سوتی ہوئی کزن
یہ ایک سچی کہانی ہے جسے میں نے ایک ڈرامائی انداز میں پیش کرنے کی
کوشش کی ہے. امید ہے آپکو پسند آے گی میٹرک کے پیپر دینے کے بعد میں فری تھا اور
ابھی سواے آرام اور سیر و تفریح کے میں اور کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا . لیکن مجے
فارغ دیکھ کر گھر والوں کو سب کام مجھ سے ہی کرانا یاد آتے تھے. کبھی سبزی لا دو
تو کبھی دودھ ختم ہو گیا ہے. گرمیاں بھی اپنے عروج پر تھیں اور اوپر سے رہی سہی
کسر لوڈ شیدڈنگ نے پوری کی ہوئی تھی. میں نے جو جو سوچا ہوا تھا ویسا کچھ بھی نہیں
ہو رہا تھا اور یہ فارغ وقت گزارنا زیادہ مشکل لگ رہا تھا. دوستوں کے ساتھ کچھ سیر
و تفریح کا پروگرام بنایا لیکن سب کی کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے وہ بھی نہ بن
سکا. ایک دن اماں نے مجھے کہا اپنی خالہ کی طرف چلے جاؤ میں نے کچھ چیزیں بھجوانی
ہیں اور ویسے بھی تمہاری خالہ اتنی بار تمہیں آنے کا کہ چکی ہیں لیکن تم ہو کہ
جاتے ہی نہیں ہو. میری خالہ گجرات میں رہتی تھی اور مجھے وہاں جانا کبھی بھی اتنا
پسند نہیں تھا اس لئے لئے پچھلے 3 - 4 سال سے میں ان کی طرف گیا ہی نہیں تھا. شاید
ویسے تو میں انکار کر دیتا لیکن میں نے سوچا موجودہ حالات میں چلو یہی تفریح سہی.
دو دن کے بعد میں خالہ کے گھر کے لئے روانہ ہو گیا. خالہ کا گھر گجرات کے ایک
گنجان محلے میں تھا. خالہ مجھےدیکھ کر بہت خوش ہوئی اور میری خوب خاطر کی. خالہ کے
2 بچے تھے بڑی بیٹی مہوش جو کہ مجھ سے 3 - 4 چھوٹی ہو گی اور ایک بیٹا جو کہ چھ
سات سال کا تھا. دونوں بچے اسکول گئے ہوے تھے اور خالو بھی گھر پر نہیں تھے. خالہ
نے بتایا کہ تمھارے خالو کا ایک دوسرے شہر میں تبادلہ ہو گیا ہے اس لئے وہ صرف
ہفتہ اور اتوار کو ہی آتے ہیں. کھانے پینے سے فارغ ہو کر میں وقت گزاری کے لئے چھت
پر چلا گیا. چھت پر کافی کھلا صحن اور ایک طرف 2 کمرے تھے جس میں سے ایک کو اسٹور
بنایا ہوا تھا اور دوسرے کمرے کی حالت سے لگتا تھا کہ اس کو کبھی کبھار سونے کے
لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے. اس کمرے کے درمیان میں ایک چھوٹا سا پلنگ بچھا ہوا
تھا اور اس پلنگ کے دونو اطراف فرشی بستر لگے ہویے تھے. صحن کے ایک طرف ایک چھوٹا
سا واش روم تھا جس کی حالت سے لگتا تھا کہ وہ بہت کم استعمال ہوتا ہے. میں نے چھت
کی دیواروں سے ارد گرد تانکا جھانکی کر کے ماحول کا جائزہ لیا لیکن کوئی انٹرسٹنگ
چیز نظر نہیں آئی. میں نیچے آ کر خالہ سے باتوں میں مصروف ہو گیا.تھوڑی دیر کے بعد
باہر کا دروازہ کھلا اور سفید اسکول یونیفارم میں ملبوس ایک گوری چٹی اور خوبصورت
لڑکی گھر میں داخل ہوئی. اس کے آنے کے انداز سے مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ خالہ کی
بیٹی مہوش ہی ہے. اگر کہیں اور دیکھا ہوتا تو شاید نہ پہچان سکتا کیوں کہ وہ بلکل
بدل چکی تھی. رنگت میں دودھ جیسی سفیدی، بے داغ چہرہ، لمبے گھنے بال جن کو اس نے
