زبان نکال کر اس کی گانڈ کا سوراخ چاٹنے لگتی ہے۔ لڑکا اسی طرح گانڈ کے
سوراخ کو چٹوانے کا خوب مزا لیتا ہے۔ نمرہ بھی مجبوری میں اپنے گھٹنوں پر بیٹھے اس
کی گانڈ میں منہ دیئے رکھتی ہے۔
لڑکا اپنی گانڈ کافی دیر اور ظالمانہ انداز میں چٹوانے
کے بعد اسے الٹا کرتا ہے اور اس کی پھدی میں لن دے مارتا ہے اسے درد پہنچانے کے
لیئے اس کے گالوں میں انگلیاں پھنسا کر کھینچتا ہے اس کی شکل کو بگاڑتا ہے ساتھ ہی
ساتھ لن بھی اس کی پھدی میں ظالمانہ طریقے سے دیئے ہی رکھتا ہے۔
اس قدر ظلم پر اتر آتا ہے کے زور دار جھٹکوں سے نمرہ
رونے والی ہوجاتی ہے اور چلاتی ہے بس کرو مجھے معاف کردو کون ہو تم لوگ بس کرو۔
مگر وہ ظالم اس کی پھدی ہوں لے رہا ہوتا ہے جیسے اس نے دوبارہ کسی پھدی کا منہ نہیں
دیکھنا۔ لڑکے کو تو اتنی زبردست پھدی مارنے کا مزا آرہا ہوتا ہے مگر نمرہ کی جان
جاتی ہے اسے مزا تو آتا ہے مگر جو ظالمانہ جھٹکے اس کی جان کھینچ رہے ہوتے ہیں۔
اور بد تمیزی کا یہ عالم ہوتا ہے کے وہ نمرہ کا سر کمبوڈ میں دے دیتا ہے۔
سر کمبوڈ میں دیئے ہوئے وہ اس کی صرف ایک ہی انداز میں
گھوڑی بنا کر پھدی لے رہا ہوتا ہے۔ نمرہ کے ساتھ نہایت بری ہوتی ہے۔ نمرہ منت کرتی
ہے کے اسے چھوڑ دیا جائے۔ مگر مجال ہے کے لولا اس کی پھدی سے باہر آجائے۔ لن دھنا
دھن اس کی پھدی کے گہرے سمندر میں ڈبکیاں لے رہا ہوتا ہے اور نمرہ درد سے رو رہی
ہوتی ہے۔
آدھا گھنٹہ چودنے کے بعد وہ لڑکا اس کی موبائل سے ویڈیو
اور تصاویر بنا لیتا ہے۔ اور جب اس کے منہ پر منی گرانے کی باری آتی ہے تو وہ سچ
میں بہت رو رہی ہوتی ہے جس طرح اسے بری طرح چودا گیا تھا۔
پھر لڑکا اپنا لن ہلا ہلا کر اس کے چہرے کو منی سے بھر
دیتا ہے اور نمرہ چپ چاپ ساری کی ساری منی اپنے چہرے پر گرانے دیتی ہے۔ نمرہ اس
لڑکے کی انگلی پر ایک ٹیٹو بنا دیکھتی ہے جو اس نے باسط کی اسی انگلی پر دیکھا
تھا۔ نمرہ کو سمجھ آجاتی ہے کے باسط نے اس سے بدلہ لیا ہے اور وہ اس کے خلاف کچھ
بھی کرنے کا نہیں سوچتی اور خاموش رہ کر اس بات سے انجان رہتی ہے
ختم شُد
bold urdu novel pk saaqi download
bold urdu novel pk saaqi ebook
bold urdu novel pk saaqi facebook
bold urdu novel pk saaqi novel
bold urdu novel pk saaqi online pdf
bold urdu novel pk saaqi pdf download
خوبصورت لڑکی
میرا
نام سلمان ہے میں فیصل آباد میں رہتا ہوں میری عمر اس وقت 26سال ہے۔
میں صبح سے رات تک ایک ہی جگہ جاب کرتا ہوں دن میں دو
گھنٹے کا گیپ بھی آتا ہے جو 2سے 4ہوتا ہے اور اس دوران صبح کا اسٹاف اپنے گھر
چلاجاتا ہے اور شام کا اسٹاف 4 کے بعد آتا ہے میرا گھر کافی دور ہے اسلئے میں گھر نہیں
جاتا۔ ایک دن دوپہر کے وقت تقریباً 2:30 کا ٹائم ہوگا میں اپنے کوچنگ کے آفس میں
بیٹھا تھا کے ایک لڑکی اندر آئی اس نے چہرے پر نقاب لگایا ہوا تھا اور اس کی خالی
آنکھیں نظر آرہیں تھیں اور آنکھوں سے ہی اندازہ ہوراہا تھا کہ وہ بہت خوبصورت ہوگی
سلام دوعا کے بعد اسنے کہا کہ وہ کمپیوٹر کورس کرنا چاہتی ہے لیکن وہ کوچنگ نہیں
آسکتی ہے اسے کوئی ایسا ٹیچر چاہئے جو گھر پر آکر پڑھادیا کرے میں نے اس کا نمبر
لیا اورکل ٹیچر بھجنے کا وعدہ کرلیا۔اس کے جانے کہ بعد سوچا کہ کیوں نہ میں خود ہی
چلاجایا کروں کچھ انکم بھی ہوجائے گی اور دوپہر کا فارغ ٹائم بھی کٹ جایا کریگا
۔اگلے دن میں نے اس نمبر پر کال کی اپنا تعروف کرواکر ایڈریس لیا اور ان کے گھر
چلا گیاجو کہ اسکول سے بہت قریب تھا مطلوبہ فلیٹ پر جا کر بیل بجائی تو ایک لڑکی
نے دروازہ کھولا میں نے اپنا تعروف کرایا تو اس نے مجھے اندر بلاکر ڈرائنگ روم میں
بیٹھایا اور انتظار کرنے کا بول کر اندر چلی گئی۔کچھ دیر انتظار کے بعد ایک گوری
چیٹی لڑکی اندر آئی جس نے نماز کہ اسٹائیل میں پورا دوپٹا کور کیا ہوا تھا اور
چونک کر مجھے دیکھااس کے چوکنے سے اور اس کی آنکھوں سے مجھے اندازہ ہوگیا کے یہ وہ
ہی لڑکی ہے جو کل آئی تھی میرے پاس اسنے مجھے سلام کیا اور سامنے صوفے پر بیٹھ گئی
اور اس نے آواز دی اسماء اس کے آواز دیتے ہی وہ لڑکی آگئی جس نے دروازہ کھولا تھا
اسنے اسماء سے چائے بنانے کہ لیے کہا اس کے جانے کہ بعد مجھ سے پوچھا کہ کیا میں
خود پڑھاوں گا اسے میں نے اسے جواب دیا کہ اگر آپ مجھ سے نہیں پڑھنا چاہتی تو میں نہیں
پڑھاوں گا آپ کو کیسی اور کو بھیج دوں گا اسنے کہا ک نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے
کل جب آپ سے بات ہوئی تھی تو میں سمجھی کہ آپ کیسی ٹیچر کو بھجیں گے لیکن آپ خودی
آگئے تو بس یوں پوچھا تھا میں نے کہا کہ دن میں اس وقت فری ہوتا ہوں کل جب آپ سے ملاقات
ہوئی تھی تو وہ میرا آف ٹائم تھا لیکن گھر کافی دور ہے اس لیے میں وہیں ٹائم
گزارتا ہوں گھر نہیں جاتا اگر آپکو یہ ٹائم سوٹ کرتا ہے تو میں خود آجایا کروں گا
لیکن آپ کسی اور وقت پڑھنا چاھتی ہیں توکسی اور کو بھج دوں گا میں اسنے کہا کہ نہیں
یہی ٹائم ٹھیک رہیگا اسنے فیس کا پوچھا میں نے کہا کہ آ پ کچھ دن پڑھ کے دیکھ لیں
اگر آپ کو میرا ٹیچنگ اسٹائیل سمجھ آجائے تو فیس کی بات بھی ہوجائے گی اتنی دیر
میں اسماء چائے لے کہ آگئی اس کہ چائے رکھنے کہ بعد میں نے پانی مانگا تو وہ پانی
لینے چلی گئی اس کہ جانے کہ بعد میں نے اس سے اس کا نام پوچھا تو اسنے اپنا نام
علیشبہ بتایامیں نے اس سے پوچھا کہ آپ گھر پر ہی کیوں پڑھنا چاھتی ہیں اگرآپ
انسٹیٹیوٹ آجایا کریں تو آپ کم فیس میں پڑھ سکتی ہیں کیوں کے کوئی بھی ٹیچر گھر
آکر پڑھانے کی زیادہ فیس لیگا تو اسنے کہا کہ وہ روز روز اکیلی نہیں آسکتی ہے کیوں
کے اس سے کوئی لانے والا نہیں ہوتا ہے میرے شوہر صبح آفس چلے جاتے ہیں اور رات تک
واپس آتے ہیں میرے شوہر کا ٹرنسفر ابھی کراچی سے یہاں ہوا ہے یوں ہم یہاں شفٹ ہوئے
ہیں مجھے یہاں کے راستوں کا بھی زیادہ علم نہیں ہے نہ ہی یہاں ہمارا کوئی رشتے دار
ہے نہ کوئی ملنے والا ہے کبھی اپنے شوہر کہ ساتھ آتے جاتے آپ کے انسٹیٹیوٹ پر نظر
پڑجاتی تھی تو یوں وہاں آگئی تھی لیکن روز روز آنا ممکن نہیں ہے سارا سارا دن گھر
میں بور ہوتی ہوں بس گھر میں اسماء اور میری ساس ہوتی ہیں اسماء ہماری نوکرانی ہے
وہ بھی کراچی سے ہی ہمارے ساتھ آئی ہے اور میری ساس بھی ساتھ آگئیں ہیں کچھ دن کے
لیے یوں میں نے سوچا کہ سارا سارا دن بور ہونے سے بہتر ہے کے کمپیوٹر ہی سیکھ لوں
تاکہ کچھ ٹائم پاس ہو سکے جب اسنے اپنے شوہر کا بتایا تو مجھے بہت حیرت ہوئی تھی
کیوں کے وہ کیسی طرح بھی شادی شدہ نہیں لگ رہی تھی لیکن میں نے خود کو کنٹرول کیا
اور اپنی حیرت کا اظہار نہیں کیا پھر کچھ ادہر اودہر کی باتوں کہ بعد میں نے کہا
کہ میں ہفتہ میں پانچ دن آ سکتا ہوں کیوں کہ ہفتے اور اتوار کو انسٹیٹیوٹ کی چھٹی
ہوتی ہے یوں میں ادہر نہیں آتا اس بات پر بھی وہ رازی ہوگئی پھر میں نے اجازت لی
اور کل سے پڑھانے کا کہ کر واپس انسٹیٹیوٹ آگیا لیکن کافی دیر تک میں علیشبہ کہ
بارے میں ہی سوچتا رہا اس کہ جسم کا تو کچھ اندازہ نہیں ہوا تھا مگر شکل سے وہ بہت
معصوم تھی گوری لال ٹماٹر بڑی بڑی آنکھیں اور پلکیں وہ سچ میں اتنی خوبصورت تھی کہ
ایسے جو دیکھے دیکھتا رہ جائے اور مجھے ایک بات اور بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ
گھر میں اکیلی ہے موحول بھی نیا ہے تو اس کہ شوہر نے اسے اجازت کیسے دیدی کہ یوں
گھر میں کسی کو بھی بلاکر کمپیوٹر سیکھ لے خیر ان سب باتوں سے مجھے کوئی لینا دینا
نہیں بھی مجھے تو خوشی اس بات کی تھی کہ میری انکم میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ بھی
اتنی خوبصورت لڑکی کو پرھانے کہ لیئے اسے پرھانے کہ اگر پیسے نہ بھی ملتے تو مجھے
وہ بھی منظور تھا اگلے دن جمعہ تھا اور پھر دو دن کی چھٹی تھی تو میں نہیں گیا
سوچا پیر سے ہی جاؤگا تقریباً شام پانچ بجے علیشبہ کی کال آگئی اور اسنے نہ آنے کی
وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ آج کچھ مصروف تھا یوں نہیں آسکا میں پیر سے آؤگاں پھر
دو دن کی چھٹی آگئی اس دوران بھی کئی بار علیشبہ کا خیال دماغ میں آتا رہا پھر پیر
کو صبح اسکول گیا مگر پتہ نہیں کیوں کام میں دل نہیں لگ رہا تھا اور بار بار گھڑی
دیکھ رہا تھا کہ جلدی سے ٹائم گزے اور دو بجیں اس دن سچ میں دن گزارنا مشکل کام
تھا خیر جب اسکول کی چھٹی ہوگئی تو میں نے جلدی جلدی تمام کاغذات رکھے اور جانے کی
تیاری کرنے لگا تو اسی دوران مالک نے کال کی اور اپنے آفس میں طلب کیا میں سر کے
پاس گیا تو انھونے پوچھا کہ کہاں جانے کی تیاری ہے تم تو نہیں جاتے گھر تو میں نے
کہا کہ سر میری خالہ یہاں قریب میں شفٹ ہوگئی ہیں تو میں دن میں وہاں جایا کروں گا
وہیں کھانا کھاکہ کچھ دیر آرام کرلیا کروں گا اور چار بجے تک واپس آجایا کروں گا
کیوں کہ میں انہیں نہیں بتا سکتا تھا کہ انسٹیٹیوٹ کہ ریفرینس سے مجھ ٹیوشن ملی ہے
پھر میں نے نکل کر اپنی بائیک لی اور اپنی منزل کی جانب چل پڑا جب میں علیشبہ کی
گھر پونچا تو سوا دو کا ٹائم تھا میں نے بیل بجائی جانے کیوں اس وقت مجھے بہت
گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی اور خوشی بھی بہت عجیب کیفت تھی میری بیل بجانے کہ چند
سیکنڈ بعد ہی اسماء نے دروازہ کھول دیا اور مجھے سلام کیا اور اندر آنے کا اشارہ
کیا میں اس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہو گیا اور اس نے مجھے ڈرائنگ روم میں
بیٹھایا اور خود اندر چلی گئی کچھ ہی سیکنڈ بعد واپس پانی لے کہ آگئی میں نے پانی
پیا پھر اسماء بولی کہ باجی آپ کو اندر بلارہیں ہیں میں اس کہ پیچھے پیچھے اندر چل
پڑا اور ہم ڈرائنگ روم کہ ساتھ ہی بنے بیڈروم میں داخل ہو گئے۔وہاں سامنے ہی بیڈ
پر علیشبہ بیٹھی ہوئی تھی روم بہت صاف اور سلیقے سے سجا ہوا تھا ہر چیز اپنی پر تھی
میری نظر علیشبہ پر پڑی وہ آج بھی اسی طرح دوپٹا کور کر کہ بیٹھی تھی اس پر نظر
پڑتے ہی میری حالت عجیب ہوگئی جانے کیوں لیکن میرا دل تیز تیز دھڑکنے لگا اور میں
پورا کانپ گیا کیوں کہ وہ اس دن بھی اتنی ہی خوبصورت لگ رہی تھی اس نے بہت آدب سے
مجھے سلام کیا اورمیں نے جواب دیا پھر اسنے جمعے کو نہ آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے
کہا دیا کہ میں مصروف تھا بہت تو اس نے کہا کہ اگر میں مصروف ہوا کروں اور نہ
آسکوں تو پہلے سے بتادیا کروں وہ انتظار کرتی ہے میں نے معزرت کی اور کہا کہ آئندہ
خیال رکھوں گاپھر میں نے کمپیوٹر کا پوچھا تو علیشبہ نے اسماء کو اشارہ کیا اور
سائیڈ میں رکھے کمپیوٹر پر سے اسماء نے کور ہٹایا میں نے آگے بڑہ کر پی سی آن
کیاپھر علیشبہ سے پوچھنا شروع کیا کہ اسے کیا آتا ہے اور کیا نہیں تو اسنے بتایا
کہ اسے کچھ نہیں آتا ہے آج تک کبھی پی سی یوز نہیں کیا ہے اسنے خیر میں نے اسے
بیسکس کہ بارے میں بتانا شروع کیا کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایک تقریباً ساٹھ سال کی
خاتون بھی آکر بیٹھ گئی وہاں اور غور سے میری باتیں سننا شروع ہوگئی علیشبہ نے
تعروف کرایا کہ یہ میری ساس ہیں ہم دو کرسییوں پر برابر برابر بیٹھے تھے اور
علیشبہ کی ساس بیڈ پر بیٹھی تھیں کچھ دیر بعد اسماء جوس کے گلاس لے کہ آگئی میں نے
ٹائم دیکھا تو سوا تین ہو گئے تھے میں نے جوس پی کر علیشبہ سے کہا کہ آج جو بھی
بتایا ہے اسکی پرکٹیس کریں میں کل آپ سے آکر پوچھونگا اور میں وہاں سے واپس
انسٹیٹیوٹ آگیانیکسٹ ڈے بھی تقریباً سیم ہی رہا لیکن اس دن جاتے جاتے علیشبہ نے
مجھ سے فیس کا پوچھا جومیں نے آٹھ ہزار بتائی اس نے بنا کچھ کہئے آٹھ ہزار الماری
سے نکال کر میرے ہاتھ میں پکڑادئیے اس وقت مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی اور میں واپس
انسٹیٹیوٹ آگیااسی دن انسٹیٹیوٹ سے واپسی پر میں مارکیٹ گیا اور پورے آٹھ ہزار کی
شاپنگ کرلی میں بہت خوش تھا آج کل تقریباً دس دن اسی روٹین میں نکل گئے میں جب بھی
وہاں جاتا تو اسماء چائے یا جوس لانے چلی جاتی اور علیشبہ کی ساس آکر ہمارے پاس
بیٹھ جاتی ایک دن تو میں نے مزاق میں کہے بھی دیا تھا کہ میں ودگنی فیس لوں گا آپ
نے خالی اپنی بات کی تھی آپ کی ساس تو مفت میں پڑھ رہیں ہیں اس بات پر علیشبہ بہت
ہنسی ان دس بارہ دنوں میں علیشبہ تھوڑی فرینک ہو گئی تھی مجھ سے ہم تھوڑا ہنسی
مزاق بھی کرلیا کرتے تھے ایک دن میں جب علیشبہ کہ گھر پونچا اور بیل بجائی تو خلاف
مامول علیشبہ نے خود دروازہ کھولا اور مجھ کو سلام کر کے اندر آنے کا اشارہ کردیا
آج مجھے کچھ عجیب لگ رہا تھا کیوں کہ نہ اسنے اپنے بال کور کیے ہوئے تھے روز کی
طرح اور دروازہ بھی خود کھولا میں سیدہ اس کہ پیچھے پیچھے اس کہ ساتھ بنا کچھ کہئے
اس کہ بیڈ روم میں آگیا اس نے مجھے بیٹھنے کو کہا اور بولی کہ میں ابھی آئی میں پی
سی آن کر کہ بیٹھ گیاآج گھر میں کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا میں اپنی سوچوں میں گم
بیٹھا تھا کے علیشبہ آگئی اس کہ ہاتھ میں چائے کہ کپ تھے اس کہ بال بھی گیلے تھے
جس سے اندازہ ہو راہا تھا کہ شاید وہ ابھی ابھی نہا کر نکلی ہوگی آج پہلی بار اسے
کھولے سر کہ دیکھا تھا آج وہ اتنی خوبصورت لگرہی تھی کہ میں آپ کو الفاظ میں بیان نہیں
کر سکتا میں پاگل ہو رہا تھا اسے دیکھ دیکھ کر اور آج ہی اس کے جسم کا اندازہ بھی
ہو رہا تھا جو کہ میری سوچ سے بھی بڑھ کر خوبصورت تھا اف کیا حال تھا میرا میں آپ
کو نہیں بتا سکتا جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے بس میری حالت اس بھوکے شخص کی طرح
تھی جس کا من پسند کھانا اس کے سامنے موجود ہو اور وہ کئی دن کا بھوکا بھی ہو لیکن
وہ اس کھانے کو کھانا تودور ہاتھ بھی نہ لگا سکتا ہو میں شاید سچ میں پاگل ہو راہا
تھا وہ بھی میرے برابر میں کرسی پر بیٹھ گئی اسے کے پاس سے آج بہت نشہ آور خوشبو
آراہی تھی اور میں اس نشے میں ڈوبتا جارہا تھاآج خود کو قابو کرنا نہ ممکن لگ رہا
تھا اس کہ بال بہت بڑے تھے اس کہ ھپ سے بھی نیچے تک وہ بھی ہوا سے اھڑ اھڑ کر میرے
منہ پر لگررہے تھے اس کہ بالوں کا بھی عجیب ہی نشہ چھا رہا تھا مجھے پر لیکن میں نہیں
چاہتا تھا کہ میں کوئی بھی ایسی غلطی کر بیٹھوں جس کی وجہ سے اتنی خوبصورت لڑکی کا
قرب اور لگی لگائی نوکری سے ہاتھ دہونا پڑئے نوکری بھی ایسی جس کہ لئے لوگ پیسے
دینے کو تیار ہوں اور مجھے تو پیسے مل رہئے تھے بس جب میری برداشت سے بہار ہوگیا
خود پر کنٹرول کرنا تو میں نے علیشبہ سے کہا کہ آج میری طبیت ٹھیک نہیں ہے میں
جارہا ہوں کل آؤں گا وہ بھی میرے ایک دم یوں اچانک اٹھ کھڑئے ہونے سے کچھ پریشان
ہوگئی اور پوچھنے لگی کہ کیا ہوا اچانک میں نے کہا کہ سر میں درد ہے اور یہ کہا کر
اس کہ گھر سے بہار آگیا سیدھی بات تو یہ ہے کہ میرا لنڈ کھڑا ہوگیا تھا اور انڈر
ویر بہت ٹائیٹ تھا یوں میرے لنڈ میں سخت درد ہونا شروع ہوگیا تھا اور مجھ سے بیٹھا
نہیں جارہا تھا میں وہاں سے سیدھا انسٹیٹیوٹ آگیا اور وہاں آکر بھی سکون نہیں ملا
اور خود کو ہی برا بھالا کہنے لگا میں کہ بلاوجہ آگیا میں دل کررہا تھا کہ دوبارہ
چلا جاؤں لیکن یوں ایک بار آکر پھر واپس جانا مناسب نہیں لگا مجھے خیر وہ دن بہت
مشکل سے کٹا تھا میرا اگلے دن صبح ہی علیشبہ کی کال آگئی اور اس نے مجھے سے میری
طبیت کا پوچھا میں نے کہا کہ بہتر ہے تو کہنے لگی کہ کل میرے جانے کی وجہ میری
طبیت ہی تھی یا اور کوئی بات تھی مجھے اسکا یہ سوال بہت عجیب لگا میں ایک منٹ سوچ
میں پڑگیا کہ اس بات کا کیا جواب دوں پھر میں نے یہ ہی کہا کہ طبیت ہی خراب تھی
اور کیا وجہ ہو سکتی ہے پھر اس نے کہا کہ آج آپ کب تک آراہیں ہیں تو میں نے کہا کہ
وہ ہی دو تک اس کی کال پر مجھے کافی حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی لگررہا تھا کہ
میری خواہش خود پوری ہونے والی ہے لیکن میں خود سے پہل نہیں کرنا چاہتا تھااسکول
کی چھٹی کے بعد میں علیشبہ کے گھر کی جانب چل پڑا جب بیل بجائی تو وہ نہیں بجی پھر
میں نے دروازہ بجایا تو فوراً ہی دروازہ کھل گیا آج بھی دروازہ کھولنے والی علیشبہ
ہی تھی اسنے روز کی طرح سلام کیا اور اندر آنے کیلئے جگہ چھوڑدی میں اندر داخل ہوا
تو اسنے مجھے ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیا اور کہنے لگی کے ابھی اچانک لائیٹ چلی گئی
ہے آپ کچھ دیر انتظار کرلیں میں خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گیا اسنے میری طبیت کا
پوچھا اور کہا کہ میں چائے لاتی ہوں اورر وہ وہاں سے چلی گئی جاتے جاتے میں نے اس
کہ اوپر غور کیا تو یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ آج جو کپڑے اسنے
پہنے ہوئے تھے اس میں اس کا جسم صاف نظر آرہا تھا اس نے بلیک کلر کی باریک قمیض
اور سفید رنگ کی شلوار پہنی تھی اور سفید ہی کلر کا دوپٹا اس کی گلے میں میں جھول
رہا تھا جب وہ جارہی تھی تو پیچھے سے اس کی برا صاف نظر آرہی تھی اس کی قمیض کہ
اندر میں بیٹھا انہیں سوچوں میں گم تھا کہ کہاں تو اسکا دوپٹا بھی سر سے نہیں
سرکتا تھا اس کی سر کہ بالوں کی جھلک تک نہیں دیکھتی تھی اور اب یہ حلیہ ہے اسکا
میری سمجھ کچھ نہیں آراہا تھا میں یہ ہی سوچ رہا تھا کہ وہ دو چائے کہ کپ لے کہ
آگئی جب وہ آئی تو میں نے اور غور سے دیکھا اسکو تو اس کی قمیض کہ اندر سے اس کی
ناف بھی صاف دیکھ رہی تھی اور شلوار کا اظہار بند بھی دیکھ رہا تھا میرا حال پھر
خراب ہونا شروع ہوگیا تھا لگ رہا تھا کہ لنڈ پینٹ پھاڑ کر بہار آجائے گا وہ آکر
میرے سامنے بیٹھ گئی اور چائے کہ کپ ٹیبل پر رکھ کر مجھ سے بولی کہ کیا بات ہے میں
کچھ ٹینشن میں لگاراہا ہوں کل سے ریلیکس نہیں لگ رہا میں نے فوراً کہا کے آپ کو
دیکھ کر تو کوئی بھی ٹینشن میں آسکتا ہے وہ مسکرادی اور انجان بن کر کہنے لگی کہ
کیا مطلب میں نے بھی بات ٹال دی اور کہا کہ کچھ نہیں بس یونہیں آپ سناؤ دو دن سے
گھر پر کوئی نظر نہیں آرہا ہے تو وہ کہنے لگی کہ میری ساس بس کچھ دن کہ لئے ہی آئی
تھیں میرے ساتھ ان کا یہاں دل بھی نہیں لگا یوں وہ واپس چلی گئیں اور اسماء کہ
بھائی کی شادی ہے تو وہ بھی ان کہ ساتھ ہی گئی ہے کچھ دن کہ لئے اب بس میں اور
