سوتی ہوئی کزن
یہ ایک سچی کہانی ہے جسے میں نے ایک ڈرامائی انداز میں پیش کرنے کی
کوشش کی ہے. امید ہے آپکو پسند آے گی میٹرک کے پیپر دینے کے بعد میں فری تھا اور
ابھی سواے آرام اور سیر و تفریح کے میں اور کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا . لیکن مجے
فارغ دیکھ کر گھر والوں کو سب کام مجھ سے ہی کرانا یاد آتے تھے. کبھی سبزی لا دو
تو کبھی دودھ ختم ہو گیا ہے. گرمیاں بھی اپنے عروج پر تھیں اور اوپر سے رہی سہی
کسر لوڈ شیدڈنگ نے پوری کی ہوئی تھی. میں نے جو جو سوچا ہوا تھا ویسا کچھ بھی نہیں
ہو رہا تھا اور یہ فارغ وقت گزارنا زیادہ مشکل لگ رہا تھا. دوستوں کے ساتھ کچھ سیر
و تفریح کا پروگرام بنایا لیکن سب کی کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے وہ بھی نہ بن
سکا. ایک دن اماں نے مجھے کہا اپنی خالہ کی طرف چلے جاؤ میں نے کچھ چیزیں بھجوانی
ہیں اور ویسے بھی تمہاری خالہ اتنی بار تمہیں آنے کا کہ چکی ہیں لیکن تم ہو کہ
جاتے ہی نہیں ہو. میری خالہ گجرات میں رہتی تھی اور مجھے وہاں جانا کبھی بھی اتنا
پسند نہیں تھا اس لئے لئے پچھلے 3 - 4 سال سے میں ان کی طرف گیا ہی نہیں تھا. شاید
ویسے تو میں انکار کر دیتا لیکن میں نے سوچا موجودہ حالات میں چلو یہی تفریح سہی.
دو دن کے بعد میں خالہ کے گھر کے لئے روانہ ہو گیا. خالہ کا گھر گجرات کے ایک
گنجان محلے میں تھا. خالہ مجھےدیکھ کر بہت خوش ہوئی اور میری خوب خاطر کی. خالہ کے
2 بچے تھے بڑی بیٹی مہوش جو کہ مجھ سے 3 - 4 چھوٹی ہو گی اور ایک بیٹا جو کہ چھ
سات سال کا تھا. دونوں بچے اسکول گئے ہوے تھے اور خالو بھی گھر پر نہیں تھے. خالہ
نے بتایا کہ تمھارے خالو کا ایک دوسرے شہر میں تبادلہ ہو گیا ہے اس لئے وہ صرف
ہفتہ اور اتوار کو ہی آتے ہیں. کھانے پینے سے فارغ ہو کر میں وقت گزاری کے لئے چھت
پر چلا گیا. چھت پر کافی کھلا صحن اور ایک طرف 2 کمرے تھے جس میں سے ایک کو اسٹور
بنایا ہوا تھا اور دوسرے کمرے کی حالت سے لگتا تھا کہ اس کو کبھی کبھار سونے کے
لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے. اس کمرے کے درمیان میں ایک چھوٹا سا پلنگ بچھا ہوا
تھا اور اس پلنگ کے دونو اطراف فرشی بستر لگے ہویے تھے. صحن کے ایک طرف ایک چھوٹا
سا واش روم تھا جس کی حالت سے لگتا تھا کہ وہ بہت کم استعمال ہوتا ہے. میں نے چھت
کی دیواروں سے ارد گرد تانکا جھانکی کر کے ماحول کا جائزہ لیا لیکن کوئی انٹرسٹنگ
چیز نظر نہیں آئی. میں نیچے آ کر خالہ سے باتوں میں مصروف ہو گیا.تھوڑی دیر کے بعد
باہر کا دروازہ کھلا اور سفید اسکول یونیفارم میں ملبوس ایک گوری چٹی اور خوبصورت
لڑکی گھر میں داخل ہوئی. اس کے آنے کے انداز سے مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ خالہ کی
بیٹی مہوش ہی ہے. اگر کہیں اور دیکھا ہوتا تو شاید نہ پہچان سکتا کیوں کہ وہ بلکل
بدل چکی تھی. رنگت میں دودھ جیسی سفیدی، بے داغ چہرہ، لمبے گھنے بال جن کو اس نے
چٹیا کی صورت میں با ندھا ہوا تھا. دھوپ کی وجہ سے اس کے سفید رنگ میں سرخی آ رہی
تھی جسم کے خدوخال اس کی جوانی کے شروعات کا ثبوت دے رہے تھے. اس نے آ کر سرسری سا
سلام کیا جس کا میں نے پر تپاک انداز میں جواب دیا لیکن اس نے کوئی خاص پیش رفت
نہیں دکھائی اور اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی. کپڑے بدلنے اور کھانا کھانے کے بعد وہ
اپنی کتابیں کھول کر پڑھائی میں مصروف ہو گئی. میں اس سے پڑھائی کی باتیں کرنے لگ
گیا. وہ صرف میری باتوں کا بے رخی سے جواب دے رہی تھی اس کے علاوہ اور کوئی بات
نہیں کر رہی تھی. میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ نویں جماعت میں پڑھ رہی ہے اور
آج کل اس کے اسکول میں ماہانہ ٹیسٹ چل رہے ہیں. میں خالہ اور ان کےبیٹے سے باتوں
میں لگ گیا لیکن میرا ذہن بار بار مہوش کی طرف ہی جا رہا تھا وہ مجے جتنا اگنور کر
رہی میں اتنا ہی اس کے پاس جانے کے لئے بہانے تلاش کر رہا تھا. میرے ذہن میں اس کے
بارے میں کوئی غلط سوچ نہیں تھی لیکن میں اس کی طرف اٹراکٹ ہو رہا تھا اور چاہتا
تھا کہ وہ مجھ سے بات کرے لیکن وہ اپنی پڑھائی میں مگن تھی اور ایسے شو کر رہی تھی
جیسے میں وہاں موجود ہی نہ ہوں. رات کو سب لوگ چھت پر سوتے تھے مجے بھی خالہ نے
ایک سائیڈ پر چارپائی پر بستر بچھا کر دیا وہ مجھ سے کافی دور خالہ کے قریب والی
چارپائی پر سو رہی تھی. سب سو چکے تھے لیکن میں اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا. میں
گھر سے تو صرف 2 دن ہی خالہ کے گھر رہنے کا سوچ کر آیا تھا لیکن اب میرا مہوش کی
وجہ سے جانے کا دل نہیں کر رہا تھا. سب لوگ سو چکے تھے اور میں لیٹا ہوا دور سے
مہوش کو دیکھ رہا تھا جو کہ رات کے اندھیرے میں مجے نظر تو نہیں آ رہی تھی لیکن
پھر بھی اس کی طرف دیکھ کر مجھے عجیب سکون مل رہا تھا. نہ جانے رات کے کس پہر مجھے
نیند آئی صبح خالہ کے جگانے پر آنکھ کھلی تو میں نے سب سے پہلے مہوش کو دیکھا لیکن
تب تک وہ شائد اسکول جا چکی تھی. سارا دن اس کی واپسی کا انتظار کرتا رہا لیکن
واپس آ کر اس نے اسی بے رخی کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنی کل والی روٹین جاری رکھی. میں
جواد ( خالہ کا بیٹا ) کے ساتھ بازار گیا اور اس کو کچھ چیزیں لے کر دیں وہاں سے
مہوش کے لئے بھی ایک چاکلیٹ لی. گھر آ کر میں نے اس کو چاکلیٹ دی لیکن اس نے یہ کہ
کر انکار کر دیا کہ مجھے چاکلیٹ پسند نہیں ہیں اور دوبارہ اپنی پڑھائی میں مصروف
ہو گئی.وہ مجھ سے جتنا اجنبیوں والا برتاؤ کر رہی تھی مجھے اور زیادہ کشش ہو رہی
تھی. جواد مجے با ہر جانے کا کہتا لیکن میرا مہوش کے سامنے سے ہٹنے کو دل ہی نہیں
کرتا تھا بس دل کرتا تھا ہر وقت اسی کو دیکھتا جاؤں. اس رات سب چھت پر سو رہے تھے
کہ اچانک بارش ہونا شروع ہوگئی. خالہ نے مجھے کہا کہ اندر کمرے میں جا کر سو جاؤ.
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کمرے میں گھپ اندھیرا تھا. میں اندھیرے میں ٹٹو لتے ہوے
پلنگ کے ایک سائیڈ پر بچھے ہوے فرشی بستر پر دیوار کے ساتھ لگ کر لیٹ گیا. مجھے
لیٹتے ہی نیند آ گئی. تھوڑی دیر کے بعد بادل گرجنے کی آواز سے میری آنکھ کھلی تو
مجھے محسوس ہوا کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی لیٹا ہوا ہے. بجلی ابھی تک نہیں آیی تھی
اور کمرے میں گھپ اندھیرا تھا. میرے خیال میں جواد میرے ساتھ آ کر لیٹ گیا ہو گا.
اس وقت آسمانی بجلی چمکی جس سے کمرے میں تھوڑی سی روشنی ہوئی اور میں نے دیکھا کہ
میرے ساتھ مہوش لیٹی ہوئی ہے میری تو جیسے سانس رک گئی ہو اور مجھے ایسے لگ رہا
تھا جیسا میرا جسم بلکل حرکت نہیں کر رہا. اس کو اپنے اتنا قریب محسوس کر کے میرے
جسم میں جیسے کرنٹ سا دوڑ رہا تھا. میں اسی کی طرف کروٹ لے کر بلکل ساکت لیٹا ہوا
تھا جیسے کہ کوئی حرکت کی تو جان نکل جائے گی. مجھے اپنی شلوار میں حرکت محسوس ہو
رہی تھی نہ چاہتے ہوے بھی میرا لن کھڑا ہو گیا تھا. میں کافی دیر تک اسی حالت میں
لیٹا رہا. تھوڑی دیر میں کچھ نارمل ہوا تو میرا دل اس کو چھونے کو کیا. لیکن مجھے
ڈر لگ رہا تھا کہ اگر اس کی آنکھ کھل گئی تو کہیں کوئی مسلہ نہ ہو جائے. مجھے
اندازہ ہو گیا تھا کہ کمرے میں اندھیرے کی وجہ سے وہ یہاں آ کر لیٹ گئی ہے اگر اس
کو معلوم ہوتا تو وہ کبھی بھی اس کے ساتھ نہ لیٹتی. میں نے کسی بھی قسم کی حرکت
کرنے سے پہلے یہ جاننے کا فیصلہ کیا کہ وہ غلطی سے یہاں لیٹی ہے یا جان بوجھ کر.
میں نے نیند میں کروٹ لینے کے انداز میں اپنا ہاتھ اس کے بازو پر اس طرح رکھا کہ
اس کی آنکہ کھل جائے. میرا ہاتھ جیسے ہی اس کو چھوا مرے جسم میں ایک عجیب سا کرنٹ
لگا. اس کا بازو کسی ریشم کے تکیے کی طرح نرم اور ملائم تھا. میرا لن جو پہلے ہی
کھڑا ہوا تھا مزید جھٹکے مارنے لگا. میرے پلان کے مطابق میرا ہاتھ لگنے سے اس کی
آنکھ کھل گئی اس نے میرا ہاتھ پیچھے کیا اور اٹھ کر بیٹھ گئی اور اندھیرے میں غور
سے میری طرف دیکھنے لگی جیسے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس کے ساتھ کون
سو رہا ہے . میں ایسے شو کر رہا تھا جیسے گہری نیند میں ہوں اور مجے آس پاس کی دنیا
کی کوئی خیر خبر نہیں. مرے ہلکے ہلکے خراٹوں سے اس کو معلوم ہو گیا کہ وہ جواد کی
بجاے میرے ساتھ سو رہی تھی. اس سے جلدی سے اپنی چادر اٹھائی اور پلنگ کے دوسری
سائیڈ پر جا کر لیٹ گئی. میں نے ٹھنڈی سانس بھری اور اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ اس
کو جگانے کی کیا ضرورت تھی ایسے کم از کم وہ میرے پاس تو لیٹی ہوئی تھی اب پتا
نہیں ایسا موقع دوبارہ ملے یا نہ ملے. اگلے دن اس نے پہلے جیسا ہی برتاؤ رکھا ایسا
کچھ نہیں لگ رہا تھا کہ رات کی بات پر کچھ ریکٹ کر رہی ہو. آج تو وہ پہلے سے بھی
زیادہ پریشانی سے پڑھائی میں مصروف تھی. میں نے تھوڑی ہمت کر کے اس سے پریشانی کی
وجہ پوچھی تو اس کی بجایے خالہ نے بتایا کہ کل میتھ کا پیپر ہے اور یہ میتھ میں
کافی کمزور ہے. میں نے کہا کہ خالہ آپ فکر نہ کریں میں تیاری کرا دیتا ہوں. یہ سن
کر اس کو کچھ تسلی ہوئی. میں نے دیر رات تک اس کے ساتھ بیٹھ کر میتھ کی تیاری
کرائی . اس دوران کافی بار میرا ہاتھ اس کے ہاتھ کو چھوا تو جیسے کرنٹ سا لگ جاتا
تھا،.اس کے بعد وہ میرے ساتھ کچھ حد تک فرینک ہو گئی . اگلے دن پیپر دے کر آیی تو
کافی خوش لگ رہی تھی. میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میتھ پیپر بہت اچھا ہو گیا
اور آج میرے پیپر بھی ختم ہو گئے ہیں. اس نے مجھ سے ہاتھ ملا کر میرا شکریہ ادا
کیا کہ آپ کی وجہ سے میرا پیپر بھی اچھا ہو گیا. اس کا نرم و نازک ہاتھ اپنے ہاتھ
میں لے کر میں تو اپنے ہوش سے ہی بیگانہ ہو گیا.اس کے بعد تو میں نے اس کا بلکل ہی
الگ روپ دیکھا وہ مجھ سے بہت فرینک ہو گیی تھی اور اگلے دو دن ہم لوگوں نے خوب گپ
شپ کی اور لڈو، کیرم بھی بہت کھیلا . اگلی رات کو سوتے میں پھر سے بارش ہو گیی اور
خالہ نے مجھے جگا کر کہا کہ اندر جا کر سو جاؤ. میں اندھیرے میں ٹٹولتے ہوۓ بیڈ کی دوسری سائیڈ پر آ کر سو گیا جہاں جواد سویا ہوا تھا. تھوڑی
دیر کے بعد میری آنکھ کھل گئی. کمرے میں گھپ اندھیرا تھا. لگ رہا تھا کہ پورے محلے
کی لائٹ بند تھی. اسی وقت بجلی چمکی اور اس چند سیکنڈ کی روشنی میں مجھے لگا کہ
میرے ساتھ جواد کی بجاے مہوش سو رہی ہے. میں تو جیسے ساکت ہو گیا. تھوڑی دیر ایسے
ہی لیٹے رہنے کے بعد میں نے سوچا کہ اس دن کی طرح مہوش کو ایک بار پھر جگا دوں
ورنہ اگر لائٹ آنے پر یا صبح اٹھنے پر خالہ نے دیکھ لیا تو پتا نہیں کیا سمجھیں
گی. میں نے اپنا ہاتھ اس کے بازو پر اس طرح مارا جیسے کہ کروٹ لیتے ہوۓ نیند میں لگ گیا ہو. وہ اٹھ گئی اور بیٹھ کر غور سے میری طرف
دیکھا اور پھر دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹ گئی. میں بلکل ساکت لیٹا رہا اور سونے کی
ایکٹنگ جاری رکھی. میں دیوار والی طرف تھا اور وہ پلنگ کی طرف تھی. ہمارے درمیان
فاصلہ بہت ہی کم تھا. شلوار میں لن بھی اکڑا ہوا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی
کہ کیا کروں. میں نے سوچا کہ اٹھ کر دوسری طرف سو جاؤں لیکن پھر وہیں لیٹا رہا .