چٹیا کی صورت میں با ندھا ہوا تھا. دھوپ کی وجہ سے اس کے سفید رنگ میں سرخی آ رہی
تھی جسم کے خدوخال اس کی جوانی کے شروعات کا ثبوت دے رہے تھے. اس نے آ کر سرسری سا
سلام کیا جس کا میں نے پر تپاک انداز میں جواب دیا لیکن اس نے کوئی خاص پیش رفت
نہیں دکھائی اور اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی. کپڑے بدلنے اور کھانا کھانے کے بعد وہ
اپنی کتابیں کھول کر پڑھائی میں مصروف ہو گئی. میں اس سے پڑھائی کی باتیں کرنے لگ
گیا. وہ صرف میری باتوں کا بے رخی سے جواب دے رہی تھی اس کے علاوہ اور کوئی بات
نہیں کر رہی تھی. میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ نویں جماعت میں پڑھ رہی ہے اور
آج کل اس کے اسکول میں ماہانہ ٹیسٹ چل رہے ہیں. میں خالہ اور ان کےبیٹے سے باتوں
میں لگ گیا لیکن میرا ذہن بار بار مہوش کی طرف ہی جا رہا تھا وہ مجے جتنا اگنور کر
رہی میں اتنا ہی اس کے پاس جانے کے لئے بہانے تلاش کر رہا تھا. میرے ذہن میں اس کے
بارے میں کوئی غلط سوچ نہیں تھی لیکن میں اس کی طرف اٹراکٹ ہو رہا تھا اور چاہتا
تھا کہ وہ مجھ سے بات کرے لیکن وہ اپنی پڑھائی میں مگن تھی اور ایسے شو کر رہی تھی
جیسے میں وہاں موجود ہی نہ ہوں. رات کو سب لوگ چھت پر سوتے تھے مجے بھی خالہ نے
ایک سائیڈ پر چارپائی پر بستر بچھا کر دیا وہ مجھ سے کافی دور خالہ کے قریب والی
چارپائی پر سو رہی تھی. سب سو چکے تھے لیکن میں اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا. میں
گھر سے تو صرف 2 دن ہی خالہ کے گھر رہنے کا سوچ کر آیا تھا لیکن اب میرا مہوش کی
وجہ سے جانے کا دل نہیں کر رہا تھا. سب لوگ سو چکے تھے اور میں لیٹا ہوا دور سے
مہوش کو دیکھ رہا تھا جو کہ رات کے اندھیرے میں مجے نظر تو نہیں آ رہی تھی لیکن
پھر بھی اس کی طرف دیکھ کر مجھے عجیب سکون مل رہا تھا. نہ جانے رات کے کس پہر مجھے
نیند آئی صبح خالہ کے جگانے پر آنکھ کھلی تو میں نے سب سے پہلے مہوش کو دیکھا لیکن
تب تک وہ شائد اسکول جا چکی تھی. سارا دن اس کی واپسی کا انتظار کرتا رہا لیکن
واپس آ کر اس نے اسی بے رخی کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنی کل والی روٹین جاری رکھی. میں
جواد ( خالہ کا بیٹا ) کے ساتھ بازار گیا اور اس کو کچھ چیزیں لے کر دیں وہاں سے
مہوش کے لئے بھی ایک چاکلیٹ لی. گھر آ کر میں نے اس کو چاکلیٹ دی لیکن اس نے یہ کہ
کر انکار کر دیا کہ مجھے چاکلیٹ پسند نہیں ہیں اور دوبارہ اپنی پڑھائی میں مصروف
ہو گئی.وہ مجھ سے جتنا اجنبیوں والا برتاؤ کر رہی تھی مجھے اور زیادہ کشش ہو رہی
تھی. جواد مجے با ہر جانے کا کہتا لیکن میرا مہوش کے سامنے سے ہٹنے کو دل ہی نہیں
کرتا تھا بس دل کرتا تھا ہر وقت اسی کو دیکھتا جاؤں. اس رات سب چھت پر سو رہے تھے
کہ اچانک بارش ہونا شروع ہوگئی. خالہ نے مجھے کہا کہ اندر کمرے میں جا کر سو جاؤ.