میری تنہائی ہیں یہاں آپ آجاتے ہیں تو اچھا لگتا ہے کچھ ٹائم کٹ جاتا ہے آپ کہ
ساتھ کم از کم کوئی انسان تو مل جاتا ہے بات کرنے کیلئے میں نے پوچھا کہ اگر آپ
یہاں اتنا ہی پریشان ہیں تو کراچی سے آئیں کیوں تو وہ کہنے لگی کہ میری شادی کو دو
سال ہوئے ہیں میرے شوہر ایک ملٹی نیشنل فرم میں اچھی پوسٹ پر ہیں لیکن عمر میں
کافی فرق ہے ہماری شادی کے شروع کے دن تو بہت اچھے گزرے مگر اب وہ بھی بہت مصروف
رہتے ہیں صبح جاتے ہیں اور رات کو آتے ہیں اور آکر بھی آفس کا کام لے کر بیٹھ جاتے
ہیں کراچی میں وہ ایسے نہیں تھے مجھے وقت بھی دیتے تھے لیکن پھر ان کی پرموشن کر
کے ان کا ٹرانسفر کردیا کمپنی نے یوں مجھے بھی ان کہ ساتھ آنا پڑا اور یہاں آکر وہ
بہت مصروف ہوگئے ہیں میں جب بھی انسے شکوہ کرتی ہوں کہ آپ مجھے وقت نہیں دیتے تو
کہتے ہیں کہ بس کچھ دن کی بات ہے ابھی نیا نیا آفس جوائین کیا ہے میں نے کام کو
سمجھ لوں پھر سب نارمل ہو جائے گا انہیں یہ بات کہتے کہتے دو مہنے تو ہو گئے ہیں
پتہ نہیں کب ہوگا سب نارمل یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں عجیب اداسی عجیب پیاس سی
محسوس کی میں نے میرا دل کررہا تھا کہ ابھی اٹھکر اسے اپنے گلے لگالوں میں اور اس
کی ساری پیاس مٹادوں لیکن میں مجبور تھا بہت پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں دو دن
سے کیوں ڈسٹرب اور اداس ہوں کیسی لڑکی کا چکر تو نہیں ہے میں اس کی یہ بات سن کر
بہت زور سے ہنسا اور کہا کہ میں ان چکروں میں نہیں پڑتا ہوں اسنے کہا کہ کیا مطلب
آپ تو بہت اسمارٹ ہیں آپ کی تو بہت ساری لڑکیوں سے دوستی ہوگی میں نے کہا کہ نہیں
ایسا کچھ نہیں ہے میں لڑکیوں سے دوستی کی ٹینشن نہیں پالتا اس نے کہا کہ کیسی
ٹینشن میں نے کہا کے دوست تو دوست ہی ہے پھر لڑکا یا لڑکی کا فرق نہیں ہوتا ہے میں
اپنے کیسی لڑکے دوست کو گلے لگا سکتا ہوں اس کہ جسم کہ کیسی بھی حصے کو چھو سکتا
ہوں تو لڑکی بھی میری دوست ہی ہوگی نہ لیکن اسکو ہاتھ لگایا تو وہ سو باتیں سنادے
گی اور نہیں بھی سنائیں تب بھی ہمیں کچھ کچھ ہوگا اور پھر بہت کچھ ہوگا اور سارا
قصور میرا ہوگا پھر اسنے تو انجوئے کیا ہی نہیں ہوگا اور اگر میری کوئی لڑکی دوست
ہو اور میرے دل اسے ملنے کا کررہا ہو تو سو جھنجھٹ ہونگے اس کا ملنے آنا مثلا پھر
اسکے ساتھ گھومنا مثلا کے کوئی دیکھ نہ لے پھر کسی ایسی اسٹینڈرڈ کی جگہ کا ہونا
جہاں ہم بیٹھ کر بات کر سکیں اب چائے کے ہوٹل پر تو میں اسے لے کر بیٹھ نہیں سکتا
اور سب سے بڑی بات کہ لڑکا اور لڑکی میں ایک دوسرے کیلئے فیزکلئی اٹریکشن موجود
ہوتا ہے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے میں انٹرسٹ لینے لگتے ہیں اوربہت قریب
آجاتے ہیں پھر بات پیار محبت تک جاتی ہے اور لاسٹ میں وہ ہی گلے شکوے اور سارا
الزام لڑکے پر آتا ہے کہ شاید ہر بات کا وہی قصوروار ہے لڑکی کی تو مرضی نہیں تھی
تو اس سب سے بہتر ہے کہ آپ لڑکیوں سے ودر ہی رہیں تو اچھا ہے علیشبہ میری باتیں
بہت غور سے سنتی رہی اور بولی کہ آپ پھر کیسی شادی شدہ لڑکی سے دوستی کرلیں تاکہ
یہ سب پرابلم نہ ہوں تو میں نے کہا کہ بھلا کوئی شادی شدہ لڑکی کیوں دوستی کریگی
مجھ سے اسکے پاس تو سب ہوتا ہے اسے کیسی اور کی ضرورت کیوں ہوگی یہ تمام باتیں جان
بوجھ کر کہارہا تھا میں علیشبہ سے لیکن اسنے میری باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا اور
خاموش ہوگئی میں نے ٹائم دیکھا تو چار بجنے والے تھے میں نے اس سے اجازت لی لائٹ
ابھی تک نہیں آئی تھی میں واپس اپنے انسٹیٹیوٹ آگیا اور سوچنے لگا کہ علیشبہ بھی
پیاسی ہے بہت اور وہ بھی چاہتی ہے کہ ہم قریب آجائیں لیکن پہل کون کرے اور کس طرح
میں نے دل میں پکا ارادہ کرلیا تھا کہ پیر کو میں علیشبہ کو کہوں گا کہ آپ بھی تو
شادی شدہ ہیں کیا آپ دوستی کریں گی مجھ سے کیوں کہ نیکسٹ ڈے ہفتہ تھا اور یہ بات
پیر کو ہی ہو سکتی تھی اسی دن میں رات لیٹا علیشبہ کہ بارے میں ہی سوچ رہا تھا
نیند آنکھوں سے کوسو دور تھی میرے کہ اچانک میرے موبائیل کی میسج ٹون بجی میں نے
موبائیل اٹھا کر دیکھا تو یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ وہ میسج علیشبہ کا ہی فارورڈ
میسج تھا کوئی دکھ بھرا شیر فارورڈ کیا تھا اسنے یہ پہلی بار تھا کہ اسنے مجھکو
کوئی فارورڈ میسج سینڈ کیا تھا ٹائم دیکھا تو رات کہ سوا دو بج رہے تھے میں نے
فوراً ریپلائے کیا اسے کے خیریت آپ ابھی تک جاگ رہیں ہیں تواسکا میسج آیا کہ آپ
بھی تو جاگ رہیں ہیں میں نے کہا کہ اپنا کیا ہے جی ہمارا جاگنا اور سونا تو برابر
ہے لیکن آپ کے تو شوہر آپ کہ پاس ہی ہونگے اس وقت اگر آپ جاگ بھی رہیں ہیں تو ان
کہ ساتھ مصروف ہونگی تو آپ کو میری یاد کیسے آگئی اس وقت وہ بھی اتنے دکھ بھرے شیر
کہ ساتھ تو وہ کہنے لگی کہ جی ساتھ ہیں اور سورہیں ہیں بے خبر انکا ہونا نہ ہونہ
بھی برابر ہی ہے میرے لئے پھر اسکا میسج آیا کہ آپ سے ایک بات کہنی ہے میں نے کہا
کہ جی ضرور حکم کریں آپ اسنے کہا کہ کیا آپ مجھے اپنی دوستی کہ قابل سمجھتے ہیں
کیا میں آپ کی دوست بن سکتی ہوں میں کوشش کرونگی کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو میری
ذات سے یہ میسج پڑھ کر تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا مجھے تو یقین نہیں
ہورہا تھا کہ جو میں نے سوچا تھا خود بہ خود ہوجائے گا بنا کیسی محنت کہ میں نے
اسے فوراً ریپلائے کیا کہ اگر آپ نے مجھے دوستی کہ قابل سمجھا ہے تو یہ تو میری
خوش نصیبی ہے ورنہ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا دوستی تو میں بھی کارنہ
چاہتا تھا آپ سے مگر ڈر بھی تھا کہ کہیں آپ کو میری بات بری نہ لگ جائے اور آپ کو
دیکھنے سے بھی محروم نہ ہونا پڑے مجھے اور یہ ہی وجہ تھی کہ میں دو دن سے پریشان
تھا بہت کیوں کہ دو دن سے آپ میرے حواسوں پر چھائی ہوئی ہیں بہت مشکل سے خود کو آپ
سے دور رکھ سکا ہوں پرسوں بھی یوں ہی سر درد کا کہا کر اٹھ گیا تھا آپ کہ پاس سے
کہ میں خود کو کنٹرول نہیں کر پارہا تھا تو وہاں سے جانا ہی بہتر سمجھا میں نے اور
ابھی آپ میسج کر کہ یہ بات نہیں کہتیں تومیں خود پیر کو آپ سے بات کرنے کا فیصلہ
کر چکا تھا پھر اسنے پوچھا کہ میں کیا آج آسکتا ہوں اسے ملنے میں نے کہا کہ ہاں
ضرور کیوں کہ مجھے سے بھی دور نہیں رہا جارہا ہے دل کررہا ہے کہ ابھی اور اسی وقت
آجاؤں میں تمھارے پاس اس نے کہا کہ میں پھر کل جلدی آجاؤں صبح نو بجے تک میں نے
کہا کہ ٹھیک ہے اسنے پوچھا کہ میں صبح کیا پہنوں میں نے کہا کہ تم کیا پہننا چاہتی
ہو اس نے کہا کہ جو میں کہوں گا وہ پہنوں گی کیوں کہ میں صبح اپنے ٹیچر سے نہیں
دوست سے ملوں گی تو چاہتی ہوں کہ ہر کام اس کی مرضی اور پسند کہ مطابق ہو میں نے
کہا کہ پھر تم کوئی سیکسی سی نائیٹی پہننا اور یوں باتوں باتوں میں ٹائم کا پتہ
بھی نہیں چلا اور صبح کہ سات بج گئے اسنے کہا کہ میرے شوہر کے جاگنے کا وقت ہوگیا
ہے وہ اسے آفس بھج کر بات کریگی میں نے کہا ٹھیک ہے اور میں بھی واشروم چلا گیا
نہانے اور شیو کرنے کیلئے اس میں تقریباً ایک گھنٹا لگا مجھے اور میں تیار ہوگیا
پھر میں علیشبہ کی کال کا انتظار کرنے لگا کافی دیر تک علیشبہ کی کال نہیں آئی تو
میرا موڈ خراب ہونے لگا میں نے بے دلی سے ناشتہ کیا اور گھر سے بھار نکل گیا بائیک
لی اور علیشبہ کہ گھر چل دیا راستہ بھی لمبا تھا یوں میں راستے میں ہی تھا کہ میرا
سیل بجنا شروع ہوگیا دیکھا تو علیشبہ کی ہی کال تھی میں نے ریسیو کی اور کہا کہ کب
سے انتظار کررہا ہوں یار کہاں تھیں تم تو اس نے کہا کہ ابھی میرے شوہر گئے ہیں
انکے جانے کا ویٹ کررہی تھی پھر اسنے پوچھا کہ میں کب تک آرہا ہو تو میں نے کہا کہ
راستے میں ہوں پندرہ منٹ میں پونچ جاؤں گا اسنے اوکے کہا اور کال کاٹ دی میں نے
موبائیل جیب میں ڈالا اور بائیک کی اسپیڈ بڑھادی کچھ ہی دیر میں علیشبہ کہ گھر کہ
بہار کھڑا تھا میں نے بیل بجائی تو فوراً ہی دروازہ کھل گیا علیشبہ نے سلام کیا
اور مسکراکر کہا کہ میں بائیک بھی اندر ہی لیکے آجاؤں میں نے بائیک بھی اندر کھڑی
کردی اسنے گیٹ کی کنڈی لگائی اور مسکراتے ہوئے کہا کہ اندر چلیں میں ابھی آئی بس
میں بھی مسکراتا ہوا ڈرائنگروم کی جانب چل پڑا تو اس نے اچانک میرا ہاتھ پکڑلیا
اور بہت پیار سے بیڈروم کی طرف اشارہ کر کے بولی کے ادھر نہیں اودھر جناب میں بھی
ہنستا ہوا بیڈروم میں داخل ہو گیا اسنے کہا کے آپ بیٹھں میں آتی ہوں اور وہ روم سے
بہار چلی گئی میری حالت اس وقت بہت عجیب ہو رہی تھی میں خوش بھی بہت تھا لیکن
خوفزدہ بھی تھا پتہ نہیں کیوں لیکن بہت عجیب کیفیت تھی میری جو بیان نہیں کر سکتا
میں چند منٹ بعد ہی علیشبہ کمرے میں داخل ہوئی اس کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھی وہ
اسنے میری جانب بڑھادی میں نے کہا کے اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے یار تم آکر بیٹھو
میرے پاس اسنے کہا کہ آپ ناشتا کریں میں فریش ہو کے آتی ہوں پانچ منٹ میں اس وقت