دس منٹ تک تو میں ایسے ہی لیٹا رہا پھر تھوڑی ہمت کر کے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور
اس کی کمر پر رکھ دیا. اس کی نرم و ملائم کمر پر ہاتھ رکھتے ہی جیسے مجھے کرنٹ سا
لگا. میں تھوڑی دیر تک اس کی کسی حرکت کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ ایسے لگ رہا تھا
کہ جیسے گہری نیند سو رہی تھی. مجھ میں اور ہمت آ گئی اور آرام آرام سے اپنا ہاتھ
اس کی کمر اور پیٹ پر پھیرنا شروع کر دیا. اس نے اپنے اوپر چادر لی ہوئی تھی اور
میں چادر کے اوپر سے ہی اسکے جسم پر ہاتھ پھیر رہا تھا. پندرہ منٹ تک میں ایسے ہی
چادر کے اوپر سے اس کی کمر اور پیٹ پر ہاتھ پھیرتا رہا لیکن مہوش نے کوئی رسپانس
نہیں دیا. کمرے میں ایک تو بہت اندھیرا تھا اور باہر سے تیز بارش کی آواز کا شور
تھا. اب مجھ میں مزید ہمت آ گئی اور میں تھوڑا سا آگے کو سرکا. اب اس کے اور میرے
درمیان کا فاصلہ مزید کم ہو گیا تھا. اب میں نے اپنا ہاتھ چادر کی اندر ڈالا اور
اس کی قمیض کو تھوڑا سا ہٹا کر اس کی ننگی کمر پر ہاتھ رکھا. ہاتھ رکھتے ہی مجھے
ایسے لگا کہ جیسے اس کی جسم کو ایک جھٹکا سا لگا. میں نے اسی وقت اپنا ہاتھ وہیں
روک لیا. تھوڑی دیر تک اس کی طرف سے کوئی ریکشن نہیں آیا تو میں نے اپنے ہاتھ کو
تھوڑی حرکت دینی شروع کی اور پیٹ کی طرف لے گیا. میرا ہاتھ اس کی قمیض میں تھا اور
ہاتھ کا نچلا حصہ اس کی شلوار سے لگ رہا تھا. اب میں نے ہاتھ قمیض میں اوپر کی طرف
کرنا شروع کر دیا لیکن قمیض تنگ ہونے کی وجہ سے زیادہ اوپر نہیں جا سکا. میں اسی
طرح کمر اور پیٹ پر ہلکا ہلکا ہاتھ پھیرتا رہا. وہ بلکل ساکت لیٹی ہوئی تھی. مجھے
یہ اندازہ لگانا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ جاگ رہی ہے یا سو رہی ہے. لیکن جو بھی تھا
میں مزے میں تھا. میرے اندر کا ڈر اب تقریبآ ختم ہو گیا تھا اور میں نے کسی قسم کا
کوئی رسپانس نہ پا کر مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا. میں کمر پر ہاتھ پھیرتا ہوا
آھستہ آھستہ اس کی ٹانگوں اور پھر گانڈ پر لے آیا. اس کی گانڈ بہت نرم تھی. میں
مزے میں مدہوش اس کی گانڈ اور اس کی لکیر پر ہاتھ پھیرتا رہا. اتنی زبردست گانڈ پر
تو میرا دل کر رہا تھا کہ زور زور سے دباؤں لیکن جگہ اور حالات کی مناسبت سے اتنا
مزہ بھی میرے لئے حد سے زیادہ ہی تھا. میں آہستہ سے اپنا ہاتھ آگے پھدی کی طرف لے
گیا لیکن وہ کروٹ لے کر ایسی پوزیشن میں سوئی ہوئی تھی کہ اس کی پھدی دونوں ٹانگوں
میں چھپی ہوئی تھی اور میں کوشش کے باوجود پھدی کو نہیں ٹٹول سکا. میں نے گانڈکا
مزہ لینے میں ہی غنیمت جانی. وہ بالکل بے سدھ سونے کے انداز میں پڑی ہوئی تھی لیکن
مجھے یقین تھا کہ وہ جاگ رہی ہے.بارش ابھی بھی ہو رہی تھی اور بجلی بھی ابھی تک
نہیں آی تھی. اب میں مزید دلیرانہ طریقے سے اس کی گانڈ دبا رہا رہا تھا. اس کی
گانڈ کی لکیر کے اندر تک انگلیاں پھیر رہا تھا. میں اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتا
تھا. اب میں نے شلوار میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ بہت ٹائٹ بند تھی. مجھے
اندازہ ہو گیا کہ اس نے ازار بند ڈالا ہوا ہے. میں نے ہاتھ آگے لےجا کر اس کا ازار
بند ٹٹولنا شروع کر دیا. مجھےمحسوس ہوا کہ وہ مجھے روکنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن
میں اپنے کام میں لگارہا. آخر کار میرے ہاتھ میں اس کے ازار بند کا ایک سرا آ گیا
جسے میں نے آرام سے کھینچ کر کھول دیا. اب اس کی شلوار کی گرفت کافی ڈھیلی ہو گیی
تھی اور میں نے پیچھے سے اس کی شلوار میں ہاتھ ڈال دیا. اس کی گانڈ بہت گرم ہو رہی
تھی. میں نے ہلکا ہلکا دبانا شروع کر دیا اور لکیر پر بھی ہاتھ پھیرنے لگا. مزے سے
میری حالت ایسے ہو رہی تھی جیسے بہت تیز بخار ہو اور میرا لن تو شلوار پھاڑ کر
باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا. پھر میں اپنی انگلی لکیر کے اندر لے گیا اور اس کی
گانڈ کے سوراخ کو دبانے لگا. پھر انگلی کو تھوڑا اور نیچے اس کی پھدی کی طرف لے
گیا. گانڈ کے سوراخ کے نیچے تو مجھے ایسے لگا کہ جیسے میں نے کسی بہت چکناہٹ والی
جگہ میں انگلی ڈال دی ہو. وہاں سے بہت زیادہ گیلا ہو رہا تھا. تھوڑی سی کوشش کے
بعد میں پیچھے سے اپنی انگلی اس کی پھدی کے نچلے حصے پر لگانے میں کامیاب ہو گیا.
اس کی پھدی بہت گیلی ہو رہی تھی. اب مجھ سے مزید صبر نہیں ہو رہا تھا. میں نے ہاتھ
باہر نکالا اور ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیا. کمرے میں ابھی بھی اندھیرا تھا اور
بارش کی آواز سے لگ رہا تھا کہ اب ذرا آھستہ ہو گئی ہے. خالہ کے خراٹوں کی آواز سے
لگ رہا تھا کہ وہ دوسری طرف منہ کر کے گہری نیند سو رہی ہیں. میں نے اپنے آپ کو
تھوڑا اور آگے سرکایا اور اس کی چادر اپنے اوپر بھی لے لی. اب ہم دونوں ایک ہی
چادر میں تھے اس نے دوسری طرف منہ کر کے کروٹ لی ہوئی تھی اور میں اس کے پیچھے اس
کی طرف کروٹ لے کر لیٹا ہوا تھا. ہمارے درمیان فاصلہ بہت ہی کم رہ گیا تھا. تھوڑا
سا اور آگے ہوا تو لن اس کی گانڈ کی لکیر پر سیٹ کر کے ہلکا ہلکا دبانا شروع کر
دیا. میں تو مزے کی کسی اور ہی جہاں میں تھا. پھر میں نے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اس
کی گانڈ کی لکیر میں اندر تک پھیرنا شروع کر دیا. دو تین منٹ اسی طرح مزے لے کر
میں تھوڑا پیچھے ہٹا اور اس کی شلوار کو تھوڑا اور ڈھیلا کر کےگانڈ کے نیچے تک
سرکا دیا. اور ساتھ ہی اپنی شلوار کھول کر لن بھی باہر نکال لیا۔اب ہم دونوں چادر
میں تھے اور میرا لن اور اس کی گانڈ کے درمیان کوئی کپڑا نہیں تھا. میں نے اس کی
گانڈ کو تھوڑا سا کھول کر اس کا سوراخ پر اپنا لن لگا کر ہلکا سا دبایا اور ہاتھ
سے اس کی گانڈ کو چھوڑ دیا. اب میرا لن اس کی گانڈ میں پھنسا ہوا اور ٹوپی اس کے
سوراخ پر سیٹ تھی. میں نے آہستہ آہستہ دبانا شروع کر دیا. اس کی گانڈ بہت گرم ہو
رہی تھی. میں نے ایک ہاتھ اس کی کمر پر رکھ کر اپنی طرف کھینچ کر نیچے سے گانڈ پر
دھکے لگا رہا تھا. کیوں کہ اب میں مہوش کے بالکل ساتھ لگا ہوا تھا اس لئے اب اس کے
تیز سانسوں کی آواز مجھے سنائی دے رہی تھی. پھر میں نے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اوپر
نیچے پھیرنا شروع کر دیا. نیچے پھدی پر رکھ کر میں نے جسے ہی دبایا تو وہاں پر
چکناہٹ کی وجہ سے لن پھسل کر دونوں ٹانگوں میں گھس گیا. میں نے وہیں دھکے مارنے
شروع کر دئے. لن اس کی ٹانگوں میں آگے پیچھے کرنا شروع دیا. ایک بار پھر پھدی میں
ڈالنے کی کوشش کی لیکن نا تجربہ کاری اور لیٹنے کی پوزیشن کی وجہ سے ناکام رہا اور
لن پھر سے پھسل کر اس کی ٹانگوں میں چلا گیا. اب میں اپنا ہاتھ منہ کے پاس لایا
اور اس پر تھوک لگا کر نیچے لے جا کر لن کی ٹوپی اور باقی لن پر لگا دیا. لن پھدی
کے پانی سے ویسے ہی گیلا تھا تھوک لگنے سے اور چکنا ہو گیا. میں نے اس کی اوپر
والی ٹانگ تھوڑا آگے کر کے پھدی مارنے کی ایک اور کوشش کی لیکن پھر ناکامی ہی
ہوئی. پھر میں نے اپنی انگلی پر تھوک لگایا اور اس کی گانڈ کے سوراخ پر اسی انگلی
سے تھوک لگا دیا. پھر اپنا چکنا لن اس کی گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کیا اور اس کی کمر
سے پکڑ کر آہستہ سے دھکا لگایا تو لن کی ٹوپی اس کی گانڈ میں گھس گیی. میں ابھی
مزے کی اس کفیت کو سمجھ ہی نہیں پایا تھا کہ وہ جلدی سے آگے کو ہو کر الٹی لیٹ گی،
اسی دوران مجھے اس کے منہ درد بھری سسکی کی آواز سنائی دی. مجھے سمجھ آ گی کہ درد
کی وجہ سے وہ الٹی ہو گیی ہے تاکہ میں مزید لن نہ ڈال سکوں. مجھے بہت مایوسی ہوئی
کہ اتنا قریب آ کر بھی نہ پھدی ماری اور نہ ہی گانڈ. مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ
گانڈ یہ اب دے گی نہیں اور ان حالات اور پوزیشن میں پھدی مارنا مشکل ہے. باہر بارش
بھی رک چکی تھی لیکن بجلی ابھی تک نہیں آیی تھی. میرا لن جھٹکے کھا رہا تھا. میں
نے کچھ سوچا اور پھر مہوش کے کان میں سرگوشی کرتے ہوے کہا "ساتھ والے کمرے
میں جا رہا ہوں تھوڑی دیر کے بعد وہاں آ جانا" میں اتنا کہ کر پیچھے ہو گیا
اور بیٹھ کر ارد گرد کا جائزہ لیا. خالہ گہری نیند میں ہی تھی. میں آرام سے اٹھا
اور باہر نکل آیا. اسٹور کا دروازہ صحن میں سے ہی تھا. میں دبے قدموں چلتا ہوا
وہاں آ گیا. کمرے میں اندھیرا تھا لیکن دروازہ کھلنے کی وجہ سے اندر تھوڑا بہت
دکھایی دے رہا تھا. دروازے کے سامنے ہی چارپائی بچھی ہوئی تھی اور باقی کمرے میں
پیٹیاں، الماری اور کافی دوسرا سامان پڑا ہوا تھا. میں حالات کا جائزہ لے کر وہیں
کھڑا ہو کر اس کا انتظار کرنے لگ گیا. کافی دیر ہو گئی تھی لیکن وہ نہیں آیی. میرا
لن بھی اب ڈھیلا ہو چکا تھا. میں نے سوچا وہ نہیں آے گی. آج جتنا مزہ لے لیا ہے
وہی کافی ہے. اب مٹھ لگا کر سکون لیتا ہوں اور جا کر سوتا ہوں۔میں نے شلوار کھولی
اور ڈھیلے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلانا شروع کر دیا. کچھ دیر پہلے والے واقعات یاد
کر کے میرا لن پھر سے سخت ہو گیا. اتنی دیر میں مجھے دروازے کے پاس ایک سایہ سا
نظر آیا جو اسٹور کے دروازے سے اندر اندھیرے میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا.
خدو خال سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ مہوش ہے. میں نے ہلکی سے آواز دی کہ اندر
چارپائی پر آ جاؤ. وہ اندر آ گئی میں نے اس کو پکڑا اور گلے لگا کر کہا کہ
"مجھے لگا تم نہیں آؤ گی". وو بس اتنا بولی "جلدی کرو". میں
اس کو چارپائی پر اس طرح لٹایا کہ اس کی گانڈ چارپائی کے کونے پر تھی. میں اس کی
ٹانگوں میں چارپائی کے پاس کھڑا ہو گیا. شلوار میری پہلے ہی پاؤں میں تھی قمیض کو
بھی گریبان میں پھنسایا اور اپنے لن پر تھوک لگا لیا. اندھیرے میں کچھ زیادہ
دکھائی نہیں دے رہا تھا. میں ہاتھ لگا کے چیک کیا تو اس نے ابھی تک شلوار پہنی
ہوئی تھی. میں ٹٹولتے ہوتے اس کا ازار بند کھولا اور شلوار نیچے پاؤں تک کر کے اس
کی ٹانگیں اوپر کی اور ان کے درمیان کھڑا ہو گیا. ہاتھ پر تھوڑا تھوک لگا کر اس کی
پھدی پر لگایا جو پہلے ہی کافی گیلی تھی پھر اندھیرے میں اس کی پھدی کے سوراخ پر
انگلی رکھی اور اپنا لن اس انگلی کی جگہ رکھ کر اس کے اوپر لیٹ گیا. اس کی ٹانگیں
میرے کندھے پر تھی. میں نے لن کو تھوڑا دبایا تو وہ پھسلتا ہوا پورا پھدی کے اندر
چلا گیا. مہوش نے پھر ہلکی سی سسکاری لی. مجھے ایسے لگا کہ میں نے لن کسی گرم اور
نرم ملائم چکنی جگہ میں ڈال دیا ہے. اس کی پھدی کی اندرونی دیواروں نے میرے لن کو
جکڑا ہوا تھا. اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میری ساری جان لن کے اندر آ گئی ہے اور
میں فارغ ہونے والا ہوں میں نے جھٹکے لگانے شروع کر دیے. ہر جھٹکے میں جب لن اندر
جاتا تو مزے سے میرا پورا جسم کانپ جاتا اور مہوش کے منہ سے بھی سسکاری نکلتی.
لیکن افسوس کہ میں پانچ چھ جھٹکوں سے زیادہ کنٹرول نہیں کر سکا اور فارغ ہو گیا.
لن باہر نکال کر دوسری طرف منہ کر کے ساری منی نیچے گرا دی. جب میں فارغ ہو کر مڑا
تو مہوش کپڑے ٹھیک کر کے دروازے میں سے نکل رہی تھی. میں بھی تھوڑی دیر کے بعد
چپکے سے آ کر جواد کے ساتھ سو گیا. اس کے بعد اگلے دو دن میں تین بار موقع ڈھونڈ
کر اس کی پھدی لی. دو بار اوپر والے باتھ روم میں اور ایک بار سیڑھیوں میں. اسی
دوران مجھے پتا چلا کہ وہ پہلے بھی دو لڑکوں سے مرواتی رہی ہے. ایک تو ہمارا ہی
کزن شانی اور دوسرا ان کا ایک ہمسایہ لڑکا جس سے اوپر والے باتھ روم یا اسٹور میں
چدواتی رہی ہے. دو دن کے بعد مجھے واپس آنا پڑا لیکن وہ والی رات کا سیکس میری
زندگی کا سب سے یادگار سیکس ایکسپیرینس رہا. کچھ مزید تجربات کو کہانی کی شکل میں
پیش کرنے کے لئے آپ کی آراء کا انتظار رہے گا.
تم بڑے بے دردی ہو
ہیلو میرا نام سمیر ہے . میری عمر 24 سال ہے . غیر شادی شدہ ہوں
میرے کمرے کے پاس ہی ایک شوہر - بیوی رہتے ہیں . شوہر صاحب شہر سے دور کسی اور شہر
میں سرکاری خدمت میں ہیں . دو - تین ماہ میں ایک بار ہی ان کا گھر آنا ممکن ہوتا
ہے . ان سے میری بات چیت ہوتی رہتی تھی اور ان کی غیر موجودگی میں ان کی بیوی سے
بھی میری بات ہوتی رہتی تھی . ان کی بیوی کا نام نورین ہے . نورین 29 سال کی ایک
بہت ہی خوبصورت خاتون ہیں . اگرچہ وہ بات چیت میں بہت ہی مہذب ہیں ، پر مجھے ان کی
خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ان کا برتاؤ بھی بہت پسند ہے . محلے میں میری تصویر ایک بہت
ہی شریف نوجوان کی ہے . نورین کو جب بھی کوئی کام ہوتا تھا وہ مجھ کو میرے موبائل
پر ایک مس کال کر دیتی تھیں . میں اپنے کسی کام سے ایک بار ان کے گھر گیا تو میں
نے بھول سے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا . نورین باتھ سے نہا کر نکلی ہی تھیں اور مجھے
وہ صرف ٹاول میں لپٹی ہوئی نظر آئی۔ . ان کی ایک ایسی حالت دیکھ کر میں نے اپنی
پیٹھ پھیر لی اور ان سے معذرت طلب کرنے لگا اور ساتھ ہی گھر سے باہر نکل گیا . ان
کا یہ سیکسی بدن میرے ذہن پر چھا گیا . میرے من میں ان کے لیے نظریہ ہی بدل گیا
تھا . اس کے بعد جب ان کی مس کال آیا تو میں ان کے گھر گیا ، ایک بار پھر ان سے
معذرت طلب کی . انہوں نے ہنستے ہوئے کہا - کوئی بات نہیں ، ہو جاتا ہے . انہوں نے
پوچھا - کیا کام تھا ؟ میں نے کام بتایا اور وہ کام مکمل ہوتے ہی میں وہاں سے چلا
آیا . اس کے بعد اکثر میری نظر ان کو دیکھتے وقت ان کے عریاں شکل کا اندازہ لگانے
لگتی تھی . کئی بار اکیلے میں ان کو یاد کرتے ہوئے مشت زنی بھی کی . مجھے وہ بہت
ہی سیکسی لگنے لگیں . کئی بار سوچا کہ کس طرح نورین کوچوددوں ! پر ایک عجیب سا ڈر
لگتا تھا کہ کہیں نورین مجھ سے ناراض نہ ہو جائے . خیر ہمت کرکے میں ان کے کسی مس
کال کا انتظار کرنے لگا . ان کے شوہر آج کل گھر پر نہیں تھے . شام کو نورین کی مس
کال آئی ، میں فورا ان کے گھر گیا ، ان کو مجھ سے کوئی کام تھا ، میں نے کر دیا .
