ہر طرف مکمل خاموشی کا عالم تھا سورج
اپنی پوری آب وتاب سے آگ برسا رھا تھا گرمیوں کی اس گرم دوپہر میں جب لوگ اپنے
گھروں میں دبکے سکون کی گہری نیند سو رہے تھے
قسمت کا مارا روفی چھت کے ایک کونے
پر لیٹا اپنی قسمت کو کوس رھا تھا واہ کیا قسمت تھی جو اسے آج اسے
اس موڑ پر لےآئی تھی کہ آج وہ اپنے تمام خدشات اور شکوک وشبہات کو دور کرنے کاپختہ
ارادہ کرچکا تھا
اسے شدت سے نائیلہ کے چھت پر آنے کا
انتظارتھا وقت کافی بیت چکا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ آج وہ ہو سکتا
ہے نہیں آئیے گی پھر نیچے سیڑھیوں پر کسی کی آھٹ سنتے ہی اسے لگا کہ اس کا انتظار
رائیگاں نہیں گیا
چھت کی سیڑھیوں کے دروازے سے نمودار ہوتی
نائیلہ دبے قدموں چھت کے سرے پر واقع پانی کی ٹینکی کی طرف بڑھ رہی تھی
کافی عرصے سے اسے یہ شک ہوچلا تھا
کہ نائیلہ کا پڑوس میں کسی سےکوئی چکر چل
رہا ہے پہلے پہل تو اس نےاس کو اپنا وہم جانا اور اپنی سوچ کو انتہائی لغو تصور
کیا مگرپھر نائیلہ کو بڑی باقاعدگی سے بے مقصد چھت پر جاتے دیکھا تو اسےبھی کھد بد
رہنے لگی نائیلہ کی شوخ اور بےباک طبیعت کا تو اندازہ تھا مگر شک کرنے پر بھی دل
آمادہ نہ ہوتا
آخر مجبور ہوکر سارے معاملے کی کھوج
لگانے کا فیصلہ کیا اس وقت بھی چلچلاتی دھوپ میں وہ پسینے سے شرابور چھپ کر چھت پر
تاک لگائیے بیٹھا تھانائیلہ کو چھت پر آئیے کچھ دیر ہوچلی تھی اور بے سکونی
کے ساتھ ٹہلتے ہوئیے کسی کا انتظار اس کے چہرے پر صاف عیاں تھا روفی کوبھی
اس کی طرح اب کسی دوسرے مردکی آمد کا انتظارتھا
اس کی نگاہیں چھت پرہی لگی ہوئی تھیں پر
کافی دیر سے چھپ کر اس طرح الٹا لیٹے روفی کو اکتاہٹ ہو رہی تھی تھکاوٹ اور گرمی
سے اس کے اعصاب ڈھیلے پڑتے جارہے تھے
اپنے اندیشےبھی بےبنیاد ثابت ہوتے دکھائی
دے رہے تھےپھر اس کی سوئی ہوئی حسیات جاگنے لگیں اور رگوں میں خون کی گردش تیز ونے
لگی دوسرا فریق بھی اب ظاہر ہوچکا تھا
اسے دیکھ کر روفی کو شدید حیرت نے آ لیا
تھا اس کا خیال تھا کہ نائیلہ کا اڑوس پڑوس کے کسی نوجوان سے آنکھ مٹکا چل رہا
ہوگا مگر اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس وقت برابر والی چھت پر خضر
انکل کو دیکھے گا
روفی کو خضر انکل سے ہرگز ایسی امید نہیں
تھی اس کی جوانی اور عمر سے کئی گنا بڑے مرد سے بھی چکر ہو سکتا تھا تو ان
کے بچے تھے پھر ان دو گھروں کے اہل خانہ میں راہ وسم بھی کافی پرانا تھا
بڑا ہونے کے ناطے وہ ان کی عزت بھی بہت
کرتا تھا اور پڑوسی ہونے کے وجہ سے کچھ بے تکلفی بھی تھی گھر پر کوئی بڑا نہ موجود
ہونے کی وجہ سے وہ اکژاوقات مختلف امور میں اس کی مدد بھی کرتے رہتے تھے
یہ تواسے معلوم تھا کہ پچاس سے اوپر کے
ہونے کے باوجود محلہ کی بہت سی عورتیں ان کی شاندار شخصیت اور مردانہ وجاہت پر
مرتیں تھیں ان کا اونچا قد کاٹھ اور مظبوط کسرتی جسم اس عمر میں بھی اچھے اچھے
جوانوں کو حسد میں مبتلا کردیتا تھا
بڑی میچور عمر کی عورتیں تو ایک طرف بہت
سی جوان لڑکیاں بھی دل وجان سے ان پر فدا تھیں یہ بھی اس کو اندازہ تھا کہ بہت سی
حسین لڑکیوں کو تو وہ فیض یاب بھی کرچکے ہیں
بہرحال اپنی بڑی آپی کو خضر انکل کے لیے
بے تاب دیکھ کر روفی کو دکھ اور افسوس نے آلیا انیس برس کا خوبرو مگر سیدھا سادھا
روفی گھر میں سے سب سے چھوٹا اور کالج کے دوسرے سال میں تھا
ماں باپ تو بچپن میں گزر گئیے تھے، ایک
بڑا بھائیی تھا جو روزگار کے لیئیے بیرون ملک مقیم تھا گھر کے کل افراد فل
وقت دو بڑی بہنوں اور ایک پیاری بھابی پرہی مشتمل تھے صحت مند سیکسی جوان
بدن اور کی مالک ستایئیس برس کی نائیلہ دونوں بہنوں میں بڑی اور شادی کو تیاربیٹھی
تھی
چھوٹی بہن چوبیس سالہ نورین ابھی کالج کے
چوتھے سال میں تھی اور بی اے کی تیاری میں مصروف تھی اوپر والے نے دونوں بہنوں کو
حسن وجمال سے اس طرح نوازا تھا کہ ان کی جوانی اور سیکسی پن بہت سے دیکھنے والوں
کو مشکل میں ڈال دیتی تھی
شروع جوانی سے ہی اپنےقیامت خیز جوانی
پر اُٹھنے والی پرستائیش نظروں اور پزیرائی نے نائیلہ کو شوخ اور بےباک