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کمرے میں گھپ اندھیرا تھا. میں اندھیرے میں ٹٹو لتے ہوے
پلنگ کے ایک سائیڈ پر بچھے ہوے فرشی بستر پر دیوار کے ساتھ لگ کر لیٹ گیا. مجھے
لیٹتے ہی نیند آ گئی. تھوڑی دیر کے بعد بادل گرجنے کی آواز سے میری آنکھ کھلی تو
مجھے محسوس ہوا کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی لیٹا ہوا ہے. بجلی ابھی تک نہیں آیی تھی
اور کمرے میں گھپ اندھیرا تھا. میرے خیال میں جواد میرے ساتھ آ کر لیٹ گیا ہو گا.
اس وقت آسمانی بجلی چمکی جس سے کمرے میں تھوڑی سی روشنی ہوئی اور میں نے دیکھا کہ
میرے ساتھ مہوش لیٹی ہوئی ہے میری تو جیسے سانس رک گئی ہو اور مجھے ایسے لگ رہا
تھا جیسا میرا جسم بلکل حرکت نہیں کر رہا. اس کو اپنے اتنا قریب محسوس کر کے میرے
جسم میں جیسے کرنٹ سا دوڑ رہا تھا. میں اسی کی طرف کروٹ لے کر بلکل ساکت لیٹا ہوا
تھا جیسے کہ کوئی حرکت کی تو جان نکل جائے گی. مجھے اپنی شلوار میں حرکت محسوس ہو
رہی تھی نہ چاہتے ہوے بھی میرا لن کھڑا ہو گیا تھا. میں کافی دیر تک اسی حالت میں
لیٹا رہا. تھوڑی دیر میں کچھ نارمل ہوا تو میرا دل اس کو چھونے کو کیا. لیکن مجھے
ڈر لگ رہا تھا کہ اگر اس کی آنکھ کھل گئی تو کہیں کوئی مسلہ نہ ہو جائے. مجھے
اندازہ ہو گیا تھا کہ کمرے میں اندھیرے کی وجہ سے وہ یہاں آ کر لیٹ گئی ہے اگر اس
کو معلوم ہوتا تو وہ کبھی بھی اس کے ساتھ نہ لیٹتی. میں نے کسی بھی قسم کی حرکت
کرنے سے پہلے یہ جاننے کا فیصلہ کیا کہ وہ غلطی سے یہاں لیٹی ہے یا جان بوجھ کر.
میں نے نیند میں کروٹ لینے کے انداز میں اپنا ہاتھ اس کے بازو پر اس طرح رکھا کہ
اس کی آنکہ کھل جائے. میرا ہاتھ جیسے ہی اس کو چھوا مرے جسم میں ایک عجیب سا کرنٹ
لگا. اس کا بازو کسی ریشم کے تکیے کی طرح نرم اور ملائم تھا. میرا لن جو پہلے ہی
کھڑا ہوا تھا مزید جھٹکے مارنے لگا. میرے پلان کے مطابق میرا ہاتھ لگنے سے اس کی
آنکھ کھل گئی اس نے میرا ہاتھ پیچھے کیا اور اٹھ کر بیٹھ گئی اور اندھیرے میں غور
سے میری طرف دیکھنے لگی جیسے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس کے ساتھ کون
سو رہا ہے . میں ایسے شو کر رہا تھا جیسے گہری نیند میں ہوں اور مجے آس پاس کی دنیا
کی کوئی خیر خبر نہیں. مرے ہلکے ہلکے خراٹوں سے اس کو معلوم ہو گیا کہ وہ جواد کی
بجاے میرے ساتھ سو رہی تھی. اس سے جلدی سے اپنی چادر اٹھائی اور پلنگ کے دوسری
سائیڈ پر جا کر لیٹ گئی. میں نے ٹھنڈی سانس بھری اور اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ اس
کو جگانے کی کیا ضرورت تھی ایسے کم از کم وہ میرے پاس تو لیٹی ہوئی تھی اب پتا