نورین نے مجھ سے پوچھا - چائے پيوگے ؟ میں تو ان کے پاس زیادہ سے زیادہ رکنے کے موڈ
میں ہی تھا ، میں نے بولا - جی ہاں پی لوں گا .وہ چائے بنا کر لائی . ہم دونوں
چائے کی چسكياں لینے لگے . میں انکے مست مموں کو اپنی چھپی نظر سے دیکھ لیتا تھا .
نورین نے شاید یہ بات نوٹ کر لی تھی ، انہوں نے اپنے پلو کو اور زیادہ گرا دیا اور
مجھ سے بولی - سمیر ، کیا تمہاری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے ؟ میں نے کہا - نہیں
بھابھی . نورین - کیوں نہیں ہے ؟ کیا کوئی پسند نہیں آتی ہے . میں نے کہا - نہیں
میں نے کبھی کسی لڑکی کو اس نظر سے دیکھا ہی نہیں ہے . وہ ذرا مزا لینے کے انداز
سے بولیں - کس نظر سے ؟ میں نے کہا - گرل فرینڈ بنانے کی نظر سے . نورین بولیں -
کیوں نہیں دیکھا ؟ کیا تم کوئی حور کی پری چاہتے ہو ؟ کیسی پسند ہے تمہاری ؟ میرے
ہونٹوں سے نکل گیا - آپ کے جیسی کوئی ملے تو میرا من بنے . وہ سنجیدہ ہو گئیں ،
میری طرف دیکھ کر بولیں - کیا مجھے اپنی گرل بناؤ گے ؟ میں چونک گیا ! میں نے ان
کی آنکھوں میں دیکھا تو ایک نی آنکھوں میں شہوت چھائی ہوئی تھی . نورین نے اپنا
ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا اور بولی - سمیر ، کیا جواب ہے تمہارا ؟ میرا دل بلیوں
اچھلنے لگا ، میں نے نورین کا ہاتھ اٹھا کر اپنے ہونٹوں سے چوم لیا . ہماری محبت
کی پہلی کس . میں نے اٹھ کر نورین کو اپنے بازؤں میں بھر لیا . نورین- سمیر ، مجھے
تمہاری بہت ضرورت ہے ، کیا آج رات تم میرے گھر رک سکتے ہو ؟ میں نے نورین کے
ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے دبا کر جی بھر کر چوسا ، نورین نے بھی اپنی زبان میرے
منہ میں ڈال کر اپنی آنکھیں بند کر لیں تھیں . ہم دونوں ہوس کی آگ میں جھلسنے لگے
تھے . کب کپڑے اترتے چلے گئے معلوم ہی نہیں پڑا . میں نے نورین کو اپنی گود میں
اٹھایا اور اس کے بیڈروم میں لے جا کر بستر پر اس کو لیٹا دیا اور اس کے گورے بدن
کو دیکھنے لگا . میں نے اس کے چھاتی کو جی بھر کر چوسا . اس نے بھی مجھے خوب اچھی
طرح مجھے اپنے نرم گرم مموں کا جوس پلایا اس کے بعد میں اس کی چوت چاٹنے لگا وہ
مزے سے تڑپنے لگی ۔ . دویا کی منشیات سسکاریاں مجھے پاگل اور میرا سات انچ کا موٹا
لنڈ آج نورین کی گلابی چوت مارنے والا تھا ۔ . نورین کی چوت مسلسل رس چھوڑ رہی تھی
وہ سیکس کی آگ میں جل رہی تھی . میں نے دیر نہ کرتے ہوئے اپنا لنڈ اسکی چوت کے
دانے پر رگڑا اور اس کا خاموش اشارہ پاتے ہی ایک دھکا دیا . ااس کے منہ سے آہ نکل
گئی - “ آآآآآ اوئی اوئی آآآ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے دو تین جھٹکے
اور مارے . میرا لوڑا پورا اس کی چوت میں گھس گیا تھا . اس کی ایک کراہ سی نکلی پر
چونکہ وہ سیکس کی عادی تھی سو جلد ہی ہم دونوں کومزے کی ان لہروں نے خوشی کے
تھپیڑے دینا شروع کر دیے . وہ بہت خوش تھی . میری طرف دیکھ کر بولی - سمیر کیا تم
جانتے ہو کہ تم کتنے بھولے ہو ؟ میں نے تم کو کتنے اشارے دیے پر آپ نمبر - ون کے
چوتيا ہو . تمہاری اس بات نے مجھ کو کتنی دیر سے یہ سکھ دیا ہے . میں نے چونک کر
اس کی طرف دیکھا اور پوچھا - کیا تم مجھ سے بہت پہلے سے ہی سیکس کرنا چاہتی تھیں ؟
نورین مسکرا کر بولی - ہاں میرے بدھو بادشاہ . مجھے تم بہت پہلے سے ہی پسند ہو .
میں اس کی بات سن کر جوش میں آ گیا اور تیزہو کر دھکے مارنے شروع کر دیے . نورین -
جی ہاں لگا لو اب اور زور سے دھکے . مجھے انہی دھکوں کا اور تمہارے لنڈ کا بڑی بے
صبری سے انتظار تھا . مجھے نہیں معلوم تھا سمیر کہ تمہارا لؤڑا اتنا بڑا ہے . چودو
مجھے اور زور سے چودو . قریب بیس منٹ کی دھكادھك چدائی سے ہم دونوں پسینے میں لت
پت ہو گئے تھے . نورین کا جسم اکڑنے لگا تھا . اس کے منہ سے عجیب سی آوازیں نکلنے
لگیں تھیں - چو .. دی .. ابھ .. اور .. اور ..زور .. دھکے .. مارر .. مےرےرےرے ..
راجججج .. جا ! اور وہ اچانک جھٹکے لینے لگی . نورین جھڑ چکی تھی . میں نے بھی
طوفانی رفتار سے دھکے مارتے ہوئے اس کی چوت میں اپنے لنڈ کا لاوا چھوڑ دیا . میں
ایکدم سے تھک کر چور ہو گیا تھا . ایسا لگ رہا تھا کہ نہ جانے کتنی دور سے دوڑ لگا
کر آیا ہوں . کچھ دیر میرا لنڈ نورین کی چوت میں ہی پڑا رہا . نورین نے اپنی
آنکھوں کھولیں اور میرے بالوں میں اپنا دلار بھرا ہاتھ پھرایا . ہم دونوں ایک
دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے . میں نے اپنا لنڈ اسکی چوت سے باہر نکالا اس کے
بعد ساری رات ہم نے خوب چدائی کی
میری چوت نے جب خون چھوڑا
میرام
مائزہ ھے میری ایج 41 ھے میرا قد 5 فٹ 2 انچ ھے اور میرے پیارے اور کیوٹ
مموں کا سائز 39 ھے میری کمر کاسائز 35 ھے
میں
پھولوں جیسی حؔسین ھوں نیلی نیلی آنکھیں ہیں میری ناک بھی اچھی ھے میری گالیں موٹی
اور بھری بھری ہیں میرے ہونٹ کمال کے پینک ہیں میرے ممے سخت گول
مٹول نرم ملائم ہیں میرے مموں کی نپلیں موٹی اور پینک ہیں اور میری
چوت چکنی ھے اور اندر سے لال ھے میری گانڈ موٹی اور نرم ملائم اور گانڈ
کے کولہے لچکدار ہیں میرا فگر ایکدم مست ھوٹ ھے
میں
جب جوان ہوئی تو میری چوت نے خون چھوڑا اور میں نے سفید قمیض اور سفید
شلوار پہنی ہوئی تھی اور میری شلوار میری چوت کے خون سے لال تھی اور میں
کرسی پہ بیٹھ کر ناشتہ کررہی تھی اور میں نے اپنی ٹانگیں کھولیں ھوئیں تھیں اور
میری قمیض کا دامن میری چوت کی شلوار سے ہٹاہوا تھا اور میری چوت کی شلوار خون سے
لال نظر آرہی تھی اور مجھے پتا نہیں تھا
جب
مما آئی تو اس نے دیکھاکہ میری چوت کے خون سے میری شلوار لال تھی پھر مما نے میرا دامن سیٹ کیا اور مسکراکر بولی
مائزہ جب ناشتہ کرلوتو بتانا میں نے کہا ٹھیک ہے پھر مما کام کرنے لگی ۔۔۔
اور میں ناشتہ کرنے لگی پھر میں نےجب ناشتہ کرلیا تو مما کوبتایا تو مما مجھے میرے
روم میں بیڈ پر بیٹھایا اور مجھے پیار کرنے لگی یعنی میرا چہرہ چومتے ھوئے مما
بولی ۔مائزہ ۔ میں نے کہا ہاں مما ۔ تو مما نے میری قمیض کا دامن
شلوار سے ہٹاکر بولی تیری شلوار خون سے لال ھے دوسری پہن لو ۔ میں نے کہا کہاں لال
ھے ۔ ممانےکہا یہ دیکھو ۔ میں نے دیکھا تو میری شلوار خون سے لال تھی
میں
نے مما سے کہا مما یہ کیوں ھوا کیا میں بمار ھوں ۔ مما نے کہا نہیں اب تو
جوان ھوگئی ھے ۔ میری شلوار اتاری پھر میری ٹانگوں کی طرف آکر میری دونوں ٹانگیں
کھول کر میری چوت کو دیکھا اور میری چوت کی تعریف کی پھر مما اپنے پیارے ہاتھ سے
میری چوت کو سہلانے لگی اور مجھے مسکراتے ھوۓ دیکھ رہی تھی اور میں مست ھونے لگی
اور ۔ مما نے کہا مائزہ ۔ میں نے کہا ہاں مما تو ۔ مما نے کہا کیا تیری چوت سے
ابھی بھی خون نکل رہا ھے ۔ میں نے کہا مما پتانہیں تو مما مسکراکربولی ۔ اچھا میں
چیک کرتی ھوں مما نے میری چوت کے دونوں ھونٹوں کو ہٹا کر دیکھ کر مسکرا کر بولی
مائیزہ تیری چوت تو اندر سے بہت کیوٹ ھے پھر جب مما نے اپنی ایک انگلی کو میری چوت
میں ڈالا تو مجھے زندگی کا نیا مزہ ملا پھر کچھ دیر تو مما میری چوت میں انگلی
کرتی رہی اور میں مست رھی پھر مما نےاپنی انگلی کو میری چوت سے نکال کر مجھتے
دیکھا کربولی ۔ یہ دیکھو تیری چوت کا خون ابھی بھی نکل رہا ھے ۔ میں نے دیکھا مما
کی انگلی پہ میری چوت کا خون لگا ہوا ھے ۔۔۔ پھر مما نے میری چوت کوصاف کرکے پیٹ لگاکر
چڈی پہنادی پھر مما نے میری قمیض اور بریزر اتار کر مما نے میرے مموں کو دیکھ کر
تعریف کرتیں ھوئی مموں کو ہاتھ سے سہلاتے ھوۓ دباتی چومتی اور پیار کرتے ھوۓ میرے منہ میں دیا اور ہم ھونٹ
زبان چوسنے لگے کچھ دیکر ممانے مجھے مست کیا پھر مما نے کہا اب دوسرے کپڑے پہن لو
کہےکر چلی گئی ۔ میں دوسرے کپڑے پہن کر مما کے پاس گئی تو مما اور میں نے
پیاری پیاری باتیں کرتے دن گزارا
پھر
رات کو مما میرے روم میں آئی اور پوچھا پیٹ ہٹایا یا لگا ہوا ھے میں نے کہا لگا
ھوا ھےمما نے مسکراکر مجھے چوم کر بولی ابھی چیک کرتی ھو پیٹ کو ۔۔۔ اگر تیری چوت
سے خون نکل رہا ھوگا تو پیٹ کو لگا ھوگا تیری چوت کو صاف کرکے نیا ہیٹ لگا دیتی
ھوں مما نے مجھے کہا مائیزہ جب تو چھوٹی تھی تب سے تیری چوت گانڈ کو واش کرتی ھوئی
آرہی ھوں اب تو جوان ھے پھر مما نے میری شلوار اتاری میں نے جھٹ سے قمیض اتار دی مما
میری اس حرکت کو دیکھ کر مسکرائی پھر پیٹ ہٹاکر مجھے پیٹ دیکھایا پیٹ پر خون تھا
اب مما میری چوت کو سہلانے لگی پھر میری چوت کے ہونٹوں کو کھول کے دیکھا پھر کچھ
دیر مما میری چوت میں مسلسل انگلی مارتی رہی اور میں مست تھی پھر مما نے میری چوت
سے اپنی انگلی نکال کر دیکھایا تو میری چوت کا خون لگا ھوا تھا مما نے میری چوت کو
صاف کر کے پیٹ لگا کر پھر میرے مموں کو ہاتھوں میں لےکرسہلاتے ھوۓ دباتی چومتی چوستی پھر میرے چہرے کو
چومتی ھوئی میرے منہ میں منہ دیا پھر میں اور مما ھونٹ زبان چوستے چومتے ھوۓ مما نے مجھے سلایا اوپر رضائی دی اور
بتی ڈور بند کر کے چلی گئی اور میں بھی مست سو گئی
پھر
صبح ہوئی پھر مما نے کچھ نہیں کیا چوت پر پیٹ لگادکر چڈی پہنادی پھر میں کالج چلی
گئی
پھر
جب میں کالج سے گھر آئی تو مما نے صرف پیٹ بدلتی اور کچھ نہ کرتی پھر جب
کچھ دن بعد ایک پیٹ سے خون نیں نکلا تو دوسرے دن مما نے مجھے نہانے کا بولا اور
میں فرش ھوئی اور رات کو مما میرے روم میں آئی اب میں نے مما کو کہا مما میری چوت
کو چیک کرو مما مجھے دیکھ کے مسکرائی میں مما کو پلز پلز کہتی ھوئی مما کو چومنے
لگی مما نے مسکراتے ھوئے بولی ھاں ھاں چیک کرتی ھوں میں نے جھٹ پٹ اپنے کپڑے اوتار
کر نگی ھوگئی مما نے بڑے پیار سے مجھے دیکھ کر بولی تجھے مزہ آتا ہے میں بھی
مسکرا کر مما سے کہا ہاں مما بہت مزہ آتا ھے تو مما بولی اچھا پھر آج میں اپنی
بیٹی کو فل مزہ دونگی پھر مما میرے ھونٹ چومنے لگی پھر ہم کچھ دیر ھونٹ اور زبان
چوستے چومتےپھر مما میرے مموں کو دباتی چومتی رہی پھر مما نے مجھے لیٹایا اور میرے
اوپر آ کر مجھے چومتی مموں کو چومتی ھوئی میری چوت کے پاس پہنچ کر میری چوت کو
اپنے ھونٹوں سے چومنے لگی اور میں مست تھی پھر مما میری چوت کو زبان سے چاٹنے لگی
اور میں مستی میں غرلا رہی تھی اور مست ہوکر مما کوکہا مما میری چوت کو بس چاٹتی
رہو تو میری پیاری مما ھے اب مما بھی مستی میں غرلا کربولی مائزہ تیری چوت بڑی مست
اور پیاری ھے کیا تجھے مزہ آ رہا ھے میں ھوٹ ھو کر بولی مما بہت مزہ آ رہا ھے
بہت دیربعد میری چوت نے رس نکالا مما نے میری چوت کا رس خود بھی چاٹا اور مجھے بھی
چٹوایا مما نے پوچھا مزہ آیا میں مما کو چومتے ھوئی بولی مما بہت مزہ آیا میں نے
کہا مما تم بھی اپنے کپڑے اتارو میں بھی اپنی مما کو پیار کرو مما نے کہا کل کریں
گے تیری پرسوں چھٹی ھوگی تو پھر ساری رات ھم پیار کرینگے مجھے چومتے ھوئے
سلایا لائٹ اور ڈور بند کیا اور مما چلی گئی اور مجھے سکون کی نید آئی اور میں سو
گئی صُبح ھوئی میں کالج گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب
ممامجھے کالج سے لینے آئی تو سجسور کے آئی جب میں گاڑی میں بیٹھی تو مما کی
تعریف کی مما نے مجھے باھوں میں بھرکرچوما پھر ممانے گاڑی چلائی اور ہم جارہے ہیں
سفر کے دوران ہماری باتیں ھوئیں تو مما ھوٹ ھوگئی کچھ دیر کیلئے گاڑی سائٹ پہ روکی
اور گاڑی کے کالے شیشے چڑھائے لاک کر کے مجھے باھوں میں بھر کے چومنے لگی میں بھی
مما کو چوم رہی تھی ھونٹ زبان چہرے کو چومتے چوستے ھوئے مما نےمیری قمیض میں سے
مموں کو نکال کر دباتی چومتی چوستی اور میں مماکے پیار میں مست تھی پھر مما نے
مجھے چھوڑا گاڑی چلائی ہم جارہے تھے مما بولی تم میری پیاری بیٹی ھو میں تمہیں