بنادیا تھا اپنی وبصورتی سے بھی واقف تھی اور اپنی جوانی پر کچھ ناز بھی تھا
اس جوانی کے عاشق اور طلبگار تو کئی تھے اور اسکو بھی ان کی توجہ اچھی محسوس
ہوتی
مگر وہ بھی ہر کسی کو گھاس نہیں ڈالتی
تھی مغرور لڑکی مشہور ہو چکی تھی کالج کےآغازمیں کئی لوگ دوستی اور قربت کے
خواہشمند ہوئیے تو اس نے اپنی تمام تر بےباکی کوچند لو لیٹرز کے تبادلےتحفوں
نذرانوں کی وصولی اور ایک آدھ خوش نصیب کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے تک محودود رکھا
اس نے کبھی کسی کو چوت کا اصل دیدار تک
نا کرایا تھا سب اس کی پھدی لینے کے دعوے دار تو بن چکے تھے لیکن سچ پوچھیں تو
جہاں تک میرا خیال ہے ا سنے پھدی اوپر اوپر سے لن رکھنے کے لیئیے بھی نہیں دی ہوگی
کیونکہ لڑکی پھدی اگر ایک بار کسی مرد کے سامنے ننگی کر لے تو پھر اس کو لن لینے
سے کوئی نہیں روک سکتا
عورت تمام تر شر و حیا کے باوجود بھی لن
لینے نا کام نہیں لوٹا کرتی یہ الگ بات ہے کہ وہ شلوار نا اتار چکی ہو چوما چاٹی
تک رکھا ہو تو چوت دینے سے بچ سکتی ہے تو ادھر بھی معاملہ بھی کچھ اس طرح کا ہی
دکھائی دینے لگا تھا لیکن روفی کو اس نائیلہ کی بچی سے کچھ زیادہ ہے
وابستی ہو چکی تھی وہ ا سکی پھدی مارے بنانہیں ٹلنے والا تھا
نائیلہ کی جوانی تڑپ تڑپ کے اب لن
مانگنے کے لیئے اوتاولی ہو چکی تھی اور اس کو ہر صورت سکون کے ساتھ اس کرد کی
بانہوں کی ضرورت تھی اور وہ اس مرد کی اسیر ہو جانے کے لیئیے بہت بے قرار ہو چکی
تھی
جوانی کے منہ زور گھوڑے کے آگے اب اس کا
بس نہیں چل رہا تھا کیسے ا سکو روکے جوانی ایک دم سے آتی ہے اور اپنے ساتھ
بہت کچھ بہا کے لے جاتی ہے
اس کے ساتھ بھی اب ایسا ہی سین ہونے والا
تھااس کی الہٹر جوانی کو انکل روندنے والا تھااور اپنی مرادنگی کی دھاک
بٹھانے کو وہ بھی بہت بے قرار ہو چکا تھا یوں تو وہ کئی لڑکیون کے ساتھ سیکس کر
چکا تھا لیکن اس کے خیال کے مطابق نائیلہ کے ساتھ سہانی دوپر جو گرم ہونے کے
باوجود بھی کسی سہاگ رات سے کم دکھائی نا دیتی تھی
وہ میچور مرد تھا بڑی عمر کا اس کی
عمر میں کچھ بڑی اورمحلہ کے رنگین سہانے سے واقف ایک دوست سے جب انکل خضر کی تعریف
سنی تو نائیلہ کا بھی انکل کو دیکھنے کا انداز اور خیال ہی بدل گیا جوانی کی
ترنگ نے انکل سے دوستی اوآغوش کی خواہش کو جنم دیا
کچھ جھجک بھی ہوئی تھی اور ڈر بھی
لگا پرانکل کی اس جانداراور زندہ دلی دلی میں چھپی مزیدار باتوں اور
اندازکے سامنے رہا نہ گیا انکل کے ہاں آمدورفت توپہلے سے بھی تھی،
نگاہوں کی زبان سے دل کا پیغام پہنچایا
یہ تواندازہ تھا کہ اس سیکسی خوبصورت پیشکش سے انکار کون بدنصیب کرے گا اور
انکل کے ساتھ بات راز ہی میں رہنے کا سکون بھی تھا
ابھی کالج نہیں چھوڑاتھا کہ نائیلہ کی خضر انکل سے پہلی
سیکسی سہانی ملاقات ہوئی چھت پر ہی ملاپ ہوا اور وہیں کلی سے پورا
پھول بنی انکل نے بھی اس کے کنوار پن کی کچی تند دھاگےبڑے چاؤ سے توڑے اور کھولے
لیکن ایک بات توپ بھی جانتے ہٰں کھلنے کے
بعد سلتے نہیں پھر مزید اور لڑکی سےعورت کا روپ دیا مرد سے اپنے پہلے
وصال کی پر کیف لذت نے نائیلہ کو کافی دن مسرور اور شاداں رکھا جسم کے
زیریں حصے سے اٹھتی درد کی میٹھی سی ٹیس بھی کچھ دن اس کو مزہ دیتی رہی اور
چھت پرانکل کے ساتھ گزارے ان رنگین لمحات کی رنگینی کا احساس دلاتی رہی
اس کی منہ زور جوانی کو بھی جیسے ایک
بھرپور مرد کی تلاش تھی سلسلہ چل نکلا اور ملاقات بلکہ کئی ایک ملاقاتیں ہونے لگیں
انکل کا دل بھی اس کی الہڑ اور بھرپور جوانی پر خوب آیا گرمیوں کی ایسی کئی
دوپہریں انکل نے اس کے بدن کی گہرائی ناپنے اور اس کی جوانی کو آسودگی دینے
کرنے پر صرف کیں
پہلی سیکسی اور بھرپور ملاقات میں
آشکار ہونے والے درد دور ہوئیے تو نائیلہ بھی اس کھیل کی ماہر ہکھلاڑی کی طرح ہوتی
گئی برابرکا کھلاڑی ملا تو انکل بھی سب کو چھوڑ کر پوری توجہ اور زور اسی پر لگانے
کرنے لگے اب تک وہ نائیلہ کے جسم کا ہر سیکسی انگ اور اس کی ترنگ کو ناپ چکے
تھے
اور بدن کا ہر ایک انگ انگ کھول