اسکا جانا بہت برا لگررہا تھا مجھے لیکن میں جسٹ مسکرا سکا نہ تو میں اس وقت کچھ
کہے سکتا تھا نہ ہی اپنا موڈ خراب کر سکتا تھا وہ روم میں ہی موجود ایٹیج باتھ میں
چلی گئی اور میں جائے کا کپ اٹھ کر اس کہ انتظار میں بیٹھ گیا تقریباً دس منٹ گزر
گئے یوں ہی بیٹھے بیٹھے میرا ایک ایک پل مشکل سے گزررہا تھا پھر اچانک واشروم کا
گیٹ کھولا اور جو میں نے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا میں سچ میں کچھ پل کیلئے پتھر
کا ہوگیا تھا سامنے علیشبہ کھڑی تھی بھیگی ہوئی اس کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا
اور اسنے لال کلر کی نائیٹی پہنی ہوئی تھی ہاں ہاں خالی نائیٹی جس میں سے اس کا
پورا بدن صاف نظر آرہا تھا اس کہ جسم کا ایک ایک حصہ وازا تھا میری آنکھوں کے
سامنے وہ بہار رنکلی اور کہنے لگی کہ ایسے کیا دیکھ رہیں ہیں ایسے نہیں دیکھیں
مجھے شرم آرہی ہے میں پھر بھی ٹکٹکی بھاندہے اسے ہی دیکھے جاراہا تھا میں نے ایسا
جسم اپنی پوری زنداگی میں کیسی بھی لڑکی کا نہیں دیکھا تھا اف کیا نظرہ تھا اسکے
بھیگے ہوئے بالوں سے پانی کا ٹپکنا ایسا لگ رہا تھا تھا جیسے شہید ٹپک رہا ہو اسکا
بھرا ہوا جسم اسکی نائیٹی کہ اندر سے ایسے جھلک رہا تھا جیسے کیسی ہیرے سے روشنی
پھوٹ رہی ہو اور میں اس روشنی میں نہارہا ہو اس کے بریسٹ ایسے گول تھے جیسے بال
ہوتی ہے سائز کا تو مجھے اندازہ نہیں لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ درمیانے سائز کے
خربوزے ہوں اور وہ بھی بنا برا کہ ہی اتنے ٹائیٹ ہو رہے تھے کہ اسکی نائیٹی کہ
تانا ہوا تھا اور پھر اس پر اس کہ کھڑے ہوئے نپل میں سچ میں پتھر ہوگیا تھا اسے
دیکھ کر وہ میرے پاس آئی اور میرا ہاتھ پکڑکر پوچھا کے کیا ہوا میں ٹھیک تو ہوں نہ
تو ایسا لگا کہ جیسے اچانک میں ہوش میں آگیا ہوں میں نے چونک کر کہا نہیں کچھ نہیں
ہوا ہے اور پھر اس کہ حسن میں مدہوش ہوگیا میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنی جانب
کھینچ لیا اسے اور وہ کیسی کٹی پتنگ کی طرح میری جانب کھینچی چلی آئی میں نے اسے
اپنی باہوں میں بھر کر گلے سے لگالیا اور کافی دیر یوں ہی کھڑا رہااس کے دونوں
بریسٹ میرے سینے میں پیوست ہوگئے اور میرا لنڈ اسکی جوت میں رگڑے دے رہا تھا
اور ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی پینٹ کی زپ ٹوٹ جائے گی اور
یہ خودی اپنا راستہ بنالیگا کیوں کے علیشبہ نے فرنٹ اوپن نائیٹی پہنی ہوئی تھی
باؤتھ گاؤن کی اسٹائیل کی وہ فرنٹ سے پوری اوپن تھی اور اس کہ دونوں سائیڈ کے کپڑے
کو اوپر نیچے کر کے کمر پر ایک بیلٹ بندہی ہوئی تھی اور اس نے مزید نیچے کچھ نہیں
پہنا تھااورنیچے سے اس کی نائیٹی آسانی سے ہٹ گئی تھی بنا بیلٹ کھولے اس کی نگی
جوت سیدہا میرے لنڈ سے رگڑرہی تھی میں اس وقت کتنے سرور میں تھا دل کررہا تھا کہ
وقت یہاں پر ہی تھم جائے پھر میں نے اسے کہا کہ میں شاید ہوش میں نہیں ہوں اسنے
پوچھا کہ کیوں کیا ہوا ہے میں نے کہا کہ تم جیسی خوبصورت لڑکی میں نے آج تک نہیں
دیکھی ہے اور تم میری باہوں میں ہو گی یہ تو سوچا بھی نہیں تھا میں نے یوں بس یقین
نہیں ہورہا ہے کے میں ہوش میں ہوں کہ خواب دیکھ رہا ہوں میری بات سن کر وہ تھوڑا
شرماگئی اسکے بعد میں نے اسکو پیار کرنا شروع کردیا میں نے اپنے ہونٹ اس کہ ہونٹوں
پر رکھ دئے اور انہیں چوسنا شروع ہوگیا کس کدر گرم اور خوشک ہونٹ تھے اسکے لیکن
خوشک ہونے کے باواجود ان میں سے شہید جیسا رس نکل رہا تھا میرا ایک ہاتھ اسکی کمر
پر اور دوسرا ہاتھ اس کی گردن پر تھا اور اسنے دونوں ہاتھ میرے ھپس پر رکھے ہوئے
تھے اور میرے ھپس کو دبارہی تھی اپنی طرف اور اپنی چوت کو میرے لنڈ سے رگڑرہی تھی
مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ وہ لنڈ اندر لینے کہ لیئے بہت بیتاب ہو اس کی
اور میری سانس بہت تیز تیز چل رہیں تھیں میں نے اپنا ہاتھ اسکی کمر پر سے ہٹا کر
اس کہ بریسٹ پر رکھ دیا اور ہلکے ہلکے دبانا شروع کردیا اس کہ منہ سے سسکاریا
نکلنا شروع ہوگئی اور وہ اور تیز تیز اپنی چوت میرے لنڈ پر رگڑنا شروع ہوگئی میں
نے اسکے ہونٹون پر سے ہونٹ ہٹائے اور اسکی گردن پر رکھ کر کس کرنا شروع کردیااور
دوسرا ہاتھ اسکے ھپ پر رکھ کر اسکو اپنی طرف دبانے لگا اور دوسرا ہاتھ اسکی نائیٹی
میں ڈال کر اسکا بریسٹ پکڑلیا اور اسکا نپل مسلنے لگا اچانک وہ ہوا جس کی مجھے
امید نہیں تھی علیشبہ نے خود کو ایک جھٹکے سے مجھ سے الگ کیا اور چند سیکنڈ یونہیں
کھڑی رہی پھر اسنے میری ٹی شرٹ اوپر کی اور میری پینٹ کی بیلٹ کھولنا شروع کردی
میں سمجھ گیا کہ علیشبہ بہت پیاسی ہے شاید مجھ سے بھی زیادہ پیاسی میں نے بیلٹ
کھلنے میں اس کی مدد کی اور خود ہی اپنے پینٹ اتاردی اب میں خالی انڈرویراور ٹی
شرٹ میں تھا اور میرا لنڈ انڈر ویر پھاڑ رہا تھا پھر میں علیشبہ کی کمر پر بندہی
بیلٹ کا کونا کھینچا تو اس کی گررہ کھل گئی اور میں نے ایک جھٹکے سے اس کی نائیٹی
اس کہ جسم سے الگ کردی اور اسکا پورا ننگا بدن میرے سامنے تھا اور میں ایک بار پھر
ہوش کھو بیٹھا ایسا خوبصورت بدن اف ایسا لگراہا تھا کہ سنگ مرمر سے تراشہ گیا کوئی
مجسمہ ہو یا پھر موم سے بنی کوئی گڑیا اس کہ جسم کہ کیسی حصے پر بال نام کی کوئی
شہ نہیں تھی انتہائی چکنا بدن تھا اسکا پھر میں نے اپنی ٹی شرٹ اتاری اب خالی میرا
انڈر ویر رہ گیا تھا ورنہ ہم دونوں بلکل ننگے تھے میں آگئے بڑھا اور علیشبہ کو
اپنی گود میں اٹھالیا اور اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے اور یوں ہی کس کرتے کرتے
اسے بیڈ پر لٹادیا اور دوبارہ پیار کرنہ شروع کردیا میں نے اس کو سیدھا لٹا کر
اسکے پیٹ پراپنے ہونٹ رکھ دیئے اور اسکے بریسٹ دبانے لگا اور پیٹ پر زبان پھرتا
پھرتا اسکے بریسٹ کی طرف آیا اور اسکے بریسٹ کو چوسنا شروع کر دیا وہ سرور اور مزے
سے پاگل ہوگئی اور اسکے منہ سے مزے سے سسکاریا نکلنا شروع ہوگئی اسکی سسکاریاں مجھ
پر قیامت بن کر گزررہی تھی اسکی آوازوں سے میں اور پاگل ہو رہا تھا پھر میں نے
اسکے بریسٹ کو چھوڑ اور اسکے پاؤں کی طرف آیا اور اسکے پاؤں کے انگھوٹھے پر اپنے
ہونٹ رکھے اور اسے چوسنے لگا پھر وہاں سے بنا ہونٹ ہٹائے اسے کہ جسم کہ اوپر بڑھنا
شروع کردیا انگھوٹھے سے اوپر اسکے پنجوں پر پنڈلیوں پر پھر رانوں پر اور پھر سیدھا
اسکی چوت پر اپنے ہونٹ
رکھ کر کس کرنا شروع کردیااس کہ منہ سے مسلسل سسکاریاں
نکل رہی تھی لیکن میں نے جیسے ہی اسکی چوت پر اپنے ہونٹ رکھے اسکی برداشت سے بہار
ہوگیا اور اسکے منہ سے عجیب غوں غوں کی آوازیں نکلنا شروع ہوگئی اور اسنے میرا سر
اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی چوت پر دبانا شروع کردیا اور اپنی چوت اوپر نیچے کرنے
لگی میں مسلسل اسکی چوت اپنی زبان سے چود رہا تھا کچھ ہی دیر میں اسکا جسم ایک دم
اکڑا اور پھر ڈھیلا پر گیا اور اسکی سانسے تیز تیز چل رہی تھیں بس وہ فارغ ہوگئی
تھی لیکن میرے لنڈ کا برا حال تھا وہ ابھی تک انڈرویر کا قیدی بنا ہوا تھا میں بھی
اسکے اوپرسے اٹھکر اس کہ برابر لیٹ گیااور اپنی ایک ٹانگ اسکی دونوں ٹانگوں کہ بیچ
میں ڈالکر اس کہ بریسٹ دبانا شروع کردیئے ایک بار بھر سے اس کہ جلتے ہوئے ہونٹوں
پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور اسے اپنے اوپر کھینچ لیا اب وہ مجھ پر الٹی لیٹی تھی
اور میں اسکے نیچے تھا وہ میرے ہونٹ پاگلوں کی طرح چوسنے لگی پھر وہ میری گردن پر
کس کرنے لگی اور یونہیں کس کرتے کرتے میرے سینے اور پیٹ پر آگئی پھر اسنے میرا
انڈر ویر نیچے کر کہ اتار کر بیڈ سے نیچے ڈالدیا اور میرا لنڈ آزاد ہوگیا جیسے ہی
اسنے انڈروری نیچے کیا تھا تو لنڈ کیسی اسپرنگ کی طرح اچھل کر بہار آیا تھا اور
ایسے کھڑا ہوگیا تھا جیسے پیٹاری کا ڈھکن کھلتے ہی سانپ کھڑا ہوجاتا ہے میرے لنڈ
سے گرمی کہ بھپکے نکل رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کے جیسے آگ لگی ہو اسمیں میرا لنڈ
پر جیسے ہی علیشبہ کی نظر پڑی علیشبہ کی انکھوں میں چمک آگئی اور اسنے آگے بڑھ کر
میرا لنڈ اپنی مٹھی میں دبالیااور اسکی ٹوپی پر اپنے ہونٹ رکھدیئے اور میرے برا
حال ہونے لگا شاید کچھ دیر میں چھوٹ جاتا میں کیوں کہ مجھے بھی خود برداشت کرتے
کرتے کافی ٹائم ہوگیا تھا میں نے علیشبہ کو کندھوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا اور
اسے بیڈ پر لٹادیا اور میں اب اسکو چود کر اپنی اور اسکی پیاس بوجھانے کا فیصلہ کر
چکا تھا علیشبہ کو بیڈ پر لٹاتے ہی میں اس پر چڑھ گیا اور اسکے بریسٹ پکڑ کر اسکے
ہونٹ پر اپنے ہونٹوں سے چومیاں لینے لگا اور نیچے میرا ننگا تنا ہوا لنڈ اسکی ننگی
چوت کی چومیاں لے رہا تھا میں یوں ہی اسکا جسم چاٹتا چاٹتا نیچے بڑھا اور اسکے
دودھ چوسنا شروع کردیئے اس کے منہ سے بھی سسکاریا نکلنا شروع ہوگئی اور وہ اپنی
چوت اٹھا اٹھا کر میرے لنڈ پر مارنا اسٹارڈ ہوگئی میں سمجھ گیا کہ اب یہ چودنے کے
لیئے تیار ہے میں نے اس کی ٹانگے کھولیں اور اپنا لنڈ اسکی چوت پر فیکس کیا اور