پیارکرتی ھو کیوں کے تم میری بیٹی ھو پھر ھم گھر آئے پھر مما نے مجھے اپنی باہوں
میں بھر کر اپنے جسم کے ساتھ مجھے زور سے دبایا پھر کچھ دیر ہم نے ھونٹ زبان کو
چوسا چوما پھر مما نے کہا تم فرش ھو جاو میں کھانا لگاتی ھوں میں فرش ھوکر آئی
مما نے ٹیبل پہ پیارا کھانا سجایا ھوا ہے اور ھم بیٹھ کے کھا نا کھایا مما کھانا کھاتے
ھوئے مجھے کہا میری بیٹی مجھ سے پیار کرنا چہاتی ہے میں نے کہا ھاں مما میں آپ کے
جسم کو پیار کرنا چہاتی ھو مما نے کہا اچھا تو پھر تم مجھے ساری رات پیار کرنا اور
میں تم کو پیار کرونگی پھر مما کھانا کھا کے کسی کام میں مصروف ہوگئی پھر جب رات
ھوئی مما میرے روم میں آئی مما آج بہت خوش ھو کر مجھ سے کہا میری بیٹی
مجھے پیار کرےگی میں نے مما سے کہاجی بھر کے پیارکرونگی اور میں نےاپنی باھوں میں
مما کے جسم کو بھر کر دبوچہ اور مما نے مجھے باھوں میں دبوچہ اور ھم دونوں
ایکدوسرے کے چہرے گالیں ہونٹ مموں کو دبانے چومنے چوسنے لگے پھر میں نے مما کو
چومتے ھوئے نگا کردیا میری مما کے مموں کی کیا بات ھے گول مٹول ممے اور مموں کی
نپلیں موٹی اور پینک ہیں میں نے مما کے مموں کی ڈھیر ساری تعریف کرتی اور مما کے
مموں کو دباتی چومتی چوستی اور مما بھی میرے جسم کو چوم رہی تھی اور ھم دونوں مست
ھورہے تھے مما نے کہا مائزہ تم بچپن سے میرے مموں کو پیتی آئی ھو پھر میں نے مما
کو لیٹایا اور میں مما کے اوپر اور میں مما کو چومنے چوسنے لگی مما بھی چوم رہی
تھی میں مما کو چومتے ھوئے مما کی چوت پہ آئی اورمما کی چوت کو دیکھا تو مما نے
کہا مائزہ میں نے کہا ھاں مما تو مما نے کہا بتاؤ میری چوت کیسی ھے میں نے مما کے
چوت کو انگلیوں سے سہلاتے ھوئے بہت ساری تعریف کی واقعی میری مما کی چوت بہت ہی
پیاری اور کیوٹ ھے پھر میں مما کی چوت کو چومتے ھوئے انگلیاں مارتی چاٹتی چوستی
اور میں فل ھوٹ ھوگئی اور مستی میں مست ھوکر میں غرلانے لگی اور مما تو اونچا
اونچا غرلاکر کہے رہی تھی میری چوت کو اور چاٹو پھر کچھ دیر بعد مما کی پیاری سی
چوت نے پیارا رس نکالا میں نے چاٹا اور مما کو بھی چٹوایا پھر مما نے میری چوت کا
رس نکالا پھر مما نے کہا مجھے کسی نے پچاس ہزار چودائی کے دیئے ہیں وہ آئے گا میں
چہاتی ھوں وہ تم کو دیکھے تیرا پچاس لاکھ لوں اس سے ۔۔۔ میں نے کہا میری مما کتنی
پیاری ھے پھر ھم نے سیکس کیا اور اپنی چوتوں کا رس نکالا اور مزہ اور مستی میں
اونچا اونچا غرلارھے تھے صبحا ھم سو گئے پھر مما نے خوش ھو کر بتایا کے وہ مرد
آرہا ھے پھر مما مجھے پیار کرتے ھوئے تیار کرتی ھم پیار کرتے ھوئے آخر تیار
ھوگئے پھر وہ مرد آیا جب وہ آیا تو مما اور مرد چومتے چوستے ھوئے صوفے پہ
بیٹھ کر ممااس سے مستی میں ہنستیی مما اس کو چوم چوس رہی تھی مستی میں اور وہ مما
کو چومتا چوستا اورمما کے پیارے مموں کو دباتاچومتا تعریف کرتا اور میں کرسی پر
بیٹھ کے دیکھ رہی تھی اور مجھے مزہ آرہا تھا پھر جب مرد کی نظر مجھ پر پڑی تو
ایکدم کھڑا ہو گیا بولا کے یہ لڑکی ھے یاں پری اتنی لاجواب اور پیاری لڑکی
مما سے کہا تیری بیٹی تو تیری طرح لاجواب ھے پھر وہ مما کو چومتے ھوئے مما کے مموں
کودباتاہوا مما کی قمیض اتار دی میں ان کو دیکھ کے مست ھورہی تھی جب مما مجھے
دیکھتی توسیکس انداز سے مسکراتی ھونٹوں سے بتاتی کے مجھے مزا آرہا ھے پھر مما نے
مرد کی شیٹ اتاردی مرد نے مما کی شلوار اتاردی پھر مما نے مرد کی پینٹ اوتاردی اب
مما اور مرد دونوں نگے مرد مما کی چوت کو چاٹتا چوستا چومتا رہا جب تک مماکی چوت
نے رس نہیں نکالا پھرمرد نے اپنا لن مما کے منہ کے پاس لایا تو مما نے لن کو چومتے
چاٹتے ھوئے چوپے مارے پھر مرد مما کے مموں کو چوداتا کبھی گانڈ اور چوت کو چودتا
میں بھی مست ھوکراپنے مموں کو دباتئ اور اپنی چوت کو سہلاتی پھر مرد
کے لن کا رس نکلا تو دونوں ہوش میں آئے پھر نگے رہے کپڑے نہ پہنے پھر کھانا کھاتے
ہوئے باتوں میں پاپا کی بات آئی مما نے میرے پاپا کی تعریف کی پھر مرد نے کہا
تیرے شوہر نے مجھے تیری تصویر دیکھائی تو تم پیاری لگی جب تیرے شوہر نے مجھے تم سے
ملوایا تو میں تیرا عاشق ھوگیا تم اتنے لن لیتی ھو میرا لن تمہیں کیسا لگتا ھے مما
نے مرد کے لن کی تعریف کی اور سیکس اور چودائی کی بہت ساری تعریف کی مرد نے
مما سے کہا میں تیری بیٹی کو چودنا چہاتا ھوں مما نے کہا میری بیٹی بند کلی ھے مرد
نے کیا قیمت بولوں مما نے کہا پچاس لاکھ مرد نے ڈن کردیا پچاس لاکھ سیدھا
مما کے اکائنٹ میں آیا پھر مرد مجھے چومتا مما کو چومتا میں مما کو مرد کو چومتی
مما مجھے چومتی مرد کو چومتی پھر مما نے مرد کا لن میرے منہ کے پاس لائی میں نے لن
کی تعریف کرتے ھوئے لن کو ہاتھوں میں لے کر چومتی پیار کرتی پھر لن کے چوپے مارے
اور میں لن کے ساتھ مست تھی پھر مرد نے میری چوت کو چومتا چوستا چاٹتا ھوا مستی
میں غرلارہا تھا اور مما مجھے چوم چوس رہی تھی پھر جب مرد کا لن میری چوت کی سیل
توڑ کے اندر پورا گیا تو میں پاگل ھو گئی اور مرد کو ایسا چودا کے مجھے مزہ آگیا
پھر لن کا پانی نکلا مما نےاور میں نے چاٹاپھر ساری رات میں مستی میں چودواتی رہی
صبحا ھوئی مرد جاتے ہوئے مما اور مجھے چود کرچلا گیا
مما
نے کہا مزہ آیا میں نے کہا بہت مزہ آیاپھر میں نے پاپا کا پوچھا کے وہ کہا ھیں
تم کیسے ملے مجھے بتاو مما نے ایک سیکس آہ بھری اور مجھے چومتے ھوئے بولی میرے
روم میں چلتے ہیں بیڈ پر آرام سے بتاتی ہوں اور ہم پیار کرتے ھوئے باتیں بھی کریں
گے
جب
مما کے روم میں آئے پہلے تو مما نے اپنی چوت کا رس نکالا پھر جب ھوش میں آئی
یعنی میں مما کی چوت میں انگلیاں مارتی مما کی چوت کو چومتی چوستی چاٹتی پھر مماکی
چوت نے رس نکالا پھر مما مجھے چومتی ھوئی بولی جب تیرے پاپا سے میں پہلی بار ملی
تو مجھے زبردستی اٹھاکر ایک مہنے تک اپنے ساتھ رکھا اور مجھے ہر طریقے سے چودتا
گانڈ بھی چودتا مجھے بہت ہی مزہ آتا پر میں تیرے پاپا کو اس مزے کا نہیں بتاتی
تھی پھر جب تیرا پاپا شادی کا بولتے تو میں انکار کرتی تو تیرا پاپا غصہ سے جو
چودائی کرتے تو میں مست ہوکر تیرے پاپا کو چودتی اور تیرا پاپا مجھے چودتا پھر میں
تیرے پاپا سے کہا ایک شرط پہ شادی کرونگی بولا بتاو کیا شرط ھے میں نے کہا میں اور
بھی لن لونگی تیرے پاپا نے مجھے پیار سے چومتے ھوئے میری چوت میں لن ڈالتے ھوئے
کہا میں اپنے ہاتھوں سے تیری چوت میں لن ڈالوں گا دوسرے کا اب تو مان جاو آخر میں
شادی کر لیں پھر تیرا پاپا مجھے دوسرے ملک لے گیا اور ہرقسم کا لن میں نے لیا تیرے
پاپا نے میری چوت سے بہت سارا پیسہ کمایا پھر ہم واپس آئے پھر تیرا پاپا کبھی دو
لن لاتا مرد کبھی چھ سات ایک ساتھ لاتا پیسہ لیتا اور میں مست ہو کر چودواتی پھر
تُو پیدا ھوئی ہمارے گھر میں خوشیاں ھوئی پھر چودیا کرتے کبھی ہم نگے چدائی کر کے
نگے سو جاتے اور تو ہمارے ساتھ سوتی پھر صبحا ہوتی تو ۔۔۔۔ تو اٹھتی تو پاپا کا لن
دیکھتی تو لن کو منہ میں لیتی پاپا نید میں مست ہوکر غرلاتے تو میں دیکھتی
کے تو پاپا کے لن سے کھیل رہی ہے کبھے ہاتھوں میں لیتی منہ میں لتی میں تیرے پاپا
کو اٹھاتی پاپا سمجھتے کے مں لن کو مست کررہی ہو پھر تجھے اٹھا کر بیچ میں سلاتے
اور تجھے پیار کرتےپھر میں تجھے نگا کرتی اور تیرے پاپا سے چودواتے ھوئے تجھے پیار
کرتی اور تیری چوت کو بھی ہیار کرتی اور تیرے پاپا مجھے چودتے ھوئے تجھے پیار کرتا
اور کہتا جب مائزہ بڑی ھو گی تو تب بھی چوت کو چاٹوگی میں نے کہاں دیکھوں نا مائزہ
کی چوت کتنی پیاری ھے کیا تمہیں بیٹی کی چوت اچھی نہیں لگتی پاپا نے تیری چوت
سہلاتے ھوئے تعریف کی میں نے کہا چوت کو چومو چومتا تیرے پاپا کا لن
کمال کا ھے میں نے مما سے پوچھا پاپا کہاں ھے مما نے کہا تیرا پاپا دوسرے
ملک گیا ھے 12 سال کیلئے اور کبھی بھی آسکتا ھے میں نے کہا مما پاپا جب آئں گے
تو میں پاپا کو بہت پیار کرونگی پھر میں مما کو چومنے لگی پھر ہم مما بیٹی نے خوب
سیکس کیا پھر تو مما اکثر مردوں کو لاتی ہم چدواتی اور پیسہ لیتی وقت گزرا دن
گزرنے لگے اور ہم یوہی ماں بیٹی سیکس بھی کرتی چدواتی بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر
ایک روز میں ناشتہ کررہی تھی توبیل بجی مما نے انٹرکام سے دیکھا اور خوش ہو کر
بولی مائزہ پاپا آگئے جب ہم پاپا سے ملے تو میں پاپا سے لپٹ گئی پاپا اور میں
چومنے لگے پھر مما جلدی سے پاپا کو روم میں لےگئی اور اونچا اونچا دونوں سیکس میں
چدائی کرتے ھوئے غرلارہے تھے سارادن مماپاپا چدائی کرتے رہے اور کبھی نگے باہر
آتے چدائی کرتے میں نے پاپا کا لن دیکھا تو مما نے جیسے پاپا کے لن کی تعریف کی
ویسے ہی پاپا کا لن مست ھے پھر میں جاکر سو گئی پھر ڈنر پر ملے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاپا
نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور مجھے چومتے ھوئے میرے حسن کی تعریف کرتے اور میں
پاپا کوباہوں میں بھر کر دباتی تو مجھے پاپا کے جسم سے سکون ملتا پھر جب کھانا کھا
لیا تو مما نے کہا اب سب۔میرے روم میں چلو مما پاپا اور میں مما کے روم میں گئے
مما
نے مجھے بیچ میں لیٹایا پھر مما۔مجھے چومتی اور پاپا کو چومتی پاپا مما کے مموں کو
دباتا چومتا اور مما میرے مموں کو دباتی چومتی پھر مما نے پاپا سے میرے مموں کی
تعریف کی اور میرے نیٹی سے مموں کو نکال کردبانے چوسنے چومنے لگی پھر مما ہوٹ
ہوگئی اور نگی ہوکر مجھے پاپا کو چومتے ھوئے نگا کردیا اب ہم سب نگے تھے مما مجھے
چومتے ھوئے پاپا کو چومتے ھوئے پاپا کے لن کو چومتی منہ میں لے کر چوپے مارتی اور
مجھے کہا مائزہ یہاں آو اب میں پاپا کے لن کے ساتھ مما کے سامنے بیٹھی تو مما
بولی تیرے پاپا کا لن کیسا ھے میں نے پاپا کے لن کی تعریف کی تو مما نے کہا اگر
اتنا پیارا ہے تو پھر تم پاپا کے لن کو پیار کرو میں نے پاپا کی طرف پیار سے دیکھا
تو پاپا نے میری تعریف کی پھر میں نے پیار سے پاپا کے لن کو ہاتھو میں لیا سہلاتے
ہوئے چومنے لگی پھر لن کو چوپے مارے پھر میں اور مما پاپا کے لن کو مستی میں چومتے
چوپے مارتے پھر مما نے میری چوت کو پاپا کے لن پر رکھا اور پاپا کا پیارا لن میری
کیوٹ سی چوت میں گیا تو میں پاپا کے لن سے مست ھوگئی اور ہم ساری رات چدائی کرتے
رہے چوت لن کا رس نکالتے رہے پھر ہم سب نگے باہوں میں باہیں ڈالے سوگئے وقت اور گزرے
دن بڑھے ہم مست رہتے پاپا اور بھی مرد لاتا پیسہ لیتا پھر ہم دوسرے ملک گئے پاپا
نے لنوں کی برسات کردی اور نوٹ چھاپ کے آئے پھر ایک لڑکے نے مجھے پرپوز کیا میں
نے سوچہ کے پہلے میں چود کر دیکھوگی پھر ہم نے چدائی کی اور سب بتایا تو
لڑکے نے کہا کوئی بات نہیں بس مجھ سے تم شادی کرلو پھر ہم نے شادی کرلی میرے شوہر
سے مما بھی چودواتی پھر میرا شوہر
دوسرے ملک گیا اور کچھ دن بعد آیا اور ساتھ میں ایک پیاری سی لڑکی لایا اس کا جسم
بڑا ہی سیکسی اور مست تھا من کررہا تھا اس لڑکی کو نگا کرکے چومو چوسو بڑی کمال کی
لڑکی تھی میرے شوہر نے کہا یہ میری فرنڈ ھے کچھ دن رہے گی چلی جائےگی اور ھم ایک
ساتھ سیکس کرینگے اور تو بھی اس سے سیکس کریگی پھر یہ فرش ھوئے میں نے کھانا لگایا
کھانا کھاتے ھوئے لڑکی انگلش میں باتیں کرتی میں بھی انگلش میں باتیں کرتی میں نے
اس کی خوبصورتی کی فگر کی تعریف کی اس نے میری تعریف کی شوہر نے کہا مائزہ میں تین
چار گھنٹے کی میٹنگ ہے میں جارہا ہوں جب تک تم اس کے ساتھ مست رہو میں آونگا تو
ساری رات چودائی مارےگے اور شوہر چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں
نے لڑکی سے کہا میرے ساتھ سیکس کروگی لڑکی نے کہا ہاں کہا پھر ہم چومتے ھوئے روم
