تیرے نام
عمارہ جس گھر میں پلی پڑھی تھی یہ نہ تو کوئی خاص مذہبی گھرانہ تھا
جہاں بہت زیادہ سختی برتی جا رہی ہو اور نہ ہی آزاد خیال کہ جو مرضی کرو اور کوئی
پوچھ تاچھ نہیں والد کام پر جاتے شام کو گھر لوٹ آتے اماں گھریلو کاموں میں مصروف
رہتیں یونہی زندگی ایک ہی ڈگر پر چل رہی تھی عمارہ کی بھی بہت زیادہ سہیلیاں نہیں
تھیں سکول کا سب کچھ سکول میں رہ جاتا اور گھر آ کر والدہ کے ساتھ گھربکے کاموں
میں ہاتھ بٹا دیتی البتہ ابا جی کے لیے رات کی چائے عمارہ نے ہی بنانی ہوتی تھی
سکول ختم ہوا تو نہ عمارہ نے کسی کالج میں جانے کے لیے تگ و دو کی اور نہ ہی گھر
میں کسی نے پوچھا کہ آگے کی پڑھائی کا کیا کرنا ہے یوں وہ کالج بھی نہ جاسکی ماں
نے عمارہ کو گھر کے کاموں میں مشغول کر لیا اور جیسے ہی پہلا رشتہ آیا مناسب دیکھ
بھال کے بعد عمارہ کے لیے فوراً ہاں کردی شادی کے بعد بھی عمارہ کی زندگی کچھ خاص
نہیں بدلی خاوند اچھا تھا خیال رکھتا تھا بہت زیادہ نکتہ چینی بھی نہیں کرتا تھا
معمول کی زندگی گزر رہی تھی کہ ایک دن اچانک ایک بھونچال سا آ گیا ہوا یوں کہ ایک
قریبی عزیز کی مہندی کھ موقع پر عمارہ پیچھے سٹور روم میں کپڑے بدلنے گئی سٹور روم
کا دروازہ نہیں تھا اس لیے عمارہ نے بلب آن نہیں کیا قمیض اتار کر ایک طرف رکھی ہی
تھی کہ اچانک اسکا نندوئی کمرے میں داخل ہوا وہ ہڑبڑا کر رہ گئی اس اچانک آمد نے
جیسے اسکے اوسان ہی خطا کردیئے دوسری طرف عمارہ کے نندوئی کا بھی یہی حال تھا وہ
چند ثانیے مبہوت کھڑا رہا اس سے پہلے کہ عمارہ سنبھلتی اس نے آگے بڑھ کر عمارہ کی
گردن کے پیچھے ہاتھ ڈال کر بالوں سے پکڑا گردن پر بوسہ دیا ساتھ ہی اسکی گال ہر
اپنے ہونٹ رکھ دیئے عمارہ نے جھٹکے سے اس سے اپنا آپ چھڑایا اور قمیض اٹھا کر
پہننے لگی اتنی دیر میں اسکا نندوئی بھی تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا
جب عمارہ دوبارہ حال میں آئی تو اس کے اوسان خطا تھے وہ قطعی اجنبیت سے سب پر
نظریں دوڑا رہی رھی جیسے اسے اپنے چور کی تلاش ہو کہیں بھی کوئی غیر معمولی بات نہ
دیکھ کر وہ طمانیت سے ایک طرف صوفے ہر بیٹھ گئی اسکی آنکھیں بند تھیں اور وہی منظر
اس کی نظروں میں بار بار گھوم رہا تھا جو چند لمحے پہلے اسکے ساتھ پیش آیا تھا اسکے
خاوند تو کلین شیو تھے البتہ کچھ دیر پہلے اپنے گالوں پر کسی اجنبی کی مونچھوں کی
چبھن اب اسے بھلی محسوس ہو رہی تھی عمارہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ اپنی گردن اور
گال پر پھیرا وقت گزرتا رہا اور وہ کسی اجنبی کے لمس کی پیاسی ہوتی چلی گئی اسے رہ
رہ کر وہ منظر یاد آتا مونچھ کی وہ چبھن اسے کہیں تسکین نہ لینے دیتی جہاں وہ لوگ
پہلے رہائش پزیر تھے چھت پر جانے کا موقع بہت کم ملتا البتہ اب وہ نئے مکان میں
شفٹ ہو گئے جہاں وہ اکثر چھت ہر ٹہلنے کی غرض سے چلی جاتی یہیں سے اسکی زندگی کا
نیا رخ شروع ہوا ہر مرد کے اندر ایک بھیڑیا چپھا ہوتا ہے اور ہر عورت کے اندر ایک
طوائف بات صرف اس طوائف کو تلاشنے کی ہے آصف عمارہ کا پڑوسی تھا جو ٹرانسپورٹ کا
کاروبار کرتا تھا چھت پر ٹہلتے ٹہلتے کبھی کبھار عمارہ کی نظر آصف پر پڑتی اسکی
مونچھیں دیکھ کر غیر ارادی اپنی گردن پر ہاتھ پھیر دیتی آصف شاید گھر میں کسی کے
سامنے سگریٹ نہیں پیتا تھا آصف شاید گھر میں کسی کے سامنے سگریٹ نہیں پیتا تھا
کیونکہ وہ اکثر و بیشتر تھوڑی دیر کے لیے چھت پر آتا سگریٹ ختم کرکے واپس نیچے چلا
جاتا اکثر ایسا بھی ہوتا دونوں کی نظریں چار ہوتیں اور دونوں ہی ہلکی سی مسکراہٹ
کے بعد ادھر ادھر مشغول ہو جاتے آصف اور عمارہ کے گھروں کی چھت ساتھ ملتی تھیں جن
کے درمیان صرف ایک چار انچ کی دیوار حائل تھی ایک دن جب عمارہ نے آصف کی طرف دیکھا
تو آصف نے بھی دیکھنے کے بعد اپنی نظریں عمارہ پر گاڑھ دیں وہ کافی وقت ایک دوسرے
کو دیکھتے رہے پھر دونوں ہی مسکرا دیے عمارہ تو اچانک نیچے بیٹھ گئی البتہ آصف
اسکے بلکل قریب دیوار کی دوسری طرف آ گیا پڑوسی ہونے کے ناطے نام تو وہ پہلے ہی
ایک دوسرے کے جانتے تھے آصف نے عمارہ کو کافی آوازیں دیں لیکن عمارہ اپنی جگہ سے
نہ اٹھ سکی اس سے اگلے دن آصف اسکے قریب آ گیا اور پوچھنے لگا کل میں نے تمہیں
اتنی آوازیں دیں تھیں مجھے جواب کیوں نہیں دیا عمارہ شرما کر رہ گئی کچھ نہیں ایسی
تو کوئی بات نہیں وہ شرماتے شرماتے بولی یہاں سے انکی یہ دوریاں نزدیکیوں میں
بدلتی گئیں یہ ایک چاند رات تھی جب آصف نے اسے گلی میں آنے کا اشارہ کیا اور کہا
میں تمہیں پیار کرنا چاہتا ہوں اسکے بدلے میں تمہیں دس ہزار روپے بھی دوں گا عمارہ
کو پہلے تو کچھ سمجھ نہ آئی پھر غصہ بھی آیا لیکن کچھ سوچ کر اس نے حامی بھر لی
اور کہا ٹھیک ہے گلی میں آو دراصل وہ اپنے لیے ایک سوٹ خریدنا چاہتی تھی عید کی
شاپنگ تو وہ پہلے ہی کرچکے تھے لیکن بعد میں اسے ایک سوٹ بہت پسند آیا تھا اور وہ
اس خوف سے اسے ہر حال میں خریدنا چاہتی تھی یہ نہ ہو کوئی اور لے جائے اور بعد میں
وہ ہاتھ ملتی رہ جائے آصف جب گلی میں آیا تو عمارہ پہلے سے وہاں موجود تھی جیب سے
کچھ پیسے نکالتے ہوئے اس نے عمارہ کی طرف بڑھائے عمارہ ایک ہاتھ سے پیسے پکڑ رہی
تھی آصف نے اسکا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا اور انتہائی پھرتی سے اسکی گردن پر بوسہ
دے ڈالا اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں بھرے اور گردن پر بوسہ دیتے دیتے پہلے دونوں
گالوں پر بوسہ دیا پھر اسکے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ ڈالتے ہوئے اسکے ہونٹ کاٹنے لگا
اسکے ہونٹوں کی گرمی عمارہ کی روح میں اترتی چلی گئی یہ دوسرا موقع تھا جب عمارہ
نے اپنی گردن پر مونچھوں کی چبھن محسوس کی وہ جلدی سے پلٹی اور گھر میں گھس گئی
عید کا پورا دن اس نے جیسے پاگلوں کی طرح گزارا وہ جب بھی ان مونچھوں کی چبھن کو محسوس
کرتی اس کا لوں لوں کھڑا ہو جاتا اور عید کے چوتھے دن ہی اسکی برداشت جواب دے گئی
وہ چھت پر چڑھ کر آصف کا انتظار کرنے لگی جیسے ہی آصف اسے چھت پر آتا دکھائی دیا
وہ دیوار کے ساتھ لگ کر اسکی طرف دیکھنے لگی آپ یہاں آہیں ہماری چھت پر اس نے آصف
کو ہلکے سے آواز دی اور خود نیچے چلی گئی جب واپس آئی تو اسکے ہاتھ میں پیک شدہ
ایک نیا سوٹ تھا جبکہ آصف انکی چھت پر بنے چھوٹے سے کمرے کی دہلیز پر کھڑا تھا یہ
سوٹ میں لائی تھی آپکی طرف سے اپنے لیے اس نے آصف کو سوٹ دکھاتے ہوئے مسکرا کر کہا
ہاں بہت پیارا ہے لیکن پہنا تو تم نے ہے نہیں ابھی تک ابھی پہن کر دکھاوں۔ وہ یہ
کہہ کر اسکے جسم کو چھوتی ہوئی چھوٹے کمرے میں گھسی اور آصف بھی ساتھ ہی اندر چلا
گیا وہ ہنسی نہیں ناں آپ تو باہر جائیں پہلے نہیں نہیں میں آنکھیں بند کرتا ہوں تم
یہیں پہن لو وہ پھر ہنسی پکا آنکھیں کھولو گے تو نہیں پکا ۔۔ آصف نے آنکھیں بند
کرتے ہوئے کہا عمارہ نے جلدی سے قمیض اتاری اور اس نئے سوٹ کی پیکنگ کھولنے
لگی۔آصف میں نے قمیض اتاری ہوئی ہے آنکھیں نہیں کھولنا۔۔ اس سے پہلے کہ عمارہ قیمض
کو اپنی آستینوں پر چڑھاتی آصف نے آنکھیں کھول دیں عمارہ جو اسی کی طرف دیکھ رہی تھی
خود کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہنے لگی آپ نے کیوں دیکھ لیا مجھے میں
تمہیں دیکھے بنا نہیں رہ سکتا میں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں میں تمہارے اندر
سمونا چاہتا ہوں آصف نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا اسے اپنے
سینے کے ساتھ لگایا اور اپنا منہ عمارہ کی گردن پر ٹکا دیا آصف کا ایک ہاتھ عمارہ
کی کمر پر تھا دوسرا ہاتھ اسکے بالوں میں ڈالا گردن پر پیار کرتے کرتے اسکی چھاتی
پر اپنی زبان پھیرنے لگا آصف کی مونچھ عمارہ کے تن بدن میں لگی آگ کو بھڑکا رہی
تھی اسی چبھن کی تو وہ پیاسی تھی آصف کی قمیض کا اوپری بٹن کھلا ہوا تھے جس سے
اسکی چھاتی کے کچھ بال نظر آرہے تھے عمارہ نے اس کھلے بٹن سے آصف کی چھاتی پر ہاتھ
پھیرا آصف نے جلدی سے باقی بٹن کھول کر قمیض اتار پھینکی آصف نے عمارہ کو بھرپور
کلاواہ مارا پیچھے سے بریزیر کی ہک کھولی اور اسے اپنے ساتھ بھنچ لیا اب وہ اسے
پاگلوں کی طرح چوم چاٹ رہا تھا کبھی اسکے پستان چوستا کبھی نیچے ہو کر پیٹ پر زبان
پھیرتا جبکہ عمارہ نشے میں چور اسکی ہر ہر حرکت کو اپنی روح کے اندر سمو رہی تھی
اب کی بار آصف اسکے پیٹ پر زبان پھیرتے ہوئے بیٹھتا چلا گیا ناف تک پہنچتے پہنچتے
اس نے عمارہ کی شلوار نیچے کی طرف سرکائی جس پر عمارہ نے ہلکا سا بھی احتجاج نہ
کیا آصف نے جیسے ہی اسکی گیلی ہوتی شبابی پر زبان رکھی وہ جھر جھری لے کر رہ گئی
یہ پہلا موقع تھا جب کسی اجنبی نے وہاں اپنی زبان رکھی تھی جہاں تک ممکن ہو سکتا
آصف اسکے اندر زبان ڈال کر اپنی زبان کو داہیں باہیں اور نیچے تیز تیز حرکت دے رہا
تھا عمارہ کو اپنا آپ نچڑتا محسوس ہوا وہ نیچے جھکی آصف کو بہت کمزور ہاتھوں سے
اوپر اٹھانے کی کوشش کی آصف اوپر اٹھا عمارہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی شلوار تک لے گیا
عمارہ نے آصف کا ہاتھ میں پکڑ کر محسوس کیا یہ اسکے خاوند کی نسبت بڑا بھی تھا اور
موٹا بھی زیادہ تھا اب کی بار آصف نے اپنا ازاربند کھول کر شلوار نیچے گرا دی اور
عمارہ کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے اسکے ہونٹوں کو کاٹنا شروع کردیا عمارہ ہولے ہولے
سے سسک رہی تھی آصف کا نکلتا ہوا لیس دار مادہ جب اسکے ہاتھ پر لگا تو اس نے اسی
پر مل کر پھیلا دیا آصف نے عمارہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسکے ہونٹ چھوڑے اسے
نیچے کی طرف دبایا عمارہ تھوڑا سا نیچے ہوئی اور آصف کی چھاتی پر پیار دینے لگی اب
کی بار آصف نے اسے مزید سختی سے دبایا تاکہ وہ نیچے بیٹھ کر اسکا چاٹ سکے عمارہ
نیچے کو جھک تو گئی لیکن آصف کی ناف تک پہنچتے پہنچتے ایک دم گھوم گئی عمارہ کی
دوسری طرف چارپائی پڑی تھی جس کے اوپر بستر اور دوسرا سامان ایک چادر میں ڈھکا پڑا
تھا جوکہ کافی اونچائی تک چلا گیا تھا عمارہ کے بھاری چوتڑ آصف کے سامنے تھے آصف
نے اپنا لیس دار مادہ چھوڑتا اکڑو عمارہ کی گل گل گلاب ہوتی گلابو کے اوپر ٹکایا
اور عمارہ کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر انتہائی آہستگی سے اسے اپنی طرف کھینچنا
شروع کیا وہ جیسے جیسے عمارہ کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا عمارہ کی پنکھڑیاں چرتی
ہوئی آصف کے شباب کو اپنے اندر جگہ دیے جا رہی تھیں حتی کے آصف کا پورے کے پورا
اندر تک چلا گیا دونوں کے بدن فضا میں گرمی اور ہوس سے بھرپور مشک بکھیر رہے تھے
وہیں ان کے جوبن اپنی اپنی گرمی ایک دوسرے کے اوپر انڈیل رہے تھے آصف نے پورا اندر
ڈال لینے کے بعد اسے کچھ دیر وہیں چھوڑا پھر اسی آہستگی کے ساتھ واپس باہر نکالا جس
آہستگی سے اندر ڈالا تھا عمارہ نے اپنا جسم سر سے اونچی ہوتی سامان سے لدی چارپائی
پر بلکل ڈھیلا چھوڑ رکھا تھا اب کی بار آصف نے اپنا ہاتھ میں پکڑ اسکی پنکھڑیوں کے
اوپر مہکتے دانے پر گھمایا اور بجلی کی سی تیزی سے پورے کا پورا اندر گھسیڑ دیا
عمارہ اس کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھی جس آہستگی کے ساتھ آصف نے ایک بار اندر
باہر کیا تھا عمارہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی اگلی بار یہ شدید جھٹکے میں
اندر آئے گا بے ساختہ اسکے منہ سے چیخ بلند ہوئی آصف نے عمارہ کو بلکل بھی موقع
نہیں دیا کہ وہ اپنے جسم کو سکیڑ کر سخت کر سکے تاکہ اسے جھٹکوں کی شدت سہنے میں
آسانی ہو اسی اثنا میں آصف نے عمارہ کے بالوں کو زور سے پکڑا اور اسی شدت سے اسے
آگے پیچھے کھینچنے لگا جتنی شدت سے اس نے جھٹکا مارا تھا عمارہ لقکھ کوشش کے
باوجود بھی اپنے وجود پر کنٹرول نہیں حاصل کر پارہی تھی کیونکہ ہر جھٹکا پہلے کی
نسبت شدید تر ہوتا عمارہ سے صرف اتنا ہو پایا کہ اس نے سامان کے اوپر چادر میں
اپنی مٹھیاں بھنچ لیں اسے خوف بھی تھا اور کوشش کر رہی تھی اسکی آواز اتنی بلند نہ
ہو کہ اڑوس پڑوس میں کسی اور کے کانوں سے جا ٹکرائے پھر ایک آخری شدید تر جھٹکےکے
بعد اسکے جسم کے اوپر مزید جھٹکے اچانک بند ہو گئے آصف نے اسے اپنے پورے زور کے
ساتھ دبا لیا تھا اور اب کی بار اسکے اندر جھٹکے لگ رہے تھے آصف کا نکلتا ہوا سارا
ابال اسکی اوری کی دیوار پر لگتا جس سے اسے اپنے اندر جھٹکے محسوس ہو رہے تھے اور
اس کے ساتھ ہی وہ بھی بلکل نچڑ کر رہ گئی عمارہ نے اپنا جسم بلکل ڈھیلا چھوڑ دیا
اپنے بازو نیچے کی طرف لڑھکا دیے اور ایک لمبی آہ بھر کر زور زور سے سانس لینے
لگی۔ اب عمارہ کے اپنے خاوند سے تین بیٹے ہیں اور آصف کی اس محبت کی نشانی ایک
بیٹی ہے
چائے والا
یہ ہلکی ٹھنڈ ی ایک شام
تھی ۔۔دارالحکومت کے غریب سے علاقے میں راشد اپنے چائے والی دکان پر کھڑا تھا
۔۔راشد اسی شہر میں پیدا ہوا تھا ۔کافی عرصے پہلے اس کی فیملی سرحد کے ایک شہرسے
یہاں شفٹ ہوئے تھے ۔۔۔اس سے پہلے یہ اسٹال اس کے والد چلاتے تھے ۔۔اور اب یہ کام
اس کے ذمے داری تھا۔۔ اسٹال چھوٹا سا ہے ۔۔اندر اور باہر کرسیاں اور ٹیبل رکھے
ہوئے ہیں ۔۔۔سامنے ہی اتواربازار کا مشہور گراؤنڈ ہے ۔۔۔۔۔جہاں اوپر کی طرف ایک
پینا فلیکس بورڈ لگا ہوا ہے ۔۔
روزانہ صبح آ کر راشد اپنے اسٹال کھولتا اور محنت
مزودوری کرنے والوں سے لے کر اچھی جاب کرنے والوں سب کو اچھی سی چائے پلاتا۔۔۔۔کام
کے لئے اس نے ایک دو لڑکے رکھے ہوئے تھے ۔۔جو پورا دن اس کی مدد بھی کرتے اور
دوسرے کام بھی کرتے ۔۔۔
آج اتوار کا دن تھا ۔۔سامنے اتوار بازار لگا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔اور خواتین کی اک بڑی تعداد کا ہجوم ہے ۔۔۔مختلف چیزوں کو دیکھتی
ہوئی۔۔۔۔کچھ دکاندار سے بھاؤ تاؤ کرتی ہوئی , کوئی بھاری بھرکم شاپرز اٹھائے ہوئے
اور کچھ آس پاس لگے سستے مگر چٹپٹے اور مزیدار ٹھیلوں کے پاس آ کر منہ کے ذائقہ
چینج کر رہی تھی ۔ان میں ہر عمر کی خواتین شامل تھیں ۔۔شوخ اور چنچل لڑکیوں سے لے
کر سنجیدہ اور عمر رسیدہ خواتین تک۔۔۔۔
راشد اسٹال کے سامنے کھڑا چائے بنا رہا تھا ۔۔۔۔ایک ہاتھ
میں چائے کی چھانی سے چائے کو ہلاتا اور چمچے سے اس کو اٹھا تا ہوا دھار بنا رہا
تھا۔۔۔۔۔چائے کی مزیدار سے خوشبو آس پاس کے ماحول کو معطر کر رہی تھی۔۔ آس پاس سے
گزرنے والے اس ہلکی ٹھنڈ والی شام میں اس کے پاس آتے اور اپنے جسم میں گرمی دوڑاتے
۔۔۔۔۔۔۔البتہ اتوار بازار والے دن چائے کی شوقین خواتین بھی آتی ۔۔۔اور چائے پینے
کے ساتھ ساتھ خوش گپیاں بھی لگاتیں ۔۔۔۔
یہ اتوار کی ایسی ہی شام تھی ۔۔۔جب انہیں خواتین میں سے
کچھ چائے پینے آئیں ۔۔۔اور چائے کے ساتھ ساتھ سیلفی بھی لے ڈالی ۔۔۔۔رات گئے تک یہ
سیلفی سوشل میڈیا پر پھیلنے لگی ۔۔۔کچھ شئیرنگ کے بعدخاتوں کی تصویر منظر عام سے
ہٹتی گئی ۔۔اور اس کی جگہ چائے والے کی تصویر پھیلتی رہی ۔۔۔۔۔۔نیلی آنکھوں والے
اس پٹھان نوجوان کی تصویر جنگل میں آگ کی طر ح پھیلی کہ قریبی ملک کے میڈیا نے بھی
اس کی تصویر کو اپنی نیوز میں لگانا شروع کردیا۔۔۔۔کوئی اسے ٹام کروز کا ہمشکل تو
کوئی اسے ہاٹ ترین نوجوان کاخطاب دے رہا تھا۔۔۔۔۔اور ان سب سے بے خبر راشد اپنی
روزانہ کی مصروفیات میں مگن ۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر چائے والے کی تصویر پھیلنے کے بعد اس کے
اسٹال کے آ س پاس کے بھی کافی لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور شوق سے چائے پینے کے
ساتھ سیلفی بھی بناتے ۔۔۔راشد ان سب سے بےخبر اپنی بڑھتی ہوئی انکم سے خوش تھا۔۔۔
راشد کی خوبصورتی دیکھ کر جیا نامی ایک یونیورسٹی
اسٹوڈنٹ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔۔جیا پارٹ ٹائم ایک چینل پر فوٹو گرافر کابھی کام