ایک زوردار جھٹکا مارا اس کی چوت اسکے نکلنے والے رس سے پوری طرح گیلی ہورہی تھی
میرے ایک ہی زوردار جھٹکے سے میرا آدھا لنڈ سلپ کرتا ہوا اسکی چوت میں چلا گیا اور
وہ اتنے زور سے چیخی کہ میں خود ڈرگیا اور کہنے لگی آرام سے پلیز درد ہوراہا ہے
بہت اسکی چوت بہت ٹائیٹ تھی اندازہ نہیں ہوراہا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے میں کچھ دیر
یونہیں روکا رہا اور پھر اپنے لنڈ پر آھستا آھستا پریشر بڑھاتا گیا اور اسکے منہ
سے ہلکی ہلکی درد بھری چیخیں نکلتی رہیں اور میرا پورا لنڈ اسکی چوت میں غائب
ہوگیا میں اسے تکلیف دینا نہیں چاہتا تھا میں کچھ دیر یوہی اسکے اوپراسکی چوت میں
اپنا لنڈ ڈالے لیٹا رہا اور اسکی ہونٹ چوسنے کہ ساتھ ساتھ اسکے دودھ دباتا رہا
تھوڑی دیر بعد ہی اسنے اپنی چوت خودہی ہلانا شروع کردی سب پھر کیا تھا میں نے بھی
جھٹکے دینا شروع کردیئے اور چندہی لمحوں بعد میں اپنی فل اسپیڈ پر تھا میں اپنا
تقریباً پورا لنڈ بہار نکالتا بس میرا ٹوپا اسکی چوت میں رہ جاتا اور پھر پوری
طاقت سے لنڈ اسکی چوت کہ اندر دھکیل دیتااسکی چوت بہت کرم اور ٹائیٹ تھی اور میرا
لنڈ بھی اتنا گرم ہوراہا تھا کے جیسے اسمیں آگ لگی ہوہمیں تقریباً لگ بھگ پندرہ
منٹ ہوگئے یونہیں چودائی کرتے کرتے اسکی سسکاریوں اور چھپ چھپ کی آوازوں سے کمرا
گونج رہا تھا اور پھر میں چھوٹنے کہ قریب آگیا اور میرے لنڈ نے لاوا نکلنا شروع
کردیا اور علیشبہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوگئی اور میں یوں ہی تھک کر اس
پر لیٹ گیا کچھ دیر خاموشی رہی اور جب ہمارے ہواس بھال
ہوئے تو ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے میں نے پوچھا مزا آیا تمہیں تو
علیشبہ نے کہا کہ مزا ہی آج پہلی بار آیا ہے مجھے میں نے پوچھا کیا مطلب تو اسنے
مسکراکر کہا کہ کچھ نہیں میں نے کہا کہ نہیں بتاؤ مجھے تو کہنے لگی کہ میں نے بتایا
تھا نہ کے میرے شوہر مجھ سے کافی بڑے ہیں ان کی ایج پیتالیس سال ہے اور میں بائیس
سال کی ہو جو مجھے چاہیے تھا آ ج تم سے ملا ہے کیوں کی بڑھتی عمر کا اثر ہر چیز پر
ہوتا ہے نہ انکے لنڈ کا سائیز تمھارے لنڈ کی طرح موٹا اور لمبا ہے اور نہ ہی ایسی
سختی اور گرمی ہے جیسی آج مجھے ملی ہے انھونے تو پہلی رات بھی بہت مشکل سے ڈالا
تھا اندر آج جب ہی مجھے بہت تکلیف بھی ہوئی ہے لیکن اسکا بھی اپنا مزا تھا میں
خاموشی سے لیٹا لیٹا اسکی باتیں سنتا رہا اور دل کررہا تھا کہ اسکے شوہر کو تھینک
یو بولوں کم از کم اسکا اتنا تو حق بنتا ہی ہے نہ کیوں کہ اسکی وجہ سے ہی آج اسکی
بیگم کیسی پکے ہوئے آم کی طرح میرے لنڈ پر آن گری ہے ورنہ میں اتنا خوش نصیب کہاں
تھا خیر یونہیں باتیں کرتے کرتے تقریباً ایک گھنٹہ گزرگیا اور اب ہم دوبارہ تیار
تھے انجوئے بھری چودائی کہ لئے اس دن میں شام پانچ بجے تک اسکی گھر ہی رہا اور ہم
نے چار بار چودائی کی بہت مستی کی سارا دن ساتھ نہائے کھانا کھایا پھر میں گھر آکر
سوگیا اور دوسرے دن ہی جاگا اسکے بعد روز علیشبہ کو پڑھانے جاتا تو پہلے اسے خوب
چودتا اور پھر پڑھاتا تقریباً ایک سال تک یہی چلتا رہا اور اس ایک سال میں ہم بہت
خوش رہے
لیکن پھر علیشبہ واپس کراچی چلی گئی تھی
ختم شُد
bold urdu novel pk saaqi download
bold urdu novel pk saaqi ebook
bold urdu novel pk saaqi facebook
bold urdu novel pk saaqi novel
bold urdu novel pk saaqi online pdf
bold urdu novel pk saaqi pdf download
ہر طرف مکمل خاموشی کا عالم تھا سورج
اپنی پوری آب وتاب سے آگ برسا رھا تھا گرمیوں کی اس گرم دوپہر میں جب لوگ اپنے
گھروں میں دبکے سکون کی گہری نیند سو رہے تھے
قسمت کا مارا روفی چھت کے ایک کونے
پر لیٹا اپنی قسمت کو کوس رھا تھا واہ کیا قسمت تھی جو اسے آج اسے
اس موڑ پر لےآئی تھی کہ آج وہ اپنے تمام خدشات اور شکوک وشبہات کو دور کرنے کاپختہ
ارادہ کرچکا تھا
اسے شدت سے نائیلہ کے چھت پر آنے کا
انتظارتھا وقت کافی بیت چکا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ آج وہ ہو سکتا
ہے نہیں آئیے گی پھر نیچے سیڑھیوں پر کسی کی آھٹ سنتے ہی اسے لگا کہ اس کا انتظار
رائیگاں نہیں گیا
چھت کی سیڑھیوں کے دروازے سے نمودار ہوتی
نائیلہ دبے قدموں چھت کے سرے پر واقع پانی کی ٹینکی کی طرف بڑھ رہی تھی
کافی عرصے سے اسے یہ شک ہوچلا تھا
کہ نائیلہ کا پڑوس میں کسی سےکوئی چکر چل
رہا ہے پہلے پہل تو اس نےاس کو اپنا وہم جانا اور اپنی سوچ کو انتہائی لغو تصور
کیا مگرپھر نائیلہ کو بڑی باقاعدگی سے بے مقصد چھت پر جاتے دیکھا تو اسےبھی کھد بد
رہنے لگی نائیلہ کی شوخ اور بےباک طبیعت کا تو اندازہ تھا مگر شک کرنے پر بھی دل
آمادہ نہ ہوتا
آخر مجبور ہوکر سارے معاملے کی کھوج
لگانے کا فیصلہ کیا اس وقت بھی چلچلاتی دھوپ میں وہ پسینے سے شرابور چھپ کر چھت پر
تاک لگائیے بیٹھا تھانائیلہ کو چھت پر آئیے کچھ دیر ہوچلی تھی اور بے سکونی
کے ساتھ ٹہلتے ہوئیے کسی کا انتظار اس کے چہرے پر صاف عیاں تھا روفی کوبھی
اس کی طرح اب کسی دوسرے مردکی آمد کا انتظارتھا
اس کی نگاہیں چھت پرہی لگی ہوئی تھیں پر
کافی دیر سے چھپ کر اس طرح الٹا لیٹے روفی کو اکتاہٹ ہو رہی تھی تھکاوٹ اور گرمی
سے اس کے اعصاب ڈھیلے پڑتے جارہے تھے
اپنے اندیشےبھی بےبنیاد ثابت ہوتے دکھائی
دے رہے تھےپھر اس کی سوئی ہوئی حسیات جاگنے لگیں اور رگوں میں خون کی گردش تیز ونے
لگی دوسرا فریق بھی اب ظاہر ہوچکا تھا
اسے دیکھ کر روفی کو شدید حیرت نے آ لیا
تھا اس کا خیال تھا کہ نائیلہ کا اڑوس پڑوس کے کسی نوجوان سے آنکھ مٹکا چل رہا
ہوگا مگر اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس وقت برابر والی چھت پر خضر
انکل کو دیکھے گا
روفی کو خضر انکل سے ہرگز ایسی امید نہیں
تھی اس کی جوانی اور عمر سے کئی گنا بڑے مرد سے بھی چکر ہو سکتا تھا تو ان
کے بچے تھے پھر ان دو گھروں کے اہل خانہ میں راہ وسم بھی کافی پرانا تھا
بڑا ہونے کے ناطے وہ ان کی عزت بھی بہت
کرتا تھا اور پڑوسی ہونے کے وجہ سے کچھ بے تکلفی بھی تھی گھر پر کوئی بڑا نہ موجود
ہونے کی وجہ سے وہ اکژاوقات مختلف امور میں اس کی مدد بھی کرتے رہتے تھے
یہ تواسے معلوم تھا کہ پچاس سے اوپر کے
ہونے کے باوجود محلہ کی بہت سی عورتیں ان کی شاندار شخصیت اور مردانہ وجاہت پر
مرتیں تھیں ان کا اونچا قد کاٹھ اور مظبوط کسرتی جسم اس عمر میں بھی اچھے اچھے
جوانوں کو حسد میں مبتلا کردیتا تھا
بڑی میچور عمر کی عورتیں تو ایک طرف بہت
سی جوان لڑکیاں بھی دل وجان سے ان پر فدا تھیں یہ بھی اس کو اندازہ تھا کہ بہت سی
حسین لڑکیوں کو تو وہ فیض یاب بھی کرچکے ہیں
بہرحال اپنی بڑی آپی کو خضر انکل کے لیے
بے تاب دیکھ کر روفی کو دکھ اور افسوس نے آلیا انیس برس کا خوبرو مگر سیدھا سادھا
روفی گھر میں سے سب سے چھوٹا اور کالج کے دوسرے سال میں تھا
ماں باپ تو بچپن میں گزر گئیے تھے، ایک
بڑا بھائیی تھا جو روزگار کے لیئیے بیرون ملک مقیم تھا گھر کے کل افراد فل
وقت دو بڑی بہنوں اور ایک پیاری بھابی پرہی مشتمل تھے صحت مند سیکسی جوان
بدن اور کی مالک ستایئیس برس کی نائیلہ دونوں بہنوں میں بڑی اور شادی کو تیاربیٹھی
تھی
چھوٹی بہن چوبیس سالہ نورین ابھی کالج کے
چوتھے سال میں تھی اور بی اے کی تیاری میں مصروف تھی اوپر والے نے دونوں بہنوں کو
حسن وجمال سے اس طرح نوازا تھا کہ ان کی جوانی اور سیکسی پن بہت سے دیکھنے والوں
کو مشکل میں ڈال دیتی تھی
شروع جوانی سے ہی اپنےقیامت خیز جوانی
پر اُٹھنے والی پرستائیش نظروں اور پزیرائی نے نائیلہ کو شوخ اور بےباک
بنادیا تھا اپنی وبصورتی سے بھی واقف تھی اور اپنی جوانی پر کچھ ناز بھی تھا
اس جوانی کے عاشق اور طلبگار تو کئی تھے اور اسکو بھی ان کی توجہ اچھی محسوس
ہوتی
مگر وہ بھی ہر کسی کو گھاس نہیں ڈالتی
تھی مغرور لڑکی مشہور ہو چکی تھی کالج کےآغازمیں کئی لوگ دوستی اور قربت کے
خواہشمند ہوئیے تو اس نے اپنی تمام تر بےباکی کوچند لو لیٹرز کے تبادلےتحفوں
نذرانوں کی وصولی اور ایک آدھ خوش نصیب کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے تک محودود رکھا
اس نے کبھی کسی کو چوت کا اصل دیدار تک
نا کرایا تھا سب اس کی پھدی لینے کے دعوے دار تو بن چکے تھے لیکن سچ پوچھیں تو
جہاں تک میرا خیال ہے ا سنے پھدی اوپر اوپر سے لن رکھنے کے لیئیے بھی نہیں دی ہوگی
کیونکہ لڑکی پھدی اگر ایک بار کسی مرد کے سامنے ننگی کر لے تو پھر اس کو لن لینے
سے کوئی نہیں روک سکتا
عورت تمام تر شر و حیا کے باوجود بھی لن
لینے نا کام نہیں لوٹا کرتی یہ الگ بات ہے کہ وہ شلوار نا اتار چکی ہو چوما چاٹی
تک رکھا ہو تو چوت دینے سے بچ سکتی ہے تو ادھر بھی معاملہ بھی کچھ اس طرح کا ہی
دکھائی دینے لگا تھا لیکن روفی کو اس نائیلہ کی بچی سے کچھ زیادہ ہے
وابستی ہو چکی تھی وہ ا سکی پھدی مارے بنانہیں ٹلنے والا تھا
نائیلہ کی جوانی تڑپ تڑپ کے اب لن
مانگنے کے لیئے اوتاولی ہو چکی تھی اور اس کو ہر صورت سکون کے ساتھ اس کرد کی
بانہوں کی ضرورت تھی اور وہ اس مرد کی اسیر ہو جانے کے لیئیے بہت بے قرار ہو چکی