کے بیڈ پر آئے اور میں نے اس کی قمیض اور بلوز اتار کر اس کے مموں کو مستی میں
چومنے چوسنے دابانے لگی وہ بھی مجھے چوم رہی تھی جب میں نے لڑکی کی شلوار اتاری تو
چوت کی جگہ لن تھا پھر ہم نے خوب چدائی کی پھر شوہر آیا پھر چدائی کی جب تک لڑکی
رہی پھر لڑکی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر
گھر کی کہانی
آخری
قسط
تحریر:
پی کے ساقی
آصف کے والد اور اس کے خالو نے ایک ہفتے بعد پاکستان آ
جانا تھا ۔۔۔ اور آصف نے اس ایک ہفتے کو مکمل طور پر استعمال کرنے کا اور اس سے
فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ اس دوران وہ روزانہ رات کو اپنی ماں کو جم کر چودتا
اور دن میں اسے جب بھی موقع ملتا تو اپنی ماں سے نظریں بچا کر وہ اپنی بڑی بہن سے
بھی مزے لیتا تھا ۔۔۔ جبکہ اس دوران دو بار وہ اپنی خالہ کے گھر جاکر اسے چودکر
آیا ۔۔۔ جتنا آصف نے اس ایک ہفتے کے دوران اپنی ماں اور اپنی خالہ کو چودہ اتنا
شاہد اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی اتنا چدائی کرنے کا موقع ملے گا ۔۔۔ طاہرہ جانتی
تھی کہ اس کا بیٹا بہت بے چین ہے اس لیے اس نے اپنے بیٹے کو روکنے کی بجائے پورا
ہفتہ اس کا بھرپور ساتھ دیا اور اپنے بیٹے سے جم کر چدوایا ۔۔۔۔۔اتوار کی دوپہر کو
اس کی کے ابو اور اس کے خالو نے پاکستان پہنچنا تھا ۔۔۔ جبکہ اس سے ایک رات پہلے
آصف نے اپنی ماں کو ایک ہی رات میں تین بار چودا ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف طاھرہ جو کہ
زندگی بھرکسی کے پیار کے لیے اور اپنے جسم کی بھوک کے ہاتھوں تڑپتی اور ترستی رہی
تھی اب بے حد سکون میں تھی ۔۔۔ اس کا بیٹا روزانہ رات کو ہی اسےچودنے کے لئے تیار
ہوتا اور طاہرہ کو اس قدر سکون ملتا اپنے بیٹے سے چدوا کر کی وہ بیان ہی نہیں
کرسکتی تھی ۔۔۔ جب کہ اس سے زیادہ بے چین اس کی ماں رہتی تھی کہ کب رات ہو اور اس
کیپھدی کو اس کے بیٹے کا لن نصیب ہو ۔۔۔۔۔اگلے دن صبح ناشتے میں طاہرہ نے اپنے
بچوں کو بولا کے اب انہیں پہلے کی طرح ایک ہی کمرے میں رہنا پڑے گا کیونکہ اب اس
کے ابو آرہے تھے تو آصف کو واپس اپنی بہن کے کمرے میں شفٹ ہونا پڑناتھا ۔۔۔ یہ سن
کر ماریا اور آصف نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ماریا نے اپنے چھوٹے بھائی کو
آنکھ ماری ۔۔۔ یہ سن کر آصف کی کچھ ڈھارس بندھی کہ چلو اور کوئی نہیں تو اپنی بہن
کے جسم کے ساتھ کھیل کر ہی مزے لے لے گا ۔۔۔۔۔دوپہر کو وہ سب لوگ ایئرپورٹ گئے اور
اپنے ابو کو اور خالو کو لے کر گھر آئے ۔۔۔ رات کو آصف کی امی نے اپنی بہن کی
فیملی کے لئے اور اپنی فیملی کے لئے رات کا کھانا بنایا اور ان سب کو دعوت دی
۔۔۔رات کا کھانا کھانے کے بعد کافی دیر تک وہ سب باتیں کرتے رہے اور آصف کی خالہ
اپنے گھر چلی گئی جب یہ لوگ بھی سونے کے لئے اپنے اپنے کمروں میں چل دئے ۔۔۔ حمید
خان جو کہ تقریبا دو سال بعد پاکستان آیا تھا اپنی بیوی کے ساتھ اکیلے وقت گزارنے
کے لیے بے تاب تھا ۔۔۔ اس لیےجیسے ہی وہ اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تو اس نے
طاہرہ کو بیڈ پر لٹایا اور اس کے اوپر چڑھ کر اسے چومنے لگا ۔۔۔ طاہرہ کو اب اپنے
خاوند میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ ایک بار جب اس کی پھدی کو اس کی بیٹے کا لن
لگ چکا تھا تو اب اسے اپنے ہی بیٹے سے چدوانے کی لت لگ گئی تھی ۔۔۔۔۔طاہرہ ایک
روبوٹ کی طرح چپ چاپ لیٹی رہی اور اپنے شوہر کا کچھ حد تک ساتھ دیتی رہی جبکہ حمید
خان بڑی بے چینی کے ساتھ اپنی بیوی کو چودنے لگا ۔۔۔ جیسے ہی طاہرہ کے خاوند نے
اسے چودنا شروع کیا تو طاہرہ کو احساس ہوا کہ اب اسے وہ مزہ اس کے شوہر سے کبھی
نہیں مل سکتا جو اسے اس کے بیٹے سے ملتا ہے ۔۔۔ کیوں کہ اس کے شوہر کے لن میں نہ
تو وہ سختی تھی اور نہ ہی اس کے چودنے میں وہ شدت ۔۔۔ طاہرہ نے چپ چاپ اپنی آنکھیں
بند کیں اور اپنے ہی بیٹے کے ساتھ گزرے ہوئے پچھلے کئی دنوں کے بارے میں سوچنے لگی
۔۔۔ اپنے بیٹے کے ساتھ کی گئی چدائیوں کے بارے میں سوچتے ہوئے طاہرہ کی پھدی گیلی
ہونے لگی مگر اس سے پہلے کہ اسے مزہ آتا حمید خان اس کی پھدی کے اندر اپنی منی
نکال کر فارغ ہو چکا تھا ۔۔۔ طاہرہایک بات جان چکی تھی کہ اب اگلے کئی دن اس کے
لیے بہت مشکل ہے جب تک کہ اس کا شوہر چلانہیں جاتا اور وہ دوبارہ اپنے بیٹے کے
ساتھ سیکس نہیں کرتی ۔۔۔ پچھلے کئی دن سے اس کے بیٹے نے جس طرح جم کر اسے چودہ تھا
اب اس کے لیے اپنے شوہر کے ساتھ رات گزارنا بہت مشکل لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔جبکہ دوسری
طرف ماریہ کے کمرے میں دونوں بہن بھائی ننگے لیٹے ہوئے ایک دوسرے کو چومنے میں مصروف
تھے ۔۔۔ آصف کو ہمیشہ سے ہی ممے چوسنے کا بہت شوق تھا اس لیے وہ کافی دیر تک اپنی
بہن کے ممے چوستا رہتا کیونکہ اس کے ساتھ سیکس تو ابھی ہو نہیں سکتا تھا ۔۔۔ بنا
کسی فکر کے دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کے جسم کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔۔۔ آصف اپنی
بہن کے ممے چوسنے کے ساتھ ساتھ ایک ہاتھ کے ساتھ اس کی جسم کے ساتھ کھیل رہا تھا
۔۔۔ جبکہ ماریا اپنےچھوٹے بھائی کے ساتھ ننگی لیٹی ہوئی شدید گرم ہو چکی تھی ۔۔۔
تبھی اچانک ان کے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ۔۔۔ مگر وہ دونوں ایک دوسرے میں
اتنے مگن ہو چکے تھے کہ انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ ان کی ماں دروازے میں کھڑی انہیں
دیکھ رہی تھی ۔۔۔ یہ پہلی رات تھی کہ آصف اور ماریا اکٹھے سوئے ہوئے تھے اس لیے
طاہرہ کمرے سے نکل کر ایک بار چیک کرنے کے لئے آئی تھیںکہ انھیں کوئی مسئلہ نہ ہو
۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ طاہرہ کے دل میں تھوڑی سی امید یہ بھی تھی کہ اگر ماریا
سو گئی ہوئی اور آصف جاگا ہوا تو ہو سکتا ہے کہ آج کی رات جو اس کی بھوک ادھوری رہ
گئی ہے اسے مٹانے میں اس کا بیٹا اس کیمدد کر سکے ۔۔۔ مگر یہاں تو منظر ہی کچھ اور
تھا۔۔۔ طاہرہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بیٹی اور اپنے بیٹے کو
ننگا ایک دوسرے کے جسم کے ساتھ کھیلتا ہوا دیکھے گی ۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا
کہ وہ خود اس وقت کیا کرے ۔۔۔ اگر وہ کچھ بولتی تو آواز سن کر اسکے بچوں کا باپ
باہر آ سکتا تھا لیکن وہ بولتی بھی تو آخر کس منہ سے ۔۔۔ اسی منہ میں تو وہ اپنے
بیٹے کا لن لیتی رہی ہے ۔۔۔ طاہرہ نے اس وقت اپنے بچوں کو اکیلا چھوڑ کر سونے کا
اور آصف سے صبح اکیلے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔دوسری طرف اس سب سے بے خبر
دونو بہن بھائی ایک دوسرے کو چومنے میں مصروف تھے ۔۔۔ کافی دیر اسی طرح ایک دوسرے
کو چومنے کے بعد آصف اپنی بہن کی ٹانگوں کے درمیان میں گیا اور اس کی پھدی چاٹنے
لگا ۔۔۔ ماریہ مزے سے تڑپنے لگی اور اپنے بھائی کے سر کو پکڑ کر مزید اپنی پھدی پر
دبانے لگی ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں ماریا اپنے چھوٹے بھائی کے منہ پر ہی فارغ ہونے لگی
اور اس کا پورا جسم کانپنے لگا ۔۔۔ اسے اس بات کی بے حد خوشی تھی کہ اب اس کے اگلے
کی دن اسی طرحمزے میں گزرنے والے ہیں جب تک کہ اس کی شادی نہیں ہو جاتی وہ بہت خوش
تھی ۔۔۔ ماریہ فارغ ہونے کے بعد اپنے بھائی کے لن کی چوپے لگانے لگی اور اسے بھی
فارغ کیا ۔۔۔ وہ دونوں رات دیر تک ایک دوسرے کے جسم کے ساتھ کھیلتے رہے اور نہ
جانے کب انہیں اسی طرح نیند آگئی ۔۔۔۔۔صبح آصف اٹھا تو ماریہ پہلے ہی اٹھ چکی تھی
اور کمرے میں موجود نا تھی ۔۔۔ آصف بھی نہا کر باہر نکل آیا ۔۔۔ پورا گھر خالی
خالی لگا بس کچن سے آوازیں آتی ہوئی محسوس ہوئی تو آصف اسی طرف چل پڑا ۔۔۔ کچن کے
پاس پہنچا تو ماریہ باہر نکلی اور اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرا کر آنکھ ماری ۔۔۔
آصف نے پاس سے گزرتے ہوے اپنی بہن کو پکڑ کر گلے سے لگا لیا اور ایک ہاتھ سے اسکی
کمرکو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اسکی گانڈ کو سہلانے لگا ۔۔۔ ماریہ ایک دم خود کو
چھڑانے لگی اور بولی ۔۔۔۔۔ماریہ : ” پاگل ہو گئے ہو ۔۔۔ کچھ تو خیال کرو کچن میں
امی ہیں اور کمرے میں ابو ۔۔۔ دونو میں سے کسی نے بھی دیکھ لیا تو قیامت آ جائے گی
۔۔۔ چلو ہٹو ۔۔۔ “۔۔آصف جانتا تھا اسکی بہن کا ڈرنا جائز تھا مگر اسکا غصہ بلکل
مصنوئی تھا ۔۔۔ اسے بھی اچھا لگا تھا اس طرح اپنے بھائی کی باہوں میں مچلنا۔۔۔ آصف
مسکراتا ہوا کچن میں داخل ہوا جہاں سامنے اسکی ماں ناشتہ بنانے میں مصروف تھی ۔۔۔
آصف کولگا جیسے ایک ہی رات میں برسوں کی دوری آ گئی ہو ۔۔۔ اپنی ماں کی موٹی گانڈ
کو دیکھ کر اسکا لن سر اٹھانے لگا اور وہ چلتا ہوا اپنی ماں کے پاس آیا ۔۔۔ آصف نے
اپنی ماں کو پیچھے سے کس کر گلے لگایا ۔۔۔ آصف نے اپنا لن اپنی ماں کی گانڈ کی
لکیر میں گھسایا اور اپنے دونو ہاتھوں سے اپنی ماں کے ممے پکڑ کر دبانے لگا ۔۔۔
طاہرہ کو اپنے بیٹے کا یہ اچانک حملہ اچھا لگا مگر پکڑے جانے کے ڈر سے اس نے بھی
ماریہ کی طرح مصنوئی غصے کے ساتھ آصف کو روک دیا ۔۔۔۔۔آصف نے اپنی ماں کو چھوڑا
اور مسکراتا ہوا اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور بولا ۔۔۔۔۔آصف : ” ہاں تو پھر کیسی
گزری میری امی جان کی رات ۔۔۔ “۔طاہرہ : ” بہت ہی بری ۔۔۔ مگر تمہاری تو بہت حسین
گزری ۔۔۔ “۔ایک لمحے کے لیے آصف کا دل زور سے دھڑکا ۔۔۔ پھر وہ معصوم بننے کی
اداکاری کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔آصف : ” میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔۔ “۔طاہرہ : ” اب اتنی
بھی معصوم بننے کی اداکاری مت کرو ۔۔۔ تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ رات کو تم
اپنے کمرے کی کنڈی لگانا بھول گئے تھے اور رات کو میں جب تم دونوں کے کمرے میں آئی
تو میں نے تو دونوں کو دیکھ لیا تھا وہ سب کچھ کرتے ہوئے ۔۔۔ چلو تمہاری تو سمجھ
آتی ہے تم ہر وقت ہی تیار ہوتے ہو مگر مجھے حیرت تو تمہاری بہن پر ہو رہی ہے کہ
کچھ ہی دنوں کے بعد اس کی شادی ہے مگر اس سے اتنا بھی انتظار نہیں ہوا اور اپنے ہی
چھوٹے بھائی کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “۔۔ساری بات کھل کر سامنے آچکی تھی مگر
آصف کو اب کسی بات کا ڈر نہیں تھا کیونکہ آخر اس کیماں کس منہ سے ناراض ہوتی اس سے
۔۔۔ وہ خود نہ جانے کتنی بار اپنے ہی بیٹے سے چدوا چکی تھی ۔۔۔آصف نے مسکراتے ہوئے
جواب دیا ۔۔۔۔۔آصف : ” امی جان آپ تو جيلس ہوتے ہوئے اور بھی زیادہ سیکسی لگ رہی
ہیں ۔۔۔ اب آپ تو وہاں ابو کے ساتھ لگی ہوئی تھی میں بیچارہ کہا جاتا اور جہاں تک
بات رہی ماریا کی تو آخر وہ بھی جوان ہے اس کا بھی دل کرتا ہے یہ سب کچھ کرنے کو
تو میں تو بس اسی کا ساتھ دے رہا تھا وہ ساتھ کے ساتھ اپنا بھی من بہلا رہا تھا
۔۔۔ اور باقی آپ پریشان نہ ہو ہم نے سیکس نہیں کیا اور نہ ہی کرنا ہے کیوں کہ
ماریہ ابھی کنواری ہے اور اس کا کنواراپن صرف اس کے شوہر کے لئے ہے ۔۔۔ اور جب
ماریہ کی شادی ہو گئی اور ابو دبئی چلے گئے تو پھر ہم دونو ماں بیٹا جی بھر کر
سیکس کریں گے ۔۔۔ “۔۔طاہرہ نے کچھ بولے بغیر ایک بار اپنے بیٹے کو مڑ کر دیکھا اور
پھر سے کام میں مصروف ہو گئی ۔۔۔۔۔آصف : ” آپ پریشان نہ ہوں امی آپ ہی میری پہلی
اور آخری محبت ہیں باقی سب تو آنی جانی ہیں ۔۔۔ اور آگے سے میں اور ماریا احتیاط
سے کام لیں گے اور جب تک اس کی شادی نہیں ہوجاتی آپ پریشان نہ ہوں ہم سیکس نہیں
کریں گے ۔۔۔ “۔۔طاہرہ : ” کیا مطلب جب تک اس کی شادی نہیں ہوجاتی شادی کے بعد کیا