نہیں ایسا موقع دوبارہ ملے یا نہ ملے. اگلے دن اس نے پہلے جیسا ہی برتاؤ رکھا ایسا
کچھ نہیں لگ رہا تھا کہ رات کی بات پر کچھ ریکٹ کر رہی ہو. آج تو وہ پہلے سے بھی
زیادہ پریشانی سے پڑھائی میں مصروف تھی. میں نے تھوڑی ہمت کر کے اس سے پریشانی کی
وجہ پوچھی تو اس کی بجایے خالہ نے بتایا کہ کل میتھ کا پیپر ہے اور یہ میتھ میں
کافی کمزور ہے. میں نے کہا کہ خالہ آپ فکر نہ کریں میں تیاری کرا دیتا ہوں. یہ سن
کر اس کو کچھ تسلی ہوئی. میں نے دیر رات تک اس کے ساتھ بیٹھ کر میتھ کی تیاری
کرائی . اس دوران کافی بار میرا ہاتھ اس کے ہاتھ کو چھوا تو جیسے کرنٹ سا لگ جاتا
تھا،.اس کے بعد وہ میرے ساتھ کچھ حد تک فرینک ہو گئی . اگلے دن پیپر دے کر آیی تو
کافی خوش لگ رہی تھی. میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میتھ پیپر بہت اچھا ہو گیا
اور آج میرے پیپر بھی ختم ہو گئے ہیں. اس نے مجھ سے ہاتھ ملا کر میرا شکریہ ادا
کیا کہ آپ کی وجہ سے میرا پیپر بھی اچھا ہو گیا. اس کا نرم و نازک ہاتھ اپنے ہاتھ
میں لے کر میں تو اپنے ہوش سے ہی بیگانہ ہو گیا.اس کے بعد تو میں نے اس کا بلکل ہی
الگ روپ دیکھا وہ مجھ سے بہت فرینک ہو گیی تھی اور اگلے دو دن ہم لوگوں نے خوب گپ
شپ کی اور لڈو، کیرم بھی بہت کھیلا . اگلی رات کو سوتے میں پھر سے بارش ہو گیی اور
خالہ نے مجھے جگا کر کہا کہ اندر جا کر سو جاؤ. میں اندھیرے میں ٹٹولتے ہوۓ بیڈ کی دوسری سائیڈ پر آ کر سو گیا جہاں جواد سویا ہوا تھا. تھوڑی
دیر کے بعد میری آنکھ کھل گئی. کمرے میں گھپ اندھیرا تھا. لگ رہا تھا کہ پورے محلے
کی لائٹ بند تھی. اسی وقت بجلی چمکی اور اس چند سیکنڈ کی روشنی میں مجھے لگا کہ
میرے ساتھ جواد کی بجاے مہوش سو رہی ہے. میں تو جیسے ساکت ہو گیا. تھوڑی دیر ایسے
ہی لیٹے رہنے کے بعد میں نے سوچا کہ اس دن کی طرح مہوش کو ایک بار پھر جگا دوں
ورنہ اگر لائٹ آنے پر یا صبح اٹھنے پر خالہ نے دیکھ لیا تو پتا نہیں کیا سمجھیں
گی. میں نے اپنا ہاتھ اس کے بازو پر اس طرح مارا جیسے کہ کروٹ لیتے ہوۓ نیند میں لگ گیا ہو. وہ اٹھ گئی اور بیٹھ کر غور سے میری طرف
دیکھا اور پھر دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹ گئی. میں بلکل ساکت لیٹا رہا اور سونے کی
ایکٹنگ جاری رکھی. میں دیوار والی طرف تھا اور وہ پلنگ کی طرف تھی. ہمارے درمیان
فاصلہ بہت ہی کم تھا. شلوار میں لن بھی اکڑا ہوا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی
کہ کیا کروں. میں نے سوچا کہ اٹھ کر دوسری طرف سو جاؤں لیکن پھر وہیں لیٹا رہا .