تھی
جوانی کے منہ زور گھوڑے کے آگے اب اس کا
بس نہیں چل رہا تھا کیسے ا سکو روکے جوانی ایک دم سے آتی ہے اور اپنے ساتھ
بہت کچھ بہا کے لے جاتی ہے
اس کے ساتھ بھی اب ایسا ہی سین ہونے والا
تھااس کی الہٹر جوانی کو انکل روندنے والا تھااور اپنی مرادنگی کی دھاک
بٹھانے کو وہ بھی بہت بے قرار ہو چکا تھا یوں تو وہ کئی لڑکیون کے ساتھ سیکس کر
چکا تھا لیکن اس کے خیال کے مطابق نائیلہ کے ساتھ سہانی دوپر جو گرم ہونے کے
باوجود بھی کسی سہاگ رات سے کم دکھائی نا دیتی تھی
وہ میچور مرد تھا بڑی عمر کا اس کی
عمر میں کچھ بڑی اورمحلہ کے رنگین سہانے سے واقف ایک دوست سے جب انکل خضر کی تعریف
سنی تو نائیلہ کا بھی انکل کو دیکھنے کا انداز اور خیال ہی بدل گیا جوانی کی
ترنگ نے انکل سے دوستی اوآغوش کی خواہش کو جنم دیا
کچھ جھجک بھی ہوئی تھی اور ڈر بھی
لگا پرانکل کی اس جانداراور زندہ دلی دلی میں چھپی مزیدار باتوں اور
اندازکے سامنے رہا نہ گیا انکل کے ہاں آمدورفت توپہلے سے بھی تھی،
نگاہوں کی زبان سے دل کا پیغام پہنچایا
یہ تواندازہ تھا کہ اس سیکسی خوبصورت پیشکش سے انکار کون بدنصیب کرے گا اور
انکل کے ساتھ بات راز ہی میں رہنے کا سکون بھی تھا
ابھی کالج نہیں چھوڑاتھا کہ نائیلہ کی خضر انکل سے پہلی
سیکسی سہانی ملاقات ہوئی چھت پر ہی ملاپ ہوا اور وہیں کلی سے پورا
پھول بنی انکل نے بھی اس کے کنوار پن کی کچی تند دھاگےبڑے چاؤ سے توڑے اور کھولے
لیکن ایک بات توپ بھی جانتے ہٰں کھلنے کے
بعد سلتے نہیں پھر مزید اور لڑکی سےعورت کا روپ دیا مرد سے اپنے پہلے
وصال کی پر کیف لذت نے نائیلہ کو کافی دن مسرور اور شاداں رکھا جسم کے
زیریں حصے سے اٹھتی درد کی میٹھی سی ٹیس بھی کچھ دن اس کو مزہ دیتی رہی اور
چھت پرانکل کے ساتھ گزارے ان رنگین لمحات کی رنگینی کا احساس دلاتی رہی
اس کی منہ زور جوانی کو بھی جیسے ایک
بھرپور مرد کی تلاش تھی سلسلہ چل نکلا اور ملاقات بلکہ کئی ایک ملاقاتیں ہونے لگیں
انکل کا دل بھی اس کی الہڑ اور بھرپور جوانی پر خوب آیا گرمیوں کی ایسی کئی
دوپہریں انکل نے اس کے بدن کی گہرائی ناپنے اور اس کی جوانی کو آسودگی دینے
کرنے پر صرف کیں
پہلی سیکسی اور بھرپور ملاقات میں
آشکار ہونے والے درد دور ہوئیے تو نائیلہ بھی اس کھیل کی ماہر ہکھلاڑی کی طرح ہوتی
گئی برابرکا کھلاڑی ملا تو انکل بھی سب کو چھوڑ کر پوری توجہ اور زور اسی پر لگانے
کرنے لگے اب تک وہ نائیلہ کے جسم کا ہر سیکسی انگ اور اس کی ترنگ کو ناپ چکے
تھے
اور بدن کا ہر ایک انگ انگ کھول
چکے تھے اور وپ مکمل عورت تھی ا ب وہ بھی نکھر کر ایک بھرپورجوان عورت کے
روپ میں ڈھل چکی تھی اس کےصحتمند کسے ہوئیے جوان لچکیلے بدن پرغضب ڈھاتی
چھاتیوں بوبز کی اٹھان اور اس کی چونچیوں کی کشادگی دیکھنے والوں کے جسم کے
کچھ حصوں میں خون کی گردش میں اور بھی تیز ی کردیتی تھی
کافی مدت ہو چلا تھا روفی اب بڑا ہو گیا
تھا اور سمجھنے لگا تھا نائیلہ اب اس سے محتاط رہنے لگی تھی ویسے تووہ بدھو
پن کی حد تک سادہ بھی تھا تھا پراس سے کافی مانوس بھی تھا
اس کے گھر پر موجودگی میں وہ کم
مکم ہی اوپر جاتی تھی یا پھر اس کی باہر دوستوں کے پاس نکلنے کا انتظار کرتی
ابھی تک تو سارے معاملے کی واحد صرف ایک ہی راز دار تھی
رازدار نورین تھی جو پیچھے گھر پر نظر
رکھتی تھی کام کو سنبھالتی تھی شائید کہ کبھی اس کی باری بھی آئیے تو نائیلہ بھی
اس کا اچھا ساتھ دیکر ا سکی کنواری چوت کھلنے میں مدد دے گی
کچھ دنوں سےروفی کا معمول تھا کہ کالج سے واپسی پر
اچھے اور کچھ نئیے دوستوں کی طرف نکل جاتا آج بھی کھانے سے فارغ ہوتے ہی وہ
شام تک وآپس لوٹنے کا کہہ کر جلدی باہر نکل گیا نائیلہ کو اب اپنی بھابی کے
سونے کا انتظار تھا اور نورین کے پیارے اشارےکا بھی انتطار تھا جانے کب سگنل
ملے اور وہ چدائی لگوانے چلی جائیے
ہفتے میں آج کے دن انکل سے ملاقات اس کا
معمول بنا ہوا تھا اور بھی تھا اور پھر وہ کل شام خضر انکل سے ملنے کی
فرمائیش بھی کرآئی تھی کیونکہ ا سکی چوت گرم ہو چلی تھی
بھابی کے خراٹوں کی بلند آواز بلند
ہوتے ہی نورین کا اشارہ پا کر وہ بھی چھت کی جانب بڑھی اور ا سکے قدم نا جانے کیون
آج تھوڑے لرز رہے تھے جیسے کچھ انہونی ہونے جا رہی ہو
روفی آج نائیلہ کو موقع پہ ہی رنگے ہاتھوں پکڑنے
کا ارادہ کر کے آیا تھا پاپی خضر انکل کو دیکھ کر روفی کو حیرت بھی ہوئی تھی
اور افسوس بھی ہورہا تھا کہ اس کی آپی نے یہ کیا ظلم کیا ہے کاش کسی نوجونا
لڑکے سے دوستی کر لیتی تو اس کی کم از کم شادی بھی اس کے ساتھ ہو سکتی تھی
انکل کو دیکھ نائیلہ کے چہرے پر کھیلتی
مسکراہٹ بھی روفی کو بالکل زہر لگ رہی تھی آس پاس کا جائیزہ لینے کے بعد خضر
انکل خاموشی کے ساتھ دبے قدموں اس جانب بڑھنے لگے جہاں نائیلہ بےصبری
بے قراری سےان کی منتظر تھی ان کا لن لینے کی طلب گار تھی
قریب پہنچتے ہی انکل نے اس کو اپنی
بانہوں میں کھینچ لیا اور ان کے ہونٹ اس کے گرم رسیلے ہونٹوں کا رس پینے لگے
اور ان کو تر کرنے لگے ان کے ہاتھوں کو اپنی آپی کی سیکسی گداز پشت پر ابھری
بھری بھری گولائیوں میں پیوست ہوتے دیکھ کر روفی کا خون کھولنے لگا تھا لیکن
وہ شش و پنج میں پڑتا گیا
اس واقع کو گزرے پانچ سال ھو ئیے ھوں گے
لیکن آج بھی میں اس کے بارے میں سوچتی ھوں تو میری چْوت گیلی ھو جاتی ھے حالاں کے
میں ابھی دو بچوں کی ماں ھوں۔ میں ایک درمیانے درجے کے گھر میں پیدا ھو ئی تھی۔
میرا صرف ایک بھائی تھا جو مجھ سے بڑا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ھے جب میں کالج میں پڑھتی
تھی۔ھم لاھور میں رھتے تھے۔ میرے ابو ایک دفتر میں ملازم تھے اور بھائی پنڈی میں
کام کرتے تھے۔ میری دنیا میں ایک ھی دوست تھی جس کا نام تھا نازیہ تھا۔ وہ میری
کزن بھی تھی۔ میرے امی ابو بہت سخت تھے اس لیے
نہایت خوبصورت ہونے کے باوجود بھی میں
فیشن نہیں کر سکتی تھی اور بڑی چادر کر کے کالج جاتی تھی۔
کالج کی بہت سی لڑکیاں مجھے صرف دیکھنے
میری کلاس آتی تھیں۔ چونکہ میری ماں پٹھان تھی اسلیے میرا رنگ گورا اور صاف تھا
اور بڑی بڑی کالی آنکھیں لال گلابی ہونٹ اور خوبصورت جسم۔ مجھ میں ایسی کوئی برائی
بھی نہ تھی ہاں البتہ کبھی کبھی انٹرنیٹ پے سیکس کی فلم یا ویب سائیٹ دیکھ لیتی
تھی اور ہاں نازیہ مہینے میں جب ایک یا دو بار میرے گھر سوتی تو ہم دونوں ایک دوسرے
سے کھیلتے۔ میرا اپنا کمرہ تھا۔ رات کو دونوں ننگے ہو کر سوتے تھے اور ایک دوسرے کے
سینے دباتے اور چوت بھی ملتے تھے جس سے ہمیں بہت مزہ آتا تھا۔بس یہی ہماری انجوائیمنٹ
تھی۔ہم ہر ایک بات ایک دوسرے سے شئیر کرتے تھے۔
پھر کیا ہوا کیایک لڑکا نازیہ کو پسند
کرنے لگا۔اور نازیہ بھی اسے پسند کرتی تھی۔ نازیہ جب بھی کالج سے چھٹی کر کے علی
سے ملنے جاتی تو میں سارا معاملہ سنبھال لیتی۔ چند ہی ملاقاتوں کے بعد انھوں نے
سیکس بھی شروع کر دیا۔ اب جب رات کو نازیہ میرے ساتھ سوتی تو مجھے اپنے سیکس کے
قصے سناتی اورسناتے ہوۓ میری چوت بھی ملتی تھی جس سے مجھے بہت مزہ آتا تھا۔اس کی
باتیں سن کے میرا بھی بہت دل کرتا تھا کہ میں بھی کسی سے چدوایا کروں لیکن ماں باپ
کا سوچ کے خاموش ہو جاتی۔
ہمارے پڑوس میں بی بی پیراں رہتی تھی۔ اس
کے چار بچے تھے۔ اس کاخاوند ایک مل میں ملازم تھا اور ۳۸ یعنی اڑتیس سال کا ہو گا لیکن دیہات کا
ہونے کی وجہ سے بڑے قد کاٹھ کا اور سخت جسم کا تھا اور کافی سانولا رنگ تھا۔ بس
ایسا تھا کہ اگر ایک بار دیکھا تو شاید دوسرے بار آپ دیکھنے کی تکلیف نہ کریں۔ میں
نے نوٹ کیا کہ وہ مجھے چھت پہ چڑھ کہ تاڑتا رہتا ہے۔میں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔
ایک دفعہ امی ابو نے دوسرے شہر جانا تھا اور رات ٹھہرنا تھا تو میں نے نازیہ کہ
سونے کے لیے بلا لیا۔اکثر ہم ایسے ہی کرتے تھے۔ شام کو نازیہ نے مجھے منت سماجت کر
کے را ضی کر لیا کے وہ علی کو رات کو یہاں بلا لے۔ رات دس بجے علی آیا اور ساتھ ہی
ہمارے لیے کھانا بھی لے آیا۔کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں میرے کمرے میں چلے گیے اور
اندر سے دروازہ بند کر لیا۔میرا دل دھک دھک کرنے لگا کہ ابھی اندر کیا ہو گا۔ مجھ
سے رہا نا گیا اور میں نے کی ہول سے
اندر جھانکنا شروع کر دیا۔کیا دیکھتی ہوں
کے علی نے نازیہ کو گلے لگایا ہوا ہے اور ایک ہاتھ سے نازیہ کی گانڈ پہ ہاتھ پھیر
رہا ہے۔چند ہے لمحوں بعد نازیہ جھکی اور علی کی پینٹ کی ہک کھول کے اس کا لن نکال
کے ہاتھ میں لیا اور پھر منہ میں لے کے چوسنے لگی۔یہ منظر دیکھ کے میرے بدن میں
بجلی دوڑنے لگی اور میرا ہاتھ میرے شلوار میں چلا گیا اور میں نے محسوس کیا کے
میرے چوت گیلی ہو رہی ہے۔
تھوڑی دیر میں علی نے کپڑے اتار دیے اور نازیہ
کو بھی ننگا کر دیا۔اور پھر علی نے اپنا لن نازیہ کی چوت کے ہونٹوں پہ ملنا شروع
کر دیا۔ میں نے بھی اپنی انگلی سے اپنی چوت کو سہلانا شروع کر دیا۔پھر علی بیڈ پے
لیٹ گیا اور نازیہ اس کے اوپر آ گئی اور اس کے لن پے ایسے بیٹھی کے علی کا سارہ کا