کرو گے ؟؟؟ “۔۔آصف : ” یار آپ بس یہ سمجھ لیں کہ آپ کی طرح میں ماریہ سے بھی بہت
پیار کرتا ہوں اور میں چاہتاہوں کہ جتنا پیار میں اپنی ماں کو دیتا ہوں اتنا پیار
اپنی بہن کو بھی دے سکوں ۔۔۔ اور ماریا نے بھی میرے سے وعدہ کیا ہے کہ شادی کے بعد
ولیمہ والے دن ہی میرے ساتھ سیکس کرے گی ۔۔۔ میں ویسے اس بارے میں آپ سے بات کرنے
ہی والا تھا کہ مجھے آپ کی مدد چاہیے ۔۔۔ “۔۔طاہرہ : ” شاباش بیٹا صدقے جان تمہاری
سوچ کے ۔۔۔تو تم کہہ رہے ہو کہ میں اپنے بیٹے کی مدد کرو اپنیبیٹی کو چودنے میں
۔۔۔ “۔۔آصف : ” جب آپ ماں ہو کر اپنے بیٹے سے چدوانے کے لیے ہر وقت تیار ہوتی ہیں
تو کیا آپ اپنے اس بیٹے کیخواہش بھی پوری نہیں کر سکتی ہیں ۔۔۔ “۔۔طاہرہ : ” ٹھیک
ہے سوچوں گی ۔۔۔ “۔۔آصف نے پیار سے اپنی ماں کی گانڈ پر ہاتھ پھیرا اور تھینک یو
بول کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔اگلے کئی دن اسی طرح خاموشی سے گزر گئے ایک طرف طاہرہ
اپنے شوہر سے چدواتی رہتی اور دوسری طرف دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے مزے لیتے
رہتے کبھی ہاتھ سے تو کبھی منہ سے دوسرے کوفارغ کرتے اور اسی طرح سو جاتے ۔۔۔ آخر
کار ماریہ کی شادی کا دن آ ہی گیا ۔۔۔ شادی والے دن آصف کے ابو ماریہ کو لے کر
بیوٹی پارلر کی طرف چلے گئے اور اسے بیوٹی پارلر چھوڑ کر خود شادی ہال کی طرف نکل
گئے ۔۔۔ آصف رات کو دیر سے سویا تھا اس لیے وہ ابھی تک لیٹا ہوا تھا ۔۔۔ صبح اس کی
آنکھ کھلی تو بہت ہی حسین منظر اس کے سامنے تھا ۔۔۔ اس کی ماں مکمل طور پر ننگی اس
کے ساتھ لیٹے اس کے لن کو ہاتھ سے سہلا رہی تھی۔۔۔۔۔آصف نے آنکھ کھولتے ہی سیدھا
اپنی ماں کے ممے کو منہ میں لیا اور چوسنے لگا ۔۔۔ طاہرہ نے اپنے بیٹے کو ممے
چوستے دیکھ کر پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور بولی
۔۔۔۔۔طاہرہ : ” اٹھ گیا میرا بیٹا ۔۔۔ اتنے دن سے میں بے چین ہوں تمہارے ساتھ سونے
کے لئے تم سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔۔ تمہارے ابو تو ہمیشہ ہی مجھ سے پہلے فارغ ہوجاتے
ہیں اور مجھے ادھورا چھوڑ کرسو جاتے ہیں ۔۔۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ دن میں نے
کیسے گزارے ہیں ۔۔۔ اب تمہاری ماں سے اور برداشت نہیں ہوتا بیٹا ۔۔۔ تم نے کہا تھا
نہ کہتمھیں میری مدد چاہیے ماریہ کے ساتھ سیکس کرنے میں ۔۔۔ تو ٹھیک ہے میں تمھاری
مدد کروں گی تمہاری بڑی بہن کو چودنے میں لیکن اس سے پہلے میری شرط ہے ۔۔۔ کہ ابھی
اور اسی وقت تم اپنیماں کوچود کر اس کے سارے ارمان نکال دو اور اس کی ساری پیاس
بجھا دو ۔۔۔ کیونکہ اب میرے لئے برداشت کرنا نا ممکن ہے اب جب تک میں تم سے چدوا
نہیں لیتی مجھے لگ رہا ہے جیسے مجھے سانس بھی نہ آئے ۔۔۔ چلو اٹھو بیٹا اور آج جی
بھر کر چودو اپنے ماں کو ۔۔۔ “۔۔اپنی ماں کے منہ سے یہ سب باتیں سن کر آصف کا لن
ایک دم اکڑ چکا تھا ۔۔۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ واقعی اس کی ماں اس وقت بہت ہی
شہوت میں ڈوبی ہوئی ہے ۔۔۔ آصف نے مزید انتظار کیے بغیر ایک دم سے اٹھ کر اپنی ماں
کو نیچے لٹایا اور اس کے اوپر چڑھ کر اس کے ہونٹ چومنا شروع کر دیا ہے ۔۔۔ جبکہ
نیچے سے آصف کا لن اپنی ماں کی پھدی کے اوپر رگڑ کھا رہا تھا ۔۔۔ آصف نے اپنی ماں
کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے مزید انہیں انتظار نہ کروانے کا فیصلہ کیا اور اٹھ کر
ان کی ٹانگوں کے درمیان میں آ گیا ۔۔۔ طاہر نے بھی جلدی سے اپنی ٹانگیں اٹھا کر
اپنی پھدی اپنے بیٹے کو پیش کر دی ۔۔۔ آصف نے اپنا لن اپنی ماں کی پھدی کے اوپر
سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا کا پورا اندر گھسا دیا ۔۔۔ طاہرہ کے چہرے پر
اطمینان اور سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔۔۔۔۔آصف نے اپنے جھٹکوں کی رفتار تیز کر دی
اور جم کر اپنی ماں کو چودنے لگا ۔۔۔ طاہرہ نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جس بیٹے
کو اس نے پیدا کیا ‘اپنا دودھ پلایا ‘ چلنا پھرنا اور بولنا سکھایا وہی بڑا ہو کر
اسکے مشکل وقت میں اسکا ساتھ دے گا اور اسکو چود کر اسکے جسم کی بھوک مٹائے گا ۔۔۔
طاہرہ کو اپنے بیٹے پر بہت پیار آ رہا تھا اور اسکو اس بات کی خوشی تھی کہ اب اسکو
اسکا جیوں ساتھی یا سیکس پارٹنر مل گیا تھا ۔۔۔ اب جب چاہے وہ اپنے بیٹے سے ‘ جو
کہ اس سے بہت محبت کرتا تھا ‘ چدوا سکتی ہے اور اب اسکی زندگی میں کوئی کمی نہیں
ہو گی ۔۔۔ یہ سوچتے ہوے ہی طاہرہ کو لگا اسکی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں اور وہ فارغ
ہونے کے قریب تھی ۔۔۔ تب اسکے منہ سےصرف اتنا نکل سکا ” بیٹا اور زور سے ۔۔۔۔۔۔۔۔
“۔۔آصف اپنی ماں کا حکم سنتے ہی مزید شدت کے ساتھ اسے چودنے لگا اور کچھ ہی دیر
میں طاہرہ کانپتے ہوے فارغ ہونے لگی ۔۔۔ آصف کے لن نے بھی ہار مان لی اپنی ماں کی
پھدی میں اپنا سارا پانی نکالنے لگا ۔۔۔ آصف ہانپتا ہوں اپنی ماں کے اوپر لیٹ گیا
اور بولا ۔۔۔۔۔آصف : ” نا جانے کتنے بیٹے ہیں جو اپنی ماں کو ایک بارچودنے کے لئے
مر مٹنے کو تیار ہو جائیں ۔۔۔ مگر میرے جیسا خوش قسمت کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔ امی کاش
میں آپ کو اپنے بچے کی ماں بنا سکتا تو سوچیں کتنا مزہ آتا ۔۔۔ “۔طاہرہ اپنے بیٹے
کی اس معصوم خواہش پر مسکرا دی اور اسے گلے سے لگا کر اس کے ہونٹ چومنا شروع کر
دیے ۔۔۔ جبکہ نیچے سے اسکی پھدی سے اسکا اپنا اور اسکے بیٹے کا ملا جلا پانی نکل رہا
تھا ۔۔۔
گھر گھر کی کہانی
آٹھویں قسط
تحریر: پی کے ساقی
:کتنا ہی حسین منظر تھا کہ آصف سامنے اس کی ماںاپنے سیکسی جسم کے ساتھ ننگی لیٹی ہوئی تھی اور اس کے پیٹ پر اپنے بیٹے کی منی صاف نظر آ رہے تھی ۔۔۔ آصف نے ایک بار نظر بھر کر اپنی ماں کو دیکھا تو اسے بہت پیار آنے لگا ۔۔۔ آصف سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنا لن ایک بار پھر اپنی ماں کی پھدی کے اندر ایک ہی جھٹکے سے ڈالا اور اس کے اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹ چومنے لگا ۔۔۔ طاہرہ جو کہ برسوں بعد اس زبردست چدائی سے بہت مست اور سکون میں تھی شدت کے ساتھ اپنے بیٹے کے ہونٹوں کو چومنے لگی اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔۔ آصف کچھ دیر اپنی ماں کے ہونٹ چومنے کے بعد اوپر اٹھا اور اس کے مموں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔آصف : ” امی کیسا لگا آپ کو ؟؟؟ مزا آیا ؟؟؟ آپ سوچ بھی نہیں سکتی کہ مجھے کتنی محبت ہے آپ سے اور میں کتنا تڑپتا رہا ہوں آپ کو چھونے کے لئے آپ سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے ۔۔۔ اسلئے آج میں بہت خوش ہوں کہ مجھے آخر کار آپ مل ہی گئیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں آپ میری ماں ہے اور میں آپ کا بیٹا ہوں لیکن مجھے کسی قسم کی کوئی شرم نہ ہی کسی چیز کی کوئی پرواہ ہے مجھے جو چاہیے تھا وہ مجھے مل گیا ہے ۔۔۔ اور امی اگر آپ نے مجھے اپنا لیں تو یقین مانئے میں آپ کو خوش کر دوں گا اور آپ کی ہر ضرورت پورا کروں گا اور آپ کو اتنا پیار دوں گا کہ آپ کی زندگی میں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔ “۔۔طاہرہ کو اپنے بیٹے پر بہت پیار آنے لگا اس نے آصف کا چہرہ پکڑ کر ایک بار بہت پیار سے اس کےہونٹ چومے اور بولی ۔۔۔۔۔طاہرہ : ” بیٹا تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ میں اپنی پوری زندگی کس قدر نہ خوش رہی ہوں ۔۔۔ اور اس بات کا احساس مجھے بھی کچھ دن پہلے ہی ہوا ۔۔۔ مجھے کبھی کسی مرد کا پیار نہیں ملا اور نہ ہی مجھے کبھی کسی سے پیار ہوا ہے تمہارے ابوکے ساتھ بھی صرف ایک رشتہ ہے جس میں ہمیشہ نبھاتی آئی ہوں ۔۔۔ مگر میری زندگی میں ہمیشہ پیار کی محبت کی کمی رہی ہے ۔۔۔ مگر کچھ دن پہلے جبمیں نے تمہیں میرے برا کو چومتے ہوئے مٹھ مارتے ہوئے دیکھا تھا تو نہ جانے مجھے ایسا کیا ہوا کہ میں تمہارے لن کو ہاتھ میں پکڑنے اور اندر لینے کے لئے بے تاب ہو گی ۔۔۔ اور سچ یہی ہے کہ مجھے بھی کسی چیز کی کوئی شرم حیا پروا نہیں ہے میں جانتی ہوں میں تمہاری ماں ہوں اور میں ایک ماں ہوتے ہوئے میں اپنے بیٹے سے چدوا رہی ہوں ۔۔۔ سننے میں چاہے یہ بات جتنی مرضی غلط لگے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے اس قدر مزہ آیا کہ ابمجھے صرف اور صرف تمہاری محبت چاہیے تم ہی ہو جو میری زندگی بھر کی ساری کمیوں کو پورا کرسکتے ہو ۔۔۔ “۔۔آصف اپنی ماں کی باتیں سن کر خوش تو ہوا مگر ابھی ابھی اس کے اوپر جو انکشاف ہوا تھا وہ اس کے لئے بہت حیران کن تھا ۔۔۔ اس کی ماں نے اسے اس کی برا کو چومتے اور سونگھتے ہوئے مٹھ مارتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔۔۔ آصف اپنی ماں کے ممے کے اوپر جھکا اور اس کے ممے کے نپل کو منہ میں لے کر تھوڑا سا چوسا اور اوپر دیکھ کر اپنی ماں سے بولا ۔۔۔۔۔آصف : ” امی آپ سوچ بھی نہیں سکتی کہ آپ کس قدر خوبصورت اور سیکسی ہیں میں نے آج تک آپ جیسی خوبصورت اور سیکسی عورت نہیں دیکھی اور آپ کا جسم اس قدر مزے دار ہے کہ دل چاہتا ہے آپ کو اسی طرح ننگا لٹا کر آپ کا جسم چومتا رہوں ۔۔۔ اور آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کی زندگی کی ساری کمی پوری کر دوں گا ۔۔۔ بار بار کروں گا اور اتنا زوردار کروں گا کہ آپ اپنے بیٹے پر فخر محسوس کریں گے ۔۔۔ “۔۔طاہرہ : ” بس ہمیں یہ خیال کرنا ہوگا کہ تمہاری بہن کو اس بات کی کوئی بھنک نہ لگے ۔۔۔ کیا گزرے گی اس پر جب اسے پتہ چلے گا کہ اس کی ماں اور اس کا بھائی یہ سب کچھ کرتے ہیں ۔۔۔ اس لیےہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا ۔۔۔ “۔۔آصف نے صرف ہاں میں سر ہلایا اور اپنی ماں کو ایک بار پھر چوم لیا ۔۔۔ وہ دونوں باری باری بیڈ سے اٹھے اور باتھ روم جاکر اپنے آپ کو صاف کیا اور واپس آکر پھر سے لیٹ گئے ۔۔۔ سونے سے پہلے نہ جانے کتنی دیر تک دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کو گلے لگائے ایک دوسرے کے ہونٹ چومتے رہے ۔۔۔۔۔۔صبح آصف کی آنکھ کھلی تو اس کی بڑی بہن اسے اٹھانے کے لیے اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔ آصف نے آنکھیں کھولتے ہی اپنی بہن کو دیکھا تو مسکرا دیا اور اپنا ایک ہاتھ اپنی بہن کی ران پر پھیرنے لگا ۔۔۔ ماریہ رات سے بے چین تھی یہ جاننے کے لیے کہ اس کی ماں اور اس کے بھائی کے درمیان میں آخر رات کو ہوا کیا تھا ۔۔۔ آصف کے پوچھنے پر ماریا نے اسے بتایا کہ اس کی امی صبح صبح ہی خالہ کے گھر چلی گئی ہے کسی کام سے اور وہ کچھ دیر سے ہی آئیں گی اس لیے وہ دونوں گھر میں اکیلے ہیں تو وہ کھل کر بتا سکتا ہے ۔۔۔ آصف اپنی بہن کی ران پر ہاتھ پھیرتا رہا اور اسے رات کی ساری کی ساری کہانی ایک ایک تفصیل کے ساتھ بتا دی ۔۔۔ انسیسٹ کی دیوانی ماریہ نے جب یہ سنا کے حقیقی زندگی میں اسی کے گھر کے اندر ہی ماں بیٹے نے رات کو جم کر چدائی کی تو وہ فل گرم ہو گئی ۔۔۔ آصف نے اپنی بڑی بہن کی تیز ہوتی سانسیں اور گرم جسم کو محسوس کر لیا تو وہ سمجھ گیا کہ اس کی بہن اس کی رات کی کہانی سن کر گرم ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔آصف نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا ہاتھ اپنی بہن کی ران پر پھیرتے ہوئے آہستہ آہستہ اوپر کی طرف لے گیا اور اس کی پھدی پر جیسے ہی ہاتھ رکھا تو ماریا کے منہ سے سسکاری نکل گئی ۔۔۔ ماریہ بہت ہی شہوت میں مبتلا ہوچکی تھی جبکہ اس کی پھدی بہت گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔ اس نے سوچا شاید اس کی بہن اسے ایسا سب کچھ کرنے سے روک دے مگر جب اسے اپنی بہن کی آنکھوں میںمستی اور شہوت نظر آئی تو وہ سمجھ گیا کہ اس کی بہن کی طرف سے اجازت مل چکی ہے ۔۔۔ آصف اٹھکر بیٹھا اور سیدھا اپنے بہن کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ لگا کر اس کے ہونٹ چومنے لگا جبکہ ایک ہاتھ سے اس کی پھدی کو مسلسل رگڑ رہا تھا ۔۔۔ شہوت کے مارے ماریہ کے منہ سے سسکاریاں اور آہیں نکل رہی تھی ۔۔۔۔ آصف نے ایک دم سے اپنے ہاتھوں سے ماریہ کے قمیض کو پکڑا اور اوپر کی طرف کھینچ کر اتار دیا ۔۔۔ جیسے ہی اس کی بڑی بہنکی خوبصورت اور بڑے ممے اس کے سامنے آئے تو وہ پاگلوں کی طرح اس کے مموں پر جھپٹ پڑا اور اس کے ممے چوسنے لگا ۔۔۔ ماریہ جو کہ انسیسٹ کے پیچھے دیوانی تھی آج جب اپنے ہی سگے بھائی سے اپنی پھدی رگڑواتے ہوئے اور اپنے ممے چومتے ہوئے دیکھ رہی تھی تو بہت ہی مست ہونے لگی اس کے لیے اب برداشت کرنا نا ممکن تھا اسے لگا جیسے اس کا خواب پورا ہو رہا ہے ۔۔۔ آصف کو جب اپنی بڑی بہن کی شلوار فل گیلیہوتی محسوس ہوئی تو اس نے اپنی بہن کو بیڈ پر لٹایا اور اس کی ٹانگوں کی طرف جا کے اس کی شلوار کو پکڑ کر کھینچ کر اتار دیا ۔۔۔ ماریہ کے جسم پر بالوں کا نام و نشان نہ تھا آصف سمجھ گیا کہ اس کی بہن تیار ہو کر ہی اس کے پاس آئی تھی ۔۔۔ جیسے ہی ماریا ننگی ہوئی تو اس نے فورا اپنا ایک ہاتھ اپنی پھدی کے اوپر رکھ کر اپنی پھدی کو چھپانے کی کوشش کی اور بولی ۔۔۔۔۔ماریہ : ” بھائی دل تو بہت کر رہا ہے کہ میں امی کی طرح آپ سے یہی سیکس کروں مگر میں شادی سے پہلے اپنا کنواراپن کھونا نہیں چاہتی ۔۔۔ تم ایسے اوپر سے ہی کر لو پلیز ۔۔۔ “۔آصف : ” آپ پریشان نہ ہوں آپی مجھے بھی آپ سےکوئی زبردستی نہیں کرنی میں تو بس آپ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں اور آپ کو سکون پہنچانا چاہتا ہوں۔۔۔ آخر آپ نے مجھے امی کو چودنے میں اتنی مدد کی تو میں آپ کے لئے اتنا تو کرہی سکتا ہوں ۔۔۔ “۔۔یہ کہہ کر اس نے اپنی بہن کے ہاتھ ہٹایا اور اس کی ٹانگوں کو اوپر کی طرف کھڑا کر اس کی پھدی کے اوپر جھک گیا ۔۔۔ ماریا نے صرف پورن فلموں میںہی دیکھا تھا ایک بھائی کا اپنی بہن کی پھدی کو چاٹنا اب جب حقیقت میں یہ ہونے لگا تھاتو اسکی پھدی اس سے بھی زیادہ گیلی ہونے لگی ۔۔۔ آصف کو اپنی بڑی بہن کی کنواری خوبصورت اور گلابی پھدی بہت ہی مزیدار لگی اور اس نے اپنی بہن کی پھدی چاٹنی شروع کردی ۔۔۔ جیسے ہی آصفکی زبان اپنی بہن کی پھدی پر پھری تو ماریا مزے سے تڑپنے لگی اور اس کا جسم کانپنے لگا ۔۔۔ آصف بہت شدت کے ساتھ اپنی بہن کی پھدی چاٹ رہا تھا جبکہ ماریا اپنے مموں کو دباتے ہوئے فارغ ہونے کے قریب تھی ۔۔۔۔ماریہ : ” آہ ۔۔۔ آہ ۔۔۔ آہ ۔۔۔ بھائی ۔۔۔ آہ ۔۔۔ آہ ۔۔۔ آ آ آ آ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ “۔ماریا اپنے چھوٹے بھائی کے منہ پر ہی فارغ ہو گئی آصف نے اچھی طرح سے اپنی بہن کا سارا رس چوس کر چاٹ کر صاف کیا اور اس کے ساتھ لیٹ کر اس کے مموں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔آصف : ” بس اب آپ خوش ہو جائیں گے جب تک آپ کی شادی نہیں ہوجاتی رات میں امی کے ساتھ اور دن میں چھپ کر آپ کے ساتھ ضرور ٹائم گزاروں گا ۔۔۔ اور اسی طرح روز اپنی بہن کو بہت مزے دوں گا ۔۔۔ “۔۔ماریہ : ” مزہ آگیا یار تم سوچ بھی نہیں سکتے میںنے کتنا مشکل سے اپنے اوپر قابو کیا ہے میرا تو دل کر رہا تھا کہ ابھی تمہارے کپڑے اتارو اور تم سے چدوا کر اپنا کنواراپن ختم کروں ۔۔۔ پلیز مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر کبھی میں اپنے اوپر کنٹرول کھو بھی دو تو تم مجھے سمجھاؤ گے اور مجھے میرا کنوارہ پن ختم کرنے نہیں دوگے ۔۔۔ اور ایک بار بس میری شادی ہو جائے اور میں سہاگ رات منا لو تومیرا وعدہ ہوگیا کہ ولیمے والے دن ہی میں تم سے چدواؤں گی ۔۔۔ “۔۔دونوں بہن بھائی کچھ دیر تک ہونٹ چومتے رہے ۔۔۔کچھ دیر کے بعد ماریا اٹھی اور کپڑے پہن کر باہر چلی گئی جبکہ آصف نہا کر ٹی وی لاؤنج میں آ کر ناشتے کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔ تبھی اس کی ماں گھر میں داخل ہوئی اور اس نے آتے ہی ان دونوں کو ایک بریکنگ نیوز سنائی ۔۔۔۔۔اور وہ نیوز یہ تھی کہ ابھی ان کے ابو کا فون آیا تھا جنھوں نے بتایا کہ دبئی میں ان کے ساتھ ایک پاکستانی فیملی بھی کام کرتی ہے جن کا ایک بیٹا ہے اور وہ ماریہ کے رشتے کے لئے پاکستان آنا چاہتے ہیں ۔۔۔ اور بات یہ طے ہوئی تھی کہ آصف کے ابو اور اس کے خالو بھی بہت جلد پاکستان آئیں گے اور ماریا کا رشتہ طے کرنے کے بعد اس کی شادی کرا کر ہی جائیں گے ۔۔۔ جب کہ لڑکا شادی کرنے کے بعددبئی واپس چلا جائے گا اور وہاں پر اپنا الگ گھر سیٹ کرنے کے بعد کچھ عرصے تک ماریا کو بھی دبئی بلا لے گا ۔۔۔ آصف کو یہ ساری خبر سن کر کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی کیونکہ اس کے ابو نہ جانے کتنے عرصے کے لیے پاکستان آ رہے تھے اور اس کے خالو بھی اس کا مطلب ہے کہ نہ تو اسے اپنی امی کو چودنے کا موقع ملنا تھا اور نہ ہی خالہ کو ۔۔۔ طاہرہ اپنے بیٹے کی پریشانی کو سمجھ گئی اور کچھ دیر کے بعد اسے اکیلا پا کر اسے سرگوشی سے بولا ۔۔۔۔۔طاہرہ : ” تم اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہو تمہارے ابو کونسا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آرہے ہیں اور ویسے بھی ہمارے پاس ایک ہفتہ تو ہے نہ مزے کرنے کا ۔۔۔اور تمہاری بہن کی شادی ہو جائے گی تو تمہارے ابو بھی واپس چلے جائیں گے اور پھر تو صرف اس گھر میں ہم دونوں اکیلے ہی ہوں گے ۔۔۔ پھر دیکھنا تمہاری ماں کتنے مزے کراتی ہے تمہارے ۔۔۔ پھر تو تم جب چاہے جہاں چاہے جس وقت چاہے اپنی ماں کو پورے گھر میں کسی بھی جگہ چود سکتے ہو ۔۔۔ “۔۔اپنی ماں کی باتیں سن کر اس کی پریشانی کچھ کم ہوئی اور اس کے دل میں کچھ ڈھارس بندھی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اسے اپنے بہن کا کیا ہوا وعدہ یاد آیا کہ شادی کے بعد وہ ولیمے والے دن ہی اس کے ساتھ سیکس کرے گی ۔۔۔ آصف کو لگا کے وہ اپنی بہن کو چودنے کے انتظار میں خوشی وقت گزار لے گا ۔۔۔
گھر گھر کی کہانی
ساتویں قسط
تحریر: پی کے ساقی
:آصف کا آج کا دن بہت خوبصورت جا رہا تھا ۔۔۔ ایک ہی دن
میں اس نے اپنی ماں اور اپنی بہن کے مموں کو چھو لیا تھا ۔۔۔ اب اسے اپنے راستے
میں کوئی رکاوٹ نظر نا آ رہی تھی ۔۔۔ آصف ٹی وی لاؤنج سے اٹھا اور کمرے میں آ گیا
جہاں اسکی ماں ابھی ابھی نہا کر نکلی تھی اور تولیے سے بال سکھانے میں مصروف تھی
۔۔۔ آصف کو کمرے میں آتا دیکھ کر طاہرہ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ گئی ۔۔۔ آصف واش
روم میں جاتے ہوے اپنی ماں کے پاس رکا اور اس کے پاس ہو کر پیار سے اسکا گال چوم
لیا جبکہ آصف نے اپنا ہاتھ اپنی ماں کی کمر کے گرد پھیر کر ہٹا لیا ۔۔۔ طاہرہ نے
پیار سے آصف کو دیکھا اور مسکرا دی ۔۔۔ آصف سیدھا واشروم میں گھس گیا اور نہانے
لگا ۔۔۔۔۔سارا دن طاہرہ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی ۔۔۔ جبکہ ماریہ اپنی ماں کی
خوشی کی وجہ جانتی تھی مگر خاموشی سے بس مزہ لینے میں مصروف تھی ۔۔۔ شام کو کھانا
کھانے کے بعد آصف اور اسکی بڑی بہن ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے جبکہ طاہرہ گھر کے
کام کر رہی تھی ۔۔۔ ماریہ نے سرگوشی کرتے ہوے اپنے بھائی سے کہا ۔۔۔۔ماریہ : ” آج
امی بہت خوش لگ رہی ہیں ۔۔۔ انھیں کوئی مرد جو مل گیا ہے اپنی پیاس بجھانے کے لئے
۔۔۔ آج رات کو بہت اچھا موقع ہے ۔۔۔ جلتی پر تیل ڈال دو ۔۔۔ زیادہ انتظار کیا تو
امی ٹھنڈی پر جائیں گی پھر لگاتے رہنے مٹھ ۔۔۔ آج رات جتنا آگے جا سکتے ہو لازمی
جانا ۔۔۔ “۔۔آصف اپنی بہن کی باتیں سن کر گرم ہونے لگا ۔۔۔ اب وہ خود بے صبری سے
رات کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔ اسےڈر بھی بہت لگ رہا تھا مگر اسکی شہوت اس قدر بڑھ
چکی تھی کہ اس نے آج رات اپنی ماں کو ننگا کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔۔ جبکہ
دوسری طرف طاہرہ کی بے چینی بھی بڑھ چکی تھی ۔۔۔ وہ خود اس انتظار میں تھی کہ کب
رات ہو اور وہ اپنے بیٹھے کے ساتھ سو سکے ۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ اس سے ہمت نہیں ہوگی
خود سے کچھ کرنے کی ۔۔۔ مگر اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنا آپ اپنے بیٹے کو
سونپ دے گی اور وہ جو کرنا چاہے وہ نہیں روکے گی ۔۔۔۔۔جیسے تیسے کر کے رات آئی اور
دونوں ماں بیٹے کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو چکی تھی ۔۔۔ طاہرہ نے اپنی سرخ رنگ کی
نائیٹی نکالی اور نہا کر اور ہلکا سا میک اپ کر تیار ہو کر بیڈ پر سونے کے لئے آئی
جہاں آصف پہلے ہی لیٹا ہوا تھا ۔۔۔ آصف نے اپنی ماں کو دیکھا تو وہ اسے بہت
خوبصورت لگی ۔۔۔ ان دونوں کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ تھی مگر کوئی کچھ نہیں بول رہا
تھا ۔۔۔ آصف بھی اٹھ کر باتھروم میں نہا کر آیا ۔۔۔ بیڈ پر اسکی ماں آنکھیں بند
کیا سونے کی اداکاری کر رہی تھی مگر آج نیند کہاں آنی تھی ۔۔۔ شہوت کی آگ جو ماں
بیٹے کے اندر لگی تھی وہ بجھنے تک سونا نا ممکن تھا ۔۔۔ آصف نے نظر بھر کر اپنی
ماں کو دیکھا اور بلب بند کر کے بیڈ پر آ کر لیٹ گیا ۔۔۔ طاہرہ نے شرم کے مارے آصف
کی طرف اپنی پیٹھ کر رکھی تھی ۔۔۔ جبکہ آصف ڈر کے مارے ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا ۔۔۔
آخر جو مرضی ہو وہ تھیتو اسکی ماں ۔۔۔ وہ کوئی جلد بازی نہیں کرنا چاہتا تھا اور
ذہنی طور پر تیار تھا کہ اگر اسکی ماں نے اسے رکنے کا کہا تو وہ اپنی ماں کی بات
نہیں ٹالے گا ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف طاہرہ شہوت میں ڈوبی اپنے بیٹے کے چھونے کا
انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔آصف آہستہ سے اپنی ماں کے پاس ہوا اور اپنا ہاتھ اسکی کمر
کے گرد گھما کر اسکی پیٹ پر رکھ دیا ۔۔۔ طاہرہ کا جسم بھرا بھرا اور نرم تھا مگر
باہر نکلا ہوا بلکل نا تھا ۔۔۔ آصف نے جیسے ہی اپنی ماں کے پیٹ پر ہاتھ رکھا تو
طاہرہ کو ایک جھٹکا لگا اور اس نے اپنا نچلا ہونٹ دانت میں دبا کر اپنے آپ پر قابو
کیا ۔۔۔ آصف کچھ دیر تک اپنی ماں کے پیٹ پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرتا رہا جس سے طاہرہکے
جسم میں اور اسکی ٹانگوں کے بیچ آگ لگ جل رہی تھی ۔۔۔ آصف نے آہستہ سے اپنی ماں کے
قریب ہو کر اسکی گردن کو چوما جو وہ جان چکا تھا کہ اسکی ماں کی کمزوری ہے اور بار
بار چومتے ہوے اس نے اپنا جسم اپنی ماں کے جسم کے ساتھ جوڑ لیا ۔۔۔ آصف کا لن اکڑ
کر سخت ہو چکا تھا جو کہ سیدھا اسکی ماں کی گانڈ کی لکیر میں گھسنے لگا ۔۔۔ طاہرہ
اپنے بیٹے کا لن اپنی گانڈ کی لکیر میں محسوس کر کے مزید تڑپنے لگی مگر اس میں ہمت
ہی نہیں جمع ہو رہی تھی کہ وہ کھل کر اپنے بیٹے کو اپنے جذبات دکھا سکے ۔۔۔۔۔آصف
جانتا تھا اسکی ماں جاگ رہی ہے مگر پھر بھی اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ کھل کر
اپنیماں کو چود سکے ۔۔۔ اس لئے وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا ۔۔۔ آصف نے اپنی
ماں کی گردن چومتے ہوے اپنا ہاتھ اسکے پیٹ سے مموں پر لے گیا اور اسکے ایک ممے پر
ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔ آصف نے اپنے ہاتھ کو حرکت نا دی اور اپنی ماں کے رد عمل کا
انتظار کیا ۔۔۔ جب طاہرہ نے اسے نا روکا تو آصف کی ہمت بڑھی اور اس نے اپنی ماں