کرتی تھی ۔۔۔اس نے اس چائے والے کوڈھونڈے کا بیڑ ا اٹھایا ۔۔۔اور ڈھونڈتے ہوئے
بالاخر اس کے اسٹال تک پہنچ گئی ۔۔۔۔۔۔راشد کے قریب آ کر اس نے اپنا تعار ف کروایا
۔۔اور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے بارے میں بتایا ۔جو خود بے خبر تھا۔۔۔۔۔جیا نے
اس سے بات کرتے ہوئے سیلفی لی ۔۔اور شام کو ہی اپنے چینل پر ایک چھوٹی سی رپورٹ
بنا کر بھیج دی ۔۔۔۔۔۔اگلے دن چائے والے کے اسٹال پر کافی رش لگا رہا ۔۔۔۔مختلف
نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اس کے اسٹال پر پہنچے اور چائے کے ساتھ بے شمار سیلفیاں
بنائی ۔۔۔کچھ چینل والے بھی پہنچے اور انٹرویو لینے لگے۔
اگلے دنوں میں بی بی سی کی رپورٹ نے بھی اسے جگہ دی
۔۔۔اور ہاٹ ترین نوجوان کا خطاب دے ڈالا جس نے سوشل میڈیا کو ہلا ڈالا تھا۔۔۔
راشد کی سوشل میڈیا نے فیس بک کی شئیرنگ اور ٹوئٹر پر
ایسے قبضہ جمایا کہ پاک انڈی جنگ میں اپنے مصالحوں کے رنگ بھرنے والے خود ہی ہٹتے
چلے گئے ۔۔۔۔بی بی سی نے بھی اسے امن کی علامت قرا ر دیا۔۔۔۔
راشد اپنی اس بڑھتی ہوئی مقبولیت سے بہت خوش تھا۔۔اسے
اندازہ نہیں تھا کہ یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا۔۔۔مشہور ہونے کے بعد کچھ اور ٹی وی
چینل والے اس کے پاس پہنچے اورانٹر ویوز کئے ۔۔۔۔۔اس کے پاس سوشل میڈیا تو دور ،
چھوٹا سا موبائل بھی نہیں تھا۔۔جہاں وہ اپنی ایڈٹ شدہ تصویر یں دیکھتا۔۔۔جیا اس کے
پاس کچھ اور مرتبہ آئی اور اسے اس کی پھیلتی ہوئی تصویریں دکھانے لگی۔۔۔۔۔۔۔اس
نےایف بی پر اس کا ایک پیج بھی بنایا ۔۔۔کیونکہ آلریڈی کافی فیک پیجز اس کے نام سے
بننے لگے تھے ۔۔۔اور اسی طرح جیا نے اسے بتایا کہ کل اسے ایک مارننگ شو میں جانا
ہے ۔۔۔ندا یاسر نامی ایک خوبصورت خاتون یہ شو ہوسٹ کر رہی تھی ۔۔۔اور اسی نے ہی
جیا سے راشد کو بلانے کا کہا تھا۔۔۔۔۔راشد کچھ پریشان تھا ۔۔وہ ٹی وی تو کیاکبھی
موبائل ویڈیو بھی نہیں آیا تھا۔۔۔اس نے جیا سے مدد کرنے کا کہا ۔۔۔جیا نے جلد ہی
ہامی بھر لی ۔۔۔۔راشد نے رات کو اپنا اسٹال بند کیا ۔۔اور جیا کے ساتھ چل پڑا
۔۔۔۔جیا اپنی کار لے کر آئی تھی ۔۔۔۔۔۔راشد کو بٹھانے کے بعد وہ اسٹوڈیو کی طرف چل
پڑی ۔۔راستے میں وہ راشد سے پرسنل سوال کر نے پوچھنے لگی۔۔۔۔راشد اپنی ازلی
معصومیت سے جواب دے رہا تھا۔۔۔۔اس انگلش تو کیا اردو میں بھی روانی نہیں تھی ۔۔۔وہ
اپنے گلابی لہجے میں جواب دیتا رہا ۔۔۔۔۔سفر جلد ہی ختم ہو ا تھا۔۔۔
اسٹوڈیو میں داخل ہوئے تھے ۔۔۔تو سب لوگ راشد کو ہی دیکھ
رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔راشد مزید کنفیوژ ہو تا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔جیا اسے لے کر اندر چلتی
گئی ۔۔۔۔اور ایک ڈریسنگ روم میں پہنچی جہاں پر ندایاسر اپنا میک اپ کرواتی ہوئی اس
کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔جیا کے آنے پر اس نے آرٹسٹ کو رکنے کا اشار ہ کیا
۔۔اوراٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔راشد اپنی نیلی آنکھوں کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا
۔۔ایک لمحے کے لئے تو ند ا یاسر بھی ششدر رہ گئی ۔۔۔۔نیلی آنکھوں میں بے پناہ چمک
تھی ۔۔۔جو قریب آنےوالے کو حصار میں لے لیتی۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس کے جسم سے اٹھنے والا
مقناطیسیت کا ایک دائرہ تھا۔۔۔جو آس پاس والوں کو لپیٹ کر اپنے قابو میں
کرلیتا۔۔۔۔حرا نے ارشد سے تعارف کیا ۔۔اور ہلکی پھلکی بات چیت شروع کر دی ۔۔۔۔وہ
اسے بتانے جا رہی تھی کہ وہ اسے ایک مارننگ شو میں شامل کرنے جا رہی ہے ۔۔جہاں سے
وہ اسے مزید اونچائیاں پر پہنچا سکتی ہے ۔۔۔۔معصوم نظر آنے والاراشد اس کی کرم
نوازی کا احسان مند ہو رہا تھا۔۔۔۔۔اور حقیقت میں ندا یاسر کو بھی اس سے کافی
مقبولیت ملنے والی تھی ۔۔۔۔سوشل میڈیا کے اس راجہ کو وہ سب سے پہلے مارننگ شو میں
انوائٹ کر رہی تھی ۔۔۔۔
راشد کا میک اپ شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ایک ٹیبل پر لیٹا
ہوا راشد اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا ۔۔جس نے ایک رات میں اسے اتنا مشہور کر دیا
تھا۔۔۔۔لیزر ٹریٹمنٹ کے بعد اب اس پر میک اپ شرو ع تھا۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں راشد ایک
خوبرہ شہزادہ بن چکا تھا ۔۔۔۔۔۔گوری رنگ پر نیلی آنکھیں مزید قاتل ہوچکی تھیں
۔۔۔۔۔گہری بھنویں اور چہرے کی مخصوص بناوٹ نے اسے ایشیاء کا ٹام کروز بنادیا
تھا۔۔۔۔۔
شو کی ریکارڈنگ شروع تھی ۔۔جیا اس کے ساتھ تھی ۔۔وہ اسے
ہر اسٹیپ کے بارے میں پہلے سے گائیڈ کرتی جا رہی تھی ۔۔۔۔ندا یاسر کی بھی نظریں اس
پر جمی ہوئی تھیں۔شو سے پہلے اس نےجیا کو کسی کام سے بھیج دیا تھا۔۔۔
۔شو شروع ہو
چکا تھا۔۔۔سامنے بہت سے مہمان خواتین بھی تھیں ۔۔۔۔اسے شیروانی پہنا کر ایک صوفے
پر بٹھا گیا۔۔۔ایک طرف ندا یاسر اور دوسری طرف اسے تیار کرنے والا میک آپ آرٹسٹ
بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں ماڈلنگ شروع ہوئی ۔۔...یہ ایک برائیڈل ٹائپ فوٹو
سیشن تھا ۔۔جس میں ایک تیار دلہن اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے تصویر کھنچوانے
لگی۔۔۔۔۔راشد کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ ایک الڑا ماڈرن ماڈل اس کے برابر میں
کھڑی تھی ۔۔۔اس کی عمر اٹھا رہ سال تھی ۔۔مگر کام اور مصروفیت میں وہ لڑکی ذات سے
دور ہی رہا تھا۔۔۔۔اور اب ملی تو ہر کوئی حد سےزیادہ خوبصورت اور پرکشش تھی ۔راشد
خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔مگر اس کے اندر کی سنسنی بڑھتی جا رہی تھی
۔۔۔
کچھ دیر بعد اسے دوبارہ میک روم میں لے جایا گیا۔۔۔اب کی
باروہ پینٹ کوٹ میں تھا۔۔۔بلیو کلر کا یہ پینٹ کوٹ اس پر بےحد سوٹ کر رہا تھا۔۔اور
وہ پہلے سے زیادہ پرکشش نظر آنے لگا۔۔۔
اب اس کے برابر میں ساڑھی پہنے دو خواتین آئی
تھیں۔۔۔فیروزی کلر اور ڈارک بلو کلر کی ساڑھی پہنے ہوئے دونوں خواتین بہت خوبصورت
تھیں ۔۔۔۔۔۔۔فیروزی رنگ کی ساڑھی والے کے سینےکے ابھار نے راشد کو بہت ہی ہوٹ کر
دیا تھا۔۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔۔۔۔ندا یاسر نے اس کی بے چینی
کو محسوس کر لیا تھا۔۔۔۔شو کے ختم ہونےکے بعد ندا یاسر اسے اوپر بنے ہوئے اپنے آفس
میں لے گئی ۔۔یہ آفس اس کا پرسنل تھا ۔۔جہاں ایک طرف چھوٹا ڈریسنگ ٹیبل ، میز ،
صوفہ سیٹ ، کرسی کے ساتھ لیپ ٹاپ بھی رکھا ہوا تھا۔۔۔
ندا نے راشد سے اس کی بے چینی کی وجہ پوچھی مگر وہ
ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہی رہ گیا۔۔۔۔
نہیں میڈم ایسی بات نہیں ہے ۔۔بس ان چیزوں کا عادی نہیں
ہو ۔۔اس لئے ۔۔۔۔۔۔راشد کا منہ اب بھی خشک تھا۔۔
ندا کچھ سمجھی اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے اسے صوفے پر
بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود میز کے اس طرف آ کر کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔
گھومتی ہوئی کرسی پر بیٹھے اس نے فون اٹھا کر چائے کا
آرڈر دینے لگی ۔آر ڈر دیتے ہوئے کچھ خیال آیا۔۔۔پھر خود ہی ہنسنے لگی ۔۔
راشد حیران ہو کر دیکھ رہا تھا کہ ندا یاسر بولی ۔۔یار
تمہار ے ہوتے ہوئے میں چائے منگوا رہی ہوں ۔۔تم سے اچھی کوئی چائے کون تیار کرتا
ہوگا۔
میڈم آپ لوگوں کا کچن کیدھر ہے ۔۔۔۔۔ہم ابی آپ کے لئے
چائے تیار کرے گا۔۔۔راشد جلدی سے کھڑا ہونے لگا۔
نہیں نہیں ۔۔اب تم اسٹار بننے جا رہے ہو ۔۔۔۔ماڈلنگ لائن
میں تو قدم رکھ ہی لیا ہے ۔۔۔اب یہ چائے وائے چھوڑو ۔۔۔اور آگے کا سوچو۔ ندا یاسر
نے اسے مذاقا ڈانٹتے ہوئے کہا تو راشد بیٹھ گیا۔
وہ ابھی بھی ندا یاسر کو دیکھ رہا تھا۔۔جو لائٹ بلیو شرٹ
اور وائٹ ٹراوزر میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ٹراؤزر کچھ فٹ تھا ۔۔اور کرسی پر
بیٹھنے کے بعد ٹانگ پر جو ٹانگ رکھی تو سائیڈ سے خوبصورت رانیں اور واضح ہو گئیں۔۔
ندا یاسر نے اسے ایسے دیکھتے ہوئے دیکھا تو پوچھنے لگی
۔۔۔۔کیا ہوا ۔۔۔۔پہلی بار دیکھ رہے ہو کیا ۔۔
نہیں میڈ م ۔۔۔۔آپ کا شادی ہو گیا ہے کیا ۔۔۔؟۔ راشد نے
پوچھا
تمہار ا کیاخیال ہے لڑکے ۔۔۔۔۔تم بتاؤ ۔۔۔۔۔ندا نے
شرارتی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔(راشد ابھی صرف اٹھارہ سال کا ہی تھا)۔
میڈم ہم کیا بتا سکتا ہے ۔۔۔۔۔ہماری توسوچ بی نہیں تھا
کہ ہم آپ سے کبی ملتا۔۔۔راشد کی گلابی اردو جاری تھی۔
ندا یاسر اس چارمنگ پرنس کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔جو انتہا
کا معصوم تھا۔۔اور شریف بھی ۔۔مگرا س کی بے چینی کیسی تھی ۔۔یہ ابھی تک ندا یاسر
کو نہیں پتا تھا۔
کچھ ہی دیر میں چائے پہنچ گئی ۔۔۔۔۔۔راشد نے منہ بسورتے
ہوئے چائے دیکھی ۔۔۔میڈم اس سے اچھا تو آپ ہم کو بولتا ۔۔۔ہم آپ کو کڑک پتی چائے
پلاتا۔
ندایاسر نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔خان یہاں ایسی
ہی چائے ہوتی ہے ۔۔۔ہر کوئی تمہارے جیسے تو نہیں ہوتا۔
ندا چائے پیتے ہوئے سوچ میں گم تھی ۔۔۔۔خان یہاں سے جا
نے کے بعد کہاں جاؤ گے ۔۔۔۔؟
میڈم ہمارا تو وہی چائے کا ٹھیلہ ہے ۔۔۔۔۔یہاں سے بس پکڑ
کر سیدھا وہیں جائے گا۔۔۔
اگر تم آج کا دن میرے ساتھ گزار لو تو کوئی حرج تو نہیں
ہے ۔۔ندا نے پھر پوچھا ۔
نہیں میڈم ایسا کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔آپ جب چاہو ہم ادھر
آپ کے پاس رہ لے گا۔۔۔راشد نے جلدی سے کہا۔
بےوقوف ادھر نہیں ۔۔۔۔ چلو چلتے ہیں ۔۔باہر کھانا کھاتے
ہیں۔۔۔۔۔۔۔ندا نے جیا کو میسج کیا کہ وہ راشد کو اپنے گھر لے جارہی ہے ۔۔۔وہ فارغ
ہو کر وہیں آ جائے ۔۔
ندا نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور باہر نکل آئی ۔۔۔خوبرو
راشد اس کے پیچھے پیچھے تھا۔۔
ندا راشد کو لئے اپنے گھر پہنچی ۔شوہر اور بچے اپنے دادی
کے گھر تھے ۔۔اور گھر میں وہ اکیلی تھی ۔۔راستے سے کھانا پک کر لیا تھا۔۔۔۔ندا گھر
میں داخل ہوئی تو راشد کافی حیران تھا۔۔۔ایسا شاندار گھر اس نے کبھی خوابوں میں
بھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔گاڑی گیراج میں کھڑی ہوئی تو۔۔۔وہ حیران پریشان نیچے اترا
۔۔۔۔چاروں طرف نظریں گھماتا دیکھ کر ندا یاسر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اندر بڑھ گئی
۔۔۔
ڈائننگ ٹیبل پر کھا نا رکھا ۔۔۔۔اور کھانے پر بیٹھ گئے
۔۔کھانا مزے کا تھا ۔۔اور راشد کے لئے بہت ہی مزے کا تھا۔۔۔اسے تو ہوٹل کے ایک ہی
طرز کے کھانےکی عادت تھی ۔۔جو کبھی باسی اور کبھی وہ چائے کے ساتھ کیک رس لے کر
پیٹ بھر لیتا۔
کھانا کے بعد راشد نے ہاتھ مسلے اور پوچھنے لگے ۔۔میڈم
آپ کے لئے چائے بنائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندا یاسر نے اسے دیکھا جو اپنے ہاتھ کی چائے پلانے کے
لئے بے چین ہوئے جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔چلو ٹھیک ہے ۔۔مگر مجھے بھی چائے بنانا سکھاؤ
۔۔۔اپنی جیسی ۔۔جیسے تم اپنے اسٹال پر بناتے ہو۔۔
میڈم مسئلہ ہی نہی ہے ۔۔۔آپ کچن بتاؤ کدھر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔ندا اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔اور اسے لئے کچن میں پہنچی ۔۔۔
چائے کی کیٹل کو چولہے پر رکھا ۔۔۔۔اور پانی کی مقدار
پوچھنے لگی ۔۔۔۔۔راشد نے ایک کپ بتایا ۔۔ندا یاسر نے پانی ابالنے رکھ دیا۔۔۔راشد
قریب ہی تھا۔۔۔راشد نے ندا یاسر کو سائیڈ پر ہونے کاکہا اورخود ایک چمچہ اٹھا کر
آگے آگیا۔پتی کو ڈال کر وہ کھولانے لگا ۔۔۔ندا یاسر نے آگے بڑھ کر پتی کا ڈبہ
پکڑنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔اور ادھر راشد پیچھے ہٹا تھا۔۔۔۔ندا کا سینہ اس کے کندھے
اور بازو سے ٹکرایا تھا۔۔۔۔
راشد کے جسم میں وہی بے چینی شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔ندا نے
پیچھے ہٹتے ہوئے ا س سے پتی کی مقدار پوچھی کہ کتنی پتی ڈالی ہے ۔۔۔۔دو چمچے میڈم
۔۔بہت اچھی چائے بنے گا۔
راشد نے پتی کھولانےکے
بعد پیچھے مڑتے ہوئے دودھ کا پوچھا ۔۔۔۔اس کی نظریں بےاختیاری طور پر ندا یاسر کے
سینے پر پڑی تھی ۔۔۔۔جہاں موٹے اورصحت مند ممے باہر کو ابھرے ہوئے تھے ۔۔۔ندا نے
اس کی نظریں پہچان لی تھی۔۔۔۔وہ فریج کی طرف گئی ۔۔اور دودھ نکالنےلگی۔۔۔۔۔دو کپ
دودھ ڈالنے کے بعد راشد نے ایک ابالا اور دیا ۔۔۔۔۔مزیدار چائے تیار تھی ۔۔۔چائے
لئے وہ ڈرائنگ روم میں آ گئے ۔۔۔۔۔۔ندا یاسر اپنی ٹیب اٹھا لائی ۔۔۔
چائے پینے کے ساتھ ساتھ وہ راشد کو سوشل میڈیا کے بارے
میں بتانے لگی ۔۔۔ٹیب پر اپنی تصویر پر حیرت سے ہاتھ پھیرتا ہوا راشد اپنی خوش
قسمتی پر ناز کر رہا تھا۔۔۔
چائے رکھتے ہوئے راشد کھسکتا ہوا ندا یاسر کے قریب آ یا
۔۔۔۔۔ٹیب پر جھانکتے ہوئے اس کی نظریں پھر سے ندا کے سینے پر پڑی تھی ۔۔۔۔۔موٹے
اور بھاری ابھار اس کی دھڑکن کو تیز کر رہے تھے ۔۔ ۔۔جسم میں چنگاریاں بھڑکا رہے
تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے جسم سے بے تحاشہ پسینہ بہا ۔۔۔ندا نے اس کی توجہ محسوس کر لی
۔۔۔وہ کچھ آگے کو جھکتے ہوئے ۔۔اسے شئیرز اور لائک بتانےلگی ۔۔۔۔راشد نے ندا کے
سینے پر ابھرنے والی گہرائیوں کو دیکھا تو بے اختیار ہونٹوں پر زبان پھیرنے
لگا۔۔۔دونوں مموں کے درمیان بننے والی یہ کلیویج اسے بارود بنا رہی تھی ۔۔
ندا بھی آپس میں بننے والی اس اٹریکشن کو محسوس کر رہی
تھی ۔۔اسے مہکی مہکی پسینے کی بو محسوس ہوئی ۔۔۔جو اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی
۔۔۔۔راشد کے جسم سے خالص مردانہ مہک امڈ رہی تھی ۔۔۔۔جو تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی
۔۔۔ندا نے ٹیب راشد کو پکڑا یا اور تھوڑا اور قریب کھسکی تھی ۔۔۔۔راشد کی آنکھیں
پھیلیں ۔۔۔۔دل دھڑکا ۔۔۔۔جسم کانپا ۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیسی قوت ہے
جو اسے پریشان کر رہی ہے ۔۔۔۔اسے آج تک لڑکی ذات سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔۔۔اور اب
یہ قربت اسے دہلائے جا رہی تھی ۔۔۔ندا بھی اب اس سمندر میں بہنے کو تیار تھی
۔۔۔۔خان کے جسم سے اٹھتا ہوا کشش کا ایک بھنور تھا جو اسے اپنی لپیٹ میں لئے جا
رہا تھا۔۔۔کھینچے جا رہا تھا۔۔۔بلائے جا رہا تھا۔۔۔۔
قریب کھسکتی ہوئی ندا کو راشد نے دیکھا۔۔۔۔ہونٹوں پر
زبان پھیری ۔۔۔مم میڈم ۔۔۔۔۔وہ ہکلایا تھا۔
ندا کی بس ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔اس نے ٹیب پکڑے ہوئے سائیڈ
پر رکھا۔۔۔۔ہاتھ سے ہاتھ ٹکرا یا اورچنگاری نے آگ پکڑ لی۔۔۔راشد بے حد گرم ہو چکا
تھا۔۔۔اور ندا یاسر بھی کچھ کم نہیں تھی۔۔۔۔ندا نے راشد کا ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنے
سینے پر رکھا تھا۔۔۔خان کے جسم نے جھٹکا کھایا ۔۔۔۔۔ابھار بڑے اور پھولے ہوئے تھے
۔۔۔وہیں پر نرم نرم بھی تھے ۔۔وہ کسی اسفنج کی طرح دبانے لگا۔۔تبھی ندا یاسر نے
دوسرا ہاتھ اٹھاتے ہوئے دوسری سائیڈ پر رکھ دیا۔
خان کے دونوں ہاتھ دبے تھے ۔۔۔موٹے موٹے ابھار اس کے
ہاتھ کو نیچے مچل رہے تھے ۔۔۔۔۔اس کے بدن میں سنسنی دوڑ گئی ۔۔۔۔۔جو پورے بدن سے
دوڑتی ہوئی اس کے سوئے ہو ئے لن تک پہنچی اور جگانے لگی۔۔۔۔جو پہلی بار اپنی اہمیت
جتانے جا رہا تھا۔۔۔۔
خان کے ہاتھوں کا دباؤ بڑھا تھا ۔۔۔ندا یاسر کے منہ سے
گر م گرم سسکیاں نکلی ۔۔۔۔اس نے نشیلی آنکھوں سے خان کو دیکھا ۔۔۔جس کی اپنی نیلی
آنکھیں بھی کم نشیلی نہیں تھی ۔۔۔ندا نے اس کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے کھینچا تھا۔۔۔اور
خان کسی ہلکے پھلکے وجود کی طرح اس کے سینے سے آن لگا۔۔۔سینے سے سینے ٹکرا ئے تھے
۔۔۔ہونٹ سے ہونٹ ۔۔۔۔۔ایک طرف فولادی جسم ۔۔۔دوسری طر ف نرم گرم نازک سا وجود