دس منٹ تک تو میں ایسے ہی لیٹا رہا پھر تھوڑی ہمت کر کے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور
اس کی کمر پر رکھ دیا. اس کی نرم و ملائم کمر پر ہاتھ رکھتے ہی جیسے مجھے کرنٹ سا
لگا. میں تھوڑی دیر تک اس کی کسی حرکت کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ ایسے لگ رہا تھا
کہ جیسے گہری نیند سو رہی تھی. مجھ میں اور ہمت آ گئی اور آرام آرام سے اپنا ہاتھ
اس کی کمر اور پیٹ پر پھیرنا شروع کر دیا. اس نے اپنے اوپر چادر لی ہوئی تھی اور
میں چادر کے اوپر سے ہی اسکے جسم پر ہاتھ پھیر رہا تھا. پندرہ منٹ تک میں ایسے ہی
چادر کے اوپر سے اس کی کمر اور پیٹ پر ہاتھ پھیرتا رہا لیکن مہوش نے کوئی رسپانس
نہیں دیا. کمرے میں ایک تو بہت اندھیرا تھا اور باہر سے تیز بارش کی آواز کا شور
تھا. اب مجھ میں مزید ہمت آ گئی اور میں تھوڑا سا آگے کو سرکا. اب اس کے اور میرے
درمیان کا فاصلہ مزید کم ہو گیا تھا. اب میں نے اپنا ہاتھ چادر کی اندر ڈالا اور
اس کی قمیض کو تھوڑا سا ہٹا کر اس کی ننگی کمر پر ہاتھ رکھا. ہاتھ رکھتے ہی مجھے
ایسے لگا کہ جیسے اس کی جسم کو ایک جھٹکا سا لگا. میں نے اسی وقت اپنا ہاتھ وہیں
روک لیا. تھوڑی دیر تک اس کی طرف سے کوئی ریکشن نہیں آیا تو میں نے اپنے ہاتھ کو
تھوڑی حرکت دینی شروع کی اور پیٹ کی طرف لے گیا. میرا ہاتھ اس کی قمیض میں تھا اور
ہاتھ کا نچلا حصہ اس کی شلوار سے لگ رہا تھا. اب میں نے ہاتھ قمیض میں اوپر کی طرف
کرنا شروع کر دیا لیکن قمیض تنگ ہونے کی وجہ سے زیادہ اوپر نہیں جا سکا. میں اسی
طرح کمر اور پیٹ پر ہلکا ہلکا ہاتھ پھیرتا رہا. وہ بلکل ساکت لیٹی ہوئی تھی. مجھے
یہ اندازہ لگانا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ جاگ رہی ہے یا سو رہی ہے. لیکن جو بھی تھا
میں مزے میں تھا. میرے اندر کا ڈر اب تقریبآ ختم ہو گیا تھا اور میں نے کسی قسم کا
کوئی رسپانس نہ پا کر مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا. میں کمر پر ہاتھ پھیرتا ہوا
آھستہ آھستہ اس کی ٹانگوں اور پھر گانڈ پر لے آیا. اس کی گانڈ بہت نرم تھی. میں
مزے میں مدہوش اس کی گانڈ اور اس کی لکیر پر ہاتھ پھیرتا رہا. اتنی زبردست گانڈ پر
تو میرا دل کر رہا تھا کہ زور زور سے دباؤں لیکن جگہ اور حالات کی مناسبت سے اتنا
مزہ بھی میرے لئے حد سے زیادہ ہی تھا. میں آہستہ سے اپنا ہاتھ آگے پھدی کی طرف لے
گیا لیکن وہ کروٹ لے کر ایسی پوزیشن میں سوئی ہوئی تھی کہ اس کی پھدی دونوں ٹانگوں
میں چھپی ہوئی تھی اور میں کوشش کے باوجود پھدی کو نہیں ٹٹول سکا. میں نے گانڈکا
مزہ لینے میں ہی غنیمت جانی. وہ بالکل بے سدھ سونے کے انداز میں پڑی ہوئی تھی لیکن
مجھے یقین تھا کہ وہ جاگ رہی ہے.بارش ابھی بھی ہو رہی تھی اور بجلی بھی ابھی تک
نہیں آی تھی. اب میں مزید دلیرانہ طریقے سے اس کی گانڈ دبا رہا رہا تھا. اس کی
گانڈ کی لکیر کے اندر تک انگلیاں پھیر رہا تھا. میں اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتا
تھا. اب میں نے شلوار میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ بہت ٹائٹ بند تھی. مجھے
اندازہ ہو گیا کہ اس نے ازار بند ڈالا ہوا ہے. میں نے ہاتھ آگے لےجا کر اس کا ازار
بند ٹٹولنا شروع کر دیا. مجھےمحسوس ہوا کہ وہ مجھے روکنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن
میں اپنے کام میں لگارہا. آخر کار میرے ہاتھ میں اس کے ازار بند کا ایک سرا آ گیا
جسے میں نے آرام سے کھینچ کر کھول دیا. اب اس کی شلوار کی گرفت کافی ڈھیلی ہو گیی
تھی اور میں نے پیچھے سے اس کی شلوار میں ہاتھ ڈال دیا. اس کی گانڈ بہت گرم ہو رہی
تھی. میں نے ہلکا ہلکا دبانا شروع کر دیا اور لکیر پر بھی ہاتھ پھیرنے لگا. مزے سے
میری حالت ایسے ہو رہی تھی جیسے بہت تیز بخار ہو اور میرا لن تو شلوار پھاڑ کر
باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا. پھر میں اپنی انگلی لکیر کے اندر لے گیا اور اس کی
گانڈ کے سوراخ کو دبانے لگا. پھر انگلی کو تھوڑا اور نیچے اس کی پھدی کی طرف لے
گیا. گانڈ کے سوراخ کے نیچے تو مجھے ایسے لگا کہ جیسے میں نے کسی بہت چکناہٹ والی
جگہ میں انگلی ڈال دی ہو. وہاں سے بہت زیادہ گیلا ہو رہا تھا. تھوڑی سی کوشش کے
بعد میں پیچھے سے اپنی انگلی اس کی پھدی کے نچلے حصے پر لگانے میں کامیاب ہو گیا.
اس کی پھدی بہت گیلی ہو رہی تھی. اب مجھ سے مزید صبر نہیں ہو رہا تھا. میں نے ہاتھ
باہر نکالا اور ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیا. کمرے میں ابھی بھی اندھیرا تھا اور
بارش کی آواز سے لگ رہا تھا کہ اب ذرا آھستہ ہو گئی ہے. خالہ کے خراٹوں کی آواز سے
لگ رہا تھا کہ وہ دوسری طرف منہ کر کے گہری نیند سو رہی ہیں. میں نے اپنے آپ کو
تھوڑا اور آگے سرکایا اور اس کی چادر اپنے اوپر بھی لے لی. اب ہم دونوں ایک ہی
چادر میں تھے اس نے دوسری طرف منہ کر کے کروٹ لی ہوئی تھی اور میں اس کے پیچھے اس
کی طرف کروٹ لے کر لیٹا ہوا تھا. ہمارے درمیان فاصلہ بہت ہی کم رہ گیا تھا. تھوڑا
سا اور آگے ہوا تو لن اس کی گانڈ کی لکیر پر سیٹ کر کے ہلکا ہلکا دبانا شروع کر
دیا. میں تو مزے کی کسی اور ہی جہاں میں تھا. پھر میں نے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اس
کی گانڈ کی لکیر میں اندر تک پھیرنا شروع کر دیا. دو تین منٹ اسی طرح مزے لے کر
میں تھوڑا پیچھے ہٹا اور اس کی شلوار کو تھوڑا اور ڈھیلا کر کےگانڈ کے نیچے تک
سرکا دیا. اور ساتھ ہی اپنی شلوار کھول کر لن بھی باہر نکال لیا۔اب ہم دونوں چادر
میں تھے اور میرا لن اور اس کی گانڈ کے درمیان کوئی کپڑا نہیں تھا. میں نے اس کی
گانڈ کو تھوڑا سا کھول کر اس کا سوراخ پر اپنا لن لگا کر ہلکا سا دبایا اور ہاتھ
سے اس کی گانڈ کو چھوڑ دیا. اب میرا لن اس کی گانڈ میں پھنسا ہوا اور ٹوپی اس کے
سوراخ پر سیٹ تھی. میں نے آہستہ آہستہ دبانا شروع کر دیا. اس کی گانڈ بہت گرم ہو
رہی تھی. میں نے ایک ہاتھ اس کی کمر پر رکھ کر اپنی طرف کھینچ کر نیچے سے گانڈ پر
دھکے لگا رہا تھا. کیوں کہ اب میں مہوش کے بالکل ساتھ لگا ہوا تھا اس لئے اب اس کے