چکے تھے اور وپ مکمل عورت تھی ا ب وہ بھی نکھر کر ایک بھرپورجوان عورت کے
روپ میں ڈھل چکی تھی اس کےصحتمند کسے ہوئیے جوان لچکیلے بدن پرغضب ڈھاتی
چھاتیوں بوبز کی اٹھان اور اس کی چونچیوں کی کشادگی دیکھنے والوں کے جسم کے
کچھ حصوں میں خون کی گردش میں اور بھی تیز ی کردیتی تھی
کافی مدت ہو چلا تھا روفی اب بڑا ہو گیا
تھا اور سمجھنے لگا تھا نائیلہ اب اس سے محتاط رہنے لگی تھی ویسے تووہ بدھو
پن کی حد تک سادہ بھی تھا تھا پراس سے کافی مانوس بھی تھا
اس کے گھر پر موجودگی میں وہ کم
مکم ہی اوپر جاتی تھی یا پھر اس کی باہر دوستوں کے پاس نکلنے کا انتظار کرتی
ابھی تک تو سارے معاملے کی واحد صرف ایک ہی راز دار تھی
رازدار نورین تھی جو پیچھے گھر پر نظر
رکھتی تھی کام کو سنبھالتی تھی شائید کہ کبھی اس کی باری بھی آئیے تو نائیلہ بھی
اس کا اچھا ساتھ دیکر ا سکی کنواری چوت کھلنے میں مدد دے گی
کچھ دنوں سےروفی کا معمول تھا کہ کالج سے واپسی پر
اچھے اور کچھ نئیے دوستوں کی طرف نکل جاتا آج بھی کھانے سے فارغ ہوتے ہی وہ
شام تک وآپس لوٹنے کا کہہ کر جلدی باہر نکل گیا نائیلہ کو اب اپنی بھابی کے
سونے کا انتظار تھا اور نورین کے پیارے اشارےکا بھی انتطار تھا جانے کب سگنل
ملے اور وہ چدائی لگوانے چلی جائیے
ہفتے میں آج کے دن انکل سے ملاقات اس کا
معمول بنا ہوا تھا اور بھی تھا اور پھر وہ کل شام خضر انکل سے ملنے کی
فرمائیش بھی کرآئی تھی کیونکہ ا سکی چوت گرم ہو چلی تھی
بھابی کے خراٹوں کی بلند آواز بلند
ہوتے ہی نورین کا اشارہ پا کر وہ بھی چھت کی جانب بڑھی اور ا سکے قدم نا جانے کیون
آج تھوڑے لرز رہے تھے جیسے کچھ انہونی ہونے جا رہی ہو
روفی آج نائیلہ کو موقع پہ ہی رنگے ہاتھوں پکڑنے
کا ارادہ کر کے آیا تھا پاپی خضر انکل کو دیکھ کر روفی کو حیرت بھی ہوئی تھی
اور افسوس بھی ہورہا تھا کہ اس کی آپی نے یہ کیا ظلم کیا ہے کاش کسی نوجونا
لڑکے سے دوستی کر لیتی تو اس کی کم از کم شادی بھی اس کے ساتھ ہو سکتی تھی
انکل کو دیکھ نائیلہ کے چہرے پر کھیلتی
مسکراہٹ بھی روفی کو بالکل زہر لگ رہی تھی آس پاس کا جائیزہ لینے کے بعد خضر
انکل خاموشی کے ساتھ دبے قدموں اس جانب بڑھنے لگے جہاں نائیلہ بےصبری
بے قراری سےان کی منتظر تھی ان کا لن لینے کی طلب گار تھی
قریب پہنچتے ہی انکل نے اس کو اپنی
بانہوں میں کھینچ لیا اور ان کے ہونٹ اس کے گرم رسیلے ہونٹوں کا رس پینے لگے
اور ان کو تر کرنے لگے ان کے ہاتھوں کو اپنی آپی کی سیکسی گداز پشت پر ابھری
بھری بھری گولائیوں میں پیوست ہوتے دیکھ کر روفی کا خون کھولنے لگا تھا لیکن
وہ شش و پنج میں پڑتا گیا
اس واقع کو گزرے پانچ سال ھو ئیے ھوں گے
لیکن آج بھی میں اس کے بارے میں سوچتی ھوں تو میری چْوت گیلی ھو جاتی ھے حالاں کے
میں ابھی دو بچوں کی ماں ھوں۔ میں ایک درمیانے درجے کے گھر میں پیدا ھو ئی تھی۔
میرا صرف ایک بھائی تھا جو مجھ سے بڑا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ھے جب میں کالج میں پڑھتی
تھی۔ھم لاھور میں رھتے تھے۔ میرے ابو ایک دفتر میں ملازم تھے اور بھائی پنڈی میں
کام کرتے تھے۔ میری دنیا میں ایک ھی دوست تھی جس کا نام تھا نازیہ تھا۔ وہ میری
کزن بھی تھی۔ میرے امی ابو بہت سخت تھے اس لیے
نہایت خوبصورت ہونے کے باوجود بھی میں
فیشن نہیں کر سکتی تھی اور بڑی چادر کر کے کالج جاتی تھی۔
کالج کی بہت سی لڑکیاں مجھے صرف دیکھنے
میری کلاس آتی تھیں۔ چونکہ میری ماں پٹھان تھی اسلیے میرا رنگ گورا اور صاف تھا
اور بڑی بڑی کالی آنکھیں لال گلابی ہونٹ اور خوبصورت جسم۔ مجھ میں ایسی کوئی برائی
بھی نہ تھی ہاں البتہ کبھی کبھی انٹرنیٹ پے سیکس کی فلم یا ویب سائیٹ دیکھ لیتی
تھی اور ہاں نازیہ مہینے میں جب ایک یا دو بار میرے گھر سوتی تو ہم دونوں ایک دوسرے
سے کھیلتے۔ میرا اپنا کمرہ تھا۔ رات کو دونوں ننگے ہو کر سوتے تھے اور ایک دوسرے کے
سینے دباتے اور چوت بھی ملتے تھے جس سے ہمیں بہت مزہ آتا تھا۔بس یہی ہماری انجوائیمنٹ
تھی۔ہم ہر ایک بات ایک دوسرے سے شئیر کرتے تھے۔
پھر کیا ہوا کیایک لڑکا نازیہ کو پسند