تھا۔۔خان ہونٹ سے ہونٹ لگا کر رکا رہا ۔۔جیسے آگے سمجھ نہ آ رہی ہو ۔۔۔۔۔ندا نے اس
کے ہونٹوں پر گرفت قائم کی اور دبانے لگی ۔۔۔۔خان کو سمجھ آگئی کہ ہونٹوں کا یہ
کام ہوتا ہے ۔۔۔اس نے بھی جوابی کارووائی شروع کی ۔۔نرم نرم ہونٹ سے ہونٹ ٹکرائے
تھے ۔۔خان کافی پرجوش تھا۔۔اس کے لئے یہ سب نیا بھی تھا۔۔۔اور پر لطف بھی
تھا۔۔۔کسی سحر میں جکڑا ہوا وہ بس ڈوبا جا رہا تھا۔۔۔جہاں سے ابھرنا آسان نہیں
تھا۔
خان ندا یاسر کے اوپر جھکا ہوا ہونٹ سے ہونٹ چوم رہا
تھا۔۔۔۔اور ندایاسر صوفے کی سائیڈ پر بیٹھے بیٹھے ٹیک لگا چکی تھی۔۔۔۔اور اب نیم
دراز جیسی پوزیشن تھی ۔۔۔اور ساتھ بیٹھا خان اب پاؤں اٹھاکر اوپر کر کے پورا جھکا
ہوا تھا۔۔۔شوز اتارنے کا نہ ٹائم ،نہ خیال ۔۔۔۔۔ندا یاسر کا شادابی رنگ ۔۔۔۔بھرے
بھرے گال ۔۔بڑی سیاہ آنکھیں ۔۔۔۔اور پتلے پتلے رسیلے ہونٹ ۔۔۔۔۔ساتھ ہی گداز جسم
۔۔۔جس پر ابھار اسے چار چاند لگاتے ۔۔۔اور خان اب ان ابھار پر دبتے ہوئے ہونٹ چوسے
جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ندا نے اسے روکتےہوئے اسے زبان نکالنے کا کہا۔۔۔اور پھر
چوسنےلگی۔۔۔خان سمجھ گیا تھا۔۔اس نے فورا سے پہلی اپنی زبان ندا کے منہ میں ڈالی
۔۔اور اس کی زبان ڈھونڈنے لگا۔۔۔۔گیلی زبان ملی تھی ۔۔۔اور اب خان کی زبان کے
تعاقب میں باہر آئی ۔۔جہاں خان کے ہونٹ اسے دبوچ کر چوسنے لگا۔۔۔۔۔گرم گرم سانسیں
اور تھوک کا ٹکراؤ ہو ا تھا۔۔۔۔۔ندا یاسر کا جسم بھی بھڑکا تھا۔۔۔۔نیچے ٹانگوں کے
درمیان حرکت ہوئی تھی ۔۔۔۔کوئی لب جیسے کھلے اور بند ہوئے ۔۔۔ان کےدرمیان سفید
قطرہ باہر کو امڈا۔۔۔۔۔خان کا جسم بےحد گرم اور اسے بھی گرمائے جا رہا تھا۔۔ندا نے
خان کے کوٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بٹن تک پہنچی ۔۔۔اور بٹن کھولنے لگی۔۔کسی ڈیزائنر
کا بنا ہوا یہ کوٹ جلد ہی اترا ۔۔۔۔اس کے بعد شرٹ کا نمبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خان تیزی پکڑ چکا تھا۔۔۔۔ہونٹوں اور زبان کے بعد اب وہ
پورے چہرے پر زبان اور ہونٹ پھیر رہا تھا۔۔اورندا کی بے چینی بھی اس کے کنٹرول سے
باہر ہونے لگی ۔۔۔تبھی خان نے اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس آگے کو کھینچا
تھا۔۔۔۔ندا وزنی تھی ۔۔مگر کسی کاغذ کی طرح پھسلی تھی ۔۔خان کا نشانہ اب اس کا
سینہ تھا۔۔۔جہاں بھاری بھرکم ممے ابھرے ہوئےدعوت دے رہے تھے ۔۔وہ اس کی کمرکے گرد
ہاتھوں کا گھیرا بنا کر جھک گیا۔۔۔ہاتھوں سے شروعات کرنے والا خان اب چہرے سے اس
پر ٹوٹا تھا۔۔۔۔کپڑے کے اوپر سے ہی اس نے ہونٹ رکھے تھے ۔۔۔۔نیلے رنگ کی پتلی سی
شرٹ گیلی ہوئی ۔۔۔اور سفید کلر کی برا کو باہر دکھانے لگی۔۔خان دباتے ہوئے ہونٹ
بھی لگائے جا رہا تھا۔۔۔تبھی خان کو اپنی برہنگی کااحساس ہو ا۔۔۔۔اس کی شرٹ کب
اتری اسے پتا ہی نہ چلا تھا۔۔۔اور اب وہ شرما رہا تھا۔۔ندا نے اسے دیکھا اور دل
میں قربان جاتے ہوئے اپنے قمیض کو دیکھا جو گیلی ہوئے جا رہی تھی ۔۔۔خان کو بھی
احساس ہو ا۔۔۔اس نےحرا کی قمیض کو اٹھاتے ہوئے کھینچا تھا۔۔۔۔نچلا دامن ندا یاسر
کے نیچے ہی دبا تھا۔۔۔۔۔۔اور خان کا زور اس کی طرح شتر بے مہا ر تھا۔۔۔۔۔۔۔
چرر چرر ۔ کی آواز کے ساتھ قمیض پھٹی تھی ۔۔اور
چرگئی۔۔۔خان نے پریشان ہوتے ہوئے ندایاسر کو دیکھا ۔۔جو مسکرارہی تھی ۔۔۔خان نے
اور زور لگایا ۔۔۔اور آگے سے ایک بڑا حصہ پھٹتا گیا۔۔۔۔سفید برا سامنے آئی تھی
۔۔۔۔۔۔جس میں پھنسے ہوئے بڑے سے ابھار اپنے جلوے دکھا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔خان کی آنکھیں
چمکی تھیں ۔۔۔۔پہلی بار دودھ کی ایسی تھیلیاں جو دیکھی تھیں۔۔۔۔۔ جو اپنی طرف
بلاتی بھی ہوں ۔۔کھینچتی بھی ہوں ۔۔۔۔
خان نے آگے سے پوری قمیض پھاڑ ڈالی تھی ۔۔۔۔۔۔سفید برا
پوری نظر آ رہی تھی ۔۔۔خان نے اس پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیری
۔۔۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آیا ۔۔۔کہ یہ تالا کیسے کھولے گا۔۔۔۔۔۔اس نے برا کے دونوں کپ
پکڑتے ہوئے کھینچا۔۔۔۔۔ندا یاسر کی آہ نکلی تھی۔۔۔۔۔تالا نہیں کھلا۔۔۔۔اس سے پہلے
کہ خان جذباتی ہوتا ۔۔۔۔۔ندا نے اسے رکنے کا کہا۔۔۔اور اٹھتے ہوئے بیٹھی ۔۔۔۔خان
کی طرف کمر کی ۔اور مڑ گئی۔۔۔۔جہاں ایک زپ سی نیچے کو جارہی تھی ۔۔۔۔خان سمجھ
گیا۔۔زپ نیچی کی ۔۔۔۔۔۔قمیض کھلی تھی ۔۔۔۔یہاں ایک ہک لگی ربن آرہی تھی ۔۔۔۔۔خان
نے ہک کھولا تھا۔۔۔۔بندھے ہوئے قیدی آزاد ہوئے تھے ۔۔۔خان نے زپ تو کھول ہی لی تھی
۔۔قمیض کو ا س نے نیچے دھکیلا دیا تھا۔۔۔اور پچھلی سائیڈ سے ہی لپٹ گیا۔۔۔۔ندا
یاسر نے پیچھے مڑتے ہوئے اس شہزادے کو دیکھا تھا۔۔۔خان بہت پرجوش تھا۔۔۔جیسے کوئی
نئی دریافت کرنے جا رہا ہو۔۔۔۔پیچھے سے اس کے ہاتھ بازو کے نیچے داخل ہوئے اور
سینے پر آ کر رکے ۔۔۔۔بھاری مموں کو تھاما تھا ۔۔۔اوپر نیچے ہلایا تھا۔۔۔اور پھر
نوک جیسی نپلز پر ہاتھ رکتے ہوئے روکا۔۔۔۔ندایاسر کا چہر ہ پیچھے کی طرف تھا۔۔۔اس
نے خان کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔جو نپلز پکڑے رک سا گیا۔۔۔جیسے پوچھ رہا کہ اسی سے
دودھ پیا جا تا ہے ۔۔۔۔۔۔ندا یاسر کی آنکھوں نے بھی جواب میں ہاں کہہ دیا۔۔۔۔خان
ایکدم سے جوش میں آیا۔۔
اس نے ہاتھ کھینچے تھے ۔۔۔۔۔۔اور ندا یاسر کو سیدھے کرتے
ہوئے لٹا دیا ۔۔صوفے کی سائیڈ پر سر رکھے وہ لیٹی۔۔۔۔خان کی نظریں گورے گورے مموں
پر تھیں ۔۔۔۔۔جو دودھ سے بھرے ہوئے چھلک رہے تھے ۔۔۔۔خان نے دونوں ہاتھوں میں
تھاما۔۔۔اور ایک سائیڈ والے کی طرف منہ بڑھا دیا۔۔۔۔منہ میں بھرنے کی کوشش کی
۔۔مگر یہ مشکل تھا۔۔۔۔ممے خوب بھرے ہوئے اور موٹے تھے ۔۔۔آخر نپلز اور آس پاس کا
کچھ حصہ منہ میں دبائے ہوئے چوسنے لگا۔۔۔۔۔دودھ جیسی مہک اس کی ناک سے ٹکرائی تھی
۔۔۔۔۔اس نے دوسرے ممے پر ہاتھ کو دبایا تھا ۔۔۔زور کچھ زیادہ ہی لگا۔۔۔ندا کے منہ
سے سسکی نکلی ۔۔۔۔جیسے خان نےحیرت سے دیکھا اور دوبارہ زور دیا۔۔۔پھر سے سسکی
نکلی۔۔۔۔۔خان سمجھ گیا کہ یہ گاڑی کا ہارن ہے ہے ۔۔دباؤ تو اوپر سے آواز آتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔خان نے ہارن دباناشروع کر دیا ۔۔۔۔اور ندا جس کا ایک مما۔۔۔ خان کے منہ میں
اور دوسرا اس کے ہاتھوں میں دبا ہوا تھا۔۔۔۔مزے سے سسکنےلگی ۔۔۔۔۔اس کانچلے حصہ
پورا گیلے ہوئے جا رہا تھا۔۔۔خان کی تپش پگھلائے جا رہی تھی ۔۔۔
ندا یاسر کا اوپر بدن اب کھل چکا تھا۔۔۔گورا بدن دمک
رہاتھا ۔۔۔خان پورے جوش سے نپلز چوسے جا رہے تھے ۔۔۔۔اور ندا اس کے سر پر ہاتھ
پھیرتی ہوئی اسے تھمنے کا اشارہ کرتی ۔۔۔۔خان کا اپنا حال بھی پتلا تھا۔۔۔۔۔پینٹ
میں پھنسا ہوا لن نکلنے کو تیار تھا ۔۔۔۔پہلی مرتبہ ہی پینٹ پہنی تھی ۔۔۔اس لئے لن
بھی مشکل میں تھا۔۔۔بار بار باہر نکلنے کو زور مارتا ۔۔۔۔۔۔۔مگر قید بڑی سخت تھی
۔۔۔۔اور خان تھا کہ ہاتھ لگاتے ہوئے بھی شرما رہا تھا کہ میڈم کیا سوچے گی ۔۔۔۔۔۔۔
آخرندا نے ہی حرکت کی تھی ۔۔۔۔۔کمر پر ہاتھ پھیرتا ہوا
نیچے آیا ۔۔۔۔۔خان کا جسم کپکپا یا تھا۔۔۔اور بیلٹ کا ہک کھلا تھا۔۔۔پینٹ نیچے کو
کھسکی تھی ۔۔۔۔۔۔ندا یاسر کی آنکھوں میں شوق تھا ۔۔۔پوری دنیا کو اپنی کشش سے ہلا
دینے والا۔۔۔اس کے سامنے تھا ۔۔۔بس کپڑے اتر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔پینٹ اترتی گئی ۔بس
انڈروئیر ہی باقی تھا۔۔خان پھر سے شرمایا تھا۔۔۔۔جھجکا تھا۔۔مگر ندا کو دیکھتے
ہوئے اس نے اس کے ٹراؤزر کو دیکھا ۔۔۔۔۔جیسے اجاز ت درکار ہو ۔۔
اجازت مل گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر خان کے ہاتھ ٹراؤزر پر آ
کر رکے ۔۔۔۔۔۔ندا یاسر نے ہلکے سے کمر اٹھائی تھی ۔۔۔۔۔خان نے ہاتھ نیچے کھینچ
دیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گوری پیٹ کے نیچے گوری رانیں ۔۔۔۔۔گوشت سے پر ۔۔۔۔۔۔۔خوبصورت
اور سڈول رانیں ۔۔۔۔۔۔جن کے درمیان پھولی ہوئی سیپی تھی ۔۔۔۔۔۔خان نے حیرت سے یہ
نظارہ دیکھا ۔۔۔اور ٹراؤزر کو پاؤں سے الگ کرنے لگا۔۔۔۔۔
کھینچنے کے بعد وہ پلٹا ۔۔۔۔۔ندا یاسر کی آنکھیوں جگمگا
رہی تھی ۔۔شہوت سے ۔۔۔۔مزے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور لذت سے ۔۔گورے گال سرخ ہو نے لگے
۔۔۔سیبوں کی طرح۔۔
خان ندا سے لپٹ چکا تھا۔۔۔۔گرم گرم جسموں کا ٹکراؤ
تھا۔۔۔۔ندا یاسر کے بڑے اور بھاری ممے خان کے نیچے دبے ہوئے تھے ۔۔۔ندا نے پاؤں
صوفے پر سیدھے کر لئے ۔۔۔جن کے درمیان خان لیٹا ہوا تھا۔۔۔اس کے انڈروئیر کا ابھار
بڑا ہوتا جارہا تھا۔۔۔جس کا دباؤ ندا کی ٹانگوں کے درمیان پڑ رہا تھا۔۔۔اور چوت
مزید گیلی ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔خان ابھی بھی کافی چیزوں سے بےخبر تھا ۔۔جیسے آگے
اب کیا کرنا ہے ۔۔۔اسےکچھ پتا نہیں تھا۔۔۔۔وہ بس لپٹے اور چومے جا رہا تھا ۔۔۔۔ندا
یاسر کچھ جھلائی تھی ۔مگر پھر خان کے پیچھے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس چوتڑ پر
ہاتھ دبائے ۔۔۔۔۔۔خان تڑپا تھا ۔۔۔اوربے اختیار آگے کو گھسا۔۔۔اس نے اوپر ندا یاسر
کو دیکھا ۔۔۔۔کیا ۔۔۔۔کیوں ۔۔۔۔کس لئے ۔۔جیسے سوال اس کی آنکھوں سے عیا ں تھے
۔۔۔۔وہ بتاتی بھی تو کیا۔۔۔۔۔آخر خان کے لن نے ہی انگڑائی بھری ۔۔۔۔۔اورانڈروئیر
کو اٹھا تا گیا۔۔۔۔ندا یاسر کے چہرے پر اطمینا ن آیا ۔۔خان تو نہ سمجھا پر کسی کو
تو سمجھ آئی تھی ۔۔۔۔۔۔لن پورا اکڑتا جا رہا تھا ۔۔انڈوئیر کی حد ختم ہوئی ۔۔۔مگر
لن ابھی بھی کھلنا باقی تھا۔۔۔خان کو درد ہو ا تو اس نے انڈر وئیر کو نیچے کھسکا
۔۔۔۔لن نے بھرپور لمبائی پکڑی ۔۔۔۔اور پھیلتا گیا۔۔۔۔۔کھلتا ہوا لن سیکھا ندا یاسر
کی رانوں سے ٹکرایا تھا۔۔۔اس نے ٹانگیں اٹھا لی۔۔۔اور خان کے کندھے پر رکھ
دی۔۔۔ساتھ ہی نیچے ہاتھ بڑھا کر خا ن کا لن ڈھونڈنے لگی ۔۔۔۔۔۔جلد ہی ایک موٹا سا
گرم گرم لن اس کے ہاتھ پر لگا تھا۔۔۔سختی سے فل اکڑ ا ہوا ۔۔۔اور اچھا خاصا موٹا
تھا۔۔۔۔۔۔ندا یاسر کچھ جھجکی تھی ۔۔۔موٹائی اورلمبائی دونوں زیادہ تھیں ۔۔۔۔۔مگر
اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔اس نے لن کو پکڑے ہوئے چوت کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔اور
ہلکے سے بولی ۔۔۔
خان آرام آرام سے اندر کرنا۔۔۔۔۔۔۔
جی میڈم ۔خان تو
تابعدار ہی تھا۔۔۔وہ پاؤں پر بیٹھنے کے بعد آگے کو جھکنے لگا۔۔۔۔۔
لن چوت کے اوپر پڑا سانس لے رہا تھا۔۔۔۔خا ن نے اس
اٹھایا ااور چوت پر رکھنے لگا۔۔۔ٹوپا موٹا تھا۔۔خان نے دباؤ بڑھاتے ہوئے زور لگایا
۔۔۔
ندا یاسر کی چوت کے لب کھلے تھے ۔۔۔اور ٹوپا اندر جا
پہنچا ۔۔۔ندا یاسر کا منہ کھلا ۔آہ نکلی ۔۔۔۔اور خان کی طر ف دیکھتے ہوئے چہرہ
نیچے کو ہلایا ۔۔۔
خان سمجھ گیا کہ آگے آنے کا اشارہ تھا ۔۔۔مگر یہ بھول
گیا تھا کہ پہلے آرام سے کرنے کا بھی کہا تھا ۔۔۔
خان نے دھکا مارا تھا ۔۔اور پورا کا پورا لن اندر گھسا
دیا ۔۔۔۔ندا یاسر کے منہ سے ۔زوردار ۔ائی۔آہ ہ ہ۔۔۔اوئی۔۔۔۔نکلی تھی ۔۔جس میں درد
اور مزے کی ملاوٹ تھی ۔۔
خان کا گھوڑا کم نہیں تھا۔۔۔۔۔اور اس بھرپور دھکے نے اسے
ہلا دیا تھا۔۔خان کے لئے یہ آواز نئی تھی۔۔وہ ایکدم سے پریشان ہوا۔۔۔۔۔
ندا یاسر کے چہرے کے بھی نقش بگڑے تھے ۔۔۔۔۔۔چوت خان کے
لن کے مقابلے میں کافی تنگ تھی ۔۔مگر اناڑی خان نے پہلا ہی دھکا خطرناک مارا
تھا۔۔۔
ندا نے رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ
دیا۔۔۔
خان کو سمجھ نہیں آیا ۔۔پہلے لینے کی جلدی تھی ۔۔اور اب
چیخنے کے ساتھ روکنے کی کوشش ۔۔۔۔مڑا دا سی شے دے ۔۔۔
خان کچھ دیر رکا ۔۔۔۔اسے بھی چوت میں لن پھنسا ہوا محسوس
ہو رہا تھا ۔۔ساتھ ہی بے تحاشہ گیلا پن بھی محسوس ہو ا۔۔۔وہ ندا یاسر کو دیکھے جا
رہا تھا کہ کب حرکت کا اشارہ ملے ۔۔۔
مگر ندا یاسر دم سادھ کر لیٹی رہی تھی ۔۔۔ٹانگیں فل اٹھ
کر خان کے کندھوں پر تھیں ۔۔۔۔۔اورنیچے سے خان کا پورا لن اندر کھبا ہوا تھا
۔۔۔۔خان نے اسے دیکھتے ہوئے اشارہ مانگا۔۔۔۔۔مگر حرا کی طرف سےابھی سرخ سگنل ہی
تھا۔۔خان بے چین تھا ۔۔۔۔اندر دھکا دیتے ہوئے اسے بھی مزا آیا تھا۔۔۔۔نرمی سے چوت
کی دیواروں نے اس کے لن کا مساج کیا تھا۔۔۔خان نے تھوڑا سا لن نکال کر پھر دھکا دے
دیا ۔۔۔ندا نے پھر آہ ہ بھری سسکی لی ۔۔ اور رکنے کا اشارہ کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔مگر خان
اب کچھ سمجھنے لگا تھا ۔۔۔۔یہ درد مزے والا تھا۔۔۔۔۔اس نے کمر کو پیچھے کیا۔۔۔اور
لن باہر نکلالنے لگا۔۔۔۔۔ٹوپا ابھی نکلنے ہی والا تھا کہ حرا نے اس کے ہاتھ کو
دبایا ۔۔۔خان رک گیا۔۔اور واپس آیا ۔۔۔۔پہلےسے زیادہ تیزی سے ۔۔اورندا کی دبی دبی
کراہیں کمرے میں گونج اٹھیں۔۔۔۔۔خان کا لن ابھی نیا نیا تھا۔۔۔اور پہلی بار بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔فل
سختی سے تنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔لن کو بھی پہلی بار ہی پتا چلا تھا کہ اس کا یہ کام بھی
ہے ۔۔۔۔
خان کے دوسرا جھٹکا پہلے سے زیادہ تیز اور اسپیڈ میں تھا
۔۔ندا یاسر کی کراہیں نکلیں تھیں۔۔۔۔منہ کھولے ہوئے آہیں تھیں۔۔۔۔آہ ہ ہ۔۔۔۔اوئی
۔۔۔۔او ہ ہ۔۔۔۔۔۔۔ خان کے لئے یہ آواز تسکین کا باعث تھی ۔۔
اس نے پھر سے لن کا کھینچتے ہوئے ایک زور دار جھٹکا ما ر
ڈالا۔۔۔۔ندا یاسر کی بس ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ماڈلنگ اور شو میں مصروف رہنے والی ندا
یاسر شوہر سے بھی کافی دور ہی رہی تھی ۔۔۔مگر اب اس عمر میں آ کر نو آموز خان نے
اس کے کس بل ڈھیلے کر دیئے تھے ۔۔۔۔خان کو مزا آنے لگا تھا۔۔۔اس نے کھینچ کھینچ کر
دھکے مارنے شروع کر دیئے ۔۔۔۔۔ندا یاسر پہلے تو ایک جھٹکے پر ہلتی ۔۔۔۔مگر پھر
ہلنےوالی مشین ہی بن گئی۔۔۔خان رکنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔۔۔بلکہ کھلے منہ
سے نکلنے والی ندا یاسر کی سسکیوں کو دیکھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہلتے ہوئے گالوں کو
دیکھتا۔۔۔۔اور پھر ہلتے ہوئے مموں کو دیکھتا ۔۔۔۔اور پھر اپنے پورے زور سے جھٹکے
دے مارتا ۔۔۔خان کا زور تو ویسے بھی مشہور ۔۔۔۔۔اور اب تو وہ اور زیادہ پرجوش
تھا۔۔۔۔۔اس نے پورے جھٹکے مار مار کر کھدائی شروع کر دی۔۔۔۔۔۔۔ندا یاسر کی درد
بھری کراہیں نکل رہیں۔۔۔۔ٹانگیں اٹھائے ہوئے وہ سسکی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔خان کو ہاتھ
سے روکتی ہوئی آہ ہ۔ ۔۔۔اوہ ہ ۔۔۔۔۔آئی۔۔۔۔۔۔۔۔بولی جارہی تھی ۔۔
اور خان پاؤں کے بل پر بیٹھا۔۔۔۔۔جھٹکے پر جھٹکے مارے جا
رہا تھا۔۔۔ندا کا ہلتا ہوا بدن جہاں اس کی آنکھوں کو لطف دیتا وہیں پر تنگ چوت اس
کے لن کو بھی شاد بخشتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خان کے جھٹکے بڑھتے جا رہے تھے ۔۔۔اسے اس کھیل کی
سمجھ آ گئی تھی۔۔۔۔بس جھٹکوں کا ہی چکر تھا ۔۔اور ہر جھٹکا پہلے سے زیادہ تیز اور
زیادہ آگے پہنچانا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور خان پوری ذمہ داری سے یہ کام کرنے میں جٹا ہوا
تھا۔۔۔
ندا یاسر کی بلند آہ۔۔۔۔۔اوئی۔۔۔۔۔آہ ہ۔۔۔۔۔۔گونجی جارہی
تھیں۔۔۔۔اس کی چوت میں سیلاب آنے والا تھا۔۔اور ان سب سے بے خبر خان دھکوں میں
مصروف تھا۔۔ندا یاسر نے اٹھی ہوئی ٹانگیں سائیڈ پر کھول دی تھیں۔۔۔۔۔ایک ٹانگ تو
صوفے کے ساتھ جا لگی۔۔۔مگر دوسری اس نے پوری کھولتے ہوئے ساتھ ٹیبل پر رکھ دی ۔چوت
کچھ ٹائیٹ ہوئی ۔۔۔درد اور بڑھا ۔۔۔۔۔خان اور جھک کر اوپر آیا۔۔۔۔۔اور مموں کو
پکڑتا ہوا اور تیزی سےجھٹکے مارنے لگا۔۔۔۔ندا یاسر کے اوپراٹھتا ہوا سر ۔۔۔۔سیاہ
بال ہلتے ۔۔۔تو اسے بہت اچھا لگتا ۔۔۔۔ساتھ اس کے منہ سےنکلتی سریلی
آوازیں۔۔۔آہ۔۔۔او ہ ہ۔۔۔۔اوئی۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔ خان کو اور گرمائے جا رہی تھی۔۔۔تبھی
خان نے کے جھٹکے اور تیز ہوئے تھے ۔۔اسےسمجھ نہیں تھی کہ اس کا اینڈ کیسے ہو