تیز سانسوں کی آواز مجھے سنائی دے رہی تھی. پھر میں نے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اوپر
نیچے پھیرنا شروع کر دیا. نیچے پھدی پر رکھ کر میں نے جسے ہی دبایا تو وہاں پر
چکناہٹ کی وجہ سے لن پھسل کر دونوں ٹانگوں میں گھس گیا. میں نے وہیں دھکے مارنے
شروع کر دئے. لن اس کی ٹانگوں میں آگے پیچھے کرنا شروع دیا. ایک بار پھر پھدی میں
ڈالنے کی کوشش کی لیکن نا تجربہ کاری اور لیٹنے کی پوزیشن کی وجہ سے ناکام رہا اور
لن پھر سے پھسل کر اس کی ٹانگوں میں چلا گیا. اب میں اپنا ہاتھ منہ کے پاس لایا
اور اس پر تھوک لگا کر نیچے لے جا کر لن کی ٹوپی اور باقی لن پر لگا دیا. لن پھدی
کے پانی سے ویسے ہی گیلا تھا تھوک لگنے سے اور چکنا ہو گیا. میں نے اس کی اوپر
والی ٹانگ تھوڑا آگے کر کے پھدی مارنے کی ایک اور کوشش کی لیکن پھر ناکامی ہی
ہوئی. پھر میں نے اپنی انگلی پر تھوک لگایا اور اس کی گانڈ کے سوراخ پر اسی انگلی
سے تھوک لگا دیا. پھر اپنا چکنا لن اس کی گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کیا اور اس کی کمر
سے پکڑ کر آہستہ سے دھکا لگایا تو لن کی ٹوپی اس کی گانڈ میں گھس گیی. میں ابھی
مزے کی اس کفیت کو سمجھ ہی نہیں پایا تھا کہ وہ جلدی سے آگے کو ہو کر الٹی لیٹ گی،
اسی دوران مجھے اس کے منہ درد بھری سسکی کی آواز سنائی دی. مجھے سمجھ آ گی کہ درد
کی وجہ سے وہ الٹی ہو گیی ہے تاکہ میں مزید لن نہ ڈال سکوں. مجھے بہت مایوسی ہوئی
کہ اتنا قریب آ کر بھی نہ پھدی ماری اور نہ ہی گانڈ. مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ
گانڈ یہ اب دے گی نہیں اور ان حالات اور پوزیشن میں پھدی مارنا مشکل ہے. باہر بارش
بھی رک چکی تھی لیکن بجلی ابھی تک نہیں آیی تھی. میرا لن جھٹکے کھا رہا تھا. میں
نے کچھ سوچا اور پھر مہوش کے کان میں سرگوشی کرتے ہوے کہا "ساتھ والے کمرے
میں جا رہا ہوں تھوڑی دیر کے بعد وہاں آ جانا" میں اتنا کہ کر پیچھے ہو گیا
اور بیٹھ کر ارد گرد کا جائزہ لیا. خالہ گہری نیند میں ہی تھی. میں آرام سے اٹھا
اور باہر نکل آیا. اسٹور کا دروازہ صحن میں سے ہی تھا. میں دبے قدموں چلتا ہوا
وہاں آ گیا. کمرے میں اندھیرا تھا لیکن دروازہ کھلنے کی وجہ سے اندر تھوڑا بہت
دکھایی دے رہا تھا. دروازے کے سامنے ہی چارپائی بچھی ہوئی تھی اور باقی کمرے میں
پیٹیاں، الماری اور کافی دوسرا سامان پڑا ہوا تھا. میں حالات کا جائزہ لے کر وہیں
کھڑا ہو کر اس کا انتظار کرنے لگ گیا. کافی دیر ہو گئی تھی لیکن وہ نہیں آیی. میرا
لن بھی اب ڈھیلا ہو چکا تھا. میں نے سوچا وہ نہیں آے گی. آج جتنا مزہ لے لیا ہے
وہی کافی ہے. اب مٹھ لگا کر سکون لیتا ہوں اور جا کر سوتا ہوں۔میں نے شلوار کھولی
اور ڈھیلے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلانا شروع کر دیا. کچھ دیر پہلے والے واقعات یاد
کر کے میرا لن پھر سے سخت ہو گیا. اتنی دیر میں مجھے دروازے کے پاس ایک سایہ سا
نظر آیا جو اسٹور کے دروازے سے اندر اندھیرے میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا.