کرنے لگا۔اور نازیہ بھی اسے پسند کرتی تھی۔ نازیہ جب بھی کالج سے چھٹی کر کے علی
سے ملنے جاتی تو میں سارا معاملہ سنبھال لیتی۔ چند ہی ملاقاتوں کے بعد انھوں نے
سیکس بھی شروع کر دیا۔ اب جب رات کو نازیہ میرے ساتھ سوتی تو مجھے اپنے سیکس کے
قصے سناتی اورسناتے ہوۓ میری چوت بھی ملتی تھی جس سے مجھے بہت مزہ آتا تھا۔اس کی
باتیں سن کے میرا بھی بہت دل کرتا تھا کہ میں بھی کسی سے چدوایا کروں لیکن ماں باپ
کا سوچ کے خاموش ہو جاتی۔
ہمارے پڑوس میں بی بی پیراں رہتی تھی۔ اس
کے چار بچے تھے۔ اس کاخاوند ایک مل میں ملازم تھا اور ۳۸ یعنی اڑتیس سال کا ہو گا لیکن دیہات کا
ہونے کی وجہ سے بڑے قد کاٹھ کا اور سخت جسم کا تھا اور کافی سانولا رنگ تھا۔ بس
ایسا تھا کہ اگر ایک بار دیکھا تو شاید دوسرے بار آپ دیکھنے کی تکلیف نہ کریں۔ میں
نے نوٹ کیا کہ وہ مجھے چھت پہ چڑھ کہ تاڑتا رہتا ہے۔میں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔
ایک دفعہ امی ابو نے دوسرے شہر جانا تھا اور رات ٹھہرنا تھا تو میں نے نازیہ کہ
سونے کے لیے بلا لیا۔اکثر ہم ایسے ہی کرتے تھے۔ شام کو نازیہ نے مجھے منت سماجت کر
کے را ضی کر لیا کے وہ علی کو رات کو یہاں بلا لے۔ رات دس بجے علی آیا اور ساتھ ہی
ہمارے لیے کھانا بھی لے آیا۔کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں میرے کمرے میں چلے گیے اور
اندر سے دروازہ بند کر لیا۔میرا دل دھک دھک کرنے لگا کہ ابھی اندر کیا ہو گا۔ مجھ
سے رہا نا گیا اور میں نے کی ہول سے
اندر جھانکنا شروع کر دیا۔کیا دیکھتی ہوں
کے علی نے نازیہ کو گلے لگایا ہوا ہے اور ایک ہاتھ سے نازیہ کی گانڈ پہ ہاتھ پھیر
رہا ہے۔چند ہے لمحوں بعد نازیہ جھکی اور علی کی پینٹ کی ہک کھول کے اس کا لن نکال
کے ہاتھ میں لیا اور پھر منہ میں لے کے چوسنے لگی۔یہ منظر دیکھ کے میرے بدن میں
بجلی دوڑنے لگی اور میرا ہاتھ میرے شلوار میں چلا گیا اور میں نے محسوس کیا کے
میرے چوت گیلی ہو رہی ہے۔
تھوڑی دیر میں علی نے کپڑے اتار دیے اور نازیہ
کو بھی ننگا کر دیا۔اور پھر علی نے اپنا لن نازیہ کی چوت کے ہونٹوں پہ ملنا شروع
کر دیا۔ میں نے بھی اپنی انگلی سے اپنی چوت کو سہلانا شروع کر دیا۔پھر علی بیڈ پے
لیٹ گیا اور نازیہ اس کے اوپر آ گئی اور اس کے لن پے ایسے بیٹھی کے علی کا سارہ کا
سارہ لن نازیہ کی چوت میں چلا گیا۔ اب اور آگے مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں اپنے
کمرے میں آ گئی۔ سامنے دیکھا تو وہی پڑوسی مجھے اشارے کر رہا تھا۔ پتا نہیں مجھے
کیا ہوا کہ میں مسکرا دی۔ اب وہ اس بیڈ روم میں گیا جو میرے بیڈروم کے سامنے تھا
اور وہاں سے اشارہ کیا۔ میں پھر مسکرا دی۔ وہ دھوتی پہنے کھڑا تھا۔ اس نے دھوتی
میں سے اپنا کالا لن نکال کے مجھے دیکھایا۔ میں نے گھبرا کے بتی بجھا دی۔ میرا دل
دھک دھک کرنے لگا۔ مجھے غُصہ بھی بہت آیا کے دیکھو چار بچوں کا باپ اور مُجھ
اٹھارہ سالہ لڑکی سے عشق لڑاتا ہے۔ خیر میں پھر کی ہول سے علی اور نازیہ کا تماشہ
کرنے لگی۔اب دیکھا کے علی نازیہ پے چڑھا ہوا ہے اور نازیہ کی ٹانگیں
اپنے کاندھے پے رکھ کے زور زور سے گھسے
مار رہا ہے۔علی کا لُلا نازیہ کی چُوت میں اندر باہر ہوتے دیکھ کر مجھے بہت بے چینی
سی ہوئی۔ میں نیچے آ کے کمپیوٹر پے سیکس فلمیں دیکھنے لگی۔ ایک فلم میں ایک بڑا
کالا لن دیکھا۔ یہ بالکل پڑوسی ناصر کے کالے لن کی طرح تھا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے
اس نے مجھے دیکھایا تھا۔ فلم میں اس کالے لن نے گوری کو اتنا مزہ کروایا کے گوری
پاگل ہو گئی۔ اب میرے ذہن میں بار بار ناصر کے کالے لن کے خیال آنے لگے۔ خیر میں
نے پھر جا کر اُن کو دیکھا تو اب نازیہ ڈوگی سٹائیل میں چودا رہی تھی۔ میں اپنے
کمرے میں آکے لیٹ گئی لیکن بہت دیر تک نیند نہ آئی۔
اگلے دن صبح سویرے ہے علی چلا گیا۔ شام
کو امی ابو بھی آگیے۔ اگلے دن میں بی بی کے گھر گئی۔ وہ بہت نیک اور اچھی عورت
تھی۔ مجھ سے کہنے لگی کے میری بہن کی شادی ہے اور ہم لوگ اگلے جمعرات کو گاوں جا رہے