گا۔۔۔مگر ندا یاسر نے اب بھی پہل کی تھی۔۔۔مزا تو بہت تھا۔۔۔مگر خان کواس سے زیادہ
جھیلنا مشکل تھا۔۔۔اس کے جسم نے تیز جھٹکے کھائے ۔۔۔۔اور پانی چھوڑنےلگی۔۔۔۔
اب کی بار خان نے جو دھکا مارا تو سیدھا پھسلتا ہواندا
کے اوپر آیا۔۔۔۔سمجھ نہیں آئی کہ اتنی پھسلن کیسی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ندا یاسر نے بھی
اسے خود سے لپٹا لیا۔۔۔اور مزید پانی چھوڑنے لگی۔۔۔۔۔۔۔خان بھی ہونٹوں پر بوسے
دیتا ہوا سوچ رہا تھا۔۔بس اتنا سا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔اسے ابھی تک تسکین نہیں ملی
تھی۔۔۔۔۔۔۔اسے اپنے بچپن کا واقعہ یا د آ رہا تھا جب اس کا چاچا اس کے دوست کو
اپنی گود میں بٹھا تا ۔۔اور و ہ اچھل پڑ تا کہ کوئی چیز چبھ رہی ہے ۔۔۔اور پھر اس
کےدوست نے اسے بتا یا کہ اسکے چاچا نے پیچھےسے لن اس کےسوراخ میں ڈالا ہے ۔۔۔اس کا
دوست صرف 8 سال کا تھا۔۔۔اور وہ رویا بھی خوب تھا۔۔۔خان کی زندگی میں بس یہی ایک
واقعہ تھا۔جو اسے اس سے ملتا جلتا لگ رہا تھا۔۔۔
خان ندا یاسر سے چمٹا ہوا اٹھا تھا۔۔۔۔۔ندا کی آنکھوں
میں اسے لطف اور مزے کی لہریں نظر آئیں۔۔۔۔۔مگر وہ خود اب تک بے چین تھا۔۔۔اس نے
پیچھے کو ہٹتے ہوئے چوت کو دیکھا تھا۔۔اور ساتھ ہی نیچے کی طرف ایک اور گول
سوراغ۔۔۔۔۔۔۔لن ابھی تک کھڑا ہوا تھا۔۔۔اور ندا یاسر کا پانی اس پر پھسل رہا
تھا۔۔۔۔۔۔خان نے اب لن کو جڑ کے قریب سے پکڑ کر ٹوپے کو گانڈ کے سواخ پر
رکھا۔۔۔۔ندا یاسر ایک دم سے اچھلی تھی۔۔۔۔خان یہ کیا۔۔۔یہاں نہیں کرتے ۔۔۔۔۔بہت
درد ہوتا ہے ۔۔۔۔
نہیں میڈم ہمارے ہاں یہاں بھی کرتے ہیں ۔۔۔اور درد میں
تو آپ کو مزا بھی آتا ہے ۔۔۔۔۔خان کے ذہن میں شاید پچھلا تجربہ تھا۔۔۔
ندا یاسر نے ٹانگیں سکیڑتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی
تھی۔۔۔مگر خان اس سے تیز تھا۔۔۔اور اس کا لن اس سے بھی تیز۔۔۔۔۔ٹوپا تیزی سے آکر
گانڈ کے سوراخ پر لگا تھا۔۔۔ندا یاسر کچھ اچھلی ۔۔۔مگر ٹوپے نے دباؤ ڈآلتے ہوئے
اندر گھسنا تھا۔۔۔اور گھس گیا تھا۔۔۔۔ٹوپے اندر جا کر پھنسا تھا۔۔۔بے حد ٹائٹ تھا
یہ سوراخ ۔۔۔اور خان کو اس میں بھی مز ا آیا تھا۔۔۔۔۔ادھر ندا یاسر کے منہ سے پھر
ایک درد بھری چیخ نکلی تھی۔۔۔۔۔اس نے اپنی باقی ماند ہ طاقت اکھٹا کرتے ہوئے
اٹھنےکی کوشش کی ۔۔۔۔مگر خان نے اگلا جھٹکا مارا۔۔۔۔۔۔اورآدھا لن اندر گھسا
دیا۔۔۔۔۔ساتھ ہی دھکے مارنے لگا۔۔۔۔ندا یاسر کا چلانا اور بڑھا تھا۔۔۔۔۔مگر خان کو
لگا کہ یہ مزے سے چلاتی ہے ۔۔۔۔۔اس نے اور دھکے تیز کردئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگرندا کی
تو جان پر بنی تھی ۔۔۔پہلی بار میں ہی خان نےدونوں سوراخوں کا افتتاح کیا
تھا۔۔۔اور بڑے زور دار انداز تھے ۔۔۔۔۔
خان بس ۔۔۔خان بس۔۔۔آئی۔۔۔۔آ ہ ہ۔۔۔۔اؤی۔۔۔۔۔خان ۔۔۔۔۔
اور خان تھا کہ جھٹکے پر جھٹکا مارے گیا۔۔
اس نے اگلے پانچ منٹ تیز تریں جھٹکے مارے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر
وہ ابھی بھی فارغ نہیں ہو ا ۔۔۔۔۔۔اور ندایاسر کی حالت مزید خراب ہوتی جارہی تھی
۔۔۔۔۔لن کی رگڑ سے گانڈ کے سوراخ سے جو ٹیسیں اٹھتی ۔۔۔وہ اسے کافی اوپر تک محسوس
ہوتی ۔۔۔۔۔مگر خان کوسمجھانا مشکل کام تھا۔۔۔۔
ندا یاسر نے پھولی ہوئی سانس میں اسے رکنے کاکہا
اور۔اوپر چوت کی طر ف آنے کا کہا ۔۔۔اس سمجھ آگئی تھی کہ ادھر تو خان شام تک لگا
رہے گا تب بھی فارغ نہیں ہو گا۔۔۔۔
خان نے لن باہر نکالا اور کپڑے سے صاف کرتا ہوا اوپر
آگیا۔۔۔۔ندا یاسر نے ایک مرتبہ پھر روکا اور الٹی ہونے لگی۔۔۔خان سمجھا شاید پھر
پیچھے سے ڈالناہے ۔۔۔مگرندا یاسر نے دوبارہ سمجھایا ۔۔۔۔۔۔خان پیچھےسے اگلے سوراخ
میں ڈآلنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور خان گھوڑی بنتی ہوئ ندا یاسرکے بڑے سے چوتڑ دیکھنے
لگا۔۔۔اس کا دل پھر خراب ہوا تھا۔۔۔مگر میڈم کی بات ماننی ضروری تھی۔۔۔ندا یاسر
گھوڑی بن گئی تھی۔۔۔۔ندا یاسر کا سر اور کہنی صوفے کی سیٹ پر تھے ۔۔۔جبکہ گھٹنے
صوفے کے درمیانی گدے پر ۔۔۔۔۔اور خان پیچھے سے اس کی چوتڑ اور بھاری کمر کا معائنہ
کر رہا تھا۔۔۔ندا یاسر نے پوزیشن بنا کر اشارہ کیا ۔۔۔۔۔خان نے چوتڑوں کے درمیان
لن گھسایا ۔۔اور آگے دھکیلنے لگا۔۔۔۔لن ندا یاسر کی چوت کے اوپر سے پھسل رہا
تھا۔۔۔۔۔۔۔خان نے پھر کوشش کی مگر اب بھی چوت میں جانے کے بجائے پھسلا ۔۔۔۔۔۔
ندا یاسر ایک مرتبہ پھر جھنجھلائی تھی۔۔۔۔۔۔اور اب کی
بار آتے ہوئے لن کو اپنے ہاتھ سے چوت پر رکھ ۔۔خان کا دھکا پھر آیا اور چوت کے
اندرلن اتر گیا ۔۔۔
ندا یاسر کی آہ نکلی اور خان کو بھی پتا چلا کہ نشانہ لگ
گیاہے ۔۔۔۔۔۔۔اب اس نے دھکے دینے شروع کیے ۔۔پہلےتو ویسے ہی دھکے دیتا رہا ۔۔۔مگر
پھر لگا چوتڑ اور کمر سمبھالے بغیر یہ مشکل ہے ۔۔۔۔۔۔تو اس نے کمر کو تھام
لیا۔۔۔۔اب کے دھکے زور دار تھے ۔۔۔۔۔۔۔تیز رفتار تھے ۔۔۔۔ندا یاسر خود کو سمبھالنے
لگی ۔۔۔۔۔۔منہ سے گھٹی گھٹی کراہیں خود بخود نکلی تھی۔۔۔۔۔۔۔اور خان سمجھ گیا کہ
مزا آر ہا ہے ۔۔وہ اور تیز ہونے لگا۔۔۔اس کی مشینی رفتار اور تیز ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ندا
یاسر کو لگا کہ وہ آگے جا گرے گی ۔۔۔۔۔مگر پھر دونوں ہاتھوں کو صوفے کی سائیڈ پر
جما کر پیچھے زور دینے لگی۔۔۔۔۔بال جھٹکوں کے ساتھ ہوا میں اڑ رہے تھے ۔۔۔اور نیچے
دو دھ کی تھیلیاں اچھلے جارہی تھی۔۔۔چائے والا پیچھے دھکے پر دھکے دئے جارہا
تھا۔۔۔۔۔ندا یاسر بڑی مشکل سے خان کے دھکے سمبھال رہی تھی ۔۔۔مگر وہ تھا کہ اور
تیز ہوتا جا رہا تھا۔۔۔
خان کا لمبا اور موٹا لن کافی آگے تک مار کرتا
تھا۔۔۔۔ندا یاسر کی دبی دبی کراہیں کچھ کھلی تھیں ۔۔۔۔۔۔منہ کھلا تھا ۔۔اور اونچی
آواز نکلی ۔۔۔۔۔اسے لگا جیسےوہ کسی گاڑی کو دھکا لگا رہی ہو ۔۔۔۔۔۔آگے صوفے کی
سائیڈ پر ہاتھ جمائے ہوئے وہ پیچھے کو مستقل زور لگائے ہوئے تھی ۔۔۔۔۔مگر آگے گاڑی
تو نہیں پیچھے خان ضرور تھا۔۔۔اور اس کے دھکے اسے پھر بھی آگے دھکیل رہے تھے
۔۔۔۔۔۔خان کے جھٹکوں نے طوفانی اسپیڈ پکڑ ی تھی۔۔۔۔۔۔۔ندا یاسر اونچی آواز میں
چلائی تھی ۔۔۔۔وہ پھر سے چھوٹنے والی تھی ۔۔۔۔۔ادھر خان بھی چلایا۔۔۔۔میڈم ہمارا
پیشاب آنے والا ہے ۔۔۔۔۔ندا یاسر سمجھ گئی ۔۔۔اگلے ہی منٹ میں وہ جھٹکوں کے ساتھ
فارغ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔پانی تیزی سے نکلا اور باہر کو بہا تھا۔خان ابھی بھی جما ہوا
تھا۔۔۔۔وہ پھر سے بولا ۔۔۔میڈم میرا پیشاب نکلتا ہے۔۔۔ندا یاسر نے اسے روکا ۔۔اور
پیچھے کو مڑ کر بیٹھتی ہوئی اس کے گرم گرم لن کو تھام کر منہ میں بھرنے لگی
۔۔۔۔منہ میں لینے کے بعد وہ تیزی سے چوسنے لگی۔۔۔۔اور منہ کے اندر لن کو آگے پیچھے
کرنے لگی۔۔۔۔خان کے لئے یہ مزہ بھی نیا تھا۔۔گرم گرم تھوک اس کے لن کو نہلا رہا
تھا۔۔۔۔۔۔وہ پھر حیرت میں پڑ گیاتھا۔ ندا یاسر نے زیادہ ٹائم نہیں لگایا ۔اور خان
کو چھوٹنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔خان کا جسم اکڑنے لگا تھا۔۔۔۔مزے کا ایک طوفان جسم
میں اکھٹا ہو کر لن کی طرف جا رہا تھا۔۔۔وہ چلایا تھا ۔۔۔۔ندا یاسر نے لن باہر
نکال کر ہلانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔چائے والے کے لن سے سفید دودھ کا فوارا چھوٹا اور اس کے
منہ پر گرا۔۔۔۔۔۔۔خان بھی حیران یہ کیا ماجرہ ہے ۔۔۔۔۔۔اور پھر کافی دیر وہ بھی
جھٹکا کھا تا رہا ۔۔۔۔۔۔سارا دودھ ندا یاسر کے چہرے پر اکھٹا تھا۔۔۔خان اب ٹھنڈا
ہو چکا تھا۔۔صوفے پر بیٹھ ہانپنے لگا۔۔۔۔۔ندا یاسر بھی اسے حیران ہوئے دیکھ رہی
تھی ۔۔۔۔خان نے جب پہلی بار میں اتنی دیر لگائی تھی ۔۔۔تو اگلی بار کیا کرتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شوبز کی بڑی بڑی خواتین اس کی فین ہوتی ہوئی صاف دکھ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فون
پر میسج کی ٹون بجی ۔۔۔۔۔۔۔۔جیا کا میسج تھا وہ آدھے گھنٹے تک پہنچ رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ندا یاسر جلدی سے اٹھی اور خان کو اٹیچ باتھ میں بھیج کر اپنے کمرے میں
چلی گئی۔۔۔۔اس کے چلنے میں ڈگمگاہٹ تھی ۔۔۔۔۔مگر چال میں اک سرور تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
حرامی بوڑھے
کچھ واقعات ایسی ہوتی ہیں جس میں آدمی كھود بہ خود كھچتا چلا جاتا
ہے. چاہے وہ چاہے یا نہ چاہے. آدمی کتنا بھی سمجھدار ہو لیکن کبھی کبھی اس کی
سمجھداری اسے لے ڈوبتي ہے. ایسی ہی ایک واقعہ میرے ساتھ ہوئی تھی. جسے آج تک میرے
علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے. آج میں یہی بات آپ سے شیئر کرتی ہوں. میں رتكا، میرے
شوہر کا نام ہے روہن، عمر 32 سال، ممبئی کے ولے پارلے میں رہتی ہوں. میرے شوہر ایک
الیکٹرانکس کمپنی میں کام کرتے ہیں. میں بھی ایک چھوٹی سی سپھٹوےر کمپنی میں کام
کرتی ہوں. یہ بات کافی سال پہلے کی ہے، تب ہم شہر سے دور ملاڈ کے پاس ایک فلیٹ میں
رہتے تھے. ہماری شادی اسی فلیٹ میں ہوئی تھی. مييا بیوی اکیلے ہی اس فلیٹ میں رہتے
تھے. اس فلیٹ میں ہم سے اوپر ایک خاندان رہتا تھا. اس خاندان میں ایک جوان كپل تھے
نام تھا خواب اور ديپاكر. ان کوئی بچہ نہیں تھا. ساتھ میں ان کے سسر جی بھی رہتے
تھے. ان کی عمر کوئی 60 سال کے آس پاس تھی ان کا نام کیلاش شرما تھا میں خواب سے
بہت جلد کافی گھل مل گئی. اکثر وہ ہمارے گھر آتی یا میں اس کے گھر چلی جاتی تھی.
میں اکثر گھر میں سکرٹ اور ٹی شرٹ میں رہتی تھی. میں سکرٹ کے نیچ چھوٹی سی ایک
ككشي پہنتی تھی. مگر ٹی شرٹ کے نیچے کچھ نہیں پہنتی تھی. اس سے میرے بڑے بڑے بوبس
ہلکی حرکت سے بھی اچھل اچھل جاتے تھے. میرے نپلس ٹی شرٹ کے باہر ہی ساپھ ساپھ نظر
آتے تھے. خواب کے سسر کا نام میں جانتی تھی. انہیں بس شرما انکل کہتی تھی. میں نے
محسوس کیا شرما انکل مجھ میں کچھ زیادہ ہی اٹےرےسٹ لیتے تھے. جب بھی میں ان کے
سامنے ہوتی ان کی نظریں میرے بدن پر پھرتی رہتی تھی. مجھے ان پر بہت غصہ آتا تھا.
میں ان کی بہو کی عمر کی تھی مگر پھر بھی وہ مجھ پر گندی نیت رکھتے تھے. لیکن ان
کا هسمكھ اور لاپرواہ سوابھاو آہستہ آہستہ مجھ پر اثر کرنے لگا. دھیرے دھیرے میں
ان کی نظروں سے واقف ہوتی گئی. اب ان کا میرے بدن کو گھورنا اچھا لگنے لگا. میں ان
کی نظروں کو اپنی چوچیو پر یا اپنے سکرٹ کے نیچے سے جھاكتي ننگے ٹانگوں پر پا کر
مسکرا دیتی تھی خواب تھوڑی سست قسم کی تھی اس لئے کہیں سے کچھ بھی مگوانا ہو تو
اکثر اپنے سسر جی کو ہی بھیجتی تھی. میرے گھر بھی اکثر اس کے سسر جی ہی آتے تھے.
وہ ہمیشہ میرے سنگ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش میں رہتے تھے. ان کی نذرے
ہمیشہ میری ٹی شرٹ کے گلے سے جھانکتے بوبس پر رہتی تھی. میں پهناوے کے معاملے میں
تھوڑا بےفكر ہی رہتی تھی. اب جب خدا نے اتنا سیکسی جسم دیا ہے تو تھوڑا بہت
اےكسپوذ کرنے میں کیا ہرز ہے. وہ مجھے اکثر چھنے کی بھی کوشش کرتے تھے لیکن میں
انہیں زیادہ لفٹ نہیں دیتی تھی. اب اصل واقعہ پر آیا جائے. اچانک خبر آئی کہ ممی
کی طبیعت خراب ہے. میں اپنے مایکے اندؤر چلی آئی. ان دنو موبائل نہیں تھا اور
ٹیلیفون بھی بہت کم لوگوں کے پاس ہوتے تھے. کچھ دن رہ کر میں واپس ممبئی آ گی. میں
نے روہن کو پہلے سے کوئی اطلاع نہیں دی تھی کیونکہ ہمارے گھر میں ٹیلیفون نہی تھا.
میں شام کو اپنے فلیٹ میں پہنچی تو پایا کی دروازے پر تالا لگا ہوا ہے. وہیں دروازے
کے باہر اسی طرح رکھ کر روہن کا انتظار کرنے لگی. روہن شام 8 بجے تک گھر آ جاتا
تھا. لیکن جب 9 ہو گئے تو مجھے فکر ستانے لگی. فلیٹ میں زیادہ کسی سے جان پہچان
نہیں تھی. میں نے خواب سے پوچھنے کا خیال کیا. میں نے اوپر جا کر خواب کے گھر کی
كالبےل بجائی. اندر سے ٹی وی چلنے کی آواز آ رہی تھی. کچھ دیر بعد دروازہ کھلا.
مینے دیکھا سامنے شرما جی کھڑے ہیں. "ہیلو ... وہ خواب ہے کیا؟" میں نے
پوچھا. "خواب تو ديپاكر کے ساتھ ہفتے بھر کے لئے گوا گئی ہے گھومنے. ویسے تم
کب آئی؟" "جی ابھی کچھ دیر پہلے. گھر پر تالا لگا ہے روہن ...؟"
"روہن تو گجرات گیا ہے اپھيشيل کام سے کل تک آئے گا." انہوں نے مجھے
مسکرا کر دےكھا- "تمہے بتایا نہی" "نہی انکل ان سے میری کوئی بات
ہی نہیں ہوئی. ویسے میری پلاننگ کچھ دنو بعد آنے کی تھی." "تم اندر تو
آو" انہوں نے کہا میں نے کشمکش سی اپنی جگہ پر کھڑی رہی. "خواب نہیں ہے
تو کیا ہوا میں تو ہوں. تم اندر تو آو." کہہ کر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر
اندر کھینچا. میں کمرے میں آ گئی. انہوں نے آگے بڑھ کر دروازے کو بند کر کے کنڈی
لگا دی. میں نے جھجھکتے ہوئے ڈريگ روم میں قدم رکھا. جیسے ہی سینٹر ٹیبل پر نظر پڑی
میں تھم گئی. سینٹر ٹیبل پر بیئر کی بٹلس رکھی ہوئی تھی. آس پاس سنكس بکھرے پڑے
تھے. ایک سنگل سوفی پر كامدار انکل بیٹھے ہوئے تھے. ان کے ایک ہاتھ میں بیئر کا
گلاس تھا. جس سے وہ ہلکی ہلکی چسكيا لے رہے تھے. میں اس ماحول کو دیکھ کر چونک
گئی. شرما انکل نے میری جھجھک کو سمجھا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"ارے گھبرانے کی کیا بات ہے. آج اڈيا- پاکستان میچ چل رہا ہے نا. سو ہم دونو
کو میچ کو ایںجاے کر رہے تھے." میں نے سامنے دیکھا ٹی وی پر انڈیا پاکستان کا
میچ چل رہا تھا. میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میرا کیا کرنا مناسب ہوگا. یہاں
ان کے درمیان بیٹھنا یا کسی هوٹےل میں جا کر ٹھہرنا. گھر کے دروازے پر اٹرلك تھا
اس لئے توڈا بھی نہیں جا سکتا تھا. میں وہیں سوفی پر بیٹھ گئی. مینے سوچا میرے
علاوہ دونوں آدمی بزرگ ہیں ان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے. لیکن رات بھر رکنے کی بات
جہاں آتی ہے تو ایک بار سوچنا ہی پڑتا ہے. میں انہی خیالات میں گمسم بیٹھی تھی
لیکن انہوں نے گویا میرے من میں چل رہے اتھل پتھل کو بھاپ لیا تھا. "کیا سوچ
رہی ہو؟ کہیں اور رکنے سے اچھا ہے رات کو تم یہیں رک جاؤ. تم خواب اور ديپاكر کے
بیڈ روم میں رک جانا میں اپنے کمرے میں سو جانگا. بھائی میں تمہیں کاٹ نہیں لوں
گا. اب تو بوڑھا ہو گیا ہوں. هاهاها .. " ان کے اس طرح بولنے سے ماحول تھوڑا
ہلکا ہوا. میں نے بھی سوچا کہ میں بے وجہ ایک بزرگ آدمی پر شک کر رہی ہوں. میں ان
کے ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھنے لگی. پاکستان بیٹنگ کر رہی تھی. کھیل کافی کانٹے کا
تھا اس لئے مہم جوئی مکمل تھا. مینے دیکھا دونو درمیان درمیان میں كنكھيو سے سکرٹ
سے باہر جھاكتي میری گوری ٹانگوں کو اور ٹی شرٹ سے ابھرے ہوئے میرے بوبس پر نظر
ڈال رہے تھے. پہلے پہلے مجھے کچھ شرم آئی لیکن پھر مینے اس طرف غور کرنا چھوڑ دیا.
میں سامنے ٹی وی پر چل رہے کھیل کا مزا لے رہی تھی. جیسے ہی کوئی آؤٹ ہوتا ہم سب
خوشی سے اچھل پڑتے اور ہر شاٹ پر گلیاں دینے لگتے. یہ سب انڈیا پاکستان میچ کا ایک
كامن سین رہتا ہے. ہر بال کے ساتھ لگتا ہے سارے ہندوستانی کھیل رہے ہوں. کچھ دیر
بعد شرما اںکل نے پوچھا، "رتكا تم کچھ لوگي؟ بیئر یا جن ...؟" میں نے نا
میں سر ہلایا لیکن بار بار رکویسٹ کرنے پر میں نے کہا، "بیئر چل جائے گی
.." انہوں نے ایک کی بوتل اوپن کر کے میرے لئے بھی ایک گلاس بھرا پھر ہم
"چیرس" بول کر اپنے اپنے گلاس سے شکتی کرنے لگے. شرما اںکل نے دیوار پر
لگی گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا "اب کچھ کھانے پینے کا انتظام کیا
جائے" -نهونے میرے چہرے پر نگاہ گڑھاتے ہوئے کہا "تم نے شام کو کچھ
کھایا یا نہیں؟" میں ان کے اس سوال پر هڑبڑا گيي- "ہاں میں نے کھا لیا
تھا." "تم جب جھوٹ بولتا ہو تو بہت اچھی لگتی ہو. پاس کے هوٹےل سے تین
کھانے کا آرڈر دے دے اور بول کہ جلدی بھیج دے گا" كدر اںکل نے فون کر کے.