نائیٹی کے اوپر سے آہستہآہستہ اپنی ماں کے ممے کو دبانا شروع کر دیا جبکہ اسکا لن
کپڑوں کے اوپر سے ہی اسکی ماں کی گانڈ میں رگڑ کھا رہا تھا ۔۔۔ طاہرہ اب نشے میں ڈوب
چکی تھی ۔۔۔ اسکے بیٹے کے ہونٹ اسکی گردن پر حرکت کر رہے تھے جبکہ اپنے ممے پر
اپنے بیٹے کا ہاتھ اور اپنی گانڈ کی لکیر میں اسکا لن محسوس کرکے طاہرہ کی شہوت
عروج پر تھی اور اسکی پھدی گیلی ہونا شروع ہو چکی تھی ۔۔۔ نا جانے کتنے عرصے بعد
کسی مرد نے اسے چھوا تھا وہ بھی اس قدر محبت اور شدت کے ساتھ کہ طاہرہ چدوانے کے
لئے بے تاب ہونے لگی ۔۔۔۔۔طاہرہ اپنی پوری زندگی اپنے شوہر کے علاوہ کبھی کسی اور
مرد کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔ مگر اسکا شوہر ہر سال کچھ دن کے لئے ہی
گھر آتا اور ان کچھ دنوں کی چدائی سے ہی اسے پورا سال گزارنا ہوتا تھا ۔۔۔ مگر اس
بار دوسرا سال چل رہا تھا اسکا شوہر گھر نا آیا تھا ۔۔۔ سال میں صرف چند دن کی
چدائی سے اسکا کبھی دل نہیں بھرا تھا ۔۔۔ مگر جب سے اس نے اپنے بیٹے کا لن دیکھا
اسکے لئے برداشت کرنا مشکل ہوگیا ۔۔۔ اور اپنے سگے بیٹے کی طرف کشش کی ایک وجہ
یہبھی تھی کہ اسکے شوہر نے کبھی محبت کا اظہار نا کیا تھا اور نا ہی کبھی اسے محبت
ہوئی تھی ۔۔۔ بس گزارا چل رہا تھا جیسے کہ ہمارے ملک کے بیشتر گھروں میں چلتا ہے
۔۔۔ مگر جس قدر محبت اسے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں اپنے لئے نظر آئی اس کے اندر ایک
ایسا احساس پیدا ہوا جو کبھی اس نے سوچا بھی نا تھا ۔۔۔ طاہرہ کو اپنے بیٹے سے
محبت ہو گئی تھی ۔۔۔ وہ محبت جو ایک معشوقہ اپنے عاشق سے کرتی ہے ۔۔۔ اور اکثر ہی
جس چیز کو معاشرے میں بہت غلط سمجھا جاتا ہے اسی سے بغاوت کرنے میں لذت بھی زیادہ
آتی ہے ۔۔۔ طاہرہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اسکی گردن چومتا ‘ اسکے مموں کے ساتھ
کھیلتا اور اسکی اسکی گانڈ میں لن پھیرتا ہوا مرد اور کوئی نہیں بلکہ اسکا سگا
بیٹا تھا ۔۔۔ مگر نا جانے کیوں جیسے ہی یہ خیال اسکے ذہن میں آتا کہ وہ ایک ماں ہو
کر اپنے بیٹے سے چدوانے کے لئے بے تاب ہو رہی ہے اسکی شہوت مزید بڑھ جاتی اور اسکے
لئے صبر کرنا ناممکن ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔آصف اپنی ماں کے مموں کے ساتھ کھیلتا
ہوا اپنا ہاتھ نیچے کی طرف لایا اور اپنی ماں کی نائیٹی پکڑ کر اوپر کھینچنا چاہا
مگر ناکام رہا ۔۔۔ تبھی طاہرہ نےاپنا جسم تھوڑا سا اوپر اٹھایا اور آصف سمجھ گیا
اسے کیا کرنا ہے ۔۔۔ اس نے نائیٹی کو پکڑا اور اوپر کھینچ کر اتار دیا … طاہرہ نے
برا نہیں پہنا تھا اور اب وہ اوپر سے بلکل ننگی ہو چکی تھی ۔۔۔ آصف نے اپنی ماں کی
نائٹی اتاری اور جیسے ہی دوبارہ مموں پر ہاتھ رکھا تو اسکا ہاتھ اپنی ماں کے ننگے
مموں پر لگا ۔۔۔ تبرا اے جسم نے بھی جھرجھریسی لی ۔۔۔ اسکا مما اسکے بیٹے کے ہاتھ
میں تھا جسے وہ بہت پیار سے اپنے ہاتھ میں پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔۔طاہرہ کے
صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا ۔۔۔ اب اسکے لئے برداشت کرنا ناممکن تھا ۔۔۔ اس نے
سوچا جس رفتار سے میرا بیٹا جا رہا ہے یہ تو اپنی ماں کو تڑپا تڑپا کے مار دے گا
۔۔۔ طاہرہ نے کروٹ لی اور سیدھا لیٹ گئی ۔۔۔ آصف نے اپنی ماں کے ایکممے کو ہاتھ
میں لیا اور دوسرے ممے کو منہ میں لینے کے لئے آگے بڑھا ۔۔۔ طاہرہ کے ذہن میں ایک
دم خیال آیا کہ آخری بار اسکے مموں پر اگر کسی کا منہ لگا تھا تو وہ آصف ہی تھا جب
وہ اسکو دودھ پلاتی تھی ۔۔۔ کیوں کہ اسکے شوہر نے کبھی اسکے ممے نہیں چوسے تھے صرف
ہاتھ سے ہی دباتے تھے ۔۔۔ طاہرہ کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اورآصف اپنی ماں کا مما
منہ میں لے کر بہت پیار سے اسکا نپل چوس رہا تھا ۔۔۔ طاہرہ نے کبھی سوچا ہی نہیں
تھا کے جس بچے کو وہ اپنا دودھ پلا رہی ہے یہی ایک دن بڑا ہو کر اسکے ممے چوس رہا
ہوگا اور وہ اسی کا لن اپنی پھدی میں لینے کے لئے ترسے گی ۔۔۔۔۔طاہرہ نے حقیقت کو
تسلیم کرتے ہوئے اپنا بازو گھما کر اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا ۔۔۔ آصف اپنی ماں
کے گلے لگاتے ہی مزید شدت کے ساتھ اپنی ماں کا مما چوسنے لگا ۔۔۔ طاہرہ نے اپنے
بیٹے کو گلے لگا کر اسکا دوسرا ہاتھ اپنے ممے سے اٹھایا اور سیدھا نیچے لے جا کر
اپنی نائیٹی کی ٹراؤزر کے اندر گھسا کر اپنی پھدی پر رکھ کر دبا دیا اور امید کرنے
لگی کہ شاید اسکے بیٹے کو علم ہو کہ اسے کرنا کیا ہے ۔۔۔ آصف جو کے اپنی خالہ کو
چودنے کے بعد کافی کچھ سیکھ چکا تھا سمجھ گیا اسے کیا کرنا ہے ۔۔۔ اسے اپنی ماں کی
پھدی بہت گیلی لگی اور اسے احساس ہوا کہ اسکی ماں بھی اتنا ہی تڑپ رہی ہے جتنا کہ
وہ ۔۔۔۔۔آصف اپنی ماں کے ممے چوستے ہوے اسکی پھدی رگڑ رہا تھا اور طاہرہ اپنے بیٹے
کو گلے لگائے مستی میں تڑپ رہی تھی ۔۔۔ تبھی طاہرہ کو اپنے بیٹے کے لن کا خیال آیا
۔۔۔ وہ لن جسکو دیکھ کر ہی وہ اپنے بیٹے کی شہوت میں گرفتار ہوئی تھی ۔۔۔ اورجب سے
دیکھا تھا وہ اسے ہاتھ میں لینا چاہتی تھی اور مانپنا چاہتی تھی ۔۔۔ طاہرہ نے کروٹ
لے کر آصف کی طرف منہ کیا اور نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جا کر اپنے بیٹے کی ٹراؤزر
میں گھسایا اور اسکا لن پکڑ لیا ۔۔۔ اس سے پہلے تک طاہرہ نے صرف اپنے خاوند کا لن
ہی چھوا تھا مگر اسکے بیٹے کا لن اسکے باپ سے کافی بڑا اور موٹا لگ رہا تھا
۔۔۔شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ عمر کی وجہ سے اسکےخاوند کے لن میں وہ سختی نہیں رہی
تھی ۔۔۔ طاہرہاپنے بیٹے کا لن ہاتھ میں لے کر مست ہو چکی تھیاور اسکی پھدی پہلے سے
زیادہ گیلی ہونے لگی جسے آصف نے بھی محسوس کر لیا ۔۔۔ آصف نے اپنیماں کا مما منہ
سے نکالا اور اٹھ کر اسکی ٹانگوں کے پاس بیٹھ کر اپنی ماں کا ٹراؤزر کھینچا ۔۔۔
طاہرہ نے اپنی گانڈ اٹھا کر ساتھ دیا اور آصف اپنی ماںکو مکمل طور پر ننگا کر چکا
تھا ۔۔۔ آصف سیدھاٹانگوں کے درمیان بیٹھا اور اپنی ماں کی ٹانگیں اوپراٹھا دیں ۔۔۔
طاہرہ اپنے بیٹے کے لئے ٹانگیں اٹھا چکی تھی اور اب وہ اسکے اگلے قدم کا انتظار کر
رہی تھی ۔۔۔ تبھی اسے اپنی پھدی پر اپنے بیٹے کی زبان محسوس ہوئی جو بہت شدت سے
اپنی ماں کی پھدی چاٹنے لگا ۔۔۔۔۔اس سے پہلے تک طاہرہ نے صرف سنا تھا کہ کچھ میاں
بیوی منہ کا استعمال کرتے ہیں مگر اس نے کبھی اپنے خاوند کا لن منہ میں لیا نہ ہی
اسکے خاوندنے کبھی اسکی پھدی چاٹی تھی ۔۔۔ پہلی بار کوئی اسکی پھدی چاٹ رہا تھا
اور طاہرہ نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ اس قدر مزہ بھی آ سکتا ہے ۔۔۔ آصف نے اپنی
ماں کی فدی چاٹتے ہوے اسکی پھدی میں انگلی بھی ڈال دی ۔۔۔ طاہرہ اب مکمل طور پر
شہوت سے تڑپ رہی تھی اور اگلےکچھ منٹوں میں ہی اسکا پورا جسم کانپنے لگا اور طاہرہ
فارغ ہو چکی تھی ۔۔۔ اتنا مزہ اسے زندگی میں کبھی نہیں آیا تھا اور نا ہی کبھی وہ
اتنا شدت سے فارغ ہوئی تھی ۔۔۔ آصف نے اپنی انگلی باہر نکال کر اپنی انگلی چاٹ کر
اپنی ماں کی پھدی کا رس چکھا ۔۔۔ طاہرہ نے آصف کا سر پکڑا اور اپنے اوپر کھینچ لیا
اور اسکا چہرہ اپنے چہرے کے پاس لا کر اپنے ہونٹ آصف کے ہونٹوں سے ملا دئے ۔۔۔ یہ
پہلی بار تھا کہ ان دونوں کے ہونٹ آپس میں ملے ۔۔۔یا یہ کہا جائے کہ دوسری بار ۔۔۔
کیوں کہ پہلی بار آصف کے ہونٹ اسکی ماں کی پھدی کے ہونٹوں سےمل چکے تھے ۔۔۔ وہ
دونوں شدت کے ساتھ ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چومنے لگے ۔۔۔ کچھ ہی لمحوںبعد طاہرہ نے
آصف کو اپنے اوپر سے ہٹایا اور ایک دم بیڈ سے نیچے اتری ۔۔۔ جبکہ آصف جسکا لن اکڑ
کر پھٹنے والا ہو رہا تھا بے چین ہوگیا ۔۔۔۔۔مگر طاہرہ بیڈ سے اتر کر لائٹ آن کر
چکی تھی اور اب پورے کمرے میں روشنی تھی جہاں بیڈ پر آصف اپنی ٹراؤزر میں تنبو
بنائے لیٹا تھا اور اسکی ماں اسکے سامنے مکمل ننگی تھی ۔۔۔ وہ دونوں پہلی بار ایک
ساتھ ایک دوسرے کو مکمل ننگا دیکھ رہے تھے ۔۔۔ وہ دونوں ہی ایک دم شرما کر مسکرانے
لگے ۔۔۔ آصف کی دل کی ساری خواہشیں پوری ہو رہیتھیں ۔۔۔ اسکی ماں ننگی ہو کر چلتی
ہوئی اسکی طرف آ رہی تھی ۔۔۔ آصف کو یقین ہوگیا کہ اسکی ماں کے سامنے واقعی ساری
خوبصورتی ہی قربان ہونے کو تیار تھی ۔۔۔ طاہرہ کے جسم پر بالوں کا نام و نشان نا
تھا ۔۔۔ اور اسکا جسم بہت ہی خوبصورت ‘ سیکسی اور گورا تھا ۔۔۔ طاہرہ چلتی ہوئی
بیڈ کے پاس آئی اور آصف کے ٹراؤزر کو پکڑ کر اتر دیا ۔۔۔ اسکی نظروں کے سامنے اسکے
بیٹے کا لن لہرانے لگا ۔۔۔ طاہرہ سے رہا نا گیا اور اس نے آصف کے لن کو منہ میں لے
کر چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔ آصف کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اسکی ماں اسکا لن چوس
رہی ہے ۔۔۔ آصف نے اپنی شرٹ اتار دی اور مکمل ننگا ہوگیا ۔۔۔۔۔کچھ دیر آصف کے لن
کو چوپا لگانے کے بعد طاہرہ نے اچھی طرح تھوک سے گیلا کر دیا ۔۔۔ طاہرہ اوپر اٹھی
اور آصف کے اوپر آ گئی ۔۔۔ آصف اپنی ماں کے ممے اتنا قریب سے دیکھ کر پاگل ہونے
لگا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی ماں کے مموں کو پکڑ لیا ۔۔۔ جبکہ طاہرہ اپنے
بیٹے کے لن کو پکڑ کر اسکے لن کی ٹوپی اپنی پھدی پر رگڑ رہی تھی ۔۔۔ طاہرہ نے اپنے
بیٹے کے لن کو اپنی پھدی پر سیٹ کیا اور آہستہ سے بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔ طاہرہ اپنے
بیٹے کا لن اپنی پھدی میں لے چکی تھی ۔۔۔ وہ دونوں اس لائن کو پھلانگ چکے تھے جہاں
سے واپسی نا ممکن تھی ۔۔۔۔۔آصف کا لن اسکی ماں کی پھدی میں مکمل طور پر غائب ہو
چکا تھا ۔۔۔ اور دونوں ماں بیٹا مزے کی گہرائیوں میں اتر چکے تھے ۔۔۔ طاہرہ اوپر
کو اٹھی اور ایک بار پھر اپنے بیٹے کے لن پر بیٹھتی گئی۔۔۔ جتنا اس نے سوچا تھا اس
کہیں زیادہ مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ آہستہ آہستہ طاہرہ اپنی رفتار بڑھاتی گئی اور ماں
بیٹے کی چدائی کی ابتدا ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔دونوں نے ابھی تک ایک دوسرے سے ایک لفظ تک
نا بولا تھا ۔۔۔ مگر وہ ایک دوسرے کے جذبات سے آشنا تھے ۔۔۔ طاہرہ اوپر نیچے ہو کر
آصف کا لن اندر باہرکر رہی تھی جبکہ آصف بھی ہر جھٹکے کے ساتھ اپنی ماں کو نیچے سے
جھٹکا مارتا جس سے طاہرہ کے منہ سے سسکاری نکل جاتی ۔۔۔ کمرے میں تھپ تھپ کی آواز
تھی یا پھر طاہرہ کی سسکاریاں ۔۔۔ کچھ دیر کی چدائی کے بعد طاہرہ رکی اور بولی
۔۔۔۔۔طاہرہ : ” بیٹا ! اوپر آؤ ۔۔۔ “۔۔یہ پہلی بات تھی جو آج کی رات اس کمرے میں
کیگئی تھی ۔۔۔ طاہرہ نے اوپر اٹھ کر اپنے بیٹے کا لن اپنی پھدی سے نکالا اور اسکے
ساتھ لیٹ کر اپنی ٹانگیں اٹھا لیں ۔۔۔ آصف اٹھ کر اپنی ماں کی ٹانگوں کے درمیان
آیا اور اپنا لن ایک ہی جھٹکے میں اپنی ماں کی پھدی میں گھسا دیا ۔۔۔ طاہرہ کے منہ
سے سسکاری نکلی اور اسکے ساتھ ہی ایک بار پھر انکی چدائی شروع ہو گئی ۔۔۔ ہر جھٹکے
کے ساتھ طاہرہ کے ممے اچھلتے اور پھر اپنی جگہ پر آ جاتے۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں طاہرہ
کا جسم ایک بار پھر کانپنے لگا اور اس نے خاموشی توڑی ۔۔۔۔۔طاہرہ : ” آہ ۔۔۔ آہ
۔۔۔ آہ ۔۔۔ بیٹا اور تیز ۔۔۔ اور تیز ۔۔۔ آہ ۔۔۔ آہ ۔۔۔ رکنا مت ۔۔۔ رکنا مت ۔۔۔
آہ ۔۔۔ آہ ۔۔۔ اور تیز ۔۔۔ اور تیز ۔۔۔ آہ ۔۔۔ آ آ آ ہ ہ ہ ۔۔۔ آ آ آ آ آ آ ہ ہ ہ
ہ ہ ہ ۔۔۔ “۔۔اور اسکے ساتھ ہی طاہرہ ایک بار پھر فارغ ہو چکیتھی ۔۔۔ اسکی پھدی سے
پانی نکل کر باہر آ رہاتھا ۔۔۔ آصف کا جسم بھی جھٹکے کھانے لگا اور اس نی اپنا لن
باہر نکالا اور اپنی منی اپنی ماں کے پیٹ پر نکالنا شروع کر دی ۔۔۔