ہیں دو ہفتے کے لیے۔ ناصر یہاں ہو گا اگر چھٹی ملی تو ولیمے کو آ جاۓ گا۔آج اتوار
ہے کافی تیاری کرنی ہے۔ خیر میں گھر آ گئی۔ رات کو سوتے میں پھر مجھے ناجانے کیوں
ناصر کا کالا لن آنکھوں کے سامنے آگیا۔ میں ساری رات اُس کے بارے میں سوچتی
رہی۔کالج میں بھی اس خیال سے چُھٹکارا نہ پا سکی۔ شام کو ابو کے کزن نے ملتان سے
فون کیا کہ اُن کے ہاں شادی ہے اور سب کو آنا پڑے گا اور آپ لوگ اس بُدھ کو پہنچ
جائیں کیوں کہ تیاری بھی آپ لوگوں نے کروانی ہے۔ میں نے تو جانے سے صاف انکار کر
دیا اور بہانا بنایا کہ میرے ٹیسٹ ہیں۔
اگلے دن جب میں نے نازیہ کو یہ بتایا تو
وہ تو خوشی سے پاگل ہو گئی۔ اب تو دو یا تین دن خوب عیاشی کریں گے۔ مجھے کوئی خوشی
نہ ہوئی کیونکہ نازیہ تو اپنے یار سے چُوت مرواےٌ گی اور میں ویسے ہی پریشان ہوں
گی۔
رات کو پھر مجھے ناصر کا کالا لن آنکھوں
کے سامنے آ گیا۔ پھر میں نے ایک عجیب فیصلہ کیا کہ میں ناصر سے یاری لگاوں گی۔ اس
میں ایک فائدہ ہے کہ شادی شدہ شخص ہے کم از کم بلیک میل تو نہیں کرے گا۔ اپنے بیوی
بچوں کی خاطر احتیاط برتے گا۔ یہ فیصلہ کر کے میں اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کرنے
لگی۔اب میں نازیہ کو بتاوں گی کہ اس بار ایک کمرے میں وہ علی سے چدوایے گی تو
دوسرے کمرے میں میں بھی مزے کروں گی۔ لیکن یہ سب میں نے نازیہ کو نہیں بتایا۔ دوسرےدن
میں بی بی پیراں کے گھر گئی تو ناصر بھی تھا۔ اس نے چُھپ کے مُجھے آنکھ ماری تو
میں مُسکرادی۔وہ بُہت خُوش ہوا اور سمجھا کہ لڑکی پھنس گئی۔ خیر امی ابو نے جمعرات
کو مُلتان جانے کا فیصلہ کیا ۔ بُدھ کے دن بی بی پیراں اپنے گاوں چلی گئی اپنے بچوں
سمیت اور میرے امی ابو اگلے صُبح جانے کی تیاری کرنے لگے۔ شام کو میں بُہت بے چین
تھی۔ وقت نہیں کٹ رہا تھا۔ اپنے کمرے میں آگئی اور شلوار اُتار کے شیشے کے سامنے
اپنی کنواری چُوت دیکھنے لگی۔ اپنی چُوت کے ہونٹوں کو کھول کے اپنا تنگ سا سُوراخ
دیکھا اس میں میرے چھوٹی اُنگلی بھی نہیں جاتی تھی لیکن کل اس میں ناصر کا بڑا
کالا لن جاۓ گا اور پھر یہ سُوراخ اتنا تنگ نہیں ہو گا۔میں اندر باتھروم گئی اور
اپنی چُوت بال سفا کریم سے شیشے کی طرح صاف کی تاکہ ناصر کو پسند آۓ۔ یہ سب کُچھ
کرنے کے بعد سوچا کہ یہ سب ہو گا کیسے۔ آخر میرے ذہن میں ایک پلان آیا۔ میں نیچے
کچن میں گئی اور کھیر بنانے لگی۔ کھیر تھوڑی زیادہ رکھی تاکہ میں کل کھیر دینے کے
بہانے جب ناصر کے گھر جاوں گی تو وہ اکیلا ہو گا اور مُجھ پر ضرور ٹرائی مارے گا۔
سو اگلے دن کے سوہانے سپنے لیے میں سو گئی۔
دوسرے دن امی ابو صُبح سویرے چلے گیے اور نازیہ
نے کالج کے بعد آنے کا کہا تھا۔ اب میں تیار ہونے لگی۔ کُھلے گلے والی قمیص پہنی
تاکہ سینے نظر آسکیں۔ شلوار پہنی لیکن پینٹی نہیں پہنی۔سوچا ناصر کو اسکو اُتارنے
میں وقت لگے گا۔ جب امی ابو کو گیے دو گھنٹے ہو گیے اور مُجھے یقین ہو گیا کہ اب
وہ چلے گیے ہوں گے تو میں دھڑکتے دل کے ساتھ کھیر کی پلیٹ لیے ناصر کے گھر کا داورازہ
کھٹکھٹایا۔ ناصر نے دروازہ کھولا۔ میں (جی کھیر لائی ہوں آپ کے لیے ) ناصر (
شُکریہ پلیز فریج میں رکھ دیں) مُجھے پتہ تھا فریج کہاں ہے سو میں کچن میں گئی اور
کھیر رکھنے لگی۔ اس تمام وقت میرا دل دھک دھک کرتا رہا۔ میں جیسے ہی کچن میں گئی
ناصر نے دروازے پے پکا لاک چڑھا دیا۔ میرا دل اُچھل کے حلق میں آ گیا۔ میں نے
انجان بن کے پوچھا ( بی بی کہاں ہے ؟) ناصر نے جواب دینے کی بجائےمُجھے
پیچھے سے ایسے دبوچا کہ اُسکے دونوں ہاتھ
میرے سینے پے اور اپنا لن میرے گانڈ پے رگڑنے لگا۔ میں نے کہا ( پلیز مُجھے جانے
دو میں بی بی کو بتاوں گی۔ دیکھو میں ایسی لڑکی نہیں ہوں۔ پلیز مُجھے جانے دو لیکن
دل ہی دل میں خُوش تھی کہ ناصر نے سب کُچھ وہی کیا جو میں نے سوچا تھا۔ ناصر (
دیکھو گھر میں کوئی نہیں ہے لہذا شور سے کچھ نہیں بنے گا ہاں کوئی آ گیا تواُلٹی
تُمہاری بدنامی ہو گی۔ میں ( پلیز مُجھے جانے دو مُجھے ڈر لگ رہا ہے۔ پلیز کوئی
دیکھ لے گا ) ناصر ( یہاں کوئی بھی نہیں ہے گھبراو نہیں کوئی نہیں دیکھے گا ) یہ کہہ