کھانا منگوا لیا. ایک گلاس کے بعد دوسرا گلاس بھرتے گئے اور میں انہیں شکتی کر کر
کے ختم کرتی گئی. آہستہ آہستہ بیئر کا نشہ نظر آنے لگا. میں بھی ان کے ساتھ ہی چیخ
چیخ رہی تھی، تالیاں بجا رہی تھی. کچھ دیر بعد کھانا آ گیا. ہم نے اٹھ کر کھانا
کھایا پھر واپس آ کر سوپھے پر بیٹھ گئے. شرما انکل اور كامدار انکل اب بڑے والے
سوفی پر بیٹھے. وہ سوفی ٹی وی کے ٹھیک سامنے رکھا ہوا تھا. میں دوسرے سوفی پر
بیٹھنے لگی تو شرما اںکل نے مجھے روک دیا: ' "ارے وہاں کیوں بیٹھ رہی ہو.
یہیں پر آجا یہاں سے اچھا نظر آئے گا. دونوں سوفی کے دونو کناروں پر سرک کر میرے
لئے درمیان میں جگہ بنا دئے. میں دونو کے درمیان آ کر بیٹھ گئی. پھر ہم میچ دیکھنے
لگے. وو دونو واپس بیئر لینے لگے. میں نے صرف ان کا ساتھ دے رہی تھی. باتوں باتوں
میں آج میں نے زیادہ لے لیا تھا اس لئے اب میں کنٹرول کر رہی تھی جس سے کہیں بہک
نہ جاؤ. آپ سب تو جانتے ہی ہوں گے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ ہو تو کیسا
ماحول رہتا ہے. شارجہ کے میدان میں میچ ہو رہا تھا. انڈین کیپٹن تھا اذهرددين.
"آج اڈينس جیتنا ہی نہیں چاہتے ہیں." شرما جی نے کہا "یہ ایسے کھیل
رہے ہیں جیسے پہلے سے سٹے بازی کر رکھی ہو." كدر اںکل نے کہا. "آپ لوگ
اس طرح کیوں بول رہے ہیں؟ دیکھنا انڈیا جیتے گی." مینے کہا "ہو ہی نہیں
سکتا. شرط لگا لو انڈیا ہار کر رہے گی" شرما اںکل نے کہا. تبھی ایک اور چھکا
لگا. "دیکھا ... دیکھا ...." شرما اںکل نے میری پیٹھ پر ایک ہلکے سے
صلواتیں جمایا "میری بات مانو یہ سب ملے ہوئے ہیں." کھیل آگے بڑھنے لگا.
تبھی ایک وکٹ گرا تو ہم تینو اچھل پڑے. میں خوشی سے شرما انکل کی جاںگھ پر ایک زور
کی تھپكي دے کر بولی "دیکھا انکل؟ آج ان کو کوئی نہیں بچا سکتا. ان سے یہ
اسکور بن ہی نہیں سکتا." میں اس کے بعد واپس کھیل دیکھنے میں بزی ہو گئی. میں
بھول گئی تھی کہ میرا ہاتھ اب بھی شرما انکل کی رانوں پر ہی پڑا ہوا ہے. شرما انکل
کی نگاہیں بار بار میری ہتھیلی پر پڑ رہی تھی. انہوں نے سوچا شاید میں جان بوجھ کر
ایسا کر رہی ہوں. انہوں نے بھی بات کرتے کرتے اپنا ایک ہاتھ میرا سکرٹ جہاں ختم ہو
رہا تھا وہاں پر میری ننگی ٹانگ پر رکھ دیا. مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں
نے جلدی سے اپنا ہاتھ ان کی رانوں پر سے ہٹا دیا. ان کا ہاتھ میری ٹانگوں پر رکھا
ہوا تھا. كدار انکل نے میرے کندھے پر اپنے بازو رکھ دی. مجھے بھی کچھ کچھ مزا آنے
لگا. اب لاسٹ تین اوور باقی تھے. کھیل کافی ٹکر کا ہو گیا تھا. ایک طرف جاوید
میانداد کھیل رہا تھا. لیکن اسے بھی جیسے انڈین بولرس نے باندھ کر رکھ دیا. کھیل
کے ہر بال کے ساتھ ہم اچھل پڑتے. یا تو سکھ مناتے یا بے بسی میں سانس چھوڑتے. اچھل
کود میں کئی بار ان کی كوهنيا میرے بوبس سے ٹکرائی. پہلے تو میں نے سوچا شاید غلطی
سے ان کی کہنی میرے بوبس کو چھو گئی ہوگی لیکن جب یہ غلطی بار بار ہونے لگی تو ان
کے غلط ارادے کی بھنک لگی. آخری اوور آ گیا اظہر نے بال ذی شرما کو پكڑاي.
"اس کو لاسٹ اوور کافی سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا سامنے جاوید میانداد کھیل رہا
ہے." "ارے انکل دیکھنا یہ جاوید میانداد کی حالت کیسے خراب کرتا
ہے." مینے کہا "نہی جیت سکتی انڈیا کی ٹیم نہیں جیت سکتی لکھ کے لیلو مجھ
آج پاکستان کے جیتنے پر میں شرط لگا سکتا ہوں." شرما اںکل نے کہا. "اور
میں بھی شرط لگا سکتا ہوں کی انڈیا ہی جیتے گی" مینے کہا. آخری دو بال بچنے
تھے کھیل مکمل طور پر انڈیا کے پھےور میں چلا گیا تھا. "جاوید میانداد کچھ
بھی کر سکتا ہے. کچھ بھی. اسے آؤٹ نہیں کر سکے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے." شرما
انکل نے پھر جوش میں کہا. "اب تو جاوید میانداد تو کیا اس کے فرشتے بھی آ
جائیں نا تو بھی ان کو ہارنے سے نہیں بچا سکتے." "چلو شرط ہو
جائے." شرما اںکل نے کہا. "ہاں ہاں ہو جائے .." كدر اںکل نے بھی ان
کا ساتھ دیا. میں نے پیچھے ہٹنے کو اپنی ہار مانی اور ویسے بھی انڈیا کی جیت تو
پکی تھی. لاسٹ بال بچا تھا اور جیتنے کے لئے پانچ رنز چاہئے تھے. اگر ایک چوکا بھی
لگتا تو دونوں ٹیم ٹائی پر ہوتے. جیت تو صرف ایک سکس ہی دلا سکتی تھی جو کہ اتنے
ٹےنس مومےٹ میں ناممکن تھا. "بولو اب بھگوگے تو نہیں. آخری بال اور پانچ رنز.
چار رن بھی ہو گئے تو دونوں برابر ہی رہیں گے. جیتنے کے لئے تو صرف چھکا
چاہئے." میں نے فخر سے گردن اکڑا کر شرما جی کی طرف دیکھا. شرما اںکل نے اپنے
کندھے اچكاي کہا کچھ نہیں. ان کو بھی لگ گیا تھا کہ آج انڈیا ہی جیتے گی. پھيلڈرس
سارے باڈري پر لگا دئے گئے تھے. میں نے ان سے پوچھا "سوچ لو .... اب شرط
لگاوگے کیا. 99٪ تو انڈیا جیت ہی چکی ہے." "شرط تو ہم کریں گے ہی.
دیکھنا جاوید میانداد بیٹنگ کر رہا ہے. وہ پوری جان لگا دے گا." شرما اںکل نے
اپنی ہاتھ سے پھسلتي ہوئی هےكڑي کو واپس بٹورتے ہوئے کہا. "ٹھیک ہے ہو جائے
شرط." کہ کر میں نے اپنے ایک ہاتھ شرما انکل کے ہاتھ میں دیا اور ایک ہاتھ
كدر انکل کے ہاتھ میں دیا. "اگر انڈیا جیتی تو ..................؟"
شرما اںکل نے بات میرے لئے ادھوری چھوڑ دی. "تو آپ دونوں مختلف مجھے ٹریٹ دیں
گے. ساتھ میں ہم لوگوں کی پھیملی بھی رہے گی. مكڈونلڈس میں شامل. منظور؟" میں
نے ان سے کہا. دونو نے تپاک سے حامی بھر دی. "اور اگر پاکستان جیت گئی تو ...
...؟" - كدر انکل نے بھی شرط میں شامل ہوتے ہوئے کہا. "تو رتكا وہی کرے
گی جو ہم دونو کہیں گے. منظور ہے؟" شرما انکل نے کہا "کیا کرنا پڑے
گا؟" میں نے ہنستے ہوئے پوچھا. میں سوچ بھی نہیں پا رہی تھی کہ میں کس طرح ان
دونوں بوڈھو کے چنگل میں پھستي جا رہی ہوں."کچھ بھی جو ہمیں پسند ہو
گا." كدر نے کہا. "ارے كدر چھوڑ شرط-ورت یہ لگا نہیں سکتی." شرما
اںکل نے کہا. "ٹھیک ہے ہو جائے شرط." کہ کر میں نے اپنا ایک ہاتھ شرما
انکل کے ہاتھ میں دیا اور ایک ہاتھ كدر انکل کے ہاتھ میں دیا. دونوں نے اپنے ہاتھ
میں میرے ہاتھوں کو پکڑ لیا. دونوں میرے بدن سے سٹ گئے. میں دونو کے درمیان سڈوچ
بنی ہوئی تھی. ایسے ماحول میں چیتن شرما نے دوڑنا شروع کیا. کمرے میں ماحول گرم ہو
گیا تھا. کچھ تو میچ کے مہم جوئی سے اور کچھ ہمارے بدن کے ایک دوسرے سے سٹنے سے.
چیتن شرما دوڑتا ہوا آیا اور اس پتہ نہیں کیوں ایک پھلٹوس گیند جاوید میانداد کو
پھینکی. ہماری سانسیں تھم گئی تھی. جاوید میانداد نے آخری بال کے پیچھے آتے ہوئے
اپنے بیٹ کو لفٹ کیا اور بال تیزی سے نیچے آتی ہوئی بیٹ سے ٹکرائی. سب ایسا لگ رہا
تھا جیسے سلو موشن میں چل رہا ہو. بال بیٹ سے لگ کر آسمان میں اچھلي اور لاکھوں
کروڑوں ناظرین صرف سانس روکے دیکھتے ہی رہ گئے. بال بغیر ڈراپ کے باڈري کے باہر جا
کر گری. اپاير نے چھکے کا اشارہ کیا اور پاکستان جیت گئی. مجھے تو سمجھ میں ہی
نہیں آیا کہ یہ سب کیا چل رہا ہے. میں نے صرف منہ پھاڈے ٹی وی کی طرف دیکھ رہی
تھی. یقین تو میرے ساتھ بیٹھے دونوں بزرگوں کو بھی نہیں ہو رہا تھا کہ ایسے پوزشن
سے انڈیا ہار بھی سکتی ہے. کچھ دیر تک اسی طرح رہنے کے بعد دونوں چللا اٹھے،
"هررراه .... ہم جیت گئے." میں نے مایوسی کے ساتھ دونوں کی طرف دیکھا.
"ہم جیت گئے." میں ان کی طرف دیکھ کر ایک اداس سی مسکراہٹ دی "اب
تم ہماری شرط پوری کرو." شرما جی نے کہا. "ٹھیک ہے بولو کیا کرنا
ہے." میں نے ان سے کہا. "سوچ لو پھر سے بعد میں اپنے وعدے سے مکر مت
جانا." شرما اںکل نے کہا. "نہی میں نہیں مكروگي اپنے وعدے سے. بولو مجھے
کیا کرنا پڑے گا." شرما جی نے مسکراتے ہوئے كدر انکل کی طرف دیکھا. دونو کی
آنکھیں ملی اور سوادو کا کچھ تبادلہ ہوا. "تو بول كدر ....... اسے کیا کرنے
کو کہا جائے." شرما اںکل نے كدر انکل سے کہا. "نہی تو نے شرط عائد ہے
شرما تو ہی اس کے ثواب کا اعلان کر."شرما اںکل نے میری طرف مڑ کر اس کی آواز
میں رهسيميتا لاتے ہوئے کہا "تم ہم دونو کو ایک ایک کس دوگی. فرانسیسی کس تب
تک جب تک ہم تمہارے ہونٹوں سے اپنے ہوںٹھ الگ نہی کریں." مجھے اپنے چاروں طرف
پورا کمرہ گھومتا ہوا سا لگا. مجھے سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں. میں
ان دونوں آدمیوں کے چنگل میں پھنس گئی تھی. میں نے کچھ دیر تک اپنی نظریں زمین پر
گڑائے ركھي پھر دھیرے سے کہا، "صرف کس" دونوں نے ایک ساتھ کہا،
"ٹھیک ہے." میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی. "ٹھہرو اس طرح نہیں. زندگی میں
پہلی بار اتنا حسین موقع ملا ہے تو اس کا مکمل ایںجاے کریں گے." شرما اںکل نے
کہا "كادار پہلے یہ مجھے کس دے گی" كدر انکل نے سر ہلایا. شرما انکل
ڈرائنگ ٹیبل کے پاس سے ایک کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گئے. بغیر ہتھے والی کرسی پر
بیٹھ کر مجھ سے کہا، "آؤ تم میری گود میں بیٹھ کر مجھے کس کرو." میں شرم
سے پانی پانی ہو رہی تھی. ایسی بری حالت میں اپنے آپ کو پہلی بار محسوس کر رہی
تھی. ویسے تو میرے شوہر کے علاوہ بھی میرے ایک اور آدمی سے تعلقات تھے اور میں
شادی سے پہلے ہی اپنے بيفرےڈ سے سیکس کا مزا لے چکی تھی، لیکن اتنے بزرگ آدمیوں کے
ساتھ اس طرح کا موقع پہلی بار ہی آیا تھا. میں آکر ان کی گود میں بیٹھنے لگی تو
انہوں نے مجھے روکتے ہوئے کہا، "ایسے نہی. اپنے دونو پیروں کو پھیلا کر میری
ٹانگوں کے دونو طرف اپنے پاؤں رکھ کر میری گود میں بیٹھو. میں نے ویسا ہی کیا. سکرٹ
پہنا ہونے کی وجہ سے ٹانگیں چوڑی کرنے میں کسی قسم کی بھی پریشانی نہیں ہوئی. جیسے
ہی میں ان کی گود میں بیٹھی انہوں نے میرے کمر کی گرد اپنی باہیں ڈال کر مجھے
کھینچ کر اپنے بدن سے سٹا لیا. میری تنی ہوئی چوچیاں ان سینے سے دب گئی. میری ككشي
میں چھپ یون اس جنس سے جا ملحق. میں نے محسوس کیا کی ان کا جنس تن چکا تھا. یہ
جانتے ہی میری نظریں جھک گی. مینے اپنے کاںپتے ہوئے ہونٹ آگے بڑھا کر ان کے ہونٹوں
کے سامنے لائی. کچھ لمحوں تک ہم ایک دوسرے کے چہروں کو دیکھتے رہے پھر میں نے اس
کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے. انہوں نے اپنے ہاتھوں سے میرے چہرے کو سمهال رکھا
تھا. مینے بھی اپنے ہاتھوں سے اس کے سر کو پیچھے سے پکڑ کر اپنے ہونٹوں پر دبا
دیا. کچھ دیر تک ہم ایک دوسرے کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ پھراتے رہے. شرما انکل میرے
ہوںٹھوں کو ہلکے ہلکے اپنے دنتو سے چباتے رہے. پھر مینے اپنی جیبھ نکالی اور ان کے
منہ میں ڈال دیا. میری جیب وہاں ان کی زبان سے ملی. ان کے منہ سے پھریش منٹ کا
سمےل آ رہا تھا. ہم دونو کی زبان ایک دوسرے کے ساتھ لپٹنے کھیلنے لےگے. ان کے ہاتھ
میرے پورے پیٹھ پر پھر رہے تھے. ایک ہاتھ سے انہوں نے میرے سر کو اپنے منہ پر داب
رہا تھا اور دوسرا ہاتھ میری پیٹھ پر پھراتے ہوئے نیچے کی طرف گیا. اچانک شرما
انکل کے ہاتھ کو مینے اپنی سکرٹ کے اندر اندر محسوس کیا. ان کے ہاتھ میری ككشي کے
اوپر پھر رہے تھے. میں نے اچانک اپنے دونو بغلوں کے پاس سے دو ہاتھوں کو ہم دونو
کے بدن کے درمیان پہنچا کر میرے بوبس کو تھامتے ہوئے محسوس کیا. یہ كدر انکل کے
ہاتھ تھے. ان کے ہاتھ میرے بوبس کو سہلانے لگے.میری یون گیلی ہونے لگی. مجھے لگ
گیا کہ آج ان بوڈھو سے اپنا دامن بچا کر نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے. شرما جی
اپنے ہاتھوں سے میری ككشي کو ایک طرف سرکا کر میرے ایک نتب کو سہلانے لگے. شرما جی
نے میرے دونو نتب سہلانے اور مسلنے کے بعد اب اگليا میری ككشي کے اندر اندر ڈالنے
کی کوشش کرنے لگے. میں ان کے چنگل سے نکلنے کی جی توڑ کوشش کر رہی تھی. مجھے لگ
رہا تھا گویا ان کا یہ کس ساری زندگی ختم نہیں ہوگا لیکن انہوں آخر میں مجھے آزاد
کر ہی دیا. میں ان کی گود میں بیٹھے بیٹھے ہی لمبی لمبی سانسیں لینے لگی. اپنے
ہارٹ بیٹس کو کنٹرول کرنے لگی جو کہ کسی راجدھانی ایکسپریس کی طرح دوڑا جا رہا
تھا. كدر انکل نے میری باہوں کے نیچے سے ہاتھ لے جا کر میرے بدن کو ٹھیک میرے بوبس
کے نیچے سے پکڑا. جس سے میرے بڑے بڑے بوبس شرما انکل کی طرف اچے ہو گئے. شرما اںکل
نے یہ دیکھ کر میرے بوبس کی چوٹیوں پر ایک ایک کس دیا. كدر اںکل نے مجھے ان کی گود
سے اٹھایا. "شرما اٹھ اب میری باری ہے." میں ان کے سامنے سر جھکائے ہوئے
کھڑی تھی. شرما انکل چیئر سے اٹھ گئے. ان کی جگہ كدر انکل کرسی پر بیٹھ گئے. میں
واپس اپنے پیروں کو پھیلا کر ان کی گود میں جا بیٹھی. مینے اپنے ہونٹ اب كدر انکل
کے ہونٹوں پر لگا دئے. ان کے منہ سے شرما انکل کی طرح منٹ کی سمےل نہیں بلکہ بیئر
کی بدبو آ آ رہی تھی. مینے اپنی سانس کو روک کر ان کے منہ میں اپنی زبان ڈال دی.
كدر انکل کے سینے سے اب میرے اچے اچے سربراہی دبے ہوئے چھٹپٹا رہے تھے. شرما انکل
میرے پیچھے زمین پر بیٹھ گئے اور میری پیںٹی کے دونو ٹانگوں کے درمیان کے جوڑ کو
کھینچ کر توڑ دیا. میری پیںٹی کے دونو پلے مختلف ہو کر میرے کمر سے جھول رہے تھے.
انہوں نے میرے نوستر کولہوں کے اوپر سے پیںٹی کے جھولتے ٹکڑے کو اوپر اٹھا کر میرے
نتںبوں پر اپنے ہونٹ لگا دیئے. ان کے ہونٹ اب میرے نتںبوں پر پھر رہے تھے. كدار
انکل کے ہاتھ میرے ٹاپ کو اوپر اٹھا کر میری ننگے پیٹھ پر ہاتھ پھرانے لگے. ان کے
ہاتھ میرے برا کے ہک پر آکر ٹھہرے اور میرے برا کے ہک کو کھول کر میرے بوبس کو
آزاد کر دیا. پھر سامنے کی طرف ہاتھ لا کر میرے برا کو سینے سے اوپر کر کے میرے
ننگے بوبس کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسلنے لگے. میرے بوبس کو بری طرح مسلتے ہوئے
میرے کھڑے ہو چکے نپلس کو اپنی انگلیوں کے درمیان لے کر زور زور سے دبانے اور
کھینچنے لگے. میرے منہ سے کراہ کی آواز نکل کر ان کے ہونٹوں کے درمیان قید ہو جا
رہی تھی. ادھر شرما انکل کی زبان اب میری یون کے دونو طرف پھر رہی تھی. كدر اںکل
نے بیٹھے بیٹھے اپنے دونو پیروں کو پھیلا دیا تھا جس کی وجہ سے میرے پاؤں بھی پھیل
گئے تھے اور میری یون اب شرما انکل کی حرکتوں کا بیپردا تھی. میں ان کی حرکتوں سے
گرم ہو گئی تھی. اب میرا اںگ اںگ چھٹپٹا رہا تھا ان لںڈ کے لئے. کچھ دیر تک اسی
طرح مجھے کس کرتے رہنے کے بعد ہم تینو اٹھے. دونوں نے سب سے پہلے مجھے پوری طرح
ننگے کیا. میں نے ان کا کسی طرح بھی مخالفت کیے بغیر ان کے کام میں مدد کی جب میں
پوری طرح ننگے ہو گئی تو مینے پہلے شرما انکل کے اور اس کے بعد كدر انکل کے سارے
کپڑے اتار دئے. میں نے پہلی بار دونوں کی جنس کو دیکھا. دونوں کی جنس اس عمر میں
بھی کسی 30 سال کے نوجوان سے بڑے اور موٹے تازہ تھے. شرما انکل کا جنس تو مکمل طور
پر طعنہ ہوا جھٹکے کھا رہا تھا. ان جنس سے ایک ایک بوںد لاسا نکل رہا تھا. كدر
انکل کا جنس ابھی تک مکمل طور پر کھڑا نہیں ہوا تھا. میں نے دونوں کے جنس اپنے
ہاتھوں سے تھام لئے اور باری باری دونوں کے جنس کے ٹپ کو اپنے ہوںٹھوں سے چوما. ان
جنس کو سہلاتے ہئے مینے نیچے لٹکتے ہوئے ان کی گیندوں کو بھی اپنی مٹھی میں بھر کر
سہلایا. پھر ہم تینو بیڈ روم کی طرف بڑھے گویا ہمارے درمیان پہلے ہی طے ہو کی اب
کیا ہونے والا ہے. بیڈروم میں جا کر میں نے پلنگ پر لیٹ گئی. اپنے ہاتھوں کو اٹھا
کر مینے انہے بلایا. دونوں کود کر بستر پر چڑھ گئے. "ایک ایک کرکے." میں
نے دونوں سے کہا. "ٹھیک ہے" کہتے ہوئے شرما انکل میری ٹانگوں کے درمیان
آ گئے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے میری دونوں ٹانگوں کو پھیلایا. پھر آگے بڑھ کر
جھکتے ہوئے میری یون پر اپنے ہونٹ رکھ دیے. ان کی زبان پہلے میری یون کے اوپر پھري
پھر انہوں نے اپنے ہاتھوں سے میری یون کی پھاںکوں کو الگ کیا اور میری رس ٹپكاتي
ہوئی یون میں اپنی جیبھ ڈال کر اسے چاٹنے لگے. میں اتیجنا میں ان ادھپكے بالوں کو
سختی سے اپنی مٹھی میں بھر کر ان کے منہ کو اپنی شرمگاہ پر دبا رہی تھی. ساتھ ساتھ
اپنی کمر کو اوپر اٹھا کر ان کی زبان کو جتنا اندر تک ہو سکے اتنا اندر گھسا لینا
چاہتی تھی. اس قسم کا جنسی میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا. روہن کے لئے جنسی
بھی ایک طرح سے ایسا کام تھا جسے پوری سنجیدگی سے اپنی عزت میں رہ کر کرنا چاہئے.
جب کی جنسی چیز ہی ایسی ہے کی اس میں جتنی حدود کی خلاف ورزی ہوتی ہے اتنا ہی مزا
آتا ہے. "ااااهه .... م * ممممممممم م ......... اكلييي ....... اووپھوفफ्फूफ्फ.........नहियीईईईई.......म्*म्म्मममममाआआ.........
كيا كاارررر رهيي هووووو
..... چچھوڈڈو ......... مجھييے "اس طرح کی آوازیں میرے منہ سے نکل رہی تھی.
كدر انکل کچھ دیر تک ہم دونو کے کھیل دیکھتے رہے. ان کا جنس پوری طرح تن چکا تھا.