خدو خال سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ مہوش ہے. میں نے ہلکی سے آواز دی کہ اندر
چارپائی پر آ جاؤ. وہ اندر آ گئی میں نے اس کو پکڑا اور گلے لگا کر کہا کہ
"مجھے لگا تم نہیں آؤ گی". وو بس اتنا بولی "جلدی کرو". میں
اس کو چارپائی پر اس طرح لٹایا کہ اس کی گانڈ چارپائی کے کونے پر تھی. میں اس کی
ٹانگوں میں چارپائی کے پاس کھڑا ہو گیا. شلوار میری پہلے ہی پاؤں میں تھی قمیض کو
بھی گریبان میں پھنسایا اور اپنے لن پر تھوک لگا لیا. اندھیرے میں کچھ زیادہ
دکھائی نہیں دے رہا تھا. میں ہاتھ لگا کے چیک کیا تو اس نے ابھی تک شلوار پہنی
ہوئی تھی. میں ٹٹولتے ہوتے اس کا ازار بند کھولا اور شلوار نیچے پاؤں تک کر کے اس
کی ٹانگیں اوپر کی اور ان کے درمیان کھڑا ہو گیا. ہاتھ پر تھوڑا تھوک لگا کر اس کی
پھدی پر لگایا جو پہلے ہی کافی گیلی تھی پھر اندھیرے میں اس کی پھدی کے سوراخ پر
انگلی رکھی اور اپنا لن اس انگلی کی جگہ رکھ کر اس کے اوپر لیٹ گیا. اس کی ٹانگیں
میرے کندھے پر تھی. میں نے لن کو تھوڑا دبایا تو وہ پھسلتا ہوا پورا پھدی کے اندر
چلا گیا. مہوش نے پھر ہلکی سی سسکاری لی. مجھے ایسے لگا کہ میں نے لن کسی گرم اور
نرم ملائم چکنی جگہ میں ڈال دیا ہے. اس کی پھدی کی اندرونی دیواروں نے میرے لن کو
جکڑا ہوا تھا. اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میری ساری جان لن کے اندر آ گئی ہے اور
میں فارغ ہونے والا ہوں میں نے جھٹکے لگانے شروع کر دیے. ہر جھٹکے میں جب لن اندر
جاتا تو مزے سے میرا پورا جسم کانپ جاتا اور مہوش کے منہ سے بھی سسکاری نکلتی.
لیکن افسوس کہ میں پانچ چھ جھٹکوں سے زیادہ کنٹرول نہیں کر سکا اور فارغ ہو گیا.
لن باہر نکال کر دوسری طرف منہ کر کے ساری منی نیچے گرا دی. جب میں فارغ ہو کر مڑا
تو مہوش کپڑے ٹھیک کر کے دروازے میں سے نکل رہی تھی. میں بھی تھوڑی دیر کے بعد
چپکے سے آ کر جواد کے ساتھ سو گیا. اس کے بعد اگلے دو دن میں تین بار موقع ڈھونڈ
کر اس کی پھدی لی. دو بار اوپر والے باتھ روم میں اور ایک بار سیڑھیوں میں. اسی
دوران مجھے پتا چلا کہ وہ پہلے بھی دو لڑکوں سے مرواتی رہی ہے. ایک تو ہمارا ہی
کزن شانی اور دوسرا ان کا ایک ہمسایہ لڑکا جس سے اوپر والے باتھ روم یا اسٹور میں
چدواتی رہی ہے. دو دن کے بعد مجھے واپس آنا پڑا لیکن وہ والی رات کا سیکس میری
زندگی کا سب سے یادگار سیکس ایکسپیرینس رہا. کچھ مزید تجربات کو کہانی کی شکل میں
پیش کرنے کے لئے آپ کی آراء کا انتظار رہے گا.