سارہ لن نازیہ کی چوت میں چلا گیا۔ اب اور آگے مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں اپنے
کمرے میں آ گئی۔ سامنے دیکھا تو وہی پڑوسی مجھے اشارے کر رہا تھا۔ پتا نہیں مجھے
کیا ہوا کہ میں مسکرا دی۔ اب وہ اس بیڈ روم میں گیا جو میرے بیڈروم کے سامنے تھا
اور وہاں سے اشارہ کیا۔ میں پھر مسکرا دی۔ وہ دھوتی پہنے کھڑا تھا۔ اس نے دھوتی
میں سے اپنا کالا لن نکال کے مجھے دیکھایا۔ میں نے گھبرا کے بتی بجھا دی۔ میرا دل
دھک دھک کرنے لگا۔ مجھے غُصہ بھی بہت آیا کے دیکھو چار بچوں کا باپ اور مُجھ
اٹھارہ سالہ لڑکی سے عشق لڑاتا ہے۔ خیر میں پھر کی ہول سے علی اور نازیہ کا تماشہ
کرنے لگی۔اب دیکھا کے علی نازیہ پے چڑھا ہوا ہے اور نازیہ کی ٹانگیں
اپنے کاندھے پے رکھ کے زور زور سے گھسے
مار رہا ہے۔علی کا لُلا نازیہ کی چُوت میں اندر باہر ہوتے دیکھ کر مجھے بہت بے چینی
سی ہوئی۔ میں نیچے آ کے کمپیوٹر پے سیکس فلمیں دیکھنے لگی۔ ایک فلم میں ایک بڑا
کالا لن دیکھا۔ یہ بالکل پڑوسی ناصر کے کالے لن کی طرح تھا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے
اس نے مجھے دیکھایا تھا۔ فلم میں اس کالے لن نے گوری کو اتنا مزہ کروایا کے گوری
پاگل ہو گئی۔ اب میرے ذہن میں بار بار ناصر کے کالے لن کے خیال آنے لگے۔ خیر میں
نے پھر جا کر اُن کو دیکھا تو اب نازیہ ڈوگی سٹائیل میں چودا رہی تھی۔ میں اپنے
کمرے میں آکے لیٹ گئی لیکن بہت دیر تک نیند نہ آئی۔
اگلے دن صبح سویرے ہے علی چلا گیا۔ شام
کو امی ابو بھی آگیے۔ اگلے دن میں بی بی کے گھر گئی۔ وہ بہت نیک اور اچھی عورت
تھی۔ مجھ سے کہنے لگی کے میری بہن کی شادی ہے اور ہم لوگ اگلے جمعرات کو گاوں جا رہے
ہیں دو ہفتے کے لیے۔ ناصر یہاں ہو گا اگر چھٹی ملی تو ولیمے کو آ جاۓ گا۔آج اتوار
ہے کافی تیاری کرنی ہے۔ خیر میں گھر آ گئی۔ رات کو سوتے میں پھر مجھے ناجانے کیوں
ناصر کا کالا لن آنکھوں کے سامنے آگیا۔ میں ساری رات اُس کے بارے میں سوچتی
رہی۔کالج میں بھی اس خیال سے چُھٹکارا نہ پا سکی۔ شام کو ابو کے کزن نے ملتان سے
فون کیا کہ اُن کے ہاں شادی ہے اور سب کو آنا پڑے گا اور آپ لوگ اس بُدھ کو پہنچ
جائیں کیوں کہ تیاری بھی آپ لوگوں نے کروانی ہے۔ میں نے تو جانے سے صاف انکار کر
دیا اور بہانا بنایا کہ میرے ٹیسٹ ہیں۔
اگلے دن جب میں نے نازیہ کو یہ بتایا تو
وہ تو خوشی سے پاگل ہو گئی۔ اب تو دو یا تین دن خوب عیاشی کریں گے۔ مجھے کوئی خوشی
نہ ہوئی کیونکہ نازیہ تو اپنے یار سے چُوت مرواےٌ گی اور میں ویسے ہی پریشان ہوں
گی۔
رات کو پھر مجھے ناصر کا کالا لن آنکھوں
کے سامنے آ گیا۔ پھر میں نے ایک عجیب فیصلہ کیا کہ میں ناصر سے یاری لگاوں گی۔ اس
میں ایک فائدہ ہے کہ شادی شدہ شخص ہے کم از کم بلیک میل تو نہیں کرے گا۔ اپنے بیوی
بچوں کی خاطر احتیاط برتے گا۔ یہ فیصلہ کر کے میں اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کرنے
لگی۔اب میں نازیہ کو بتاوں گی کہ اس بار ایک کمرے میں وہ علی سے چدوایے گی تو
دوسرے کمرے میں میں بھی مزے کروں گی۔ لیکن یہ سب میں نے نازیہ کو نہیں بتایا۔ دوسرےدن
میں بی بی پیراں کے گھر گئی تو ناصر بھی تھا۔ اس نے چُھپ کے مُجھے آنکھ ماری تو
میں مُسکرادی۔وہ بُہت خُوش ہوا اور سمجھا کہ لڑکی پھنس گئی۔ خیر امی ابو نے جمعرات
کو مُلتان جانے کا فیصلہ کیا ۔ بُدھ کے دن بی بی پیراں اپنے گاوں چلی گئی اپنے بچوں
سمیت اور میرے امی ابو اگلے صُبح جانے کی تیاری کرنے لگے۔ شام کو میں بُہت بے چین
تھی۔ وقت نہیں کٹ رہا تھا۔ اپنے کمرے میں آگئی اور شلوار اُتار کے شیشے کے سامنے
اپنی کنواری چُوت دیکھنے لگی۔ اپنی چُوت کے ہونٹوں کو کھول کے اپنا تنگ سا سُوراخ
دیکھا اس میں میرے چھوٹی اُنگلی بھی نہیں جاتی تھی لیکن کل اس میں ناصر کا بڑا
کالا لن جاۓ گا اور پھر یہ سُوراخ اتنا تنگ نہیں ہو گا۔میں اندر باتھروم گئی اور
اپنی چُوت بال سفا کریم سے شیشے کی طرح صاف کی تاکہ ناصر کو پسند آۓ۔ یہ سب کُچھ
کرنے کے بعد سوچا کہ یہ سب ہو گا کیسے۔ آخر میرے ذہن میں ایک پلان آیا۔ میں نیچے
کچن میں گئی اور کھیر بنانے لگی۔ کھیر تھوڑی زیادہ رکھی تاکہ میں کل کھیر دینے کے
بہانے جب ناصر کے گھر جاوں گی تو وہ اکیلا ہو گا اور مُجھ پر ضرور ٹرائی مارے گا۔
سو اگلے دن کے سوہانے سپنے لیے میں سو گئی۔
دوسرے دن امی ابو صُبح سویرے چلے گیے اور نازیہ
نے کالج کے بعد آنے کا کہا تھا۔ اب میں تیار ہونے لگی۔ کُھلے گلے والی قمیص پہنی
تاکہ سینے نظر آسکیں۔ شلوار پہنی لیکن پینٹی نہیں پہنی۔سوچا ناصر کو اسکو اُتارنے
میں وقت لگے گا۔ جب امی ابو کو گیے دو گھنٹے ہو گیے اور مُجھے یقین ہو گیا کہ اب
وہ چلے گیے ہوں گے تو میں دھڑکتے دل کے ساتھ کھیر کی پلیٹ لیے ناصر کے گھر کا داورازہ
کھٹکھٹایا۔ ناصر نے دروازہ کھولا۔ میں (جی کھیر لائی ہوں آپ کے لیے ) ناصر (
شُکریہ پلیز فریج میں رکھ دیں) مُجھے پتہ تھا فریج کہاں ہے سو میں کچن میں گئی اور
کھیر رکھنے لگی۔ اس تمام وقت میرا دل دھک دھک کرتا رہا۔ میں جیسے ہی کچن میں گئی
ناصر نے دروازے پے پکا لاک چڑھا دیا۔ میرا دل اُچھل کے حلق میں آ گیا۔ میں نے
انجان بن کے پوچھا ( بی بی کہاں ہے ؟) ناصر نے جواب دینے کی بجائےمُجھے
پیچھے سے ایسے دبوچا کہ اُسکے دونوں ہاتھ
میرے سینے پے اور اپنا لن میرے گانڈ پے رگڑنے لگا۔ میں نے کہا ( پلیز مُجھے جانے
دو میں بی بی کو بتاوں گی۔ دیکھو میں ایسی لڑکی نہیں ہوں۔ پلیز مُجھے جانے دو لیکن
دل ہی دل میں خُوش تھی کہ ناصر نے سب کُچھ وہی کیا جو میں نے سوچا تھا۔ ناصر (
دیکھو گھر میں کوئی نہیں ہے لہذا شور سے کچھ نہیں بنے گا ہاں کوئی آ گیا تواُلٹی
تُمہاری بدنامی ہو گی۔ میں ( پلیز مُجھے جانے دو مُجھے ڈر لگ رہا ہے۔ پلیز کوئی
دیکھ لے گا ) ناصر ( یہاں کوئی بھی نہیں ہے گھبراو نہیں کوئی نہیں دیکھے گا ) یہ کہہ
کر ناصر نے دھوتی سے اپنا کالا لن نکالا اور میری گانڈ پے رگڑنے لگا اور ہاتھوں سے
میرے ممے بھی دبانے لگا۔ اُس کے ایسا کرنے سے میں نے گہری سانسیں لینا شروع کر دیں
۔ میرا یہ حال دیکھ کر ناصر کا اور حوصلہ بڑھا اور اُس نے اپنا ہاتھ میری قمیض میں
ڈالا اور میرے ممے پکڑ لیے۔
میں ( پلیز ایسا نا کرو اور مُجھے جانے
دو) اُس نے میرا جواب دینے کی بجاۓ میرے شلوار نیچے کی اور اپنے لن اب میری ننگی
گانڈ پے ملنے لگا۔ اُس کے ایسا کرنے سے میرے جسم میں بجلیاں سے دوڑنے لگیں۔ اب میں
نے سوچا کے اب اور نہیں منع کروں۔ میں ( اچھا پلیز وعدہ کرو کسی کو نہیں بتاو گے۔
اور پلیز دروازاہ بند کر لو۔ ) ناصر ( وعدہ کے یہ راز اآپ کے اور میرے درمیان رہے
گا ۔ اچھا اب مان جاو اور چلو بیڈ روم میں چلتے ہیں ) یہ کہہ کے وہ میرا ہاتھ پکڑ
کے بیڈ روم لے گیا۔ میرے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے لیکن چہرے پہ پریشانی سجائی تھی۔
بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی اُس نے اپنی شرٹ اور دھوتی اُتار دی اور اپنا کالا لن لے
کے میرے قریب آیا اور مُجھے گلے لگایا اور بولا ( صبا جانی آ گھبراو نہیں ہم بلوچ
ہیں جاں دے دیں گے لیکن یار پے آنچ نہیں آنے دیں گے) اس کی یہ بات سُن کر تھوڑا
حوصلہ ہوا اور میں نے بھی اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ ناصر آگے بڑھا اور مُجھے
بچوں کی طرح گود میں اُٹھا کر بیڈ پے لٹا دیا اور میری قمیض اُٹھا کر اور میرے نپل
چُوسنے لگا۔ میں ( دیکھو ناصر مُجھے بُہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں نے پہلے کبھی ایسا کام
نہیں کیا اور سنا ہے کہ پہلی بار بُہت تکلیف ہوتی ہے) ناصر ( فکر نہ کرو جانی میں
ایسے پیار اور آرام سے کروں گا کے آپ کو زیادہ تکلیف نہیں ہو گی ) یہ کہتے ہی وہ
میرے قمیض اُتارنے لگا اور پھر اُس نے میرے شلوار نیچے کرنے لگا۔ میں نے اُس کا
ہاتھ پکڑ لیا۔ میں ( نہیں نہیں مُجھے شرم آتی ہے ناصر پلیز یہ نا اُتاور) ناصر (
شرماو نہیں ادھر تو صرف میں اور آپ ہیں اور شلوار نہیں اتارو گی تو مزہ نہیں آے
گا) یہ کہہ کر اس نے میری شلوار گُھٹنوں تک نیچے کر لی اور پھر میری ٹانگیں اُوپر
کر کے ساری اُتار لی۔ اب میں
بالکل ننگی لیٹی تھی۔ اور ناصر کے بڑے
کالے لن کو دیکھ رہی تھی اور گھبرا بھی رہی تھی کہ اتنی موٹی بلا میرے چُوت میں
کیسے جاۓ گی اور اگر گئی بھی تو یہ تو سب کُچھ پھاڑ کے رکھ دے گی۔
ناصر نے اب مُجھے سر سے پاوں تک کس کیا۔
پھر میرے پاؤں کھولے اور پیرسے چُوت سہلانے لگا۔ مُجھے بُہت مزہ آیا۔ پھر ناصر نے
اپنی چھوٹی اُنگلی میری چُوت میں ڈالنے کی کوشش کی۔ مُجھے بہت درد ہوا۔ میں ( ناصر
یہ کیسے ہو گا۔ اتنا تنگ سُوراخ ہے کے اُنگلی بھی نہیں جاتی تو یہ آپ کی اتنی بڑے
چیز کیسے جاۓ گی ؟ مُجھے ڈر لگتا ہے بُہت درد ہو گا نا؟ ) ناصر ( ارے نہیں میرے رانی
بس تھورا سا درد ہو گا پہلی بار پھر مزا آے گا آپ کو) میں ( اچھا پلیز آرام سے
کرنا ) ناصر گیا اور الماری سے کریم نکال لایا۔ پہلے اُس نے اپنے لُلے پے کریم لگائی
پھر میرے چُوت پر اور میری ٹانگوں کے درمیان آ گیا، میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُس
نے میری ٹانگیں کھولیں اور اپنا لن ہاتھ میں لے کر آگے آیا اور اپنے لن کی ٹوپی
میری چُوت پے ملنے لگا۔ میرے بدن میں بجلیاں سی دوڑ گئیں۔ پھر اُس نے اپنے للے کو
میرے چُوت کے سُوراخ پے رکھ کر تھوڑا دبایا تو میری چیخیں نکل گئیں۔ میں ( پلیز
ناصر آرام سے بُہت دُکھتی ہے) ناصر پیچھے ہٹ گیا اور پھر اپنے لن کی ٹوپی میرے چُوت
کے ہونٹوں پے ملنے لگا۔ مُجھے پھر بُہت مزا آیا اور فیصلہ کیا کہ اب تھوڑا درد
برداشت کر ہی لوں ایک بار۔ ناصر نے پھر کریم لگائی اور اپنے لن کی ٹوپی میری چُوت
کے سُوراخ پے رکھی۔ میرے چُوت میں گُدگُدی ہونے لگی اور میں ناصر کا لن اپنی چُوت
میں لینے کے لیے بےتاب ہونے لگی۔ اب ناصر نے اپنے لن کو ٹھیک کر کے زور سے جھٹکا
لگایا اور اپنے لن کی ٹوپی اندر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ درد سے میرے چیخیں نکل گئی
اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ مُجھے بُہت درد ہوا اور درد سے میرے آنسو
بہنے لگے۔ ناصر یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا اور گھبرا کر اپنا لن باہر نکال لیا۔
ناصر کے لن کی ٹوپی خُون سے بھری تھی اور
خُون نیچے چادر پے بھی گرا تھا۔ ناصر میرے اُوپر جُھک گیا اور میرے آنسو بھری
آنکھیں چُومنے لگا۔ پھر ناصر نے تولیے سے میرے چُوت صاف کی اور شیٹ بھی۔ ناصر (
صبا مُجھے پتا نہیں تھا کہ اتنا درد ہو گا آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میرا دل
کٹاجا رہا ہے۔) ناصر کی یہ باتیں سُن کے میں اپنے سارے درد کو بھول گئی اور
مُسکرانے لگی اور اُٹھ کے اپنے ہونٹ ناصر کے ہونٹوں پے رکھ دیے۔میں ( ناصر آپ بُہت
اچھے ہیں آپ کی خوشی کے لیے میں ہر درد سہنے کو تیار ہوں۔ یہ کہہ کے میں اپنی
ٹانگیں کھول کے لیٹ گئی۔ ناصر نے پھر کریم لگائی اور پوزیشن لی اور اپنی لن کی
ٹوپی میری چُوت پے
رگڑنے لگا۔ مُجھے درد کے باوجود پھر مزہ
آنے لگا اور میرے چُوت گیلے ہونے لگی۔ ناصر نے یہ دیکھ کر اپنا لُلا پھر میری چُوت
کے سُوراخ پے رکھا اور میرے اُوپر جُھک کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور
پھر اپنے لن کی ٹوپی میرے چُوت کے اندر کی۔ مُجھے پھر درد ہوا لیکن میں برداشت
کرتی رہی۔ اب ناصر نے اپنے لن کی ٹوپی کے بعد تھوڑا اور اندر کیا۔ مُجھے بُہت درد
ہو رہا تھا لیکن میں چُپ تھی۔ مُجھے خاموش دیکھ کر ناصر نے دو انچ اور اندر کر دیا۔
اب درد میرے برداشت سے باہر ہونے لگا۔ میں ( ناصر پلیز بس کرو مُجھے بُہت درد ہو
رہا ہے۔ ) ناصر ( اچھا اور اندر نہیں کرتا بس اس کو ادھر ہی رہنے دیتے ہیں۔ آپ
پلیز ہلو نہیں) یہ کہہ کر ناصر نے میرے بدن سے کھیلنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں
درد کم ہوا تو اب مُجھے مزا آنے لگا۔ میرے چہرے پہ مُسکراہٹ دیکھ کے ناصر نے اپنا
لن آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ اب مُجھے تھوڑا تھوڑا مزہ آنے لگا۔
میرے چہرے پر اطمینان دیکھ کر ناصر نے اب
اپنا لن آزادی سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ ناصر نے چند ہی بار اندر باہر کیا
ہو گا کے میں فارغ ہو گئی اور میری چُوت کا گرم گرم پانی باہر آنے لگا۔ یہ دیکھ کر
ناصر نے اپنا لن باہر نکال لیا جو کے میرے پانی اور خُون سے بھرا ہوا تھا۔ ناصر
جلدی سے اُٹھ کر گیا اور تولیا لے کر آیا ، پہلے میری چُت صاف کی پھر اپنا لن صاف
کیا۔ پھر میرا سر اپنی گود میں لے کر بیٹھ گیا اور پیار سے میرے بالوں میں
اُنگلیاں پھیرنے لگا اور کبھی کبھی نیچے جُھک کے میرے آنکھیں بھی چُوم لیتا۔ناصر
(میں بُہت خُوش قسمت ہوں کے مُجھ جیسے شخص کوا ٓپ جیسے پیارے دوست ملی ہے۔ میرے
عُمر بھی زیادہ ہے اور شکل و صورت بھی کوئی خاص نہیں اور شادی شُدہ بھی ہوں۔ پھر
بھی ا ٓپ نے مُجھے پسند کیا۔ھالانکہ آپ جیسے نوجوان اور خوبصورت لڑکی کسے اچھے سے
اچھے نوجوان کو اشارہ بھی کرتی تو وہ دوڑہ چلا آتا۔) میں ( آ پ بُہت اچھے انسان
ہیں اور میرے لیے یہی کافی ہے۔ ) ناصر ( یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ ناصر اپنا سر
کٹا دے گا لیکن آپ کی عزت پے آنچ نہیں آنے دے گا ۔) میں ناصر کی گود سے اُٹھی اور
ناصر کو گلے لگا لیا اور اپنے گُلابی ہونٹ ناصر کے سگریٹ کے جلے ہوے ہونٹوں پے رکھ
دیے۔ میں ( کام پے کب جائیں گے آپ ؟) ناصر ( آج رات آٹھ بجے ۔ کیوں کیا بات ہے؟ )
میں ( جی امے ابو گھر پے نہیں ہیں اور اگر آپ کی چُھٹی ہوتی تو رات کہ بھی ملاقات
بھی ہو سکتی تھی۔) ناصر ( آج رات ڈیوٹی تو تھی لیکن اب نہیں ہے۔ سو آج رات آپ آئیں
تو میں کھاناباہر سے لے آون گا اور دونوں مل کے کھائیں گے ۔
میں ( پکا ) ناصر ( پکا) ناصر ’’ میری
رانی ایک بات مانو گی ؟ ‘‘ میں ’’ کیوں نہیں آپ کہہ کے تو دیکھیں ‘‘
ناصر ’’ آپ مُجھ سے سیکسی باتیں کیا کریں
اور بلکل آزادی کے ساتھ یعنی شرمائیں نہیں ‘‘ میں ’’ ٹھیک ہے کوشش کروں گی ‘‘ میں
نے اُٹھ کر کپڑے پہن لیے اور ناصر نے بھی اپنی دھوتی باندھ لی۔ ناصر صوفے پہ بیٹھ
گیا اور میں اُس کی گود میں بیٹھ گئی ناصر ’’ آپ میرے پالتو بلی ہو ‘‘ میں نے پیار
سے اُس کی گردن کے گرد اپنی بانہیں ڈال دیں اور بُہت دیر تک باتیں کرتے رہے ۔ میں
ابھی تک ناصر کی گود میں بیٹھی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ میری
گانڈ کے نیچے ناصر کی گود میں کوئی چیز سخت سی چُبھ رہی ہے۔ در اصل یہ ناصر کا لن
تھا جو پھر جُوش میں آ رہا تھا اور میرے نرم نرم گانڈ کو گُدگُدا رہا تھا۔ اب میں
نے فیصلہ کر لیا تھا کے ناصر سے شرماوٗں گی نہیں۔ سو میں نے ہاتھ بڑھا کے ناصر کی
دھوتی میں ڈالا اور اُسکے سخت لن کو باہر نکالا۔ میں ’’ تو جناب کو پھر جُوش آگیا
ہے؟ ناصر یہ بتاوٗ یہ آپ نے اتنا بڑا کیسے کیا یہ تو بہُت بڑا ہے۔کیا کھلاتے ہو اس
کو ؟ ‘‘ ناصر ’’ ہم دیہاتی لوگ ہیں بس دودھ لسی اور مکھن کا کمال ہے اور یہ آپ کے
احترام میں دوبارہ کھڑا ہوا ہے۔ اگر آپ کا مُوڈ ہو تو ایک بار پھر سیکس ہو جاےٗ۔
‘‘ میں ’’ ایک شرط پر کے اس بار میں سب کچھ کروں گی ۔ ‘‘ ناصر ’’ یہ تو اور بھی
اچھا ہے ۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں صوفے سے اُتری اور ناصر کی دھوتی اُتار کے ننگا کر دیا
اور اُس کا کھڑا ہوا لُلا اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پہلے اُس کی ٹوپی کو چومتی رہی پھر
اُسے مُنہ میں لے لیا۔ پھر اُسکے لُلے کی ٹوپی سے لے کے ٹٹوں تک اپنی زُبان سے
چاٹتی رہی۔ پھر میں نے ناصر کے ٹٹے اپنے مُنہ میں لے کر چُوسے۔ مُجھے ایسا کرتے
دیکھ کر ناصر کو بُہت مزہ آرہا تھا۔ اب میں اُٹھی اور اپنے کپڑے بھی اُتار دیے اور
صوفے پے چڑھ کر ناصر کی گود میں ایسے بیٹھی کے میرا مُنہ ناصر کی طرف تھا۔ پھر تھوڑی
سی گانڈ اُوپر کی اور ناصر کا موٹا لن ہاتھ میں لیکر تھوڑی سی گانڈ ایسے نیچے کی
کہ اُسکے لن کی ٹوپی میرے چوپت کی اندر چلی گئی۔میں ’’ آہ اُی ‘‘ ناصر ’’ کیا ہوا
پھر درد ہو رہا ہے کیا؟ ‘‘ میں ’’ نہیں یار مزہ آ رہا ہے ‘‘ ناصر ’’ سارہ اندر
جانے دو نا تو اور بھی مزہ آےٗ گا ‘‘ میں ’’ اچھا نہ اتنے بے صبرے کیوں ہو رہے ہو۔
پہلے مُجھے ٹوپی کا تو پورہ مزہ لُوٹ لینے دو ‘‘ اب میں نے اپنی گانڈ اور نیچے کی
اور ناصر کا لن دو انچ اور اندر چلا گیا ۔ میں ’’ اہ اُف میں مر گئی آہ ۔ بُہت مزہ
آ رہا ہے یار مجُھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ ‘‘
اب میں نے گانڈ ساری ایسے نیچے کی کے
ناصر کا لن جڑوں تک میرے چوُت میں چلا گیا اور مزے سے چکرا گئی ۔۔ میں ’’ ہمم ای
اہ ‘‘ اب میں نے اپنے جسم کو ناصر کے قریب کیا اور دیوانوں کی طرح ناصر کو چوُمنے
لگی۔ کبھی ماتھے پہ تو کبھی آنکھوں پہ تو کبھی ہونٹوں پہ تو کبھی گردن پہ۔ ناصر نے
بھی اپنی مضبوط بانہوں سے میری کمر کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔ میں ’’ ناصر کاش وقت
یہاں رُک جاےٗ،۔ دل کرتا ہے آپ کا لن ساری عمُر میری چوُت میں اسی طرح پڑا رہے
اور میں مزے لیتی رہوں ۔ یہ کہہ کر میں نے اپنے ہونٹ پھر ناصر کے ہونٹوں پہ رکھ
دیےٗ ۔ اب میں نے اپنی زبان ناصر کے منہ میں ڈالی اور پھر اُسکی زبان چوسی۔ مجُھے
بہُت مزہ آ رہا تھا کیوں کہ ناصر کا پورہ لن میری چوُت میں تھا، اُسکے ہاتھ میری
کمر کے گرد تھے اور وہ میرے ممے چوُس رہا تھا۔ اب میں نے اپنی گانڈ آگے پیچھے ایسے
ہلانی شروع کر دی اور پاگلوں کی طرح ناصر کو چُومتی رہی۔ اب ناصر بھی گرم ہو گیا
اور دونوں ھاتھوں سے میری گانڈپکڑ لی اور آگے پیچھے کرنے لگا۔
اُس کے ایسا کرنے سے اُس کا کالا للُا میرے چوُت
کے اندر باہر آجا رہا تھا۔میں مزے سے پاگل ہویٗ جا رہی تھی۔زندگی میں پہلی بار
اتنا مزہ آیا تھا۔ مجُھے کیا پتا تھا کے سیکس میں اتنا مزا آتا ہے۔
ختم شُد
bold urdu novel pk saaqi download
bold urdu novel pk saaqi ebook
bold urdu novel pk saaqi facebook
bold urdu novel pk saaqi novel
bold urdu novel pk saaqi online pdf
bold urdu novel pk saaqi pdf download