مکمل طور پر تنا ہوا ان کا جنس کافی موٹا اور لمبا تھا. وہ اپنے جنس کو ہاتھوں میں
لے کر سہلا رہے تھے. مجھے ان پر رحم آ گیا اور میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کے جنس کو
اپنے ہاتھوں میں تھام لیا. اب میں اپنے ہاتھوں سے ان کے جنس کو سہلا رہی تھی. میری
آنکھیں اتیجنا سے بند ہو گئی تھی. كدر انکل میرے بوبس کو سہلا رہے تھے. پھر انہوں
نے جھک کر میرے نپل کو اپنے منہ میں بھر لیا اور ہاتھوں سے اس بوب کو مسلتے ہوئے
میرے نپل کو چوسنے لگے. گویا میرے ستن سے دودھ پی رہے ہوں.اچانک میرے بدن میں ایسا
لگا جیسے کسی نے بجلی کا تار چھو لیا دیا ہو. میں زور سے تڑپي اور میری یون سے رس
بہہ نکلا. میں كھللاس ہو کر بستر پر گر پڑی. اب كدر اںکل نے آگے بڑھ کر میرے سر کو
بالوں سے پکڑا اور میرے ہونٹوں پر اپنے جنس کو رگڑنے لگے. "لے منہ کھول اسے
منہ میں لے کر چوس" مینے اپنا منہ کھول دیا اور ان کا موٹا جنس میرے مںہ میں
گھس گیا. میں نے ان کے جنس کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ رکھا تھا جس سے ایک بار میں مکمل
جنس میرے منہ میں نہ ٹھوس دیں. پہلے وہ دھیرے دھیرے اپنے کمر سے دھکے مار رہے تھے
لیکن کچھ ہی دیر میں ان کے دھکوں کی رفتار بڑھتی گئی. وہ اب زور زور سے میرے منہ
میں دھکے لگانے لگے. میرے ہاتھ کو اپنے جنس سے انہوں نے ہٹا دیا جس سے ان کا جنس
جڑ تک میرے منہ میں گھس سکے. ان کا جنس میرے منہ کو پار کرکے میرے گلے کے اندر تک
گھس رہا تھا. لیکن آگے کہیں پھنس جانے کی وجہ سے جنس کا کچھ حصہ باہر ہی رہ رہا
تھا. میں چاہ رہی تھی کی وہ منہ میں ہی كھللاس ہو جائے جس میری یون کو کرنے کے
قابل دم نہیں بچے. لیکن ان کا ارادہ تو کچھ اور ہی تھا. "شرما تو رک کیوں گیا
پھاڑ دے سالی کی چوت." كدر اںکل نے کہا. شرما انکل کچھ دیر سستا چکے تھے سو
اب واپس میری ٹانگوں کے درمیان آ کر انہوں نے اپنے جنس کو میری یون کے چھید پر
سٹايا اور ایک دھکے میں پورے جنس کو جڑ تک اندر ڈال دیا. اپنے جنس کو مکمل اندر
کرکے وہ میرے اوپر لیٹ گئے. ان بالز میری یون کے نیچے گاڑ کے سوراخ کے اوپر ملحق
ہوئے تھے. میں نے ان کے جنس کو اپنی یون میں کافی اندر تک محسوس کیا. كدر انکل
میرے منہ میں اپنا جنس ٹھوس کر دھکے مارنا کچھ وقت کے لئے بھول کر شرما انکل کی
جنس کو میری اندام نہانی کے اندر گھستا ہوا دیکھ رہے تھے. پھر دونو ایک ساتھ دھکے
لگانے لگے. دونوں دو طرف سے زور زور سے دھکے لگا رہے تھے. میرا بدن دونو کے دھکوں
سے درمیان میں آگے پیچھے ہو رہا تھا. کچھ دیر اسی طرح کرنے کے بعد كدر انکل کا جنس
پھولنے لگا. مجھے لگا کی اب ان کا رس نکلنے والا ہی ہے. میں ان کے جنس کو اپنے منہ
سے اگل دینا چاہتی تھی لیکن انہوں نے خود ہی اپنا جنس میرے منہ سے نکال لیا. وو
میرے منہ میں نہیں شاید میری چوت میں اپنا رس ڈالنا چاہتے تھے. دو منٹ اپنے اتیجنا
کو قابو میں کر کے وو شرما انکل کے قریب آئے. "شرما ایسے نہی دونو ایک ساتھ
کریں گے." كدر اںکل نے کہا. "دونوں کیسے کریں گے ایک ساتھ." شرما
اںکل نے میری یون میں ٹھوكتے ہوئے کہا. "میں اس کی گاڑ میں رکھتا ہو اور تو
اس کی چوت پھاڑ" کہہ کر كدر انکل میرے بگل میں لیٹ گئے. شرما انکل نے اپنا
جنس میری یون سے نکال لیا. میں بستر سے اٹھی. مینے دیکھا کی كدر انکل کا موٹا لںڈ
چھت کی طرف تانے ہوئے کھڑا ہے. "آجا میرے اوپر آجا." كدر اںکل نے مجھے
بازو سے پکڑ کر اپنے اوپر کھینچا. میں اٹھ کر ان کے کمر کے دونوں طرف کے پاؤں رکھ
کر بیٹھ گئی. انہوں نے میری دونوں کولہوں کو الگ کر میرے آس ہول کے اوپر اپنا جنس
ٹكايا. "انکل میں نے کبھی اس میں نہیں لیا. بہت درد ہو گا." مینے ان سے
ہلکے سے منع کیا. مجھے معلوم تھا کی میرے منع کرنے پر بھی دونوں میں سے کوئی بھی
پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوگا. مجھے کمر سے پکڑ کر انہوں نے نیچے کھیںچا. لیکن اس
کا جنس تھوڑا بھی اندر نہی گھس پایا. "شرما تیل لے کر آ. سالی اس ہول میں اب
بھی کنواری ہے. کافی ٹائیٹ چھللا ہے." شرما انکل بستر سے اتر کر کچن میں جا
کر ایک تیل کی کٹوری لے آئے. كدر اںکل نے ڈھیر سارا تیل اپنے جنس پر لگایا اور ایک
انگلی سے کچھ تیل میرے مقعد کے اندر بھی لگایا. ایک انگلی جانے سے ہی مجھے درد
ہونے لگا تھا. میں "ااهه" کر اٹھی. واپس انہوں نے میرے دونو چوترو کو
الگ کرکے میرے مقعد دروازے پر اپنا جنس سیٹ کرکے مجھے نیچے کی طرف کھینچا. اس میں
شرما انکل بھی مدد کر رہے تھے. میرے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر مجھے نیچے کی طرف
دھکیل رہے تھے. مجھے لگا مانو میری گدا پھٹ جائے گا. لیکن اس بار بھی ان کا جنس
اندر نہیں جا پایا. اب انہوں نے مجھے اٹھا کر چوپايا بنایا اور پیچھے سے میرے چھید
پر اپنا جنس ٹیکہ کر ایک زور کا دھکا مارا. درد سے میری چیخ نکل گئی. لیکن اس بار
ان جنس کے آگے کا سوپاڑا اندر گھس گیا. مجھے بہت تیز درد ہوا اور میری چیخ نکل
گئی- "ايييييي مااااا مررررررررررررررررر گےييييييييييييييييي"
"مااا ............ اوووپھپھپھپھپھپھپھپھف ...... مااا" میں کراہ اٹھی.
آہستہ آہستہ ان کے جنس میں حرکت آ گئی اور وہ میری گدا کے اندر آگے پیچھے ہونے
لگی. آہستہ آہستہ درد بھی کم ہو گیا. کچھ دیر بعد میں نے اپنے ہاتھ سے چھو کر
دیکھا تو پایا ان کا جنس مکمل میرے ہول میں سما چکا تھا. اب اسی طرح میرے مقعد میں
دھکے مارتے ہوئے انہوں نے میری کمر کو اپنی باہوں میں لیا اور پیچھے کی طرف لڑھک
گئے. آپ کی مقعد میں ان کا جنس لئے-لئے ہی میں ان کے اوپر لیٹ گئی. اب شرما انکل
نے میری ٹانگوں کو اٹھا کر میرے سینے پر موڑ دیا. اس سے میری چوت ان کے سامنے ہو
گی. انہوں نے اب میری چوت کی پھاںکوں کو الگ کرکے میرے اندر اپنا جنس داخل کر دیا.
اب دونوں آگے اور پیچھے سے میرے دونو ہول میں دھکے مارنے لگے. میں ان کے درمیان میں
سڈوچ بنی ہوئی تھی. دونوں اس طرح زیادہ دیر نہیں کر پائے. کچھ ہی دیر میں كدر انکل
نے اپنا رس میری گدا کے اندر ڈال دیا اور نیچے سے نکل کر الگ ہو گئے. اب شرما انکل
ہی صرف دھکے لگا رہے تھے. کافی دیر تک دھکے دینے کے بعد ان کے جنس نے میری یون میں
پچکاری کی طرح رس چھوڑ دیا. ہم تینو اب بستر پر لیٹے لیٹے هاپھ رہے تھے. كدر انکل
اٹھ کر جم سے ٹھنڈے پانی کی کی بوتل نکال کر لے آئے. ہم تینو اپنی اپنی پیاس بجھا
کر تھوڑے ٹھنڈا ہوئے. مگر میں اتنی جلدی ٹھنڈا ہونے والی تھی نہی. میں دونو کے جنس
سہلا کر واپس انہیں اتیجیت کر رہی تھی. دونوں پرسکون پڑے ہوئے تھے.واپس انہیں
اتیجیت کر رہی تھی. دونوں پرسکون پڑے ہوئے تھے. مجھے غصہ تو تب آیا جب میں نے كدر
انکل کے خرراٹو کی آواز سنی. "کیا انکل اتنی جلدی سو گئے کیا." مینے
انہے ہلایا مگر ان کی آنکھ نہیں کھلی. "چل چھوڑ انہے. میں ہوں نا. تو تو میرے
جنس سے کھیل." کہہ کر وہ میرے بوبس کو مسلنے لگے. میں کروٹ بدل کر مکمل طور
پر ان کے بدن کے اوپر لیٹ گئی. میرا سر ان بالوں بھرے سینے پر رکھا ہوا تھا چوچيا
ان کے سینے کی اوپر چپٹی ہو رہی تھی. اور اندام نہانی کے اوپر ان کا جنس تھا. اسی
طرح کچھ دیر ہم لیٹے رہے. پھر میں نے اپنی دونوں کہنی کو موڑ کر ان کے سینے پر
رکھی اور اس کے سہارے اپنے چہرے کو اٹھایا. کچھ دیر تک ہماری نظریں ایک دوسرے میں
کھوئی رہی پھر مینے پوچھا. "اب تو آپ کی مراد پوری ہو گئی؟" مینے پوچھا
"ہاں ... چونکہ آپ اس بلڈنگ میں رہنے آئی ہو میں تو بس تمہیں ہی دیکھتا رہتا
تھا. رات کو تمہاری یاد کر کے کروٹیں بدلتا رہتا تھا. لیکن تم میری بہو کے عمر کی
تھی اس لیے مجھے ہمت نہیں ہو پاتا تھا کہ میں تمہیں کچھ کہوں. ...... مجھے کیا
معلوم تھا کہ گیدڑ کی قسمت میں کبھی انگور کا گچھا ٹوٹ کر بھی گر سکتا ہے. "
"ایک بات بتاو؟ خواب بھی تو اتنی خوبصورت اور سیکسی ہے. اسے چودا ہے
کبھی؟" مینے انہے ان کی پترودھو کے بارے میں پوچھا. "نہی، کبھی موقع ہی
نہیں ملا. ایک بار کوشش کی تھی. لیکن اس نے اتنی کھری کھوٹی سنائی کی میری پوری
گرمی ٹھنڈی ہو گئی. اس نے دیپو سے شکایت کرنے کی دھمکی دی تھی. اس لئے میں نے چپ
رہنا ہی مناسب سمجھا." "بیچاری ... اسے کیا معلوم کہ وہ کیا مس کر رہی
ہے." میں نے ان کے ہلکے ہلکے سے ابھرے نپلس پر اپنی زبان پھراتے ہوئے کہا.
پھر ہم دونو ایک دوسرے کو چومنے چاٹنے لگے. کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے بستر سے
اٹھایا اور اپنے ساتھ لے کر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس گئے. مجھے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے
کھڑا کرکے میرے بدن سے پیچھے کی طرف سے لپٹ گئے. ہم دونو ایک دوسرے میں ہمارے
گوتھے ہوئے عکس دیکھ رہے تھے. مجھے بہت شرم آ رہی تھی. ان کے ہاتھ میرے بوبس کو
مسل رہے تھے، میرے نپلس کو کھینچ رہے تھے، میری یون میں انگلیاں ڈال کر اندر باہر
کر رہے تھے. میں نے محسوس کیا کہ ان کا جنس اب واپس کھڑا ہونے لگا ہے. پھر وہ مجھے
لے کر بستر کے کنارے پر آ کر مجھے جھکا دیا. ان جھکنے سے میں بستر پر سوئے ہوئے
كدر انکل پر جھک گئی تھی. میرے پاؤں زمین پر تھے. پیچھے سے شرما اںکل نے اپنے جنس
کو میرے اندام نہانی کے دروازے پر مقرر کیا. ایک دھکا دیتے ہی ان کا جنس یون میں
گھس گیا. اب تو اندام نہانی میں گھسنے میں اسے کوئی تکلیف نہیں ہوئی. وہ پیچھے سے
دھکے لگانے لگے. ساتھ ساتھ وہ اپنے دونو ہاتھوں سے میرے بوبس کو بھی مسل رہے تھے.
میرا سر كدر انکل کے جنس کے کچھ اوپر ہل رہا تھا. میں نے ایک ہاتھ سے ان کے ڈھیلے
پڑے جنس کو کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کی مگر میرے بہت چوسنے اور سہلانے کے بعد بھی
ان کے جنس میں کوئی جان نہیں آئی. شرما اںکل نے اسی طرح سے کافی دیر تک دھکے مارے.
میرا واپس رس بہہ نکلا. میں نڈھال ہو کر بستر پر گر پڑی. شرما اںکل نے اپنے ہاتھوں
سے پکڑ کر میری کمر کو اپنی طرف کھینچا اور واپس دھکے مارنے لگے. کچھ ہی دیر میں
ان کا بھی رس نکل گیا. ہم واپس بستر پر آ کر سو گئے. صبح سب سے پہلے كدر انکل کی
نیند کھلی. میں نے اپنے جسم پر ان کی کچھ حرکت محسوس کی تو میں نے اپنی آنکھوں کو
تھوڑا سا کھول کر دیکھا کی وہ میری ٹانگوں کو الگ کر کے میری یون کو دیکھ رہے تھے.
میں بغیر حیلے دلے پڑی رہی. کچھ دیر بعد وہ میرے نپلس کو چوسنے لگے. ان چوسے جانے
پر نرم پڑے نپلس دوبارہ کھڑے ہونے لگے. کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر میرے سینے کے دونوں
طرف اپنی ٹاںگے رکھ کر میرے دونو بوبس کے درمیان اپنے جنس کو رکھا پھر میرے دونو
بوبس کو پکڑ کر اپنے جنس کو ان کے درمیان داب لیا پھر اپنے کمر کو آگے پیچھے کرنے
لگے. گویا وہ میری دونو چوچیو کے درمیان فرق نہیں ہوکر میری یون ہو. ان کی حرکتوں
سے مجھے بھی مزا آنے لگا. میں نے بھی پھر سے گرم ہونے لگی. لیکن میں نے اسی طرح سے
پڑے رہنا مناسب سمجھا.کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر میرے دونو ٹانگوں کے درمیان آ گیے. اب
تک ان کے اس موٹے جنس کو مینے اپنی یون میں نہیں لیا تھا. میں ان کے جنس کا اپنی
شرمگاہ میں انتظار کرنے لگی. وہ شاید جان گئے تھے کہ میں جاگ چکی ہوں اس لئے وہ
میری اندام نہانی اور گدا کے اوپر اپنے جنس کو کچھ دیر تک پھراتے رہے. میں ہار مان
کر اپنی کمر میں اضافے لگی. لیکن انہوں نے اپنے جنس کو میری یون سے ہٹا لیا. میں
نے تڑپ کر ان جنس کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر اپنی شرمگاہ میں ڈال لیا. ان جنس کو
لینے ایک بار میں ہلکی سی درديلي چبھن محسوس ہوئی لیکن اس کے بعد ان کے دھکوں سے
تو بس لطف آ گیا. میں بھی ان کا مکمل طور پر تعاون دینے لگی. وو میرے اوپر لیٹ
گئے. ان کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر پھرنے لگے. ان کے منہ سے باسی منہ کی بدبو آ رہی
تھی. لیکن اس وقت اس بدبو کی کسے پرواہ تھی. مجھے تو صرف ان دھکے یاد رہے. کافی
دیر اسی طرح کرنے کے بعد انہوں نے اپنا رس چھوڑ دیا. تب تک شرما انکل بھی اٹھ گئے
تھے. وہ بھی ہم دونو کے ساتھ ہو لئے. شام تک اسی طرح کھیل چلتے رہے. ہم تینو ایک دوسرے
کو شکست دینے کی پوری کوشش میں لگے ہوئے تھے. اس دن ان بوڈھو نے مجھے وہ مزہ دیا
جس کی میں نے کبھی تصور بھی نہیں کی تھی. كدر انکل کے ساتھ پھر تو کبھی سهواس کا
دوبارہ موقع نہیں ملا لیکن جب تک میں اس اپارٹمے ٹ میں رہی اس وقت تک میں شرما
انکل سے چدواتی رہی. آخر دونوں ایک ہی نمبر کے حرامی بوڑھے تھے.