کر ناصر نے دھوتی سے اپنا کالا لن نکالا اور میری گانڈ پے رگڑنے لگا اور ہاتھوں سے
میرے ممے بھی دبانے لگا۔ اُس کے ایسا کرنے سے میں نے گہری سانسیں لینا شروع کر دیں
۔ میرا یہ حال دیکھ کر ناصر کا اور حوصلہ بڑھا اور اُس نے اپنا ہاتھ میری قمیض میں
ڈالا اور میرے ممے پکڑ لیے۔
میں ( پلیز ایسا نا کرو اور مُجھے جانے
دو) اُس نے میرا جواب دینے کی بجاۓ میرے شلوار نیچے کی اور اپنے لن اب میری ننگی
گانڈ پے ملنے لگا۔ اُس کے ایسا کرنے سے میرے جسم میں بجلیاں سے دوڑنے لگیں۔ اب میں
نے سوچا کے اب اور نہیں منع کروں۔ میں ( اچھا پلیز وعدہ کرو کسی کو نہیں بتاو گے۔
اور پلیز دروازاہ بند کر لو۔ ) ناصر ( وعدہ کے یہ راز اآپ کے اور میرے درمیان رہے
گا ۔ اچھا اب مان جاو اور چلو بیڈ روم میں چلتے ہیں ) یہ کہہ کے وہ میرا ہاتھ پکڑ
کے بیڈ روم لے گیا۔ میرے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے لیکن چہرے پہ پریشانی سجائی تھی۔
بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی اُس نے اپنی شرٹ اور دھوتی اُتار دی اور اپنا کالا لن لے
کے میرے قریب آیا اور مُجھے گلے لگایا اور بولا ( صبا جانی آ گھبراو نہیں ہم بلوچ
ہیں جاں دے دیں گے لیکن یار پے آنچ نہیں آنے دیں گے) اس کی یہ بات سُن کر تھوڑا
حوصلہ ہوا اور میں نے بھی اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ ناصر آگے بڑھا اور مُجھے
بچوں کی طرح گود میں اُٹھا کر بیڈ پے لٹا دیا اور میری قمیض اُٹھا کر اور میرے نپل
چُوسنے لگا۔ میں ( دیکھو ناصر مُجھے بُہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں نے پہلے کبھی ایسا کام
نہیں کیا اور سنا ہے کہ پہلی بار بُہت تکلیف ہوتی ہے) ناصر ( فکر نہ کرو جانی میں
ایسے پیار اور آرام سے کروں گا کے آپ کو زیادہ تکلیف نہیں ہو گی ) یہ کہتے ہی وہ
میرے قمیض اُتارنے لگا اور پھر اُس نے میرے شلوار نیچے کرنے لگا۔ میں نے اُس کا
ہاتھ پکڑ لیا۔ میں ( نہیں نہیں مُجھے شرم آتی ہے ناصر پلیز یہ نا اُتاور) ناصر (
شرماو نہیں ادھر تو صرف میں اور آپ ہیں اور شلوار نہیں اتارو گی تو مزہ نہیں آے
گا) یہ کہہ کر اس نے میری شلوار گُھٹنوں تک نیچے کر لی اور پھر میری ٹانگیں اُوپر
کر کے ساری اُتار لی۔ اب میں
بالکل ننگی لیٹی تھی۔ اور ناصر کے بڑے
کالے لن کو دیکھ رہی تھی اور گھبرا بھی رہی تھی کہ اتنی موٹی بلا میرے چُوت میں
کیسے جاۓ گی اور اگر گئی بھی تو یہ تو سب کُچھ پھاڑ کے رکھ دے گی۔
ناصر نے اب مُجھے سر سے پاوں تک کس کیا۔
پھر میرے پاؤں کھولے اور پیرسے چُوت سہلانے لگا۔ مُجھے بُہت مزہ آیا۔ پھر ناصر نے
اپنی چھوٹی اُنگلی میری چُوت میں ڈالنے کی کوشش کی۔ مُجھے بہت درد ہوا۔ میں ( ناصر
یہ کیسے ہو گا۔ اتنا تنگ سُوراخ ہے کے اُنگلی بھی نہیں جاتی تو یہ آپ کی اتنی بڑے
چیز کیسے جاۓ گی ؟ مُجھے ڈر لگتا ہے بُہت درد ہو گا نا؟ ) ناصر ( ارے نہیں میرے رانی
بس تھورا سا درد ہو گا پہلی بار پھر مزا آے گا آپ کو) میں ( اچھا پلیز آرام سے
کرنا ) ناصر گیا اور الماری سے کریم نکال لایا۔ پہلے اُس نے اپنے لُلے پے کریم لگائی
پھر میرے چُوت پر اور میری ٹانگوں کے درمیان آ گیا، میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُس
نے میری ٹانگیں کھولیں اور اپنا لن ہاتھ میں لے کر آگے آیا اور اپنے لن کی ٹوپی
میری چُوت پے ملنے لگا۔ میرے بدن میں بجلیاں سی دوڑ گئیں۔ پھر اُس نے اپنے للے کو
میرے چُوت کے سُوراخ پے رکھ کر تھوڑا دبایا تو میری چیخیں نکل گئیں۔ میں ( پلیز
ناصر آرام سے بُہت دُکھتی ہے) ناصر پیچھے ہٹ گیا اور پھر اپنے لن کی ٹوپی میرے چُوت
کے ہونٹوں پے ملنے لگا۔ مُجھے پھر بُہت مزا آیا اور فیصلہ کیا کہ اب تھوڑا درد
برداشت کر ہی لوں ایک بار۔ ناصر نے پھر کریم لگائی اور اپنے لن کی ٹوپی میری چُوت
کے سُوراخ پے رکھی۔ میرے چُوت میں گُدگُدی ہونے لگی اور میں ناصر کا لن اپنی چُوت
میں لینے کے لیے بےتاب ہونے لگی۔ اب ناصر نے اپنے لن کو ٹھیک کر کے زور سے جھٹکا