ہم ۔دوست
پانچویں قسط
تم ساری چیزیں بمطابق لسٹ لاۓ ہو یہ سُن کر میں نے شکر ادا کیا اور جانے کے لیۓ مُڑا تو وہ بولی ۔۔ سناؤ کل رات تمھارے ساتھ سُلطانہ کا رویہ
کیسا تھا ۔۔ تو میں نے کہا رُوبی جی حیرت انگیز طور پر کل رات سلطانہ کا رویہ میرے
ساتھ بہت اچھا تھا سُن کر بولی مجھے دعائیں دو بچہ جس نے تمھارا کام ایک دم فٹ کر
دیا ہے پھرکہنے لگی مزے کرو دوست اب سلطانہ تمھارے ساتھ پہلے والی سلطانہ ہو گی-
میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو وہ بولی اس مین شکریہ کی کوئ بات نہیں ۔۔ اس کے
بدلے میں تم نے میرا بھی کام کرنا ہو گا تو میں نے کہا بولیں میں ہر طرح سے حاضر
ہوں تو وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔۔ سُنو تم سلطانہ سے جو مرضی کرو
مجھے اس سے کوئ غرض نہیں ہو گی بلکہ اُلٹا میں تمھاری ہیلپ کروں گی لیکن تم کو
میرے ساتھ دو تین وعدے کرنا ہوں گے تو میں نے پوچھا رُوبی جہ وہ کیا تو وہ کہنے
لگی پہلا وعدہ وہ جو ہر لڑکی لڑکے سے لیتی ہے مطلب یہ بات صرف میرے بیچ رہے گی ۔۔
اور دوسرا وعدہ زرا سخت ہے سوچ لو تم نبھا پاؤ گے تو میں نے کہا آپ پلیز بتاؤ میں
نبھانے کی پوری کوشش کروں گا ۔۔ تو وہ کہنے لگی وعدہ کرو میں تم کو جس ٹائم بھی
بلاؤں تم ہر صورت آؤ گے ۔۔۔ تو میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور بولا
میں ایسا ہی کروں گا ۔۔۔ اور پھر ویاں سے جانے لگا تو اچانک ایک بات میرے زہن میں
آ گئ اور مین نے اس سے کہا روبی جی!! آپ سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں تو وہ بولی ضرور
پوچھو !!! تو میں نےاس سے کہا کہ آج میں دو تین دفعہ آپ کے گھر آیا گیا ہوں اور ہر
دفعہ مجھے کہ آپ کی ماما کچھ اپ سیٹ نظر آئیں ۔۔ اس کی کوئ خاص وجہ ہے کیا ۔۔۔
کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے میرے ساتھ کھبی ایسا بی ہیو نہیں کیا تھا میری بات سُن
کر وہ ہنس پڑی اور بولی واقعی یار آج ماما بڑی اپ سیٹ ہیں تو میں نے اس سے پوچھا
اس کی وجہ کیا ہے تو وہ کہنے لگی وجہ وہی ہے جو میں نے تم کو بتائ تھی پھر خود ہی
بولی ۔۔۔ رات کو پہلے تو ماما میرے ساتھ والی چارپائ پر کروٹیں بدلتی رہیں پھر
مجبور ہو کر ابو کے پاس گئ لیکن میرا خیال ہے ان کا کام نہیں بنا کیونکہ تھوڑی ہی
دیر بعد وہ واپس آگئ تھی اور تب سے وہ کافی اپ سیٹ ہیں ۔۔۔۔ یہ سُن کر کہ آج اس کی
ماما بہت گرم ہیں اور کوشش کے باوجود بھی اس کی چودائ نہیں ہوئ ۔۔۔۔ مجھے ایک دم
ہوشیاری آگئ اور میرے لن نے پینٹ کے اندر ہی ایک زور دار انگڑائ لیکر میرے کان میں
سرگوشی کی اور بولا۔۔۔ موقعہ چنگا تو فائدہ اُٹھا لے مُنڈیا " یہ سوچ ابھی
میرے دماغ میں ابھی آئ ہی تھی کہ اچانک روبی نے اپنے نتھنے سُکیڑنے شروع کیے اور
شکی لہجے میں بولی ۔۔۔ ابھی ابھی مجھے تمھارے جسم سے شہوت انگیز حیوانی بُو کا
بھبکا آیا ہے اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔ اس کی بات سُن میری تو گا نڈ پھٹ کے
گلے میں آ گئ اور ایک دفعہ تو مجھے ایسا لگا کہ میں اس کی ماما کے بارے میں ایسا
ویسا سوچتے ہوۓ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہوں اور مجھے کچھ سمجھ نا آیا کہ میں اس
کی بات کا کیا جواب دوں اسی دوران اچانک میری نظر اس کی نیم عریاں چھاتی پر پڑ گئ
اور پھر ودن نو سکینڈ سارا پلان میرے دماغ میں آ گیا ۔۔ چنانچہ میں نے بڑے ہی پیار
سے اس کی طرف دیکھا اور رومانٹک لہجے میں بولا ۔۔۔ میڈم جی مجھ سے شہوت انگیز
حیوانی بُو کیوں نا آۓ ۔۔۔۔ میں نے آپ کے خوبصورت نیم عریاں بریسٹ جو دیکھ لیۓ ہیں ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کچھ شرما سی گئ اور بولی تم سچ کہہ
رہے ہو نا ۔۔۔؟؟ تو میں نے ڈائیڑیکٹ ان پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا ان حسین مموں کو دیکھ کر تو مُردہ بھی اُٹھ جاۓ میری تو حیثیت ہی کچھ نہیں ۔۔ یہ سُن کر وہ نشیلے سے لہجے میں
بولی ۔۔ چوم نا میرے بریسٹ کو اور میں نے اس کے کھلے گلے والی قمیض کے اوپر سے ہی
اس کے مموں کو چومنا شروع کر دیا ۔۔ اس کے سارے بدن سے ایک سکیسی کلون کی خوشبو آ
رہی تھی ۔۔۔ پھر اس نے میرا سر پکڑ کر اوپر کیا اور بولی ۔۔۔اب میرے ساتھ لپ کسنگ
کرو اور میں نے اس سے کسنگ شروع کر دی ۔۔ کچھ دیر تک وہ مجھ سے اپنے نرم لپ چوسواتی
رہی پھر اچانک اس نے مجھے دھکا کر کر خود سے الگ کیا اور بولی اب تم فوراً یہاں سے
دفعہ ہو جاؤ۔۔ کہ مجھے تیار بھی ہونا ہے اور میں حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے
لگا۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے کسنگ کا کہہ رہی تھی اور اب دفعہ ہونے کا کہہ رہی ہے ۔۔۔
عجیب خبطی لڑکی تھی ۔۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ ۔۔۔ میں نے یہ سوچا اور پھر
بڑا بے مزہ ہو کر اس کے کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔ میں دروازے سے باہر جا ہی رہا
تھا کہ مجھے سامنے سے آنٹی اپنے کمرے کی طرف جاتی نظر آئ ان کو دیکھتے ہی میں نے
پاس چلا گیا اور بڑے ہی تپاک سے ان کو ملا اور پھر اسی پُر جوش لیکن زُو معنی لہجے
میں ان سے پوچھا آنٹی جی آپ نے شادی کے لیۓ کونسا سوٹ بنوایا ہے۔۔ ؟؟ تو وہ بولی کالے شیڈ والا سوٹ ہے ان
کی بات سُن کر میں ان کے بلکل پاس کھڑا ہو گیا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
بڑے ہی معنی خیز لہجے میں بولا ۔۔۔ آنٹی جی آپ کے پاس کالے رنگ کا میچنگ کیچر ہے ؟
اگر نہیں تو میں آپ کو لا دیتا ہوں ۔۔۔ کالا اور موٹا سا کلپ ؟ میری بات سُن کر ان
کی آنکھوں میں ایک لحضے کے لیۓ چمک سی آئ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ نارمل ہو گئ اور سیریس ہو کر
بولی ۔۔۔ تھینک یو بیٹا یہ سب لڑکیوں کے چونچلے ہیں اور اپنے کمرے میں داخل ہو گئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی بات سُن کر میں نے اپنے کندھے اُچکاۓ اور بولا جیسے آپ کی مرضی اور رفیق سے ملے بغیر باہر آ گیا ۔۔
گلی میں آ کر دیکھا تو محلے میں شادی کی رونق شروع ہو گئ تھی لڑکیاں رنگ برنگے
لباس پہنے منہ پر منوں میک اپ کی تہیں چڑھاۓ ملک صاحب کے گھر کی طرف جا رہی تھیں ۔۔۔ میں بھی ادھر کو چلنے
لگا اور راستے میں مجھے ملک صاحب مل گۓ ۔۔۔ دیکھتے ہی بولے شاہ پُتر ۔۔ کوسٹر والے آگۓ ہیں زرا جا کر ان سے چاۓ پانی کا پوچھ آؤ اس سے قبل کہ میں ان کو کوئ جواب دیتا ان کا
بھتیجا جو پاس ہی کھڑا تھا بولا انکل میں نے ان کو چاۓ وغیرہ دے دی ہے یہ سُن کر ملک صاحب نے اس کو شاباش دی اور پھر
میں نے ان سے کہا انکل بارات کب نکلے گی تو وہ کہنے لگے یار میں نے تو صبع کا ٹائم
دیا تھا لیکن کسی نے میری نہیں سُنی تو میں نے کہا آپ سب کو جلدی سے تیار ہونے کا
کہیں ورنہ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ خواتین تو قیامت تک تیار ہوتی رہیں گی میری بات
سُن کر وہ بولے ۔۔۔ کہتے تو تم ٹھیک ہو پھر کہنے لگے اچھا تو میں جا کر ان زنانیوں
میں رولا رپا ڈالتا ہوں اور ان کو جلدی تیار ہونے کا کہتا ہوں اور وہ دوبارہ اپنے
گھر کے اندر چلے گۓ اور میں ان کے دروازے کے پاس ہی کھڑا ہو گیا اور آنے جانے
والوں خاص کر خواتین کو دیکھنے لگا ۔۔۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے محلے کی کافی عورتیں
ان کے گھر میں داخل ہو گئیں ۔۔ کیا زبردست تیاری کی ہوئ تھی ان لیڈیز نے ۔۔۔۔ پھر
میری نظر یاسر کی امی پر پڑی ۔۔۔ واؤو و و ۔۔۔۔ کیا خوش شکل اور حسین عورت تھی ۔۔۔
اس نے حسبِ معمول آستینوں کے بغیر کالے رنگ کا سُوٹ پہن رکھا تھا اور حسبِ معمول
ہی وہ اس میں بڑی شاندار لگ رہی تھی میں اس کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ اتنے میں وہ
میرے پاس آ گئ اور میں نے جھٹ سے ان کو سلام دے مارا اور پھر پوچھا یاسر نہیں آیا
تو وہ کہنے لگی اس کا مُوڈ نہیں بنا ۔۔ تو میں نے ان سے کہا میم یہ سُوٹ بھی آپ پر
بہت جچ رہا ہے میری بات سُن کر وہ دھیرے سے مسکُرائ اور بولی ۔۔۔ میں سب سمجھتی
ہوں کہ تم یہ کیوں کہہ رہے ہو اور پھر ملک صاحب کے گھر کے اندر چلی گئ ۔۔۔ اتنے
میں ملک صاحب گھر سے برآمد ہوۓ ان کے ساتھ گاؤں سے آۓ ہوۓ کچھ بندے بھی تھے مجھے دیکھتے ہی بولے شاہ پتر تم ان بے چاروں
کو تو کوچ میں بٹھاؤ میں زرا زنانیوں کے پیچھے لگ کر ان کا بندوبست کرتا ہوں۔
دیکھو یار ٹائم کیا ہو گیا ہے اور یہ ابھی تک تیار نہیں ہوئیں ہم نے واپس بھی آنا
ہے ملک صاحب بڑبڑاتے ہوۓ دوبارہ اندر چلے گۓ اور میں ان لوگوں کو لیکر مردانہ کوچ میں آ گیا اور ان کے ساتھ
خود بھی کوچ میں بیٹھ کر اس کے چلنے کا انتظار کرنے لگا ملک صاحب کی ان تھک کوششوں
کے بعد بالآخر خواتین تیار ہو کر زنانہ کوچ میں سوار ہو گئیں اور ہماری بارات چل
پڑی اور ہماری بارات کی منزل گوجرانوالہ تھی جہاں سے ہم نے دلہن کو لانا تھا ۔۔
چونکہ میں مردانہ کوچ میں سوار تھا اس لیۓ راستہ آرام سے کٹ گیا اور کوئ خاص واقعہ وقوع پزیر نہ ہوا ۔۔۔
دوپہر 3 کی بجاۓ ہم لوگ شام تقریباً 6 ساڑھے چھ بجے گوجرانوالہ پہنچے اور پھر
شادی ہال تک پہنچتے پہنچتے شام کے سات ، آٹھ بج ہی گۓ تھے اس بات کو بڑے ملک صاحب نے محسوس کر کے دلہن کے گھر والوں
سے معزرت بھی کی جو انہوں نے بڑی خوش دلی سے قبول کر لی ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد دولہا
کا نکاح وغیرہ ہوا اور پھر نکاح کے فوراً بعد دلہن والوں نے روٹی کھول دی ۔ بڑا
اچھا اور مزیدار کھانا تھا ۔ کھانا کھانے کے فوراً بعد دلہن والے دلہا کو لیکر
خواتین کی طرف چلے گے جہاں پر خواتین نے دودھ پلائ ، جوتا چھپائ اور اس قسم کی
رسمیں وغیرہ ادا کرنا تھی میں نے بھی دلہا کے ساتھ نتھی ہونے کی بڑی کوشش کی پر
کامیاب نہ ہو سکا اور دلہا اپنے کزنوں کے ساتھ خواتین کی طرف چلا گیا میں نے ہمت
نہ ہاری اور کسی نہ کسی طرح لیڈیز کی طرف جانا چاہا لیکن کوشش کے باوجود بھی وہاں
نہ جا سکا میں خواتین والے حصے کے آس پاس منڈلا رہا تھا کہ ایک چھوٹا بچہ میرے پاس
آیا اور ایک طرف اشارہ کر کے بولا بھائ جان وہ والی آنٹی آپ کو بُلا رہی ہیں ۔۔۔۔
اب جو میں نے نگاہ اُٹھا کر اس طرف دیکھا تو وہ کوئ اور نہیں رابعہ تھی اسے دیکھ
کر میری باچھیں کھل گئیں اور میں سوچنے لگا یقیناً میڈم میرے لن کا اگلا شکار ہو
گئ اور اس دن والے ادھورے کام کو پورا کرنے کا پروگرام بناۓ گی پھر میں نے سوچا کہ رابعہ کے خاوند کا لن یقینناً میرے لن
سے چھوٹا ہو گا جبھی تو وہ میرے ساتھ پروگرام کرنے کے لیۓ مجھے بُلا رہی ہے اس قسم کی خوش کُن باتیں سوچتے سوچتے میں
جھومتا ہوا رابعہ کے پاس چلا گیا ۔۔ اس وقت ہلکا ہلکا اندھرا چھا رہا تھا وہ لیڈیز
ہال سے باہر سبزے کے پاس کھڑی تھی جہاں اور بھی کافی سارے لوگ ادھر ادھر اپنے
عزیزں سے خوش گپیاں کر رہے تھے سبزے کے پاس ہی چند پچے رنگین غباروں سے کھیل رہے
اور ادھر پنڈال کے اندر سے خواتین کی ہاؤ ہو کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں رابعہ نے
سفید رنگ کا سوٹ پہنا تھا جس پر سبز سی بڑی ہی نفیس کڑھائ ہو ئ تھی جس سے سُوٹ کی
اور ساتھ رابعہ کی بھی شان اور بھی بڑھ گئ تھی اس نے بڑے سلیقے سے ہلکا سا میک اپ
کیا ہوا تھا اس نے اپنے ہاتھوں میں ایک پیارا سا رُومال پکڑا ہوا تھا جس سے وہ بار
بار اپنا پسینہ پونچھ رہی تھی میں اس کے پاس گیا اور جاتے ہی بولا ۔۔ اس دن آپ
بھاگ کیوں گئیں تھیں ؟ اور یہ بتائیں آپ کو میری پرفارمس کیسی لگی تھی ؟ (پرفارمس
سے یہاں مراد میرا لن تھا کہ اس کی لمبائ موٹائ کیسی لگی) جیسے ہی میں اس کا جواب
سننے کے لیۓ خاموش ہوگیا ۔۔۔ ہوا کہ اس کا منہ غصہ سے میری بات سُن کر پتہ
نہیں اس کو کیا لال بھبھوکا ہو گیا اور وہ بظاہر نارمل لیکن کاٹ دار لہجے میں بولی
۔۔۔ ایسی بات کرتے ہوۓ تم کو زرا شرم زرا حیا نہیں آئ؟؟ ۔۔۔ پھرخون خوار لیجے میں
بولی حرام زادے مجھ سے ایسی بات کرنے کی تم کے جرات کیسی ہوئ ؟؟ پھر اسی لجے میں
کہنے لگی شکر کرو اس دن میں چلی گئ تھی ورنہ میں تم کو وہ زلیل کرتی وہ زلیل کرتی
کہ تم محلے میں کسی کو منہ دکھنے کے لائق نہیں رہتے ۔۔۔ پھر پھنکارتے ہوۓ بولی تم کو معلوم ہے کہ تم نے میرے ساتھ کس قدر بے غیرتی کا
کام کیا ہے ؟؟ اور اس کے بعد وہ جو نان سٹاپ شروع ہوئ تو میں کیا بتاؤں دوستو اس
نے تو میری ماں بہن ایک کر دی ویسے عورتوں کے معاملے میں میں گالیاں کھا کر کھبی
بھی بے مزہ نہ ہوا تھا پر اس کے لہجے کی کاٹ اس کا حقارت آمیز لہجا اس کی باتوں کا
انداز ۔۔۔۔ اور اس کی دی ہوئ گالیوں نے تو میرے تن بدن میں آگ لگا دی ۔۔۔ اس نے
اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات کی تھی یعنی گانڈ وہ خود میرے لن کے ساتھ
رگڑتی رہی تھی لیکن اب کمال کی معصوم بن رہی تھی اور اب وہ کس قدر ڈھٹائ سے خود
دودھ کی دُھلی بن کے سارا الذام مجھ پر ڈال رہی تھی ۔۔۔ غصے کے مارے میرا بہت بُرا
حال ہو رہا تھا پر مشکل یہ تھی کہ وہ مجھے کوئ بات کرنے کا موقع ہی نہ دے رہی تھی
وہ میرے پاس تقریباً 10،15 منٹ تک رہی اور نان سٹاپ مغلظات بکتی رہی اس کا لہجہ
بڑا ہی توہین آمیز اور نفرت انگیز تھا اور میں نے اپنی بڑی سخت بے عزتی محسوس کی
تھی میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اس خاتون کو اس قدر دروغ گوئ پر ۔۔۔۔۔ کچھ کر دوں
پھر خیال آتا کہ ہمارے معاشرے کا سیٹ اپ کچھ ایسا ہے کہ لیڈیز ہر حال میں بے گناہ
قرار پاتی ہے یہ سوچ کر میں بڑی ہی بے بسی کے عالم میں اس کی زہر میں بجھی ہوئ
باتیں سُنتا رہا اور پھر جب وہ مجھے باتیں سُنا کر چلی گئ تو میں کافی دیر تک ۔۔۔
غصے میں اُبلتا رہا پھر میں اس حال کے باہر بنے سبزے کے ایک طرف بیٹھ گیا اور اپنی
بےعزتی کے بارے میں سوچتا رہا ۔۔۔۔۔۔ پھر میرے دماغ میں بات آئ کہ غصہ کرنے کا کوئ
فائدہ نہیں لیکن اس خاتون نے جو بےعزتی کی ہے اس کا جواب بھی ضروری ہے پھر میں نے
بڑی مشکل سے اس اپی توہین کو اپنے اندر اس عہد کے بعد جزب کیا کہ اس کی مرضی سے اس
کی ایک دفعہ ضرور لینی ہے ۔کیسے ؟ یہ بعد میں سوچوں گا لیکن اس کو ایک دفعہ چودنا
ضرور ہے ۔۔۔ میں نے اپنے اس فیصلے پر خود ہی ڈن کیا اور پھر کچھ دیر تک مراقبہ میں
بیٹھا اپنا مُوڈ سیٹ کرتا رہا کچھ دیر بعد جب میں کچھ نارمل ہو گیا تو میں وہاں سے
اُٹھا اورشادی حال کی طرف چل پڑا دیکھا تو حال تقریباً خالی تھا بھاگ کر باہر گیا
تو میری نظر بڑے ملک صاحب پر پڑ گئ وہ مجھے دیکھتے ہی بولے ۔۔۔۔ اوۓ کملیا تو کہاں تھا ہم نے تم کو بہت ڈھونڈا پر تم نہ ملے پھر
بولے مردانہ کوچ تو کب کی نکل چکی ہے اور ہماری گاڑی میں بھی جگہ نہیں ہے تم ایسا
کرو کہ ۔۔۔ زنانہ کوچ میں بیٹھ جاؤ پھر انہوں نے مجھے بازو سے پکڑا اور ڈرائیور سے
کہہ کر کوچ کے اندر داخل کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ
کوچ خواتین اور بچوں سے کچھا کھچ بھری ہوئ تھی اور پوری کوچ میں ایک عجیب سی
ہڑبونگ مچی ہوئ تھی اوپر سے ڈرائیور نے فُل سپیڈ میں ریکارڈنگ لگائ ہوئ تھی کچھ
بیبیوں نے اونچی آواز میں گانے لگانے پر اعتراض بھی کیا لیکن ڈریئور نے یہ کہہ کر
سب کو چُپ کرا دیا کہ اگر وہ انچی آواز میں گانے لگا کر نہ سُنے گا تو اسے نیند آ
جاتی ہے اس کی یہ بات سن کر لیڈیز چپ ہو گئیں کہ جان سب کو ہی عزیز ہوتی ہے ۔ ادھر
کوچ میں میرے لیے کوئ جگہ نہ تھی لیکن اس کے سوا کوئ چارہ بھی نہ تھا کہ مردانہ
کوچ تو پہلے ہی جا چکی تھی اور کاروں میں جگہ نہ تھی سو مرتا کیا نہ کرتا دل میں
سوچا چل بھائ جیسے تیسے سفر تو کرنا ہے یہ سوچ کر میں ایک طرف کھڑا ہو گیا اور کوچ
کا سیلنگ ڈندا پکڑ لیا ۔۔۔اور کوچ چل پڑی ۔۔۔ جب کوچ شہر سے نکل کر مین جی ٹی روڈ
پر چڑھی تو کوچ میں سب بیٹھیں خواتین و بچے سیٹ ہو چکے تھے اور اب ان کا ہنگامہ
بھی کافی حد تک ختم ہو گیا تھا چونکہ رات کافی ہو چکی تھی اور ویسے بھی اب واپسی
کا سفر تھا جاتے ہوۓ تو سب لوگ ہی پُرجوش تھے لیکن اب اکا دُکا کے سوا لیڈیز یا تو
اونگھ رہی تھیں یا پھر سو چکی تھیں اور میرے دماغ میں رابعہ گھوم رہی تھی سالی نے
بڑی دبا کے بے عزتی کی تھی جو میں نے اپنے اندر جزب تو کر لی تھی لیکن مجھ سے ہضم
نہ ہو رہی تھی ۔۔۔ اسی لیۓ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ایک نہ ایک دن رابعہ کی پھدی ضرور
ماروں گا ۔۔۔ پر کیسے ؟ یہ سمجھ نہ آ رہی تھی پھر خیال آیا کہ وہ لیڈیز کوچ میں ہو
گی زرا دیکھوں تو لیکن ساتھ ہی یاد آگیا کہ رابعہ ان کی امی اور روبی رابعہ کی
گاڑی میں آئیں تھیں ابھی میں اسی ادھیڑ پن میں مصروف تھا کہ کسی نے میرے کندھے زور
زور سے ہلاۓ میں نے ایک دم چونک کر دیکھا تو وہ کوئ خاتون تھی جو مجھے اپنی
طرف متوجہ پا کر بولی ۔۔۔ وہ یاسر کی امی آپ کو بُلا رہی ہیں ۔۔۔ اب میں نے اس کی
انگلی کی ڈائیڑیکشن کی طرف دیکھا تو آخری سیٹ پر ٖفرح آنٹی کے پیچھے والی سیٹ پر
وہ بیٹھی نظر آئ ۔۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر انہوں نے اشارے سے مجھے اپنے پاس
بُلایا اور جب میں ان کے پاس پہنچا تو بولی شاہ کھڑے کھڑے تھک جاؤ گے بیٹھ جاؤ تو
میں نے کہا کوئ بات نہیں جی میں ایسے ہی ٹھیک ہوں تو وہ کہنے لگی پاگل سفر کافی
لمبا ہے اور تم کافی تھکے ہوۓ لگ رہے ہو پلیز بیٹھ جاؤ ۔۔ ان کی بات سُن کر میں نے ادھر
اُدھر دیکھا تو ساری کوچ فُل نظر آئ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ بات تو آپ کی درست ہے
پر میں بیٹھوں تو کہاں بیٹھوں یہ سُن کر انہوں نے طائرانہ سی نظروں سے پوری کوچ کا
جائزہ لیا اور پھر اپنی چھوٹی بیٹی کو جو کہ ان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہوئ تھی
کو اُٹھایا اور فرح آنٹی جو کہ ان سے آگے والی سیٹ پر بیٹھی تھی کے حوالے کیا اور
مجھ سے بولی تم یہاں بیٹھ جاؤ۔۔۔ اور میں جھجھکتا ہوا ان کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ
گیا میں یاسر کی امی سے تھوڑا ہٹ کر سیٹ کے کونے پر بیٹھا تھا جبکہ ساتھ والی سیٹ
پر وہ تھیں ۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ مجھ سے بولی اتنے سہمے سہمے کیوں بیٹھے ہو درست ہو
کر بیٹھو نا ۔۔۔ تو میں نے پھیکی سی مُسکراہٹ سے کہا نہیں میں بلکل ٹھیک بیٹھا ہوں
۔۔۔ تو وہ کہنے لگی خاک ٹھیک بیٹھے ہو ۔۔ بھر اچانک وہ تھوڑا سائیڈ پر ہو کر بولی
تم اس طرف آ جاؤ اور میں ان کے حکم کی تعمیل میں کوچ کی کھڑکی کی طرف بیٹھ گیا
جبکہ وہ میرے ساتھ بیٹھی تھی چونکہ میرا دھیان ابھی بھی رابعہ کی طرف تھا۔۔۔ میں
اپنی سوچوں میں گُم تھا کہ اچانک سوتے میں یاسر کی امی کا سر میرے کندھوں کے ساتھ
ٹکرایا لیکن فوراً ہی انہوں نے اپنا سر اُٹھا لیا اور مجھ سے معزرت کر کے دوبارہ
سو گئ پھر یہ واردات کافی دفعہ ہوئ ۔۔۔ اس لیۓ پہلے پہل تو اس طرف میرا دھیان ہی نہ گیا تھا لیکن جب یاسر کی
امی چوتھی دفعہ بظاہر نیند میں میرے اوپر گری تو میں چونک گیا اور میرے کان کھڑے
ہو گۓ اور میں ان کی حرکات نوٹ کرنے لگا اور پھر جب مجھے یقین ہو گیا
تو کہ یہ سب ایویں ایویں ہے تو میں بھی ہوشیار ہو گیا ۔۔ پھر کچھ دیر بعد جب وہ
میرے اوپر گری تو اس وقت میں تیار تھا میں نے بھی بظاہر ان کو پکڑنے کے لیۓ اپنا ہاتھ بڑھایا اور ان کو مموں سے پکڑ کر اوپر اٹھا لیا ۔۔
وہ ایک دم جاگی اور مجھ سے بولی کیا کر رہے ہو؟ تو میں نے جواب دیا میں آپ کو گرنے