لگایا اور اپنے لن کی ٹوپی اندر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ درد سے میرے چیخیں نکل گئی
اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ مُجھے بُہت درد ہوا اور درد سے میرے آنسو
بہنے لگے۔ ناصر یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا اور گھبرا کر اپنا لن باہر نکال لیا۔
ناصر کے لن کی ٹوپی خُون سے بھری تھی اور
خُون نیچے چادر پے بھی گرا تھا۔ ناصر میرے اُوپر جُھک گیا اور میرے آنسو بھری
آنکھیں چُومنے لگا۔ پھر ناصر نے تولیے سے میرے چُوت صاف کی اور شیٹ بھی۔ ناصر (
صبا مُجھے پتا نہیں تھا کہ اتنا درد ہو گا آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میرا دل
کٹاجا رہا ہے۔) ناصر کی یہ باتیں سُن کے میں اپنے سارے درد کو بھول گئی اور
مُسکرانے لگی اور اُٹھ کے اپنے ہونٹ ناصر کے ہونٹوں پے رکھ دیے۔میں ( ناصر آپ بُہت
اچھے ہیں آپ کی خوشی کے لیے میں ہر درد سہنے کو تیار ہوں۔ یہ کہہ کے میں اپنی
ٹانگیں کھول کے لیٹ گئی۔ ناصر نے پھر کریم لگائی اور پوزیشن لی اور اپنی لن کی
ٹوپی میری چُوت پے
رگڑنے لگا۔ مُجھے درد کے باوجود پھر مزہ
آنے لگا اور میرے چُوت گیلے ہونے لگی۔ ناصر نے یہ دیکھ کر اپنا لُلا پھر میری چُوت
کے سُوراخ پے رکھا اور میرے اُوپر جُھک کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور
پھر اپنے لن کی ٹوپی میرے چُوت کے اندر کی۔ مُجھے پھر درد ہوا لیکن میں برداشت
کرتی رہی۔ اب ناصر نے اپنے لن کی ٹوپی کے بعد تھوڑا اور اندر کیا۔ مُجھے بُہت درد
ہو رہا تھا لیکن میں چُپ تھی۔ مُجھے خاموش دیکھ کر ناصر نے دو انچ اور اندر کر دیا۔
اب درد میرے برداشت سے باہر ہونے لگا۔ میں ( ناصر پلیز بس کرو مُجھے بُہت درد ہو
رہا ہے۔ ) ناصر ( اچھا اور اندر نہیں کرتا بس اس کو ادھر ہی رہنے دیتے ہیں۔ آپ
پلیز ہلو نہیں) یہ کہہ کر ناصر نے میرے بدن سے کھیلنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں
درد کم ہوا تو اب مُجھے مزا آنے لگا۔ میرے چہرے پہ مُسکراہٹ دیکھ کے ناصر نے اپنا
لن آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ اب مُجھے تھوڑا تھوڑا مزہ آنے لگا۔
میرے چہرے پر اطمینان دیکھ کر ناصر نے اب
اپنا لن آزادی سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ ناصر نے چند ہی بار اندر باہر کیا
ہو گا کے میں فارغ ہو گئی اور میری چُوت کا گرم گرم پانی باہر آنے لگا۔ یہ دیکھ کر
ناصر نے اپنا لن باہر نکال لیا جو کے میرے پانی اور خُون سے بھرا ہوا تھا۔ ناصر
جلدی سے اُٹھ کر گیا اور تولیا لے کر آیا ، پہلے میری چُت صاف کی پھر اپنا لن صاف
کیا۔ پھر میرا سر اپنی گود میں لے کر بیٹھ گیا اور پیار سے میرے بالوں میں
اُنگلیاں پھیرنے لگا اور کبھی کبھی نیچے جُھک کے میرے آنکھیں بھی چُوم لیتا۔ناصر
(میں بُہت خُوش قسمت ہوں کے مُجھ جیسے شخص کوا ٓپ جیسے پیارے دوست ملی ہے۔ میرے
عُمر بھی زیادہ ہے اور شکل و صورت بھی کوئی خاص نہیں اور شادی شُدہ بھی ہوں۔ پھر
بھی ا ٓپ نے مُجھے پسند کیا۔ھالانکہ آپ جیسے نوجوان اور خوبصورت لڑکی کسے اچھے سے
اچھے نوجوان کو اشارہ بھی کرتی تو وہ دوڑہ چلا آتا۔) میں ( آ پ بُہت اچھے انسان
ہیں اور میرے لیے یہی کافی ہے۔ ) ناصر ( یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ ناصر اپنا سر
کٹا دے گا لیکن آپ کی عزت پے آنچ نہیں آنے دے گا ۔) میں ناصر کی گود سے اُٹھی اور
ناصر کو گلے لگا لیا اور اپنے گُلابی ہونٹ ناصر کے سگریٹ کے جلے ہوے ہونٹوں پے رکھ
دیے۔ میں ( کام پے کب جائیں گے آپ ؟) ناصر ( آج رات آٹھ بجے ۔ کیوں کیا بات ہے؟ )
میں ( جی امے ابو گھر پے نہیں ہیں اور اگر آپ کی چُھٹی ہوتی تو رات کہ بھی ملاقات
بھی ہو سکتی تھی۔) ناصر ( آج رات ڈیوٹی تو تھی لیکن اب نہیں ہے۔ سو آج رات آپ آئیں
تو میں کھاناباہر سے لے آون گا اور دونوں مل کے کھائیں گے ۔
میں ( پکا ) ناصر ( پکا) ناصر ’’ میری
رانی ایک بات مانو گی ؟ ‘‘ میں ’’ کیوں نہیں آپ کہہ کے تو دیکھیں ‘‘
ناصر ’’ آپ مُجھ سے سیکسی باتیں کیا کریں
اور بلکل آزادی کے ساتھ یعنی شرمائیں نہیں ‘‘ میں ’’ ٹھیک ہے کوشش کروں گی ‘‘ میں