سے بچا رہا تھا ۔۔۔۔تو وہ بولی لیکن تم نے یہ کا حرکت کی ہے ؟ تو میں نے معصوم
بنتے ہوۓ کہا میں نے بھلا کیا کیا ہے یہ سُن کر وہ ہنس پڑی اور بولی تم
بڑے تیز ہو ۔۔۔ اور پھر سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی اب کی بار کافی دیر ہو گئ لیکن جب
انہوں نے کوئ حرکت نہ کی تو میں خود سوتا بن گیا اور اب کی بار میں ان پر گیا اور
سوتے سوتے دوبارہ ان کا مما پکڑ لیا یہ دیکھ کر وہ میرے پاس کان لا کر بولی مت کرو
کوئ دیکھ لے گا ان کی بات سُن کر میں نے آنکھ کھولی اور میں بھی اپنا منہ ان کے
قریب لے گیا اور قدرے تیز آواز میں ان سے کہا فکر نہ کرو میڈم کوئ بھی نہیں دیکھے
گا اور ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا انہوں نے میرے ہاتھ کو ہٹانے کی کوئ کوشش نہ کی
اور بولی پلیز آہستہ بولو کوئ سُن لے گا تو میں نے ان سے کہا دیکھو میڈم اتنی
اونچی آواز میں گانے لگے ہیں اور آپ کے ساتھ والی مائیوں کے خراٹے بھی کافی اونچی
آواز میں گونج رہے ہیں تو یسے میں ہماری بات چیت کون سُنے گا۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔
اچھا بابا لیکن کوئ دیکھ تو سکتا ہے نہ ؟؟ تو میں نے کہا دیکھیں ہماری پچھلی سیٹ
کو جسے صوفہ کہتے ہیں وہاں پر دلہن کا سامان از قسم اٹیچی وغیرہ پڑے ہیں ہم سے آگے
فرح آنٹی بمعہ آپ کی صاحبزادی بیٹھی ہیں اب اپ بتائیں ایسی صورتِ حال ہم کو کون
دیکھے گا ؟ میری بات سُن کر وہ تھوڑا ڈھیلی پڑ گئ لیکن بولی کچھ نہیں اب میں نے ان
کی خاموشی کو رضامندی سمجھا اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر پھیرنا شروع کر دیا ان کا
ہاتھ بڑا ہی نرم اور مُلائم تھا پھر میں اپنا ہاتھ ان کے اوپر کی طرف لے آیا اور
ان کی آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ ان کی چھاتی پر لے گیا اور جیسے ہی ان کی چھاتی کو
پکڑ کر دبانے لگا انہوں نے فوراً ہی اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا اور میری طرف
دیکھ کر بولی نا کرو پلیز تو میں نے کہا کچھ نہیں کروں گا آپ بس اپنا ہاتھ ہٹا لیں
تو وہ بولی نہیں تم شرارت کرو گے تو میں نے کہا وعدہ کوئ شرارت نہیں کروں گا آپ بس
اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے ہٹا لیں تو وہ آہستہ سے بولی پکی بات ہے نہ کہ تم کوئ
شرارت نہیں کرو گے ؟ تو مین نے کہا پکی ٹیٹ بات ہے میں کوئ شرارت نہیں کروں گا بس
آپ کے شاندار ۔۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ پر ہاتھ رکھوں گا تو وہ بولی یاد رکھنا کوئ شرارت نہیں
چلے گی اور اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا دیا
اب میں نے اپنا
ہاتھ ان کے ایک ممے پر رکھے رکھا اور مزید کوئ حرکت نہ کی جب ان کو یقین ہو گیا تو
میں نے ان کے کھلے گلے میں ہاتھ ڈالا اور برا کے اندر سے ممے پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔
اس دفعہ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھنے کی کوشش کی لیکن میں نے اپنے
دوسرے ہاتھ سے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا کرنے دیں نا پلیز۔۔ !!اور ان کے ننگے
ممے پر ہاتھ پھیرنے لگا خلافِ توقعہ ان کا مما کافی سخت تھا لیکن میں اسے ہلکےہلکے
دباتا رہا اور اس کے ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے ان کا ہاتھ پکڑے رکھا جس سے وہ مزاحمت
کی کوشش کر رہی تھیں پھر میں اپنا ہاتھ ان کی نپل پر لے گیا اور اس کو اپنی دو
انگلیوں میں لے کر مسلنے لگا آہ ۔۔اس وقت ان کا نپل کافی پھولا ہوا اور کھڑا تھا
اب میں اپنے ناخن سے ہولے ہولے ان کا نپل کھرچنے لگا ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی یاسر کی
امی نے ایک لزت آمیز سسکی لی اور میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ہ۔۔۔ ہ۔۔ہ نہ
کرو نا۔۔۔ لیکن میں نے ان کے نپل کے موٹے سرے کو اپنے ناخن سے کُھرچنا جاری رکھا
اب ان کے ہاتھ کی مزاحمت دم توڑ چکی تھی اور وہ ہلکہ ہلکہ لزت آمیز کراہ رہی تھی
اُف۔ف۔ف۔فف۔۔۔۔۔ ان کو سیکس کا نشہ چڑھ رہا تھا پھر وہ اپنی سیٹ سے تھوڑا اُٹھی
اور میرے ساتھ جُڑ کر بیٹھ گئ اور بولی ۔۔۔۔ مجھے کیوں گرم کر رہے ہو ؟؟ تو میں نے
کہا میڈم جی میں بھی تو گرم ہو رہا ہوں نا پھر میری نظر ان کی ہوٹوں پر پڑی واہ
کیا شاندار ہونٹ تھے سو میں ان کی طرف جھک گیا اور کہا میڈم جی میں آپ کے ہونٹ چوم
سکتا ہوں میری بات سُن کر وہ یک دم گھبرا گیا ور بولی ۔۔۔۔۔ نہ نہ بابا میں یہ رسک
ہر گز نہیں لے سکتی ۔۔۔۔ اور فوراً ہی اپنے دونون ہاتھ جوڑ کر سامنے والی سیٹ کی
پشت پر رکھے اور پھر اپنا سر وہاں چھپا لیا ۔۔۔ انہوں نے جب دونوں ہاتھوں میں سر
چھپا کر سیٹ کی پشت سے لگا لیا تو میری نظر ان کے خوبصورت اور عریاں کندھوں پر پڑی
۔۔۔ واہ۔۔۔۔ بغیر آستین کے ننگے کندھے کالی قمیض میں بڑے ہی سیکسی لگ رہے تھے ۔۔۔
یہ دیکھ کر میں نے بھی اپنا منہ بیک سیٹ پر ٹکایا اور پھر بڑے آرام سے ان کا دوپٹہ
ایک طرف کر کے اپنے ہونٹوں کو ان کے ننگے کندھے پر رکھ دیا ۔۔۔۔ اور اس کو چومنے
لگا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی میرے ہونٹ ان کے عریاں کندھے سے ٹکراۓ ۔۔ انہوں نے ایک جُھرجُھری سی لی اور اس کے ساتھ ہی ان کے جسم
کے رونگٹے کھڑے ہو گۓ اہنوں نے پتہ نہیں کون سا باڈی لوشن لگایا ہوا تھا کہ ایک دفعہ
جب میرے ہونٹ ان کے ننگے کندھے سے چپکے تو پھر چپکے ہی رہے ۔۔۔ ادھر وہ لزت کے
مارے ہلکی آواز میں کراہ رہی تھیں لیکن وہ اپنے کندھے مزید میرے منہ کے ساتھ جوڑ
رہی تھی ۔۔۔ ننگے کندھوں کو کچھ دیر تک چومنے کے بعد میں نے اپنی زبان نکالی اور
ان کو چاٹنے لگا میرا خیال ہے میرا یہ عمل ان کی لیۓ کافی ناقابلِ برداشت تھا اسی لیۓ انہوں نے بے اختیار ایک چیخ ماری ہی تھی کہ میں نے پھرتی سے ان
کے منہ آگے اپنا ہاتھ رکھ دیا اور ان کے کندھوں کو چاٹنے لگا ۔۔۔ ان کے رونگٹے تو
پہلے سے ہی کھڑے تھے اب وہ میرے ہونٹوں کے نیچے باقاعدہ کِسمسا رہی تھیں ان کے منہ
سے سسکیوں کا سیلاب نکلنے کو مچل رہا تھا پر میں نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا
تھا ۔۔۔ پھر میں نے ان کے کندھے چاٹنے کا عمل تھوڑی دیر کے لیۓ موقوف کر دیا اور اپنا ہاتھ جو ان کے منہ پر رکھا ہوا تھا
تھوڑا ڈھیلا کر دیا اور اپنی درمیانی انگلی ان کے ہونٹون پر پھیرنے لگا ۔۔ ان کے
ہونٹ بڑے ہی نرم تھے اور میرے انگلی کی پور ان کے ہونٹوں کے گرد گھوم رہی تھی
انگلی کو کچھ دیر تک گھومانے کے بعد میں نے اسے ان کے منہ میں داخل کر دیا اور
انہوں نے بھیاپنا منہ کھول لیا اور اپنے ہونٹ جوڑ لیے اور میری انگلی کو لن سمجھ
کر چوسنے لگی اور پھر اپنی زبان میری انگلی گرد پھیرنے لگی اس وقت وہ بڑی موج میں
اور سیکسی لگ رہی تھی اور وہ میرے درمیانی انگلی کو نیچے سے اوپر تک چاٹ رہی تھی
چوس رہی تھی ۔۔ اور مجھے بڑا مزہ آ رہا تھا پھر میں ان کی طرف جھکا اور سرگوشی میں
بولا میڈم آپ لن چوستی ہو ؟ تو انہوں نے زبان نکال کر میری انگلی کو نیچے سے اوپر
تک چاٹتے ہوۓ سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا تو میں نے ایک دفعہ اور ان کی طرف
جھک گیا اور سرگوشی میں بولا آپ کے چوسنے کے سٹائل سے لگتا ہے کہ آپ چوس چوس کر لن
کو پاگل کر دیتی ہو گی تو انہوں نے میری انگلی اپنے گرم منہ سے نکالی اور دھیرے سے
بولی میں لن کو پاگل نہیں کرتی بلکہ پاگلوں کی طرح لن چوستی ہوں اور دوبارہ میری
انگلی اپنے منہ میں لے لی اور اسے چوسنے لگی پھر کچھ دیر بعد انہوں نے میری انگلی
اپنے منہ سے نکالی اور بولی ۔۔۔ اب تم پھر سے ویسے ہی میرے کندھے چومو اور دوبارہ
انہوں نے اپنا سر سامنے ولی سیٹ کے بیک سے لگا لیا ۔۔۔ اب میں نے ان کے اپنے دونوں
ہونٹ جوڑے اور ان کے ننگے کندھوں کو چومنے لگا ۔۔ اسکے کچھ دیر بعد میں نے اپنی
زبان نکالی اور برش کر طرح ان کے ننگے کندھوں پر پھیرنے لگا میرے اس عمل سے وہ ایک
بار پھر میرے زبان کے نیچے کِسمسائیں اور ننگے کندھے مزید میری زبان کے ساتھ جوڑ
دیۓ ۔۔ اور پہلے تو ہلکہ ہلکہ کراہیں پھر جب زور سے کراہنا شروع ہی
کیا تھا کہ میں نے دوبارہ ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کندھوں کے ساتھ ساتھ ان
کے سیکسی آرم پٹ کو بھی چاٹنے لگا اب یہ حملہ ان کے لیۓ شاید ناقابلِ برداشت تھا کیونکہ سسکیوں اور آہوں کا طوفان ان
کے منہ سے نکلنے کو بے تاب تھا لیکن ان کے منہ کے آگے میرا ہاتھ ہونے کی وجہ سے یہ
سب دبی دبی سسکیوں میں ڈھل رہا تھا پھر کچھ دیر بعد ان کو کافی حد سانس چڑھ گیا
اور وہ میرے ہونٹوں کے نیچے بری طرح مچلنے لگی اور ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ان
پر ترس آ گیا اور میں نے اپنے ہونٹ وہاں سے ہٹا لیۓ ۔۔۔ اور پھر ان کے منہ سے بھی ہاتھ ہٹا لیا جیسے ہی میرا ہاتھ
ان کے منہ سے ہٹا وہ ہانپنے لگی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی کچھہ دیر بعد جب ان
کے سانس بحال ہوۓ تو وہ میری طرف دیکھ کر ہولے سے رومانٹک انداز بولی ۔۔۔۔۔ بڑے
وہ ہو تم اگر تم تھوڑی دیر اور اپنا ہاتھ اور ہونٹ نہ ہٹاتے تو میں تو مر ہی گئ
تھی یہ سُن کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ اب کس دو گی یا پھر رکھوں اپنے ہونٹ وہاں پر
۔۔۔ یہ سُن کر وہ قدرے ہنس کر بولی نہ بابا ایسا نہ کرنا اور اپنا سر بیک سیٹ کے
نیچے کر لیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں اب مین اپنی سیٹ سے تھوڑا سا پرے ہوا اور
اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر کے اپنا منہ ان کے منہ کے قریب لے گیا اور ان کے ہونٹون پر
اپنے ہونٹ رکھ دییۓ ان کے منہ سے تیز گرم سانس نکل رہی تھی اور ان کے ہونٹ بڑے نرم
تھے سو میں نے ان کے نیچے والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔ کچھ
دیر ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں ڈال دی اور ان کے منہ میں
گھومانے لگا فوراً ہی انہون نے بھی اپنی زبان میرے آگے کر دی اور میں نے ان کے
زبان کو اپنی زبان سے ٹچ کرنے لگا مزہ لینے لگا بلا شبہ ان کے زبان کا زائقہ بڑا
ہی مست تھا پھر کافی دیر تک ہم ایسے ہی اپنی زبانیں لڑاتے رہے ۔۔۔ پھر اس نے اپنا
منہ میرے منہ سے ہٹا لیا اور بولی بس۔۔۔ لیکن میں کہاں بس کرنے والا تھا سو میں نے
اس دفعہ اپنا ہاتھ ان کے بغیر آستین کے قمیض میں ڈالا اور ایک دفعہ پھر ان کا مما
پکڑ کر دبانے لگا اس دفعہ ان کا مما کافی سخت اور نپل پہلے سے زیادہ اکڑے ہوۓ تھے ۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا دیا اور ان
کی تھائ پر رکھ دیا میرا ہاتھ اپنی تھائ پر فیل کرتے ہی انہوں نے اپنی دونوں
ٹانگیں تھوڑی اور کھول دیں اور اپنے چڈے چوڑے کر کے بیٹھ گئیں ۔۔ اب میں اپنی
انگلی ان کی چوت کی لکیر پر لے گیا واؤ ؤؤؤؤ۔۔۔۔۔ ان کی شلوار کافی گیلی تھی اور
ان کی چوت کے لبوں سے چپکی ہوئ تھی۔۔ اسکے کچھ دیر بعد میں نے اپنی زبان نکالی اور
برش کر طرح ان کے ننگے کندھوں پر پھیرنے لگا میرے اس عمل سے وہ ایک بار پھر میرے
زبان کے نیچے کِسمسائیں اور ننگے کندھے مزید میری زبان کے ساتھ جوڑ دیۓ ۔۔ اور پہلے تو ہلکہ ہلکہ کراہیں پھر جب زور سے کراہنا شروع ہی
کیا تھا کہ میں نے دوبارہ ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کندھوں کے ساتھ ساتھ ان
کے سیکسی آرم پٹ کو بھی چاٹنے لگا اب یہ حملہ ان کے لیۓ شاید ناقابلِ برداشت تھا کیونکہ سسکیوں اور آہوں کا طوفان ان
کے منہ سے نکلنے کو بے تاب تھا لیکن ان کے منہ کے آگے میرا ہاتھ ہونے کی وجہ سے یہ
سب دبی دبی سسکیوں میں ڈھل رہا تھا پھر کچھ دیر بعد ان کو کافی حد سانس چڑھ گیا
اور وہ میرے ہونٹوں کے نیچے بری طرح مچلنے لگی اور ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ان
پر ترس آ گیا اور میں نے اپنے ہونٹ وہاں سے ہٹا لیۓ ۔۔۔ اور پھر ان کے منہ سے بھی ہاتھ ہٹا لیا جیسے ہی میرا ہاتھ
ان کے منہ سے ہٹا وہ ہانپنے لگی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی کچھہ دیر بعد جب ان
کے سانس بحال ہوۓ تو وہ میری طرف دیکھ کر ہولے سے رومانٹک انداز بولی ۔۔۔۔۔ بڑے
وہ ہو تم اگر تم تھوڑی دیر اور اپنا ہاتھ اور ہونٹ نہ ہٹاتے تو میں تو مر ہی گئ
تھی یہ سُن کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ اب کس دو گی یا پھر رکھوں اپنے ہونٹ وہاں پر
۔۔۔ یہ سُن کر وہ قدرے ہنس کر بولی نہ بابا ایسا نہ کرنا اور اپنا سر بیک سیٹ کے
نیچے کر لیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں اب مین اپنی سیٹ سے تھوڑا سا پرے ہوا اور
اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر کے اپنا منہ ان کے منہ کے قریب لے گیا اور ان کے ہونٹون پر
اپنے ہونٹ رکھ دییۓ ان کے منہ سے تیز گرم سانس نکل رہی تھی اور ان کے ہونٹ بڑے نرم
تھے سو میں نے ان کے نیچے والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔ کچھ
دیر ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں ڈال دی اور ان کے منہ میں
گھومانے لگا فوراً ہی انہون نے بھی اپنی زبان میرے آگے کر دی اور میں نے ان کے
زبان کو اپنی زبان سے ٹچ کرنے لگا مزہ لینے لگا بلا شبہ ان کے زبان کا زائقہ بڑا
ہی مست تھا پھر کافی دیر تک ہم ایسے ہی اپنی زبانیں لڑاتے رہے ۔۔۔ پھر اس نے اپنا
منہ میرے منہ سے ہٹا لیا اور بولی بس۔۔۔ لیکن میں کہاں بس کرنے والا تھا سو میں نے
اس دفعہ اپنا ہاتھ ان کے بغیر آستین کے قمیض میں ڈالا اور ایک دفعہ پھر ان کا مما
پکڑ کر دبانے لگا اس دفعہ ان کا مما کافی سخت اور نپل پہلے سے زیادہ اکڑے ہوۓ تھے ۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا دیا اور
ان کی تھائ پر رکھ دیا میرا ہاتھ اپنی تھائ پر فیل کرتے ہی انہوں نے اپنی دونوں
ٹانگیں تھوڑی اور کھول دیں اور اپنے چڈے چوڑے کر کے بیٹھ گئیں ۔۔ اب میں اپنی
انگلی ان کی چوت کی لکیر پر لے گیا واؤ ؤؤؤؤ۔۔۔۔۔ ان کی شلوار کافی گیلی تھی اور
ان کی چوت کے لبوں سے چپکی ہوئ تھی۔۔ میں کافی دیر تک اپنی انگلی ان کی چوت کی
گیلی لکیر میں پھیرتا رہا اور اس کو مزید گیلا کر دیا پھر میں نے شلوار کے اوپر سے
ہی اپنی انگلی ان کی چوت کے اندر لے جانے کی کوشش کی لیکن شلوار گیلی ہونے کی وجہ
سے انگلی چوت میں زیادہ اندر تک نہ جا سکی پھر میں نے اپنی انگلی وہاں سے ہٹا لی
۔۔۔ اور اپنا ہاتھ ان کی شلوار کے اوپر لے گیا اور پھر ان کا آزار بند کھولنے کی
کوشش کرنے لگا لیکن خوش قسمتی سے ان کی شلوار میں آزار بند نہ تھا بلکہ آلاسٹک تھا
سو میں نے اپنا ہاتھ ان کی شلوار میں ڈالا اور ان سے اپنی ٹانگیں مزید کھولنے کو
کہا یہ سُن کر انہوں نے اپنی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا دی اور اپنی ٹانگوں کو مزید کھول
دیا ۔ اب میں نے اپنی انگلی ان کی چوت کےموٹے موٹے لبوں پر پھیرنے لگا اور پھر وہ
انگلی ان کی چوت میں داخل کر دی ۔۔۔ اُف ان کی چوت بڑی ہی گرم اور پانی سے بھری
ہوئ تھی اور ان کی چوت کا پانی بھی کافی گرم تھا اب میں ان کی طرف جھکا اور ان کے
کان میں کہا ۔۔۔ میڈم آپ کی چوت اور اس کا پانی دونوں بہت گرم ہیں ۔۔۔۔ تو وہ مست
آواز میں بولی ہاں میری چوت گرم اور اس کا پانی اُبل رہا ہے ۔۔۔ تم پلیز اپنی
انگلی تھوڑی اور آگے لے جاؤ نا ۔۔۔ اور میں اپنی انگلی ان کی چوت کی گہرائ تک لے
گیا اور پھر اس کو ان کی گرم چوت میں ان آؤٹ کرنے لگا ۔۔۔ ان کی پانی سے بھری ہوئ
چوت کافی مست تھی میں کافی دیر تک اپنی سنگل انگلی سے ان کی چوت میں ان آؤٹ کرتا
پھر وہ کہنے لگی ڈالنگ میرا ایک سے گزارا نہیں ہو رہا کم از کم دو تو ڈالو نہ ۔۔۔
پھر میں نے ان کی گرم چوت میں اپنی دو انگلیاں ڈالیں اور ان کو چوت میں ہی ہلانے
لگا کچھ دیر بعد ہی انہون نے میرا بازو مضبوطی سے پکڑا اور جھٹکے لےلے کر چھوٹنے
لگی ان کی چوت پہلے ہی پانی سے بھری ہوئ تھی اب اور بھی پانی جمع ہونے سے ان کی
چوت میں منی کا تالاب سا بن گیا تھا پھر میں نے اپنی وہ انگلیاں ان کی چوت سے باہر
نکالیں اور ان کی چوت کی منی سے لتھڑی انگلیاں ان کے ہونٹوں پر رکھ کر پھیرنے لگا
انہوں نے فوراً اپنا منہ کھولا اور اپنی انگلیاں منہ میں لے لیں اور بڑے اشتیاق سے
میری انگلیوں پر لگی اپنی چوت کی منی کو چاٹنے لگی جب میری انگلیاں بلکل صاف ہو
گئیں تو انہوں نے ایک دفعہ پھر دونوں انگلیوں کو اپنے منہ میں ڈالا اور پھر لن کی
طرح چوسنے لگیں کچھ دیر چوسنے کے بعد مجھ سے بولیں مزہ آیا ۔۔ ؟ تو میں نے کہا جی
میڈم آپ میں تو مزہ ہی مزہ ہے اس کے ساتھ ہی میں نے ایک دفعہ پھر دونوں انگلیاں ان
کی چوت میں ڈالیں اور ان کی چوت کے پانی میں اچھی طرح گھومائیں جب ان کی چوت کے
پانی سے میری انگلیاں اچھی طرح لتھڑ گیئں تو میں نے وہ انگلیاں ان کی چوت سے باہر
نکالیں اور دوبارہ ان کے منہ میں دینے کی کوشش کی تو انہوں نے راستے میں ہی میرا
ہاتھ پکڑ لیا اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر میرے منہ کی طر ف لے گھیں اور بولیں ہر
دفعہ میری منی مجھے ہی نہ چٹواؤ نا کچھ تم خود بھی اس کا زائقہ چھکو نا ۔۔۔ اور یہ
کہتے ہوے انہوں نے میری انگلیاں میرے منہ میں ڈال دیں ۔۔۔۔ واؤوو۔۔۔۔۔ ان کی منی
سے بھینی بھینی مست بُو آ رہی تھی اور پھر میں نے بھی اپنی انگلیوں پر لگا ہوا ان
کی چوت کا سارا پانی چاٹ کر اپنی انگلیاں صاف کر لیں ۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ بولی یہ
ہوئ نہ بات ۔ پھر مجھ سے پوچھا کیسا لگا میری منی کا زائقہ تو میں نے کہا ایک دم
مست ۔۔۔ تو وہ بھرائ ہوئ سیکسی آواز میں بولی میری ہر چیز کا زائقہ بڑا رِچ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ دیا ۔۔۔ کیونکہ
میرا لن بھی کافی زیادہ اکڑ چکا تھا اور پینٹ سے باہر آنے کو سخت بے قرار تھا ۔۔۔۔
اس بار انہوں نے زرا بھی مزاحمت نہ کی اور پینٹ کے اوپر سے ہی میرا لن پکڑ لیا
اوراسے اپنے ہاتھ میں لے کر ماپنے لگی پھر میری طرف جھک کر سیکس سے چُور نشے میں
بولی ۔۔۔ تمھارا لن تو کافی بڑا ہے ڈارلنگ ۔۔۔ اور مضبوط بھی ہے اس کو پکڑ کر مزہ
آ گیا ہے ۔۔۔ اور اس کو اپنے ہاتھ میں لیکر آہستہ آہستہ دبانے لگیں اِدھر میں ان
کے اکڑے ہوۓ نپل دبا رہا تھا اُدھر وہ میرا لن دبا رہی تھیں پھر اہنوں لن
دباتے دباتے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ میں اسے پینٹ سے باہر نکال لُوں ؟ اور
پھر خود ہی انہوں نے میری پینٹ کی زپ کھولی اور لن باہر نکال لیا جیسے ہی لن
چھومتا ہوا پینٹ سے باہر آیا انہوں نے اسے پکڑ لیا اور پھر وہ میرے ٹوپے کو بڑے
غور سے دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ تمھارے لن کا ہیڈ توبہت موٹا ہے ۔۔۔۔۔۔ چھوٹی موٹی ۔۔۔۔۔
چوت کا تو یہ بُرا حال کر دیتا ہو گا ۔۔۔۔ یہ کہا اور پھر لن کو اپنی مُٹھی میں کر
مسلنے لگی جبکہ میں آنکھیں بند کیۓ ان کی نرم ہتھیلی کا لمس اپنے لن پر محسوس کرتا رہا ۔۔ لن
مسلنے کے دوران اچانک وہ میری طرف جھکی اور بولی ۔۔ وہ ۔۔۔وہ کوچ کا ڈرائیور کافی
دیر سے مجھے اپنی لال لال آنکھوں سے مسلسل گھور رہا ہے ان کی بات سن کر میں چونک
گیا اور اپنی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا تو۔۔ تو واقعی ڈرائیور اپنے چھت والے
شیشے کی مدد سے ہم کو گھور رہا تھا اور وہ شکل سے ہی حرامی لگ رہا تھا ۔