نے اُٹھ کر کپڑے پہن لیے اور ناصر نے بھی اپنی دھوتی باندھ لی۔ ناصر صوفے پہ بیٹھ
گیا اور میں اُس کی گود میں بیٹھ گئی ناصر ’’ آپ میرے پالتو بلی ہو ‘‘ میں نے پیار
سے اُس کی گردن کے گرد اپنی بانہیں ڈال دیں اور بُہت دیر تک باتیں کرتے رہے ۔ میں
ابھی تک ناصر کی گود میں بیٹھی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ میری
گانڈ کے نیچے ناصر کی گود میں کوئی چیز سخت سی چُبھ رہی ہے۔ در اصل یہ ناصر کا لن
تھا جو پھر جُوش میں آ رہا تھا اور میرے نرم نرم گانڈ کو گُدگُدا رہا تھا۔ اب میں
نے فیصلہ کر لیا تھا کے ناصر سے شرماوٗں گی نہیں۔ سو میں نے ہاتھ بڑھا کے ناصر کی
دھوتی میں ڈالا اور اُسکے سخت لن کو باہر نکالا۔ میں ’’ تو جناب کو پھر جُوش آگیا
ہے؟ ناصر یہ بتاوٗ یہ آپ نے اتنا بڑا کیسے کیا یہ تو بہُت بڑا ہے۔کیا کھلاتے ہو اس
کو ؟ ‘‘ ناصر ’’ ہم دیہاتی لوگ ہیں بس دودھ لسی اور مکھن کا کمال ہے اور یہ آپ کے
احترام میں دوبارہ کھڑا ہوا ہے۔ اگر آپ کا مُوڈ ہو تو ایک بار پھر سیکس ہو جاےٗ۔
‘‘ میں ’’ ایک شرط پر کے اس بار میں سب کچھ کروں گی ۔ ‘‘ ناصر ’’ یہ تو اور بھی
اچھا ہے ۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں صوفے سے اُتری اور ناصر کی دھوتی اُتار کے ننگا کر دیا
اور اُس کا کھڑا ہوا لُلا اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پہلے اُس کی ٹوپی کو چومتی رہی پھر
اُسے مُنہ میں لے لیا۔ پھر اُسکے لُلے کی ٹوپی سے لے کے ٹٹوں تک اپنی زُبان سے
چاٹتی رہی۔ پھر میں نے ناصر کے ٹٹے اپنے مُنہ میں لے کر چُوسے۔ مُجھے ایسا کرتے
دیکھ کر ناصر کو بُہت مزہ آرہا تھا۔ اب میں اُٹھی اور اپنے کپڑے بھی اُتار دیے اور
صوفے پے چڑھ کر ناصر کی گود میں ایسے بیٹھی کے میرا مُنہ ناصر کی طرف تھا۔ پھر تھوڑی
سی گانڈ اُوپر کی اور ناصر کا موٹا لن ہاتھ میں لیکر تھوڑی سی گانڈ ایسے نیچے کی
کہ اُسکے لن کی ٹوپی میرے چوپت کی اندر چلی گئی۔میں ’’ آہ اُی ‘‘ ناصر ’’ کیا ہوا
پھر درد ہو رہا ہے کیا؟ ‘‘ میں ’’ نہیں یار مزہ آ رہا ہے ‘‘ ناصر ’’ سارہ اندر
جانے دو نا تو اور بھی مزہ آےٗ گا ‘‘ میں ’’ اچھا نہ اتنے بے صبرے کیوں ہو رہے ہو۔
پہلے مُجھے ٹوپی کا تو پورہ مزہ لُوٹ لینے دو ‘‘ اب میں نے اپنی گانڈ اور نیچے کی
اور ناصر کا لن دو انچ اور اندر چلا گیا ۔ میں ’’ اہ اُف میں مر گئی آہ ۔ بُہت مزہ
آ رہا ہے یار مجُھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ ‘‘
اب میں نے گانڈ ساری ایسے نیچے کی کے
ناصر کا لن جڑوں تک میرے چوُت میں چلا گیا اور مزے سے چکرا گئی ۔۔ میں ’’ ہمم ای
اہ ‘‘ اب میں نے اپنے جسم کو ناصر کے قریب کیا اور دیوانوں کی طرح ناصر کو چوُمنے
لگی۔ کبھی ماتھے پہ تو کبھی آنکھوں پہ تو کبھی ہونٹوں پہ تو کبھی گردن پہ۔ ناصر نے
بھی اپنی مضبوط بانہوں سے میری کمر کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔ میں ’’ ناصر کاش وقت
یہاں رُک جاےٗ،۔ دل کرتا ہے آپ کا لن ساری عمُر میری چوُت میں اسی طرح پڑا رہے
اور میں مزے لیتی رہوں ۔ یہ کہہ کر میں نے اپنے ہونٹ پھر ناصر کے ہونٹوں پہ رکھ
دیےٗ ۔ اب میں نے اپنی زبان ناصر کے منہ میں ڈالی اور پھر اُسکی زبان چوسی۔ مجُھے
بہُت مزہ آ رہا تھا کیوں کہ ناصر کا پورہ لن میری چوُت میں تھا، اُسکے ہاتھ میری
کمر کے گرد تھے اور وہ میرے ممے چوُس رہا تھا۔ اب میں نے اپنی گانڈ آگے پیچھے ایسے
ہلانی شروع کر دی اور پاگلوں کی طرح ناصر کو چُومتی رہی۔ اب ناصر بھی گرم ہو گیا
اور دونوں ھاتھوں سے میری گانڈپکڑ لی اور آگے پیچھے کرنے لگا۔
اُس کے ایسا کرنے سے اُس کا کالا للُا میرے چوُت
کے اندر باہر آجا رہا تھا۔میں مزے سے پاگل ہویٗ جا رہی تھی۔زندگی میں پہلی بار
اتنا مزہ آیا تھا۔ مجُھے کیا پتا تھا کے سیکس میں اتنا مزا آتا ہے۔
ختم شُد
bold urdu novel pk saaqi download
bold urdu novel pk saaqi ebook
bold urdu novel pk saaqi facebook
bold urdu novel pk saaqi novel
bold urdu novel pk saaqi online pdf
bold urdu novel pk saaqi pdf download